غزوۂ حنین میں چونکہ کئی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اس لئے قرآن کریم نے اس کا بھی خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا، یہاں بھی مختصر طور پر ان کا ذکر کرنا مناسب ہے:
۱)پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ مسلمان جب میدان جنگ میں آئیں تو انہیں تعداد کی کمی اور زیادتی کا خیال نہ کرنا چاہیے؛ بلکہ ایمانی قوت اور اﷲ تعالیٰ کی مدد پر بھروسہ کرنا چاہیے،
بدر ، احد ، خندق اور دوسری لڑائیوں میں مسلمان اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں ایک تہائی یا اس سے بھی کم تھے مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنی غیبی مدد سے ان کو فتح عطا فرمائی اور ان سے کئی گنا تعداد کے دشمن ان کے سامنے نہ ٹھہر سکے،
حنین کی لڑائی میں معاملہ اس کے بر عکس ہوا، یہاں مسلمان اپنے دشمنوں سے تین گنا تھے اس لئے اﷲ تعالیٰ پر جو اعتماد پہلی لڑائیوں میں تھا وہ اس لڑائی میں باقی نہ رہا؛بلکہ ان کی نگاہ اپنی قوت کی طرف اٹھ گئی، چنانچہ بعض کی زبان سے یہ الفاظ بھی نکل گئے کہ " آج ہماری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی سے مغلوب نہ ہوں گے" اپنے خاص بندوں کی یہ لاپرواہی اﷲ تعالیٰ کو پسند نہ آئی اور وہ ایک مرحلے پر اس لڑائی میں شکست کھاگئے اور اگر اﷲ تعالیٰ معمولی تنبیہ کے بعد ان کی مدد نہ کرتا تو العیاذ با ﷲ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام بھی نہ ملتا۔
۲)دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ مسلمان مصلحت وقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جنگ و صلح کے اہم معاملات میں بھی غیر مسلموں کو اپنے ساتھ شریک کرسکتے ہیں، یہود مدینہ سے جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کا معاہدہ اور صلح حدیبیہ میں غیر مسلم قبائل عرب کو مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوکر فریق صلح بننے کی اجازت کے واقعات گذر چکے ہیں ، اسی طرح غزوۂ حنین میں بھی مکّہ کے غیر مسلموں سے جانی و مالی مدد لی گئی ، تاہم اس سلسلہ میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ غیر مسلموں ہی کو نہیں بلکہ کچے پکے مسلمانوں کو بھی نازک موقوں پر آگے نہ رکھنا چاہیے، حنین کی لڑائی میں مکّہ کے نو مسلم اور غیر مسلم بھی مقدمتہ الجیش (لشکر کا اگلا دستہ) میں تھے ان ہی کی کمزوری کی وجہ سے آغاز جنگ میں مسلمانوں کو شکست اٹھانی پڑی، کچھ تو اس لئے آگے آگے ہو گئے تھے کہ مسلمانوں سے اپنے اخلاص اور دوستی کا ثبوت دیں اور کچھ کے دل میں پہلے ہی چور تھا اور یہ سونچ کر آئے تھے کہ عین موقع پر لڑا ئی میں بھاگ کھڑے ہونگے تاکہ جب بھگدڑ ہوجائے تو مسلمانوں کے قدم بھی اکھڑ جائیں اور مکّہ کی فتح کی ساری عزت کرکری ہوجائے، چنانچہ ابو سفیان نے بھاگتے ہوئے کہا " آج مسلمانوں کے قدم سمندر سے ادھر نہ رکیں گے" اور شیبہ بن عثمان نے خود حضور اکرم ﷺ کو شہید کرنے کی کوشش کی
(ابن ہشام)
۳)تیسری بات قابلِ غور حضور اکرم ﷺ کی بہادری اور ثابت قدمی ہے ، ذرا غور فرمائیے دشمن بلندی سے تاک تاک کر تیروں کا مینہ برسارہے ہیں، بارہ ہزار فوج تتر بتر ہوچکی ہے، صرف چند جانثار جن کی تعداد اسّی اور بعض روایتوں کے مطابق صرف تین ہی ہے باقی رہ گئے ہیں مگر محبوب خداﷺ کے دل میں ذرا گھبراہٹ اور آپﷺ کے قدموں میں کوئی ڈگمگاہٹ نہیں، آپﷺپورے سکون و اطمینان کے ساتھ بیچ میدان میں پہاڑ کی طرح جمے کھڑے ہیں اور آپﷺ کی زبان پر یہ ترانہ ہے :
انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کو اپنے پیغمبر ہونے کا ایساہی یقین ہوتا ہے جیسا کہ ہر انسان کو اپنے انسان ہونے کا ، محبوب خدا ﷺ کا دل بھی اس یقین سے لبریز تھا پھر خوف و ہراس آپﷺ کے پاس کیوں پھٹکتا، آپﷺ اپنے چاروں طرف فرشتوں کی فوجیں دیکھ رہے تھے پھر آپﷺ کے قدم کیوں ڈگمگاتے، چنانچہ تیروں کی اس دھواں دھار بارش میں آپﷺ اعلان فرمارہے تھے:
" میں اﷲ کا سچا پیغمبر ہوں ا س میں مطلق جھوٹ نہیں ہے اور جھوٹ بولنا سردار مکّہ عبدالمطلب کے بیٹے کے شایانِ شان بھی نہیں تو جب میں اﷲ کے کام کے لئے اﷲ کا بھیجا ہوا آیا ہوں تو مخلوق کی بڑی سی بڑی طاقت میرا کیا بگاڑ سکتی ہے "
قرآن کریم میں ان حقیقتوں کی طرف اس طرح اشارہ کیا گیاہے:
" اور اے مسلمانو حنین کا دن یا دکرو جب تم کو اپنی کثرت پر نا ز ہوگیاتھا؛لیکن وہ کثرت ذرا تمہارے کام نہ آئی اور زمین میں فراخی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم پیٹھ موڑ کر بھا گ گئے تب اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر خاص اطمینان اور سکون نازل فرمایا اور ایسی فوجیں اتاریں جن کو تم دیکھ نہ سکتے تھے اور کافروں کو عذاب دیا اور یہی کافروں کی سزاہے "
(سورہ توبہ : ۲۵، ۲۶)- (سیرت طیبہ - قاضی سجاد میرٹھی)