Thursday, 7 May 2015

قریش کی پارلیمنٹ دار الندوہ میں


جب مشرکین نے دیکھا کہ صحابہ کرامؓ تیار ہو ہو کر نکل گئے اور بال بچوں اور مال ودولت کولا دپھاند کر اَوس وخَزرَج کے علاقے میں جاپہنچے تو ان میں بڑا کہرام مچا۔ غم والم کے لاوے پھوٹ پڑے اور انہیں ایسا رنج وقلق ہوا کہ اس سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا۔ اب ان کے سامنے ایک ایسا عظیم اور حقیقی خطرہ مجسم ہوچکا تھا جوان کی بت پرستانہ اور اقتصادی اجتماعیت کے لیے چیلنج تھا۔
مشرکین کو معلوم ہوا تھا کہ محمدﷺ کے اندر کمال قیادت ورہنمائی کے ساتھ ساتھ کس قدر انتہائی درجہ قوتِ تاثیر موجود ہے اور آپﷺ کے صحابہ میں کیسی عزیمت واستقامت اور کیسا جذبہ فداکاری پایا جاتا ہے۔ پھر اوس وخزرج کے قبائل میں کس قدر قوت وقدرت اور جنگی صلاحیت ہے اور ان دونوں قبائل کے عقلاء میں صلح وصفائی کے کیسے جذبات ہیں اور وہ کئی برس تک خانہ جنگی کی تلخیاں چکھنے کے بعد اب باہمی رنج وعداوت کو ختم کرنے پر کس قدر آمادہ ہیں۔
انہیں اس کا بھی احساس تھا کہ یمن سے شام تک بحر احمر کے ساحل سے ان کی جو تجارتی شاہراہ گزرتی ہے۔ اس شاہراہ کے اعتبار سے مدینہ فوجی اہمیت کے کس قدر حساس اور نازک مقام پر واقع ہے۔ درآں حالیکہ ملک شام سے صرف مکہ والوں کی سالانہ تجارت ڈھائی لاکھ دینار سونے کے تناسب سے ہوا کرتی تھی۔ اہل ِ طائف وغیرہ کی تجارت اس کے علاوہ تھی اور معلوم ہے کہ اس تجارت کا سارا دار ومدار اس پر تھا کہ یہ راستہ پُر امن رہے۔
ان تفصیلات سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ یثرب میں اسلامی دعوت کے جڑ پکڑنے اور اہل مکہ کے خلاف اہل یثرب کے صف آرا ہونے کی صورت میں مکے والوں کے لیے کتنے خطرات تھے۔ چونکہ مشرکین کو اس گھمبیر خطرے کا پورا پورا احساس تھا ، جو ان کے وجود کے لیے چیلنج بن رہا تھا۔ اس لیے انہوں نے اس خطرے کا کامیاب ترین علاج سوچنا شروع کیا اور معلوم ہے کہ اس خطرے کی اصل بنیاد دعوتِ اسلام کے علمبردار حضرت محمدﷺ ہی تھے۔
مشرکین نے اس مقصد کے لیے بیعتِ عقبہ کبریٰ کے تقریباً ڈھائی مہینہ بعد ۲۶؍ صفر ۱۴ نبوت مطابق ۱۲/ ستمبر ۶۲۲ یوم جمعرات کو دن کے پہلے پہرمکے کی پارلیمنٹ دار الندوہ میں تاریخ کا سب سے خطرناک اجتماع پہلے پہر اس اجتماع کے منعقد ہونے کی دلیل ابن اسحاق کی وہ روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ نبیﷺ کی خدمت میں اس اجتماع کی خبر لے کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دی۔ اس کے ساتھ صحیح بخاری میں مروی حضرت عائشہ ؓ کی اس روایت کو ملا لیجئے کہ نبیﷺ ٹھیک دوپہر کے وقت حضرت ابوبکرؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ''مجھے روانگی کی اجازت دے دی گئی ہے۔'' روایت بہ تفصیل آگے آرہی ہے۔منعقد کیا اور اس میں قریش کے تمام قبائل کے نمائندوں نے شرکت کی۔ موضوع بحث ایک ایسے قطعی پلان کی تیاری تھی جس کے مطابق اسلامی دعوت کے علمبردار کا قصہ بہ عجلت تمام پاک کردیا جائے اور اس دعوت کی روشنی کلی طور پر مٹادی جائے۔
اس خطرناک اجتماع میں نمائندگان قبائل قریش کے نمایاں چہرے یہ تھے:
ابوجہل بن ہشا م قبیلہ ٔ بنی مخزوم سے۔
جبیر بن مطعم ، طعیمہ بن عدی اور حارث بن عامر بنی نوفل بن عبد مناف سے
شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ بن ربیعہ اور ابوسفیان بن حرب بنی عبد شمس بن عبد مناف سے
نضر بن حارث بنی عبد الدار سے
ابو البختری بن ہشام ، زمعہ بن اسود اور حکیم بن حزام بنی اسد بن عبد العزیٰ سے
نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج بنی سہم سے
امیہ بن خلف بنی جمح سے
وقتِ مقررہ پر نمائندگان دار الندوہ پہنچے تو ابلیس بھی ایک شیخ جلیل کی صورت ، عبا اوڑھے ، راستہ روکے ، دروازے پر آن کھڑا ہو ا۔ لوگوں نے کہا: یہ کون شیخ ہیں ؟ ابلیس نے کہا :یہ اہلِ نجد کا ایک شیخ ہے۔ آپ لوگوں کا پروگرام سن کر حاضر ہوگیا ہے۔ باتیں سننا چاہتا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ آپ لوگوں کو خیر خواہانہ مشور ے سے بھی محروم نہ رکھے۔ لوگوں نے کہا : بہتر ہے آپ بھی آجائیے۔ چنانچہ ابلیس بھی ان کے ساتھ اندر گیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔