Thursday 7 May 2015

گھر سے غارِ ثور تک


رسول اللہﷺ ۲۷ ؍ صفر ۱۴ نبوت مطابق ۱۲ - ۱۳ ستمبر ۶۲۲ ءکی درمیانی رات اپنے مکان سے نکل کر جان ومال کے سلسلے میں اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی ابوبکرؓ کے گھر تشریف لائے تھے اور وہاں سے پچھواڑے کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے باہر کی راہ لی تھی تاکہ مکہ سے جلد از جلد، یعنی طلوع فجر سے پہلے پہلے باہر نکل جائیں۔
چونکہ نبیﷺ کو معلوم تھا کہ قریش پوری جانفشانی سے آپﷺ کی تلاش میں لگ جائیں گے اور جس راستے پر اول و ہلہ میں نظر اٹھے گی وہ مدینہ کا کاروانی راستہ ہوگا جو شمال کے رخ پر جاتا ہے اس لیے آپﷺ نے وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے بالکل الٹ تھا۔ یعنی یمن جانے والا راستہ جو مکہ کے جنوب میں واقع ہے۔ آپﷺ نے اس راستے پر کوئی پانچ میل کا فاصلہ طے کیا اور اس پہاڑ کے دامن میں پہنچے جو ثور کے نام سے معروف ہے۔ یہ نہایت بلند ، پر پیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے۔ یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں۔ جن سے رسول اللہﷺ کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے اور کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نشان قدم چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چل رہے تھے۔ اس لیے آپﷺ کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ بہر حال وجہ جو بھی رہی ہو حضرت ابوبکرؓ نے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر آپﷺ کو اٹھالیا اور دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار کے پاس جاپہنچے جو تاریخ میں ''غارِ ثور'' کے نام سے معروف ہے۔( مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۱۶۷)

غار کے پاس پہنچ کر ابوبکرؓ نے کہا: اللہ کے لیے ابھی آپﷺ اس میں داخل نہ ہوں۔ پہلے میں داخل ہو کر دیکھے لیتا ہوں۔ اگر اس میں کوئی چیز ہوئی تو آپﷺ کے بجائے مجھے اس سے سابقہ پیش آئے گا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ اندر گئے اور غار کو صاف کیا۔ ایک جانب چند سوراخ تھے۔ انہیں اپنا تہبند پھاڑ کر بند کیا لیکن دو سوراخ باقی بچ رہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ان دونوںمیں اپنے پاؤں ڈال دیے۔ پھر رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ اندر تشریف لائیں۔
آپﷺ اندرتشریف لے گئے اور حضرت ابوبکرؓ کی آغوش میں سر رکھ کر سو گئے۔ ادھر ابوبکرؓ کے پاؤں میں کسی چیز نے ڈس لیا۔ مگر اس ڈر سے ہلے بھی نہیں کہ رسول اللہﷺ جاگ نہ جائیں لیکن ان کے آنسو رسول اللہﷺ کے چہرے پر ٹپک گئے۔ (اور آپﷺ کی آنکھ کھل گئی) آپﷺ نے فرمایا : ابوبکر ؓ تمہیں کیا ہوا ؟ عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے رسول اللہﷺ نے اس پر لعاب دہن لگادیا اور تکلیف جاتی رہی۔ یہ بات زرین نے حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت کی ہے۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ پھر یہ زہر پھوٹ پڑا۔ (یعنی موت کے وقت اس کا اثر پلٹ آیا ) اور یہی موت کا سبب بنا۔ دیکھئے: مشکوٰۃ ۲/۵۵۶، باب مناقب ابی بکر۔
یہاں دونوں حضرات نے تین راتیں یعنی جمعہ ، سنیچر اور اتوار کی راتیں غار میں چھپ کر گزاریں۔( فتح الباری ۷/۳۳۶) اس دوران ابوبکرؓ کے صاحبزادے عبد اللہ بھی یہیں رات گزارتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ وہ گہری سوجھ بوجھ کے مالک ، سخن فہم نوجوان تھے۔ سحر کی تاریکی میں ان دونوں حضرات کے پاس سے چلے جاتے ، اور مکہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے گویا انہوں نے یہیں رات گزاری ہے۔ پھر آپ دونوں کے خلاف کے سازش کی جو کوئی بات سنتے اسے اچھی طرح یاد کرلیتے اور جب تاریکی گہری ہوجاتی تو اس کی خبر لے کر غار میں پہنچ جاتے۔
ادھر حضرت ابوبکرؓ کے غلام عامر بن فُہَیْرَہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے۔ اس طرح دونوں حضرات رات کو آسودہ ہوکر دودھ پی لیتے۔ پھر صبح تڑکے ہی عامر بن فُہیرہ بکریاں ہانک کر چل دیتے۔ تینوں رات انہوں نے یہی کیا۔( صحیح بخاری ۱/۵۵۳، ۵۵۴)(مزید یہ کہ ) عامر بن فہیرہ ، حضرت عبد اللہ بن ابی بکرؓ کے مکہ جانے کے بعد انہیں کے نشانات قدم پر بکریاں ہانکتے تھے تاکہ نشانات مٹ جائیں۔( ابن ہشام ۱/۴۸۶)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔