Sunday 24 May 2015

تزکیہَ نفس اور مکارم اخلاق کی محنت


اس حکمتِ بالغہ اور اس دُور اندیشی سے رسول اللہﷺ نے ایک نئے معاشرے کی بنیادیں اُستوارکیں، لیکن معاشرے کا ظاہری رُخ درحقیقت ان معنوی کمالات پر تھا جس سے نبیﷺ کی صحبت وہم نشینی کی بدولت یہ بزرگ ہستیاں بہرہ ور ہوچکی تھیں۔ نبیﷺ ان کی تعلیم وتربیت ، تزکیۂ نفس اور مکارمِ اخلاق کی ترغیب میں مسلسل کوشاں رہتے تھے اور انہیں محبت وبھائی چارگی ، مجدوشرف اور عبادت واطاعت کے آداب برابر سکھاتے اور بتاتے رہتے تھے۔
ایک صحابیؓ نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ کون سا اسلام بہتر ہے ؟ (یعنی اسلا م میں کون سا عمل بہتر ہے ؟) آپﷺ نے فرمایا : ''تم کھانا کھلاؤ اور شناسا اور غیرشناسا سبھی کو سلام کرو۔''(صحیح بخاری ۱/۶، ۹))
''اے لوگو! سلام پھیلاؤ ، کھانا کھلاؤ ، صلہ رحمی کرو، اور رات میں جب لوگ سورہے ہوں نماز پڑھو۔ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے۔''(ترمذی۔ ابن ماجہ ، دارمی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۸)
''مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔(صحیح مسلم ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲)''
فرماتے: ''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے۔''
اور فرماتے تھے :'' سارے مومنین ایک آدمی کی طرح ہیں کہ اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اگر سر میں تکلیف ہوتو سارے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے۔''(صحیح بخاری ۱/۶)
اور فرماتے :''مومن ،مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا بعض بعض کو قوت پہنچا تا ہے۔''(مسلم ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲)
اور فرماتے :'' آپس میں بغض نہ رکھو ، باہم حسد نہ کرو ، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے اوپر چھوڑے رہے۔''(متفق علیہ ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲ صحیح بخاری ۲/۸۹۰)
اور فرماتے :''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے دشمن کے حوالے کرے ، اورجو شخص اپنے بھائی کی حاجت (برآری) میں کوشاںہوگا اللہ اس کی حاجت (برآری) میں ہوگا ، اور جو شخص کسی مسلمان سے کوئی غم اور دُکھ دُور کرے گا اللہ اس شخص سے روز قیامت کے دُکھوں میں سے کوئی دُکھ دُور کرے گا ، اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔''(صحیح بخاری ۲/۸۹۶)
اور فرماتے:''تم لوگ زمین والوں پر مہربانی کرو تم پر آسمان والا مہربانی کرے گا۔''(متفق علیہ مشکوٰۃ ۲/۴۲۲)
اورفرماتے :''وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کھالے اوراس کے بازو میں رہنے والا پڑوسی بھوکا رہے۔''(سنن ابی داؤد ۲/ ۳۳۵۔ جامع ترمذی ۲/۱۴)
اور فرماتے :''مسلمان سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے اوراس سے مارکاٹ کرنا کفر ہے۔'' (شعب الایمان للبیہقی ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۴)
آپﷺ صدقے اور خیرات کی ترغیب دیتے تھے چنانچہ آپﷺ فرماتے کہ صدقہ گناہوں کو ایسے ہی بجھادیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے۔( احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ۔ مشکوٰۃ ۱/۱۴)
اور آپﷺ فرماتے کہ جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کوکپڑا پہنادے اللہ اسے جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلادے اللہ اسے جنت کے پھَل کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلادے اللہ اسے جنت کی مُہر لگی ہوئی شراب طہور پلائے گا۔''(سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۹)
آپﷺ فرماتے :''آگ سے بچو اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرکے ، اور اگر وہ بھی نہ پاؤ تو پاکیزہ بول ہی کے ذریعے۔''(ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۳)
اور اسی کے پہلو بہ پہلو دوسری طرف آپﷺ مانگنے سے پرہیز کی بھی بہت زیادہ تاکید فرماتے ، صبر وقناعت کی فضیلتیں سناتے اور سوال کرنے کو سائل کے چہرے کے لیے نوچ ، خراش اور زخم قرار دیتے۔0 البتہ اس سے اس شخص کو مُستثنیٰ قرار دیا جو حد درجہ مجبور ہوکر سوال کرے۔
اسی طرح آپﷺ یہ بھی بیان فرماتے کہ کن عبادات کے کیا فضائل ہیں اور اللہ کے نزدیک ان کا کیا اجر وثواب ہے؟ پھر آپﷺ پر آسمان سے جو وحی آتی آپﷺ اس سے مسلمانوں کو بڑی پختگی کے ساتھ مربوط رکھتے۔ آپﷺ وہ وحی مسلمانوں کو پڑھ کرسناتے اور مسلمان آپﷺ کو پڑھ کر سناتے تاکہ اس عمل سے ان کے اندر فہم و تدبر کے علاوہ دعوت کے حقوق اور پیغمبرانہ ذمّے داریوں کا شعور بیدار ہو۔
اسی طرح رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کی اخلاقیات بلند کیں ، ان کی خداداد صلاحیتوں کو عروج بخشا اور انہیں بلند ترین اقدار وکردار کا مالک بنایا ، یہاں تک کہ وہ انسانی تاریخ میں انبیاء کے بعد فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی کا نمونہ بن گئے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص کو طریقہ اختیار کرنا ہو وہ گزرے ہوئے لوگوں کا طریقہ اختیار کرے کیونکہ زندہ کے بارے میں فتنے کا اندیشہ ہے۔ وہ لوگ نبیﷺ کے ساتھی تھے۔ اس امت میں سب سے افضل ، سب سے نیک دل، سب سے گہرے علم کے مالک اور سب سے زیادہ بے تکلف۔ اللہ نے انہیں اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کی اقامت کے لیے منتخب کیا، لہٰذا ان کا فضل پہچانو اور ان کے نقش ِ قدم کی پیروی کرو اور جس قدر ممکن ہوان کے اخلاق اور سیرت سے تمسک کرو کیونکہ وہ لوگ ہدایت کے صراطِ مستقیم پر تھے۔ (رزین ، مشکوٰۃ ۱/۳۲)
پھر ہمارے پیغمبر رہبر اعظمﷺ خود بھی ایسی معنوی اور ظاہری خوبیوں، کمالات، خداداد صلاحیتوں ، مجد وفضائل مکارمِ اخلاق اور محاسن ِ اعمال سے متصف تھے کہ دل خودبخودآپ کی جانب کھنچے جاتے تھے اور جانیں قربان ہوا چاہتی تھیں۔ چنانچہ آپﷺ کی زبان سے جونہی کوئی کلمہ صادر ہوتا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی بجا آوری کے لیے دوڑ پڑتے اور ہدایت ورہنمائی کی جو بات آپﷺ ارشاد فرمادیتے اسے حرزِجان بنانے کے لیے گویا ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی بازی لگ جاتی۔
اس طرح کی کوشش کی بدولت نبیﷺ مدینے کے اندر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے جو تاریخ کا سب سے زیادہ باکمال اور شرف سے بھر پور معاشر ہ تھا اور اس معاشرے کے مسائل کا ایسا خوشگوار حل نکالا کہ انسانیت نے ایک طویل عرصے تک زمانے کی چکی میں پِس کر اور اتھاہ تاریکیوں میں ہاتھ پاؤں مارکر تھک جانے کے بعد پہلی بار چین کا سانس لیا۔
اس نئے معاشرے کے عناصر ایسی بلند وبالا تعلیمات کے ذریعے مکمل ہوئے جس نے پوری پامردی کے ساتھ زمانے کے ہر جھٹکے کا مقابلہ کرکے اس کا رُخ پھیر دیا اور تاریخ کا دھارابدل دیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔