رسول اللہﷺ کی منزل مقصود مقام بدر تھا کیونکہ ابوسفیان کا قافلہ جس کا روانی شاہراہ سے آرہا تھا وہ مقام بدر سے گزرتی تھی اور دستور تھا کہ قافلے یہاں پہنچ کر پڑاؤ ڈالتے تھے اور یہ مقام بدر کوئی ایک میل لمبا اوراس سے کچھ کم چوڑا ایک میدان ہے۔ جو ہر طرف بلند وبالا اور ناقابل عبور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ آنے جانے کے لیے ان پہاڑوں کے درمیان صرف تین یا چار راستے ہیں۔ آپﷺ کا پلان غالباً یہ تھا کہ قافلہ یہاں اترپڑے۔ اس کے بعد ان راستوں کو بند کرکے اسے گھیر لیا جائے۔ اس صورت میں کوئی آدمی یا کوئی اونٹ بچ کر جانہیں سکتا تھا۔ غالباً اسی لیے آپﷺ دھیمی رفتار سے اور بدر کے رخ سے قدرے ہٹ کر جارہے تھے۔
دوسر ی طرف قافلے کی صور ت ِ حال یہ تھی کہ ابو سفیان جوا س کا نگہبا ن تھا ، حددرجہ محتاط تھا۔ اسے معلوم تھا کہ مکے کا راستہ خطروں سے پُر ہے ، اس لیے وہ حالات کا مسلسل پتا لگاتا رہتا تھا اور جن قافلوں سے ملاقات ہوتی تھی ان سے کیفیت دریافت کرتا رہتا تھا ، چنانچہ اس کا جلد ہی یہ اندیشہ قوی ہوگیا کہ محمدﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قافلے پر حملے کی دعوت دے دی ہے ، لہٰذا اس نے فوراً ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکے بھیجا کہ وہاں جاکر قافلے کی حفاظت کے لیے قریش میں نفیر ِعام کی صدا لگائے۔ ضمضم نہایت تیزرفتاری سے مکہ آیا اور عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیڑی، کجاوہ الٹا ، کرتا پھاڑا اور وادی ٔ مکہ میں اسی اونٹ پر کھڑے ہو کر آواز لگائی: ''اے جماعت قریش ! قافلہ ... قافلہ ... تمہارا مال جو ابوسفیان کے ہمراہ ہے اس پر محمد (ﷺ ) اور اس کے ساتھی دھاوا بولنے جارہے ہیں۔ مجھے یقین نہیں کہ تم اسے پاسکو گے۔ مدد...مدد...''
یہ آواز سن کر لوگ ہر طرف سے دوڑ پڑے۔ کہنے لگے :محمد اور اس کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ یہ قافلہ بھی ابن حضرمی کے قافلے جیسا ہے ؟ جی نہیں ! ہر گز نہیں۔ اللہ کی قسم ! انہیں پتا چل جائے گا کہ ہمارا معاملہ کچھ اور ہے۔ چنانچہ سارے مکے میں دوہی طرح کے لوگ تھے یاتو آدمی خود جنگ کے لیے نکل رہا تھا یا اپنی جگہ کسی اور کو بھیج رہا تھا اور اس طرح گویا سبھی نکل پرے۔ خصوصاً معزز ین مکہ میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ صرف ابو لہب نے اپنی جگہ ایک قرضدار کو بھیجا۔ گردوپیش کے قبائل ِ عرب کو بھی قریش نے بھرتی کیا اور خود قریشی قبائل میں سے سوائے بنوعدی کے کوئی بھی پیچھے نہ رہا ، البتہ بنوعدی کے کسی بھی آدمی نے اس جنگ میں شرکت نہ کی۔
ابتدا میں قریش کے لشکر کی تعداد تیرہ سو تھی جن کے پاس ایک سو گھوڑے اور چھ سو زرہیں تھیں۔ اونٹ کثرت سے تھے جن کی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم نہ ہوسکی۔ لشکر کا سپہ سالار ابو جہل بن ہشام تھا۔ قریش کے نو معزز آدمی اس کی رسد کے ذمے دار تھے۔ایک دن نو اور ایک دن دس اونٹ ذبح کیے جاتے تھے۔
جیسا کہ قرآن تذکرہ کرتا ہے:
''اِ تراتے ہوئے، لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے ، اور اللہ کی راہ سے روکتے ہوئے ''،مدینہ کی جانب روانہ ہوئے۔ اور جیسا کہ رسول اللہﷺ کا بھی ارشاد:
''اپنی دھارا ور ہتھیار لے کر ، اللہ سے خار کھاتے ہوئے اور اس کے رسولﷺ سے خار کھاتے ہوئے ، جوشِ انتقام سے چور اور جذبۂ حمیت وغضب سے مخمور ، اس پر کچکچائے ہوئے کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے اہل ِ مکہ کے قافلوں پر آنکھ اٹھانے کی جرأت کیسے کی ؟
بہر حال یہ لوگ نہایت تیز رفتاری سے شمال کے رخ پر بدر کی جانب چلے جارہے تھے کہ وادی عسفان اور قدید سے گزرکر جحفہ پہنچے تو ابو سفیان کا ایک نیا پیغام موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ لوگ اپنے قافلے ، اپنے آدمیوں اور اپنے اموال کی حفاظت کی غرض سے نکلے ہیں اور چونکہ خدا نے ان سب کو بچا لیا ہے، لہٰذا اب واپس چلے جائیے۔
ابو سفیان کے بچ نکلنے کی تفصیل یہ ہے کہ وہ شام سے کاروانی شاہراہ پر چلا تو آرہا تھا لیکن مسلسل چوکنا اور بیدار تھا۔ اس نے اپنی فراہمی اطلاعات کی کوشش بھی دو چند کر رکھی تھیں۔ جب وہ بدر کے قریب پہنچا تو خود قافلے سے آگے جاکر مجدی بن عمرو سے ملاقات کی اور اس سے لشکر ِ مدینہ کی بابت دریافت کیا۔ مجدی نے کہاـ :''میں نے کوئی خلافِ معمول آدمی تو نہیں دیکھا البتہ دوسوار دیکھے جنہوں نے ٹیلے کے پاس اپنے جانور بٹھائے۔ پھر اپنے مشکیز ے میں پانی بھر کر چلے گئے۔'' ابو سفیان لپک کر وہاں پہنچا اور ان کے اونٹ کی مینگنیاں اُٹھا کر توڑ یں تو اس میں کھجور کی گٹھلی برآمد ہوئی۔ ابو سفیان نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ یثرب کا چارہ ہے۔ اس کے بعد وہ تیزی سے قافلے کی طرف پلٹا اور اسے مغرب کی طرف موڑکر اس کا رخ ساحل کی طرف کردیا اور بدر سے گزرنے والی کا روانی شاہراہ کو بائیں ہاتھ چھوڑدیا۔ اس طرح قافلے کو مدنی لشکر کے قبضے میں جانے سے بچالیا اور فوراْ ہی مکی لشکر کو اپنے بچ نکلے کی اطلاع دیتے ہوئے اسے واپس جانے کا پیغام دیا جو اسے جحفہ میں موصول ہوا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔