Thursday, 7 May 2015

قبا میں تشریف آوری


دوشنبہ ۸؍ ربیع الاول ۱۴ نبوت ...یعنی ۱ ہجری مطابق ۲۳؍ ستمبر ۶۲۲ ء کو رسول اللہﷺ قباء میں وارد ہوئے۔ رحمۃ للعالمین۱/۱۰۲۔ اس دن نبیﷺ کی عمر بغیر کسی کمی بیشی کے ٹھیک ترپن سال ہوئی تھی اور جو لوگ آپﷺ کی نبوت کا آغاز ۹ / ربیع الاول ۴۱ عام الفیل سے مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق آپﷺ کی نبوت پر ٹھیک تیرہ سال پورے ہوئے تھے۔ البتہ جو لوگ آپﷺ کی نبوت کا آغاز رمضان ۴۱ عام الفیل سے مانتے ہیں۔ ان کے قول کے مطابق بارہ سال پانچ مہینہ اٹھارہ دن یا بائیس دن ہوئے تھے۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ مسلمانانِ مدینہ نے مکہ سے رسول اللہﷺ کی روانگی کی خبرسن لی تھی۔ اس لیے لوگ روزانہ صبح ہی صبح حرہ کی طرف نکل جاتے تھے اور آپﷺ کی راہ تکتے رہتے۔ جب دوپہر کو دھوپ سخت ہوجاتی تو واپس پلٹ آتے۔ ایک روز طویل انتظار کے بعد واپس پلٹ کر لوگ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ چکے تھے کہ ایک یہودی اپنے کسی ٹیلے پر کچھ دیکھنے کے لیے چڑھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے رفقاء سفید کپڑوں میں ملبوس -جن سے چاندنی چھٹک رہی تھی - تشریف لارہے ہیں۔ اس نے بیخود ہوکر نہایت بلند آواز سے کہا : عرب کے لوگو! یہ رہا تمہارا نصیب ، جس کا تم انتظار کررہے تھے۔ یہ سنتے ہی مسلمان ہتھیار وں کی طرف دوڑ پڑے۔ (صحیح بخاری ۱/۵۵۵)(اور ہتھیار سے سج دھج کر استقبال کے لیے امنڈ پڑے ) اور حرہ کی پشت پر رسول اللہﷺ کا استقبال کیا۔
ابن قیم کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی بنی عمر و بن عوف (ساکنان ِ قباء ) میں شور بلند ہوا اور تکبیر سنی گئی۔ مسلمان آپﷺ کی آمد کی خوشی میں نعرہ ٔ تکبیر بلند کرتے ہوئے استقبال کے لیے نکل پڑے۔ پھر آپﷺ سے مل کر تحیۂ نبوت پیش کیا اور گرد وپیش پر وانوں کی طرح جمع ہوگئے۔ اس وقت آپﷺ پر سکینت چھائی ہوئی تھی اور یہ وحی نازل ہورہی تھی :
فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِ‌يلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ‌ (۶۶: ۴)
''اللہ آپ کا مولیٰ ہے اور جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد فرشتے آپ کے مددگارہیں۔''
حضرت عروہ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ لوگوں سے ملنے کے بعد آپ ان کے ساتھ داہنے جانب مڑے، اور بنی عمرو بن عوف میں تشریف لائے۔ یہ دوشنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ ابوبکرؓ آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور رسول اللہﷺ چپ چاپ بیٹھے تھے۔ انصار کے جولوگ آتے تھے، جنہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا نہ تھا وہ سیدھے ابوبکرؓ کو سلام کرتے۔ یہاں تک کہ رسول اللہﷺ پر دھوپ آگئی اور ابوبکرؓ نے چادر تان کر آپﷺ پر سایہ کیا۔ تب لوگوں نے پہچانا کہ یہ رسول اللہﷺ ہیں۔
آپﷺ کے استقبال اور دیدار کے لیے سارا مدینہ امنڈ پڑا تھا۔ یہ ایک تاریخی دن تھا ، جس کی نظیر سر زمین مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ آج یہود نے بھی حبقوق نبی کی اس بشارت کا مطلب دیکھ لیا تھا ''کہ اللہ جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا۔''
( زاد المعاد ۲/۵۴، صحیح بخاری ۱/۵۵۵ ، کتاب بائبل ، صحیفہ حبقوق ۳ ، ۳ )
رسول اللہﷺ نے قباء میں کلثوم بن ہدم...اور کہا جاتا ہے کہ سعد بن خیثمہ...کے مکان میں قیام فرمایا۔
پہلا قول زیادہ قوی ہے۔
ادھر حضرت علی بن ابی طالبؓ نے مکہ میں تین روز ٹھہر کر اور لوگوں کی جوامانتیں رسول اللہﷺ کے پاس تھیں انہیں ادا کر کے پیدل ہی مدینہ کا رخ کیا اور قباء میں رسول اللہﷺ سے آملے اور کلثوم بن ہدم کے یہاں قیام فرمایا۔( زاد المعاد ۲/۴۵۔ ابن ہشام ۱/۴۹۳)
رسول اللہﷺ نے قباء میں کل چار دن2(دوشنبہ ، منگل ، بدھ ، جمعرات ) یادس سے زیادہ دن قیام فرمایا اور اسی دوران مسجد قباء کی بنیاد رکھی ، اور اس میں نماز بھی پڑھی۔ یہ آپﷺ کی نبوت کے بعد پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی۔ پانچویں دن (یابارہویں دن ) جمعہ کو آپﷺ حکم الٰہی کے مطابق سوار ہوئے۔ ابوبکرؓ آپﷺ کے ردیف تھے۔ آپﷺ نے بنوالنجار کو - جو آپﷺ کے ماموؤں کا قبیلہ تھا - اطلاع بھیج دی تھی۔ چنانچہ وہ تلوار حمائل کیے حاضر تھے۔ آپﷺ نے (ان کی معیت میں ) مدینہ کا رخ کیا۔ بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہنچے تو جمعہ کا وقت آگیا۔ آپﷺ نے بطن وادی میں اس مقام پر جمعہ پڑھا جہاں اب مسجد ہے ، کل ایک سو آدمی تھے۔( صحیح بخاری ۱/۵۵۵، ۵۶۰۔ زاد المعاد ۲/۵۵۔ابن ہشام ۱/۴۹۴)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔