Sunday 24 May 2015

مسلمانوں کا جوابی حملہ


اس کے بعد رسول اللہﷺ نے جوابی حملے کا حکم اور جنگ کی ترغیب دیتے ہو ئے فرمایا: ''شدوا'' چڑھ دوڑو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! ان سے جو آدمی بھی ڈٹ کر ، ثواب سمجھ کر ، آگے بڑھ کر اور پیچھے نہ ہٹ کر لڑے گا اور مار اجائے گا اللہ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا۔''
آپﷺ نے قتال پر ابھارتے ہوئے یہ بھی فرمایا : اس جنت کی طرف اٹھو جس کی پہنائیاں آسمانوں اور زمین کے برابر ہیں۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ) عمیر بن حمام نے کہا : بہت خوب بہت خوب۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم بہت خوب بہت خوب ، کیوں کہہ رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ مجھے توقع ہے کہ میں بھی اسی جنت والوں میں سے ہوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا: تم بھی اسی جنت والوں میں سے ہو۔ اس کے بعد وہ اپنے توشہ دان سے کچھ کھجوریں نکال کر کھانے لگے۔ پھر بولے : اگر میں اتنی دیر تک زندہ رہا کہ اپنی کھجوریں کھا لوں تو یہ تولمبی زندگی ہوجائے گی، چنانچہ ان کے پاس جو کھجور یں تھیں انہیں پھینک دیا، پھر مشرکین سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔( مسلم ۲/۱۳۹ مشکوٰۃ ۲/۳۳۱)
اسی طرح مشہور خاتون عفراء کے صاحبزادے عوف بن حارث نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! پروردگار اپنے بندے کی کس بات سے (خوش ہوکر ) مسکراتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : ''اس بات سے کہ بندہ خالی جسم (بغیر حفاظتی ہتھیار پہنے ) اپنا ہاتھ دشمن کے اندر ڈبودے '' یہ سن کر عوف نے اپنے بدن سے زِرہ اتار پھینکی اور تلو ار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
جس وقت رسول اللہﷺ نے جوابی حملے کا حکم صادر فرمایا ، دشمن کے حملوں کی تیزی جاچکی تھی اور ان کا جوش و خروش سرد پڑرہا تھا۔ اس لیے یہ باحکمت منصوبہ مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط کرنے میں بہت مؤثر ثابت ہوا ، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب حملہ آور ہونے کا حکم ملا اور ابھی ان کا جوشِ جہاد شباب پر تھا تو انہوں نے نہایت سخت تند اور صفایا کن حملہ کیا۔ وہ صفوں کی صفیں درہم برہم کرتے اور گردنیں کاٹتے آگے بڑھے۔ ان کے جوش و خروش میں یہ دیکھ کر مزید تیز ی آگئی کہ رسول اللہﷺ بہ نفس نفیس زرہ پہنے تیز تیز چلتے تشریف لا رہے ہیں اور پورے یقین وصراحت کے ساتھ فرمارہے ہیں کہ ''عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا ، اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔'' اس لیے مسلمانوں نے نہایت پُر جوش و پرخروش لڑائی لڑی، اور فرشتوں نے بھی ان کی مدد فرمائی۔ چنانچہ ابن سعد کی روایت میں حضرت عکرمہؓ سے مروی ہے کہ اس دن آدمی کا سر کٹ کر گرتا اور یہ پتا نہ چلتا کہ اسے کس نے مارا۔ اور آدمی کاہاتھ کٹ کر گرتا اور یہ پتہ نہ چلتا کہ اسے کس نے کاٹا۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک مشرک کا تعاقب کررہا تھا کہ اچانک اس مشرک کے اوپر کو ڑے مارنے کی آواز آئی۔ اور ایک شہسوار کی آواز سنائی پڑی جو کہہ رہا تھا کہ حیزوم! آگے بڑھ۔ مسلمان نے مشرک کو اپنے آگے دیکھا کہ وہ چِت گرا ، لپک کر دیکھا تو اس کی ناک پر چوٹ کا نشان تھا ، چہرہ پھٹا ہوا تھا جیسے کوڑے سے مارا گیا ہو اور یہ سب کا سب ہرا پڑ گیا تھا۔ اس انصاری مسلمان نے آکر رسول اللہﷺ سے یہ ماجرا بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا :''تم سچ کہتے ہو ، یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی۔''(مسلم ۲/۹۳ وغیرہ)
ابو داؤد مازنی کہتے ہیں کہ میں ایک مشرک کو مارنے کے لیے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا۔ میں سمجھ گیا کہ اسے میرے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہے۔
ایک انصاری حضرت عباسؓ بن عبد المطلب کو قید کر کے لایا تو حضرت عباسؓ کہنے لگے: ''واللہ ! مجھے اس نے قید نہیں کیا ہے ، مجھے تو ایک بے بال کے سر والے آدمی نے قید کیا ہے جو نہایت خوبرو تھا اور چتکبرے گھوڑے پر سوار تھا۔ اب میں اسے لوگوں میں نہیں دیکھ رہا ہو ں۔'' انصاری نے کہا :''اے اللہ کے رسول! انہیں میں نے قید کیا ہے۔'' آپﷺ نے فرمایا : خاموش رہو۔ اللہ نے ایک بزرگ فرشتے سے تمہاری مدد فرمائی ہے۔
حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہﷺ نے بدر کے روز مجھ سے اور ابوبکرؓ سے کہا: تم میں سے ایک کے ساتھ جبرئیل اور دوسرے کے ساتھ میکائیل ؑ ہیں اور اسرافیل بھی ایک عظیم فرشتہ ہیں جو جنگ میں آیا کرتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر آچکا کہ ابلیس لعین ، سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں آیا تھا اور مشرکین سے اب تک جدا نہیں ہوا تھا ، لیکن جب اس نے مشرکین کے خلاف فرشتوں کی کاروائیاں دیکھیں تو اُلٹے پاؤں پلٹ کر بھاگنے لگا ، مگر حارث بن ہشام نے اسے پکڑ لیا ، وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ واقعی سراقہ ہی ہے ، لیکن ابلیس نے حارث کے سینے پر ایسا گھونسامارا کہ وہ گر گیااور ابلیس نکل بھاگا۔ مشرکین کہنے لگے: سراقہ کہا ں جارہے ہو؟ کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم ہمارے مدد گا ر ہو ہم سے جدا نہ ہوگے ؟ اس نے کہا : میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جسے تم نہیں دیکھتے۔ مجھے اللہ سے ڈرلگتا ہے، اور اللہ بڑی سخت سزا والا ہے۔ اس کے بعد بھاگ کر سمندر میں جارہا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔