Sunday 24 May 2015

غزوہَ بدر اور دیسی ملحدین کے مغالطے


دو دن پہلے سوشل میڈیائی ملحدین کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں ایک علامہ ملحد صاحب نے مسلمانوں کی اپنی تاریخ سے لاعلمی کا تذکرہ کرنے کے بعد اسی لاعلمی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور غزوہ بدر کو اپنی مرضی کے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ۔ لکھا :

"عام روایتی مسلمان بہت سادے اور بھولے ہوتے ہیں، اسلام پر ان کا غیر متزلزل ایمان صرف اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے دینی علم کا اہم ترین ذریعہ اپنے گھر سے حاصل ہونے والی دینی معلومات اور جمعہ کے دن عربی خطبے سے قبل خطیب کی تقریر ہوتا ہے۔ غیر مسلموں سے نفرت اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ معصوم ناپختہ ذہنوں میں بچپن سے ہی بٹھا دی جاتی ہے، جو عموماً مسخ شدہ تاریخ کی صورت میں انہیں ازبر کرائی جاتی ہے۔ ان مسلمان بچوں کے ذہنوں میں بٹھایا جاتا ہے کہ اسلام کی شروعات سے ہی کافروں نے مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، اور ان پر ہر طرح سے عرصۂ حیات تنگ کیا گیا۔ یہ بات ان بچوں کی ذہن میں اس قدر راسخ ہوجاتی ہے کہ ذہن اس کے برعکس کچھ سننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا۔۔
ایسا ہی ایک مغالطہ ”غزوۂ بدر“ ہے، کسی بھی مسلمان سے پوچھ لیں کہ کفر و اسلام کا سب سے پہلا معرکہ کیسے ہوا؟ فٹ سے جواب آئے گا، ”کافروں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تھا۔۔۔۔"

ایسے کہتے ہیں دوسرے کے منہ میں اپنی بات ڈالنا۔ ملحد ہو اور مکر و فریب سے کام نا لے یہ ممکن ہی نہیں، جناب خود ہی ایک جھوٹ گھڑتے ہیں پھر اسکے لیے دلائل تراشنا شروع کردیتے ہیں۔ آگے لکھتے ہیں :
"مسلمان علماء بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ ”غزوۂ بدر“ کے اسباب کیا تھے اور جارح کون تھا؟ لیکن پھر بھی اصل صورت حال اس لئے پوشیدہ رکھی جاتی ہے کہ حقیقت سامنے آنے سے معصوم ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا ہو سکتے ہیں، اور 1400 سال سے مسلمانوں کی مظلومیت کی جو تصویر ہر مسلمان کے ذہن میں نقش کر دی گئی ہے وہ دھندلا سکتی ہے۔ اس لئے عموماً واقعات کو تفصیل اور تحقیق کے ساتھ بیان کرنے کے بجائے اختصار سے کام لیتے ہوئے حقیقی اسباب پر روشی ڈالے بغیر بدر کے میدان میں دونوں فوجوں کو ہاہم ٹکرا دیا جاتا ہے، اور پھر قوت ایمانی کے باعث 313 مجاہدین اسلام کی ایک ہزار کفار پر فتح مبین کے نقارے بجا دیئے جاتے ہیں۔
جنگ بدر کے بارے میں بھی اصل حقائق کو چھپاتے ہوئے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ نے مدینہ پر حملہ کر دیا تھا تاکہ مسلمانوں کا خاتمہ کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسلام کا نام تک مٹا دیا جائے، اور جنگ بدر کے اصل اسباب و محرّکات کا بالکل بھی ذکر نہیں کیا جاتا۔حالانکہ غزوہ بدر کا اصل محرّک کفار مکہ کا مدینہ پر حملہ آور ہونا نہیں تھا، بلکہ ہجرت کے بعد سے یکے بعد دیگرے مسلسل ایک سال سے مسلمانوں کی جانب سے قریش مکہ کے تجارتی قافلوں کو لوٹنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ کتنے مسلمانوں کو یہ بات معلوم ہے کہ غزوہ بدر سے قبل پیغمبر اسلام نے تقریباً آٹھ بار قریش مکہ کے تجارتی قافلے کو لوٹنے کی کوششیں کیں؟ اور لوٹ مار کی انہی کوششوں کے نتیجے میں بالآخر جنگ بدر کا میدان کارزار گرم ہوا۔،، ہجرت کے بعد وہی مظلوم، مسکین، بے یار و مددگار مسلمان ایک نئے رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں، امن و سلامتی کے داعی، ظلم کی مخالفت پر کمر بستہ مسلمان اب تمام تر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک نئے رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں۔ قریش کے تجارتی قافلے شام کی طرف جانے والی اسی تجارتی شاہراہ پر آمد و رفت رکھتے تھے ۔ایک پرامن شارع تجارت کو میدان جنگ میں تبدیل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔
محدثین، سیرت نگار، اور مؤرخین اسلام، غزوہ بدر سے قبل کل آٹھ مہمات(سرایا) کا ذکر کرتے ہیں، میں اختصار کے ساتھ ان کا یہاں ذکر کر رہاہوں، یہ آٹھ جنگی مہمات اس بات کا پول بہت طرح کھول کر رکھ دیتی ہیں کہ غزوہ بدر کے اصل محرّکات اور اسباب کیا تھے۔۔۔۔۔۔"

یہ ایک اچھا اتفاق ہے کہ ہم غزوہ بدر کے اسباب اور پس منظر پر تفصیل ملحدین کی تحریر سے پہلے ہی پیج پر پیش کرچکے ہیں ، یہ تفصیل سیرت کی عام مقبول و معروف کتابوں الرحیق المختوم از صفی الرحمان مبارکپوری اور سیرت المصطفی از مولانا ادریس کاندھلوی سے پیش کی گئی تھی، ساری تفصیل اب بھی پیج پر موجود ہے۔ ان ملحد علامہ کو کوئی وہ تفصیل دکھلادے تو شاید انکو اپنے اس جھوٹ پر شرم آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان علماء حقائق کو نہیں چھپاتے جناب ملحد صاحب نے حقائق اور اسباب کو جان بوجھ کر چھپانے کی کوشش کی ہے۔ غزوہ بدر اور اسکے پس منظر کے متعلق تفصیلی تذکرہ گزشتہ تحاریر میں پیش کیا جاچکا ہے، ہم اس میں یہاں صرف ان باتوں کو پیش کریں گے جو اس اعتراض کی حقیقت واضح کرتی ہیں۔
کفارِ مکہ نے مکہ میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جس سے مجبور ہوکر مسلمانوں نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی، مسلمانوں کے مدینہ آجانے کے بعد بھی قریش کی حماقتوں کا سلسلہ بند نہ ہوا اور وہ اپنی ستم رانیوں سے باز نہ آئے۔ بلکہ یہ دیکھ کر ان کا جوشِ غضب اور بھڑک اُٹھا کہ مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹ نکلے ہیں اور انہیں مدینے میں ایک پُر امن جائے قرار مل گئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے عبد اللہ بن اُبی کو خط لکھا دھمکی آمیز خط لکھا ۔ اسکی تفصیل ہم یہاں پیش کرچکے۔
https://www.facebook.com/IslamicHistory2/photos/pb.170736319794083.-2207520000.1431695255./355250788009301/?type=3&src=https%3A%2F%2Fscontent-fra.xx.fbcdn.net%2Fhphotos-xpa1%2Fv%2Ft1.0-9%2F1470031_355250788009301_2964091251314188862_n.jpg%3Foh%3Ddf389a9685c3df06d364ac8714725bf4%26oe%3D56069CA6&size=850%2C340&fbid=355250788009301

مسلمانوں کو کھلی دھمکیا ں دی گئیں ، جس کی تفصیل اس لنک پر پیش کی جاچکی

https://www.facebook.com/IslamicHistory2/photos/pb.170736319794083.-2207520000.1431695255./355251274675919/?type=3&src=https%3A%2F%2Fscontent-fra.xx.fbcdn.net%2Fhphotos-xtp1%2Fv%2Ft1.0-9%2F11139775_355251274675919_1679098667637543647_n.jpg%3Foh%3D85ff96314e5d4fca08ea03d9bb7f4c02%26oe%3D560604C3&size=850%2C340&fbid=355251274675919

ان پُر خطر حالات میں بھی مسلمانوں نے کوئی جارحانہ فیصلہ نہیں کیا بلکہ اپنی حفاظت کی تراکیب کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت فرمادی ۔ اسکی تفصیل بھی پیج پر ایک پوسٹ میں پیش کی جاچکی ۔
جنگ کی اجازت نازل ہونے کے بعد مسلمانوں کی عسکری مہمات کا سلسلہ عملاً شروع ہوگیا۔ فوجی دستے گشت کرنے لگے۔ اس کا مقصود وہی تھا جس کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے کہ:
1۔مدینہ کے گرد وپیش کے راستوں پر عموماً اور مکے کے راستے پر خصوصاً نظر رکھی جائے اور اس کے احوال کا پتا لگایا جاتا رہے ۔
2۔ ان راستوں پر واقع قبائل سے معاہدے کیے جائیں اور یثرب کے مشرکین ویہود اور آس پاس کے بدؤوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ مسلمان طاقتور ہیں اور اب انہیں کمزور نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
3۔قریش کو ان کے بے جا طیش اور تیور کے خطرناک نتیجے سے ڈرایا جائے تاکہ جس حماقت کی دلدل میں وہ اب تک دھنستے چلے جارہے ہیں اس سے نکل کر ہوش کے ناخن لیں اور اپنے اقتصاد اور اسبابِ معیشت کو خطرے میں دیکھ کر صلح کی طرف مائل ہو جائیں اور مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان کے خاتمے کے جو عزائم رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں اور مکے کے کمزور مسلمانوںپر جو ظلم وستم ڈھارہے ہیں ان سب سے باز آجائیں اور مسلمان جزیرۃ العرب میں اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے آزاد ہو جائیں۔

اس منصوبے پر عمل میں کئی سَرَایا اور پھر غزوہ بدر پیش آیا۔
سَریہ عبد اللہ بن جحش کے واقعات کے بعد مشرکین کا خوف حقیقت بن گیا اور ان کے سامنے ایک واقعی خطرۂ مجسم ہوکر آگیا۔ انہیں جس پھندے میں پھنسنے کا اندیشہ تھا اس میں اب وہ واقعی پھنس چکے تھے۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ مدینے کی قیادت انتہائی بیدار مغز ہے اور ان کی ایک ایک تجارتی نقل وحرکت پر نظر رکھتی ہے۔مسلمان چاہیں تو تین سو میل کا راستہ طے کرکے ان کے علاقے کے اندر انہیں مار کاٹ سکتے ہیں ، قید کرسکتے ہیں ، مال لُوٹ سکتے ہیں اور ان سب کے بعد صحیح سالم واپس بھی جاسکتے ہیں۔ مشرکین کی سمجھ میں آگیا کہ ان کی شامی تجارت اب مستقل خطرے کی زد میں ہے لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنی حماقت سے باز آنے اور جُہَینہ او ربنو ضمرہ کی طرح صلح وصفائی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اپنے جذبۂ غیظ وغضب اور جوشِ بغض وعداوت میں کچھ اور آگے بڑھ گئے اور ان کے صنادید واکابر نے اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا کہ مسلمانوں کے گھر وں میں گھس کر ان کا صفایا کردیا جائے گا۔چنانچہ یہی طیش تھا جو انہیں میدانِ بدر تک لے آیا۔

یہ اس پس منظر کا مختصر تذکرہ تھا جس کو ملحد صاحب نے جان بوجھ کر چھپاتے ہوئے غزوہ بدر کو ایک الگ ہی رنگ میں پیش کیا ۔ علامہ ملحد نے اپنی اس کہانی میں ہر سریہ اور پھر غزوہ بدر کی مسلمانوں کی طرف سے چھاپہ مار کاروائیوں کو ڈاکا ڈالنے اور لوٹ مار کرنے کے رنگ میں دکھایا ۔ ۔ جب بندے کا مقصد ہی دھوکہ دینا گمراہ کرنا ہو تو پھر وہ کسی اچھی سے اچھی بات کو بھی کسی غلط رنگ میں بھی پیش کرسکتا ہے ۔۔
اوپر ہم اسکا تذکرہ کرچکے کہ مسلمان کے اس جارحانہ عمل کی دو وجوہات تھیں ایک قریش اپنے معیشت کو خطرے میں دیکھ کر باقی قبائل کی طرح مسلمانوں سے صلح کرنے پر مجبور ہوجائیں یا انکو معاشی طور پر اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرنے سے باز رہیں ۔ ان سرایا اور غزوات کی تفصیل تمام بڑی کتابوں زاد المعاد ۲/۸۳-۸۵ ابن ہشام ۱/۵۹۱ - ۶۰۵ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔