Thursday, 7 May 2015

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حجرت


مذکورہ قسم کے اجتماع کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ اس میں انتہائی رازداری برتی جاتی ہے اور ظاہری سطح پر کوئی ایسی حرکت سامنے نہیں آنے دی جاتی جو روز مرہ کے معمول کے خلاف اور عام عادات سے ہٹ کر ہو تاکہ کوئی شخص خطرے کی بوسونگھ نہ سکے اور کسی کے دل میں خیال نہ آئے کہ یہ خاموشی کسی خطرے کا پیش خیمہ ہے۔ یہ قریش کا مکر یا داؤ پیچ تھا۔ مگر یہ مکر انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا تھا۔ اس لیے اللہ نے انہیں ایسے ڈھنگ سے ناکام کیا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، چنانچہ جب نبیﷺ کے قتل کی مجرمانہ قرار داد طے ہوچکی تو حضرت جبریل علیہ السلام اپنے رب تبارک وتعالیٰ کی وحی لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو یہاں سے روانگی کی اجازت دے دی ہے اور یہ کہتے ہوئے ہجرت کے وقت کی تَعِیین بھی فرمادی کہ آپﷺ یہ رات اپنے اس بستر پر نہ گزاریں جس پر اب تک گزارا کرتے تھے۔( ابن ہشام ۱/۴۸۲ ، زاد المعاد ۲/۵۲)
اس اطلاع کے بعد نبیﷺ ٹھیک دوپہر کے وقت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے تاکہ ان کے ساتھ ہجرت کے سارے پروگرام اور مرحلے طے فرمالیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ٹھیک دوپہر کے وقت ہم لوگ ابوبکرؓ کے مکان میں بیٹھے تھے کہ کسی کہنے والے نے ابوبکرؓ سے کہا: یہ رسول اللہﷺ سرڈھان کے تشریف لارہے ہیں۔ یہ ایسا وقت تھا جس میں آپﷺ تشریف نہیں لایا کرتے تھے۔ ابوبکرؓ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپﷺ اس وقت کسی اہم معاملے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ اجازت طلب کی۔ آپﷺ کو اجازت دی گئی اور آپﷺ اندر داخل ہوئے۔ پھر ابو بکرؓ سے فرمایا : تمہارے پاس جو لوگ ہیں انہیں ہٹادو۔ ابوبکرؓ نے کہا : بس آپ کی اہلِ خانہ ہی ہیں۔ آپ پر میرے باپ فدا ہوں اے اللہ کے رسول! (ﷺ ) آپ نے فرمایا : اچھا تو مجھے روانگی کی اجازت مل چکی ہے۔ ابوبکر ؓ نے کہا : ساتھ ......اے اللہ کے رسول ! میرے باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں ، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہاں۔( صحیح بخاری باب ہجرۃ النبیﷺ ۱/۵۵۳، اور ہجرت کے لیے دیکھئے : بخاری کی حدیث نمبر ۴۶۷، ۲۱۳۸، ۲۲۶۳، ۲۲۶۴، ۲۲۹۷، ۳۹۰۵، ۴۰۹۳، ۵۸۰۷،۶۰۷۹)
اس کے بعد ہجرت کا پروگرام طے کرکے رسول اللہﷺ اپنے گھر تشریف لائے اور رات کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔

بیعت عقبہ ثانیہ ِذی الحجہ ۱۳ نبوت میں ہوئی، اس کے بعد دو، تین ماہ کی مدت میں تمام مسلمان مکہ سے ہجرت کر گئے اب صرف تین افراد یعنی آنحضر ت صلی اللہ علیہ و سلم ، حضرت ابو بکرؓ اورحضرت ،علیؓ مکہ میں باقی رہ گئے ، حضرت ابو بکرؓنے ہجرت کا ارادہ ظاہر کیا تو حضورﷺ نے فرمایا : جلدی نہ کرو ، شاید اللہ تمہیں ایک ساتھی عطا فرمائے ، حضرت ابوبکرؓ کو امید ہو گئی وہ ساتھی حضورﷺ خود ہیں ، چنانچہ انھوں نے دو اچھی نسل کی اونٹنیاں خریدیں اور انھیں سفر کے لئے تیار کیا، حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبرئیل ؑ سے پوچھا: میرے ساتھ سفر ہجرت میں کون ہوگا؟ انہوں نے بتایا : ابو قحافہ کا بیٹا ابو بکرؓ ، حضور ﷺ نے بوقتِ ہجرت حضرت علیؓ کو پیچھے چھوڑا محض اس لئے کہ اہل مکہ کی جو امانتیں ان کے پاس تھیں وہ لوٹا دیں اور پھر ہجرت کریں، امانتیں اُسی وقت لوٹا نے سے راز فاش ہونے کا اندیشہ تھا۔
حضرت جبرئیل ؑنے قریش کے ارادوں سے حضورﷺ کو با خبر کرتے ہوئے کہاکہ آج رات آپﷺ اپنے بستر پر نہ سوئیں ، یہ سن کر حضور اکرمﷺ عین دوپہر کے وقت چہرے پر کپڑا ڈالے ہوئے حضرت ابو بکرؓ کے گھرتشریف لے گئے اور فرمایا : کچھ مشورہ کرناہے سب کو ہٹا دو ، حضرت ابو بکرؓ نے کہاکہ صرف میری بیٹیاں ہیں(حضرت عائشہ ؓ سے حضور ﷺ کی شادی ہو چکی تھی) آپﷺ نے فرمایا : مجھ کو ہجرت کی اجازت ہو گئی ہے، عرض کیا ،یا رسول اللہ ! میرے بارے میں کیا حکم ہے ؟ فرمایا : تم ساتھ چلو گے، عرض کیا : میں نے اس غرض کے لئے دو اونٹنیاں تیاررکھی ہیں، ان میں سے جو پسند ہو وہ حاضر ہے، فرمایا: اچھا مگر قیمت کے ساتھ، واقدی نے اس اونٹنی کانام قصواء اور ابنِ اسحاق نے جدعآ لکھا ہے، حضرت ابو بکرؓ نے پہلے ہی سے ایک راستوں کے ماہر شخص عبداللہ بن اُریقط کا اجرت پر انتظام کر رکھا تھا جو بنی الدّیل سے تعلق رکھتا تھا، اگر چہ مشرک تھا مگر قابل اعتماد تھا، اونٹنیاں اس کے حوالے کیں اورکہا کہ جس جگہ بلایا جائے پہنچ جانا،اس کے بعد حضورﷺ اپنے مکان تشریف لائے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔