مدینہ منورہ سے باہر تمام عربی قبائل باوجود اس کے کہ سب کے سب ایک قوم تھے اور ایک واحد ملک کے باشندے تھے دن رات خانہ جنگیوں میں مبتلا رہتے تھے اور سارا ملک قتل ، غارت گری ، سفاکی اور خوں ریزی کا آماجگاہ بنا ہوا تھا ، ملک کا ذریعہ معاش غارت گری کے بعد فقط تجارت تھی مگر تجارت کے قافلوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بہت دشوار تھا، جب تک ان کے پاس مختلف قبائل کے خفارئے (اجازت نامہ رہ گذریا محافظ دستے)نہ ہوں جیسا کہ ابن قتیبہ کے استاد محمد بن حبیب(المتوفی ۲۴۵ہجری)نے اپنی کتاب" کتاب المحبر" میں لکھا ہے اس کے اقتباس کو " عہد نبوی میں نظام حکمرانی
" (ڈاکٹر حمیداﷲ)سے انہی کے الفاظ میں نقل کیا جاتاہے :
" جو تاجر بھی یمن اور حجاز سے نکلتا تو وہ اس وقت تک قریشی خفارئے یعنی محافظ دستہ کا محتاج رہتا جب تک وہ مغربی قبائل میں رہے کیونکہ ایک مضری قبیلہ دوسر ے مضری قبیلہ کے تاجروں کو نہ ستاتا ، مزید برآں جن جن قبائل سے مضریوں کی حلیفی تھی ان کے ہاں بھی ان کو امن رہتا اور یہ باہمی امن کے اصول پر مبنی تھا ، چنانچہ قبائل کلب ان کو مضری قبیلہ بنو تمیم سے حلیفی کے باعث نہ ستاتے اور قبائل طے بھی ان کو مضری قبیلہ بنو اسد سے حلیفی کے باعث نہ چھیڑتے اور مضری قبائل کہا کرتے تھے کہ قریش نے ہمارا وہ قرض ادا کردیا جو حضرت اسماعیل ؑ سے ہم کو وراثتاً مذمت کی صورت میں ملا تھا، جب یہ آگے بڑھ کر عراقی سمت میں جاتے اور بنی عمرو بن مرثد سے خفارا حاصل کر لیتے تو تمام قبائل ربیعہ میں وہ کافی ہوتا ، جو تاجر دو متہ الجندل جاتے ان کو بھی قریش ہی سے خفا رہ حاصل کرنا ہوتا، رابیہ جو حضرموت میں واقع ہے اگر وہاں جاناہوتا تو قریش وہاں کا قبیلہ آکل المرار سے خفارا حاصل کرلیتے اور باقی لوگ آل مسروق سے ۔
( کتاب المحبر)
پھر دوسری جگہ لکھاہے :
" اگر مسافر بنی عمرو بن مرثد کا خفار ا حاصل کرلیتے تو اس پورے علاقہ میں جہاں قبائل ربیعہ بستے تھے انھیں حفاظت حاصل تھی ، اگر بحرین کے سوق مشقر جانا ہوتا تو قریشی خفارہ ہی حاصل کرلیاجاتا، اگر جنوبی عرب کے سوق مہرہ کو جاناہوتا تو بنی محارب کا بدرقہ حاصل کیا جاتا، حضرموت کے سوق رابیعہ کو جانے کے لئے قریش قبیلہ آکل المرار کا خفارا حاصل کرتے اور دیگر لوگ کندہ کے آل مسروق کا ، اس طرح دونوں ہی قبائل کو عزت حاصل تھی لیکن قریشی سرپرستی کے باعث آکل المرار کو اپنے حریفوں پر فوقیت حاصل ہوگئی۔
حاصل یہ کہ عربوں میں تجارتی قافلوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ گذرنے اور پہنچنے کے لئے خفارا حاصل کرناپڑتاتھااور یہ ان کے ہاں ایک مستقل ادارہ بن گیا تھا اور عدنان اور قحطان اور مضر و ربیعہ کے سب قبائل اس میں داخل تھے،ملک کی بدامنی کی وجہ سے عبدالقیس جو بحرین کا طاقتور قبیلہ تھا ۵ ہجری تک مضری قبائل کے ڈر سے اشہر حرم کے سوا اور مہینوں میں حجاز کا رخ نہیں کرسکتاتھا ، بخاری شریف میں ہے کہ جب وفد عبدالقیس مدینہ منورہ آیا تو انھوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:یا رسول اﷲ ﷺ ہم لوگ صرف شہر حرام میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو سکتے ہیں، ہمارے اور آپﷺ کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ ہے ، ہم لوگوں کو فیصل شدہ امور بتا دیجیے تاکہ ہم ان لوگوں کو بتائیں جو حاضر نہیں ہوسکتے اور اس کے سبب سے ہم لوگ جنت میں داخل ہوں ،پھر ان اشہر حرم کا یہ حال تھا کہ اس میں وہ جب چاہتے تھے رد و بدل کردیتے تھے اور اپنی غارت گری کا موقع نکال لیتے تھے ، ابو علی قالی نے لکھا ہے ،یہ رد و بدل اس لئے کرتے تھے کہ وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ مسلسل تین مہینے ان پر بغیر غارت گری کے گذر جائیں کیونکہ غارت گری ہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔
( کتاب الا مالی)
پھر اشہر حرم (حرمت والے مہینے ) کے احترام کا یہ حال تھا کہ ابن عبدربہ نے عقد الفرید میں لکھا ہے کہ قبیلہ طے اور قبیلہ قشعم کے دو ضرب المثل لٹیرے قبائل اشہر حرم کی حرمت و امتناع کی پرواہ نہیں کرتے تھے ( عقد الفرید) بہر حال مسلمانوں کے لئے مدینہ منورہ سے باہر قبائل عرب میں گذرنا اور عالمی مشن کی دعوت دینا دشوار ہی نہیں ناممکن تھا، قرآن مجید نے مسلمانوں کی اس بے بسی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے :
" یاد کرو جب تم تھوڑے اورکمزور تھے ، ڈرتے تھے کہ لوگ تم کو اُچک نہ لیں"
(انفال :۲۶ )
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔