Sunday, 24 May 2015

نئے معاشرے کی تشکیل - مسجدِ نبوی کی تعمیر


ہم بیا ن کر چکے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مدینے میں بنو النجار کے یہاں جمعہ ۱۲ ؍ ربیع الاول ۱ ھ مطابق ۲۷؍ ستمبر ۶۲۲ ء کو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان کے سامنے نزول فرمایا تھا اور اسی وقت فرمایا تھا کہ ان شاء اللہ یہیں منزل ہوگی۔ پھر آپﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر منتقل ہوگئے تھے۔
اس کے بعد نبیﷺ کا پہلا قدم یہ تھا کہ آپﷺ نے مسجد ِ نبوی کی تعمیر شروع کی اور اس کے لیے وہی جگہ منتخب کی جہاںآپﷺ کی اونٹنی بیٹھی تھی۔ اس زمین کے مالک دویتیم بچے تھے۔ آپﷺ نے ان سے یہ زمین قیمتاً خریدی اور بنفس ِنفیس مسجد کی تعمیر میں شریک ہوگئے۔ آپﷺ اینٹ اور پتھر ڈھوتے تھے .
اس زمین میں مشرکین کی چند قبریں بھی تھیں، کچھ ویرانہ بھی تھا۔ کھجور اور غَرْ قَد کے چند درخت بھی تھے۔ رسول اللہﷺ نے مشرکین کی قبریں ہٹوا دیں ، ویرانہ ختم کرادیا ، اور کھجور وں اور درختوں کو کاٹ کر قبلے کی جانب لگادیا۔ ...اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا...دروازے کے بازو کے دونوں پائے پتھر کے بنائے گئے۔ دیواریں کچی اینٹ اور گارے سے بنائی گئیں۔ چھت پر کھجور کی شاخیں اور پتے ڈلوادیئے گئے اور کھجور کے تنوں کے کھمبے بنادیے گئے۔ زمین پر ریت اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں (چھریاں) بچھادی گئیں۔ تین دروازے لگا ئے گئے۔ قبلے کی دیوار سے پچھلی دیوار تک ایک سو ہاتھ لمبائی تھی۔ چوڑائی بھی اتنی یااس سے کچھ کم تھی۔ بنیاد تقریباًتین ہاتھ گہری تھی۔
آپﷺ نے مسجد کے بازو میں چند مکانات بھی تعمیر کیے جن کی دیواریں کچی اینٹ کی تھیں اور چھتیں کھجور کے تنوں کی کڑیاں دے کر کھجور کی شاخ اور پتوں سے بنائی گئی تھی۔ یہی آپﷺ کی ازواج مطہرات کے حجرے تھے۔ ان حجروں کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد آپﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان سے یہیں منتقل ہوگئے۔( صحیح بخاری ۱ /۷۱ ، ۵۵۵ ، ۵۶۰ - زاد المعاد ۲/۵۶۔)
مسجد محض ادائے نماز ہی کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ایک یونیورسٹی تھی جس میں مسلمان اسلامی تعلیمات وہدایات کا درس حاصل کرتے تھے اور ایک محفل تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش ونفرت اور باہمی لڑائیوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد اب میل محبت سے مل جل رہے تھے۔ نیز یہ ایک مرکز تھا جہاں سے اس ننھی سی ریاست کا سارانظام چلایا جاتا تھا اور مختلف قسم کی مہمیں بھیجی جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں اس کی حیثیت ایک پارلیمنٹ کی بھی تھی جس میں مجلسِ شوریٰ اور مجلس ِ انتظامیہ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ یہ مسجد ہی ان فقراء مہاجرین کی ایک خاصی بڑی تعدادکا مسکن تھی جن کا وہاں پر نہ کوئی مکان تھا نہ مال اور نہ اہل وعیال۔
پھر اوائل ہجرت ہی میں اذان بھی شروع ہوئی۔ یہ ایک لاہوتی نغمہ تھا جو روز انہ پانچ بار اُفق میں گونجتا تھا اور جس سے پورا عالمِ وجود لرز اٹھتا تھا۔ یہ روز انہ پانچ مرتبہ اعلان کرتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی لائق عبادت نہیں اور محمدﷺ اللہ کے پیغامبر ہیں۔ یہ اللہ کی کبریائی کو چھوڑ کر ہر کبریائی کی نفی کرتا تھا اور اس کے بندے محمد رسول اللہ کے لائے ہوئے دین کو چھوڑ کر اس وجود سے ہر دین کی نفی کرتا تھا۔ اسے خواب میں دیکھنے کا شرف ایک صحابی حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہؓ کو حاصل ہوا اور رسول اللہﷺ نے اسے برقرار رکھا اور یہی خواب حضرت عمر بن خطابؓ نے بھی دیکھا۔ (تفصیل جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، مسند احمد اور صحیح ابنِ خزیمہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے )( ترمذی ، صلاۃ ، بدء الاذان ح ۱۸۹ (۱/۳۵۸ ، ۳۵۹ ) ابو داؤد ، احمد وغیرہ۔)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔