Friday 20 May 2016

بحران بھی آئیں تو اس امت کے لئے خیر ہی لاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ملحدین جگہ جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرتے نظر آتے ہیں، بعض اوقات کچھ خبیث ایسی غلط باتیں کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ گالیوں کے ایسے اشعار پوسٹ کرتے اور آئی ڈی بناتے ہیں کہ دیکھ کر خون کھولنے لگتا ہے۔۔ یہ نادان نہیں سمجھتے کہ اپنی ان حرکتوں سے اس نبی کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے بلکہ خود کو ہی گندہ کرتے ہیں ، اسکی رفعت شان دن بدن بڑھتی ہی ہے ۔ ۔ چند سال پہلے جب مغربی میڈیا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے چھاپے اور فتنہ نام کی فلمیں بنائیں بقول ایک مشہور مصنف :
“اس مسئلہ کے اٹھ کھڑا ہونے کی دیر تھی، بیشتر غیر مسلم ملکوں میں سیرتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرکتب دھڑا دھڑ فروخت ہوئیں اور وہاں کے اسلامی مراکز میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا تعارف پانے کیلئے منعقد نشستوں میں شریک لوگوں کی قطاریں لگ گئیں۔ خود اہلِ اسلام کو سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی وعملی پہلوؤں کی جانب توجہ کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر محسوس ہوئی!
عین یہ موقعہ تھا جب سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے اس دور کے مناسب حال تصنیفات کی شدید کمی محسوس کی گئی اور اس پر کام کرنے والوں کو عمل کی ایک نئی مہمیز ملی! عین یہ موقعہ تھا جب ’نبوت‘ اور ’آسمانی صحیفے‘ اور ’ادیان‘ ایسے عنوان دنیا کے پڑھے لکھوں کے مابین پھر سے موضوعِ بحث بننے لگے، جس سے بعید نہیں خود بہت سے مسلمانوں نے اپنے نبی سے تعارف کا ایک از سر نو موقعہ پایا ہو۔ اس جدل کا، جو اب بہت دلچسپ ہوتی جارہی ہے، ہم بھی کچھ تذکرہ کریں گے۔
کچھ شقی دلوں پر خدا کی حجت قائم ہوتی نظر آئی۔
کیا کافر کیا مسلم، دنیا کا کوئی شخص ایسا نہ رہا ہوگا جس نے ذرائع ابلاغ کے اندر لڑی جانے والی اس جنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی ہر روز کئی بار نہ سنا ہو۔ کچھ تو ہوں گے جو یہ پوچھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخر ہیں کون؟ کچھ تو ہوں گے __جو آپ کے بارے میں دریافت کرنے کیلئے__ آپ کا ٹھٹھہ کرنے والے شرپسندوں کی بجائے آپ پر ایمان رکھنے والے مصادر سے رجوع کریں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و وابستگی کی ایک تجدید نو اس موقعہ پر ہر صاحب ایمان کے حصہ میں آئی۔دشمن نے اس امت کی رگوں میں زندگی کی وہ رمق دیکھی جس کا وہ اپنی مریل قوموں میں تصور تک نہ کرسکے۔
امت کے ایک بڑے طبقے نے ”اللہ و رسول کیلئے دوستی اور اللہ و رسول کیلئے دشمنی“ کے عملی اسباق لئے۔ خود شناسی اور خودداری کی ایک نئی جہت برآمد ہوئی۔ خود کفیلی کی جانب اس امت کا طویل المیعاد سفر، جو ملٹی نیشنلز کے چاکلیٹوں اور سافٹ ڈرنکس کیلئے پائے جانے والے ’نخرے‘ اور ’منہ کے مزے‘ کے باعث ذہنوں کی دنیا تک میں معطل پڑا تھا، ایک نئی کروٹ لے کر شروع ہو۔۔ اور خدا کرے کہ اب یہ سفر آگے سے آگے بڑھے، جب تک کہ یہ امت اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو جاتی!
۔۔۔۔ بحران بھی آئیں تو اس امت کیلئے خیر ہی لاتے ہیں !
رسول اللہ ﷺ کے حق میں بولنا آدمی کے لئے ایک غیرمعمولی شرف ہے۔خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اندر آپ کی شان سے فروتر بات کرنے والے کو جواب آپ کی طرف سے نہیں بلکہ کسی امتی کی طرف سے ملتا تھا اور نہایت خوب مناسب جواب ملتا تھا۔ پھر آج تو یہ حق ہے ہی امت پر کہ وہ اپنے نبی کے اس مقام اور ناموس کا تحفظ کرے کہ کوئی بدزبان اس کو پہنچنے کی جسارت نہ کرے۔
’امتی‘ آخر ہیں کس لئے؟؟؟
یہ حسانؓ بن ثابت ہیں جو ابو سفیان کو جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔یہ ایک امتی ہے جو اپنے نبی کے حق میں بولنے کے لئے اٹھا ہے اور اس کا صلہ صرف اور صرف خدا کے ہاں پانے کا امیدوار ہے:
وَعِندَ اللّٰہِ فِی ذَاکَ الجَزَاء ھَجَوتَ مُحَمَّداً فَاجَبتُ عَنہُ
”تم نے محمد ﷺ کی تنقیص کی۔سنو اس کا جواب میں دیتا ہوں۔ اس پر میرا صلہ کسی کے دینے کا ہے تو وہ خدائے رب العالمین کی ذات ہے“
شاعر صلے اور داد کی طلب سے بے پرواہ نہیں ہوسکتا۔یہ شاعر بھی ’صلے‘ سے بے فکر نہیں۔مگر ممدوح کی عظمت کا تقاضا ہے کہ داد پانے کے لئے خدائے رب العالمین سے کم کہیں نگاہ نہ ٹکے!
فَشَرّکُمَا لِخَیرِکُمَا الفِدَاء اتَھجُوہُ وَلَستَ لَہ بِکُفءٍ
”تم محمد ﷺ کے منہ آتے ہو۔ کیا تم ان کے برابر کوئی چیز ہو سہی؟ تم اور وہ، جو کمتر ہے وہی بہتر پر وارا جائے گا“
چاند پر تھوکنے والے کو ہمیشہ آئینہ دیکھنے کی ضرورت رہتی ہے۔ اپنی یہ تصویر دیکھنا اس کا حق ہے:
اتھجوہ ولست لہ بکفءٍ!!!
تم میں اور ان میں کوئی نسبت بھی تو ہو۔۔۔۔!
اُس شخص کے بارے میں جو ڈیڑھ ہزار سال سے ایک آدھی دنیا کو خدائے وحدہ لاشریک کے آگے پوری بصیرت کے ساتھ سجدہ ریز کرانے کا ذریعہ بنا آیا ہے اور تہذیب انسانی پر جس کے نشاناتِ انگشت سب سے نمایاں ہیں اور مشرق تا مغرب ہر محقق کو اُس کی عظمت کے نئے سے نئے پہلو تلاش کرنے کی بابت تجسس دلاتے ہیں اس برگزیدہ ہستی کی بابت تم جو ہرزہ سرائی کرنے جارہے ہو تمہاری ان کے سامنے کوئی اوقات بھی تو ہو!
ایک ایسے ماحول سے اٹھ کر جہاں خاندانی قدریں تباہ ہوچکی ہیں اور آدھی قوم اپنے والد سے شرفِ تعارف کا ذریعہ نہیں پاتی اور جہاں شجرۂ نسب ’ہسپتال‘ سے آگے نہیں بڑھتے اور جہاں خون کے رشتے ’ڈی این اے‘ میں تلاش کرنا پڑتے ہیں اور جہاں اکثر پائے جانے والے انسان ’غلطی‘ یا ’چوک‘ کا نتیجہ باور ہوتے ہیں اور یا پھر کسی ’حادثے‘ کا۔۔ اور جہاں سے دنیا کو انارکی و برہنگی کے علاوہ عالمی جنگوں اور تباہ کن بارودوں کے تحفے مل چکے ہیں۔۔۔۔ ایک ایسے ماحول سے اٹھ کر تم خدا کے نبیوں کو تہذیب اور امن کا طعنہ دینے چلے ہو!؟
بخدا، آج ہمیں ان شاعروں اور ادیبوں کی ضرورت ہے جو صرف ’نعت‘ کہنا نہیں بلکہ وقت کے زندیقوں کو اپنے نبی کی جانب سے ’جواب‘ بھی دینا جانتے ہوں اور جواپنے ادب کے اس رجزومعرکہ پرصلہ محض خدا سے پانے کے متمنی ہوں۔
خدایا! ہمارے شاعروں اور ادیبوں کو ”ایمان“ کا لحن دے!”
یہ گرد نہیں بیٹھے گی از حامد کمال الدین

مکمل تحریر >>

جانتے ہو۔۔

سات نسلوں کا تعارف ہے یہ لہجہ
جب کوئ بولے تو نام ونسب کُھلتاہے

° جانتے ہو لہجہ کسے کہتے ہیں ___________؟
ابولہب و عقبہ بن ابی معیط ہم دیوار تھے رسول اللہ صلى الله عليه و آله وسلم کے ____ ابو لہب کی تو جیسے روزی ہی اسی سے وابستہ تھی ____ صبح ہوتے ہی گھر کا سارا گند دیوار پہ چڑ ھ رسول اللہ کے صحن میں ڈال آتا __
اور روز صبح رسول المبین صلى الله عليه و آله وسلم مُسکرا کے،
دروازے کی اوڑ سے نکل کر صرف اتنا کہتے _____
“”چچا____!! اے بنو عبد المناف تم ہی کہو یہ کیسی ہمسائیگی ہے____؟

° جانتے ہو برداشت کسے کہتے ہیں________؟؟؟
محمد صلى الله عليه و آله وسلم سجدے میں ہیں عقبہ بن ابی محیط آتا ہے چادر اُتار کے گردن کے گرد ڈال کے اس زور سے کستا ہے کہ سجدے میں بلبلا اُٹھے __ ابو بکر دوڑ کے آتے ہیں _ دھکا دے کے الگ کرتے ہیں ___
عقبہ پلٹا __ حضرت صدیق اکبر کی داڑھی اور سرکو اس زور سے گھسیٹا کہ داڑھی کے اکثر بال نچ گئے اور اس نے ان کا سر پھوڑ دیا،
جواباً منہ سے اتنا کہا ___
”اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللّٰہ ___
کیاتم اک ایسے شخص کو مار ڈالنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے____؟؟

° جانتے ہو ظرف کسے کہتے ہیں_________؟؟؟
خطبہ حجتہ الوداع اونٹی پہ کھڑے ہو کے کہنے لگے _____
“”دور جاھلیت کے تمام جھگڑے آج ملیا میٹ کرتاہوں __ پہلا خون جو آج باطل کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث ، عبدالمطلب کے بیٹے کا ہے””__
( ربعیہ بن حارثہ چیچرا بھائ تھا جسکے بیٹے عمر کو بنو ہذیل نے قتل کر دیا تھا )_________!!!

° جانتے ہو بے بسی کسے کہتے ہیں _______؟؟؟
طائف کی گلی ہے ___
محمد صلى الله عليه و آله وسلم , بدن دُریدہ کہ جنکے لہو میں تر بتر نم آلود سراسیمہ دیدے ہیں ___ ٹکٹکی باندھ آسماں کو تکے جاتے ہیں ___ داڑھی باراں می‍ں ڈوب کے ڈوبی چلی جاتی ہے ___
پہلو میں زید بن حارثہ کھڑے ہیں ___
جانتے ہو وہ کیا کہ رہے تھے ____؟؟؟
“”اپنی کمزوری بے سرو سامانی اور لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے قدری کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں اے رحم کرنے والے !تو ہی در ماندہ عاجزوں کا مالک ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے یہ تو نے مجھے کن لوگوں میں آکر ڈال دیا ؟؟ بےگانہ تُرش رُو یا اس دشمن کے جسے میرے معاملے پر قابو ہے ؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کسی مصیبت کی پرواہ نہیں کیونکہ تیری حفاظت و عافیت میرے لئے بہت وسیع ہے، تیری ذات کے نور کی پناہ میں آتا ہوں جن سے تمام اندھیرے اجالے بن جا تے ہیں، دنیا وآخرت کے تمام کام سنور جاتے ہیں،تیری ناراضی یا غصہ مجھ پر نہ ہو مجھے تیری ہی رضا مندی اور خوشنودی درکار ہے نیکی کرنے اور بدی سے محفوظ رہنے کی طاقت تیری ہی طرف سے ملتی ہے“_____!!!!
تحریر مہران درگ

LikeComment
مکمل تحریر >>

روحِ محمدی اس کے بدن سے نکال دو۔۔

چچ نامے میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کے آنے سے پہلے ہندوستان کا جو حکمران تھا، اس کو کسی نجومی نے مشورہ دیا کہ تم فلاں لغواور غیر اخلاقی حرکت کرو تو بادشاہت پر قائم رہو گے پرانی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ جو شخص فلاں غیر اخلاقی حرکت کرے گا وہ بادشاہت حاصل کرے گا۔
بادشاہ نے کہا کہ یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ میں اگر ایسی حرکت کروں گا تو لوگ کیا کہیں گے۔ نجومی یا وزیر نے کہا کہ لوگ کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن بادشاہ کو تامل تھا . مشورہ دینے والے وزیر نے ایک بھیڑ منگوائی جس کے بال بہت بڑے بڑے تھے۔ اس کے بالوں میں ایک خاص مصالحہ لگایا جس سے بال بہت لمبے ہو گئے اور اس کی کمر ہاتھی کے سائز کی ہو گئی۔ بادشاہ سے کہا کہ اس بھیڑ کو شہر میں لوگوں کو دکھانے کے لیے نکالیں۔ چنانچہ اس عجیب و غریب بھیڑ کو دیکھنے کے لیے پورا شہر امڈ آیا۔ سارے شہر میں ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔ پورے شہر میں چرچا ہو گیا کہ ایک عجیب طرح کی بھیڑ آئی ہے جو ہاتھی کے سائز کی ہے۔ تمام دن سب لوگ اسی موضوع پر بات کرتے رہے۔ شہر میں اور کوئی کام نہیں ہوا۔ بازار بند ہو گئے۔
دوسرے دن پھر بھیڑکو شہر کی گلیوں میں پھرانے کے لیے نکالا تو آدھے لوگ آئے۔ تیسرے دن کوئی نہیں آیا۔ جس وزیر نے یہ مشورہ دیا تھا اس کا نام بدھیمن تھا۔ بدھیمن نے کہا کہ آپ کے ساتھ بھی یہی ہو گا۔ پہلے دن لوگ بہت تذکرہ کریں گے۔ دوسرے دن تھوڑا سا ذکر کریں گے۔ تیسرے دن کچھ نہیں کہیں گے۔
شاید اہلِ مغرب نے بدھیمن نجومی کا مشورہ پڑھا ہوا ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً اس طرح کی بھیڑیں نکالتے رہتے ہیں۔ توہینِ رسالت کے جو واقعات وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں یہ کوئی اتفاقی واقعات نہیں۔ یہ واقعات بڑے غور و خوض اور سوچ سمجھ کر کیے جاتے ہیں۔ جو قومیں دنیا پر حکومت کر رہی ہیں۔ جو دنیا کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ جو مسلمانوں کے اندونی احساسات کا پتہ چلانے کے لیے ادارے بناتے ہیں۔ اس کام پر کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے آئندہ عزائم کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں۔ ان کو یہ ضرور معلوم ہو گاکہ ذاتِ رسالتِ مآب کے بارے میں مسلمانوں کا رویہ کیا ہے۔ اس طرح کے واقعات جب ایک ایک کرکے پیش آتے جائیں گے تو جو مسلمانوں کے اندر کے جذبات ہیں وہ نکلتے جائیں گے۔ایک مرحلہ خدانخواستہ ایسا آسکتا ہے اور ان کا اندازہ یہی ہے کہ ایسا مرحلہ آنے والا ہے کہ توہینِ رسالت کا ارتکاب ہو اور مسلمان کسی ردعمل کا اظہار نہ کریں۔ جب وہ مرحلہ خدانخواستہ آجائے تو پھر وہ اگلے مرحلے کا آغاز کریں گے جس میں اس وابستگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے جو اقدامات انہوں نے سوچ رکھے ہیں وہ کریں گے۔
اس سب کے ساتھ ساتھ گزشتہ دو سو برس سے یہ کام بھی ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کی توجہات کو ایسے غیر عملی مسائل میں اُلجھا دیا جائے جو مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم بھی کرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی قوتِ عمل کو بھی ختم کرتے رہیں۔
میں نے عرض کیا تھا کہ سیرت کے بارے میں بعض ایسے سوالات جو مسلمانوں میں کبھی نہیں اُٹھے تھے۔ انیسویں صدی میں اٹھے۔ آخر انیسویں صدی میں کیا نئی بات ہوئی تھی۔ انیسویں صدی ہی میں وہ مسائل کیوں اٹھائے گئے۔ ؟؟
وجہ صرف ایک ہی سمجھ میں آتی ہے۔ یہ مسائل مسلمانوں میں اس لیے اٹھ سکے کہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی حاکم ہو گئی تھی۔ اس لیے اُٹھے کہ ہندوؤں میں سے بہت سے طبقات کو انگریزیوں نے کھڑا کرکے اس کام پر مامور کر دیا تھا کہ مسلمانوں کے عقائد پر حملے کریں۔ یہ آریہ سماجی اور برہمو سماجی از خود تو کھڑے نہیں ہوئے تھے۔ یہ کسی خاص ہدف کی خاطر کھڑے کردیے گئے تھے۔ یہ مسلمانوں پر حملے کرنے پر انیسویں ہی میں کیوں آمادہ ہوئے۔ اس لیے کہ کسی نے ان کو آمادہ کیا تھا ورنہ یہ حملے بہت پہلے بھی ہوسکتے تھے ۔ مسلمانوں پر دورِ زوال کئی بار آیا۔ برصغیر میں کئی بار مسلمان سیاسی طور پر کمزور ہوئے اور کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ مسلمانوں کی حکومت یہاں ختم ہوتے ہوتے رہ گئی ۔ لیکن کبھی اس طرح کی تحریکات اور اعتراضات نہیں اُٹھائے گئے جو انگریزوں کے آنے کے بعد اٹھائے گئے ۔ اس لیے قوی امکان یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب واقعات اور مظاہر ایک منصوبے کا حصّہ تھے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی وابستگی کمزور کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
(از محاضراتِ سیرت۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی، ص 723-725 )
بشکریہ ایقاظ
مکمل تحریر >>

اے بادشاہ! ہم کہ بت پوجتے اور مردار کھاتے تھے!

”اے بادشاہ! ہم لوگ ایک ایسی قوم تھے کہ سر تا سر جاہلیت میں گرفتار تھے۔
بت پوجتے تھے۔
مردار کھاتے تھے۔
بدکاریاں کرتے تھے۔
ہمسایوں کو ستاتے تھے۔
بھائی بھائی پر ظلم کرتا۔
طاقتور کمزور کو کھا جاتا۔دریں اثنا، ہم میں ایک شخص پیدا ہو، جس کی شرافت اور صدق ودیانت سے ہم لوگ پہلے سے واقف تھے۔
اُس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی۔
اُس نے ہمیں سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں۔ سچ بولیں۔
خون ریزی ترک کر دیں۔
یتیموں کا مال نہ کھائیں۔
ہمسایوں کو آرام دیں۔
پاک دامن عورتوں پر بدنامی کا داغ لگانا چھوڑ دیں۔
نماز پڑھیں۔ روزہ رکھیں۔ زکوٰۃ دیں۔
ہم اس پر ایمان لائے۔ شرک اور بت پرستی چھوڑ دی اور تمام اعمال بد سے دامن کش ہو گئے۔
اِس جرم پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہوگئی اور ہم کو مجبور کرتی ہے کہ اسی گمراہی میں پھر واپس جائیں“
(مہاجرین حبشہ کا بیان، بہ لسانِ جعفر بن ابی طالبؓ، روبروئے نجاشی(مسند احمد رقم: 21460))
مکمل تحریر >>

Thursday 19 May 2016

قبیلہ طے کے غنڈے اس دن کہاں چلے جائیں گے؟


یہ عدیؓ بن حاتم طائی ہیں، جو تاج دارِ مدینہ کی کٹیا میں آپ کو دم بخود ہو کر سن رہے ہیں۔۔ کیا واقعتا دنیا سر تا پیر بدل جانے والی ہے اور یہ جن چور اچکوں سے بھری ہوئی ہے وہ کیسے ولی بن جائیں گے؟!مگر حیران کیوں ہوں، اِس ہستی کے ساتھ عالمِ بالا کا اتصال ہونے پر آسمانوں میں پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں تو زمین پر اِس کی راہ میں تبدیلیاں رونما ہوجانا کیا بڑی بات ہے!
قبیلہ ٔ طئے کے رہزن، عرب میں ضرب المثال مانے جاتے ہیں۔ حِیرہ سے حضرموت تک انہی کی مار ہے۔ اِسی ’طئے‘ کے یہ ایک سردار ہیں جو اپنی بہن کے ترغیب دلانے پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ عدیؓ کہتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی سے مجھے (بطور اعزازِ خاص) اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ راستے میں ایک بے حال بڑھیا آپ کو روک کر کھڑی ہو گئی۔ بڑی دیر تک آپ اُسکی بات سنتے اور اُسکا مسئلہ حل کرتے رہے۔ میں نے دل میں کہا: یہ بادشاہ تو ہرگز نہیں ہوسکتا! گھر میں ایک ہی تکیہ، جس میں کھجور کی چھال بھری ہے، آپ مجھے دے دیتے ہیں کہ اُس پر بیٹھوں اور میرے انکار کے باوجود مجھے ہی اس پر بٹھا دیتے ہیں اور خود میرے سامنے زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں نے پھر دل میں کہا: یہ شخص بادشاہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا!تب آپ مجھ سے مخاطب ہوتے ہیں:
عدی! تجھے کیا چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو کہہ دے ’اللہ کے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں‘؟۔۔۔۔ تو کیا تجھے کوئی نظر آتا ہے جو پوجا کے لائق ہو؟
عدی! تجھے کیا چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو کہہ دے ’اللہ سب سے بڑا ہے‘؟۔۔۔۔ تو کیا کوئی ہے جو اللہ سے بڑا ہو؟
عدی! کیا تجھے یہ چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو دیکھ رہا ہے آج ہمارے ہاں تنگ دستی نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور دنیا ہماری مخالفت میں تلی بیٹھی ہے؟ عدی! کیا تو نے حِیرہ دیکھ رکھا ہے؟ میں نے عرض کی، حِیرہ میرا دیکھا ہوا تو نہیں مگر جانتا ہوں کہاں واقع ہے۔ فرمایا: تو پھر اگر تیری زندگی رہی تو تو دیکھ لے گا، حیرہ سے ایک عورت ذات کجاوے میں بیٹھی تن تنہا بیت اللہ کا طواف کر کے جاتی ہے پورا راستہ سوائے اللہ کے اُسے کسی کا ڈر نہیں، نہ کسی کی پناہ میں آتی ہے اور نہ کسی کی ضمانت میں۔ (اور میں جی ہی جی میں سوچ رہا تھا: تو ’طئے‘ کے غنڈے اُس دن بھلا کہاں چلے جائیں گے!)
پھر فرمایا: عدی! اگر تیری زندگی رہی تو دیکھ لے گا کہ کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح ہو کر آتے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا فرمایا: کسریٰ بن ہرمز؟؟؟! فرمانے لگے: ہاں کسریٰ بن ہرمز!!!
عدی! اگر تیری زندگی رہی تو دیکھ لے گا کہ ایک آدمی سونے یا چاندی سے مٹھی بھر کر نکلتا ہے اور آواز لگاتا ہے کہ کوئی یہ صدقہ وصول کر لے، مگر اُسے کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملتا!
بخاری کے الفاظ ہیں
عدیؓ نے (راوی کے ساتھ گفتگو میں) کہا: (اکیلی)عورت کجاوے میں حیرہ سے طوافِ بیت اللہ کیلئے روانہ ہوتی میں خود دیکھ چکا ہوں جسے (راستے میں) خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ تھا۔ کسریٰ بن ہرمز کے خزائن جس لشکر نے لئے میں خود اُس میں شامل تھا۔ اور اگر تم لوگوں کی زندگی رہی تو (تیسری چیز بھی) تم دیکھ لوگے۔
(یہ واقعہ ہم نے، اختصار کے ساتھ، متعدد مصادر سے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے، جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
صحیح البخاری، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوۃ فی ال اِسلام
سنن الترمذی، کتاب: التفسیر، باب: ومن سورۃ فاتحۃ الکتاب
مسند اَحمد، اَول مسند الکوفیین، حدیث عدی بن حاتم الطائی رضی اللہ عنہ
مکمل تحریر >>

معجزے ہر تو کیے ہیر

ہَل تَطلُبُونَ مِن المُختَارِ معجزۃ
یَکفِیہِ شَعب ٌ مِنَ الَجدَاثِ اَحیَاہُ!
اِس برگزیدہ ہستی سے معجزہ مانگتے ہو! یہ کم تو نہیں کہ پوری کی پوری ایک قوم اُس نے قبروں سے اٹھا نکالی اور اُس کی رگوں میں زندگی دوڑا دی!
مَن وَحَّدَ العَرَبَ حَتّیٰ کَانَ وَاتِرُہُم
اِذَا رَ اَیٰ وَلَدَ المَوتُورِ آخَاہُ
کیا یقین کرنے کی بات ہے کہ کسی نے ’عرب‘ کو شیروشکر کر ڈالا؟! یہاں تک کہ قاتل اور مقتول کی اولاد اپنا انتقام بھول کر بھائی بھائی بن گئے!

وَکَیفَ سَاسَ رُعَۃ ال اِبِلِ مَملَکَۃ
مَا سَاسَہَا قَیصِر ٌ مِن قَبلُ اَو شَاہُ
صحرا کے شتربان کیونکر جہاں بانی کرنے لگے، اور جہانبانی ایسی جو کسی ’سیزر‘ کے بس میں رہی ہو اور نہ کسی ’شاہ‘ کے!

سَنّوا المُسَاوَۃ لا عَرَبَ وَلا عَجَمَ
مَا لِامرِیئٍ شَرَف ٌ اِلّا بِتَقوَاہُ
شتر بانوں نے وہ مساوات قائم کر دکھائی کہ عرب عرب رہے اور نہ عجم عجم! آدمی کے پاس دکھانے کو کوئی رتبہ ہی باقی نہ رہا، سوائے یہ کہ وہ خدا سے کتنا ڈر کر رہتا ہے!

وَقرَرتُ مبدَ اَ الشوّریٰ حکومتہم
فَلَیسَ لِلمَرءِ ما تمناہُ
اور بقیہ زمانے کیلئے اصول ٹھہرا دیا کہ ان کی حکومت کی اساس شوریٰ ہے، یہ نہیں کہ ہر شخص کی جو مرضی آئے وہ کرتا پھرے!

وَرَحَّبَ الَّناسُ بِال اِسلامِ حِینَ رَ اَوا
اَنَّ السَّلامَ وَ اَنَّ العَدلَ مَغزَاہُ
اِس اسلام کو لوگ خوش آمدید نہ کہتے تو اور کیا کہتے!!!؟ کیا دیکھ نہیں رہے تھے کہ سلامتی اور عدل ہی تو اِس دین کا لب لباب ہے؟!

یَا مَن رَ اَیٰ عُمَراً تَکسُوہُ بُردَتَہُ
وَالزَّیتُ اَدُم ٌ لَہُ وَالکُوخُ مَ اَوَاہُ
ارے اے مورخ جس نے پیوند پوش عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ رکھا ہے، وہ عمر جس کا سالن روغن کے سوا کچھ نہیں اور جس کی آرام گاہ کٹیا سے زیادہ نہیں!

یَہتَزُّ کِسریٰ عَلیٰ کُرسِیّہ فَرقاً
مِن بَ اَسِہ مُلُوکُ الرُّومِ تَخشَاہُ
مگر یہی عمر ہے جس کے ڈر سے کسریٰ اپنے تخت پہ بیٹھا تھر تھر کانپتا ہے اور جس کی شدتِ گرفت سے رومن شہنشاہوں پر لرزہ طاری ہے!

(مصر کے شاعر محمود غنیم کے مشہور قصیدہ ”رُعاۃُ الاِبل“ سے چند اشعار)
مکمل تحریر >>

خلقت مبرا من کل عیب

اس کا مشاہدہ آپ اکثر کریں گے۔ کسی ایک میدان میں کوئی انسان اگر ’بڑا‘ اور ’قابل ذکر‘ ہو جائے تو یہ اس کے بہت سے میدانوں میں ’چھوٹا‘ اور ’ناقابل ذکر‘ ہونے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ بہت سے انسان دیکھے گئے جو اگر کسی ایک بات میں ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی پر ہوں گے تو کسی دوسرے پہلو سے بحرۂ مردار سے بھی نیچے گرے ہوئے ہوں گے“۔
یہ بات بے انتہا سچ ہے ۔۔۔۔
اکثر مشہور فاتح نجی زندگی میں نہایت بدخصلت دیکھے گئے۔
اکثر فلسفی اور مفکر عمل کے میدان میں صفر بھی نہیں ہوتے۔
جن شاعروں کی غزلیں اور ’محبت‘ کے گیت قریہ قریہ گائے جاتے ہیں اور جن ادیبوں کے تخلیقی شہ پاروں سے لوگ زبان کا ذوق پاتے ہیں ان کی ذاتی زندگی میں اکثر اُلو بولتے سنے گئے اور وہ اپنے قریب کے لوگوں پر بے انتہا بھاری دیکھے گئے۔۔ لوگ ان سے صرف مشاعروں اور کتابوں کے اندر رہ کر ہی محظوظ ہوتے ہیں۔
اکثر سیاستدان میدانِ جنگ کے شہسوار نہیں ہوتے۔
میدانِ کارزار کے جری بہادر، فکر وفلسفہ اور علم ودانش کے مردِ میدان نہیں ہوتے۔
اکثر سماجی کارکن گھریلو زندگی میں ایک کامیاب مثال نہیں دیکھے گئے۔
اکثر لیڈروں کے اہل خانہ، دوست احباب اور عزیزوں کیلئے، ان لیڈروں کے پاس ’وقت‘ نہ ہونے کے گلے کرتے سنے گئے ہیں۔
اکثراخلاق کے داعی جو باعمل بھی ہوں حکمرانی میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ اخلاق کا اصل امتحان ہوتا ہی تب ہے جب اختیارات کا تاج سر پر رکھا ہو۔
اکثر عبادت گزار معاشرے کے گھمسان سے گزرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں، کجا یہ کہ وہ سرکش معاشروں کی ’ننگی پیٹھ‘ پر چڑھ بیٹھیں اور ان کو سدھا لینے کا برتہ رکھیں۔
تجارت کے دھنی، دلیری میں نام پیدا کرتے کبھی کم ہی سنے گئے ہوں گے۔
سفارت اور ڈپلومیسی کے محاذ پر سرگرم لوگ یتیموں، بیواؤں اور بے سہاراؤں کیلئے پریشان پھرتے اور دولتمندوں کو ان کی خدمت کیلئے مسخر کرتے کبھی کم ہی دیکھے گئے ہوں گے۔
امور قانون کے ماہرین تزکیہ وتربیت اور امور شخصیت سازی میں مستند مرجع کم ہی کبھی مانے گئے ہوں گے۔
حکمائے نفس کیا کبھی اقتصادیات میں بھی منفرد ترین اسکول آف تھاٹ ہوئے ہیں؟
عمرانیات کے استاد ’علم قلوب‘ میں نام پیدا کرتے کہاں سنے گئے ہیں؟
فوجوں اور خزانوں کے مالک زہد اور درویشی میں بھی مثال ہوں حتی کہ دُنیا کے بڑے بڑے زاہد اُنہی کے زہد کی مثال دیں اور اُنہی سے زہد کے اسباق لیں، ایسا کبھی ہوا ہے؟
پس اصل عظمت تو یہ ہے کہ آدمی ہر پہلو سے بڑا ہو۔ پر یہ کہاں سب کیلئے میسر ہے۔
یہاں دیکھئے، کسی ایک میدان میں عظمت دیکھنی ہو تو اس کی انتہا نہیں۔ پھر یہ سب انتہائیں ایک ہی جگہ اکٹھی ہوں اور عظمت کے اتنے لاتعداد پہلو کسی ایک ہی انسان میں اس بے ساختگی کے ساتھ مجتمع ہوں!
تاریخ انسانی کے اتنے بڑے بڑے اعزاز ایک ہی شخصیت میں سما جائیں اور وہ تب بھی ہلکا پھلکا لاپرواہی سے یہاں صرف ”الرفیق الاَعلیٰ“ کا سوال کرے ۔۔۔۔ دِن کے اتنے کارنامے راتیں سجدہ وقیام میں خدا کے ساتھ بسر ہونے میں مانع نہ ہو پائیں اور وہ خدا سے مانگے تو صرف آخرت ۔۔۔۔ گھر میں دو دو تین تین ماہ چولہا جلنے کی نوبت نہ آئے اور کھجور کی سخت چٹائی سوتے ہوئے نرم جلد میں پیوست ہو جایا کرے اور اسے اس بات کی پرواہ تک نہ ہو ۔۔۔۔ یہ ہیں محمد ﷺاللہ کے بندے اور اس کے رسول!!!
جیسے جیسے کسی انسان کا ستارۂ قسمت بلند ہو ویسے ویسے ہی خدا کی کبریائی کے آگے اس کا سر نگوں ہو اور ویسے ویسے ہی اس کی زبان پر خدا کی تعریف وتسبیح اور اپنے قصور پر استغفار کا ورد سنا جانے لگے ۔۔۔۔ بندگی کی ایسی خوبصورت تصویر محمد ﷺسے بڑھ کر آپ کو کہاں ملے گی!!!
اور آج یہ ہستی میدانِ عرفات میں کھڑی ہے۔ حدِ نگاہ تک اِس کا تربیت یافتہ ’جزیرۃ العرب‘ اِس کا ایک ایک لفظ سننے کیلئے مجسم شوق ہوا بیٹھا ہے۔ تاریخ یہاں تھم گئی ہے۔ ابھی چند ہی سال پہلے اِسی مکہ سے جان بچا کر حبشہ میں پناہ گزیں اِس کے پیروکاروں کی ایک چھوٹی سی جماعت اپنی قوم کی حالت یوں بیان کر کے ہٹی ہے:
اَیہا الملک! کنا قوماً اَہلَ جاہلیۃ (12)
”اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہلیت میں گرفتار قوم تھے۔۔
اور آج یہیں سے ’ورلڈ ڈیکلیریشن‘ جاری ہوتا ہے:
اَلا و اِن کل شیئٍ من اَمر الجاہلیۃ موضوع تحت قدمَیَّ ہاتین(13)
سن لو! جاہلیت کا پورا دستور میرے اِن دونوں پیروں کے نیچے ہے!
حکومتیں تو بہت لوگ کر گئے، محمدﷺ کے سوا مگر کون ہے جس کی راہ میں تاریخ یوں بچھ گئی ہو؟
محمدﷺ کے علاوہ کون ہے جس نے سرکش زمانے کو یوں سدھا لیا ہو؟
کون ہے جس نے صالح مقاصد کیلئے کرہ ٔ ارض کے اندر اِس کامیابی کے ساتھ تصرف کیا ہو؟
کون ہے جس نے اِس قدر ہمہ جہت انقلاب اِس دھرتی پر اِس سے پہلے یا اِس کے بعد برپا کیا ہو اور خیر کا ایک ایسا ریلا یہاں بہا دینے میں کامیاب ہوا جو پوری زمین کو اپنے زیرِ آب لے آنے کی صلاحیت رکھے؟
مکمل تحریر >>

عالمی نبوت اور آخری نبوت


آنحضورﷺ کی اپنی قوم نہ یہودی تھی اور نہ عیسائی۔ مگر آپ نے یہود ہی نہیں نصاریٰ کے ساتھ بھی پورا اتر کر دکھایا! یہ کوئی محدود سطح کی نبوت ہوتی، جیسا کہ اِس سے پہلے کی نبوتیں ہوتی رہی ہیں، تو ضرورت ہی نہ تھی کہ آنحضور اِن ہر دو گروہ کے ساتھ طویل جدال کریں، آپ کی اپنی قوم کے عقلاءکی ایک بڑی تعداد تو مکہ میں اور پھر یہود کے ساتھ پالا پڑنے سے بہت پہلے مدینہ میں ہی آپ پر ایمان لے آئی تھی اور اُن کے لئے تو وہ معجزات کافی تھے جو وہ اپنی آنکھوں دیکھ چکے تھے!
وہ طویل مناظرے جو آنحضورﷺ نے یہود اور نصاریٰ ہر دو کے ساتھ کئے اسی لئے تو تھے کہ سب سے پہلے آپ کی اپنی قوم اور پھر پوری دنیا دیکھ لے نبوتوں کا تسلسل کیونکر محمد رسول اللہﷺ پر اختتام پزیر ہوا ہے۔
یہ سب تو تھا ہی اِسی لئے کہ دراَصل یہ عالمی نبوت ہے اور آخری نبوت ہے! لہٰذا اِس کے ماسوا اگر کسی کو حق رکھنے کا زعم ہے (یقینا ہمارا ایمان ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو ملنے والی اصل تعلیمات حق ہی تھیں، ہم اُس وقت کی بات کر رہے ہیں جب آخری نبوت میدان میں آئی خصوصاً یہود اور نصاریٰ کا محمدﷺ کو قبول نہ کرنا) تو وہ اِس نبی کے جیتے جی سامنے آلے کہ اِس دعوت کو پھر پوری دنیا کے عقلاءتک پہنچنا ہے۔
بائبل کا عہدِ جدید پڑھیں تو سچائی کا وہ اعتماد مسیح علیہ السلام کی شخصیت میں بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے جو یہودی فریسیوں کے روبرو مسیح ؑ کے خطبوں سے مترشح ہے۔ سچائی کی ایک اپنی زبان ہوتی ہے اور وہ خود بخود بولتی ہے۔ عام حالات میں یہ ایک حقیقت ہے پھر نبوت ایسی سچائی سامنے آئے تو تب کیا یہ حقیقت بول بول کر اپنا آپ نہ بتائے گی؟! وہ لوگ جنہوں نے بائبل کے عہدِ جدید میں یہودی فریسیوں کے روبرو مسیح ؑ کا اعتماد دیکھا ہے وہ ذرا قرآن کی سورۃ البقرۃ اور سورۃ آلِ عمران پڑھ لیں، سورۃ البقرۃ احبارِ یہود کے روبرو اور سورۃ آلِ عمران علمائے نصاریٰ کے روبرو!!! علاوہ ازیں حدیث اور سیرت کی کتابوں سے وہ مناقشے پڑھ لیں جو نبی آخر الزمانﷺ اور یہودونصاریٰ کے چوٹی کے علماءکے مابین پیش آئے، اور پھر فیصلہ کر لیں کہ سچائی جب آدمی کے پاس ہو تو وہ کیونکر بولتی ہے!
حق کی قوت ہی تو اِس نبی کی دعوت میں بولتی ہے! اِس حقانیت کی گواہی عقلائے عالم نے جتنی اِس نبی اور اِس رسالت کے حق میں دی اور کس کے حق میں دی؟؟؟!
دلائل، بینات، آیات، معجزات، عقلی شواہد، آسمانی مؤیدات، تاریخی حقائق، قلوب پر وارد ہونے والی کیفیات، شریعت کے محیر العقول خصائص، شخصی اوصاف، عظیم اخلاق، فتوحات،تحصیلِ اہداف، جو کچھ کہا وہ پورا ہوا، بدترین دشمنوں کا بالآخر آپ پر ایمان لا کر عقیدت اور فدائیت کی آخری حد تک چلے جانا اور ایک دو نہیں ایسے بے حساب اَن گنت واقعات کا رونما ہوتے چلے جانا۔۔ یہ سب کچھ اِس نبی کی زندگی میں یوں وافر پایا جاتا ہے کہ انسان کے متاثر ہو ہو جانے کے یہاں ہزار ہا پہلو سامنے آجاتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

شریعتِ محمدی کا وصف


کیا اعتراض اُس چیز پر ہو جو پہلے بھی انبیاءکے ہاں پائی گئی، جبکہ اُن انبیاء پر اِن لوگوں کا ایمان بھی ہو بلکہ ان انبیاء اور ان انبیاءکے صحیفوں پر ایمان لانے کی دعوت بھی یہی لوگ دیتے پھر رہے ہوں؟!! اعتراض اس پر تو کریں کہ کوئی چیز انبیاء کے ہاں تھی اور اِس نبی کے ہاں پائی جانے سے رہ گئی!!!
وہ سب خیر جو پہلے انبیاء کے ہاں متفرق پائی گئی، اِس نبی کے ہاں مجتمع پائی گئی اور بے حد وافر!!!
صاف بات ہے، یہ ایک عالمی رسالت ہے اور قیامت تک کیلئے زمین پر خدا کی مہر۔ اِس کے بعد کچھ آنا اب باقی ہی نہیں۔ لہٰذا اِس رسالت کو زمین میں کوئی خصوصی کردار ملتا ہے اور اُسی کی مناسبت سے اِس کو نصرت دی جاتی ہے تو یہ خدا کے فیصلے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ وہ کونسی چیز ہے جس پر گزشتہ نبوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے واقعی کوئی علمی اعتراض بنتا ہو؟
پس یہ ایک کامل شریعت ہے یعنی پوری انسانی زندگی کو محیط، جس میں امن بھی آتا ہے اور جنگ بھی، جس میں فرد کے مسائل بھی شامل ہیں اور امورِ معاشرہ بھی، جس میں مصلیٰ بھی ہے اور تخت بھی۔ محراب بھی اور ایوان بھی۔ خدا کیلئے سجدہ ریز نمازی بھی اِسی کے محکوم ہیں اور حق کیلئے برسر پیکار افواج بھی اِسی کے ایک ایک حرف کی پابند۔ خانگی مسائل اِس کے دائرہ سے باہر ہیں اور نہ دیوانی و فوجداری قضایا۔ ذکر و تسبیح کے آداب اِس کی قلمرو سے خارج ہیں اور نہ ایوان ہائے صنعت و تجارت سے متعلقہ احکام۔
یہ سب مسائل ’دائرہء شریعت‘ میں آتے ہیں، جس کے انسانوں تک پہنچائے جانے کا واحد ذریعہ وقت کا نبی ہوتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جس نے ’نبیوں‘ اور ’پیغمبروں‘ کا لفظ تو سنا ہو مگر ’شریعت‘ کا لفظ نہ سنا ہو؟؟؟ پیغمبر ’شریعت‘ دے کر نہیں جاتےتو وہ دنیا میں کرنے کیا آتے ہیں؟؟؟؟؟!!
یہ لوگ انصاف پسند ہوں تو خود شہادت دیں گے کہ کوئی ایک چیز بھی ایسی نرالی نہیں جو اِس آخری آسمانی شریعت میں نبوتوں اور شریعتوں کے سب معیار توڑ کر آگئی ہو۔ ہاں کچھ خصوصیات ہیں کہ شرائع کا جو اصل جوہر ہے وہ یہاں بامِ عروج پر نظر آتا ہے!
اِس رسالت کی بابت خاص بات یہی ہے کہ خدا نے اپنے اِس آخری نبی کی زندگی اِس قدر بھرپور اور اِس قدر گوناگوں جہت رکھی، کہ زندگی اور سماج کے ہر ہر عقدہ سے اِس کی آنکھیں چار ہوئیں اور حیاتِ انسانی کے سب لاینحل مسئلے اِس کی حق آگاہ پیش قدمی کے آگے خدا کے فضل سے بچھتے چلے گئے۔ یوں اِن سب پہلوؤں سے اس نے شریعت پر پورا اتر کر دکھایا اور عمل سے حیات انسانی کے اِن سب پہلوؤں کو متحقق کیا۔ اِس ہستی کی تشریعی جہتوں سے واقف ہونے کیلئے زیادہ نہیں آپ حدیث کی معروف کتب میں سے کوئی ایک کتاب اٹھاکر پڑھنا شروع کردیجئے، آپ دنگ رہ جائیں گے کہ زیستِ انسانی کے ہزاروں پہلو ہیں اور ہر ہر پہلو پر اِس نبی سے رشد و ہدایت کی جھڑیاں برس رہی ہیں!!! ہر ہر موضوع پر مفصل تعلیم اور عمیق بنیادیں!!!
خدایا! کسی ضابطہء حیات کو صدیوں میں ارتقاء نصیب ہوتا ہے؛ بہت چھوٹی سی ’ابتدا‘ ہوتی ہے اور ’بانی‘ شخصیت نے تو کم ہی کوئی تفصیلی مواد چھوڑ رکھا ہوتا ہے؛ بہت سی بنیادیں ’بعد میں‘ ہی جا کر رکھی جاتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ بہت سی شخصیات کا حصہ ڈَل ڈَل کر نسلوں بعد کوئی ’چیز‘ بنتی ہے، مگر یہاں ایک ہی شخص ہزارہا پہلوؤں سے انسانی زندگی کی فکری، عملی، شعوری، اخلاقی، سماجی، خانگی، معاشی، سیاسی، جنگی، ڈپلومیسی غرض سب بنیادیں واضح واضح الفاظ میں اور ٹھوس اعمال کی صورت رکھ کر جاتا ہے اور پھر امت کے ہزاروں عباقرہ geniuses، نسل در نسل، اِن بنیادوں کی صرف شرح اور توضیح کا فریضہ انجام دیتے ہیں!!! اور ”شرح و تفسیر و تطبیق“ کے اِس عمل میں اُس کے بولے ہوئے ایک ایک لفظ اور اُس سے صادر ہونے والے ایک ایک فعل کو سامنے رکھنے کے باقاعدہ پابند ہوتے ہیں بلکہ وہ اِس ہستی کے الفاظ اور افعال کی روشنی میں ایک دوسرے سے اختلاف، یہاں تک کہ ایک دوسرے کا محاکمہ کرتے ہیں!!! کسی ایک آدھ شعبے میں نہیں، ”انسان“ کے تعلق سے زیربحث آنے والے ہر ہر شعبے میں!!! پھر چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد اور انسانی زندگی کی اِس حیرت انگیز توسیع ہو جانے کے باوجود، انسانی ضرورت کے ہر ہر مسئلے کا حل اِس ہستی کے اقوال اور افعال میں سے ہی کمال ربط کے ساتھ مل جاتا ہے اور حیرت انگیز طور پر معاشرے کی صلاح وفلاح کو یقینی بنا کر دکھاتا ہے، یوں کروڑوں انسانوں کی زندگی میں اور جدید سے جدید حالات میں اُس سے ’ہدایت‘ پانے کا یہ عمل مسلسل و بلا انقطاع جاری رہتا ہے!!!

حامد کمال الدین
مکمل تحریر >>

اِس دین پر کھر کوئی کیوں فدا نہ ہو۔

دلیل کی قوت، حقانیت کا رعب ، سادگی، گہرائی، گیرائی، بے ساختگی، قوتِ منطق، وحدتِ مضمون (consistency) اور وسعتِ بیان ۔۔ پھر ایک صاف شفاف روحانیت، وحدانیتِ خداوندی، خالق کی تعظیم اور کبریائی، خالق کی تسبیح و پاکیزگی کے نہایت گہرے مگر سادہ ترین پیرائے اور پھر اِن پیرایوں کی حیرت انگیز کثرت اور تنوع اور تکرار، مخلوق کا فقر وعاجزی اور مخلوق کی اوقات کا اُس کے آگے صحیح صحیح تعین، نفس کے تزکیہ و تطہیر کے فطری و پر تاثیر اسلوب۔۔
پھر شریعت ایسی سادہ، مفصل، جامع، آسان، عملی، دقیق، نرم اور پر لطف کہ انسان کا انگ انگ خدا کی اطاعت میں جکڑا جائے اور وہ زندگی میں قدم قدم پر اور نہایت متنوع انداز میں ”بندگی“ کی اِس روح پروَر کیفیت سے گزرے اور ’خدا کا پابند‘ ہونے کے احساس سے لبریز ہو ہو جائے،
نہ روح اپنے حصے سے محروم رہے اور نہ جسم اور نہ عقل، نہ احساس اور نہ وجدان، نہ فرد اور نہ معاشرہ۔۔!!!
کسی نبی کی تنقیص اور نہ کسی کتاب کی تکذیب! سمعنا و اَطعنا، غفرانک ربنا!!!
کوئی اگر مگر نہ کوئی حیل و حجت، تاویل نہ انکار! تحریف اور نہ پیچیدگی!
کوئی ’پہیلی‘ اور نہ کوئی ’معمہ‘!!!
زندگی، وجود، کائنات، انسان، تاریخ، عقل، سماج، علم، فکر، اخلاق، ثقافت، ہر ہر موضوع پر سادہ لفظ، پَر معانی کے سمندر۔۔
کسی ’اعتراض‘ سے بھاگنا اور نہ کسی ’سوال‘ سے آنکھیں چرانا! نہ دھونس اور نہ زبردستی!
ہر سوال کا تشفی بخش جواب اور پھر قبول کرنے یا نہ کرنے کی پوری آزادی
کافر و مسلم ہر کسی کے ”حقوق“ سے متعلق مفصل ہدایات!
”راواداری“ کا ایک ایسا صحیح و صریح منہج جس میں کوئی تصنع اور نہ منافقت اور نہ ’کیمرے کے رنگ‘!
خیر کے ہر ہر منصوبے میں ہر مذہب اور ہر پس منظر کے لوگوں کے ساتھ اشتراکِ عمل!
اعلیٰ ظرفی و کشادہ دلی!!!
ہر کسی کی بھلائی کا جواب اس سے بڑھ کر بھلائی سے دینے کی ترغیب!!!
بلکہ برائی کا جواب بھلائی سے دینے کی تاکید!!!
عفو و درگزر کی ترغیب میں اِس کا ایک ہی جملہ ہر مذہبی کتاب اور ہر اخلاقی فلسفے کو پیچھے چھوڑ گیا ہو: وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ !!!
برائی پر ہاتھ ڈالنے کا حکم وہیں جہاں پُر امن اسلوب فائدے سے بڑھ کر نقصان دہ ثابت ہو اور اُس برائی کا سدباب نہ ہونا فساد فی الارض کی راہ ہموار کرتا اور مخلوق کے ساتھ زیادتی شمار ہوتا ہو!!!
مکارمِ اخلاق اور عالی اَقدار کی ایسی عملی تفصیل کہ کسی مذہب کی کتاب اِس کے مقابلے میں پیش ہی نہ کی جا سکے!!!
پھر۔۔۔۔ ہر ہر چیز کی سند اور ہر ہر بات کے لئے وثائق!!!
مختصر یہ کہ۔۔ ”خدا کا دین“!!! جسے اُس نے اِس دور کے انسان کیلئے کامل ترین حالت میں، کرہء ارض کے معلوم و موثوق ترین شخص کے ذریعے، دنیا کی زرخیز ترین زبان میں، تاریخ انسانی کے مستند ترین مصادر سے، زمین کے سب براعظموں کیلئے، آسان ترین صورت میں، دستیاب کر رکھا ہے اور جس کو مخلوق کیلئے قیامت تک اپنے یہاں ”پسندیدہ“ و ”قابلِ قبول“ ٹھہرا دیا ہے، اور اِس پر ہزاروں دلائل کرہء ارض پر پھیلا رکھے ہیں:
”آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت تمام کر دی، اور تمہارے لئے اِس طرزِ فرماں برداری (اسلام) کو ہی پسندیدہ ٹھہرا لیا ہے“۔(المائدۃ: 3)
اِس دین پر پھر کون فدا نہ ہو!!! جسے اِس کی ہم سری کا دعویٰ ہو وہ دکھائے بھی تو کہ اُس کے پاس کیا ہے!!!
حامد کمال الدین
مکمل تحریر >>

وہ جس نے ریگزاروں میں پھول کھلائے


جس کسی نے عربوں کی زندگی چند سال پہلے دیکھ رکھی ہو، کیا وہ یقین کرسکتا ہے کہ عمرؓ بن الخطاب ایسا سردارِ بنی مخزوم، جو کبھی عکاظ کے میلوں میں چمپئن ہوا کرتا تھا اور جوکہ آج بھی عرب کا سردار ہے بلکہ ’سپریم پاور‘ کا فرماں روا ہے۔۔ حبش کے سیاہ فام بلالؓ کو توقیر دیتے ہوئے آج یوں گویا ہوتا ہے:
ہذا سیدنا اَعتقہ سیدنا اَبو بکر!(8)
”یہ ہمارے آقا ہیں، اِن کو ہمارے آقا ابو بکرؓ نے آزاد کیا تھا!!!!!“
کون ہے جو اِس منظر پر قربان نہ ہوجائے!!! عرب کا وہ ریگزار اور اُس کے وسط میں ایسا مہکتا پھول!!!
خدایا! کون ہے جس کے دم سے ایک ایسا بنجر لہلہانے لگا؟؟؟!!!
٭٭٭٭٭وہ کون مبارک ہستی ہے جس نے معصوم لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی سفاک رسم عرب میں درگور کرائی؟ صرف دو آیات جو عرب کی کایا پلٹ گئیں! جنہیں پڑھتے ہوئے عربوں کی ہچکی بندھ جایا کرتی تھی!؟ سننے والے سہم جاتے تھے!؟ یہ دو مختصر آیتیں جو اِس گناہ میں ملوث رہ چکے لوگوں کے گرد حصار باندھ کر کھڑی ہوجاتی تھیں یہاں تک کہ ضمیر کی قید بن جاتیں بلکہ تو پھندا نظر آتیں:
وَإِذَا الْمَوْؤُودَة سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: 9-8)
”اور جس دن زندہ درگور کر دی جانے والی معصوم جان سے پوچھا جائے گا، بھلا کس جرم میں وہ مار دی گئی تھی“؟
٭٭٭٭٭
ایک ’کم زور‘ مخلوق جو کبھی خود ’ترکہ‘ شمار ہوتی تھی، کس نے اس کو وراثت میں ’زورآور‘ کے ساتھ باقاعدہ ”حصہ دار“ بنا دیا:
لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا (النساء: 7)
”مردوں کے لئے حصہ ہے اُس میں جو ماں باپ اور اعزاءو اقارب چھوڑ گئے۔ عورتوں کے لئے حصہ ہے اُس میں جو ماں باپ اور اعزاءو اقارب چھوڑ گئے۔ ترکہ چاہے تھوڑا ہے چاہے زیادہ۔ حصہ مقرر ہے“
کہاں وہ خود ’ترکہ‘ تھی، کہاں اب وہ ’ترکہ‘ میں حصہ بٹاتی ہے، کیونکہ اِس قوم میں ایک نبی مبعوث ہو چکا ہے!
سورہ ٔ نساءکی تفسیر کرنے والا کوئی مؤلف نہ ہوگا جس نے یہ ذکر نہ کیا ہو کہ باپ مر جاتا تو بیٹے صرف اپنی سگی ماں کو چھوڑنے کے روادار ہوتے اور، باپ کے مرتے ہی، اُس کی باقی بیوگان کے گلے میں پٹکے ڈال دینے کیلئے بھاگتے کہ ’یہ میری ہوئی‘۔۔ اور اِس جہالت کے مدمقابل یہ نبی جو خدا کے حق کے سوا کبھی کسی بات پر غضب ناک ہوتا نہ دیکھا گیا، خدائی دستور یوں جاری کراتا ہے:
وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَة وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلاً (النور:22)
”اور ان عورتوں سے زوجیت نہ کرو جن سے تمہارے باپ کی زوجیت رہی، سوائے وہی جو بس پہلے ہو لیا، یہ بے حیائی ہے اور گھناؤناپن، اور برے انجام کو پہنچانے والا ہے“
اور اِس خدائی دستور پر سختی ایسی کہ براءبن عازبؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے چچا کو سرکاری جھنڈا لہرائے جاتا دیکھا۔ پوچھا، تو کہنے لگے: ”رسول اللہﷺ نے روانہ فرمایا ہے کہ ایک شخص جس نے اپنے باپ کی منکوحہ کو اپنے گھر میں ڈال لیا ہے، اُس کا مال ضبط اور اُس کو سزائے موت دے کر آؤں“۔ یہ حدیث چاروں سنن میں آئی ہے، جبکہ ترمذی میں الفاظ ہیں: ”اُس آدمی کی طرف، جس نے اپنے باپ کی منکوحہ کو گھر میں ڈال رکھا ہے، کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں اُس کا سر لا کر پیش کروں“ (سنن النسائی: کتاب النکاح: باب: نکاح ما نکح الآباء)
٭٭٭٭٭
عرب کا وہ ماحول ذرا ذہن میں لائیے جہاں چند دھیلوں کیلئے آدمی کا خون کر دینے سے دریغ نہیں ہوتا۔ لُوٹنے کیلئے راستوں میں گھات لگا کر بیٹھا جاتا ہے۔ دوسرے کی کسی چیز کی حرمت ہو، اِس کا تو سوال ہی نہیں۔ مال، نہ جان، نہ آبرو، کسی چیز کی عصمت نہیں۔ خود آدمی کو بیچ کھایا جاتا ہے۔ جو جس کے ہاتھ چڑھا وہ اُس کا!ایک دوسرے کا حق دبانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا، بلکہ اِس پر فخریہ کارنامے سنائے جاتے ہیں!
اِدھر سورہ ٔ نور کی ایک آیت ہے۔۔۔۔ جب تک آپ اِس کا سادہ مفہوم پڑھتے ہیں اور تفسیر میں بیان کئے گئے اِس کے سیاق و سباق میں نہیں جاتے تو حیران ہونے لگتے ہیں کہ کیا یہ بھی کوئی ایسی بات تھی جس کو تفصیلاً بتا دینے کیلئے آیات اتریں:
”اندھے پر کچھ حرج نہیں، لنگڑے پر کچھ حرج نہیں، بیمار پر کچھ حرج نہیں، تمہارے اپنے اوپر کچھ حرج نہیں، کہ کھا لیا کرو تم اپنے گھر سے، یا اپنے باپ کے گھر سے، یا اپنی ماں کے گھر سے، یا اپنے بھائی کے گھر سے، یا اپنی بہن کے گھر سے، یا اپنے چچا کے گھر سے، یا اپنی پھوپھی کے گھر سے، یا اپنے ماموں کے گھر سے، یا اپنی خالہ کے گھر سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں، یا اپنے دوست کے گھر سے۔۔ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ کھا لیا کرو تم سب مل کر یا الگ الگ۔۔۔۔“ (النور: 61)
آخر وہ کونسا ’حرج‘ ہے جس کو آیت میں اِس تاکید کے ساتھ رفع کیا جا رہا ہے؟ اور یہ کونسی خاص بات ہے کہ آدمی اپنے اِن تعلق داروں کے ہاں کسی وقت کھا لیا کرے؟؟؟ مگر اِس کا شانِ نزول پڑھئے، آپ دنگ رہ جائیں گے: خدایا! نبیﷺ نے اپنے تیار کردہ اِس معاشرے کو عفت کے کس آسمان پر پہنچا دیا ہے!!!
سیاقِ نزول سے یہ کھلتا ہے کہ:
لوگ غزوا ت پر نکلتے ہیں تو گھروں کی دیکھ بھال کیلئے اپنے اُن عزیزوں اور دوستوں کو کنجیاں دے جاتے ہیں یا ویسے تاکید کر جاتے ہیں جو معذور ہونے کی وجہ سے جہاد سے پیچھے رہیں گے۔ کوئی نابینا ہے، کوئی لنگڑا تو کوئی کسی عارضے میں گرفتار۔ کسی کا سسرال ہے تو کسی کا ننھیال تو کسی کا ددھیال تو کسی کی یاری دوستی ، صاحبِ خانہ کی غیر موجودگی میں اہل خانہ کی خبر رکھنی ہے یا ویسے ہی گھر خالی ہے اور اُس میں شب بسری کی حامی بھر رکھی ہے۔ یہاں کھانے کا وقت ہو جاتا ہے تو آدمی کو خوف لاحق ہے کہ مردِ خانہ کی غیر موجودگی میں، جبکہ اُس کی جانب سے اجازت کی صراحت نہیں ہوئی، کیونکر اُس کے گھر سے دو لقمے کھا لئے جائیں، بے شک وہ کتنا ہی قریبی عزیز کیوں نہیں، چونکہ شرعی قاعدہ ہے کہ مومن کا مال اُس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں! یہاں ہدایت کی جاتی ہے کہ اِس میں وہ حرج محسوس نہ کریں، ’اِن‘ گھروں سے کھا لینے میں مضائقہ نہیں، گھر والے ہوں تو اُن کے ساتھ، اور نہ ہوں تو اُن کے بغیر، اور پوچھے بنا۔ اتنی اتنی بات پر دوستوں رشتہ داروں کے مابین ’اجازت‘ درکار نہیں اور اِن حدود کے اندر رہتے ہوئے ایک بے تکلفی بھی اہل ایمان کے مابین ضروری ہے!
یہ حکمِ شرعی جو اِس آیت میں بیان ہوا اپنی جگہ، مگر وہ فضا جس میں یہ حکم نازل ہوا اور وہ معاشرہ جس میں یہ ’وضاحت‘ کر دینے کی ”ضرورت“ پڑی۔۔۔۔ خودوہ فضا اور وہ معاشرہ کیا خدا کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی نہیں!!!؟؟ امانت اور خداخوفی میں ایک پورا ’سماج‘ کیا یہاں تک جاسکتا ہے، اور بھلا دیر کتنی ہوئی ہے؟!! خدایا! کیا یہ وہی معاشرہ ہے جو چند سال پیشتر بلادِ عرب میں پایا جاتا تھا!!!!!!
کون یہ معجزے کر رہا ہے؟؟! اور کب ایسے معجزے دنیا میں کہیں دیکھے گئے؟؟! چند اشخاص نہیں، پورا معاشرہ ہی تو بدل کر رہ گیا ہے!!!
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (الجمعۃ:2)
”وہی تو ہے جس نے امیوں کے مابین ایک رسول کھڑا کیا، خود انہی میں سے، جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے، اور انکو دھوتا مانجھتا ہے، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یقینا وہ اِس سے پہلے ایک
کھلی گمراہی میں ہی تو تھے“
٭٭٭٭٭

ایک عرب ادیب، احمد حسن الزیات لکھتے ہیں:
”دُنیا میں رسول اللہﷺمبعوث ہوئے تو وہ چیز جسے دُنیا آج ’آزادی‘ کے نام سے جانتی ہے، بڑی دیر سے سپرد خاک ہوئی پڑی تھی۔ ’آزادی‘ کو آپ نے اس کی قبر اکھاڑ کر نہ نکالا ہوتا تو اس پر اترانے والے آج اس کا چہرہ تک نہ دیکھ پاتے!
”دُنیا میں رسول اللہ ﷺمبعوث ہوئے تو عقلوں پر بہت بڑے بڑے تالے پڑے تھے۔ خدا کے اس فرستادہ نبی نے ہتھوڑے برسا برسا کر عقلوں پر پڑے ہوئے زنگ آلود قفل توڑے اور لوگوں سے اس پر بہت کچھ سنا تاآنکہ جہالت اور خرافات کی یہ زنجیریں ٹوٹیں اور وہ عقل جس پر یہ دُنیا ناز کرتی ہے انسان کو واپس ملی اور وہ علم جس پر یہ اتراتی ہے اس کے دَر تک پہنچا!
”انسان کو یہ سکھانا کب آسان تھا کہ سبقت کا میدان نیکی اور فضیلت ہے اور تفوُّق پانے کی بنیاد خیر اور اچھائی! محمد ﷺکے دم سے انسان کو معلوم ہوا کہ تعاونِ باہمی کی بنیاد ’مقاصد‘ ہوا کرتے ہیں نہ کہ ’قوم‘ اور ’قبیلے‘ اور ’پیدائشی رشتے‘۔ یہ ایک بہت بڑی زقند تھی جو انسان کو تاریخ کے اِس عہد میں بھرنا نصیب ہوئی۔ تب یوں ہوتا ہے کہ ایک آدھی دُنیا کے اندر مختلف جنسوں اور رنگوں اور ملکوں کے لوگ ہاتھوں میں ہاتھ دے کر نیکی اور تقوی کے ہزاروں اجتماعی منصوبے پروان چڑھانے میں لگ جاتے ہیں اور پھر جہان میں بے انتہا حسین قدروں کی تعمیر شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔
”رسول اللہ ﷺمبعوث ہوئے تو پہلی بار دنیا نے جانا کہ ’قلوب‘ کو ’مواخات‘ کے سہارے جوڑا جاتا ہے اور ’حقوق‘ کو ’مساوات‘ کے دم سے!
”تب معاشرے کا سب سے کمزور آدمی بجا طور پر سمجھنے لگا کہ خدا کی یہ سب فوج اسی کا جتھہ اور قبیلہ ہے۔۔
”معاشرے کے سب سے نادار شخص میں یہ اعتماد آیا گویا بیت المال اس کی ذاتی جاگیر ہے۔ دُنیا کا ایک بے سہارا و بے خانماں شخص دیکھنے لگا تھا کہ اہل ایمان کی صورت میں اس کو بے حدوحساب بھائی مل گئے ہیں!“
محمد ﷺانسانیت کیلئے ایک ایسی ہی خوبصورت جہت کا نام ہیں۔ دُنیا اور آخرت کی اتنی خیر ایک ہی جگہ کہیں پائی ہی نہیں جا سکتی۔
ایک ادیب لکھتا ہے:
”تاریخ کے کچھ واقعات خود تاریخ سے بڑے ہوتے ہیں۔ حراءکے اندر رونما ہونے والا واقعہ یعنی ”آسمان کے امین“ کا ”زمین کے امین“ سے ارتباط ہونا اور اس سے انسانی شعور کیلئے روشنی کی ایک نئی کرن پھوٹ پڑنا ۔۔۔۔ ایک کائناتی واقعہ ہے نہ کہ محض تاریخ انسانی کا ایک وقوعہ“
ایک نومسلم محمد ﷺکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”عرب کے خاندانی تفاخر کو ذرا نظر میں رکھیے اور پھر خدا کے اس بندے کی خدا آشنائی دیکھئے۔ قرآن اس کا اپنا کلام ہوتا تو اس میں مسیح ؑکی ماں کیلئے ایک پوری سورت مخصوص کی جانے کی بجائے اس کی اپنی ماں کے نام کی کئی سورتیں ہوتیں! ’آل عمران‘ کی بجائے یہاں ’آل عبدالمطلب‘ کی تلاوت ہوتی اور عربوں کیلئے اس میں ذرا بھر تعجب کی بات نہ ہوتی۔ مگر اس شخص کی خدا پرستی دیکھئے کہ مسیح ؑکی ماں کا ذکر یہ تاریخ انسانی کی چار برگزیدہ ترین عورتوں میں کرتا ہے جبکہ اپنی ماں کی تربت پہ کھڑا روتا اور دوسروں کو رلاتا ہوا یہ کہہ رہا ہے: ”میں نے خدا سے درخواست کی کہ اپنی ماں کیلئے دُعائے مغفرت کر لوں پر خدا نے مجھے اس کی اجازت نہ دی۔ میں نے اس کی قبر کی زیارت کیلئے اجازت مانگی خدا نے مجھے اس بات کی البتہ اجازت دے دی( صحیح مسلم عن ابی ھریرہ 2۔261)
٭٭٭٭٭

عرب کا وہ پسماندہ توہم پرست ماحول ذہن میں لائیے جہاں لوگ ہر سادھو اور ملنگ سے دبتے ہیں اور اس کے ’روحانی اختیارات‘ کی دھاک ان پر یوں بیٹھتی ہے گویا وہ جب چاہے انکو ’بھسم‘ کرکے رکھ دے ۔۔ معجزات پاس رکھتے ہوئے دیکھئے کس طرح خدا کا یہ نبی ان کو اپنی بندگی اور عاجزی کا یقین دلاتا اور ان کے توہمات دورکرتا ہے:
”میں اپنی ذات کیلئے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، سوائے وہی جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں، ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں“(الاعراف:188)
دیانت اور خدا آشنائی کی عجیب عجیب مثالیں ہیں جو اس نبی کی سیرت پڑھنے والے کے سامنے آتی ہیں ۔۔
حدیبیہ گویا فتحِ مبین کا دیباچہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی فتوحات کا تانتا بندھتا ہے۔ عرب کا کوئی نہ کوئی قلعہ روز ہی آپ کی فوجوں کی دھمک سے گرتا ہے اور آپ کی قلمرو میں میلوں کے حساب سے ہر روز اضافہ ہوتا ہے۔ قیصر اور کسریٰ اور یمن اور مصر تک کے بادشاہوں کو نامے ارسال ہوتے ہیں۔ مصر سے تحفہ میں بھیجی گئی کنیز ماریہؓ آپ کے حرم میں داخل ہوتی ہیں اور آپ کیلئے ایک فرزند جنتی ہیں ۔۔۔۔ ابراہیم۔ ایسا شہزادہ بھی دُنیا نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ یہ اقتدارِ نبوت کی اوج کا زمانہ ہے کہ ابراہیم فوت ہو جاتا ہے اور اتفاق یہ کہ سورج بھی اسی دن بے نور ہو جاتا ہے۔ دوبڑے واقعے ۔۔۔۔ لوگ خودبخود ان میں رشتہ ڈھونڈتے ہیں اور ہر طرف یہ باتیں ہونے لگتی ہیں کہ آفتاب کا یہ گرہن کسی بہت بڑے انسان کی موت سے منسلک ہے اور یہ کہ ابراہیم بن رسول اللہ کی موت سے بڑھ کر اس کی کیامناسبت ہوسکتی ہے۔ توہّم پرست معاشروں کے اندر کتنے فرعونوں اور شاہی خاندانوں نے اپنے شجرۂ نسب سورج اور ستاروں اورزہرہ ومریخ سے آخر نہیں جوڑے اور آج تو یہ سورج آپ سے آپ بے نور ہے اور آپ تو خدا کے نبی ہیں۔ ذرا اگر خاموش رہ لیں تو مفت میں پورے عرب پر ایک عجیب دھاک بیٹھتی ہے اور غم کے وقت تو انسان اپنے لئے کیا کیا تسلیاں نہیں دیکھتا۔ مگر یہ صادق ؑاور امین ؑہیں جن کو خدا کی جانب سے انسانی فکر وشعور کی ساخت اور تربیت کی امانت سونپی گئی ہے۔ یہاں خدا کے سوا کوئی بڑا نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کو اکٹھا ہونے کیلئے منادی کی جاتی ہے۔ مجمع میں آپ خطبہ دینے کھڑے ہو جاتے ہیں:
”یہ سورج اور یہ چاند خدا کی نشانیوں میں سے بس دو نشانیاں ہیں۔ یہ نہ کسی کی موت کے باعث گرہن زدہ ہوتے ہیں اور نہ کسی کی پیدائش کے سبب۔ پس جب تم ایسا ہوتا دیکھو تو خدا کا ہی ذکر کرنے لگو“(البخاری عن عبداللہ بن عباس 3692)
٭٭٭٭٭
حامد کمال الدین
مکمل تحریر >>

روشنی کا مینار، تہذیب کا نقش نگار

یہ ہے وہ معلمِ اخلاق جس نے برہنہ ہوچکی انسانیت کے تن کو تہذیب کی چادر از سر نو پہنائی۔ ظلم اور استحصال کی ایک نہیں ہزاروں صورتیں ختم کرائیں!!!
دین کا استحصال، اَخلاق کا استحصال، تہذیب کا استحصال، حق کا استحصال۔۔ ظلم اور جہالت کی کونسی صورت ہے جو اپنے عروج کو نہ پہنچ چکی تھی اور جسے خدا کے اِس آخری نبی نے نابود کئے بغیر چھوڑ دیا؟!!
سب سے بڑا جھوٹ وہ ہے جو خدا کے نام پر بولا جائے۔ سب سے بڑا ظلم وہ ہے جو خدا کے نام پر روا رکھا جائے۔۔ انسان کی بدبختی یہاں تک نہ تھی کہ اُس کی روح، اُس کے فکر، اُس کی خرد اور اُس کے ضمیر پر منوں کے حساب سے ظلم اور جہالت کا انسانی ملبہ ڈال دیا گیا تھا، بلکہ بدبختی یہ ہو چکی تھی کہ یہ ظلم خدا کے نام پر ڈھایا جا رہا تھا!
مورخ آج ہمیں ہر امت ، ہر قوم اور ہر مذہب کے عبادت خانوں میں دیو داسیوں پر گزرنے والی ایسی ایسی کہانیاں سناتا ہے، جنہیں سن کر پوری نوعِ انسانی کا سر شرم سے جھک جائے۔ محمدﷺ نے تہذیب کو اس کا غصب شدہ لبادہ دلوایا تو دنیا نے دیکھا، ہر ہر مذہب اور ہر ہر دھرم ہی اپنا یہ ننگ چھپا لینے پر مجبور ہوگیا۔ کسی خرد مند کو آج اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعثتِ محمدی کے نتیجے میں دنیا کا ہر مذہب اور ہر مذہبی رویہ ہی ایک ارتقا سے گزر چکا ہے اور یہ عمل ہنوز جاری ہے۔۔۔۔کہاں وہ دن کہ کعبہ میں ایک جانب بت پوجے جاتے ہیں تو دوسری جانب برہنہ طواف ہوتا ہے۔ خدا کا تقرب پانے کیلئے آئے ہوئے مرد ہی نہیں عورتیں عریاں ہوکر طواف کرتی ہیں، کہ جن کے وہ الفاظ جو وہ برہنہ بدن مطاف میں اترتے وقت کہا کرتی تھیں، آج تک حافظہ ٔ تاریخ نے محفوظ کر رکھے ہیں:
الیَومَ یَبدُو بَعضُہ اَو کُلُّہ
فَمَا بَدَا مِنہُ فَمَا اَحِلُّہ
”آج تو بدن کا کچھ حصہ کھلے یا پھر سارا ہی کھل جائے۔ خیال رکھو میرے بدن کا جو حصہ کھل جائے اس (سے لطف اٹھانے) کی میری طرف سے اجازت نہیں“!
اور کہاں وہ دن کہ مکہ فتح ہوتا ہے تو بیت اللہ میں پڑے بتوں پر تیشے چل جاتے ہیں اور پورا عرب دم بخود ہو کر دیکھتا ہے۔ تن تنہا کوئی شخص بھلا یوں بھی کامیاب ہوتا دیکھا گیا ہے؟!!! ’جزیرہ‘ آج اِس ”اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول“ کے ساتھ کھڑا ہے!!!
کہاں وہ تہذیب جو دخترِ حوا کو جنسِ بازار کے طور پر جانتی ہے۔ چمڑی اور غازے کی کمائی جس کے ہاں ’ریونیو‘ کی ایک بڑی مد ٹھہرتی ہے۔ معاشرے کا ایک ’معزز‘ عبد اللہ بن اُبی جہاں کئی اور کاروبار کرتا ہے وہاں اس نے ’جنسِ لطیف‘ پر بھی ’انوسٹمنٹ‘ کر رکھی ہے؛ اِن عورتوں کو اپنے حسن و اَدا کی کمائی سے بستی کے ایک شملہ بردار کے حق میں ’ذریعہ ٔ آمدن‘ بن کر رہنا ہے! (وہی چیز جو ’حقوقِ نسواں‘ کے نام پر خدا کی اِس مخلوق کا استحصال کرنے والے آج بھی کر رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا ’شوبز‘ جو آج کی دنیا میں ساہوکاری کی ایک بدترین وکریہہ ترین وبے رحم ترین شکل ہے، پوری کی پوری انڈسٹری ’عورت‘ کی چمڑی پہ قائم ہے!)۔۔۔۔
جس یثرب میں یہ نبیِ پاک پیر دھرے، بھلا کیسے ہوسکتا ہے وہاں ’ابن اُبیوں‘ کے یہ سب نا پاک کاروبار جوں کے توں چلیں! اعلان ہو جاتا ہے:
وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاء إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَۃ الدُّنْيَا (النور:33)
”اور اپنی لونڈیوں کو پیشے پر مجبور مت کرو، جبکہ وہ عصمت کی زندگی گزارنا چاہیں، اِس لئے کہ تم کو دنیا کی زندگی کا مفاد مطلوب ہے“

یہی ہے وہ نبی جس کی تعلیم آج بھی آدھا جہان عقیدت سے سنتا ہے اور اُس کی یہ تعلیم جب نفس کے رُویں رُویں میں اترتی ہے تو زمین پر بے مثال پاکیزگی کا دور دورہ ہونے لگتا ہے۔ خدایا! کیا نفس کی صفائی اور دھلائی یوں بھی ہوتی ہے اور کیا ”تہذیب“ کا دائرہ یہاں تک جاتا ہے؟! کیا رِفعت میں اِس نبی کے پیروکار یہاں تک جاتے ہیں، اور کیا ’میڈیا کے دور میں‘ آج بھی محمدﷺ سے یہ سبق لئے جاتے ہیں؟!۔۔:کہاں وہ ’جسم‘ کی چمک، جو ’تہذیب‘ کے چولے میں سڑاند بن جاتی ہے اور کہاں یہ ’روح‘ کی تابناکی جو ضمیر کو مہکاتی ہے!



کیا کسی نے غور کیا، اِس نبی کے پیر دھرنے کی دیر ہے، وہ بستی جو کل تک ’یثرب‘ کے نام سے جانی جاتی تھی آج ’مدینہ‘ کہلانے لگتی ہے! ’مدینہ‘۔۔ کہ جس سے ’تمدن‘ مشتق ہو، یعنی۔۔۔۔ ’مدنیت‘ کی اساس طے کرنے کا سوال اٹھے تو نگاہِ انسانی کو جواب تلاش کرنے میں لمحہ بھر دشواری نہ ہو!
کوئی کیا جانے ’مدینۃ النبی‘ کیا ہے؟۔۔۔۔ آسمان کے نقشے پر وجود میں آنے والا زندہ انسانی معاشرہ، جو چند ہی سالوں میں پوری دنیا کی رائج ترین تہذیب کا حوالہ بن جانے والا ہے؛ جہانِ انسانی کا ایک ایسا نقشہ کہ آسمان سے ایک آیت اترتی ہے تو لمحوں میں ’سماج‘ کے اندر رچ بس جاتی ہے اور ’سماج‘ اِس سے وہ روئیدگی لاتا ہے کہ ’فلسفیانِ اَخلاق‘ اِس پر بس رشک ہی کریں:
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
”بخدا، کتاب اللہ کی تصدیق کرنے اور تنزیلِ خدواندی پہ ایمان رکھنے میں میں نے انصارِ مدینہ کی عورتوں سے بڑھ کر کسی کو نہ پایا۔ سورہ ٔ نور اس آیت کے ساتھ اتری: ”پس چاہیے یہ اپنے سروں کی چادروں سے اپنے سینے ڈھانپ لیں اور اپنے سنگھار کی نمائش نہ ہونے دیں“، اِن کے آدمی خدا کی اِس وحی کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹے۔ ایک ایک آدمی اپنی بیوی، اپنی بیٹی، اپنی بہن اور اپنی ہر رشتہ دار کو خدا کا حکم سنا رہا تھا۔ تب کوئی عورت نہ رہی جس نے اپنی چادر نہ اٹھا لی ہو اور اُس میں لپٹ سمٹ نہ گئی ہو، خدا کے حکم کی تصدیق اور اس پر مکمل اظہارِ ایمان کرتے ہوئے۔ تب یہ حال تھا کہ اگلی صبح نماز میں، یہ سب کی سب، چادروں میں لپٹی رسول اللہﷺ کے پیچھے کھڑی تھیں، گویا ان کے سروں پر کوّوں کے غول ہیں“!(تفسیر ابن کثیر، در بابت سورۃ نور، آیت:)
کیا کوئی یقین کر سکتا تھا، ’عرب‘ ہوں اور ’بادہ نوشی‘ کے بغیر ان کا کوئی پل گزر جائے! کیا کوئی زبان دنیا میں پائی جاسکتی ہے کہ جس میں شراب کے ڈھائی سو نام ہوں!؟ علامہ فیروزآبادی نے عربی میں پائے جانے والے اِن ناموں کے بیان پر پوری ایک کتاب لکھی ہے۔
مگر ہم دیکھتے ہیں جب اِس نبی کے تیار کردہ معاشرے پر آسمان سے ایک آیت اتر آتی ہے، اور مدینہ کی گلیوں میں اِس کی منادی کرادی جاتی ہے: ’لوگو! شراب حرام کر دی گئی‘، تو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے جام پھر لبوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ صراحیاں توڑ دی جاتی ہیں۔ مٹکے پھینک دیے جاتے ہیں۔ صدیوں کی منہ کو لگی ہوئی، ایک دن میں چھڑا دی جانا کوئی مذاق نہیں۔ یہ اللہ کا نبی ہے جو صداقت اور پاکیزگی کی وہ محیر العقول مثالیں قائم کرانے آیا ہے جو زمین نے اِس سے پہلے کبھی دیکھی ہوں اور نہ اِس کے بعد۔ بخاری کے الفاظ ہیں:
فَجَرَت فِی سِکَکِ المَدِینَۃ
”تب مدینہ کی گلیوں میں شراب بہتی پھرتی تھی“!
آخر وہ کتنی ہو گی جو گلیوں میں بہتی پھرتی تھی؟! ’مدینہ‘ دارِ تہذیب ہی کا تو دوسرا نام ہے!!!

کہاں وہ تاریکی جسے مسلمان بچہ بچہ ’دورِ جاہلیت‘ کے نام سے جانتا ہے۔۔ اور کہاں اِس نبی پر اترنے والا یہ آسمانی شاہکار جس کے دم سے ’انسانیت‘ کا برہنہ سر پھر سے ڈھانپا جاتا ہے اور ’روئے تہذیب‘ کی پراگندگی پھر سے سنوار دی جاتی ہے۔۔ یہ سورت جس کو پڑھ کر عورت کا ’ماں‘، ’بیوی‘، ’بیٹی‘اور ’بہن‘ والا روپ پھر سے جہانِ انسانی کا مقبول ترین دستور ٹھہرتا ہے۔۔ آسمان کا یہ شاہکار ”نور“ کہلاتا ہے، یعنی ”روشنی“۔۔ ”آسمان کی روشنی“ جو چودہ سو سال سے اِس نبی کے ہر امتی کے گھر میں ”تلاوت“ ہوتی ہے، اور جس سے کہ ’تہذیب‘ کے نام پر ’تجارتِ زن‘ کا بازار گرم کر رکھنے والے ’ہول سیلروں‘ کی آج بھی جان جاتی ہے!

حامد کمال الدین
مکمل تحریر >>

دلیل کے مقابلے پر دلیل اور تلوار کے مقابلے پر تلوار

ظالموں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی تو تکلیف ہے کہ خدا کا یہ آخری نبی آیا تو دلیل کے مقابلے پر دلیل لے آیا اور تلوار کے مقابلے پر تلوار۔۔ اور پھر، اِس کھوئے ہوئے توازن کو بحال کر دینے کے بعد، فیصلہ خدا کی مخلوق پر چھوڑ دیا کہ جس عقیدہ کو چاہیں پورے اختیار اور آزادی سے قبول کریں!!!َ لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۔۔
پھر کیوں نہ ہوتا کہ قومیں اور ملک اِس دعوتِ حق کو ہاتھوں ہاتھ لیتیں؟!
اِس عمل کے نتیجہ میں اِن لوگوں کا قائم کیا ہوا نظامِ جبر دنیا پر اپنی آہنی گرفت کھو بیٹھا، لوگوں کو ”دلیل“ کی روشنی میں اپنا دین چننے کی آزادی ملی، اور اِن ’بیچاروں‘ کو ایشیا اور افریقہ کی ’کالونیوں‘ سے بے دخل ہو کر اپنے وطن لوٹ جانا پڑا۔ جہان میں بلکہ تاریخ کے اندر ’توازن‘ کا اِتنا بڑا شفٹ؟!!!!
تب سے آج تک ’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار‘ اِن کے دلوں پر کچوکے لگا رہی ہے!!!وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار‘ پر بے تحاشا اِن کے دانت پستے ہیں، بس میں نہیں ہے کہ کیا کردیں!!! کیونکہ ’یہ‘ ساتھ نہ ہوتی تو ’خالی دلیلیں‘ تو اِن کی بہت آزمائی ہوئی تھیں!!! دینِ مسیح علیہ السلام میں بھلا کیا ”دلیل“ نہیں تھی؟؟؟ کہ جس کے موحد پیروکاروں کو بے دردی کے ساتھ پیس کر رکھ دیا گیا تھا اور اُس کی جگہ پال کی تثلیث کو ’منصبِ دین الٰہی‘ پر تخت نشین کرانے میں دھونس کی آخری حد کر دی گئی اور یوں قوت اور زور کے بل بوتے پر بالآخر پوری ایک آسمانی شریعت کا گھونٹ بھر لیا گیا تھا؟!! پس کیوں نہ ہوتا کہ وہ ”دلیل“ جس کے خلاف اِن کی دھونس نہ چل سکے، اِن کو زہر سے بری لگتی؟!!
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دراصل اِن کو یہی تو ’شکایت‘ ہے، جوکہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں ”کتاب یہدِی وسیفینصُر“ کو لے کر اِس پیچیدہ جہان میں تشریف لائے تھے، یعنی کتاب: قلوب اور عقول کی ہدایت کیلئے اور تلوار: جباروں اور کج کلاہوں کو سیدھا کرنے کیلئے!!! یہ ’کومبی نیشن‘ بھلا اِن کو کیوں بھاتا!
آخر(انکا) یہ وہی تخت تو ہے جس پر بیٹھ کر ظلم اور طنطنہ اور جبر کا ایک نظام صدیوں چلایا گیا اور جس کے پایوں تلے، پوپ ڈھونڈیں، تو اب بھی بے شمار اقوام کا خون پڑا ہوگا! کیا یہ وہی تخت نہیں جس پر جلوہ افروز تاج پوشوں نے کبھی ’دلیل‘ اور ’منطق‘ اور ’حق‘ کے پرخچے اڑائے تھے!! سائنس اور انسانیت کے خلاف چرچ کی تاریخی لٹھ برداری ہی تو تھی جس نے انکے پیروکاروں کو مذہب کو ہی چھوڑ دینے پر آمادہ کردیاتھا۔
ہر وہ شخص جو اَدیان و شرائع کے بنیادی عناصر سے ذرا واقفیت رکھتا ہے اور انبیاءکے اخبار وآثار بھی اُس کی سماعت کیلئے بہت اجنبی نہیں، جب وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے گا تو اُس کا سامنا عین انہی چیزوں سے ہوگا جو انبیاء ہی کے پاس ہوتی ہیں۔ انبیاء نے تلوار بھی اٹھائی ہے اور جنگیں بھی کی ہیں۔ انبیاءنے معرکے بھی لڑے ہیں، اور انبیاءنے دنیا میں امن اور عدل بھی قائم کر کے دکھایا ہے۔ کچہریاں بھی سجائی ہیں اور تعزیریں بھی لگائی ہیں۔ شادیاں بھی کی ہیں، اولادیں بھی چھوڑی ہیں اور کاروبارِ زندگی سے سروکار بھی رکھا ہے۔
آخر کونسی بات یہاں نرالی ہوئی ہے جس پر طوفان کھڑا کیا جائے؟؟؟

حامد کمال الدین




عیسائی مشنریوں کے سب حملے دور دراز کے جاہل و پسماندہ علاقوں میں ہی ہوتے جہاں یہ ’روٹی‘ کے بدلے میں اور مغربی ممالک کے ’ویزوں‘ کے جھانسے دے کر لوگوں کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔۔
انکی بائبل بردار این جی اوز ’انسانی ہمدری‘ میں ان اقوام کیلئے روٹی اور دوائی لاتی ہیں اور under the table اس ’روٹی‘ کے بدلے ’ایمان‘ کے سودے کرتی ہیں۔
مگر یہ سب کچھ کر لینے کے بعد بھی، کس قسم کے طبقے اور وہ بھی کیسی کیسی مجبوریوں اور لاچاریوں کے مارے ہوئے ہمارے یہاں سے ’عیسائیوں‘ کے قابو آتے ہیں ۔۔!!
کیا یہ لوگ عالم اسلام کی کتنی جانی پہچانی شخصیات کا نام لے سکتے ہیں جنہوں نے کسی ’تحقیق‘ کے نتیجے میں، اور آمنے سامنے کے مناظرہ میں، اور دلیل کے زور پر، عیسائیت قبول کی ہو؟!
جن کو اسلام کے اندر کوئی ’خرابی‘ نظر آئی ہو اور پھر وہ ’خرابی‘ ان کیلئے کلیسا نے دور کر دی ہو؟!
کیا انکے نہایت با خبر ادارے، عالم اسلام میں ایسے تعلیم یافتہ اور باشعور قسم کے ’حق کے متلاشیوں‘ کی کوئی لسٹ جاری کر سکتے ہیں جن کو ’حق‘ بالآخر محمدﷺکے دین کی بجائے کلیسا کے دین میں جاکر ملا ہو؟
ہاں ہم انکو مغرب کے اُن پڑھے لکھوں کی، جتنی طویل یہ چاہیں اتنی طویل فہرست دے سکتے ہیں، جن کو حق محمدﷺکے سوا کہیں کسی کے پاس نظر نہیں آیا اور جنکا اسلام میں آنا نہ تو ’بھوک‘ کی وجہ سے تھا، نہ ’بیماری‘ کی وجہ سے، نہ ’دوائی کیلئے پیسے پاس نہ ہونے‘ کے باعث، نہ کسی ’سفارت خانے کے ہاں ویزہ سہولت پانے‘ کی غرض سے، اور نہ کسی اور دنیوی ضرورت، نہ کسی غرض اور نہ کسی لالچ کے باعث۔
نو مسلم دانشور آئے روز کتابیں لکھتے ہیں کہ انہیں ہدایت کیونکر نصیب ہوئی۔ نئے نئے مراکز کھول رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر آتے ہیں۔ اپنے معاشروں کے مختلف فورموں پر اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں، ان میں سے کئی ایک، آج ہمارے عالم اسلام کے مسلم نوجوانوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔ اربوں کھربوں کے بجٹ رکھنے والے مشنری بھی کیا مسلم دانشوروں کے ’عیسائی‘ بن جانے کی ایسی مثالیں دکھا سکتے ہیں؟ چند رپورٹس دیکھیں۔

http://www.cnn.com/WORLD/9704/14/egypt.islam/
http://www.islamweb.net/ver2/archive/readArt.php?lang=A&id=136055
http://muslim-canada.org/muslimstats.html

اسلام کی اس اصل فاتحانہ قوت کو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ظالم اپنا وہی استشراقی مقولہ دہراتے ہیں کہ ’اسلام تو دراصل تلوار کے زور پر پھیلا لیا گیا تھا‘! آج مسلمانوں کی اس حالتِ زار کے باوجود اسلام کس تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اور وہ بھی ’مغربی فاتحین‘ کے اپنے ملکوں میں؟
یہ بتائیں کہ اسلام کے پاس آج کونسی تلوار ہے؟؟؟
آنکھیں تو دیکھتی ہیں مگر دل اندھے ہوجاتے ہیں!
حامد کمال الدین
مکمل تحریر >>

دلیل کی قوت ہی تو رسالتِ محمدی کا اصل امتیاز ہے-

اسلام کی ’تلوار‘ کو موضوع بنانے والے عیسائیوں کیلئے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ وہ پہلا عیسائی جو نبی آخر الزمان پر ایمان لایا، وقت کا ایک مقتدر بادشاہ تھا. محمدﷺ پر پائی جانے والی تاریخ (سیرت) کی کوئی کتاب نہ ہوگی جس میں ’ہجرتِ حبشہ‘ کے عنوان سے یہ واقعہ درج نہ ہو!
اس کے علاوہ تاریخ کی مشہور ہستی حاتم طائی کے بیٹے عدیؓ بن حاتم جو اپنی قوم کے بادشاہ ہیں اور نصرانی ہیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرفِ صحبت حاصل کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں، کیا یہ بات اِن کے نوٹ کرنے کی نہیں کہ۔۔۔۔ ”دلائل“ رکھنے میں معاذ اللہ اِس نبی کے ہاں کوئی کمی ہوتی تو یہ ’یثرب‘ کا رخ کیوں کرتا جہاں یہود کے اَحبار اپنے صحیفے کھول کر بیٹھے تھے؟
انبیاءکے صحیفے پاس رکھنے کے حوالے سے پورے عرب میں اَحبارِ یہود ہی کی دھاک تو بیٹھی تھی! کیا اِس واقعہ کی کوئی دلالت یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ کیونکر اِس نبی کا دار الہجرت پورے عرب میں سے ایک یثرب ہی کو بنایا جاتا ہے! یہ تو درحقیقت پورے عرب کو دکھانے کیلئے تھا کہ بے شک یہ (عرب) خود اُمّی (ناخواندہ) ہیں مگر ایسا نہیں کہ اِس نبی کے دلائل و آیات صرف اِن عربوں کو لاجواب کر سکتے ہوں بلکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ احبارِ یہود جو علمِ نبوت کے ماہر مانے جاتے ہیں، ایسے ’ماہرینِ دینیات‘ بھی اِس نبی کے سامنے کس طرح گھگیاتے ہیں اور اُن کی ہٹ دھرمی سب دیکھنے والوں کے روبرو کیونکر آشکارا ہوتی ہے۔اوریہاں یہود کے بعض چوٹی کے علماءمانند عبد اللہ بن سلام حلقہ بگوش اسلام بھی ہوجاتے ہیں۔ ۔!!
آج کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ لکھاری کس ’ناقدانہ بے پروائی سے ‘اپنے تئیں ’ترپ کا پتہ‘ پھینکتے ہیں:
’اگر آپ ﷺنبی تھے اور دلیلیں پاس رکھتے تھے تو پھر نبیوں کے واقف یہود نے تو آپ کو پہچان کر نہ دیا‘ بلکہ اِن میں سے کئی سارے آج کل یہ بھی لکھتے پھر رہے ہیں (نقل کفر کفر نہ باشد) کہ ’محمدﷺ اَن پڑھ عربوں کو ہی ساتھ ملا سکتے تھے مانتے تو تب جب کتاب کا علم رکھنے والے یہود آپ کو مان کر دیتے مگر یہود نے، کہ صرف وہی تھے جو انبیاءکی تاریخ سے واقف تھے، آپ کی اِس دعوت کا ذرہ بھر وزن نہ لگایا اور عرب اُمّیوں کے سوا کہیں آپ کو پزیرائی نہ ہوئی‘ (معاذ اللہ)۔
کیا اِن معترضین سے ، جنکی اکثریت نصرانی ہے، ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ اِن یہود نے اِس سے پہلے کیا مسیح کو پہچان کر دیا تھا؟!
یہودی جو انبیاءکی تاریخ سے نہایت خوب واقف تھے مسیح علیہ السلام پر ایمان کیوں نہ لے آئے تھے؟!! کیا معاذ اللہ ’دلیل‘ کی کمی تھی؟؟!
حالانکہ مسیح علیہ السلام کو تو بھیجا ہی یہود کی طرف گیا تھا!!! محمدﷺ پر تو پھر آپ کی اپنی قوم ایمان لے آئی، مسیح کو تو ان کی اپنی قوم جو کتاب کا علم رکھتی تھی، یعنی یہود، نے رد ہی کر دیا تھا۔!
یہودیوں کے ایمان نہ لانے سے تم نصرانیوں کے یہاں مسیح کی (معاذ اللہ) ’خدائی‘ پر حرف نہ آیا تو یہودیوں کے ایمان نہ لانے سے ہم مسلمانوں کے یہاں محمدﷺ کی ”نبوت“ کیوں متاثر ہونے لگی؟!
مسیح علیہ السلام نے یہودی فریسیوں کو جیسی جیسی سنائیں، کیا وہ تمہاری بائبل کے عہدِ جدید میں مذکور نہیں؟؟
کیا آج تک تمہارے یہاں یہ نہیں کہا جاتا رہا کہ اِن لوگوں نے (معاذ اللہ) تمہارے ’خدا‘ کو سولی چڑھوایا تھا؟ ہمارے ”نبی“ نے ایسے لوگوں سے(حضور اور مسلمانوں کے اجتماعی قتل کے منصوبوں کے باوجود )اپنی بچت کر لی ۔۔ مگر کیا یہ حق نہیں کہ انبیاءکی واقف اِس قوم کا رویہ مسیح اور محمدﷺ ہر دو کے ساتھ ایک سا ہی رہا؟
اصل چیز یہ ہے کہ نہایت مدلل انداز میں ان پر حجت مسیح اور محمدﷺ دونوں نے قائم کی ۔ یہود میں سے چند حق پرست مسیح پر بھی ایمان لائے، یہود میں سے چند حق پرست محمدﷺ پر بھی ایمان لائے۔ یہود کی اکثریت نے مسیح کے ساتھ بھی کفر کیا، یہود کی اکثریت نے محمدﷺ کے ساتھ بھی کفر کیا۔ پھر فرق کیسا؟؟؟
البتہ خاص بات یہ ہے کہ یہود مسیح کی اپنی قوم تھے اور مسیح کو خاص بھیجا ہی انہی کیلئے گیا تھا لہٰذا مسیح کو یہود کا سامنا کرنا ہی تھا، تاہم محمدﷺ کی نہ یہ اپنی قوم تھی اور نہ ان کا سامنا کرنے کی آپ کو ویسی کوئی ضرورت۔ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہود کے گڑھ میں جا بیٹھنا یہاں تک کہ بعض مواقع پر یہود کے بڑے بڑے اجتماعات کے وقت اُن کے عبادت خانوں کے اندر جا کر اُن سے بات کر کے آنا کیا اِس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ یہ تو خدا کا کوئی خاص منصوبہ تھا کہ اَخبارِ انبیاءسے واقف اِس قوم کے ساتھ اِس نبی کے جدال اور اُن پر اِس کی حقانیت کی دھاک بٹھا کر پورے عرب کو دکھا دی جائے، بلکہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ چونکہ بیک وقت تاریخ کے مستند ترین وثائق کا بھی حصہ بن رہا تھا، لہٰذا آپ کا یہ جدال قرآن کی اُن سورتوں سمیت جو بنی اسرائیل کو خطاب کر کے اتاری گئیں پوری انسانی تاریخ کو ہی دکھلا دیا جائے!

حامد کمال الدین
مکمل تحریر >>

بائبل کی تلواریں


پہلے ایک وضاحت :کوئی شخص اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے وہ موسیٰ علیہ السلام، سموئیل، یوشع اور داؤد علیہ السلام وغیرہ کے ساتھ کفر کرتا ہے تو ایسے بدبخت کے ساتھ گفتگو کا تو کوئی اور ہی مقام ہوسکتا ہے، البتہ اگر کوئی شخص بائبل میں مذکور اِن انبیاء کو مانتا ہے اور ان کے صحیفوں پر مشتمل آج کی بائبل بھی وہ بڑی تندہی سے بانٹتا پھرتا ہے اور اس پر ایمان پختہ کرانے کا بھی باقاعدہ داعی ہے البتہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ’تلوار‘ دکھا دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ’دیکھو اسلام تو کس بربریت کا درس دیتا ہے‘ اور یوں دین اسلام کو معاذ اللہ ’تہذیب‘ کاطعنہ دینے چل پڑتا ہے۔۔۔۔
تو پھر ایسے شخص کو ہم کہتے ہیں آؤ تمہاری ہی بائبل کھول لیتے ہیں، ہم پڑھیں گے اور تم سنو! پھر ہمت ہو تو انصاف کی بات کہہ دو، اور اگر نہیں تو تمہاری طرح کے بہت ہیں جو چپ بیٹھے ہیں!
البتہ اِس سے پہلے ایک بار پھر واضح کر دیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے جتنے انبیائے کرام ہیں جن کا ہمیں اپنے نبی کی راہ سے علم ہوا ہے، اور جن میں سے بعض کا آئندہ صفحات میں دیے جانے والے بائبل کے حوالوں میں بھی ذکر آسکتا ہے، اُن سب نبیوں پر ایمان ہمارے دین کا حصہ ہے۔ امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی امتیاز ہے کہ وہ خدا کے کسی نبی کی، بال برابر بھی بے ادبی کا معاذ اللہ کبھی سوچ تک نہیں سکتی۔
بائبل کے یہ نصوص علی وجہ الالزام ان لوگوں کی بدزبانی کے جواب میں دے رہے ہیں جنکا دعویٰ ہے کہ وہ بائبل پر ایمان رکھتے ہیں مگر جنکا کہنا ہے کہ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ شریعتِ اسلامی کے مصادر ’وحشیت‘ سکھاتے ہیں۔
اگر آپ انٹرنیٹ پر یہ کتاب پڑھ رہے ہیں تو یہیں اردو بائبل کے اِن links پر چلے جائیے اور پھر ہر حوالے پر متعلقہ صحیفہ ’کلک‘ کرتے جائیے:
http://www.wbtc.com/site/PageServer?pagename=downloads_urdu
http://www.ibsstl.org/bibles/urdu/index.php

سموئیل (بائبل کی رو سے ایک نبی) نے ساؤل (طالوت) سے کہا کہ میں وہی شخص ہوں جسے خداوند نے بھیجا ہے کہ وہ اپنی قوم کے اوپر تجھے بطور بادشاہ مسح کرے۔ لہٰذا اب دھیان سے خداوند کا کلام سن۔ خداوند قادرِ مطلق یوں فرماتا ہے کہ جب اسرائیلی مصر سے نکل کر آئے تو اُن کا راستہ روک کر عمالیقیوں نے اُن کے ساتھ جو کچھ کیا اُس کے لئے میں اُنہیں سزا دوں گا۔ اِس لئے اب تو جا اور عمالیقیوں پر حملہ کر اور جو کچھ اُن کا ہے اُسے پوری طرح تباہ کر دے۔ اور اُن پر رحم نہ کرنا بلکہ مردوں، عورتوں، اور شیرخوار بچوں، گائے، بیلوں بھیڑوں ، اونٹوں اور گدھوں، سب کو قتل کر دینا“
(1 Samauel سموئیل 1، اصحاح 15: 3 تا 1)

اب اگر کوئی اِن سے پوچھنے پر آئے کہ شیرخوار بچوں نے بنی اسرائیل کا کیا بگاڑا تھا؟؟
(ویسے شاید آج بھی اِسی ’حکم‘ پر عمل کے لئے امریکی بنیاد پرست، اسرائیلی بمباروں کیلئے چندے اکٹھے کرتے ہوں!)۔۔۔۔ اور یہ کہ بیلوں، بھیڑوں، اونٹوں اور گدھوں کا بھلا کیا قصور تھا جو قتل کر دیا جانے کا حکم آتا ہے؟!
تو پھر اب ذرا اِس کا موازنہ رحمۃ للعالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان سے بھی کر لو، جو وہ صحابہ کے دستوں کو ”جہاد“ پر روانہ کرتے ہوئے صادر فرمایا کرتے:
انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”چل پڑو اللہ کا نام لے کر، اللہ کے سہارے، اللہ کے پیغمبر کی راہ پر، اور نہ قتل کرنا کسی ناتواں بوڑھے کو، اور نہ بچے کو، اور نہ عورت کو، اور نہ خیانت کرنا، دیکھنا غنیمت کا مال (امیر کے پاس) جمع کرانا، اور اصلاح کرتے رہنا، اور احسان کرنا، بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“(سنن اَبی دواد، حدیث رقم: 2247۔ کتاب الجہاد، باب: فی دعاءالمشرکین)

خدا کے بندو! کیوں اِس نبی پر فدا نہیں ہوجاتے!!!؟
دیانتداری سے بتاؤ، ’جنگوں‘ کی تاریخ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کوئی ایسا حکم نامہ کہیں پایا گیا یا کوئی شخص لا کر دکھا سکتا ہے؟
تاریخ کے دھارے کو یہ صالح ترین رخ اِس عظیم انسان کے سوا کس نے دیا؟
کیا حق نہ تھا کہ وہ لوگ جو آج تک رومن درندگی کی داستانیں سنتے اور سناتے آئے تھے وہ اِس نبیِ خدا آگاہ کو دشنام دینے کی بجائے، آکر اِس کے پیر چومتے؟!!
مگر آنکھیں نہیں دل اندھے ہو جاتے ہیں!

اور، آگے بڑھنے سے پہلے، اب ذرا قرآن کو بھی دیکھئے:
فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْاْ إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلاً (النساء: 90)
”ہاں اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں ، کہ تم سے جنگ نہ کریں، اور صلح کا پیام ڈالیں، تو اللہ تعالیٰ نے تم کو ان لوگوں پر کوئی راہ نہیں دے رکھی ہے“

بخدا، ہم یہاں انبیاء کا موازنہ نہیں کر رہے۔ ہم تو بائبل کی ان نصوص کے ثبوت ہی کی بابت کوئی دعویٰ نہیں رکھتے۔ ہم صرف اِن لوگوں کی بددیانتی سامنے لانے کیلئے یہ عبارتیں دے رہے ہیں جو بائبل اور اُسکی اِن نصوص کو حق جانتے ہیں پھر بھی ’بربریت‘ کی نشاندہی کیلئے اسلامی شریعت کی نصوص پر انگلی اٹھاتے ہیں۔
تو پھر آئیے۔۔۔۔!
سیرتِ مصطفی رحمۃ اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کہیں نہیں پایا گیا کہ کوئی قوم جنگ کے بغیر زیرنگیں آنے پر تیار ہو تو اس کو غلام بنانے کا کبھی سوال بھی اٹھا ہو، اور سوائے آمادہُ جنگ لوگوں کے کسی کو تلوار کی دھار پر رکھا گیا ہو، اور سوائے چند انتہائی سر بر آوردہ جنگی مجرموں کے کسی قیدی کو پسِ جنگ ’زندہ نہ چھوڑنے‘ کا واقعہ پیش آیا ہو ۔۔۔۔ مگر یہاں دیکھئے، ’شریعت‘ یوں بتائی جاتی ہے:
“جب تم شہر پر حملہ کرنے جاؤ تو وہاں کے لوگوں کے سامنے امن کا پیغام دو۔ اگر وہ تمہارا پیغام قبول کرتے ہیں اور اپنے پھاٹک کھول دیتے ہیں اُس شہر میں رہنے والے تمام لوگ تمہارے غلام ہو جائیں گے اور تمہارا کام کرنے کے لئے مجبور کئے جائیں گے۔ لیکن اگر شہر امن کا پیغام قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اور تم سے لڑتا ہے تو تمہیں شہر کو گھیر لینا چاہیے۔ اور جب خداوند تمہارا خدا شہر پر تمہارا قبضہ کراتا ہے تب تمہیں تمام آدمیوں کو مار ڈالنا چاہیے۔ تم اپنے استعمال کے لئے عورتیں بچے جانور اور شہر کی ہر ایک چیز لے سکتے ہو۔ خداوند تمہارے خدا نے تمہارے دشمنوں کی مالِ غنیمت تم کو دی ہیں۔ جو شہر تمہاری ریاست میں نہیں ہیں اور بہت دور ہیں اُن سبھی کے ساتھ تم ایسا برتاؤ کرو گے۔ لیکن جب تم وہ شہر لیتے ہو جسے خداوند تمہارا خدا تمہیں دے رہا ہے تب تمہیں ایک بھی چیز کو زندہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(Deuteronomy استثناء، اصحاح: 20: 16 تا 11)
پھر، عملاًاسیروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور اسیر بھی عورتیں اور بچے، بعد از جنگ: ..مرد پہلے ہی مار دیے جاتے ہیں، عورتیں اور بچے ہیں جنہیں لے کر آیا جاتا ہے، دیکھئے ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے:
“اسرائیلیوں نے مِدیانی عورتوں اور بچوں کو اسیر کیا اور مدیانیوں کے مویشیوں کے تمام ریوڑ اور بھیڑ بکریوں کے تمام گلے اور سارا مال و اسباب لوٹ لیا۔ انہوں نے ان تمام شہروں کو جہاں مدیانی آباد تھے اور اُن کی سب لشکر گاہوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ تب اُنہوں نے لوگوں اور جانوروں سمیت تمام مالِ غنیمت کو جمع کیا اور تمام اسیروں اور مال غنیمت کو موسیٰ، الیعزر کاہن اور بنی اسرائیل کی جماعت کے پاس اپنی لشکر گاہ میں لے آئے جو یریحو کے مقابل یردن کے کنارے موآب کے میدانوں میں تھی۔ موسیٰ اور العیزر کاہن اور جماعت کے سب سربراہ اُن کے استقبال کے لئے لشکرگاہ کے باہر گئے۔ موسیٰ جنگ سے لَوٹے ہوئے اُن سپہ سالاروں پر جھلایا جو ہزاروں اور سینکڑوں فوجیوں کی قیادت کر رہے تھے۔ اُس نے اُن سے پوچھا: کیا تم نے سب عورتوں کو زندہ رہنے دیا؟ فعور میں جو کچھ ہوا اُس وقت یہی عورتیں بلعام کی صلاح سے اسرائیلیوں کو خداوند سے برگشتہ کرنے کا ذریعہ بنی تھیں اور خداوند کے لوگوں میں وبا پھیلی تھی۔ لہٰذا سب لڑکوں کو مار ڈالو اور ہر اُس عورت کو بھی مار ڈالو جو کسی مرد کے ساتھ ہم بستر ہو چکی ہو۔ لیکن ہر اُس لڑکی کو اپنے لئے بچائے رکھو جو کبھی کسی مرد کے ساتھ ہم بستر نہ ہوئی ہو۔
(Numbers گنتی: اصحاح 30: 18-9)
ظالمو! اِس ’بائبل‘ پر ایمان لانے کی دعوت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’تلوار‘ کے طعنے!!!!



’بنوقریظہ‘ کے قصے نشر کرنے والے یہ بھی دیکھیں کہ ان کی بائبل ’موآبیوں‘ کا قصہ کیونکر سناتی ہے:
“داؤد نبی (ہم اُن کیلئے ”علیہ السلام“ بولتے ہیں) موآبیوں پر فتح پا کر ان کو اسیر کرتا ہے تو ان کو زمین پر لمبے لٹا لیتا ہے۔ جس طرح کسان بیگھہ ماپتا ہے اُس طرح قیدیوں کے انبوہ کو رسی کے ساتھ ماپتا ہے، دو دو ’ماپ‘ تہ تیغ کرتا جاتا ہے اور ایک ایک ’ماپ‘ چھوڑتا جاتا ہے، جن کی جان بخشی ہوتی ہے ان کو غلام بنا لیتا ہے جو اسے ’جزیہ‘ دیتے ہیں:
اور داؤد نے موآبیوں کو بھی شکست دی۔ اُس نے اُنہیں زمین پر لٹا کر رسی سے ناپا اور رسی کی ہر دو لمبائیوں تک کے لوگ قتل کر دیے گئے اور ہر تیسری لمبائی تک کے زندہ رہنے دیے گئے۔ پس موآبی داؤد کے محکوم ہو کر اُسے خراج دینے لگے۔
(2 Samuel سموئیل 2، اصحاح 8: 2)
اور اب یوشع بن نون کا صحیفہ دیکھئے، جو بائبل میں موسی علیہ السلام کے بعد نبی ہوتے ہیں (اردو بائبل میں ان کو ’یشوع‘ لکھا جاتا ہے):
جنگ کے وقت اسرائیل کی فوجوں نے عی کی فوجوں کو میدان اور ریگستان میں دھکیل دیا۔ اور اُس طرح اسرائیل کی فوج نے عی سے تمام فوجوں کو مارنے کا کام میدان اور ریگستان میں پورا کیا۔ تب اسرائیل کے تمام فوجی عی کو واپس آئے۔ پھر اُنہوں نے اُن لوگوں کو جو شہر میں زندہ بچے تھے مار ڈالا۔ اُس دن عی کے تمام لوگ مارے گئے۔ وہاں 12000 مرد اور عورتیں تھیں۔ یشوع نے اپنے برچھے کو عی کی طرف بطور نشانی رکھا تاکہ اُس کے لوگ شہر کو برباد کر سکیں۔ اور یشوع نے اُنہیں اُس وقت تک نہیں روکا جب تک وہ سب تباہ نہ ہوگئے۔ اسرائیل کے لوگوں نے جانوروں اور شہر کی چیزوں کو اپنے پاس رکھا یہ وہی بات تھی جس کے کرنے کا حکم خداوند نے یشوع کو دیتے وقت کیا تھا۔ تب یشوع نے عی شہر کو جلا دیا وہ شہر ویران چٹانوں کا ڈھیر بن گیا یہ آج بھی ویسا ہی ہے۔ یشوع نے عی کے بادشاہ کو ایک درخت پر پھانسی پر لٹکا دیا۔ اُس نے اُس کو شام تک ایک درخت پر پھانسی دے کر لٹکا دیا۔ غروب آفتاب پر یشوع نے بادشاہ کی لاش کو درخت سے اُتارنے کی اجازت دی۔ اُنہوں نے اُس کی لاش کو شہر کے دروازہ پر پھینک دیا اور اُسکی لاش کو کئی چٹانوں سے ڈھانک دیا۔ چٹانوں کا وہ ڈھیر آج تک وہاں ہے۔
(Joshua یشوع، اصحاح 8: 29 تا 24)

یہ صحیفہ، اِس سے پہلے کے کئی ابواب پڑھ لیجئے، بعد کے کئی ابواب پڑھتے جائیے، اور پھر تعجب کیجئے کہ ’تلوار‘ کا ’یہ‘ استعمال قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن معترضین کو نہ تو بائبل کو کتابِ مقدس ماننے میں کبھی مانع ہوتا ہے اور نہ بائبل کے انبیاء کو انبیاء ماننے میں! قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں تو اللہ کے فضل سے ہم دیکھتے ہیں ”جہاد“ کے باب میں عدل اور احسان کے ضابطوں کے سوا کچھ نہیں مگر وہ اِن مبلغینِ بائبل کو معاذ اللہ ’ظلم‘ اور ’وحشت‘ نظر آتا ہے البتہ بائبل کتابِ مقدس ہے جسے دھڑا دھڑ اور ’مشنری بنیادوں‘ پر پوری دنیا میں بانٹنا ’مسیح کو خوش کرنے‘ کا مقبول ترین ذریعہ!!! آخر یہ باتیں جن میں سے چند ایک یہاں ذکر ہوئیں عام لوگوں سے نہیں، انبیاء سے ہی تو منسوب ہیں اور کسی اور نے نہیں، بائبل نے ہی تو بیان کی ہیں!
ایسے بددیانت معیار رکھنے والے کیا دنیا کو انصاف سکھائیں گے؟ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ۔

پھر صحیفہ قضۃ پر آجائیے، یہاں بنی اسرائیل اپنے ایک قبیلے بنی بنیامین سے ناراض ہو کر قسم کھا بیٹھتے ہیں کہ آئندہ وہ اُن کو بیٹیاں نہیں دیں گے۔ اب ان کی نسل کیسے چلے گی؟ قسم توڑ دی تو ’گناہ‘ ہوگا لیکن بنیامین کی نسل بڑھنا بھی از حد ضروری ہے! اِس مسئلے کا حل یوں نکالا جاتا ہے :
“اِس لئے اسرائیل کے لوگوں نے اپنے 12,000 سب سے بہادر سپاہیوں کو یبیس جلعاد شہر کو بھیجا۔ اُنہوں نے اُن فوجوں سے کہا، ”جاؤ اور یبیس جلعاد لوگوں کو عورتوں اور بچوں سمیت اپنی تلوار کے گھاٹ اُتار دو۔ تمہیں یہ ضرور کرنا ہوگا۔ یبیس جلعاد میں ہر ایک مرد کو مار ڈالو۔ اُس عورت کو بھی مار ڈالو جو ایک مرد کے ساتھ رہ چکی ہو۔ لیکن اُس عورت کو نہ مارو جس نے کسی مرد کے ساتھ جنسی تعلق نہیں کیا ہے۔“ فوجوں نے یہی کیا۔ اُن 12,000 سپاہیوں نے یبیس جلعاد میں 400 ایسی عورتوں کو پایا جنہوں نے کسی مرد کے ساتھ جنسی تعلق نہیں کیا تھا۔ سپاہی اُن عورتوں کو کنعان کے سیلا کے خیمہ میں لے گئے۔ تب اسرائیل کے لوگوں نے بنیامین کے لوگوں کے پاس ایک پیغام بھیجا۔”
(Judges قضات، اصحاح 41: 13 تا 10)

سموئیل نبی کے صحیفہ اول پر آجائیے:
“داؤد اور اُس کے آدمی گئے اور جسوریوں، عمالیقیوں اور جزریوں پر چھاپا مارا۔ داؤد نے اُس علاقہ کے لوگوں کو شکست دی۔ داؤد نے اُن کی سب بھیڑیں مویشی، گدھے، اونٹ اور کپڑے لے لئے اور اُنہیں واپس اکیس کے پاس لایا لیکن داؤد نے اُن لوگوں میں کسی کو زندہ نہ چھوڑا۔ داؤد نے ایسا کئی بار کیا۔”
(1 Samuel سموئیل 1: اصحاح 27: 10-8)

بائبل کے عہد قدیم کے صحیفے اِس جیسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کوئی ان کو اکٹھا کرنے لگے تو پوری ایک کتاب بن جائے۔
ہم نے اِن صحیفوں کی یہ چیدہ چید ہ نصوص ہی نقل کی ہیں تاکہ وہ تلوار جو اِن لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں نظر آتی ہے، جبکہ وہ حق اور عدل کی تلوار ہے اور صرف ظلم اور ناانصافی کے خلاف چلی ہے اور قرآن کے سائے میں رہ کر اِس جنگ وخون ریزی سے بھری دنیا کو امن کی قلمرو بنا کر دِکھا چکی ہے ، بجائے اِس کے یہ لوگ اُس تلوار کو ایک نہایت بددیانت سیاق میں دکھا دکھا کر انسانیت کو گمراہ کرسکیں، ایک ایسی تلوار اِن کے مشنریوں کے بستے سے ہی نکال کر دکھا دی جائے جو واقعتا خوفناک ہے۔
ہمارے نزدیک تو اِن نصوص کا پایہء ثبوت کو پہنچنا ہی محل بحث ہے البتہ یہ لوگ اس کتاب پر جس میں مذکورہ بالا اقتباسات ایسی بے حساب نصوص ہیں لوگوں کو ایمان دلواتے پھر رہے ہیں!

حامد کمال الدین

مکمل تحریر >>

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار

دنیا کے ہر براعظم میں قبولِ اسلام کا شور ہے۔
وہی ”اللہ اکبر“ کے نعرے جو کسی شخص کے پہلی بار ”اَشہد اَن لا الٰہ الا اللہ و اَن محمداً رسول اللہ“ کے الفاظ لب پہ لے آنے پر اول اول ’مکہ‘نامی ایک بستی میں سنے جایا کرتے تھے۔۔ وہی نعرے یورپ، جنوبی امریکہ، شمالی امریکہ اور افریقہ تا آسٹریلیا ”اسلامی سنٹروں“ کے اندر اب روز گونجتے ہیں۔۔۔۔
پیرانِ کلیسا اِس پر چپ ہی رہیں گے؟!
توحید“ کے سامنے ’تثلیث‘ کا نہ ٹھہر سکنا،
اِس تاریخی واقعہ کی تفسیر انسانی ”عقل“ اور” خرد“ اور ”منطق“ اور ”فطرت“ کی بجائے اور اسلام کی قوت و برہان کی بجائے ’اسلام کی تلوار‘ میں تلاش کرنا، وہ عذر لنگ ہے جو اب بے حد پرانا ہو گیا ہے!
مستشرقوں نے آج سے کوئی صدی بھر پہلے اِس کو ایک ’مقولہ‘ بنا دینے کی کوشش کر دیکھی ہے مگر انہیں اِس پر منہ کی کھانی پڑی جب ان کے جھٹلانے کو صرف ماضی کے دل آویز حقائق ہی نہیں، خود آج اِس دور میں بھی خدا نے ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اصل قوت کا ایک چھوٹا سا نظارا کر وا ہی دیا:
آج اِس دور سے بڑھ کر تو مسلمانوں پر ضعیفی کبھی نہ آئی ہوگی! ہر قوم ہی آج مسلمانوں پر شیر ہے! تو آج کونسی تلوار ہے جو مغرب کے اندر لوگوں کو اسلام قبول کروا رہی ہے؟!!! سبحان اللہ اِس دین کے معجزے دنیا اب بھی دیکھ رہی ہے!!!

مسلم ضعیفی کے اِس دور میں بھی قبولِ اسلام کی ایک عالمی لہر مسلسل بلند ہو رہی ہے! ہمارے تعجب کے لئے، ’جدید دنیا‘ کے اِس چشم کشا واقعہ کے سامنے مستشرق جہاں اب کھسیانے ہو رہے ہیں وہاں کلیسا کے منصب بردار اِس کو ’نہایت موثر طعنہ‘ سمجھ کر بآوازِ بلند دہرانے جا رہے ہیں!!!

کلیسا، جس کا نام لیتے ہی ہمیں خود بخود ’اندلس‘ یاد آجاتا ہے، ’قرونِ وسطیٰ‘ کا لفظ اور اس کے سوا ’اور بہت کچھ‘ بھی کلیسا کے حوالے سے تاریخ کی یادداشت کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے۔۔ یہ ’کلیسا‘ آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو طعنہ دینے جا رہا ہے.

’دلیل کی قوت‘ ہی تو اِس دین کا اصل امتیاز ہے! اسلام کی یہی خصوصیت تو ہے جس کے باعث ہمیشہ کی طرح آج بھی اللہ کے فضل سے لوگ ’تثلیث‘ چھوڑ چھوڑ کر ”توحید“ کا رخ کررہے ہیں!!! اسلام کی اِس اصل خصوصیت کو یہ لوگ یوں نظر انداز کر کے دکھاتے ہیں گویا واقعی انجان ہیں!

اسلام کی تلوار کی رونمائی کے دوران اِن کے ہاں یہ بھی ضروری رہتا ہے کہ ’اُس‘ تلوار پر دنیا کی نظر نہ جائے جو ’صلیب‘ کے نام پر طویل صدیاں چلائی جاتی رہی اور جوکہ درحقیقت آج بھی نیام میں نہیں چلی گئی ہے، صرف چولہ بدل گئی ہے (آخر الذکر مسئلہ، جیسا کہ ہم کتاب کی ابتدا میں کہہ آئے ہیں، ہماری اِس حالیہ تحریر کا موضوع نہیں، یہاں بات صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کے حوالے سے ہوگی)۔

یہ خود جانتے ہیں شہنشاہِ قسطنطین کے قبولِ عیسائیت (312ء) کے ساتھ ہی ’دھونس‘ کس طرح میدان میں آئی تھی۔۔۔۔! اور یہ دھونس بھی بھلا کس لئے تھی؟
سینٹ پال کے دین کو مسیح بن مریم علیہ السلام کے دین پر برتری دلانے کیلئے، جس کے نتیجے میں ’مسیحیت‘ کے نام پر ”خدائے واحد“ کے بجائے ’اقانیمِ ثلاثہ‘ کی بزور پوجا کرائی جانے لگی تھی!!!
سبھی کو معلوم ہے Romans کی بے رحم قوت نے میدان میں آکر کیونکر پانسہ پلٹا اور عرصہء دراز سے عیسائی فرقوں کے مابین پائے جانے والے ”توحید بہ مقابلہ تثلیث“ کے اُس طویل معرکہ کو کس جبر اور تشدد کے ساتھ، تثلیث کے حق میں، اختتام پزیر کروایا۔ کسے معلوم نہیں، رومنز کے میدان میں آنے کے ساتھ ہی __ یعنی رومنز کے عیسائیت میں پیر دھرتے ہی __ مسیح علیہ السلام کے سچے پیروکاروں کے ساتھ کیسا آہنی ہاتھ برتا جانے لگا، جب مسیح علیہ السلام کو خدا کا بندہ اور خدا کا نبی کہنے والوں پر (خصوصاً چوتھی صدی عیسوی کے ”اریوسی فرقہ“ پر جوکہ توحید پر قائم تھا) زمین تنگ کر دی گئی تھی، یہاں تک کہ چھٹی صدی عیسوی کے آواخر __ یعنی نبیِ آخر الزمان کے دورِ ولادت __ تک سب ’اریوسیوں‘، ’شمشاطیوں‘ اور ’ابیونیوں‘ (عیسائیوں میں پائے جانے والے بعض موحد فرقےکو معدوم کر کے رکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔!

حامد کمال الدین
مکمل تحریر >>

ایک اسی بنی کا انکار کیوں جس کی نبوت کے دلائل سب سے مضبوط ہیں


بُغض کے بھرے عیسائی مبلغین لوگوں کے محمد کی جانب بڑھنے کی راہیں مسدود کردینے کیلئے چند گھسی پٹی باتوں سے بڑھ کر کیا کہہ سکتے ہیں؟ ’قتال‘؟
وہ تو بائبل میں مذکور انبیاءکے ہاں بھی مذکور ہے۔ کیا پھر یہ موسی اور سموئیل اور داود کو بھی ’تلوار‘ کو ہاتھ لگ جانے کے باعث نبی ماننے سے انکار کردیں گے؟
سلیمان کو نبی نہ مانیں مگر ’اَمثال‘ تو انکی بھی بائبل کا جزولاینفک ہیں۔ کیا ان سب نبیوں کو اور ان کے صحیفوں کو اور ان کے ذکر کو ’قتال‘ میں ملوث ہونے کے باعث بائبل کے عہدقدیم سے باہر کیا جاسکتا ہے؟ بلکہ عہد جدید کے بھی وہ حصے جن میں ’تلوار‘ کا ذکر ہے.. کیا بائبل کے عہدِ جدید کی ان نصوص کی آسمانی نسبت بھی مشکوک ٹھہرا دی جائے گی؟
ایک سے زیادہ شادیاں کرلینے کے باعث محمدﷺکو بطور نبی نہیں دیکھا جاسکتا؟ تو پھر ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور داود کو بطور نبی دیکھنے پر بھی کیا یہ مبلغین اپنے چرچ میں پابندی عائد کردیں گے؟ ان انبیاءکی کئی کئی شادیوں کا ذکر اسی بائبل میں ہی تو ہے جسکی تقسیم ِ عام پر صبح شام محنت ہورہی ہے!
محمدﷺ نے عہدشکنی کے مرتکب بنو قریظہ کے سرقلم کروادئیے تھے! بنوقریظہ کے جنگی جرائم تو تاریخ کے ریکارڈ میں ہیں مگر موسی اور داود نے اپنے قابو آنے والے دشمنوں کے ساتھ جو خوفناک برتاؤ کیا، اپنی ’کتابِ مقدس‘ میں کیا انہوں نے وہ بھی دیکھا ہے؟ بائبل جو ’دکھی انسانیت کی فلاح کیلئے‘ افریقہ کے جنگلوں اور آسٹریلیاکے صحرؤں تک آج مفت پہنچائی جا رہی ہے،خود ہی ان سب سوالوں کا جواب ہے!
یاتو یہ کہہ دیں کہ خدا نے انسان کی ہدایت کے لئے آج تک کوئی نبی بھیجا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی کوئی کتاب اتاری ہے۔ پھر اس صورت میں بائبل کی ترسیل کے دیوہیکل منصوبے بھی لپیٹ کر رکھ دیں اور عہد قدیم کے انبیاءکی بھی اسی طرح ڈٹ کر مخالفت کریں جس طرح یہ محمدﷺ کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھے ہوئے ہیں .. بلکہ ’یسوع مسیح ‘ کو اور اس کے کلام کو بھی اسی صف میں کھڑا کریں اور سب پر ایمان کے لئے ایک سا ’علمی معیار‘ بنائیں …. اور اگر ان کے لئے ایسا ممکن نہیں تو پھر محمدﷺ کی طرف جانے والے عقل اور دلیل کے ان سب راستوں میں یہ کیونکر اور کب تک جم کر بیٹھ سکتے ہیں؟
اِن کا مقصد یہ تاثر دینا اور ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ محمدﷺ اگر نبی ہوتے تو آپ کی بابت ایسی غلط غلط باتیں کہی ہی کیونکر جا سکتی تھیں! مستشرقین نے اسی لئے حضرت عائشہ اور حضرت زینب بنت حجش کی شادی وغیرہ وغیرہ ایسی باتوں پر بھی لامحدود اوراق سیاہ کئے ہیں۔
تو گویا نبی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بابت کبھی کوئی غلط بات نہ کی گئی ہو اور اس کی کسی بات کو کبھی کوئی غلط رنگ نہ پہنایا گیا ہو!!! کیا اس بات کا اطلاق یہ ان نبیوں پر بھی کریں گے جن پر یہ خود بھی ایمان رکھتے ہیں۔۔۔۔!!؟
محمدﷺ کی نبوت کا ’ثبوت‘ چاہیے تو پھر موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت کا بھی ’ثبوت‘ چاہیے اور عین انہی معیاروں پر جن کو ’تحقیق‘ کی بنیاد بنا کر تم محمدﷺ کی نبوت پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے رہے ہو!۔۔۔۔ اور پھر دیکھتے ہیں ’دلیل‘ کس کے پاس ہے!!!!!؟
وہ اعتراضات جو تم محمدﷺ اور قرآن پر کرتے ہو، ’جدید انسان‘ کو ایسے ہی اعتراضات کرنے کا حق اپنے نبیوں اور اپنے صحیفوں پر بھی تو دو! تمہارے پاس تو کچھ بچے گا ہی نہیں!!! خود موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت کے ثبوت بھی خدا کے فضل سے آج ہم رکھتے ہیں نہ کہ تم!!!
انبیاءکا آنا اگر سچ ہے تو پھر ایک اسی نبی کا ہی انکار کیوں جس کی نبوت کے دلائل سب سے مضبوط ہیں ؟ جس کی زندگی کے حالات اور جس کی تعلیمات مستند ترین صورت میں آج کے انسان کو سب سے زیادہ اور سب سے وافر اور سب سے روشن صورت دستیاب ہیں ؟
جس کا انسانی زندگی پر کسی بھی انسان سے بڑھ کر اثر انداز ہونا تاریخ کا ایک واضح معلوم محسوس واقعہ ہے؟؟؟
کسی مستشرق نے کیا سچ کہا ہے کہ محمد ہی ایک وہ نبی ہے جو تاریخ کے نصف النہار میں پیدا ہوا اور سورج کی روشنی میں دیکھا گیا! پچھلے نبیوں کے تو حالات ہی مستند طور پرآج دستیاب نہیں۔
شام کے ایک مصنف نے حال ہی میں مغرب کے کچھ اہم اہم نومسلم مفکروں کے قبول اسلام کے تجربات و محسوسات ایک کتاب میں قلم بند کئے ہیں جس کا عنوان بہت خوبصورت رکھا ہے: ربحتُ محمداً (ﷺ) ولم اخسر المسیح
یعنی”میں نے محمد ﷺ کو پایا مگر مسیح کو بھی نہ کھویا“
حامد کمال الدین
مکمل تحریر >>

محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم


موجودہ عالمگیر مادہ پرستانہ تہذیب کے ظاہر فریب پردوں کے پیچھے جھانک کر انسانیت کا جائزہ لیجیے، تو وہ حال زار سامنے آتا ہے کہ روح کانپ جاتی ہے۔
پوری اولادِ آدم کو چند خواہشات نے اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور ہر طرف دولت و اقتدار کے لیے ہاتھا پائی ہو رہی ہے۔ آدمیت کے اخلاقی شعور کی مشعل گل ہے۔ جرائم تمدنی ترقی کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ نفسیاتی الجھنوں کا زور ہے اور ذہنی سکون یکسر غائب ہوچکا ہے۔ انسانی ذہن و کردار میں ایسا بنیادی فساد آگیا ہے کہ زندگی کا کوئی گوشہ اس کی منحوس پرچھائیں سے محفوظ نہیں رہا۔ فلسفہ و حکمت سے سچائی کی روح کھو گئی ہے۔ اعتقادات و نظریات میں توازن نہیں رہا۔ روحانی قدریں چوپٹ ہو چکی ہیں۔ قانون روحِ عدل سے خالی ہو رہا ہے۔ سیاست میں جذبۂ خدمت کی جگہ اغراض پرستی گھس گئی ہے۔ معیشت کے میدان میں ظالم اور مظلوم طبقے پیدا ہوگئے ہیں، فنون لطیفہ میں جمال کی ساری رنگ آمیزیاں جنسی جذبوں اور سفلی خواہشوں سے کی جانے لگی ہیں۔ تمدن کے سارے عوامل میں چپہ چپہ پر تضادات ابھر آئے ہیں جن کے درمیان تصادم برپا ہے اور پوری تاریخ ایک خوفناک ڈرامے میں بدل گئی ہے۔ عقل ترقی کر گئی ہے مگر اس کی حماقتیں ہمارے درپۓ آزار ہیں۔ علم کے سوتے ابل رہے ہیں، مگر اسی کی پروردہ جہالتوں کے ہاتھوں آدم زار کا ناک میں دم ہے۔ دولت کے خزانے ہر چہار طرف بکھرے پڑے ہیں مگر خاکی مخلوق بھوک، ننگ اور محرومی کے عذاب میں گھری ہے۔ ہزار گونہ تنظیمیں اور سیاسی ہئیتیں، نظریاتی وحدیں اور معاہداتی رابطے نمودار ہیں مگر انسان اور انسان کے درمیان بھائی بھائی کا سا تعلق نہیں چیتے اور بھیڑیے کا سا معاملہ ہے۔ عقلی، سیاسی، اخلاقی اور تہذیبی شعور کی ترقی کے چرچے ہیں، مگر ظلم اور تشدد کے انتہائی ناپاک حربے آج بھی انسانیت کے خلاف کام میں لائے جا رہے ہیں۔
تاریخ ایک وسیع اکھاڑا ہے جس میں کہیں امپیریلزم اور حریت پسندی کے درمیان، کہیں کمیونزم اور سرمایہ داری کے درمیان، کہیں جمہوریت اور آمریت کے درمیان اور کہیں فرد اور اجتماعیت کے درمیان اور کہیں مغربیت اور ایشیائیت کے درمیان ایک خونخوار آویزش جاری ہے۔
مصنوعی سیاروں اور میزائلوں کے اس دور میں سائنس الہ دین والے روایتی چراغ کے جن کی طرح مادی قوتوں کے نئے نئے خزانے انسان کے ایک ایک اشارے پر بہم پہنچا رہی ہے۔ قدرت کے سربستہ رازوں کے ازلی قفل حکمت کی کنجی سے کھل رہے ہیں، ہیبت ناک رفتار انسان کو زمان و مکان پر وسیع تصرف دلا رہی ہیں، جوہری توانائی نے تباہ دیووں کے لشکر انسان کے سامنے مسخّر کر کے کھڑے کر دیے ہیں جو بس ایک اشارۂ ابرو کے منتظر ہیں۔ دوسری طرف خود انسان کا اپنا یہ حال ہے کہ وہ شیطانی اور تخریبی قوتوں کے پنجے میں پہلے سے زیادہ بے بس دکھائی دیتا ہے جو بار بار اسے اپنے ہی خلاف محشر آرا کرتی رہی ہیں اور جنہوں نے ہر دور میں اس کے عظیم تعمیری کارناموں اور اس کے شاندار تمدنوں کو خود اسی کے ہاتھوں ملیامیٹ کرایا ہے۔
اضطراب کے اس لمحے میں جب چاروں طرف نگاہیں گھماتا ہوں تو تاریکی کا ایک سمندر شش جہت سے محاصرہ کیے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔
اس سمندر میں دور ۔۔۔
چودہ صدی کی دوری پر۔۔۔
ایک نقطہ نور دکھائی دیتا ہے
یہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی مشعل ہے!
وہی مشعل جس کی روشنی کو خود ہم نے ۔۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤں نے ۔۔۔ اپنے افکار پریشاں اور اپنے اعمال پراگندہ کے غبار میں گم کر رکھا ہے !!
(محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم از نعیم صدیقی)
مکمل تحریر >>

دینِ محمدی کا پھیلاوَ اور مادی وسائل


ننھے بچے کی تربیت و پرورش کے لئے محسوس قوتوں میں سب سے بڑی قوت وہ ہے جسے باپ کہتے ہیں۔ لیکن کیا تماشا ہے کہ وہ بزور توڑ دیا گیا اور پیدا ہونے سے پیشتر ہی توڑ دیا گیا۔ وہ آیا اور اس شان کے ساتھ آیا کہ جس کو لوگ پالنے والا کہتے ہیں۔ وہ مدینہ کے ایک میدان میں سویا ہوا تھا۔ سعد کے کنجے والو دوڑو اور اس بچے کو چھاتی سے لگاؤ۔ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی نہیں۔
جن کے پاس سب کچھ تھا انہیں دھکیل دیا گیا۔ جس کی اونٹنی کا تھن خشک ہو چکا تھا اور خود جس کے پاس دودھ کا ایک قطرہ نہ تھا۔ کچھ نہ تھا اسی نے اپنی گود میں اُٹھا لیا۔ جب واپس کرنے آئی تو تماشے کا یہ کیسا درد ناک حصہ تھا کہ ابواء کے ایک جھونپڑے میں اس بچہ کی تربیت و پرداخت کرنے والی دوسری قوت بھی ہمیشہ کے لئے گم ہو گئی۔
پیر مرد بوڑھا دادا اُٹھتا ہے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے لیکن قدرت جس کےساتھ کچھ نہیں رکھنا چاہتی وہ اُٹھتی ہے اور اس کے ہاتھ کو بھی جھٹک کر علیحدہ کر دیتی ہے۔ اب کوئی نہیں۔ اس بچہ کا کوئی نہیں۔ اس کے پاس کچھ نہیں۔ ہاں بہت سے چچا ہیں۔ لیکن جن کے پاس بہت کچھ تھا انہوں نے آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ ان میں جو سب سے نادار تھا اسی کے بچوں میں وہ بھی ہل ملِ گیا۔ چچا نے نہیں بلکہ بھتیجے نے بکریاں چرا کر اس کو کچھ دیا اور اسی میں سے کچھ خود بھی کھالیا۔] خود آنحضرت ﷺ کا بیان ہے کہ ابو طالب کے بچے کھانے پر اس طرح ٹوٹتے تھے کہ میں بھوکا رہ جاتا تھا۔ آخر میں ابو طالب نے ضیق معاش سے تنگ آکر اپنے بچوں کو تقسیم کر دیا تھا اور اسی تقسیم میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ حضور ﷺ کے حصہ میں آئے۔ [
الغرض ایک بچہ پیدا ہوتا ہے (ﷺ) جس کے ساتھ نہ باپ کی قوت ہے نہ ماں کی قوت ہے نہ اقربا و اعزہ کی قوت ہے۔ کوئی قوت نہیں ہے حتیٰ کہ وہ جس ملک میں پیدا ہوتا ہے وہ بھی ہر قسم کی نباتی اور حیوانی قوتوں سے خالی ہے۔ میدان ہے اور چٹیل میدان ہے۔ اس کا نام بن کھیتی کا بیابان ہے۔ نہ اس کے آغوش میں ندیاں کھیلتی ہیں نہ دریاؤں کا شیریں پانی اس کو سیراب کرتا ہے۔ نہ سبزہ زار مرغزار ہیں نہ نظر فریب گلزار ہیں۔ الغرض انسانی دل و دماغ کے سنوارنے اور ابھارنے میں جن قدرتی ذرائع کو دخل ہے ان میں سے بھی اس میدان میں کچھ نہیں ہے۔ وہ جس شہر میں پیدا ہوتا ہے اس کے باشندوں کے پاس بھی کوئی قوت نہیں ہے۔ نہ ذہنی قوت نہ سیاسی طاقت۔ نہ علمی زور یعنی جن قوتوں پر قوموں کی عمارت کھڑی ہوتی ہے وہ ہر ایک سے خالی ہے۔ نہ وہ آئین رکھتے تھے نہ دستور۔ نہ ان کا کوئی بادشاہ تھا نہ ان کی جماعتی پراگندگیوں کا کوئی شیرازہ بند۔ نہ ان کے پاس مکاتب تھے نہ مدارس۔ نہ کارخانے نہ فیکٹریاں۔ کچھ نہیں۔ ان چیزوں میں سے ایک بھی نہیں جس میں داخل ہو کر کوئی بچہ پروان چڑھ سکتا ہو۔ ان کے پاس جو جسمانی طاقت تھی اس کا مصرف بھی بجز اپنی تعداد گھٹانے کے اور کچھ نہ تھا۔ اسی ملک میں، اسی شہر میں، اسی قوم میں اس بچے کا ظہور ہوا اور اس شان کے ساتھ ہوا کہ اس کے سر پر جو قوت بھی سایہ فگن ہوتی تھی یا ہو سکتی تھی وہ ایک ایک کر کے مٹا دی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آخر میں یہ بھی ہوا کہ وطن پر جوا سے بھروسہ ہو سکتا تھا اس بھروسے کو بھی ہٹا دیا گیا۔ برادری والوں پر جو اعتماد ممکن تھا وہ بھی ناممکن کر دیا گیا۔ یعنی سارا وطن اور وطن والے، قبیلے والے، کنبے والے سب اس کی دشمنی پر متفق ہو کر آمادہ ہو گئے اور وہ جس کے پاس نہ باپ کی قوت تھی اور نہ ماں کی۔ نہ دادا کا زور تھا نہ اور کسی کا۔ نہ حکومت کی سرپرستی اسے حاصل تھی نہ مدرسوں کی تعلیم سے وہ فیض یاب ہو سکتا تھا نہ اپنے ملک کے گرد و پیش کے خنک آمیز اثرات سے اپنے دماغ کی تازگی اور اس میں بالیدگی پیدا کر سکتا تھا۔ اب اس کے ساتھ یہ بھی کیا گیا کہ گھروالے، کنبے والے،قبیلے والے سب کے سب اس سے علیحدہ ہو گئے۔ مادہ ان سے علیحدہ کر لیا گیا اور اب جا کر یہ ارادہ پورا ہوا کہ دیکھو۔

اس کے پاس کچھ نہیں ہے

وہ ساری قوتیں جن کو لوگ قوت کہتے ہیں اور جن کا نام محسوس پرستوں کی اصطلاح میں ''قوت'' ہے ''زور'' ہے ایک ایک کر کے الگ کر لیا گیا۔ اس کے بعد دکھایا گیا۔ مشاہدہ کرایا گیا۔
''جس کے پاس کچھ نہیں ہے، دیکھو کہ اس کے پاس سب کچھ ہو گیا۔''
ایک منظر وہ تھا اور دوسرا منظر یہ ہے کہ زمین کے ایک بڑے قطعے کا مالک ہے۔ اس کے خادموں بلکہ خادموں سے نیچے اگر کوئی درجہ ہو سکتا ہے وہی قیصر کی ٹوپی اچھال رہے ہیں۔ کسریٰ کے جلال و جبروت کے پرزے اُڑا رہے ہیں۔ وہی جس کے پاس کچھ نہ تھا۔ کیا دنیا نے نہیں دیکھا یا نہیں دیکھ رہی ہے یا نہیں دیکھے گی کہ یہی دنیا میں سب سے بڑا قرار پایا۔ قومیں اس کی تقدیس میں مصروف ہیں۔ نسلیں اس کے سراہنے میں منہمک ہیں۔ افغانستان کی پہاڑیوں میں، مراکو کی وادیوں میں، مصر کے ایوانوں میں، برصغیر کی بستیوں میں، چین کی آبادیوں میں، افریقہ میں، ایشیا میں، یورپ میں، امریکہ میں کون ہوا؟ اتنا بڑا کون ہوا؟ صرف ہمارے پاس نہیں، ہماری تاریخ میں نہیں، دوسروں کی تاریخ میں۔ کیا اس سے اونچا انسان نسلِ اول میں کوئی ظاہر ہوا۔ ماموں و ہارون کو کس کی غلامی پر ناز تھا؟ صلاح الدین کس کے نام پر صلیب والوں کی بھیڑ میں لرزہ ڈالتا تھا؟ محمود کس کی جوتیوں کے صدقے میں مشرق کا اولو العزم فاتح قرار پایا۔ شاہجہان کس کے نام کی تسبیح پڑھتا تھا؟ عالمگیر کس کی نگاہِ کرم کے لئے دکن کے سنگستانوں میں سالہا سال تک ٹھوکریں کھاتا پھرتا تھا۔ یہ کس کی ہمنامی کی برکت تھی کہ اناطولیہ کا ترک قسطنطنیہ کی دیواروں کو پھاند گیا۔ یہ کیا تھا؟ اس نے دعویٰ کیا تھا اور یہی اس کی زندگی کا مقصد تھا کہ محسوس قوتوں کا انکار کرے اور جو قوت غیب میں چھپی ہوئی ہے۔ نظام کائنات کو اسی کے ساتھ وابستہ کرے۔ اس نے دعویٰ کیا اور نہایت بلند آہنگی سے دعویٰ کیا اور خوداس کی دلیل بن کر دنیا کے سامنے آیا کیونکہ قیاسی حجتوں کا زمانہ نکل چکا تھا۔ مشاہدات اور تجربات کا وقت آرہا تھا۔ پس اس عہد کے جو پیغمبر تھے (ﷺ) ان کا دعویٰ بھی تخمینی مقدمات سے نکالے ہوئے نتائج پر مبنی نہ تھا بلکہ کھلا ہوا تجربہ، صاف اور واضح مشاہدہ پر اس کی بنیاد کھڑی کی گئی۔ دنیا نے دعویٰ کوسنا اور دلیل کو دیکھا۔ پھر ان میں کس کے ہوش قائم رہے۔ کلیسا میں تزلزل پیدا ہوا۔ لوتھر نے ایک ضربِ شدید سے پوپی تنظیم کی بنیادوں کو ہلا دیا۔ وہ خود بنایا نہیں لیکن قصر تثلیث کے ایک اہم حصہ کو اس نے اپنے ہاتھوں برباد کر دیا۔ کیا کوئی اس کا منکر ہو سکتا ہے کہ تثلیث کی یہ جزئی شکست اسی دعویٰ اور دلیل کا نتیجہ تھی جس کی ابتدا عرب سے ہوئی اور کیا ان ہی میں جو یونٹی (Unity) پر آج خطبہ دے رہے ہیں وہ عالم کے اس سب سے بڑے انسان کے احسان سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ شراب پر احتساب قائم کرنے والو دیکھو حق سے آنکھیں بند نہ کرو۔ ترکستان میں کبیر کیوں پیدا ہوئے۔ نانک کس دباؤ سے بے چین ہوئے۔ رام موہن رائے کس کی گرفت سے مضطرب تھے اور آج ہندوستان کے طول و عرض میں وہ جو جماعت نظر آتی ہے جسے اسلام سے عداوت کا دعویٰ ہے لیکن اسی کے ساتھ وہ بت شکنی میں بھی مصروف ہے کیا اس عملی فرمانبردار ذہنی نافرمان فرقہ کو اس دعوے کے اثر سے آزاد کہہ سکتے ہیں؟ دیا نندیوں کو ذرا غور کرنا چاہئے۔

(مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ )
مکمل تحریر >>

‘اس سے پہلے میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں‘ کا نبوی چیلنج


اچھی اچھی اخلاقیات کی باتیں کرنا، اونچی اونچی ڈینگیں ہانکنا ناممکن قسم کی خوبصورت باتیں بنانا یہ سب اخلاقیات، دین، روحانیت کے نام پرکرنا بہت آسان ہے۔ اوریہ سب تاریخ میں ہوتا رہا ہے۔ بڑی خوبصورت اخلاقی باتیں کرنے والے مصلحین، روحانیت کے نام نہاد مبلغین کی ذاتی زندگیاں عموماً عمل اور کردار سے خالی بلکہ اس کی ضد ہوتی ہیں۔
کسی بھی انسان کے قول پر اس کی دعوت پر سب سے زیادہ موثر دلیل اس کا اپنا عمل اور کردار ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد اس کے قریب ترین لوگوں کی گواہی یا اس کے مخالفین کے تاثرات قطعی اور فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس معیار پر انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ جو شخصیت پوری اترتی ہے وہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ہے۔ آپ کی نبوت سے قبل کی زندگی بھی اس حقیقت پر گواہ ہے۔
کوہ صفا پر کھڑے ہو کر نبئ کریم ﷺ نے تمام قبیلوں کو وا صباحاہ پکار کر بلایا ،،،
اور پھر اپنا اور اپنی دعوت کا مستقبل ان کے حوالے کر دیا
کیف وجدتمونی ؟
تم نے مجھے کیسا پایا ؟
اس دن اگر صرف ایک انگلی اٹھ کر آپ کے کردار کی طرف اشارہ کر دیتی تو نہ طائف کا منظر ھوتا اور نہ غارِ ثور ، بدر و احد ھوتے ، نہ ھی کوئی ھجرت و جہاد ھوتا ،،،،
یہی وہ کردار تھا جس کی گواھی نبی ﷺ کے بدترین اور جانی دشمن ابو سفیان نے قیصر کے دربار میں دی تھی ،،،،،،،،،،
اسی کردار کی صداقت پہ قرآن کھڑا ھے ،جس نے کبھی اپنے دشمنوں سے بھی جھوٹ نہیں بولا ،، وہ خدا پہ جھوٹ کیسے بولے گا ،،،،،،،،،،،
ایک مستشرق کہتا ھے کہ محمد ﷺ کی زندگی امتحانوں سے بھری پڑی ھے ،مگر میرے نزدیک ان کا سب سے بڑا امتحان کوہ صفا پہ کھڑا ھو کر اپنا آپ ان کے حوالے کرنا تھا کہ تم میرے کردار کا فیصلہ کرو ،، اس دن اگر ایک دشمن اٹھ کر جھوٹا الزام بھی لگا دیتا تو یہ دعوت شروع ھونے سے پہلے ختم ھو جاتی ،، بقیہ امتحان پیش ھی نہیں آنے تھے ،،
استفادہ تحریر: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، محمد حنیف
مکمل تحریر >>

کیا نظر تھی جس نت مردوں کو مسیحا کر دیا

عرب قوم جس کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، پلے، بڑھے اور جوان ہوئے، کیسی تھی مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے مسدّس میں اس کو انتہائی حسین اور دلکش پیرایہ میں اس طرح بیان کیا ہے۔
وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیت نے تھا جس کو تاکا
کہ اس گھر سے اُبلے گا چشمہ ہدیٰ کا
وہ تیرتھ تھا اک بت پرستوں کا گویا
جہاں نام حق کا نہ تھا کوئی جویا
قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا
کسی کا ہبل تھا کسی کا صفا تھا
یہ عُزّا پہ وہ نائلے پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا
نہاں ابر ظلمت میں تھا مہر انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل وغارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہرگز جو اڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے
بلند ایک ہوتا تھا گر واں شرارا
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا
کہیں تھا مویشی چرانے پر جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یوں ہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یوں ہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھے شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جاکر
وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی
(مسدس حالی صفحہ ۲۵ تا ۲۷ مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ، دیوبند)
اولاد سے محبت کسے نہیں ہوتی مگر آہ ․․․․! بے رحمی اور سنگ دلی کی حد ہوگئی، اگر ماں کی ممتا اور شفقت کی وجہ سے یا کسی اور سبب بچپن میں لڑکیوں کو زندہ زیر زمین دفن نہ کرسکتے تو جب بھی موقع ہاتھ آتا انہیں اس میں کوئی عار محسوس نہ ہوتا، بولتی، ہنستی، مسکراتی اور کھیلتی ہوئی معصوم بچیوں کو کسی بہانے کنویں کے قریب لے جاتے اور انتہائی بے دردی سے انہیں منھ کے بل اس میں دھکیل دیتے، کچھ ہی دیر میں یہ کلیاں مرجھا جاتیں، ایک شخص نے اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نسل کشی اور لڑکیوں کو زندہ مار ڈالنے کا واقعہ بیان کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی دردناک آپ بیتی سن کر روپڑے۔
(سیرة النبی جلد ۶ صفحہ ۲۳۶)
مگر قربان جائیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جنھوں نے اپنی محنت، جدوجہد، بے چین قلب، حکمت بالغہ، شیریں زبانی اور اخلاق کریمانہ کے ذریعہ توحید کا پرچم مکہ کی سنگلاخ زمین میں لہرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ۲۳/سال کے مختصر عرصہ میں عالم عرب کے بیشتر ممالک میں اسلام کے ترانے گائے جانے لگے، نفرتیں محبت میں تبدیل ہوگئیں، بت گر بت شکن ہوگئے، شراب گلیوں میں بہنے لگی، جھوٹ، غیبت، حسد اور جلن کا چلن ختم ہوگیا، زنا کاری کے تصور سے دل کانپنے لگا، عورت اب پھول کی طرح ہرگھر کی چہیتی بن گئی، اُجڈ قوم مہذب بن گئی، خوف خدا اور آخرت کے ڈرنے انہیں لاغر بنادیا، جہنم کے ڈراؤنے منظر اور عذاب قبر کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اوراتنا روتے تھے کہ ہچکیاں بندھ جاتیں، جنت کی تڑپ اور طلب میں سارا مال خرچ کردینا ان کے لئے ایک معمولی بات تھی، حاصل یہ کہ سیکڑوں معبودوں کے بجائے اب تمام بندوں کا ایک خدا سے تعلق استوار ہوچکا تھا، یہ شہنشاہ مدینہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عالی صحبت، فیضان نظر اوراعجاز ہی تو تھا کہ شرک و بت پرستی کے عادی انسان خدا کا شیدائی بن گیا، مولانا الطاف حسین حالی نے اس سحر انگیزی کو بیان کرتے ہوئے کہا۔
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی
اک آواز میں سوتی بستی جگادی
پڑا ہرطرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت وجبل نام حق سے
سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گُر ان کو ایک ایک بتایا
زمانے کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا
کھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلادئیے ایک پردہ اٹھاکر
(مسدس حالی صفحہ ۳۱)
وہ لوگ جو کسی حیثیت کے مالک نہ تھے، گمراہ اور بدچلن تھے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کرم نے ان کو نہ صرف ہدایت کا راستہ دیا بلکہ ساری کائنات کے لئے شمع ہدایت کا تمغہ عطا کیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا أصحابی کالنجوم فبأیہم اقتدیتم اہتدیتم (مشکوٰة صفحہ ۵۵۴) یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاؤگے۔
صحابہٴ کرام کا امتحان خدانے لیا، ان کے ایمان، تقویٰ، عدالت و صداقت کو جانچا اور پرکھا، وہ اتنے کھرے نکلے کہ قرآن نے ہمیشہ کے لئے ان سے اللہ کی رضامندی کا اعلان کردیا، انہیں معیار حق بنایا بلکہ انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل اور بہترانسان قرار دیا، ارشاد باری ہے اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قلُوبَہُمْ للتقوٰی لہم مغفرة واَجْرٌ عَظِیمٌ (سورہ حجرات آیت ۳) ”یہی وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ نے تقویٰ کے لئے خالص کردیا ہے، ان لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے“
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تنبیہ کی کہ کوئی میرے بعد میرے صحابہ کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنائے، ان سے محبت کرو اس لئے کہ ان سے محبت مجھ سے محبت کرنا ہے اور ان سے بغض، حسد اور دشمنی گویا میری ذات سے دشمنی ہے (ترمذی)
یہ کیسی نظر تھی کہ جو مشرک تھے موحد ہوگئے، سخت تھے نرم ہوگئے، ذلیل تھے دنیا کے امام بن گئے، حضرت ابوبکر صدیق کو صدیقیت کا مقام نہ ملتا اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت نصیب نہ ہوتی، حضرت عمر فاروق کو فاروق، حضرت عثمان غنی کو غنی اور ذونورین (دو روشنی والے) اور حضرت علی کو شیر خدا کا خطاب اور اعزاز رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور محبت کا اثر ہے، حضرت بلال حبشی اور حضرت سلمان فارسی عرب کے باہر سے تشریف لائے، کوئی تعارف اور شناشائی نہیں، پہلے غلام تھے لیکن اللہ اوراس کے رسول کی محبت نے انہیں وہ مقام عطا کیا کہ تمام مسلمان کے وہ چہیتے اور سردار بن گئے، بقول شاعر
خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحاکردیا
تحریر : تنظیم عالم قاسمی، استاذ دارالعلوم سبیل السلام، حیدرآباد
مکمل تحریر >>

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی حکمتِ عملی

فلسفے کا دائرہ ہمیشہ فکر کا دائرہ ہے۔ فلسفی کو عملی زندگی اور تاریخ کے مدّوجزر سے براہِ راست واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ واقعات و احوال سے نتائج تو نکالتا ہے لیکن واقعات و احوال کا رُخ بدلنے کے لیے کسی عملی جدوجہد میں حصہ نہیں لیتا۔ مذہب (مروجہ محدود معنوں میں) ذرا سا آگے بڑھتا ہے، وہ کچھ اعتقادات دینے کے ساتھ ساتھ فرد کو تمدّن سے الگ کر کے اسے ایک اخلاقی تعلیم بھی دیتا ہے۔ لیکن مذہب کا راستہ نظامِ اجتماعی سے باہر باہر ہوکے گزرتا ہے اور وہ نہ سیاسی ہیئت سے کوئی تعرض کرتا ہے، نہ معاشرے کے ادارات میں کوئی جامع تبدیلی چاہتا ہے، اور نہ وقت کی قیادت کو چیلنج کرتا ہے۔
مذہب کی دعوت ہمیشہ وعظ کے اسلوب پر ہوتی ہے۔ واعظ نے نرم و شیریں انداز سے کچھ نصیحتیں کیں اور اپنا رستہ لیا۔ اسے نہ اس کی فکر کہ اس کے مخاطب حالات کے کس قفس میں گرفتار ہیں، نہ اس کی پروا کہ کون سے طبقے اور عناصر کن اقدامات اور سرگرمیوں سے لوگوں کے ذہن و کردار کو کس رُخ پر لے جارہے ہیں، نہ اس طرف توجہ کہ روزمرہ حالات و واقعات کی رُو کیا اثرات چھوڑ رہی ہے، نہ یہی کاوش کہ میرے وعظ کے حق میں اور اس سے خلاف کیا کیا افکارونظریات کس کس جانب سے کتنا اثر ڈال رہے ہیں، نہ یہ پیشِ نظر کہ میرے مذہبی سانچے میں ڈھلنے والے متقی ترین افراد کیسے نظامِ تمدن کے پُرزے بنے ہوئے ہیں۔ کوئی اجتماعی نصب العین نہیں ہوتا۔ تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ کسی سیاسی اور قائدانہ بصیرت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ زندگی کے ایک چھوٹے سے خانے میں جزوی نیکی پیدا کرنے کے لیے جو کچھ بن آیا کردیا اور بقیہ وسیع دائرے میں بدی اپنا جھنڈا اطمینان سے لہراتی رہے۔ کسی اللہ والے کو اس سے کیا مطلب!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو ایک فلسفی تھے کہ محض چند اُونچے اور گہرے خیالات دے دیتے، اور واقعاتی احوال سے تعرض نہ کرتے، اور نہ ایک واعظ تھے جو اجتماعی فساد سے آنکھیں بند کر کے محض فرد کو مخاطب بناتے اور ٹھنڈے اور میٹھے وعظ سنایا کرتے اور نتائج پر سرے سے سوچا ہی نہ کرتے۔ انسانیت کے اس محسن نے پورے تمدنی شعور کے ساتھ حیاتِ انسانی کی کامل تبدیلی پیشِ نظر رکھی۔ ان قوتوں اور عناصر کو پہچانا جو نظامِ حیات پر حاوی تھیں۔ اس قیادت کو زیرنظر رکھا جو جاہلی تمدن کی گاڑی چلا رہی تھی۔ اسے دلائل کے ساتھ دعوت بھی دی، اس پر تنقید بھی کی اور اسے چیلنج بھی کیا۔ تاریخ کے دھارے پر نگاہ رکھی۔ حالات و واقعات کی ایک ایک لہر پر توجہ دی۔ ہرواقعے کو قائدانہ بصیرت اور سیاسی شعور کے ساتھی دیکھا کہ وہ کس پہلو سے اصلاح کی مہم کے لیے مفید ہے اور کس پہلو سے خلاف جاتاہے۔ معاشرے کے جملہ عناصر پر توجہ رکھی کہ دعوت کے لیے کس موقع پر کس سے کیا اُمیدیں کی جاسکتی ہیں۔ اپنی قوت اور رفتار کو حریفوں کی قوت و رفتار کے مقابل میں ملحوظ رکھا۔ ہراقدام کے لیے صحیح ترین وقت کا انتظار صبر سے کیا اور جب موزوں گھڑی آگئی تو جرأت سے قدم اُٹھا دیا۔ راے عام کے ہرمدّوجزر کا کامل فہم حاصل کیا اور مخالفین کے ہرپروپیگنڈے کا مقابلہ کرکے ان کے اثرات کو توڑا۔ شعر اور خطابت کے مخالفانہ محاذ قائم ہوئے تو ان کے جواب میں اپنے شعرا اور خطیبوں کو کھڑا کیا۔ اپنے اصولوں کی کڑی پابندی کی مگر آنکھیں بند کرکے نہیں، بلکہ احوال و ظروف کو دیکھا، وقت کی مصلحتوں کو سمجھا اور حکیمانہ نقطۂ نگاہ اختیار کیا۔ جہاں قدم آگے بڑھانے کا موقع ملا ، آگے بڑھایا۔ آگے بڑھنا جب موزوں نہ دیکھا تو قدم روک لیا۔ دو بلائیں سامنے آگئیں تو ایک سے بچ کر دوسری کا مقابلہ کیا۔ جنگی کارروائی کی ضرورت پڑی تو دریغ نہیں کیا۔ مصالحت کی راہ ملی تو دستِ صلح بڑھا دیا۔ اور پھر کمال یہ کہ اس ساری جدوجہد میں خداپرستی کی روح اور اخلاقی اقدار کا نہ صرف تحفظ کیا، بلکہ ان کو مسلسل نشوونما دی۔ اس پورے نقشۂ کار اور اس پورے طریق کار کو اگر قرآن اور سیرتِ پاک کے اوراق سے اخذ کر کے سامنے رکھیے تو وہ فرق بیّن طور پر معلوم ہوجائے گا جو مذہب اور دین میں، وعظ اور انقلابی دعوت میں، انفرادی تزکیے اور تمدنی تحریک میں ہوتا ہے۔
حضوؐر نے چونکہ ایک مکمل دین کو برپا کرنے کے لیے تحریک برپا کی تھی، اس لیے آپؐ نے ایک ایک کرکے سلیم الفطرت افراد کو تلاش کیا۔ پھر جس کے سینے میں بھی کلمۂ حق کی شمع روشن ہوگئی اسے ایک تنظیم میں پرو دیا۔ اس کی تربیت کی، اسے اپنے ساتھ کش مکش کی بھٹی میں ڈالا اور پھر جس مرحلے میں جتنی منظم قوت حاصل تھی، اُسے اپنی قیادت کے تحت جاہلی نظام کے خلاف معرکہ آرا کیا، فکری میدان میں بھی، سیاسی میدان میں بھی___ اور بالآخر جنگ کے میدان میں بھی!
جو لوگ حضوؐر کے گرد جمع ہوئے، ان کو آپؐ نے صوفی اور درویش نہیں بنایا، راہبوں اور جوگیوں کے نقشے پر نہیں ڈھالا، بدی سے بھاگنے اور غالب قوتوں سے خوف کھانے اور دولت و اقتدار سے مرعوب ہونے والی ذہنیت انھیں نہیں دی۔ وہ لوگ بھولے بھالے اور معذورانہ شان کے زہّاد نہیں تھے۔ وہ جر.ّی اور بے باک، باشعور اور بصیرت مند، خوددار اور غیور، ذہین اور زیرک، فعّال اور متحرک، پیش رُو اور تیزگام تھے۔ وہ پادریوں اور سادھوؤں کے سے انداز نہیں رکھتے تھے بلکہ کارفرما بننے کی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔
بہترین فطرت کے لوگ بہترین تربیت پاکر، بہترین تنظیمی رشتے سے بندھ کر اور بہترین قیادت کے ہاتھوں میں جاکر ایک ناقابلِ شکست قوت بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے ایک چھوٹی سی اقلیت میں ہونے کے باوجود سارے عرب کی عظیم ترین اکثریت کو اپنے سایے میں لے لیا۔ جب مکّہ میں جماعت اسلامی کی تعداد ۴۰تھی، تو مکّہ اور اردگرد کی آبادیوں میں اس تعداد نے ایک ہمہ وقتی مدّوجزر پیدا کر دیا اور پھر برسوں تک گھرگھر اور کوچہ کوچہ اگر کوئی موضوعِ گفتگو تھا تو وہ حضوؐر کی دعوتِ اسلامی تھی۔ مدینہ میں جاکر ابھی تحریکِ اسلامی کے علَم برداروں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی کہ غیرمسلم اکثریت کے علی الرغم اسلامی ریاست کی ِ نیو ڈال دی گئی۔

(جاری ہے )
مکمل تحریر >>

احکامِ الہی اور حقوقِ انسانی کا جامع منشور - خطبہ حجہ الوداع


یہ عجیب بات ہے کہ جس کام کا آغاز آپ نے مکہ کے کوہ صفا سے کیاتھا اور شدید مجبوری کی بنا پر اللہ کے حکم سے نقل مکانی کیاتھا، اس کی تکمیل بھی وہیں آ کر ہوئی اور ٹھیک اسی مقام پر ہوئی ،جسے میدان عرفات کہا جاتا ہے۔یہیں آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنا تاریخ ساز خطبہ دیا ،جسے ”حجة الوداع “ کہا جاتا ہے۔
خطبہ حجة الوداع کا تذکرہ ہوتے ہی عام طور سے ذہن میں اس کا وہ حصہ گردش کرنے لگتا ہے،جس میں چند بنیادی باتوں کے ساتھ انسانیت کا احترام اور اس کے حقوق کی حفاظت کا ذکر ملتا ہے۔یہی حصہ بیشتر کتب متون اور سیر میں بھی ملتا ہے۔حالاں کہ یہ خطبہ اس سے بھی زیادہ طویل ہے جس میں اساسیات اسلام،اجتماعات ،دینیات، عبادات اور معاملات کی تعلیم مختصر اور جامع انداز میں دی گئی ہے۔اس موقع پرآپ صلى الله عليه وسلم نے تین خطبے ارشاد فرمائے تھے۔پہلا ۹/ذی الحجہ کوعرفات کے میدان میں،دوسرا۱۰/ذی الحجہ کو منیٰ میں اور تیسرا بھی۱۱/یا۱۲/ذی الحجہ کو منیٰ میں دیا۔لیکن ان تینوں میں عرفات کا خطبہ زیادہ اہم ہے۔اس خطبہ نے انسانی دنیا پر جو اثرات ڈالے ہیں اور اس سے قوموں وملکوں کی حالت زار میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے اسی سیرت نگار نے یہ بھی تحریر کیا ہے:
”خطبہ حجة الوداع نہایت ہی خوبی سے اس حقیقت کو اجاگر کردیتا ہے کہ اب تک کے دوتین ہزار سالہ دور تاریخ میں حضور پیغمبرآخرالزماں صلى الله عليه وسلم وہ پہلی مبارک شخصیت ہیں جو ساری انسانیت کے لیے وسیع اور جامع پیغام لے کر آئے اور اس پیغام کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کیا ،اس پر مبنی ریاست قائم کی اور اسے دنیا کی تمام اقوام تک پہنچانے کے لیے شہدا ء علی الناس کی ایک جماعت قائم کردی۔“ (سید انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم،نعیم صدیقی،ص:۲۰۸،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی،۱۹۹۷/)

خطبہ حجة الوداع

حصہ: الف(دیباچہ)
سب تعریف اللہ کے لیے ،ہم اس کی حمد وثنا کرتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں،اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسی کے دامن عفو میں اپنے نفس کی شرارتوں اور برے اعمال سے پناہ چاہتے ہیں،جس کو اللہ ہدایت عطا کرے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جس کو وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتااور میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سواکوئی معبود نہیں ،وہ اکیلا ہے ،اس کا کوئی سہیم وشریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد( صلى الله عليه وسلم)اس کے بندے اور رسول ہیں۔امابعد:
الف: لوگو!
میری بات اچھی طرح سن لو،سمجھ لو،کیا خبر ،شاید اس سال کے بعد اس جگہ میری تمہاری ملاقات کبھی نہ ہوسکے۔
ب: بندگان خدا!
آج کے بعد واللہ مجھے نہیں معلوم ،شاید میں تم سے اس مقام پر کبھی نہ مل سکوں گا۔
ج: لوگو!
خاموش ہوجاوٴ،تم لوگ اس سال کے بعد شاید مجھے نہ دیکھ سکو۔
د: لوگو!
سنو! میں تمہیں وضاحت کے ساتھ(سب کچھ)بتادینا چاہتا ہوں،کیوں کہ شاید اس سال کے بعد پھر کبھی تم سے نہ مل سکوں۔
ہ: لوگو!
حج کے مسئلے مسائل مجھ سے سیکھ لو،میں نہیں جانتا،شاید اس کے بعد مجھے دوسرے حج کی نوبت نہ آئے۔
و: اللہ اسے تروتازہ اور شاداب رکھے جس نے میری باتیں سنیں اور انہیں دوسروں تک پہنچایا،بعض اوقات سننے والا سمجھ دار نہیں ہوتا اور کبھی کبھی جس کو پہنچایا جائے ،وہ اس سے زیادہ سمجھ دار نکلتا ہے۔
ز: لوگو!
تم لوگ شاید مجھ سے آئندہ اس حال میں نہ مل سکو جس حال میں اب مل رہے ہو۔

حصہ :ب(اساسیات)
دفعہ:۱ لوگو!
۱۔ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے،تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے۔
۲۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ شعار ہے ، بے شک اللہ علیم وخبیر ہے۔
۳۔ دیکھو! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر اور کسی سرخ کو کسی کالے ،سیاہ پر کوئی فضٰلت وامتیاز نہیں ، مگرہاں تقویٰ کے سبب۔
دفعہ:۲ بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ شعاری (اللہ سے ڈرنے)کی وصیت کرتا ہوں اور تمہیں اس کی اطاعت کا حکم دیتا ہوں(کیوں کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کے بندے نہیں)اور اپنے خطبے کا آغاز نیک بات سے کرتا ہوں۔
دفعہ:۳ جان لو!جاہلیت کی ہرچیز میرے قدموں تلے (روندی گئی )ہے۔
(اب تمام آثار جاہلیت کالعدم اور ساقط ہوگیے ہیں۔)
۱۔ خبردار!اہل جاہلیت کی ہر چیز میرے (ان دونوں) قدموں کے نیچے ہے۔
۲۔ سن لو!جاہلیت کا ہر خون(انتقام) مال(مغضوبہ) اور آثار جاہلیت (خاندانی، موروثی مفاخر) میرے قدموں تلے تاقیامت کالعدم ٹھرائے جاتے ہیں۔
۳۔ اور جاہلیت کے تمام باعث فخر وغرور عہدے (مآثر ومفاخر)ختم کیے جاتے ہیں،صرف سدانہ (کعبہ کی نگرانی ونگہبانی) اور سقایہ (حاجیوں کو پانی پلانے)کے عہدے باقی رہیں گے۔قتل عمد کا قصاص (بدلہ) لیا جائے گا،قتل عمد کے مشابہ وہ (قتل)ہے جو لاٹھی یا پتھر سے وقوع میں آئے اور اس کی (دیت) سو اونٹ مقرر ہے۔اس سے زیادہ جو طلب کرے گا وہ اہل جاہلیت میں شمار ہوگا۔
۴۔ اور ہرقسم کا سود آج ممنوع قرار پاتا ہے،البتہ تمہیں اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے ،جس میں نہ اوروں کا نقصان ہے اور نہ تمہارانقصان،اللہ نے یہ بات طے کردی ہے کہ سود کی گنجائش نہیں ہے۔
۵۔ اور زمانہ جاہلیت کے تمام سود (سودی کاروبار)اب باطل ہیں۔(اورجہاں تک کہ عباس بن عبد المطلب کے سود کا تعلق ہے تو وہ تمام کا تمام ساقط ہے۔)
۶۔ اور زمانہ جاہلیت کے تمام خون(کے بدلے ،انتقام) اب کالعدم ہیں۔(اور اپنے خاندان میں سے پہلا انتقام جسے میں معاف کرتا ہوں ’ربیعہ‘(بن الحارث بن عبدالمطلب) کے بچے کا ہے، جس کی رضاعت بنی لیث میں ہورہی تھی کہ بنو ہذیل نے اسے قتل کردیا تھا،پس میں پہل کرتے ہوئے انتقام ہائے جاہلیت میں سے خون کا بدلہ معاف کررہا ہوں۔
۷۔ لوگو!
الف: بے شک نسئی (مہینوں کو اپنی جگہ سے ہٹادینا )ازدیاد کفر کاہی باعث ہے۔اس سے کافر گمراہی میں پڑجاتے ہیں کہ ایک سال تو(اپنی نفسانی غرض سے) اسے حلال ٹھہراتے ہیں،پھر دوسرے سال (جب کوئی ذاتی غرض نہ ہو)اس کو حرام کردیتے ہیں،تاکہ اللہ نے جو گنتی (حرام مہینوں کی) مقرر کررکھی ہے اسے پورا کرلیں۔اس طرح وہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینے کو حلال اور اس کے حلال کیے ہوئے کو حرام کرلیتے ہیں۔
ب: دیکھو!
اور اب زمانہ گھوم پھر کر اسی جگہ آگیا ہے جہاں سے کائنات کی پیدائش کا دن شروع ہواتھا۔مہینوں کی گنتی(تعداد) اللہ کے نزدیک سال میں بارہ ہے۔ان میں سے چار محترم ،حرام ہیں کہ تین(ذی قعدہ، ذی الحجہ اورمحرم) تو متواتر ہیں اور ایک الگ آتا ہے،یعنی رجب جوشہر مضر کہلاتا ہے اور جو جمادی الثانی اور شعبان کے بیچ ہے اور مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے ،تیس کابھی۔
(کہو! میں نے اپنی بات تم تک پہنچادی ہے نا؟تو مجمع نے کہا:بے شک۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا!)
ج: سن لو! حج قیامت تک اب ذی الحجہ کے مہینے کے ساتھ مخصوص رہے گا۔
دفعہ:۴ لوگو! (تمہیں معلوم ہے کہ تم پر کون سا مہینہ سایہ فگن ہے؟تم کس دن میں یہاں جمع ہو؟کس شہر میں موجود ہو؟سب نے کہا:محتر م شہر اور محترم مہینے میں!تب آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:)
بے شک تمہارا خون (ایک دوسرے پر) حرام ہے۔
دفعہ:۵ اور تمہارا مال(وملکیت)
دفعہ:۶ تمہاری عزت وآبرو
دفعہ:۷ تمہاری کھال(جلد،جسم،بدن)بھی (ایک دوسرے کے لیے) معزز و محترم ہے۔ (جس طرح حرمت تمہارے اس دن کو ،تمہارے اس مہینے کو،تمہارے اس شہر کو(حاصل ہے)یہاں تک کہ تم اللہ سے جاملو۔)
دفعہ:۸ میری بات سنو!زندگی پا جاوٴگے(مگر اس شرط کے ساتھ کہ)
۱۔ خبردار!(ایک دوسرے پر)ظلم نہ کرنا۔
۲۔ دیکھو! ظلم(وزیادتی) نہ کرنا۔
۳۔ خوب سمجھ لو! ایک دوسرے پر باہم ظلم وستم نہ کرنا۔

حصہ:ج(اجتماعات)
دفعہ:۹ اللہ کے بندو! میری بات سنو اور سمجھو!
بلاشبہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔
دفعہ :۱۰ خبردار!ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ومحترم ہے۔
دفعہ :۱۱ اور ہر مومن دوسرے مومن پر حرام ومحترم ہے۔جس طرح آج کے دن کی حرمت ہے:
۱۔ اس کا گوشت اس پر حرام ہے۔
۲۔ کہ اسے کھائے،اس کی عدم موجودگی میں غیبت کرے۔
۳۔ اور اس کی عزت وآبرو اس پر حرام ہے کہ (اس کی چادر عزت) پھاڑ دے۔
۴۔ اس کا چہرہ اس پر حرام ہے کہ اس پر تمانچے لگائے جائیں۔
۵۔ اور تکلیف دہی بھی حرام کہ اسے تکلیف پہنچائی جائے۔
۶۔ اور یہ بھی حرام کہ تکلیف رسانی کے لیے اسے دھمکایا جائے۔
۷۔ اور کسی مسلمان کے لیے یہ بھی جائز نہیں سوائے اس کے کہ جو وہ اپنی خوشی سے دے۔
۸۔ مال مسلم بھی حلال وجائز نہیں سوائے اس کے کہ وہ اپنی خوشی سے دے۔
(اور میں تمہیں بتاوٴں کہ مسلمان درحقیقت ہے کون؟)
دفعہ:۱۲ مسلمان وہی ہے جو اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگوں کو محفوظ رکھے۔
دفعہ:۱۳ اور مومن درحقیقت وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کا جان ومال امن وعافیت میں رہے۔
دفعہ:۱۴ اور مہاجر درحقیقت وہ ہے جو اپنے گناہوں اور خطاوٴں سے کنارہ کشی کرلے۔
دفعہ:۱۵ اور مجاہد تو دراصل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کی خاطر اپنے نفس کا مقابلہ کرے۔
دفعہ:۱۶ خبردار!اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابندہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت واپس لوٹادے۔
دفعہ:۱۷ قرض واپس ادائیگی کا متقاضی ہے۔
دفعہ:۱۸ ادھار لی ہوئی چیز کو واپس کیا جانا چاہیے۔
دفعہ:۱۹ عطیہ لوٹا یا جائے۔
دفعہ:۲۰ ضامن ضمانت (تاوان) کا ذمہ دار ہوگا۔
دفعہ:۲۱ دیکھو!اب ایک مجرم اپنے جرم کا خودہی ذمہ دار ہوگا۔
دفعہ:۲۲ جان لو! اب نہ باپ کے جرم کے بدلے بیٹا پکڑا جائیگا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائیگا۔
دفعہ:۲۳ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو،کیوں کہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات (احکام)کے تحت ان کے ستر تمہارے لیے حلال ہوئے۔
دفعہ:۲۴ خبردار!تمہارے لیے عورتوں سے نیک سلوکی کی وصیت ہے،کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں اور اس کے سوا تم کسی معاملے میں حق ملکیت نہیں رکھتے۔
دفعہ:۲۵ لوگو!جس طرح عورتوں کے کچھ حقوق تمہارے ذمہ ہیں،اسی طرح ان پر بھی تمہارے کچھ حقوق واجب ہیں۔ (سنو! تمہاری عورتوں پر جس طرح کچھ حقوق تمہارے واجب ہیں ،اسی طرح تمہاری عورتوں کا بھی تم پر کچھ حق ہے۔)
(جہاں تک تمہارے ان حقوق کا تعلق ہے جو تمہاری عورتوں پر واجب ہیں)تو وہ یہ ہیں:
۱۔ وہ کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں۔
۲۔ وہ تمہارا بستر کسی ایسے شخص سے پامال نہ کرائیں جسے تم پسند نہیں کرتے۔
۳۔ وہ تمہارے گھر میں کسی ایسے شخص کو داخل نہ ہونے دیں جسے تم ناپسندکرتے ہو،مگر یہ کہ تمہاری اجازت سے۔
۴۔ اگروہ عورتیں (ان باتوں) کی خلاف ورزی کریں تو تمہارے لیے اجازت ہے کہ:
الف: تم انہیں بستر وں پر اکیلا ،تنہا چھوڑ دو۔
ب: (ان پر سختی کرو)مگر شدید تکلیف والی چوٹ نہ مارو(اگر مارنا ہی چاہو۔)
دیکھو!کچھ حقوق ان کے بھی تمہارے اوپر عائد ہوتے ہیں۔مثلا:
۵۔ یہ کہ کھانے پینے،پہننے اوڑھنے(خوراک ولباس )کے بارے میں ان سے اچھا سلوک کرو(اگر وہ تمہاری نافرمانی سے بازآجائیں اور کہا مانیں تو(حسب حیثیت) ان کا کھانا کپڑا(خوراک، لباس، نان نفقہ) تمہارے ذمہ ہے۔
(اور عورتوں پر یہ بھی واجب ہے کہ)
۶۔ عورتیں معروفات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں۔
۷۔ اور اگر وہ فرماں برداری کریں تو ان پر (کسی قسم کی)زیادتی کا تمہیں کوئی حق نہیں۔
۸۔ کوئی عورت اپنے گھر میں اخراجات نہ کرے ،مگر ہاں اپنے شوہر کی اجازت سے۔
۹۔ جان لو!لڑکا(اولاد)اس کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا۔(بچہ شوہر کی اولاد متصور ہوگا۔)
اور جس پر حرام کاری ثابت ہو اس کی سزا سنگ ساری ہے(زناکار کے لیے پتھر)اور ان کا حساب اللہ کے ذمے۔
۱۰۔ دیکھو!کسی عورت کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اسکی اجازت کے بغیر کسی کودے۔
۱۱۔ خبردار!جس نے خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے منسوب کیا،یاکسی غلام نے(جان بوجھ کر) اپنے آقا کے سوا کسی آقا سے نسبتقائم کی تو اس پر اللہ کی،اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی اور قیامت کے دن اس سے کوئی بدلہ یا معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
دفعہ:۲۶
۱۔ اور ہاں غلام ،تمہارے غلام!(ان سے حسنِ سلوک کرو)
الف: جو تم کھاتے ہو اس میں سے ان کو بھی کھلاوٴ۔
ب: جو تم پہنتے ہو اس میں سے ان کو بھی پہناوٴ۔
ج: اگر وہ کوئی ایسی خطا کریں جسے تم دیکھو کہ معاف نہیں کرسکتے تو اللہ کے بندوانہیں فروخت کردو۔(مگر)
د: انہیں بھیانک سزا (عذاب) تو نہ دو۔
۲۔ اور ان کے بارے میں بھی تمہیں (حسن سلوک کی) وصیت کرتا ہوں ، جولونڈیاں (تمہارے زیر تصرف) ہیں،پس ان کو وہ کھلاوٴ اور پہناوٴ جو تم کھاتے پہنتے ہو۔

حصہ:د(دینیات،عقائد،عبادات،معاملات،اخلاقیات)
دفعہ:۲۷ لوگو! بے شک مجھے حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں سے لڑوں،یہاں تک کہ لاالٰہ الااللہ کے قائل ہوجائیں اور جب وہ اس کلمے کا اقرار کرلیں تو گویا انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں کو بچالیا اور باقی حساب اللہ کے ذمے ہے۔
دفعہ:۲۸ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراوٴ۔
دفعہ:۲۹ اور نہ کسی کی ناحق جان لو۔(نہ قتل کرو)
دفعہ:۳۰ نہ بدکاری(زنا)کرو۔
دفعہ:۳۱ اور نہ ہی چوری (سرقہ) کرو۔
دفعہ:۳۲ لوگو!(اچھی طرح سمجھ لو!)میرے بعد نہ کوئی پیغمبر(آنے والاہے اور نہ تمہارے بعد کوئی امت(ہوگی)۔
۱۔ اپنے خطاب کے دوران رسول صلى الله عليه وسلم نے مسیح الدجال کا ذکر فرمایا،پھر ذکر میں کافی طول پکڑا،پھر دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
۲۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا کہ جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔
(پس میں بھی)(میں بلاشبہ تمہیں اس سے ڈرا تا ہوں)
۳۔ بے شک میری سب سے افضل دعاء بلکہ تمام انبیائے ماقبل کی یہی ہے:
لاالٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد بیدہ الخیر،یحی ویمیت وھو علیٰ کل شیء قدیر۔
دفعہ:۳۳ خوب سن لو !اپنے پروردگار کی عبادت کرو،نماز پنج گانہ اداکرو، رمضان کے روزے رکھو،اپنے (رب کے)گھر(خانہ کعبہ) کا حج کرو،اپنی زکوٰة خوشی خوشی دیا کرو،اپنے حکام کی اطاعت کرو(اس طرح ان امور کی انجام دہی کے بعد بطور اجر) اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاوٴ۔ 
دفعہ:۳۴ اللہ سے ڈرو!(ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو)اور لوگوں کو ان کی چیزیں (ناپ تول میں)کم نہ دیا کرو اور ملک میں فساد کرتے نہ پھرو۔
دفعہ:۳۵ خبردار! دین میں غلو(مبالغہ آمیزی،انتہا پسندی) سے بچو،اس لیے کہ تم سے پہلے جو (قومیں) تھیں وہ دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک کردی گئیں۔
دفعہ:۳۶ لوگو!
دیکھو،شیطان اس بات سے تو بے شک بالکل مایوس ہوچکا ہے ،کہ تمہاری اس سرزمین پر کبھی اس کی پرستش کی جائے گی،مگر چوکنا رہو! وہ اس بات پر بھی راضی ہوگاکہ اس (پرستش) کے سوا چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کے اشاروں کی تعمیل کی جائے،پس اپنے دین وایمان کی (حفاظت کی)خاطر اس سے بچے رہنا۔
دفعہ:۳۷ لوگو!
۱۔ اللہ نے میراث (ترکہ)میں ہروارث کا(جداگانہ)حصہ مقرر کردیا ہے۔
۲۔ اس لیے وارث کے لیے (تمام مال میں)وصیت کرنا جائز نہیں۔
(چنانچہ) کسی کو ایک تہائی سے زائد(مال)کی وصیت کاحق نہیں۔
(بقول راوی پھر حضور صلى الله عليه وسلم نے ہمیں صدقے کا حکم دیا اور فرمایا:)
دفعہ:۳۸ صدقہ دیا کرو!اس لیے میں نہیں جانتا،مگر شاید تم آج کے بعد مجھے پھر نہ دیکھ سکو۔
دفعہ:۳۹ اللہ کے نام پر(جھوٹی) قسمیں نہ کھایا کرو،کیوں کہ جو اللہ کے نام پر (جھوٹی) قسم کھائے گا،اللہ اس کا جھوٹ ظاہر کردے گا۔
دفعہ:۴۰ لوگو!
۱۔ علم (تعلیم،معلومات) میں سے جو کچھ حاصل کرسکتے ہو ،لے لو ۔ اس سے پہلے کہ وہ سمیٹ لیا جائے اور قبل اس کے کہ علم کو اٹھا لیاجائے۔
۲۔ خبردار!علم کے اٹھائے جانے(ختم ہوجانے) کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں۔
( آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔)
دفعہ:۴۱ دیکھو!
۱۔ تین باتیں ایسی ہیں جن میں (مومن کا) دل(دھوکہ فریب)کینے کا شکار نہیں ہوتا۔ یعنی:
الف: عمل میں اخلاص کہ صرف اللہ کے لیے۔
ب: (مسلمان) حاکموں کی خیرخواہی میں۔
ج: عام مسلمانوں (کی جماعت) سے وابستگی میں، کیوں کہ ان (مسلمانوں) کی دعائیں انہیں گھیرے رہتی ہیں(اس پر سایہ فگن رہتی ہیں۔)
۲۔ اللہ نے ایسی کوئی بیماری (دکھ،تکلیف) پیدا نہیں کی جس کی دوا نہ اتاری ہو،سوائے بڑھاپے کے۔
دفعہ:۴۲ لوگومیری بات سمجھو!کیوں کہ میں نے سب کچھ تم تک پہنچادیا ہے:
۱۔ میں نے تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑ دی ہے کہ تم کبھی گمراہ نہ ہوگے اگر مضبوطی سے تھامے رہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔
۲۔ اور میں نے تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑدی ہیں کہ اگر ان کو تھامے (پکڑے) رہے تو پھر کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے۔ صاف وروشن اللہ کی کتاب اور اسکے نبی صلى الله عليه وسلم کی سنت۔
دفعہ:۴۳ لوگو!سنو اور اطاعت کرواگر چہ تمہارے اوپر کوئی نک کٹاحبشی غلام امیر بنادیا جائے جو تمہارے درمیان کتاب اللہ(کے احکام)کو قائم (نافذ)کرے۔
دفعہ:۴۴ جان لو!
۱۔ ہر نبی(پیغمبر) کی دعوت گزرچکی ہے،سوائے میری دعوت(دین و شریعت) کے،کہ (وہ ہمیشہ کے لیے ہے) میں نے اس کو اپنے پروردگارکے پاس قیامت تک کے لیے ذخیرہ(جمع) کردیا ہے۔
۲۔ امابعد!انبیاء علیہم السلام (قیامت کے دن) کثرت تعداد پر فخر کریں گے، پس تم مجھے (اپنی بداعمالیوں کے سبب) رسوا نہ کردینا،میں حوض کوثر پر (تمہارے انتظار میں) رہوں گا۔
۳۔ خبردار!میں حوض کوثر پر تم سے پہلے پہنچوں گااور دوسری امتوں پر تمہاری کثرت کے سبب فخر کروں گا،تو کہیں میری رسوائی کا باعث نہ بن جانا۔
۴۔ سنو!میں بعض کو (شفاعت کرکے) چھڑالوں گا،مگر بعض لوگ مجھ سے چھڑالیے جائیں گے۔پھر میں کہوں گا اے میرے رب! یہ تو میرے اصحاب(امتی) ہیں؟اللہ فرمائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں کرڈالی تھیں۔
دفعہ:۴۵ خبردار!میرے بعد کہیں کافر نہ بن جاناکہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
دفعہ:۴۶ اور ہاں سنو!
۱۔ تم اپنے رب سے ملو گے تو اللہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں (ضرور) باز پرس کریگا۔
۲۔ پس جو (دنیا میں رہتے ہوئے ہمہ وقت) آخرت کو ہی اپنے پیش نظر رکھے گا تو اللہ اسے دل جمعی عطا کرے گا اور اسے اس کی آنکھوں کے سامنے (دنیا میں ہی) بے نیازی وتونگری عطا کرے گا اور دنیااس کے (قدموں میں)سرنگو ہوکر خود آئے گی، لیکن جودنیا کو ہی محبوب ومقصود قرار دے گاتو اللہ اس کے معاملات کو منتشر ومتفرق کردے گااور وہ (آدمی دنیا میں ہی) اپنی آنکھوں کے سامنے افلاس وتنگ دستی دیکھ لے گااور دنیا میں (سے تو) اسے اتنا حصہ ملے گاجتنا کہ اس کے لیے (مقدرمیں) لکھا جاچکا ہے۔
دفعہ:۴۷ دیکھو!اب تم نے مجھے (جی بھر کر)دیکھ بھی لیا ہے اور مجھ سے ان تمام باتوں کو سن بھی لیا ہے ،تم سے عنقریب میرے بارے میں پوچھا جائے گا (تو سچ سچ بتانا) پس جس نے بھی مجھ پر جھوٹ باندھاتو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے(گا)۔
دفعہ:۴۸ دیکھو!
۱۔ جو یہاں موجود ہے وہ غیر حاضر تک (میری) یہ سب با تیں (ضرور) پہنچادے۔
۲۔ شاید کہ بعض ایسے کہ جن تک(یہ باتیں) پہنچیں (گی)یہاں موجود بعض سننے والوں سے زیادہ سمجھ دار ثابت ہوں۔
۳۔ سن لو! تم میں سے جو یہاں قریب ہیں (ان کے لیے لازم ہے کہ) اپنے دور والوں (بعد میں آنے والے لوگوں)تک یہ باتیں پہنچادیں۔

حصہ:ر(اختتامیہ)

پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
اے اللہ !(دیکھ لے) میں نے (تیرا پیغام بھر پور طورپر) پہنچادیا ہے یا نہیں؟
(پھر لوگوں سے فرمایا)
کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک اچھی طرح نہیں پہنچادیا؟
سنو! کیا میں نے حق تبلیغ ادا نہیں کردیا؟
دیکھو!کیا میں نے تعلیم وتلقین دین کی انتہا نہیں کردی؟
(تو سب حاضرین،سامعین،مجمع والے بیک آواز اقرار واعتراف کرنے لگے۔) بے شک!بے شک!(تب رسول صلى الله عليه وسلم نے) فرمایا:اے اللہ گواہ رہنا! (تیرے بندے کیسا صاف اقرار کررہے ہیں)،اے اللہ گواہ رہنا(یہاں موجود لوگ کیا کہہ رہے ہیں)،اے اللہ گواہ رہنا!(پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:)اور تم لوگوں سے(آخرت ،قیامت میں اللہ کی طرف سے)میرے بارے میں پوچھا جائے گاتو تم لوگ کیا کہوگے؟
تو سب نے کہا:ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ نے امانت الٰہی ہم تک پہنچادی اور حق رسالت ادا کردیا اور (امت کو) نصیحت کرنے کی انتہا فرمادی۔ (پس رسول صلى الله عليه وسلم نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور) پھر اسے لوگوں کی طرف جھکایا اور فرمایا:اے اللہ گواہ رہنا! اے اللہ گواہ رہنا!اے اللہ گواہ رہنا! والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔۷
***

استفادہ تحریر : ڈاکٹر(مفتی) محمد شمیم اختر قاسمی رکن: ادرہٴ تحقیق وتصنیف اسلامی،نبی نگر،دھوررا،علی گڑھ۔۲۰۰۲۰۲(یوپی)
مکمل تحریر >>