ایک طرف صفوان بن امیہ ، یہوداورمنافقین اپنی اپنی سازشوں میں مصروف تھے تو دوسری طرف ابوسفیان بھی کوئی ایسی کاروائی انجام دینے کی ادھیڑ بن میں تھا جس میں بار کم سے کم پڑے لیکن اثر نمایاں ہو۔ وہ ایسی کاروائی جلد از جلد انجام دے کر اپنی قوم کی آبرو کی حفاظت اور ان کی قوت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ اس نے نذر مان رکھی تھی کہ جنابت کے سبب اس کے سر کو پانی نہ چھوسکے گا یہاں تک کہ محمدﷺ سے لڑائی کرلے۔ چنانچہ وہ اپنی قسم پوری کرنے کے لیے دوسو سواروں کو لے کر روانہ ہوا اور وادیٔ قناۃ کے سرے پر واقع نیب نامی ایک پہاڑی کے دامن میں خیمہ زن ہوا۔مدینے سے اس کا فاصلہ کوئی بارہ میل ہے ، لیکن چونکہ ابو سفیان کو مدینے پر کھلم کھلا حملے کی ہمت نہ ہوئی اس لیے اس نے ایک ایسی کارروائی انجام دی جسے ڈاکہ زنی سے ملتی جلتی کارروائی کہا جاسکتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں اطرافِ مدینہ کے اندر داخل ہوا اور حیی بن اخطب کے پاس جاکر اس کا دروازہ کھلوایا۔ حیی نے انجام کے خوف سے انکار کردیا۔ ابو سفیان پلٹ کر بنونضیر کے ایک دوسرے سردار سلام مشکم کے پاس پہنچا جو بنو نضیر کا خزانچی بھی تھا۔ ابو سفیان نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس نے اجازت بھی دی اور مہمان نوازی بھی کی۔ خوراک کے علاوہ شراب بھی پلائی اور لوگوں کے پس پردہ حالات سے آگاہ بھی کیا۔ رات کے پچھلے پہر ابو سفیان وہاں سے نکل کر اپنے ساتھیوں میں پہنچا اور ان کا ایک دستہ بھیج کر مدینے کے اطراف میں عریض نامی ایک مقام پر حملہ کردیا۔ اس دستے نے وہاں کھجور کے کچھ درخت کاٹے اور جلائے اور ایک انصاری اور اس کے حلیف کو ان کے کھیت میں پاکر قتل کردیا اور تیزی سے مکہ واپس بھاگ نکلا۔
رسول اللہﷺ نے واردات کی خبر ملتے ہی تیز رفتاری سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا تعاقب کیا لیکن وہ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بھاگے ، چنانچہ وہ لوگ تو دستیاب نہ ہوئے لیکن انہوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ستو ، توشے اور سازوسامان پھینک دیا تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ رسول اللہﷺ نے کرکرۃ الکدر تک تعاقب کر کے واپسی کی راہ لی۔مسلمان ستو وغیرہ لاد پھا ند کر واپس ہوئے اور اس مہم کا نام غزوہ ٔسویق رکھ دیا۔ (سویق عربی زبان میں ستو کو کہتے ہیں۔) یہ غزوہ ، جنگ بدر کے صرف دوماہ بعد ذی الحجہ ۲ ھ میں پیش آیا۔ اس غزوے کے دوران مدینے کا انتظام ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ کو سونپا گیا تھا۔
( زاد المعاد ۲/ ۹۰ ، ۹۱ ، ابن ہشام ۲/ ۴۴ ، ۴۵)
غزوہ ٔ ذی امر:
معرکہ ٔ بدر واحد کے درمیانی عرصے میں رسو ل اللہﷺ کے زیر قیادت یہ سب سے بڑی فوجی مہم تھی جو محرم ۳ ھ میں پیش آئی۔
اس کا سبب یہ تھا کہ مدینے کے ذرائع اطلاعات نے رسول اللہﷺ کو یہ اطلاع فراہم کی کہ بنو ثعلبہ اور محارب کی بہت بڑی جمعیت مدینے پر چھا پہ مارنے کے لیے اکٹھی ہورہی ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا اور سوار وپیادہ پر مشتمل ساڑھے چار سو کی نفری لے کر روانہ ہوئے اور حضرت عثمان بن عفانؓ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرمایا۔
راستے میں صحابہؓ نے بنو ثعلبہ کے جبار نامی ایک شخص کو گرفتار کرکے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر کیا۔ آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے اسے حضرت بلالؓ کی رفاقت میں دے دیا اور ا س نے راہ شناس کی حیثیت سے مسلمانوں کو دشمن کی سرزمین تک راستہ بتایا۔
ادھر دشمن کو جیش مدینہ کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ گردوپیش کی پہاڑیوں میں بکھر گئے لیکن نبیﷺ نے پیش قدمی جاری رکھی اور لشکر کے ہمراہ اس مقام تک تشریف لے گئے جسے دشمن نے اپنی جمعیت کی فراہمی کے لیے منتخب کیا تھا۔ یہ درحقیقت ایک چشمہ تھا جو ''ذی امر ''کے نام سے معروف تھا۔ ۔( ابن ہشام ۲/۴۶)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔