Sunday, 24 May 2015

غزوہ بنو قینقاع


ادھر اس نصیحت کے بعد یہود بنو قینقاع کی جرأت رندانہ اور بڑھ گئی ، چنانچہ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے مدینہ میں بلوہ اور ہنگامہ بپا کردیا جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھود لی اور اپنے اوپر زندگی کی راہ بندکر لی۔
ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنو قینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے ) ایک سنار کے پاس ، جو یہودی تھا ، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کردیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا پچھلی طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی اور بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگا یا۔ اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مار ڈالا۔ جوابا ً یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا۔ اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھر والوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہو گیا۔( زاد المعاد ۲/۷۱،۹۱ ابن ہشام ۲؍۴۷ ، ۴۸ ، ۴۹)
اس کے بعد رسول اللہﷺ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ آپﷺ نے مدینے کا انتظام ابو لبابہؓ بن عبد المنذر کو سونپا اور خود، حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب کے ہاتھ میں مسلمانوں کا پھریرا دے کر لشکر کے ہمراہ بنو قینقاع کا رخ کیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو گڑھیوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ آپﷺ نے ان کا سختی سے محاصر ہ کر لیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور شوال ۲ ھ کی ۱۵ تاریخ۔ پندرہ روز تک -یعنی ہلال ذی القعدہ کے نمودار ہونے تک - محاصرہ جاری رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی سنت ہی یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو شکست وہزیمت سے دوچار کرنا چاہتا ہے تو ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ بنو قینقاع نے اس شرط پر ہتھیا ر ڈال دیئے کہ رسول اللہﷺ ان کی جان ومال ، آ ل واولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے انہیں منظور ہوگا۔ اس کے بعد آپﷺ کے حکم سے ان سب کو باندھ لیا گیا۔
لیکن یہی موقع تھا جب عبد اللہ بن اُبی نے اپنا منافقانہ کردار ادا کیا۔ اس نے رسول اللہﷺ سے سخت اصرار والحاح کیا کہ آپﷺ ان کے بارے میں معافی کا حکم صادر فرمائیں۔ اس نے کہا :''اے محمد! میرے معاہدین کے بارے میں احسان کیجیے'' واضح رہے کہ بنو قینقاع خزرج کے حلیف تھے - لیکن رسول اللہﷺ نے تاخیر کی۔ اس پر اس نے اپنی بات پھر دہرائی۔ مگر اب کی بار آپﷺ نے اس سے رُخ پھیر لیا۔ لیکن اس شخص نے آپﷺ کے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ آپﷺ نے فرمایا : مجھے چھوڑ دو اور ایسے غضبناک ہوئے کہ لوگوں نے غصے کی پرچھائیاں آپﷺ کے چہرے پر دیکھیں۔پھر آپﷺ نے فرمایا: تجھ پر افسوس مجھے چھوڑ۔ لیکن یہ منافق اپنے اصرار پر قائم رہا اور بو لا : ''نہیں واللہ! میں آپ کو نہیں چھوڑ وں گا یہاں تک کہ آپﷺ میرے معاہدین کے بارے میں احسان فرمادیں۔ چار سو کھلے جسم کے جوان اور تین سوزِرہ پوش جنہوں نے مجھے سرخ وسیاہ سے بچایا تھا آپ انہیں ایک ہی صبح میں کاٹ کر رکھ دیں گے ؟ واللہ! میں اس سے زمانے کی گردش کا خطرہ محسوس کررہا ہوں۔''
بالآخر رسول اللہﷺ نے اس منافق کے ساتھ (جس کے اظہارِ اسلام پر ابھی کوئی ایک ہی مہینہ گزرا تھا ) رعایت کا معاملہ کیا اور اس کی خاطر ان سب کی جان بخشی کردی۔ البتہ انہیں حکم دیا کہ وہ مدینہ سے نکل جائیں اور آپﷺ کے پڑوس میں نہ رہیں ، چنانچہ یہ سب اذرعات شام کی طرف چلے گئے اور تھوڑے ہی دنوں بعد وہاں اکثر کی موت واقع ہوگئی۔
رسول اللہﷺ نے ان کے اموال ضبط کر لیے۔ جن میں سے تین کمانیں ، دو زِرہیں ، تین تلواریں اور تین نیزے اپنے لیے منتخب فرمائے اور مالِ غنیمت میں سے خمس بھی نکالا۔ غنائم جمع کرنے کاکام محمدبن مسلمہؓ نے انجام دیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔