اس کے بعد آپﷺ مقام حجفہ پہنچے جو مکہ کی شاہراہ پر ہے اور جہاں سے مدینہ کی طرف راستہ نکلتا ہے،وہاں بیت اللہ اور مکہ کی یاد سے حضور ﷺ پر اُداسی کے آثار نمایاں ہوئے توحضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ سورۂ قصص کی آیت ۸۵ نازل ہوئی :
اے پیغمبر!" جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وہ آپ ﷺ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے، کہہ دیجئے کہ میرا رب اُسے بھی بخوبی جانتا ہے جو ہدایت لایا ہے اور اسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے "
(قرآن ، سورہ قصص ۸ ۲: ۸۵ )
اس آیت کے نزول کے بعد آپﷺ کو بڑی تسکین ہوئی،یہاں سے یہ مختصر قافلہ یثرب کی جانب روانہ ہوا ، اثنائے راہ میں بنی اسلم کا سردار بریدہ بن خصیب اسلمی ملا جس کے ساتھ ستر (۷۰) آدمی تھے ، قریش نے آنحضرت ﷺ کی گرفتاری پر ایک سو اونٹ کے انعام کا اعلان کیا تھا اور بریدہ اسی انعام کے لالچ میں آنحضرتﷺ کی تلاش میں نکلا تھا ، جب آنحضرت ﷺکا سامنا ہوا تو حضورﷺ سے شرفِ ہمکلامی کا موقع ملا، وہ قبیلہ بنی اسلم کے خاندان سہم سے تعلق رکھتا تھا، حضورﷺ نے فرمایا: اے جوان تجھے اسلام سے بڑا سہم ( حصّہ) مل گیا، حضور ﷺ کے اس کلام سے بریدہ بہت متاثرہوا اور ستر (۷۰) ساتھیوں سمیت مسلمان ہوگیااور آپﷺ کے ساتھ شریک سفر ہوگیا، جب یہ قافلہ قبا کے قریب پہنچا تو بریدہ نے حضورﷺ سے عرض کیا : کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ قافلۂ نبوت کے ساتھ آپﷺ کا پرچم بھی موجود ہو، چنانچہ حضور ﷺ نے اپنا عمامہ اتارا ، اپنے ہاتھ سے اسے نیزہ پر باندھا اور بطور پرچم بُریدہ کو عطا فرمایا، انھوں نے اسے ہوا میں لہرا یا اور حضور ﷺ کے علم بردار کی حیثیت سے آگے آگے چلنے لگے،یہ تایخ اسلام کا پہلا پرچم تھا۔
( قاضی سلیمان منصور پوری ، رحمتہ للعالمین ، مصباح الدین شکیل ، سیرت احمدمجتبیٰ ، ابن جوزی، الوفا)
راستہ میں حضرت زبیرؓ بن عوام سے ملاقات ہوئی، وہ تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے آرہے تھے انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اوراپنے خسرحضرت ابو بکرؓ صدیق کی خدمت میں سفید کپڑوں کا ایک جوڑا پیش کیا اور کہا کہ قافلہ اور مال کو مکہ پہنچاکر ہجرت کر کے آجاؤں گا۔
ادھرمکے میں ایک آواز ابھری جسے لوگ سن رہے تھے مگر اس کا بولنے والا دکھائی نہیں پڑرہا تھا۔ آواز یہ تھی :
جزی اللہ رب العرش خیر جزائہ رفیقین حـلا خیمتی أم معبـد
ہمـا نـزلا بالبـر وارتحـلا بـــہ وأفلح من أمسی رفیق محمـد
فیـا لقصـی مـا زوی اللہ عنکـم بہ من فعال لا یجازی وسودد
لیہن بـنی کـعب مـکان فتاتہـم ومقعدہـا للمؤمنیـن بمرصد
سلوا أختکـم عن شأتہـا وإنائہا فإنکم إن تسألوا الشـاۃ تشہـد
''اللہ رب العرش ان دورفیقوں کو بہتر جزادے جو امِ معبد کے خیمے میں نازل ہوئے۔ وہ دونوں خیر کے ساتھ اترے اور خیر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جومحمدﷺ کا رفیق ہو اوہ کامیاب ہوا۔ ہائے قصی ! اللہ نے اس کے ساتھ کتنے بے نظیر کارنامے اور سرداریاں تم سے سمیٹ لیں۔بنوکعب کو ان کی خاتون کی قیام گاہ اور مومنین کی نگہداشت کا پڑاؤ مبارک ہو۔ تم اپنی خاتون سے اس کی بکری اور برتن کے متعلق پوچھو۔ تم خود بکری سے پوچھو گے تو وہ بھی شہادت دے گی۔''
حضرت اسماء ؓکہتی ہیں: ہمیں معلوم نہ تھا کہ رسول اللہﷺ نے کدھر کا رخ فرمایا ہے کہ ایک جن زیرین مکہ سے یہ اشعار پڑھتا ہو آیا۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ اس کی آواز سن رہے تھے لیکن خود اسے نہیں دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بالائی مکہ سے نکل گیا ، وہ کہتی ہیں کہ جب ہم نے اس کی بات سنی تو ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ نے کدھر کا رُخ فرمایا ہے، یعنی آپﷺ کا رُخ مدینہ کی جانب ہے۔( زاد المعاد ۲/۵۳، ۵۴۔ مستدرک حاکم ۳/۹، ۱۰حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ اسے بغوی نے بھی شرح السنہ ۱۳/۲۶۴ میں روایت کیا ہے۔)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔