پچھلے صفحات میں بتایا جاچکا ہے کہ کفارِ مکہ نے مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے اور جب مسلمانوں نے ہجرت شروع کی تو ان کے خلاف کیسی کیسی کارروائیاں کی تھیں جن کی بنا پر وہ مستحق ہوچکے تھے کہ ان کے اموال ضبط کر لیے جائیں اور ان پر بزن بول دیا جائے۔ مگر اب بھی ان کی حماقت کا سلسلہ بند نہ ہوا اور وہ اپنی ستم رانیوں سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر ان کا جوشِ غضب اور بھڑک اُٹھا کہ مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹ نکلے ہیں اور انہیں مدینے میں ایک پُر امن جائے قرار مل گئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے عبد اللہ بن اُبی کو...جو ابھی تک کھلم کھلا مشرک تھا...اس کی حیثیت کی بنا پر ایک دھمکی آمیز خط لکھا کہ وہ انصار کا سردار ہے۔ کیونکہ انصار اس کی سربراہی پر متفق ہوچکے تھے اور اگر اسی دوران رسول اللہﷺ کی تشریف آوری نہ ہوئی ہوتی تو اس کو بادشاہ بھی بنا لیے ہوتے ...مشرکین نے اس خط میں عبد اللہ بن اُبیّ اور اس کے مشرک رفقاء کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک لفظوں میں لکھا :
''آپ لوگوں نے ہمارے آدمی کو پناہ دے رکھی ہے ، اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یاتو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجیے یا اسے نکال دیجیے یا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کردیں گے اور آپ کی عورتوںکی حرمت پامال کرڈالیں گے۔'' (ابوداؤد : باب خبر النضیر ۲/۱۵۴)
اس خط کے پہنچتے ہی عبد اللہ بن اُبیّ مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ پڑا۔ اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبیﷺ کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپﷺ ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے ، چنانچہ جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بت پرست رفقاء کو موصول ہو ا تو وہ رسول اللہﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔ جب نبیﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا : ''قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادینا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ تم اپنے بیٹو ں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟ نبیﷺ کی یہ بات سن کر لوگ بکھر گئے۔ (ابوداؤد: باب مذکورہ ۲/ ۵۶۳)
اس وقت تو عبد اللہ بن اُبی جنگ کے ارادے سے باز آگیا کیونکہ اس کے ساتھی ڈھیلے پڑ گئے تھے یا بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی لیکن حقیقت میں قریش کے ساتھ اس کے روابط درپردہ قائم رہے کیونکہ مسلمان اور مشرکین کے درمیان شَر وفساد کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتا تھا۔ پھر اس نے اپنے ساتھ یہود کو بھی ساتھ رکھا تھا تاکہ اس معاہدے میں ان سے بھی مدد حاصل کرے ، لیکن نبیﷺ کی حکمت تھی جو رہ رہ کر شَرّوفساد کی بھڑ کنے والی آگ بجھا دیا کرتی تھی۔ (اس معاملے میں دیکھئے : صحیح بخاری ۲/۶۵۵ ، ۶۵۶، ۹۱۶، ۹۲۴)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔