Sunday 24 May 2015

کفار کو شکستِ فاش


تھوڑی دیر بعد مشرکین کے لشکر میں ناکامی اور اضطراب کے آثار نمودار ہوگئے ، ان کی صفیں مسلمانوں کے سخت اور تابڑ توڑ حملوں سے درہم برہم ہونے لگیں اور معرکہ اپنے انجام کے قریب جاپہنچا۔ پھر مشرکین کے جھتے بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے مارتے کاٹتے اور پکڑ تے باندھتے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ ان کو بھرپور شکست ہوگئی۔
لیکن طاغوت اکبر ابو جہل نے جب اپنی صفوں میں اضطراب کی ابتدائی علامتیں دیکھیں تو چاہا کہ اس سیلاب کے سامنے ڈٹ جائے۔ چنانچہ وہ اپنے لشکر کو للکار تا ہوا اکڑ اور تکبر کے ساتھ کہتا جارہا تھا کہ سراقہ کی کنارہ کشی سے تمہیں پست ہمت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس نے محمد (ﷺ ) کے ساتھ پہلے سے ساز باز کر رکھی تھی۔ تم پر عتبہ ، شیبہ اور ولید کے قتل کا ہول بھی سوارنہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان لوگوں نے جلد بازی سے کام لیا تھا۔ لات و عزی کی قسم! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ انہیں رسیوں میں جکڑ لیں۔ دیکھو! تمہارا کوئی آدمی ان کے کسی آدمی کو قتل نہ کرے بلکہ انہیں پکڑو اور گرفتار کرو تاکہ ہم ان کی بُری حرکت کا انہیں مزہ چکھائیں۔
لیکن اسے اس غرور کی حقیقت کا بہت جلد پتہ لگ گیا کیونکہ چند ہی لمحے بعد مسلمانوں کے جوابی حملے کی تندی کے سامنے مشرکین کی صفیں پھٹنا شروع ہوگئیں ، البتہ ابوجہل اب بھی اپنے گر د مشرکین کاا یک غول لیے جماہوا تھا۔ اس غول نے ابوجہل کے چاروں طرف تلواروں کی باڑھ اور نیزوں کا جنگل قائم کررکھا تھا ، لیکن اسلامی ہجوم کی آندھی نے اس باڑھ کو بھی بکھیر دیا اور اس جنگل کو بھی اکھیڑ دیا۔ اس کے بعد یہ طاغوتِ اکبر دکھا ئی پڑا۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ وہ ایک گھوڑے پر چکر کاٹ رہا ہے۔ ادھر اس کی موت دوانصاری جوانوں کے ہاتھوں اس کا خون چوسنے کی منتظر تھی۔
حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ میں جنگ بدر کے روز صف کے اندر تھا کہ اچانک مڑا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ دائیں بائیں دو نوعمرجوان ہیں۔ گویا ان کی موجودگی سے میں حیران ہو گیا کہ اتنے میں ایک نے اپنے ساتھی سے چھپا کر مجھ سے کہا :''چچاجان ! مجھے ابوجہل کو دکھلادیجیے۔'' میں نے کہا :بھتیجے !تم اسے کیا کروگے ؟ اس نے کہا:''مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کو گالی دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا وجود اس کے وجود سے الگ نہ ہوگا یہاں تک کہ ہم میں جس کی موت پہلے لکھی ہے وہ مر جائے۔'' وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس پر تعجب ہوا۔ اتنے میں دوسرے شخص نے مجھے اشارے سے متوجہ کرکے یہی بات کہی۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے چند ہی لمحوں بعد دیکھا کہ ابو جہل لوگوں کے درمیان چکر کاٹ رہا ہے۔ میں نے کہا :''ارے دیکھتے نہیں ! یہ رہا تم دونوں کا شکار جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے۔'' ان کا بیان ہے کہ یہ سنتے ہی وہ دونوں اپنی تلواریں لیے جھپٹ پڑے اور اسے مار کر قتل کردیا۔ پھر پلٹ کر رسول اللہﷺ کے پاس آئے ، آپﷺ نے فرمایا : تم میں سے کس نے قتل کیا ہے ؟ دونوں نے کہا : میں نے قتل کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:اپنی اپنی تلواریں پوچھ چکے ہو ؟ بولے نہیں۔ آپﷺ نے دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا : تم دونوں نے قتل کیا ہے۔ البتہ ابو جہل کا سامان معاذبن عَمرو بن جموح کو دیا۔ دونوں حملہ آوروں کا نام معاذبن عَمر و بن جموح اور معاذ بن عفراء ہے۔ (صحیح بخاری ۱/۴۴۴ ، ۲/۵۶۸ مشکوٰۃ ۲/۳۵۲۔)نیز ابو جہل کا سامان صرف ایک ہی آدمی کو اس لیے دیا گیا کہ بعد میں حضرت معاذ (معوذ) بن عفراء اسی جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔ البتہ ابو جہل کی تلوار حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو دی گئی کیونکہ ان ہی نے اس (ابو جہل ) کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ (دیکھئے :سنن ابی داؤد باب من اجاز علی جریح الخ ۲/۳۷۳ )
ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ معاذ بن عمرو بن جموح نے بتلایا کہ میں نے مشرکین کو سنا وہ ابو جہل کے بارے میں جو گھنے درختوں جیسی - نیزوں اور تلواروں کی - باڑھ میں تھا کہہ رہے تھے: ابو الحکم تک کسی کی رسائی نہ ہو۔ معاذؓ بن عمرو کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ بات سنی تو اسے اپنے نشانے پر لے لیا اور اس کی سمت جمارہا۔ جب گنجائش ملی تومیں نے حملہ کر دیا اور ایسی ضرب لگائی کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے اڑ گیا۔ واللہ! جس وقت یہ پاؤں اڑا ہے تو میں اس کی تشبیہ صرف اس گٹھلی سے دے سکتا ہوں جو موسل کی مار پڑنے سے جھٹک کر اڑ جائے۔ ان کابیان ہے کہ ادھر میں نے ابو جہل کو مارا اور ادھر اس کے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر تلوار چلا ئی جس سے میرا ہاتھ کٹ کر میرے بازو کے چمڑ ے سے لٹک گیا اور لڑائی میں مخل ہونے لگا۔ میں اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے سارا دن لڑا ، لیکن جب وہ مجھے اذیت پہنچانے لگا تو میں نے اس پر اپنا پاؤں رکھا اور اسے زور سے کھینچ کر الگ کردیا 1 اس کے بعد ابوجہل کے پاس معوذؓ بن عفراء پہنچے۔ وہ زخمی تھا۔ انہوں نے اسے ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا صرف سانس آتی جاتی رہی۔ اس کے بعد معوذ بن عفراء بھی لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
جب معرکہ ختم ہوگیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا :''کون ہے جو دیکھے کہ ابو جہل کا انجام کیاہو ا۔'' اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں بکھر گئے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اسے اس حالت میں پایا کہ ابھی سانس آجارہی تھی۔ انہوں نے اس کی گردن پر پاؤں رکھا اور سر کاٹنے کے لیے ڈاڑھی پکڑی اور فرمایا : او اللہ کے دشمن ! آخر اللہ نے تجھے رسوا کیا نا ؟ اس نے کہا : ''مجھے کاہے کو رسوا کیا ؟ کیا جس شخص کوتم لوگوں نے قتل کیا ہے اس سے بھی بلند پایہ کوئی آدمی ہے''؟''یا جس کو تم لوگوں نے قتل کیا ہے اس سے بھی اوپر کوئی آدمی ہے ؟'' پھر بو لا : ''کاش ! مجھے کسانوں کے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔'' اس کے بعد کہنے لگا : ''مجھے بتاؤ آج فتح کس کی ہوئی ؟ '' حضرت عبد ا للہ بن مسعود نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول کی۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودسے - جو اس کی گردن پر پاؤں رکھ چکے تھے - کہنے لگا : او بکری کے چرواہے ! تو بڑی اونچی اور مشکل جگہ پر چڑھ گیا۔ واضح رہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ مکے میں بکریاں چرایا کرتے تھے۔
اس گفتگو کے بعد عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر کاٹ لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں لاکر حاضر کر تے ہوئے عرض کیا :''یارسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ !یہ رہا اللہ کے دشمن ابوجہل کا سر۔'' آپﷺ نے تین بار فرمایا: ''واقعی۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔'' اس کے بعد فرمایا :
((اللہ أکبر، الحمد للہ الذی صدق وعدہ ونصر عبدہ وہزم الأحزاب وحدہ۔))
''اللہ اکبر ، تمام حمد اللہ کے لیے ہے جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھا یا ، اپنے بندے کی مدد فرمائی ، اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔''
پھر فرمایا : چلو مجھے اس کی لاش دکھاؤ۔ ہم نے آپﷺ کو لے جاکر لاش دکھائی۔ آپﷺ نے فرمایا : یہ اس امت کا فرعون ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔