اسی سفر میں دوسرے یا تیسرے دن آپﷺ کا گزر اُمّ معبد خزاعیہ کے خیمے سے ہو ا۔ یہ خیمہ قدید کے اطرف میں مشلل کے اندر واقع تھا۔ اس کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے ایک سوتیس (۱۳۰) کیلو میٹر ہے۔ اُمّ معبد ایک نمایاں اور توانا خاتون تھیں۔ ہاتھ میں گھٹنے ڈالے خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور آنے جانے والے کو کھلاتی پلاتی رہتیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ پاس میں کچھ ہے ؟ بولیں : واللہ! ہمارے پاس کچھ ہوتا تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی۔ بکریاں بھی دور دراز ہیں۔ یہ قحط کا زمانہ تھا۔
رسول اللہﷺ نے دیکھا کہ خیمے کے ایک گوشے میں ایک بکری ہے۔ فرمایا : ام معبد ! یہ کیسی بکری ہے؟ بولیں:اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ آپﷺ نے دریافت کیا کہ اس میں کچھ دودھ ہے ؟ بولیں : وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : اجازت ہے کہ اسے دھو لوں؟ بولیں: ہاں ،میرے ماں باپ تم پر قربان۔ اگر تمہیں اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دھولو۔ اس گفتگو کے بعد رسول اللہﷺ نے اس بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا، اللہ کا نام لیا اوردعا کی۔ بکری نے پاؤں پھیلادیئے۔ تھن میں بھر پور دودھ اُتر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام معبد کا ایک بڑا سا برتن لیا جو ایک جماعت کو آسودہ کرسکتا تھا اور اس میں اتنا دوہا کہ جھاگ اوپر آگیا۔ پھر ام معبد کو پلایا، وہ پی کر شکم سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کوپلایا۔ وہ بھی شکم سیر ہوگئے توخود پیا ، پھر اسی برتن میں دوبارہ اتنادودھ دوہا کہ برتن بھر گیا اور اسے ام ِ معبد کے پاس چھوڑ کر آگے چل پڑے۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان کے شوہر ابو معبد اپنی کمزور بکریوں کو ، جو دُبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں ، ہانکتے ہوئے آپہنچے۔ دودھ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے۔ پوچھا :یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ؟ جبکہ بکریاں دور دراز تھیں اور گھر میں دودھ دینے والی بکری نہ تھی ؟ بولیں: واللہ! کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے پاس سے ایک بابرکت آدمی گزرا جس کی ایسی اور ایسی بات تھی اور یہ اور یہ حال تھا۔ ابومعبد نے کہا: یہ تو وہی صاحب قریش معلوم ہوتا ہے جسے قریش تلاش کررہے ہیں۔ اچھا ذرا اس کی کیفیت تو بیان کرو۔ اس پر اُمِ معبد نے نہایت دلکش انداز سے آپﷺ کے اوصاف وکمالات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ گویا سننے والا آپﷺ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے --
اُم معبد کو حضور سے نہ تو کوئی تعارف تھا نہ کسی طرح کا تعصب ؛بلکہ جو کچھ دیکھا من و عن کہہ دیا، اصل متن عربی میں دیکھنے کی چیز ہے ، اس کا جو ترجمہ مؤلف" رحمۃ للعالمین" نے کیا ہے وہ حسبِ ذیل ہے:
" پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ ، پسندیدہ خو، نہ پیٹ باہرکو نکلاہوا نہ سر کے بال گرے ہوئے، زیبا، صاحب جمال،آنکھیں سیاہ و فراغ، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں بھاری پن ، بلند گردن ، روشن مر دمک ، سرمگیں چشم،باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار کے ساتھ ، گویا دل بستگی لئے ہوئے ، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب ، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین ، شیریں کلام ، واضح الفاظ ،کلام کمی و بیشی الفاظ سے مبّرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی ، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے ، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی، زیبندہ نہال کی تازہ شاخ ،زیبندہ منظر والا قد ، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں ، جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں، جب حکم دیتا تو تعمیل کے لئے جھپٹتے ہیں، مخدوم ، مطاع، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو"
( زاد المعاد ، جلد دوم ، رحمۃ للعالمین قاضی سلیمان منصورپوری )
اُم معبد کی یہ قلمی تصویر سیرت کا ایک انمول خزانہ ہے،بعد میں دونوں میاں بیوی نے حضور ﷺ کے پاس آکر اسلام قبول کیا ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔