Sunday 24 May 2015

سریہ زید بن حارثہ


جنگ احد سے پہلے یہ مسلمانوں کی یہ آخری اور کامیاب ترین مہم تھی جو جمادی الآخر ۳ ھ میں پیش آئی۔
واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ قریش جنگ بدر کے بعد قلق واضطراب میں مبتلا تو تھے ہی مگر جب گرمی کا موسم آگیا اور ملک شام کے تجارتی سفر کا وقت آن پہنچا توانہیں ایک اور فکر دامن گیر ہوئی۔ اس کی وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ صفوان بن امیہ نے ...جسے قریش کی طرف سے اس سال ملکِ شام جانے والے تجارتی قافلے کا میرکارواں منتخب کیاگیا تھا ...قریش سے کہا : ''محمد اور اس کے ساتھیوں نے ہماری تجارتی شاہراہ ہمارے لیے پُر صعوبت بنادی ہے ، سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اس کے ساتھیوں سے کیسے نمٹیں۔ وہ ساحل چھوڑ کر ہٹتے ہی نہیں اور باشندگانِ ساحل نے ان سے مصالحت کرلی ہے۔ عام لوگ بھی انہیں کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کون سا راستہ اختیار کریں ؟ اگر ہم گھروں ہی میں بیٹھ رہیں تو اپنا اصل مال بھی کھا جائیں گے اور کچھ باقی نہ بچے گا ، کیونکہ مکے میں ہماری زندگی کا دار ومدار اس پر ہے کہ گرمی میں شام اور جاڑے میں حبشہ سے تجارت کریں۔''
صفوان کے اس سوال کے بعد اس موضوع پر غور وخوض شروع ہوگیا۔ آخر اسود بن عبد المطلب نے صفوان سے کہا:''تم ساحل کا راستہ چھوڑ کر عراق کے راستے سفر کرو۔'' واضح رہے کہ یہ راستہ بہت لمبا ہے۔ نجد سے ہوکر شام جاتا ہے اور مدینہ کے مشرق میں خاصے فاصلے سے گزرتا ہے۔ قریش اس راستے سے بالکل نا واقف تھے اس لیے اسود بن عبد المطلب نے صفوان کو مشورہ دیا کہ وہ فرات بن حیان کو...جو قبیلہ بکر بن وائل سے تعلق رکھتا تھا ... راستہ بتانے کے لیے راہنما رکھ لے۔ وہ اس سفر میں اس کی رہنمائی کردے گا۔
اس انتظام کے بعد قریش کا کارواں صفوان بن امیہ کی قیادت میں نئے راستے سے روانہ ہوا، مگر اس کارواں اور اس کے سفر کے پورے منصوبے کی خبر مدینہ پہنچ گئی۔ ہوا یہ کہ سلیطؓ بن نعمان جو مسلمان ہوچکے تھے نعیم بن مسعود کے ساتھ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ، بادہ نوشی کی ایک مجلس میں جمع ہوئے ...یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے ...جب نعیم پر نشے کا غلبہ ہوا تو انہوں نے قافلے اوراس کے سفر کے پورے منصوبے کی تفصیل بیان کرڈالی۔ سلیطؓ پوری برق رفتاری کے ساتھ خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور ساری تفصیل کہہ سنائی۔
رسول اللہﷺ نے فوراً حملہ کی تیاری کی اور سو سواروں کا ایک رسالہ حضرت زید بن حارثہ کلبیؓ کی کمان میں دے کر روانہ کیا۔ حضرت زیدؓ نے نہایت تیزی سے راستہ طے کیا اور ابھی قریش کا قافلہ بالکل بے خبر ی کے عالم میں قردہ نامی ایک چشمہ پر پڑاؤ ڈالنے کے لیے اُتررہا تھا کہ اسے جالیا اور اچانک یلغار کرکے پورے قافلے پر قبضہ کرلیا۔ صفوان بن امیہ اور دیگر محافظین ِ کا رواں کو بھاگنے کے سوا کوئی چارۂ کار نظر نہ آیا۔
مسلمانوں نے قافلے کے راہنما فرات بن حیان کو اور کہا جاتا ہے کہ مزید دوآدمیوں کو گرفتار کرلیا۔ظروف اور چاندی کی بہت بڑی مقدار ، جو قافلے کے پاس تھی ، اور جس کا اندازہ ایک لاکھ درہم تھا، بطور غنیمت ہاتھ آئی رسول اللہﷺ نے خُمس نکال کر مالِ غنیمت رسالے کے افراد پر تقسیم کردیا اور فرات بن حیان نے نبیﷺ کے دست ِ مبارک پر اسلام قبول کر لیا۔( ابن ہشام ۲/۵۰ ، ۵۱۔ رحمۃ للعالمین ۲/۲۱۹)
بدر کے بعد قریش کے لیے یہ سب سے الم انگیز واقعہ تھا جس سے ان کے قلق واضطراب اور غم والم میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اب ان کے سامنے دوہی راستے تھے یاتو اپنا کبر وغرور چھوڑ کر مسلمانوں سے صلح کرلیں یا بھر پور جنگ کر کے اپنی عزت ِ رفتہ اور مجدِ گزشتہ کو واپس لائیں اور مسلمانوں کی قوت کو اس طرح توڑ دیں کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔ قریش مکہ نے اسی دوسرے راستے کا انتخاب کیا ، چنانچہ اس واقعہ کے بعد قریش کا جو شِ انتقام کچھ اور بڑھ گیا اور اس نے مسلمانوں سے ٹکر لینے اور ان کے دیار میں گھس کر ان پر حملہ کرنے کے لیے بھر پور تیاری شروع کردی۔ اس طرح پچھلے واقعات کے علاوہ یہ واقعہ بھی معرکۂ احد کا خاص عامل ہے۔

مکمل تحریر >>

کعب بن اشرف کا قتل


کعب بن اشرف کے قتل کے بارے میں روایات کا حاصل یہ ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کعب بن اشرف سے کون نمٹے گا ؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اذیت دی ہے ، تو محمد بن مسلمہ نے اٹھ کر عرض کیا:''یارسول اللہ!میں حاضر ہوں۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں ؟آپﷺ نے فرمایا : ہاں ! انہوں نے عرض کیا : ''تو آپ مجھے کچھ کہنے کی اجازت عطافرمائیں۔'' آپﷺ نے فرمایا : کہہ سکتے ہو۔
اس کے بعد محمدبن مسلمہؓ ،کعب بن اشرف کے پاس تشریف لے گئے اور بولے : ''اس شخص نے - اشارہ نبیﷺ کی طرف تھا - ہم سے صدقہ طلب کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے۔''
کعب نے کہا :''واللہ ، ابھی تم لوگ اور بھی اکتاجاؤ گے۔''
محمدبن مسلمہؓ نے کہا : اب جبکہ ہم اس کے پیروکار بن ہی چکے ہیں تو مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ اس کا ساتھ چھوڑ دیں جب تک یہ دیکھ نہ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے ! اچھا ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ایک وَسق یا دووسق غلہ دے دیں۔''
کعب نے کہا :''میرے پاس کچھ رہن رکھو۔''
محمدبن مسلمہؓ نے کہا : ''آپ کو ن سی چیز پسند کریں گے ؟''
کعب نے کہا :''اپنی عورتوں کو میرے پاس رہن رکھ دو۔''
محمدؓ بن مسلمہ نے کہا :''بھلا ہم اپنی عورتیں آپ کے پاس کیسے رہن رکھ دیں جبکہ آپ عرب کے سب سے خوبصورت انسان ہیں۔''
اس نے کہا :''تو پھر اپنے بیٹوں ہی کو رہن رکھ دو۔''
محمد بن مسلمہؓ نے کاکہا :''ہم اپنے بیٹوں کو کیسے رہن رکھ دیں ؟ اگر ایسا ہوگیا تو انہیں گالی دی جائے گی کہ یہ ایک وسق یا دووسق کے بدلے رہن رکھا گیا تھا۔ یہ ہمارے لیے عار کی بات ہے۔ البتہ ہم آپ کے پاس ہتھیار رہن رکھ سکتے ہیں۔''
اس کے بعد دونوں میں طے ہوگیا کہ محمدبن مسلمہؓ (ہتھیار لے کر ) اس کے پاس آئیں گے۔
ادھر ابو نائلہ نے بھی اسی طرح کا اقدام کیا ، یعنی کعب بن اشرف کے پاس آئے۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر کے اشعار سنتے سناتے رہے پھر بو لے :''بھئ ابن اشرف ! میں ایک ضرورت سے آیا ہوں ، اسے ذکرکرنا چاہتا ہوں ، لیکن اسے آپ ذراصیغہ ٔ راز ہی میں رکھیں گے۔''
کعب نے کہا:'' ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔ ''
ابو نائلہؓ نے کہا :'' بھئ اس شخص ...اشارہ نبیﷺ کی طرف تھا ...کی آمد تو ہمارے لیے آزمائش بن گئی ہے۔ ساراعرب ہمارا دشمن ہوگیا ہے۔ سب نے ہمارے خلاف اتحاد کرلیا ہے ، ہماری راہیں بند ہوگئی ہیں، اہل وعیال برباد ہورہے ہیں ، جانوں پر بن آئی ہے، ہم اور ہمارے بال بچے مشقتوں سے چورچور ہیں۔'' اس کے بعد انہوں نے بھی کچھ اسی ڈھنگ کی گفتگو کی جیسی محمدؓ بن مسلمہ نے کی تھی۔ دورانِ گفتگو ابو نائلہؓ نے بھی کہا کہ میرے کچھ رفقا ء ہیں جن کے خیالات بھی بالکل میرے ہی جیسے ہیں۔ انہیں بھی آپ کے پاس لانا چاہتا ہوں۔ آپ ان کے ہاتھ بھی کچھ بیچیں اور ان پر احسان کریں۔
محمدؓ بن مسلمہ اور ابو نائلہؓ اپنی اپنی گفتگو کے ذریعے اپنے مقصد میں کامیاب رہے کیونکہ اس گفتگوکے بعد ہتھیا ر اور رفقاء سمیت ان دونوں کی آمد پرکعب بن اشرف چونک نہیں سکتا تھا۔ اس ابتدائی مرحلے کو مکمل کر لینے کے بعد ۱۴۔ ربیع الاول ۳ ھ کی چاندنی رات کو یہ مختصر سا دستہ رسو ل اللہﷺ کے پاس جمع ہوا۔ آپﷺ نے بقیع غَرقد تک ان کی مشایعت فرمائی۔ پھر فرمایا : اللہ کے نام لے کر جاؤ۔ اللہ تمہاری مدد فرمائے۔ پھر آپﷺ اپنے گھر پلٹ آئے اور نماز و مناجات میں مشغول ہوگئے۔
ادھر یہ دستہ کعب بن اشرف کے قلعے کے دامن میں پہنچا تو اسے ابو نائلہؓ نے قدرے زور سے آواز دی۔ آواز سن کر وہ ان کے پا س آنے کے لیے اٹھا تو اس کی بیوی نے...جو ابھی نئی نویلی دلہن تھی... کہا : '' اس وقت کہاں جارہے ہیں ؟ میں ایسی آواز سن رہی ہوں جس سے گویا خون ٹپک رہا ہے۔''
کعب نے کہا :''یہ تو میرا بھائی محمدؓ بن مسلمہ اور میرا دودھ کا ساتھی ابو نائلہؓ ہے۔ کریم آدمی کو اگر نیزے کی مار کی طرف بلایا جائے تو اس پکار پر بھی وہ جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ باہر آگیا۔ خوشبو میں بسا ہواتھا اور سر سے خوشبو کی لہریں پھوٹ رہی تھیں۔
ابو نائلہؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہہ رکھاتھا کہ جب وہ آجائے گا تومیں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا۔ جب تم دیکھنا کہ میں نے اس کا سر پکڑ کر اسے قابو میں کرلیا ہے تو اس پر پل پڑنا ... اور اسے مار ڈالنا۔ چنانچہ جب کعب آیا تو کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں۔ پھر ابو نائلہؓ نے کہا :''ابن اشرف!کیوں نہ شِعب عجوز تک چلیں، ذرآج رات باتیں کی جائیں۔'' اس نے کہا : اگر تم چاہتے ہو تو چلتے ہیں ؟ اس پر سب لوگ چل پڑے۔ اثنا ء راہ میں ابو نائلہؓ نے کہا : آج جیسی عمدہ خوشبوتو میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔یہ سن کر کعب کا سینہ فخر سے تن گیا۔ کہنے لگا : میرے پاس عرب کی سب سے زیادہ خوشبو والی عور ت ہے۔ ابو نائلہ نے کہا : اجازت ہوتو ذرآپ کا سر سونگھ لوں ؟ وہ بو لا: ہا ں ہاں۔ ابو نائلہ نے اس کے سر میں اپنا ہاتھ ڈالا۔ پھر خود بھی سونگھا اور ساتھیوں کو بھی سونگھایا۔
کچھ اور چلے توابو نائلہؓ نے کہا : بھئ ایک بار اور۔ کعب نے کہا : ہاں ہاں ، ابو نائلہ نے پھر وہی حرکت کی یہاں تک کہ وہ مطمئن ہوگیا۔
اس کے بعد کچھ اور چلے تو ابو نائلہؓ نے پھر کہا : بھئ ایک باراور۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے۔ اب کی بار ابو نائلہ نے اس کے سر میں ہاتھ ڈال کر ذرا اچھی طرح پکڑ لیا تو بولے :''لے لو اللہ کے اس دشمن کو۔'' اتنے میں اس پر کئی تلواریں پڑیں ، لیکن کچھ کام نہ دے سکیں۔ یہ دیکھ کر محمدؓ بن مسلمہ نے جھٹ اپنی کدال لی اور اس کے پیڑو پر لگا کر چڑھ بیٹھے۔ کدال آر پار ہوگئی ا ور اللہ کا دشمن وہیں ڈھیر ہوگیا۔ حملے کے دوران اس نے اتنی زبردست چیخ لگائی تھی کہ گرد وپیش میں ہلچل مچ گئی اور کوئی ایسا قلعہ باقی نہ بچا جس پر آگ روشن نہ کی گئی ہو۔ (لیکن ہوا کچھ بھی نہیں)
کارروائی کے دوران حضرت حارثؓ بن اوس کو بعض ساتھیوں کی تلوار کی نوک لگ گئی تھی۔ جس سے وہ زخمی ہوگئے تھے اور ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا ، چنانچہ واپسی میں جب یہ دستہ حرہ ٔ عریض پہنچا تو دیکھا کہ حارثؓ ساتھ نہیں ہیں، اس لیے سب لوگ وہیں رک گئے۔ تھوڑی دیر بعد حارث بھی ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوئے آن پہنچے۔ وہاں سے لوگوں نے انہیں اٹھا لیا اور بقیع غرقد پہنچ کر اس زور کا نعرہ لگایا کہ رسول اللہﷺ کو بھی سنائی پڑا۔ آپﷺ سمجھ گئے کہ ان لوگوں نے اسے مار لیا ہے ، چنانچہ آپﷺ نے بھی اللہ اکبر کہا ، پھر جب یہ لوگ آپﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا: ((افلحت الوجوہ )) یہ چہرے کامیاب رہیں۔ ان لوگوں نے کہا: (ووجہک یا رسول اللہ) آپﷺ کا چہرہ بھی اے اللہ کے رسول! اور اس کے ساتھ ہی اس طاغوت کا سر آپﷺ کے سامنے رکھ دیا۔ آپﷺ نے اس کے قتل پر اللہ کی حمد وثنا کی اور حارث کے زخم پر لعابِ دہن لگادیا جس سے وہ شفایاب ہوگئے اور آئندہ کبھی تکلیف نہ ہوئی۔
اس واقعے کی تفصیل ابن ِ ہشام ۲/۵۱ - ۵۷ صحیح بخاری ۱/۳۴۱ -۴۲۵ ، ۲/۵۷۷۔ سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۲/۴۲، ۴۳۔ اور زاد المعاد ۲/۹۱ سے ماخوذ ہے۔
ادھر یہود کو جب اپنے طاغوت کعب بن اشرف کے قتل کا علم ہوا تو ان کے ہٹ دھرم اور ضدی دلوں میں رعب کی لہر دوڑ گئی۔ ان کی سمجھ میں آگیا کہ رسول اللہﷺ جب یہ محسوس کرلیں گے کہ امن وامان کے ساتھ کھیلنے والوں، ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے والوں اور عہد وپیمان کا احترام نہ کرنے والوں پر نصیحت کا ر گر نہیں ہورہی ہے تو آپﷺ طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کریں گے ، اس لیے انہوں نے اپنے اس طاغوت کے قتل پر چوں نہ کیا بلکہ ایک دم ، دم سادھے پڑے رہے۔ ایفاء عہد کا مظاہرہ کیا اور ہمت ہار بیٹھے، یعنی سانپ تیزی کے ساتھ اپنی بلوں میں جاگھسے۔
اس طرح ایک مدّت تک کے لیے رسول اللہﷺ بیرون مدینہ سے پیش آنے والے متوقع خطرات کا سامنا کرنے کے لیے فارغ ہوگئے اور مسلمان ان بہت سی اندرونی مشکلات کے بارِ گراں سے سبکدوش ہوگئے جن کا اندیشہ انہیں محسوس ہورہا تھا اور جن کی بُو وقتاً فوقتا ًوہ سونگھتے رہتے تھے۔

مکمل تحریر >>

یہودی کعب بن اشرف کی زبان درازیاں


یہودیوں میں یہ وہ شخص تھا جسے اسلام اور اہل ِ اسلام سے نہایت سخت عداوت اور جلن تھی۔ یہ نبیﷺ کو اذیتیں پہنچا یا کرتا تھا اور آپﷺ کے خلاف جنگ کی کھلم کھلا دعوت دیتا پھرتا تھا۔ اس کا تعلق قبیلہ طی کی شاخ بنو نبھان سے تھا اور اس کی ماں قبیلہ بنی نضیر سے تھی۔ یہ بڑا مالدار اور سرمایہ دار تھا۔ عرب میں اس کے حسن وجمال کا شہرہ تھا اور یہ ایک معروف شاعر بھی تھا۔ اس کا قلعہ مدینے کے جنوب میں بنو نضیر کی آبادی کے پیچھے واقع تھا۔
اسے جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح اور سردارانِ قریش کے قتل کی پہلی خبر ملی تو بے ساختہ بول اٹھا :''کیا واقعتا ایسا ہواہے ؟ یہ عرب کے اشراف اور لوگوں کے بادشاہ تھے۔ اگر محمد نے ان کو مارلیا ہے تو روئے زمین کا شکم اس کی پشت سے بہتر ہے۔''
اور جب اسے یقینی طور پر اس خبر کا علم ہوگیا تو اللہ کا یہ دشمن ، رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کی ہجو اور دشمنانِ اسلام کی مدح سرائی پر اتر آیا۔ اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے لگا۔ اس سے بھی اس کے جذبات آسودہ نہ ہوئے تو سوار ہوکر قریش کے پاس پہنچا اور مطلب بن ابی وداعہ سہمی کا مہمان ہوا۔ پھر مشرکین کی غیرت بھڑکانے ، ان کی آتش ِ انتقام تیز کرنے اور انہیں نبیﷺ کے خلاف آمادہ ٔ جنگ کرنے کے لیے اشعار کہہ کہہ کر ان سردارانِ قریش کا نوحہ وماتم شروع کردیا جنہیں میدان ِ بدر میں قتل کیے جانے کے بعد کنویں میں پھینک دیا گیا تھا۔ مکے میں اس کی موجودگی کے دوران ابو سفیان اور مشرکین نے اس سے دریافت کیا کہ ہمارا دین تمہارے نزدیک زیادہ پسندیدہ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کا ؟ اور دونوں میں سے کون سا فریق زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟ کعب بن اشرف نے کہا :''تم لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ اور افضل ہو۔'' اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُ‌وا هَـٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا ﴿٥١﴾ (۴: ۵۱)
'' تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے کہ وہ جبت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہیں۔''
کعب بن اشرف یہ سب کچھ کرکے مدینہ واپس آیا تو یہاں آکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عورتوں کے بارے میں واہیات اشعار کہنے شروع کیے اور اپنی زبان درازی وبدگوئی کے ذریعے سخت اذیت پہنچائی۔
یہی حالات تھے جن سے تنگ آکر رسول اللہﷺ نے فرمایا :''کون ہے جو کعب بن اشرف سے نمٹے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہے۔''
اس کے جواب میں محمد بن مسلمہ ، عبادہ بن بشرؓ ، ابو نائلہ - جن کانام سلکان بن سلامہ تھا اور جو کعب کے رضاعی بھائی تھے - حارث بن اوسؓ اور ابو عبسؓ بن جبر نے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس مختصر سی کمپنی کے کمانڈر محمد بن مسلمہ تھے۔

مکمل تحریر >>

غزوہَ سویق اور غزوہَ ذی امر


ایک طرف صفوان بن امیہ ، یہوداورمنافقین اپنی اپنی سازشوں میں مصروف تھے تو دوسری طرف ابوسفیان بھی کوئی ایسی کاروائی انجام دینے کی ادھیڑ بن میں تھا جس میں بار کم سے کم پڑے لیکن اثر نمایاں ہو۔ وہ ایسی کاروائی جلد از جلد انجام دے کر اپنی قوم کی آبرو کی حفاظت اور ان کی قوت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ اس نے نذر مان رکھی تھی کہ جنابت کے سبب اس کے سر کو پانی نہ چھوسکے گا یہاں تک کہ محمدﷺ سے لڑائی کرلے۔ چنانچہ وہ اپنی قسم پوری کرنے کے لیے دوسو سواروں کو لے کر روانہ ہوا اور وادیٔ قناۃ کے سرے پر واقع نیب نامی ایک پہاڑی کے دامن میں خیمہ زن ہوا۔مدینے سے اس کا فاصلہ کوئی بارہ میل ہے ، لیکن چونکہ ابو سفیان کو مدینے پر کھلم کھلا حملے کی ہمت نہ ہوئی اس لیے اس نے ایک ایسی کارروائی انجام دی جسے ڈاکہ زنی سے ملتی جلتی کارروائی کہا جاسکتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں اطرافِ مدینہ کے اندر داخل ہوا اور حیی بن اخطب کے پاس جاکر اس کا دروازہ کھلوایا۔ حیی نے انجام کے خوف سے انکار کردیا۔ ابو سفیان پلٹ کر بنونضیر کے ایک دوسرے سردار سلام مشکم کے پاس پہنچا جو بنو نضیر کا خزانچی بھی تھا۔ ابو سفیان نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس نے اجازت بھی دی اور مہمان نوازی بھی کی۔ خوراک کے علاوہ شراب بھی پلائی اور لوگوں کے پس پردہ حالات سے آگاہ بھی کیا۔ رات کے پچھلے پہر ابو سفیان وہاں سے نکل کر اپنے ساتھیوں میں پہنچا اور ان کا ایک دستہ بھیج کر مدینے کے اطراف میں عریض نامی ایک مقام پر حملہ کردیا۔ اس دستے نے وہاں کھجور کے کچھ درخت کاٹے اور جلائے اور ایک انصاری اور اس کے حلیف کو ان کے کھیت میں پاکر قتل کردیا اور تیزی سے مکہ واپس بھاگ نکلا۔
رسول اللہﷺ نے واردات کی خبر ملتے ہی تیز رفتاری سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا تعاقب کیا لیکن وہ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بھاگے ، چنانچہ وہ لوگ تو دستیاب نہ ہوئے لیکن انہوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ستو ، توشے اور سازوسامان پھینک دیا تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ رسول اللہﷺ نے کرکرۃ الکدر تک تعاقب کر کے واپسی کی راہ لی۔مسلمان ستو وغیرہ لاد پھا ند کر واپس ہوئے اور اس مہم کا نام غزوہ ٔسویق رکھ دیا۔ (سویق عربی زبان میں ستو کو کہتے ہیں۔) یہ غزوہ ، جنگ بدر کے صرف دوماہ بعد ذی الحجہ ۲ ھ میں پیش آیا۔ اس غزوے کے دوران مدینے کا انتظام ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ کو سونپا گیا تھا۔
( زاد المعاد ۲/ ۹۰ ، ۹۱ ، ابن ہشام ۲/ ۴۴ ، ۴۵)

غزوہ ٔ ذی امر:
معرکہ ٔ بدر واحد کے درمیانی عرصے میں رسو ل اللہﷺ کے زیر قیادت یہ سب سے بڑی فوجی مہم تھی جو محرم ۳ ھ میں پیش آئی۔
اس کا سبب یہ تھا کہ مدینے کے ذرائع اطلاعات نے رسول اللہﷺ کو یہ اطلاع فراہم کی کہ بنو ثعلبہ اور محارب کی بہت بڑی جمعیت مدینے پر چھا پہ مارنے کے لیے اکٹھی ہورہی ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا اور سوار وپیادہ پر مشتمل ساڑھے چار سو کی نفری لے کر روانہ ہوئے اور حضرت عثمان بن عفانؓ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرمایا۔
راستے میں صحابہؓ نے بنو ثعلبہ کے جبار نامی ایک شخص کو گرفتار کرکے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر کیا۔ آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے اسے حضرت بلالؓ کی رفاقت میں دے دیا اور ا س نے راہ شناس کی حیثیت سے مسلمانوں کو دشمن کی سرزمین تک راستہ بتایا۔
ادھر دشمن کو جیش مدینہ کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ گردوپیش کی پہاڑیوں میں بکھر گئے لیکن نبیﷺ نے پیش قدمی جاری رکھی اور لشکر کے ہمراہ اس مقام تک تشریف لے گئے جسے دشمن نے اپنی جمعیت کی فراہمی کے لیے منتخب کیا تھا۔ یہ درحقیقت ایک چشمہ تھا جو ''ذی امر ''کے نام سے معروف تھا۔ ۔( ابن ہشام ۲/۴۶)

مکمل تحریر >>

غزوہ بنو قینقاع


ادھر اس نصیحت کے بعد یہود بنو قینقاع کی جرأت رندانہ اور بڑھ گئی ، چنانچہ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے مدینہ میں بلوہ اور ہنگامہ بپا کردیا جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھود لی اور اپنے اوپر زندگی کی راہ بندکر لی۔
ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنو قینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے ) ایک سنار کے پاس ، جو یہودی تھا ، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کردیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا پچھلی طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی اور بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگا یا۔ اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مار ڈالا۔ جوابا ً یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا۔ اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھر والوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہو گیا۔( زاد المعاد ۲/۷۱،۹۱ ابن ہشام ۲؍۴۷ ، ۴۸ ، ۴۹)
اس کے بعد رسول اللہﷺ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ آپﷺ نے مدینے کا انتظام ابو لبابہؓ بن عبد المنذر کو سونپا اور خود، حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب کے ہاتھ میں مسلمانوں کا پھریرا دے کر لشکر کے ہمراہ بنو قینقاع کا رخ کیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو گڑھیوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ آپﷺ نے ان کا سختی سے محاصر ہ کر لیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور شوال ۲ ھ کی ۱۵ تاریخ۔ پندرہ روز تک -یعنی ہلال ذی القعدہ کے نمودار ہونے تک - محاصرہ جاری رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی سنت ہی یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو شکست وہزیمت سے دوچار کرنا چاہتا ہے تو ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ بنو قینقاع نے اس شرط پر ہتھیا ر ڈال دیئے کہ رسول اللہﷺ ان کی جان ومال ، آ ل واولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے انہیں منظور ہوگا۔ اس کے بعد آپﷺ کے حکم سے ان سب کو باندھ لیا گیا۔
لیکن یہی موقع تھا جب عبد اللہ بن اُبی نے اپنا منافقانہ کردار ادا کیا۔ اس نے رسول اللہﷺ سے سخت اصرار والحاح کیا کہ آپﷺ ان کے بارے میں معافی کا حکم صادر فرمائیں۔ اس نے کہا :''اے محمد! میرے معاہدین کے بارے میں احسان کیجیے'' واضح رہے کہ بنو قینقاع خزرج کے حلیف تھے - لیکن رسول اللہﷺ نے تاخیر کی۔ اس پر اس نے اپنی بات پھر دہرائی۔ مگر اب کی بار آپﷺ نے اس سے رُخ پھیر لیا۔ لیکن اس شخص نے آپﷺ کے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ آپﷺ نے فرمایا : مجھے چھوڑ دو اور ایسے غضبناک ہوئے کہ لوگوں نے غصے کی پرچھائیاں آپﷺ کے چہرے پر دیکھیں۔پھر آپﷺ نے فرمایا: تجھ پر افسوس مجھے چھوڑ۔ لیکن یہ منافق اپنے اصرار پر قائم رہا اور بو لا : ''نہیں واللہ! میں آپ کو نہیں چھوڑ وں گا یہاں تک کہ آپﷺ میرے معاہدین کے بارے میں احسان فرمادیں۔ چار سو کھلے جسم کے جوان اور تین سوزِرہ پوش جنہوں نے مجھے سرخ وسیاہ سے بچایا تھا آپ انہیں ایک ہی صبح میں کاٹ کر رکھ دیں گے ؟ واللہ! میں اس سے زمانے کی گردش کا خطرہ محسوس کررہا ہوں۔''
بالآخر رسول اللہﷺ نے اس منافق کے ساتھ (جس کے اظہارِ اسلام پر ابھی کوئی ایک ہی مہینہ گزرا تھا ) رعایت کا معاملہ کیا اور اس کی خاطر ان سب کی جان بخشی کردی۔ البتہ انہیں حکم دیا کہ وہ مدینہ سے نکل جائیں اور آپﷺ کے پڑوس میں نہ رہیں ، چنانچہ یہ سب اذرعات شام کی طرف چلے گئے اور تھوڑے ہی دنوں بعد وہاں اکثر کی موت واقع ہوگئی۔
رسول اللہﷺ نے ان کے اموال ضبط کر لیے۔ جن میں سے تین کمانیں ، دو زِرہیں ، تین تلواریں اور تین نیزے اپنے لیے منتخب فرمائے اور مالِ غنیمت میں سے خمس بھی نکالا۔ غنائم جمع کرنے کاکام محمدبن مسلمہؓ نے انجام دیا۔

مکمل تحریر >>

بنو قینقاع کی عہد شکنی


جب یہود نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میدان ِ بدر میں مسلمانوں کی زبردست مدد فرماکر انہیں عزت وشوکت سے سرفراز فرمایا ہے اور ان کا رعب ودبدبہ دور ونزدیک ہر جگہ رہنے والوں کے دلو ں پر بیٹھ گیا ہے تو ان کی عداوت وحسد کی ہانڈی پھٹ پڑی۔ انہوں نے کھلم کھلا شر وعداوت کا مظاہرہ کیا اور علی الاعلان بغاوت وایذا رسانی پر اتر آئے۔
ان میں سب سے زیادہ کینہ تو زاور سب سے بڑھ کر شر یر کعب بن اشرف تھا جس کا ذکر آگے آرہا ہے ، اسی طرح تینوں یہودی قبائل میں سب سے زیادہ بدمعاش بنو قینقاع کا قبیلہ تھا۔ یہ لوگ مدینہ ہی کے اندر تھے اور ان کا محلہ انہیں کے نام سے موسوم تھا۔ یہ لوگ پیشے کے لحاظ سے سونار ، لوہار اور برتن ساز تھے۔ ان پیشوں کے سبب ان کے ہرآدمی کے پاس وافر مقدار میں سامانِ جنگ موجود تھا۔ ان کے مرد ان جنگی کی تعداد سات سو تھی اور وہ مدینے کے سب سے بہادر یہودی تھے۔ انھی نے سب سے پہلے عہد شکنی کی۔ تفصیل یہ ہے :
جب اللہ تعالیٰ نے میدان ِ بدر میں مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا تو ان کی سر کشی میں شدت آگئی۔ انہوں نے اپنی شرارتوں ، خباثتوں اور لڑانے بھڑانے کی حرکتوں میں وسعت اختیار کرلی۔ اور خلفشار پیدا کرنا شروع کر دیا ، چنانچہ جو مسلمان ان کے بازار میں جاتا اس سے مذاق واستہزاء کرتے اور اسے اذیت پہنچاتے حتیٰ کہ مسلمان عورتوں سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ اس طرح جب صورت ِ حال زیادہ سنگین ہوگئی اور ان کی سرکشی خاصی بڑھ گئی تو رسول اللہﷺ نے انہیں جمع فرماکر وعظ ونصیحت کی اور رشدو ہدایت کی دعوت دیتے ہوئے ظلم و بغاوت کے انجام سے ڈرایا۔ لیکن اس سے ان کی بدمعاشی اور غرور میں کچھ اور ہی اضافہ ہوگیا۔
چنانچہ امام ابو داؤد ؒ وغیرہ نے حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے قریش کو بدر کے دن شکست دے دی۔ اور آپ مدینہ تشریف لائے تو بنو قینقاع کے بازار میں یہود کو جمع کیا اور فرمایا :
''اے جماعت ِ یہود ! اس سے پہلے اسلام قبول کر لو کہ تم پر بھی ویسی ہی مار پڑے جیسی قریش پر پڑ چکی ہے۔''
انہوں نے کہا : ''اے محمد ! تمہیں اس بنا پر خود فریبی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ تمہاری مڈ بھیڑ قریش کے اناڑی اور نا آشنا ئے جنگ لوگوں سے ہوئی، اور تم نے انہیں مارلیا۔ اگر تمہاری لڑائی ہم سے ہوگئی تو پتہ چل جائے گا کہ ہم مرد ہیں اور ہمارے جیسے لوگوں سے تمہیں پالا نہ پڑا ہوگا۔''
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُ‌وا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُ‌ونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿١٢﴾ قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَأُخْرَ‌ىٰ كَافِرَ‌ةٌ يَرَ‌وْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَ‌أْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّـهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِ‌هِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَ‌ةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ‌ ﴿١٣﴾ (۳: ۱۲ ،۱۳ )
''ان کافروں سے کہہ دو کہ عنقریب مغلوب کیے جاؤ گے اور جہنم کی طرف ہان کے جاؤ گے ، اور وہ برا ٹھکا نا ہے۔ جن دوگروہوں میں ٹکر ہوئی ان میں تمہارے لیے نشانی ہے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑرہاتھا اور دوسرا کا فرتھا، یہ ان کو آنکھوں دیکھنے میں اپنے سے دگنا دیکھ رہے تھے ، اور اللہ اپنی مدد کے ذریعے جس کی تائید چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس کے اندر یقینا نظر والوں کے لیے عبرت ہے۔''
(سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۳/۱۱۵ ، ابن ہشام ۱/۵۵۲ 2 ابن ہشام ۲/۴۷، ۴۸)
بہر حال بنو قینقاع نے جو جواب دیا تھا اس کا مطلب صاف صاف اعلانِ جنگ تھا ، لیکن نبیﷺ نے اپنا غصہ پی لیا اور صبر کیا۔ مسلمانوں نے بھی صبر کیا اور آنے والے حالات کا انتظار کرنے لگے۔

مکمل تحریر >>

مدینہ کے یہود کی عیاریاں


رسول اللہﷺ نے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہود کے ساتھ جو معاہدہ فرمایا تھا اس کی دفعا ت پچھلے صفحات میں ذکر کی جاچکی ہیں۔ رسول اللہﷺ کی پوری کوشش اور خواہش تھی کہ اس معاہدے میں جو کچھ طے پا گیا ہے وہ نافذ رہے ، چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جو اس معاہدے کی عبارت کے کسی ایک حرف کے بھی خلاف ہو۔ لیکن یہود جن کی تاریخ غدر وخیانت اور عہد شکنی سے پُر ہے وہ بہت جلد اپنے قدیم مزاج کی طرف پلٹ گئے۔اورمسلمانوں کی صفوں کے اندر دسیسہ کاری ، سازش ، لڑانے بھڑانے اور ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ لگے ہاتھوں ایک مثال بھی سنتے چلیے۔
ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا یہودی شاش بن قیس -جو قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے تھا .. اور مسلمانوں سے سخت عدوات وحسد رکھتا تھا...ایک بار صحابۂ کرام کی ایک مجلس کے پاس سے گذرا ، جس میں اوس خزرج دونوں ہی قبیلے کے لوگ بیٹھے باہم گفتگو کررہے تھے۔ اسے یہ دیکھ کر کہ اب ان کے اندر جاہلیت کی باہمی عداوت کی جگہ اسلام کی الفت واجتماعیت نے لے لی ہے ، اور ان کی دیرینہ شکر رنجی کا خاتمہ ہو گیا ہے ، سخت رنج ہوا۔ کہنے لگا : ''اوہ ! ا س دیار میں قیلہ کے اشراف متحد ہوگئے ہیں۔ واللہ ! ان اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گذر نہیں۔'' چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی کو جو اس کے ساتھ تھا حکم دیا کہ ان کی مجلس میں جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پھر جنگ بعاث اور اس کے پہلے کے حالات کا ذکر کرے۔ اور اس سلسلے میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے ہیں کچھ ان میں سنائے۔ اس یہودی نے ایساہی کیا۔ اس کے نتیجے میں اوس وخزرج میں تو تو میں میں شروع ہوگئی۔ لوگ جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر فخر جتانے لگے حتی ٰ کہ دونوں قبیلوں کے ایک ایک آدمی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ردّ وقدح شروع کردی ، پھر ایک نے اپنے مدّ ِ مقابل سے کہا : اگر چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں - مقصد یہ تھا کہ ہم اس باہمی جنگ کے لیے پھر تیار ہیں جو اس سے پہلے لڑی جاچکی ہے- اس پر دونوں فریقوں کو تاؤ آگیا اور بولے : چلو تیار ہیں، حرہ میں مقابلہ ہوگا -- ہتھیا ر ... ! ہتھیار ...!
اب لوگ ہتھیار لے کر حرہ کی طرف نکل پڑے، قریب تھا کہ خونریز جنگ ہوجاتی لیکن رسول اللہﷺ کو اس کی خبر ہوگئی۔ آپﷺ اپنے مہاجرین صحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا :
''اے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ۔ اللہ۔ کیا میرے رہتے ہوئے جاہلیت کی پکار ! اور وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ تمہیں اسلام کی ہدایت سے سرفراز فرماچکا ہے اور اس کے ذریعے تم سے جاہلیت کا معاملہ کا ٹ کر اور تمہیں کفر سے نجات دے کر تمہارے دلو ں کو آپس میں جوڑ چکا ہے۔'' آپﷺ کی نصیحت سن کر صحابہ کو احساس ہوا کہ ان کی حرکت شیطا ن کا ایک جھٹکا اور دشمن کی ایک چال تھی ، چنانچہ وہ رونے لگے اور اوس وخزرج کے لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے۔ پھر رسول اللہﷺ کے ساتھ اطاعت شعار وفرمانبردار بن کر اس حالت میں واپس آئے کہ اللہ نے ان کے دشمن شاش بن قیس کی عیاری کی آگ بجھادی تھی۔
( ابن ہشام ۱/۵۵۵، ۵۵۶)
یہ ہے ایک نمونہ ان ہنگاموں اور اضطراب کا جنہیں یہود مسلمانوں کی صفوں میں بپا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور یہ ہے ایک مثال اس روڑے کی جسے یہ یہود اسلامی دعوت کی راہ میں اٹکاتے رہتے تھے۔ اس کام کے لیے انہوں نے مختلف منصوبے بنا رکھے تھے۔ وہ جھوٹے پروپیگنڈے کرتے تھے۔ صبح مسلمان ہو کر شام کو پھرکافر ہوجاتے تھے تاکہ کمزور اور سادہ لوح قسم کے لوگوں کے دلوں میں شک وشبہے کے بیج بو سکیں۔ کسی کے ساتھ مالی تعلق ہو تا اور وہ مسلمان ہوجاتا تو اس پر معیشت کی راہیں تنگ کردیتے ، چنانچہ اگر اس کے ذمے کچھ بقایا ہوتا تو صبح وشام تقاضے کرتے اور اگر خود اس مسلمان کا کچھ بقایا ان پر ہوتا تو اسے ادا نہ کرتے بلکہ باطل طریقے پر کھاجاتے اور کہتے کہ تمہارا قرض تو ہمارے اُوپر اُس وقت تھا جب تم اپنے آبائی دین پر تھے لیکن اب جبکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے تو اب ہمارا اور تمہارا کوئی لین دین نہیں۔( مفسرین نے سورہ آل عمران وغیرہ میں ان کی اس قسم کی حرکات کے نمونے ذکر کیے ہیں)
واضح رہے کہ یہود نے یہ ساری حرکتیں بدر سے پہلے ہی شروع کردی تھیں ، اورا س معاہدے کے علی الرغم شروع کردیں تھیں جو انہوں نے رسول اللہﷺ سے کر رکھا تھا۔ ادھر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال تھا کہ وہ ان یہود کی ہدایت یابی کی امید میں ان ساری باتوں پر صبر کرتے جارہے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بھی مطلوب تھا کہ اس علاقے میں امن وسلامتی کا ماحول برقرار رہے۔

مکمل تحریر >>

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش


جنگ بدر میں شکست کھا کر مشرکین غصے سے بے قابو تھے اور پورا مکہ نبیﷺ کے خلاف ہانڈی کی طرح کھول رہا تھا۔ بالآخر مکے کے دوبہادر نوجوان نے طے کیا کہ وہ ...اپنی دانست میں...اس اختلاف وشقاق کی بنیاد اور اس ذلت ورسوائی کی جڑ (نعوذ باللہ ) یعنی نبیﷺ کا خاتمہ کردیں گے۔
چنانچہ جنگ بدر کے کچھ ہی دنوں بعد کا واقعہ ہے کہ عُمیر بن وہب جمحی - جو قریش کے شیطانوں میں سے تھا اور مکے میں نبیﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اذیتیں پہنچا یا کرتا تھا اور اب اس کا بیٹا وہب بن عُمیر جنگ بدر میں گرفتار ہوکر مسلمانوں کی قید میں تھا۔ اس لیے عمیر-نے ایک دن صفوان بن امیہ کے ساتھ حطیم میں بیٹھ کر گفتگو کرتے ہوئے بدر کے کنویں میں پھینکے جانے والے مقتولوں کا ذکر کیا۔ اس پر صفوان نے کہا :''اللہ کی قسم! ان کے بعد جینے میں کوئی لطف نہیں۔'' جواب میں عمیر نے کہا :''اللہ کی قسم! تم سچ کہتے ہو۔ دیکھو اگر میرے اوپر قرض نہ ہوتا ، جس کی ادائیگی کے لیے میرے پاس کچھ نہیں، اور اہل وعیال نہ ہوتے ، جن کے بارے میں اندیشہ ہے کہ میرے بعد ضائع ہوجائیں گے ، تو میں سوار ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا اور اسے قتل کر ڈالتا ، کیونکہ میرے لیے وہاں جانے کی ایک وجہ موجود ہے۔ میرا بیٹا ان کے ہاں قید ہے۔ ''
صفوان نے اس صورت حال کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا :''اچھا چلو ! تمہارا قرض میرے ذِمے ہے میں اسے تمہاری جانب سے ادا کردوں گا ، اور تمہارے اہل وعیال میرے اہل وعیال ہیں۔ جب تک وہ موجود رہیں گے میں ان کی دیکھ بھال کرتا رہوں گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرے پاس کوئی چیز موجود ہو اوران کو نہ ملے۔''
عمیر نے کہا :اچھا تو اب میرے اور اپنے معاملے کو صیغہ ٔ راز میں رکھنا۔ صفوان نے کہا: ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔
اس کے بعد عمیر نے اپنی تلوار پر سان رکھا ئی اور زہر آلود کرائی ، پھر روانہ ہوا اور مدینہ پہنچا ، لیکن ابھی وہ مسجد کے دروازے پر اپنی اونٹنی بٹھا ہی رہا تھا کہ حضرت عمر بن خطابؓ کی نگاہ اس پر پڑ گئی ...وہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے درمیان جنگ ِ بدر میں اللہ کے عطا کردہ اعزاز واکرام کے متعلق باتیں کررہے تھے ...انہوں نے دیکھتے ہی کہا :''یہ کتا ، اللہ کا دشمن عمیر ، کسی بُرے ہی ارادے سے آیا ہے۔'' پھر انہوں نے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! یہ اللہ کا دشمن عمیر اپنی تلوار حمائل کیے آیا ہے۔آپﷺ نے فرمایا : اسے میرے پاس لے آؤ۔ عمیر آیا تو حضرت عمرؓ نے اس کی تلوار کے پرتلے کو اس کے گلے کے پاس سے پکڑ لیا اور انصار کے چند افراد سے کہا کہ تم لوگ رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور وہیں بیٹھ جاؤ اور آپﷺ کے خلاف اس خبیث کے خطرے سے چوکنارہو ، کیونکہ یہ قابل اطمینان نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ عمیر کو اندر لے گئے۔ رسول اللہﷺ نے جب یہ کیفیت دیکھی کہ حضرت عمرؓ اس کی گردن میں اس کی تلوار کا پر تلا لپیٹ کر پکڑ ے ہوئے ہیں تو فرمایا :''عمر ! اسے چھوڑ دو اور عمیر ! تم قریب آجاؤ۔'' اس نے قریب آکر کہا : آپ لوگوں کی صبح بخیر ہو۔ نبیﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسے تحیہ سے مشرف کیا ہے جو تمہارے اس تحیہ سے بہتر ہے ، یعنی سلام سے ، جو اہل ِ جنت کا تحیہ ہے۔
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : اے عمیر ! تم کیوں آئے ہو ؟ اس نے کہا : یہ قیدی جو آپ لوگوں کے قبضے میں ہے اسی کے لیے آیاہوں۔ آپ لوگ اس کے بارے میں احسان فرمادیجیے۔
آپﷺ نے فرمایا : پھر یہ تمہاری گردن میں تلوار کیوں ہے ؟ اس نے کہا : اللہ ان تلواروں کا بُرا کرے کہ یہ ہمارے کچھ کام نہ آسکیں۔
آپﷺ نے فرمایا: سچ سچ بتاؤ کیوں آئے ہو ؟ اس نے کہا : بس صرف اسی قیدی کے لیے آیاہو ں۔
آپﷺ نے فرمایا : ''نہیں بلکہ تم اور صفوان بن امیہ حطیم میں بیٹھے،اور قریش کے جو مقتولین کنویں میں پھینکے گئے ہیں ان کا تذکرہ کیا ، پھر تم نے کہا : اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل وعیال نہ ہوتے تو میں یہاں سے جاتا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیتا۔ اس پر صفوا ن نے تمہارے قرض اور اہل وعیال کی ذمے داری لی بشرطیکہ تم مجھے قتل کردو، لیکن یاد رکھو کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔
عمیر نے کہا :''میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ ہمارے پاس آسمان کی جو خبریں لاتے تھے ، اور آپﷺ پر جو وحی نازل ہوتی تھی ، اسے ہم جھٹلادیا کرتے تھے لیکن یہ تو ایسا معاملہ ہے جس میں میرے اور صفوان کے سوا کوئی موجود ہی نہ تھا۔ اس لیے واللہ مجھے یقین ہے کہ یہ بات اللہ کے سوا اور کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچائی۔ پس اللہ کی حمد ہے جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی اور اس مقام تک ہانک کر پہنچایا۔'' پھر عمیر نے کلمۂ حق کی شہادت دی اور رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرمایا : ''اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ ، قرآن پڑھا ؤ اور اس کے قیدی کو آزاد کردو۔''
ادھر صفوان لوگوں سے کہتا پھر رہاتھا کہ یہ خوشخبری سن لو کہ چند ہی دنوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو بدر کے مصائب بھلوادے گا۔ ساتھ ہی وہ آنے جانے والوں سے عمیرؓ کی بابت پوچھتا بھی رہتا تھا۔ بالآخر اسے ایک سوار نے بتایا کہ عمیر مسلمان ہوچکا ہے۔ یہ سن کر صفوان نے قسم کھائی کہ اس سے کبھی بات نہ کرے گا اور نہ کبھی اسے نفع پہنچائے گا ۔ (ابن ہشام ۱/۶۶۱، ۶۶۲ ، ۶۶۳)

مکمل تحریر >>

ملحدین کی دہائی - دنیا مٰیں ظلم ہے اس لئے خدا نہیں


ہمارے خوش یا غمگین ہونے سے یہ حق نہیں بدلتا کہ زمین گول ہے. کسی پر ظلم ہو یا کسی کو اعزاز ملے ، اس سے یہ حق نہیں بدلتا کہ پانی حیات کے لیے ضروری ہے. ہمارے جذبات، احساسات یا حالات سے دنیا کا کوئی بھی حق تبدیل نہیں ہوتا. مگر
افسوس کہ جب بات سب سے اونچے حق یعنی مدبر کائنات کے وجود کی آتی ہے تو لوگ یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ میرا سارا پیسہ لٹ گیا اسلیے خدا نہیں ہے.
میری محبت مجھے چھوڑ گئی اسلیے خدا نہیں ہے. میری اولاد مجھ سے بچھڑ گئی اسلیے خدا نہیں ہے.
سری لنکا میں سیلاب یا نیپال میں زلزلہ آگیا اسلیے خدا نہیں ہے. حکومتی نااہلی سے تھر میں بچے مر گئے اسلئے خدا نہیں ہے…
پیارے سجنو .. الله کا وجود سب سے بڑا حق ہے اور اس کا ہونا ہمارے جذبات و حالات سے مشروط ہرگز نہیں ہے. آپ بھی اپنی عقل کو آواز دیں اور جس طرح دوسرے امور میں جذباتی ہوئے بناء کسی کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ، ویسے ہی یہاں بھی مہربانی فرمائیں اور خالق کے ہونے کو عارضی حالات و واقعات سے مشروط نہ کریں .
اس دنیا میں مکمل انصاف کا تصور بھی ناممکن ہے. یہاں تو مشاہدہ یہ ہے کہ ظالم طاقت و اقتدار کے نشے میں چور رہتا ہے اور مظلوم، استبداد کی چکی میں پستا ہی جاتا ہے. یہاں اکثر حرام کھانے والا عیاشیوں کا مزہ لوٹتا ہے اور محنت کش پر زندگی کی بنیادی ضروریات بھی تنگ ہو جاتی ہیں. کتنے ہی مجرم، فسادی اور قاتل کسی عدالت کی پکڑ میں نہیں آتے...
ایک مثال لیں، اگر ایک بوڑھا شخص کسی نوجوان کو قتل کردیتا ہے اور مان لیں کہ وہ پکڑا بھی جاتا ہے. عدالت اسے اسکی جرم کی بنیاد پر سزائے موت بھی نافدکردیتی ہے. اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ انصاف ہے ؟ کہنے کو تو قاتل کو قتل کے بدلے میں قتل کردیا گیا ؟ مگر کیا یہی انصاف کی مکمل صورت ہے ؟
قاتل تو ایک بوڑھا شخص تھا ، جو اپنی زندگی گزار چکا تھا. جبکہ مقتول ایک نوجوان تھا ، اسکی پوری زندگی اسکے سامنے تھی. ممکن ہے کہ اسکی اچانک موت سے اسکی بیوی بے گھر ہوجائے ، اسکے یتیم بچے باپ کا سایہ نہ ہونے سے آوارگی اختیار کرلیں. کیا یہی حقیقی انصاف ہے؟
ظاہر ہے کہ نہیں. یہی وہ صورتحال ہے جو انسان میں یہ فطری و عقلی تقاضا پیدا کرتی ہے کہ کوئی ایسی دنیا و عدالت برپا ہو جہاں انصاف اپنے اکمل ترین درجے میں حاصل ہو. جہاں بد کو اسکی بدی کا اور نیک کو اسکی نیکی کا پورا پورا بدلہ مل سکے. دین اسی عدالت کی خبر روز حساب کے نام سے دیتا ہے اور اسی دنیا کی بشارت جنت و دوزخ سے دیتا ہے..
دین نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس دنیا میں سب کو انصاف حاصل ہوگا. بلکے وہ تو بتاتا ہے کہ اس دنیا کو امتحان کے اصول پر بنایا گیا ہے. لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کبھی تو قاتل صاف بچ نکلتے ہیں تو کبھی معصوم پھانسی چڑھ جاتے ہیں اور کبھی ظالم مظلوم کا استحصال کرتے ہیں. دراصل یہی وہ بے انصافی ہے جو انسان میں اس فطری تقاضے کو پیدا کرتی ہے کہ ایک ایسی دنیا کا وجود ضرور ہو جہاں ہر اچھے کو اسکی اچھائی اور ہر برے کو اسکی برائی کا پورا پورا بدلہ ملے. دین اسی نئی دنیا کی بشارت دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس آنے والی دنیا میں انصاف کے تقاضے اپنی کامل ترین صورت میں نافذ ہونگے.۔۔
(جس پر اعتراض ہے اسکے موقف کو معترض پڑھنا اور سمجھنا ہی نا چاہیے ، اسکا اعتراض کیسے ختم ہوسکتا ہے)دین کے اس واضح اور کھلے مقدمے کے بعد بھی اگر کوئی الله کے وجود کا اسلیے انکار کرتا ہے کہ موجودہ دنیا میں فلاں جگہ بھوک، جنگ یا نا انصافی ہے تو یہ اسکی لاعلمی اور کج فہمی کا ثبوت ہے، جس پر اس سے ہمدردی سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔۔
عظیم الرحمان عثمانی

مکمل تحریر >>

غزوہَ بدر اور دیسی ملحدین کے مغالطے


دو دن پہلے سوشل میڈیائی ملحدین کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں ایک علامہ ملحد صاحب نے مسلمانوں کی اپنی تاریخ سے لاعلمی کا تذکرہ کرنے کے بعد اسی لاعلمی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور غزوہ بدر کو اپنی مرضی کے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ۔ لکھا :

"عام روایتی مسلمان بہت سادے اور بھولے ہوتے ہیں، اسلام پر ان کا غیر متزلزل ایمان صرف اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے دینی علم کا اہم ترین ذریعہ اپنے گھر سے حاصل ہونے والی دینی معلومات اور جمعہ کے دن عربی خطبے سے قبل خطیب کی تقریر ہوتا ہے۔ غیر مسلموں سے نفرت اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ معصوم ناپختہ ذہنوں میں بچپن سے ہی بٹھا دی جاتی ہے، جو عموماً مسخ شدہ تاریخ کی صورت میں انہیں ازبر کرائی جاتی ہے۔ ان مسلمان بچوں کے ذہنوں میں بٹھایا جاتا ہے کہ اسلام کی شروعات سے ہی کافروں نے مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، اور ان پر ہر طرح سے عرصۂ حیات تنگ کیا گیا۔ یہ بات ان بچوں کی ذہن میں اس قدر راسخ ہوجاتی ہے کہ ذہن اس کے برعکس کچھ سننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا۔۔
ایسا ہی ایک مغالطہ ”غزوۂ بدر“ ہے، کسی بھی مسلمان سے پوچھ لیں کہ کفر و اسلام کا سب سے پہلا معرکہ کیسے ہوا؟ فٹ سے جواب آئے گا، ”کافروں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تھا۔۔۔۔"

ایسے کہتے ہیں دوسرے کے منہ میں اپنی بات ڈالنا۔ ملحد ہو اور مکر و فریب سے کام نا لے یہ ممکن ہی نہیں، جناب خود ہی ایک جھوٹ گھڑتے ہیں پھر اسکے لیے دلائل تراشنا شروع کردیتے ہیں۔ آگے لکھتے ہیں :
"مسلمان علماء بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ ”غزوۂ بدر“ کے اسباب کیا تھے اور جارح کون تھا؟ لیکن پھر بھی اصل صورت حال اس لئے پوشیدہ رکھی جاتی ہے کہ حقیقت سامنے آنے سے معصوم ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا ہو سکتے ہیں، اور 1400 سال سے مسلمانوں کی مظلومیت کی جو تصویر ہر مسلمان کے ذہن میں نقش کر دی گئی ہے وہ دھندلا سکتی ہے۔ اس لئے عموماً واقعات کو تفصیل اور تحقیق کے ساتھ بیان کرنے کے بجائے اختصار سے کام لیتے ہوئے حقیقی اسباب پر روشی ڈالے بغیر بدر کے میدان میں دونوں فوجوں کو ہاہم ٹکرا دیا جاتا ہے، اور پھر قوت ایمانی کے باعث 313 مجاہدین اسلام کی ایک ہزار کفار پر فتح مبین کے نقارے بجا دیئے جاتے ہیں۔
جنگ بدر کے بارے میں بھی اصل حقائق کو چھپاتے ہوئے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ نے مدینہ پر حملہ کر دیا تھا تاکہ مسلمانوں کا خاتمہ کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسلام کا نام تک مٹا دیا جائے، اور جنگ بدر کے اصل اسباب و محرّکات کا بالکل بھی ذکر نہیں کیا جاتا۔حالانکہ غزوہ بدر کا اصل محرّک کفار مکہ کا مدینہ پر حملہ آور ہونا نہیں تھا، بلکہ ہجرت کے بعد سے یکے بعد دیگرے مسلسل ایک سال سے مسلمانوں کی جانب سے قریش مکہ کے تجارتی قافلوں کو لوٹنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ کتنے مسلمانوں کو یہ بات معلوم ہے کہ غزوہ بدر سے قبل پیغمبر اسلام نے تقریباً آٹھ بار قریش مکہ کے تجارتی قافلے کو لوٹنے کی کوششیں کیں؟ اور لوٹ مار کی انہی کوششوں کے نتیجے میں بالآخر جنگ بدر کا میدان کارزار گرم ہوا۔،، ہجرت کے بعد وہی مظلوم، مسکین، بے یار و مددگار مسلمان ایک نئے رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں، امن و سلامتی کے داعی، ظلم کی مخالفت پر کمر بستہ مسلمان اب تمام تر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک نئے رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں۔ قریش کے تجارتی قافلے شام کی طرف جانے والی اسی تجارتی شاہراہ پر آمد و رفت رکھتے تھے ۔ایک پرامن شارع تجارت کو میدان جنگ میں تبدیل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔
محدثین، سیرت نگار، اور مؤرخین اسلام، غزوہ بدر سے قبل کل آٹھ مہمات(سرایا) کا ذکر کرتے ہیں، میں اختصار کے ساتھ ان کا یہاں ذکر کر رہاہوں، یہ آٹھ جنگی مہمات اس بات کا پول بہت طرح کھول کر رکھ دیتی ہیں کہ غزوہ بدر کے اصل محرّکات اور اسباب کیا تھے۔۔۔۔۔۔"

یہ ایک اچھا اتفاق ہے کہ ہم غزوہ بدر کے اسباب اور پس منظر پر تفصیل ملحدین کی تحریر سے پہلے ہی پیج پر پیش کرچکے ہیں ، یہ تفصیل سیرت کی عام مقبول و معروف کتابوں الرحیق المختوم از صفی الرحمان مبارکپوری اور سیرت المصطفی از مولانا ادریس کاندھلوی سے پیش کی گئی تھی، ساری تفصیل اب بھی پیج پر موجود ہے۔ ان ملحد علامہ کو کوئی وہ تفصیل دکھلادے تو شاید انکو اپنے اس جھوٹ پر شرم آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان علماء حقائق کو نہیں چھپاتے جناب ملحد صاحب نے حقائق اور اسباب کو جان بوجھ کر چھپانے کی کوشش کی ہے۔ غزوہ بدر اور اسکے پس منظر کے متعلق تفصیلی تذکرہ گزشتہ تحاریر میں پیش کیا جاچکا ہے، ہم اس میں یہاں صرف ان باتوں کو پیش کریں گے جو اس اعتراض کی حقیقت واضح کرتی ہیں۔
کفارِ مکہ نے مکہ میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جس سے مجبور ہوکر مسلمانوں نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی، مسلمانوں کے مدینہ آجانے کے بعد بھی قریش کی حماقتوں کا سلسلہ بند نہ ہوا اور وہ اپنی ستم رانیوں سے باز نہ آئے۔ بلکہ یہ دیکھ کر ان کا جوشِ غضب اور بھڑک اُٹھا کہ مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹ نکلے ہیں اور انہیں مدینے میں ایک پُر امن جائے قرار مل گئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے عبد اللہ بن اُبی کو خط لکھا دھمکی آمیز خط لکھا ۔ اسکی تفصیل ہم یہاں پیش کرچکے۔
https://www.facebook.com/IslamicHistory2/photos/pb.170736319794083.-2207520000.1431695255./355250788009301/?type=3&src=https%3A%2F%2Fscontent-fra.xx.fbcdn.net%2Fhphotos-xpa1%2Fv%2Ft1.0-9%2F1470031_355250788009301_2964091251314188862_n.jpg%3Foh%3Ddf389a9685c3df06d364ac8714725bf4%26oe%3D56069CA6&size=850%2C340&fbid=355250788009301

مسلمانوں کو کھلی دھمکیا ں دی گئیں ، جس کی تفصیل اس لنک پر پیش کی جاچکی

https://www.facebook.com/IslamicHistory2/photos/pb.170736319794083.-2207520000.1431695255./355251274675919/?type=3&src=https%3A%2F%2Fscontent-fra.xx.fbcdn.net%2Fhphotos-xtp1%2Fv%2Ft1.0-9%2F11139775_355251274675919_1679098667637543647_n.jpg%3Foh%3D85ff96314e5d4fca08ea03d9bb7f4c02%26oe%3D560604C3&size=850%2C340&fbid=355251274675919

ان پُر خطر حالات میں بھی مسلمانوں نے کوئی جارحانہ فیصلہ نہیں کیا بلکہ اپنی حفاظت کی تراکیب کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت فرمادی ۔ اسکی تفصیل بھی پیج پر ایک پوسٹ میں پیش کی جاچکی ۔
جنگ کی اجازت نازل ہونے کے بعد مسلمانوں کی عسکری مہمات کا سلسلہ عملاً شروع ہوگیا۔ فوجی دستے گشت کرنے لگے۔ اس کا مقصود وہی تھا جس کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے کہ:
1۔مدینہ کے گرد وپیش کے راستوں پر عموماً اور مکے کے راستے پر خصوصاً نظر رکھی جائے اور اس کے احوال کا پتا لگایا جاتا رہے ۔
2۔ ان راستوں پر واقع قبائل سے معاہدے کیے جائیں اور یثرب کے مشرکین ویہود اور آس پاس کے بدؤوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ مسلمان طاقتور ہیں اور اب انہیں کمزور نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
3۔قریش کو ان کے بے جا طیش اور تیور کے خطرناک نتیجے سے ڈرایا جائے تاکہ جس حماقت کی دلدل میں وہ اب تک دھنستے چلے جارہے ہیں اس سے نکل کر ہوش کے ناخن لیں اور اپنے اقتصاد اور اسبابِ معیشت کو خطرے میں دیکھ کر صلح کی طرف مائل ہو جائیں اور مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان کے خاتمے کے جو عزائم رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں اور مکے کے کمزور مسلمانوںپر جو ظلم وستم ڈھارہے ہیں ان سب سے باز آجائیں اور مسلمان جزیرۃ العرب میں اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے آزاد ہو جائیں۔

اس منصوبے پر عمل میں کئی سَرَایا اور پھر غزوہ بدر پیش آیا۔
سَریہ عبد اللہ بن جحش کے واقعات کے بعد مشرکین کا خوف حقیقت بن گیا اور ان کے سامنے ایک واقعی خطرۂ مجسم ہوکر آگیا۔ انہیں جس پھندے میں پھنسنے کا اندیشہ تھا اس میں اب وہ واقعی پھنس چکے تھے۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ مدینے کی قیادت انتہائی بیدار مغز ہے اور ان کی ایک ایک تجارتی نقل وحرکت پر نظر رکھتی ہے۔مسلمان چاہیں تو تین سو میل کا راستہ طے کرکے ان کے علاقے کے اندر انہیں مار کاٹ سکتے ہیں ، قید کرسکتے ہیں ، مال لُوٹ سکتے ہیں اور ان سب کے بعد صحیح سالم واپس بھی جاسکتے ہیں۔ مشرکین کی سمجھ میں آگیا کہ ان کی شامی تجارت اب مستقل خطرے کی زد میں ہے لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنی حماقت سے باز آنے اور جُہَینہ او ربنو ضمرہ کی طرح صلح وصفائی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اپنے جذبۂ غیظ وغضب اور جوشِ بغض وعداوت میں کچھ اور آگے بڑھ گئے اور ان کے صنادید واکابر نے اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا کہ مسلمانوں کے گھر وں میں گھس کر ان کا صفایا کردیا جائے گا۔چنانچہ یہی طیش تھا جو انہیں میدانِ بدر تک لے آیا۔

یہ اس پس منظر کا مختصر تذکرہ تھا جس کو ملحد صاحب نے جان بوجھ کر چھپاتے ہوئے غزوہ بدر کو ایک الگ ہی رنگ میں پیش کیا ۔ علامہ ملحد نے اپنی اس کہانی میں ہر سریہ اور پھر غزوہ بدر کی مسلمانوں کی طرف سے چھاپہ مار کاروائیوں کو ڈاکا ڈالنے اور لوٹ مار کرنے کے رنگ میں دکھایا ۔ ۔ جب بندے کا مقصد ہی دھوکہ دینا گمراہ کرنا ہو تو پھر وہ کسی اچھی سے اچھی بات کو بھی کسی غلط رنگ میں بھی پیش کرسکتا ہے ۔۔
اوپر ہم اسکا تذکرہ کرچکے کہ مسلمان کے اس جارحانہ عمل کی دو وجوہات تھیں ایک قریش اپنے معیشت کو خطرے میں دیکھ کر باقی قبائل کی طرح مسلمانوں سے صلح کرنے پر مجبور ہوجائیں یا انکو معاشی طور پر اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرنے سے باز رہیں ۔ ان سرایا اور غزوات کی تفصیل تمام بڑی کتابوں زاد المعاد ۲/۸۳-۸۵ ابن ہشام ۱/۵۹۱ - ۶۰۵ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

مکمل تحریر >>

بدر کے بعد کی جنگی سرگرمیاں


بدر کا معرکہ مسلمانوں اور مشرکین کا سب سے پہلا مسلح ٹکراؤ اور فیصلہ کن معرکہ تھا جس میں مسلمانوں کو فتحِ مبین حاصل ہوئی اور سارے عرب نے اس کا مشاہدہ کیا۔ اس معرکے کے نتائج سے سب سے زیادہ وہی لوگ دل گرفتہ تھے جنہیں براہ ِ راست یہ نقصان ِ عظیم برداشت کرنا پڑا تھا ، یعنی مشرکین ، یا وہ لوگ جو مسلمانوں کے غلبہ وسر بلندی کو اپنے مذہبی اور اقتصادی وجود کے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے ، یعنی یہود۔ چنانچہ جب سے مسلمانوں نے بدر کا معرکہ سر کیا تھا یہ دونوں گروہ مسلمانوں کے خلاف غم وغصہ اور رنج والم سے جل بھن رہے تھے ، جیسا کہ ارشاد ہے :
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَ‌كُوا (۵: ۸۲)
''تم اہل ِ ایمان کا سب سے زبردست دشمن یہود کو پاؤ گے اور مشرکین کو۔''
مدینے میں کچھ لوگ ان دونوں گروہوں کے ہمرازو دمساز تھے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اپنا وقار برقرار رکھنے کی اب کوئی سبیل باقی نہیں رہ گئی ہے تو بظاہر اسلام میں داخل ہوگئے۔ یہ عبد اللہ بن اُبی اور اس کے رفقاء کا گروہ تھا۔ یہ بھی مسلمانوں کے خلاف یہود اور مشرکین سے کم غم وغصہ نہ رکھتا تھا۔
ان کے علاوہ ایک چوتھاگروہ بھی تھا ، یعنی وہ بدو جو مدینے کے گرد وپیش بود وباش رکھتے تھے۔ انہیں کفر و اسلام سے کوئی دلچسپی نہ تھی، لیکن یہ لٹیرے اور رہزن تھے ، اس لیے بدر کی کامیابی سے انہیں بھی قلق و اضطراب تھا۔ انہیں خطرہ تھا کہ مدینے میں ایک طاقت ور حکومت قائم ہوگئی تو ان کی لوٹ کھسوٹ کاراستہ بند ہوجائے گا ، اس لیے ان کے دلوں میں بھی مسلمانوں کے خلاف کینہ جاگ اٹھا اور یہ بھی مسلم دشمن ہوگئے۔
اس طرح مسلمان چاروں طرف سے خطرے میں گھر گئے ، لیکن مسلمانوں کے سلسلے میں ہر فریق کا طرزِ عمل دوسرے سے مختلف تھا۔ ہر فریق نے اپنے حسبِ حال ایسا طریقہ اپنایا تھا جو اس کے خیال میں اس کی غرض وغایت کی تکمیل کا کفیل تھا ، چنانچہ اہل ِ مدینہ نے اسلام کا اظہار کرکے درپردہ سازشوں ، دسیسہ کا ریوں اور باہم لڑانے بھڑانے کی راہ اپنائی۔ یہود کے ایک گروہ نے کھلم کھلا رنج وعداوت اور غیظ وغضب کا مظاہرہ کیا۔ اہل ِ مکہ نے کمر توڑ ضرب کی دھمکیاں دینی شروع کیں اور بدلہ اور انتقام لینے کا کھلا اعلان کیا۔ ان کی جنگی تیاریاں بھی کھلے عام ہورہی تھیں ، گویا وہ زبان ِ حال سے مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہے تھے۔
ولا بد من یوم أغرّ محجل
یطول استماعی بعدہ للنوادب
''ایک ایسا روشن اور تابناک دن ضرور ی ہے جس کے بعد عرصہ ٔ دراز تک نوحہ کرنے والیوں کے نوحے سنتا رہوں۔''
اور سال بھر کے بعد وہ عملاً ایک ایسی معرکہ آرائی کے لیے مدینے کی چہاردیواری تک چڑھ آئے جو تاریخ میں غزوہ ٔ احد کے نام سے معروف ہے اور جس کا مسلمانوں کی شہرت اور ساکھ پر برا اثر پڑا تھا۔
ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں نے بڑے اہم اقدامات کیے جن سے نبیﷺ کی قائدانہ عبقریت کا پتا چلتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ مدینے کی قیادت گرد وپیش کے ان خطرات کے سلسلے میں کس قدر بیدار تھی اور ان سے نمٹنے کے لیے کتنے جامع منصوبے رکھتی تھی۔ اگلی سطور میں اسی کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جائے گا۔

مکمل تحریر >>

جنگِ بدر پر قرآن کا تبصرہ


اسی غزوے کے تعلق سے سورۂ انفال نازل ہوئی جو درحقیقت اس غزوے پر ایک الٰہی تبصرہ ہے ...گر یہ تعبیر صحیح ہو ...اور یہ تبصرہ بادشاہوں اور کمانڈروں وغیرہ کے فاتحانہ تبصروں سے بالکل ہی جدا گانہ ہے۔ اس تبصرے کی چند باتیں مختصراً یہ ہیں :
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مسلمانوں کی نظر ان کو تاہیوں اور اخلاقی کمزوریوں کی طرف مبذول کرائی جوان میں فی الجملہ باقی رہ گئیں تھیں۔اور جن میں سے بعض بعض کا اظہار اس موقع پر ہوگیا تھا۔ اس توجہ دہانی کا مقصود یہ تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو ان کمزوریوں سے پاک صاف کر کے کا مل ترین بن جائیں۔
اس کے بعداس فتح میں اللہ تعالیٰ کی جو تائید اور غیبی مدد شامل تھی ، اس کا ذکر فرمایا۔ اس کا مقصود یہ تھا کہ مسلمان اپنی شجاعت وبسالت کے فریب میں نہ آجائیں۔ جس کے نتیجے میں مزاج وطبائع پر غرور وتکبر کا تسلط ہو جاتا ہے ، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں اور اس کے اور پیغمبرﷺ کے اطاعت کیش رہیں۔
پھر ان بلند اغراض ومقاصد کاتذکرہ کیاگیا ہے جن کے لیے رسول اللہﷺ نے اس خوفناک اور خون ریز معرکے میں قدم رکھا تھا اور اسی ضمن میں ان اخلاق واوصاف کی نشان دہی کی گئی ہے جو معرکوں میں فتح کا سبب بنتے ہیں۔
پھر مشرکین ومنافقین کو اور یہود اور جنگی قیدیوں کو مخاطب کرکے فصیح وبلیغ نصیحت فرمائی گئی ہے تاکہ وہ حق کے سامنے جھک جائیں اور اس کے پابند بن جائیں۔
اس کے بعد مسلمانوں کو مالِ غنیمت کے معاملے میں مخاطب کرتے ہوئے انہیں اس مسئلے کے تمام بنیادی قواعد و اصول سمجھائے اور بتائے گئے ہیں۔
پھر اس مرحلے پر اسلامی دعوت کو جنگ وصلح کے جن قوانین کی ضرورت تھی ان کی توضیح اور مشروعیت ہے تاکہ مسلمانوں کی جنگ اور اہل ِ جاہلیت کی جنگ میں امتیاز قائم ہوجائے ، اور اخلاق وکردار کے میدان میں مسلمانوں کو برتری حاصل رہے ، اور دنیا اچھی طرح جان لے کہ اسلام محض ایک نظر یہ نہیں ہے بلکہ وہ جن اصولوں اور ضابطوں کا داعی ہے ان کے مطابق اپنے ماننے والوں کی عملی تربیت بھی کرتا ہے۔
پھر اسلامی حکومت کے قوانین کی کئی دفعات بیان کی گئی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کے دائرے میں بسنے والے مسلمان اور اس دائرے سے باہر رہنے والے مسلمانوں میں کیا فرق ہے۔
متفرق واقعات:
۲ ھ میں رمضان کا روزہ اور صدقۂ فطر فرض کیا گیا اور زکوٰۃ کے مختلف نصابوں کی تفصیلاً تعیین کی گئی۔ صدقۂ فطر کی فرضیت اور زکوٰۃ کے نصاب کی تعیین سے اس بوجھ اور مشقت میں بڑی کمی آگئی جس سے فقراء مہاجرین کی ایک بڑی تعداد دوچار تھی ، کیونکہ وہ طلب رزق کے لیے زمین میں دوڑ دھوپ کے امکانات سے محروم تھے۔
پھر نہایت نفیس موقع اور خوشگوار اتفاق یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنی زندگی میں پہلی عید جو منائی وہ شوال ۲ ھ کی عید تھی جو جنگ بدر کی فتح مبین کے بعد پیش آئی۔ کتنی خوشگوار تھی یہ عید سعید جس کی سعادت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سر فتح وعزت کا تاج رکھنے کے بعد عطا فرمائی اور کتنا ایمان افروز تھا اس نماز عید کا منظر جسے مسلمانوں نے اپنے گھروں سے نکل کر تکبیر وتوحید اور تحمید وتسبیح کی آوازیں بلند کرتے ہوئے میدان میں جاکر ادا کیا تھا۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کے دل اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اوراس کی کی ہوئی تائید کے سبب اس کی رحمت ورضوان کے شوق سے لبریز اور اس کی طرف رغبت کے جذبات سے معمور تھے اور ان کی پیشانیاں اس کے شکر وسپاس کی ادائیگی کے لیے جھکی ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے :
وَاذْكُرُ‌وا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِ‌هِ وَرَ‌زَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ (۸: ۲۶)
''اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے ، زمین میں کمزور بنا کر رکھے گئے تھے ، ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک لے جائیں گے، پس اس نے تمہیں ٹھکانا مرحمت فرمایا اور اپنی مدد کے ذریعے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی دی تاکہ تم لوگ اس کا شکر ادا کرو۔''

مکمل تحریر >>

بدر کے قیدیوں کا قضیہ


1. جب رسول اللہﷺ مدینہ پہنچ گئے تو آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا :''یا رسول اللہ! (ﷺ ) یہ لوگ چچیرے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگ ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپﷺ ان سے فدیہ لے لیں۔ اس طرح جو کچھ ہم لیں گے وہ کفارکے خلاف ہماری قوت کا ذریعہ ہوگا اور یہ بھی متوقع ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے دے اور وہ ہمارے بازو بن جائیں۔''
رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''ابن ِ خطاب! تمہاری کیا رائے ہے ؟ ''انہوں نے کہا : ''واللہ ! میری وہ رائے نہیں ہے جو ابوبکرؓ کی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں کو...جو حضرت عمرؓ کا قریبی تھا - میرے حوالے کردیں اور میں اس کی گردن ماروں۔ عقیل بن ابی طالب کو علیؓ کے حوالے کریں اور وہ اس کی گردن ماریں اور فلاں کوجو حمزہؓ کا بھائی ہے حمزہؓ کے حوالے کریں اور وہ اس کی گردن ماردیں یہاں تک کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے نرم گوشہ نہیں ہے ، اور یہ حضرات مشرکین کے صنادِید وائمہ اور قائدین ہیں۔''
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے ابو بکرؓ کی بات پسند فرمائی اور میری بات پسند نہیں فرمائی ، چنانچہ قیدیوں سے فدیہ لینا طے کرلیا۔ اس کے بعد جب اگلا دن آیا تو میں صبح ہی صبح رسول اللہﷺ اور ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہو ا۔ وہ دونوں رورہے تھے۔ میں نے کہا : ''اے اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں ؟ اگر مجھے بھی رونے کی وجہ ملی تو روؤں گا اور اگر نہ مل سکی تو آپ حضرات کے رونے کی وجہ سے روؤں گا۔'' رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''فدیہ قبول کرنے کی وجہ سے تمہارے اصحاب پر جو چیز پیش کی گئی ہے۔ اسی کی وجہ سے رو رہا ہوں۔'' اور آپﷺ نے ایک قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : مجھ پر ان کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب پیش کیا گیا۔( تاریخ عمر بن خطاب ابن جوزی۔ ص ۳۶) اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَ‌ىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ تُرِ‌يدُونَ عَرَ‌ضَ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ يُرِ‌يدُ الْآخِرَ‌ةَ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٧﴾ لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّـهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٦٨﴾ (۸: ۶۷،۶۸ )
'' کسی نبی کے لیے درست نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خونریزی کرلے۔ تم لوگ دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے ، اور اللہ غالب حکمت والاہے۔ اگر اللہ کی طرف سے نوشتہ سبقت نہ کرچکا ہوتا تو تم لوگوں نے جو کچھ لیا ہے اس پر تم کو سخت عذاب پکڑ لیتا۔''
اور اللہ کی طرف سے جو نوشتہ سبقت کرچکا تھا وہ یہ تھا: إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً (۴۷: ۴) یعنی ''مشرکین کو جنگ میں قیدی کرنے کے بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لے لو۔''
چونکہ اس نوشتے میں قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قبولِ فدیہ پر سزا نہیں دی گئی بلکہ صرف سرزنش کی گئی اور یہ بھی اِس لیے کہ انہوں نے کفار کوا چھی طرح کچلنے سے پہلے قیدی بنا لیا تھا ، اور کہا جاتا ہے کہ آیت مذکورہ بعد میں نازل ہوئی اور جو نوشتہ اللہ کی طرف سے سبقت کرچکا تھا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ تھا کہ اس امت کے لیے مال ِ غنیمت حلال ہے یا کہ اہل بدر کے لیے رحمت ومغفرت ہے۔
بہر حال چونکہ حضرت ابوبکرؓ کی رائے کے مطابق معاملہ طے ہوچکا تھا، اس لیے مشرکین سے فدیہ لیا گیا۔ فدیہ کی مقدار چار ہزار اور تین ہزار درہم سے لے کر ایک ہزار درہم تک تھی۔ اہل ِ مکہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے جبکہ اہل ِ مدینہ لکھنے پڑھنے سے واقف نہ تھے، اس لیے طے کیا گیا کہ جس کے پاس فدیہ نہ ہووہ مدینے کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے۔ جب یہ بچے اچھی طرح سیکھ جائیں تو یہی اس کا فدیہ ہوگا۔
رسول اللہﷺ نے قیدیوں پر احسان بھی فرمایا اور انہیں فدیہ لیے بغیر رہا کردیا۔ اس فہرست میں مطلب بن حنطب ، صیفی بن ابی رفاعہ اور ابو عزہ جمحی کے نام آتے ہیں۔ آخر الذکر کو آئندہ جنگ احد میں قید اور قتل کیا گیا۔ (تفصیل آگے آرہی ہے )
آپﷺ نے اپنے داماد ابو العاص کو بھی اس شرط پر بلا فدیہ چھو ڑ دیا کہ وہ حضرت زینب ؓکی راہ نہ روکیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت زینبؓ نے ابو العاص کے فدیے میں کچھ مال بھیجا تھا جس میں ایک ہار بھی تھا۔ یہ ہا ر درحقیقت خدیجہ ؓ کا تھا اور جب انہوں نے حضرت زینبؓ کو ابو العاص کے پا س رخصت کیا تھا تو یہ ہار انہیں دے دیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے اسے دیکھا تو آپﷺ پر بڑی رِقت طاری ہوگئی اور آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اجازت چاہی کہ ابوالعاص کو چھوڑ دیں۔ صحابہ نے اسے بسرو چشم قبول کر لیا اور رسول اللہﷺ نے ابو لعاص کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ حضرت زینبؓ کی راہ چھوڑ دیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو العاص نے ان کا راستہ چھوڑ دیا اور حضرت زینبؓ نے ہجرت فرمائی۔ رسول اللہﷺ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ اور ایک انصاری صحابی کو بھیج دیا کہ تم دونوں بطن یا جج میں رہنا۔ جب زینبؓ تمہارے پاس سے گزریں تو ساتھ ہو لینا۔ یہ دونوں حضرات تشریف لے گئے اور حضرت زینبؓ کو ساتھ لے کر مدینہ واپس آئے۔ حضرت زینبؓ کی ہجرت کا واقعہ بڑا طویل اور المناک ہے۔
قیدیوں میں سہیل بن عمرو بھی تھا جو بڑا زبان آور خطیب تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا :''اے اللہ کے رسول! سہیل بن عمرو کے اگلے دو دانت تڑوادیجیے ا س کی زبان لپٹ جایا کرے گی اور وہ کسی جگہ خطیب بن کر آپ کے خلاف کبھی کھڑا نہ ہو سکے گا۔'' لیکن رسول اللہﷺ نے ان کی یہ گزارش مسترد کردی کیونکہ یہ مثلے کے ضمن میں آتا ہے جس پر قیامت کے روز اللہ کی طرف سے پکڑ کا خطرہ تھا۔
حضرت سعد بن نعمانؓ عمرہ کرنے کے لیے نکلے تو انہیں ابو سفیان نے قید کر لیا۔ ابو سفیان کا بیٹا عمرو بھی جنگ ِ بدر کے قیدیوں میں تھا۔ چنانچہ عمرو کوابو سفیان کے حوالے کردیا گیا اور اس نے حضرت سعدؓ کو چھوڑ دیا۔

مکمل تحریر >>

مالِ غنیمت کا مسئلہ


رسول اللہﷺ نے معرکہ ختم ہونے کے بعد تین دن بدر میں قیام فرمایا ، اور ابھی آپﷺ نے میدانِ جنگ سے کوچ نہیں فرمایا تھا کہ مالِ غنیمت کے بارے میں لشکر کے اندر اختلاف پڑگیا اور جب یہ اختلاف شدت اختیار کر گیا تو رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ آپﷺ کے حوالے کردے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم کی تعمیل کی اور اس کے بعد اللہ نے وحی کے ذریعہ اس مسئلے کا حل نازل فرمایا۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ نبیﷺ کے ساتھ مدینے سے نکلے اور بدر میں پہنچے۔ لوگوں سے جنگ ہوئی اور اللہ نے دشمن کو شکست دی۔ پھر ایک گروہ ان کے تعاقب میں لگ گیا اور انہیں کھدیڑ نے اور قتل کرنے لگا اور ایک گروہ مالِ غنیمت پر ٹوٹ پڑا اور اسے بٹورنے اور سمیٹنے لگا اور ایک گروہ نے رسول اللہﷺ کے گرد گھیرا ڈالے رکھا کہ مبادا دشمن دھوکے سے آپﷺ کو کوئی اذیت پہنچادے۔ جب رات آئی اور لوگ پلٹ پلٹ کر ایک دوسرے کے پاس پہنچے تو مالِ غنیمت جمع کرنے والوں نے کہا کہ ہم نے اسے جمع کیا ہے، لہٰذا اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں۔ دشمن کا تعاقب کرنے والوں نے کہا :''تم لوگ ہم سے بڑھ کر اس کے حق دار نہیں کیونکہ اس مال سے دشمن کو بھگانے اور دور رکھنے کاکام ہم نے کیا تھا۔'' اور جو لوگ رسول اللہﷺ کی حفاظت فرما رہے تھے انہوں نے کہا :''ہمیں یہ خطرہ تھا کہ دشمن آپ کو غفلت میں پاکر کوئی اذیت نہ پہنچا دے اس لیے ہم آپﷺ کی حفاظت میں مشغول رہے۔'' اس پراللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١﴾ (۸: ۱)
''لوگ آپﷺ سے مال ِ غنیمت کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو غنیمت اللہ اور رسولﷺ کے لیے ہے، پس اللہ سے ڈرو ، اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرلو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اگر واقعی تم لوگ مومن ہو۔''
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے مالِ غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم فرمادیا۔( مسند احمد ۵ / ۳۲۳ ، ۳۲۴ حاکم ۲/۳۲۶)
رسول اللہﷺ تین روز بدر میں قیام فرماکر مدینے کے لیے چل پڑے۔ آپﷺ کے ہمراہ مشرک قیدی بھی تھے اور مشرکین سے حاصل کیا ہوا مالِ غنیمت بھی۔ آپﷺ نے حضرت عبد اللہ بن کعبؓ کو اس کی نگرانی سونپی تھی۔ جب آپﷺ وادیٔ صفرا ء کے درّے سے باہر نکلے تو درّے اور نازیہ کے درمیان ایک ٹیلے پر پڑاؤ ڈالا اور وہیں خمس (پانچواں حصہ ) علیحدہ کر کے باقی مال ِ غنیمت مسلمانوں پر برابر تقسیم کردیا۔
اور وادیٔ صفراء ہی میں آپﷺ نے حکم صادر فرمایا کہ نضر بن حارث کو قتل کردیا جائے۔ اس شخص نے جنگ ِ بدر میں مشرکین کا پرچم اُٹھارکھا تھا اور یہ قریش کے اکابر مجرمین میں سے تھا۔ اسلام دشمنی اور رسول اللہﷺ کی ایذاء رسانی میں حد درجہ بڑھا ہوا تھا۔ آپﷺ کے حکم پر حضرت علیؓ نے اس کی گردن مار دی۔
اس کے بعد آپﷺ عرق الظبیہ پہنچے تو عقبہ بن ابی معیط کے قتل کا حکم صادر فرمایا۔ یہ شخص جس طرح رسول اللہﷺ کو ایذاء پہنچایا کرتا تھا اس کا کچھ ذکرپیچھے گزر چکا ہے۔ یہی شخص ہے جس نے رسول اللہﷺ کی پیٹھ پر نماز کی حالت میں اونٹ کی اوجھ ڈالی تھی اور اسی شخص نے آپﷺ کی گردن پہ چادر لپیٹ کر آپﷺ کو قتل کرنا چاہا تھا اور اگر ابوبکرؓ بروقت نہ گئے ہوتے تو اس نے (اپنی دانست میں تو )آپﷺ کا گلا گھونٹ کر مار ہی ڈالاتھا۔ جب نبیﷺ نے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا تو کہنے لگا: ''اے محمد ! بچوں کے لیے کون ہے ؟'' آپ نے فرمایا : آگ اس کے بعد حضرت عاصم بن ثابت انصاریؓ نے - اور کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ نے - اس کی گردن ماردی۔( سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود ۳/۱۲)
جنگی نقطۂ نظر سے ان دونوں طاغوتوں کا قتل کیا جانا ضروری تھا کیونکہ یہ صرف جنگی قیدی نہ تھے بلکہ جدید اصطلاح کی روسے جنگی مجرم بھی تھے۔
اس کے بعد آپﷺ مقامِ رَوحا ء پہنچے تو ان مسلمان سربراہوں سے ملاقات ہوئی جو دونوں قاصدوں سے فتح کی بشارت سن کر آپﷺ کا استقبال کرنے اور آپﷺ کو فتح کی مبارک باد پیش کرنے کے لیے مدینے سے نکل پڑے تھے۔ جب انہوں نے مبارک پیش کی تو حضرت سلمہ بن سلامہؓ نے کہا :'' آپ لوگ ہمیں کاہے کی مبارک باد دے رہے ہیں ہمارا ٹکراؤ تو اللہ کی قسم ! گنجے سر کے بوڑھوں سے ہوا تھا جو اونٹ جیسے تھے۔'' اس پر رسول اللہﷺ نے مسکرا کر فرمایا : بھتیجے! یہی لوگ سر برآوردگانِ قوم تھے۔
حضرت اسید بن حضیرؓ عرض پر داز ہوئے :''یارسول اللہ!(ﷺ ) اللہ کی حمد ہے کہ اس نے آپ کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشی۔ واللہ ! میں یہ سمجھتے ہوئے بدر سے پیچھے نہ رہا تھا کہ آپ کا ٹکراؤ دشمن سے ہوگا ، میں تو سمجھ رہا تھا کہ بس قافلے کا معاملہ ہے ، اور اگر میں یہ سمجھتا کہ دشمن سے سابقہ پڑے گا تو میں پیچھے نہ رہتا۔'' رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' سچ کہتے ہو۔''
اس کے بعد آپﷺ مدینہ منور ہ میں اس طرح مظفر ومنصور داخل ہوئے کہ شہر اور گرد وپیش کے سارے دشمنوں پر آپﷺ کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اس فتح کے اثر سے مدینے کے بہت سے لوگ حلقۂ بگوش اسلام ہوئے اور اسی موقع پر عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں نے بھی دکھاوے کے لیے اسلام قبول کیا۔
آپﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے ایک دن بعد قیدیوں کی آمد آمد ہوئی۔ آپ نے انہیں صحابہ کرامؓ پر تقسیم فرمادیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ اس وصیت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود کھجور کھاتے تھے لیکن قیدیوں کو روٹی پیش کرتے تھے۔ (واضح رہے کہ مدینے میں کھجور بے حیثیت چیز تھی اور روٹی خاصی گراں قیمت )

مکمل تحریر >>

مدینہ میں خوشخبری


ادھر مسلمانوں کی فتح ہوچکی تو رسول اللہﷺ نے اہل ِ مدینہ کو جلد از جلد خوشخبری دینے کے لیے دو قاصدروانہ فرمائے۔ ایک حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ جنہیں عوالی (بالائی مدینہ ) کے باشندوں کے پاس بھیجا گیا تھا اور دوسرے حضرت زید بن حارثہؓ جنہیں زیرین مدینہ کے باشندوں کے پاس بھیجا گیا تھا۔
اس دوران یہود اور منافقین نے جھوٹے پر وپیگنڈے کر کر کے مدینے میں ہلچل بپاکر رکھی تھی یہاں تک کہ یہ خبر بھی اڑا رکھی تھی کہ نبیﷺ قتل کر دیئے گئے ہیں ، چنانچہ جب ایک منافق نے حضرت زید بن حارثہؓ کو نبیﷺ کی اونٹنی قَصْوَاء پر سوار آتے دیکھا تو بول پڑا :
''واقعی محمدﷺ قتل کردیئے گئے ہیں۔ دیکھو ! یہ تو انھی کی اونٹنی ہے۔ ہم اسے پہچانتے ہیں ، اور یہ زید بن حارثہؓ ہے ، شکست کھا کر بھاگا ہے اور ا س قدر مرعوب ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہے۔''
بہرحال جب دونوں قاصد پہنچے تو مسلمانوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے تفصیلات سننے لگے حتیٰ کہ انہیں یقین آگیا کہ مسلمان فتح یاب ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ہر طرف مسرت وشادمانی کی لہر دوڑ گئی اور مدینے کے دَرو بام تہلیل وتکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھے اور جو سربر آوردہ مسلمان مدینے میں رہ گئے تھے وہ رسول اللہﷺ کو اس فتح مبین کی مبارک باد دینے کے لیے بدر کے راستے پر نکل پڑے۔
حضرت اُسامہ بن زیدؓ کا بیان ہے کہ ہمارے پاس اس وقت خبر پہنچی جب رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓکو ، جو حضرت عثمانؓ کے عقد میں تھیں ، دفن کر کے قبر پر مٹی برابر کر چکے تھے۔ ان کی تیمار داری کے لیے حضرت عثمانؓ کے ساتھ مجھے بھی رسول اللہﷺ نے مدینے ہی میں چھوڑ دیا تھا۔

مکمل تحریر >>

مکے میں شکست کی خبر


مشرکین نے میدانِ بدر سے غیر منظم شکل میں بھاگتے ہوئے تتر بتر ہو کر گھبراہٹ کے عالم میں مکے کا رخ کیا۔ شرم وندامت کے سبب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح مکے میں داخل ہوں۔
ابن ِ اسحاق کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جو شخص قریش کی شکست کی خبر لے کر مکے وارد ہوا وہ حَیْسمان بن عبد اللہ خزاعی تھا۔ لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ پیچھے کی کیا خبر ہے ؟ اس نے کہا : عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ابو الحکم بن ہشام ، اُمیہ بن خلف ...اورمزید کچھ سرداروں کا نام لیتے ہوئے ...یہ سب قتل کردیئے گئے۔ جب اس نے مقتولین کی فہرست میں اشراف قریش کو گنا نا شروع کیا تو صفوان بن اُمیہ نے جو حطیم میں بیٹھا تھا کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ ہوش میں ہے تو اس سے میرے متعلق پوچھو۔ لوگوں نے پوچھا: صفوان بن امیہ کا کیا ہوا ؟ اس نے کہا : وہ تو وہ دیکھو ! حطیم میں بیٹھا ہوا ہے۔ واللہ! اس کے باپ اور اس کے بھائی کو قتل ہوتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے۔
ابورافعؓ کا بیان ہے کہ میں ان دنوں حضرت عباسؓ کا غلام تھا۔ ہمارے گھر میں اسلام داخل ہوچکا تھا۔ حضرت عباسؓ مسلمان ہوچکے تھے ، امّ الفضلؓ مسلمان ہو چکی تھیں ، میں بھی مسلمان ہو چکا تھا ، البتہ حضرت عباسؓ نے اپنا اسلا م چھپا رکھا تھا۔ ادھر ابو لہب جنگ بدر میں حاضر نہ ہوا تھا۔ جب اسے خبر ملی تو اللہ نے اس پر ذلت و روسیاہی طاری کردی اور ہمیں اپنے اندر قوت وعزت محسوس ہوئی۔ میں کمزور آدمی تھا تیر بنایا کرتا تھا اور زمزم کے حجرے میں بیٹھا تیر کے دستے چھیلتا رہتا تھا۔ واللہ ! اس وقت میں حجرے میں بیٹھا اپنے تیر چھیل رہا تھا۔ میرے پاس اُم ّ الفضلؓ بیٹھی ہوئی تھیں اور جو خبر آئی تھی اس سے ہم شاداں وفرحاں تھے کہ اتنے میں ابو لہب اپنے دونوں پاؤں بری طرح گھسیٹتا ہواآپہنچا اور حجرے کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ اس کی پیٹھ میری پیٹھ کی طرف تھی۔ ابھی وہ بیٹھا ہی ہوا تھا کہ اچانک شور ہوا: یہ ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب آگیا۔ ابو لہب نے اس سے کہا: میرے پاس آؤ ، میری عمر کی قسم ! تمہارے پاس خبر ہے۔ وہ ابو لہب کے پاس بیٹھ گیا۔ لوگ کھڑے تھے۔ ابو لہب نے کہا: بھتیجے بتاؤ لوگوں کا کیا حال رہا ؟
ابوسفیان نے کہا : کچھ نہیں۔ بس لوگوں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی اور ہم نے اپنے کندھے ان کے حوالے کردیئے۔ وہ ہمیں جیسے چاہتے تھے قتل کرتے تھے اور جیسے چاہتے تھے قید کرتے تھے ، اور اللہ کی قسم! میں اس کے باوجود لوگوں کو ملامت نہیں کر سکتا۔ درحقیقت ہماری مڈبھیڑ کچھ ایسے گورے چٹے لوگوں سے ہوئی تھی جو آسمان وزمین کے درمیان چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے۔ اللہ کی قسم! نہ وہ کسی چیز کو چھوڑتے تھے اور نہ کوئی چیز ان کے مقابل ٹک پاتی تھی۔
ابو رافعؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے خیمے کا کنارہ اٹھا یا ، پھر کہا : وہ اللہ کی قسم فرشتے تھے ۔
یہ سن کر ابو لہب نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میرے چہرے پر زور دار تھپڑ رسید کیا۔ میں اس سے لڑ پڑا۔ لیکن اس نے مجھے اٹھا کر زمین پر پٹک دیا۔ پھر میرے اوپر گھٹنے کے بل بیٹھ کر مجھے مارنے لگا۔ میں کمزور جو ٹھہرا، لیکن اُم ّ الفضل نے اٹھ کر خیمے کا ایک کھمبا لیا اور اسے ایسی ضرب ماری کہ سر میں بُری چوٹ آگئی اور ساتھ ہی بولیں: اس کا مالک نہیں ہے اس لیے اسے کمزور سمجھ رکھا ہے ؟ ابولہب رسوا ہو کر اٹھا اور چلا گیا۔ اس کے بعد اللہ کی قسم صرف سات راتیں گزری تھیں کہ اللہ نے اسے عدسہ (ایک قسم کے طاعون ) میں مبتلا کردیا اوراس کا خاتمہ کردیا۔ عدسہ کی گلٹی کو عرب بہت منحوس سمجھتے تھے ، چنانچہ (مرنے کے بعد ) اس کے بیٹوں نے بھی اسے یوں ہی چھوڑ دیا اور وہ تین روز تک بے گور وکفن پڑا رہا۔کوئی اس کے قریب نہ جاتا تھا اور نہ اس کی تدفین کی کوشش کرتا تھا۔ جب اس کے بیٹوں کو خطرہ محسوس ہو اکہ اس طرح چھوڑنے پر لوگ انہیں ملامت کریں گے تو ایک گڑھا کھود کر اسی میں لکڑی سے اس کی لاش دھکیل دی اور دور ہی سے پتھر پھینک پھینک کر چھپادی۔
اس طرح اہل ِ مکہ کو میدان ِ بدر کی شکست ِ فاش کی خبر ملی اور ان کی طبیعت پر اس کا نہایت برا اثر پڑا حتیٰ کہ انہوں نے مقتولین پر نوحہ کرنے کی ممانعت کردی تاکہ مسلمانوں کو اس کے غم پر خوش ہونے کا موقع نہ ملے۔
اس سلسلے کاا یک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں اسود بن عبد المطلب کے تین بیٹے مارگئے، اس لیے وہ ان پر رونا چاہتا تھا۔ وہ اندھا آدمی تھا۔ ایک رات اس نے نوحہ کرنے والی عورت کی آواز سنی۔ جھٹ اپنے غلام کو بھیجا اور کہا :''ذرا ، دیکھو ! کیا نوحہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے ؟ کیا قریش اپنے مقتولین پر رورہے ہیں تاکہ میں بھی ... اپنے بیٹے ...ابو حکیمہ پر روؤں ، کیونکہ میرا سینہ جل رہا ہے۔'' غلام نے واپس آکر بتا یا کہ یہ عورت تو اپنے گم شدہ اُونٹ پر رورہی ہے۔ اسود یہ سن کر اپنے آپ پر قابو نہ پاس کا اور بے اختیار کہہ پڑا :
أتبـکی أن یضـل لہـا بعیــر ویمنعہـا مـن النوم السہــود
فلا تبکی علی بکـر ولکــن علی بدر تقـاصرت الجـدود
علي بدر سراۃ بنی ہصیـص ومخـزوم ورہـط أبی الولیـد
وبـکی إن بکیت علی عقیل وبکي حارثاً أســد الأســود
وبکیہــم ولا تسمي جمیعاً وما لأبی حـکیـمۃ من ندیــد
ألا قد سـاد بعــدہم رجال ولولا یـوم بــدر لم یسـودوا
''کیا وہ اس بات پر روتی ہے کہ اس کاا ونٹ غائب ہوگیا ؟ اور اس پر بے خوابی نے اس کی نیند حرام کر رکھی ہے ؟ تو اونٹ پر نہ رو بلکہ بدر پر روجہاں قسمتیں پھوٹ گئیں۔ ہاں ہاں ! بدر پر رو جہاں بنی ہصیص، بنی مخزوم اور ابو الولید کے قبیلے کے سر بر آوردہ افراد ہیں۔ اگر روناہی ہے تو عقیل پر رو اور حارث پر رو جو شیروں کا شیر تھا، تو ان لوگوں پر رو اورسب کا نام نہ لے اور ابوحکیمہ کا تو کوئی ہمسر ہی نہ تھا۔ دیکھو ! ان کے بعد ایسے ایسے لوگ سردار ہوگئے کہ اگر بدر کا دن نہ ہوتا تو وہ سردار نہ ہوسکتے تھے۔''

مکمل تحریر >>

ایمان کے تابناک نقوش


حضرت عمیر بن الحمام اور حضرت عوف بن حارث ابن عَفراء کے ایمان افروز کارناموں کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معرکے میں قدم قدم پر ایسے مناظر پیش آئے جن میں عقیدے کی قوت اور اصول کی پختگی نمایاں اور جلوہ گر تھی۔ اس معرکے میں باپ اور بیٹے میں بھائی اور بھائی میں صف آرائی ہوئی۔ اصولوں کے اختلاف پر تلواریں بے نیام ہوئیں اور مظلوم ومقہور نے ظالم وقاہر سے ٹکر ا کر اپنے غصے کی آگ بجھائی۔
حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیااور قرابت کی کوئی پروا نہ کی۔ بلکہ مدینہ آئے تو رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس کو قید میں پاکر کہا : اے عباس ! اسلام لائیے ، واللہ آپ اسلام لائیں تو یہ میرے نزدیک خطاب کے بھی اسلام لانے سے زیادہ پسند ہے اور ایسا صرف اس لیے ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہﷺ کو آپ کا اسلام لانا پسند ہے۔( مستدرک حاکم (فتح القدیر للشوکانی ۲/۳۲۷ ))
جس وقت مسلمانوں نے مشرکین کی گرفتاری شروع کی رسول اللہﷺ چھپر میں تشریف فرماتھے اور حضرت سعد بن معاذؓ تلوار حمائل کیے دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ رسول اللہﷺ نے دیکھا کہ حضرت سعدؓ کے چہرے پر لوگوں کی اس حرکت کا ناگوار اثر پڑ رہا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :''اے سعد ! واللہ! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم کو مسلمانوں کا یہ کام ناگوار ہے۔'' انہوں نے کہا : جی ہاں ! اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول ! یہ اہل ِ شرک کے ساتھ پہلا معرکہ ہے جس کا موقع اللہ نے ہمیں فراہم کیا ہے۔ اس لیے اہلِ شرک کو باقی چھوڑنے کے بجائے مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ انہیں خوب قتل کیا جائے اور اچھی طرح کچل دیا جائے۔''
اس جنگ میں حضرت عکاشہ بن محصن اسدیؓ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے انہیں لکڑی کا ایک پھٹا تھمادیا اور فرمایا: عکاشہؓ ! اسی سے لڑائی کرو۔ عکاشہؓ نے اسے رسو ل اللہﷺ سے لے کر ہلا یا تو وہ ایک لمبی ، مضبوط اور چم چم کرتی ہوئی سفید تلوار میں تبدیل ہوگیا۔ پھر انہو ں نے اسی سے لڑائی کی یہاں تک کہ اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ اس تلوار کا نام عون ...یعنی مدد ...رکھا گیا تھا۔ یہ تلوار مستقلاً حضرت عکاشہؓ کے پاس رہی اوروہ اسی کو لڑائیوں میں استعمال کرتے رہے یہاں تک کہ دَورِ صدیقی میں مرتدین کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس وقت بھی یہ تلوار اُن کے پاس ہی تھی۔
خاتمۂ جنگ کے بعد حضرت مُصعب بن عمیر عبدریؓ اپنے بھائی ابو عزیر بن عُمیر عبدری کے پاس سے گزرے۔ ابو عزیز نے مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی تھی اور اس وقت ایک انصاری صحابی اِس کا ہاتھ باندھ رہے تھے۔ حضرت مصعبؓ نے اس انصاری سے کہا : ''اس شخص کے ذریعے اپنے ہاتھ مضبوط کرنا، اس کی ماں بڑی مالدار ہے وہ غالبا ً تمہیں اچھا فدیہ دے گی ۔'' اس پر ابوعزیز نے اپنے بھائی مُصعبؓ سے کہا : کیا میرے بارے میں تمہاری یہی وصیت ہے ؟ حضرت مصعب نے فرمایا : (ہاں) تمہارے بجائے یہ ...انصاری ...میرا بھائی ہے۔
( جب مشرکین کی لاشوں کو کنویں میں ڈالنے کا حکم دیا گیا اور عتبہ بن ربیعہ کو کنویں کی طرف گھسیٹ کر لے جایا جانے لگا تو رسول اللہﷺ نے اس کے صاحبزادے حضرت ابو حذیفہؓ کے چہرے پر نظر ڈالی ، دیکھا تو غمزدہ تھے ، چہرہ بدلا ہوا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا :''ابو حذیفہ ! غالبا ً اپنے والد کے سلسلے میں تمہارے دل کے اندر کچھ احساسات ہیں ؟'' انہوں نے کہا :'' نہیں واللہ، یا رسول اللہ ! میرے اندر اپنے باپ کے بارے میں اور ان کے قتل کے بارے میں ذرا بھی لرزش نہیں۔ البتہ میں اپنے باپ کے متعلق جانتا تھا کہ ان میں سوجھ بوجھ ہے۔ دوراندیشی اور فضل وکمال ہے، اس لیے میں آس لگائے بیٹھا تھا کہ یہ خوبیاں انہیں اسلام تک پہنچادیں گی ، لیکن اب ان کا انجام دیکھ کر اور اپنی توقع کے خلاف کفر پر ان کا خاتمہ دیکھ کر مجھے افسوس ہے۔'' اس پر رسول اللہﷺ نے حضرت حذیفہؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی اور ان سے بھلی بات کہی۔
یہ معرکہ ، مشرکین کی شکست ِ فاش اور مسلمانوں کی فتح ِ مبین پر ختم ہوا۔ اور اس میں چودہ مسلمان شہید ہوئے۔ چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے ، لیکن مشرکین کو بھاری نقصان اٹھا نا پڑا۔ ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید کیے گئے جو عموماً قائد ، سردار اوربڑے بڑے سر بر آوردہ حضرات تھے۔
خاتمۂ جنگ کے بعد رسول اللہﷺ نے مقتولین کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا : تم لوگ اپنے نبی کے لیے کتنا برا کنبہ اور قبیلہ تھے۔ تم نے مجھے جھٹلایا جبکہ اوروں نے میری تصدیق کی۔ تم نے مجھے بے یارومددگار چھوڑا جبکہ اوروں نے میری تائید کی۔ تم نے مجھے نکالا جبکہ اوروں نے مجھے پناہ دی۔'' اس کے بعد آپ نے حکم دیا اور انہیں گھسیٹ کر بدر کے ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔
حضرت ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے حکم سے بدر کے روز قریش کے چوبیس بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں بدر کے ایک گندے خبیث کنویں میں پھینک دی گئیں۔ آپﷺ کا دستورتھا کہ آپ جب کسی قوم پر فتح یاب ہوتے تو تین دن میدانِ جنگ میں قیام فرماتے تھے۔ چنانچہ جب بدر میں تیسرا دن آیا تو آپﷺ کے حسب الحکم آپﷺ کی سواری پر کجاوہ کسا گیا۔ اس کے بعد آپﷺ پیدل چلے اور پیچھے پیچھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی چلے یہاں تک کہ آپﷺ کنویں کی بار پر کھڑے ہوگئے۔ پھر انہیں ان کا اور ان کے باپ کا نام لے لے کر پکارنا شروع کیا۔ اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں ! کیا تمہیں یہ بات خوش آتی ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی؟ کیونکہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے ہم نے برحق پایا تو کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے تم نے برحق پایا ؟ حضرت عمرؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ! آپ ایسے جسموں سے کیاباتیں کررہے ہیں جن میں رُوح ہی نہیں ؟ نبیﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تم لوگ ان سے زیادہ سننے والے نہیں لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔( متفق علیہ۔ مشکوٰۃ ۲/۳۴۵)


مکمل تحریر >>

کفار کو شکستِ فاش


تھوڑی دیر بعد مشرکین کے لشکر میں ناکامی اور اضطراب کے آثار نمودار ہوگئے ، ان کی صفیں مسلمانوں کے سخت اور تابڑ توڑ حملوں سے درہم برہم ہونے لگیں اور معرکہ اپنے انجام کے قریب جاپہنچا۔ پھر مشرکین کے جھتے بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے مارتے کاٹتے اور پکڑ تے باندھتے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ ان کو بھرپور شکست ہوگئی۔
لیکن طاغوت اکبر ابو جہل نے جب اپنی صفوں میں اضطراب کی ابتدائی علامتیں دیکھیں تو چاہا کہ اس سیلاب کے سامنے ڈٹ جائے۔ چنانچہ وہ اپنے لشکر کو للکار تا ہوا اکڑ اور تکبر کے ساتھ کہتا جارہا تھا کہ سراقہ کی کنارہ کشی سے تمہیں پست ہمت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس نے محمد (ﷺ ) کے ساتھ پہلے سے ساز باز کر رکھی تھی۔ تم پر عتبہ ، شیبہ اور ولید کے قتل کا ہول بھی سوارنہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان لوگوں نے جلد بازی سے کام لیا تھا۔ لات و عزی کی قسم! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ انہیں رسیوں میں جکڑ لیں۔ دیکھو! تمہارا کوئی آدمی ان کے کسی آدمی کو قتل نہ کرے بلکہ انہیں پکڑو اور گرفتار کرو تاکہ ہم ان کی بُری حرکت کا انہیں مزہ چکھائیں۔
لیکن اسے اس غرور کی حقیقت کا بہت جلد پتہ لگ گیا کیونکہ چند ہی لمحے بعد مسلمانوں کے جوابی حملے کی تندی کے سامنے مشرکین کی صفیں پھٹنا شروع ہوگئیں ، البتہ ابوجہل اب بھی اپنے گر د مشرکین کاا یک غول لیے جماہوا تھا۔ اس غول نے ابوجہل کے چاروں طرف تلواروں کی باڑھ اور نیزوں کا جنگل قائم کررکھا تھا ، لیکن اسلامی ہجوم کی آندھی نے اس باڑھ کو بھی بکھیر دیا اور اس جنگل کو بھی اکھیڑ دیا۔ اس کے بعد یہ طاغوتِ اکبر دکھا ئی پڑا۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ وہ ایک گھوڑے پر چکر کاٹ رہا ہے۔ ادھر اس کی موت دوانصاری جوانوں کے ہاتھوں اس کا خون چوسنے کی منتظر تھی۔
حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ میں جنگ بدر کے روز صف کے اندر تھا کہ اچانک مڑا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ دائیں بائیں دو نوعمرجوان ہیں۔ گویا ان کی موجودگی سے میں حیران ہو گیا کہ اتنے میں ایک نے اپنے ساتھی سے چھپا کر مجھ سے کہا :''چچاجان ! مجھے ابوجہل کو دکھلادیجیے۔'' میں نے کہا :بھتیجے !تم اسے کیا کروگے ؟ اس نے کہا:''مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کو گالی دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا وجود اس کے وجود سے الگ نہ ہوگا یہاں تک کہ ہم میں جس کی موت پہلے لکھی ہے وہ مر جائے۔'' وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس پر تعجب ہوا۔ اتنے میں دوسرے شخص نے مجھے اشارے سے متوجہ کرکے یہی بات کہی۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے چند ہی لمحوں بعد دیکھا کہ ابو جہل لوگوں کے درمیان چکر کاٹ رہا ہے۔ میں نے کہا :''ارے دیکھتے نہیں ! یہ رہا تم دونوں کا شکار جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے۔'' ان کا بیان ہے کہ یہ سنتے ہی وہ دونوں اپنی تلواریں لیے جھپٹ پڑے اور اسے مار کر قتل کردیا۔ پھر پلٹ کر رسول اللہﷺ کے پاس آئے ، آپﷺ نے فرمایا : تم میں سے کس نے قتل کیا ہے ؟ دونوں نے کہا : میں نے قتل کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:اپنی اپنی تلواریں پوچھ چکے ہو ؟ بولے نہیں۔ آپﷺ نے دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا : تم دونوں نے قتل کیا ہے۔ البتہ ابو جہل کا سامان معاذبن عَمرو بن جموح کو دیا۔ دونوں حملہ آوروں کا نام معاذبن عَمر و بن جموح اور معاذ بن عفراء ہے۔ (صحیح بخاری ۱/۴۴۴ ، ۲/۵۶۸ مشکوٰۃ ۲/۳۵۲۔)نیز ابو جہل کا سامان صرف ایک ہی آدمی کو اس لیے دیا گیا کہ بعد میں حضرت معاذ (معوذ) بن عفراء اسی جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔ البتہ ابو جہل کی تلوار حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو دی گئی کیونکہ ان ہی نے اس (ابو جہل ) کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ (دیکھئے :سنن ابی داؤد باب من اجاز علی جریح الخ ۲/۳۷۳ )
ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ معاذ بن عمرو بن جموح نے بتلایا کہ میں نے مشرکین کو سنا وہ ابو جہل کے بارے میں جو گھنے درختوں جیسی - نیزوں اور تلواروں کی - باڑھ میں تھا کہہ رہے تھے: ابو الحکم تک کسی کی رسائی نہ ہو۔ معاذؓ بن عمرو کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ بات سنی تو اسے اپنے نشانے پر لے لیا اور اس کی سمت جمارہا۔ جب گنجائش ملی تومیں نے حملہ کر دیا اور ایسی ضرب لگائی کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے اڑ گیا۔ واللہ! جس وقت یہ پاؤں اڑا ہے تو میں اس کی تشبیہ صرف اس گٹھلی سے دے سکتا ہوں جو موسل کی مار پڑنے سے جھٹک کر اڑ جائے۔ ان کابیان ہے کہ ادھر میں نے ابو جہل کو مارا اور ادھر اس کے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر تلوار چلا ئی جس سے میرا ہاتھ کٹ کر میرے بازو کے چمڑ ے سے لٹک گیا اور لڑائی میں مخل ہونے لگا۔ میں اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے سارا دن لڑا ، لیکن جب وہ مجھے اذیت پہنچانے لگا تو میں نے اس پر اپنا پاؤں رکھا اور اسے زور سے کھینچ کر الگ کردیا 1 اس کے بعد ابوجہل کے پاس معوذؓ بن عفراء پہنچے۔ وہ زخمی تھا۔ انہوں نے اسے ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا صرف سانس آتی جاتی رہی۔ اس کے بعد معوذ بن عفراء بھی لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
جب معرکہ ختم ہوگیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا :''کون ہے جو دیکھے کہ ابو جہل کا انجام کیاہو ا۔'' اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں بکھر گئے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اسے اس حالت میں پایا کہ ابھی سانس آجارہی تھی۔ انہوں نے اس کی گردن پر پاؤں رکھا اور سر کاٹنے کے لیے ڈاڑھی پکڑی اور فرمایا : او اللہ کے دشمن ! آخر اللہ نے تجھے رسوا کیا نا ؟ اس نے کہا : ''مجھے کاہے کو رسوا کیا ؟ کیا جس شخص کوتم لوگوں نے قتل کیا ہے اس سے بھی بلند پایہ کوئی آدمی ہے''؟''یا جس کو تم لوگوں نے قتل کیا ہے اس سے بھی اوپر کوئی آدمی ہے ؟'' پھر بو لا : ''کاش ! مجھے کسانوں کے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔'' اس کے بعد کہنے لگا : ''مجھے بتاؤ آج فتح کس کی ہوئی ؟ '' حضرت عبد ا للہ بن مسعود نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول کی۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودسے - جو اس کی گردن پر پاؤں رکھ چکے تھے - کہنے لگا : او بکری کے چرواہے ! تو بڑی اونچی اور مشکل جگہ پر چڑھ گیا۔ واضح رہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ مکے میں بکریاں چرایا کرتے تھے۔
اس گفتگو کے بعد عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر کاٹ لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں لاکر حاضر کر تے ہوئے عرض کیا :''یارسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ !یہ رہا اللہ کے دشمن ابوجہل کا سر۔'' آپﷺ نے تین بار فرمایا: ''واقعی۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔'' اس کے بعد فرمایا :
((اللہ أکبر، الحمد للہ الذی صدق وعدہ ونصر عبدہ وہزم الأحزاب وحدہ۔))
''اللہ اکبر ، تمام حمد اللہ کے لیے ہے جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھا یا ، اپنے بندے کی مدد فرمائی ، اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔''
پھر فرمایا : چلو مجھے اس کی لاش دکھاؤ۔ ہم نے آپﷺ کو لے جاکر لاش دکھائی۔ آپﷺ نے فرمایا : یہ اس امت کا فرعون ہے۔

مکمل تحریر >>

مسلمانوں کا جوابی حملہ


اس کے بعد رسول اللہﷺ نے جوابی حملے کا حکم اور جنگ کی ترغیب دیتے ہو ئے فرمایا: ''شدوا'' چڑھ دوڑو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! ان سے جو آدمی بھی ڈٹ کر ، ثواب سمجھ کر ، آگے بڑھ کر اور پیچھے نہ ہٹ کر لڑے گا اور مار اجائے گا اللہ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا۔''
آپﷺ نے قتال پر ابھارتے ہوئے یہ بھی فرمایا : اس جنت کی طرف اٹھو جس کی پہنائیاں آسمانوں اور زمین کے برابر ہیں۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ) عمیر بن حمام نے کہا : بہت خوب بہت خوب۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم بہت خوب بہت خوب ، کیوں کہہ رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ مجھے توقع ہے کہ میں بھی اسی جنت والوں میں سے ہوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا: تم بھی اسی جنت والوں میں سے ہو۔ اس کے بعد وہ اپنے توشہ دان سے کچھ کھجوریں نکال کر کھانے لگے۔ پھر بولے : اگر میں اتنی دیر تک زندہ رہا کہ اپنی کھجوریں کھا لوں تو یہ تولمبی زندگی ہوجائے گی، چنانچہ ان کے پاس جو کھجور یں تھیں انہیں پھینک دیا، پھر مشرکین سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔( مسلم ۲/۱۳۹ مشکوٰۃ ۲/۳۳۱)
اسی طرح مشہور خاتون عفراء کے صاحبزادے عوف بن حارث نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! پروردگار اپنے بندے کی کس بات سے (خوش ہوکر ) مسکراتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : ''اس بات سے کہ بندہ خالی جسم (بغیر حفاظتی ہتھیار پہنے ) اپنا ہاتھ دشمن کے اندر ڈبودے '' یہ سن کر عوف نے اپنے بدن سے زِرہ اتار پھینکی اور تلو ار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
جس وقت رسول اللہﷺ نے جوابی حملے کا حکم صادر فرمایا ، دشمن کے حملوں کی تیزی جاچکی تھی اور ان کا جوش و خروش سرد پڑرہا تھا۔ اس لیے یہ باحکمت منصوبہ مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط کرنے میں بہت مؤثر ثابت ہوا ، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب حملہ آور ہونے کا حکم ملا اور ابھی ان کا جوشِ جہاد شباب پر تھا تو انہوں نے نہایت سخت تند اور صفایا کن حملہ کیا۔ وہ صفوں کی صفیں درہم برہم کرتے اور گردنیں کاٹتے آگے بڑھے۔ ان کے جوش و خروش میں یہ دیکھ کر مزید تیز ی آگئی کہ رسول اللہﷺ بہ نفس نفیس زرہ پہنے تیز تیز چلتے تشریف لا رہے ہیں اور پورے یقین وصراحت کے ساتھ فرمارہے ہیں کہ ''عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا ، اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔'' اس لیے مسلمانوں نے نہایت پُر جوش و پرخروش لڑائی لڑی، اور فرشتوں نے بھی ان کی مدد فرمائی۔ چنانچہ ابن سعد کی روایت میں حضرت عکرمہؓ سے مروی ہے کہ اس دن آدمی کا سر کٹ کر گرتا اور یہ پتا نہ چلتا کہ اسے کس نے مارا۔ اور آدمی کاہاتھ کٹ کر گرتا اور یہ پتہ نہ چلتا کہ اسے کس نے کاٹا۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک مشرک کا تعاقب کررہا تھا کہ اچانک اس مشرک کے اوپر کو ڑے مارنے کی آواز آئی۔ اور ایک شہسوار کی آواز سنائی پڑی جو کہہ رہا تھا کہ حیزوم! آگے بڑھ۔ مسلمان نے مشرک کو اپنے آگے دیکھا کہ وہ چِت گرا ، لپک کر دیکھا تو اس کی ناک پر چوٹ کا نشان تھا ، چہرہ پھٹا ہوا تھا جیسے کوڑے سے مارا گیا ہو اور یہ سب کا سب ہرا پڑ گیا تھا۔ اس انصاری مسلمان نے آکر رسول اللہﷺ سے یہ ماجرا بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا :''تم سچ کہتے ہو ، یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی۔''(مسلم ۲/۹۳ وغیرہ)
ابو داؤد مازنی کہتے ہیں کہ میں ایک مشرک کو مارنے کے لیے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا۔ میں سمجھ گیا کہ اسے میرے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہے۔
ایک انصاری حضرت عباسؓ بن عبد المطلب کو قید کر کے لایا تو حضرت عباسؓ کہنے لگے: ''واللہ ! مجھے اس نے قید نہیں کیا ہے ، مجھے تو ایک بے بال کے سر والے آدمی نے قید کیا ہے جو نہایت خوبرو تھا اور چتکبرے گھوڑے پر سوار تھا۔ اب میں اسے لوگوں میں نہیں دیکھ رہا ہو ں۔'' انصاری نے کہا :''اے اللہ کے رسول! انہیں میں نے قید کیا ہے۔'' آپﷺ نے فرمایا : خاموش رہو۔ اللہ نے ایک بزرگ فرشتے سے تمہاری مدد فرمائی ہے۔
حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہﷺ نے بدر کے روز مجھ سے اور ابوبکرؓ سے کہا: تم میں سے ایک کے ساتھ جبرئیل اور دوسرے کے ساتھ میکائیل ؑ ہیں اور اسرافیل بھی ایک عظیم فرشتہ ہیں جو جنگ میں آیا کرتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر آچکا کہ ابلیس لعین ، سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں آیا تھا اور مشرکین سے اب تک جدا نہیں ہوا تھا ، لیکن جب اس نے مشرکین کے خلاف فرشتوں کی کاروائیاں دیکھیں تو اُلٹے پاؤں پلٹ کر بھاگنے لگا ، مگر حارث بن ہشام نے اسے پکڑ لیا ، وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ واقعی سراقہ ہی ہے ، لیکن ابلیس نے حارث کے سینے پر ایسا گھونسامارا کہ وہ گر گیااور ابلیس نکل بھاگا۔ مشرکین کہنے لگے: سراقہ کہا ں جارہے ہو؟ کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم ہمارے مدد گا ر ہو ہم سے جدا نہ ہوگے ؟ اس نے کہا : میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جسے تم نہیں دیکھتے۔ مجھے اللہ سے ڈرلگتا ہے، اور اللہ بڑی سخت سزا والا ہے۔ اس کے بعد بھاگ کر سمندر میں جارہا۔

مکمل تحریر >>

کفار کا حملہ


اس مبارزت کا انجام مشرکین کے لیے ایک برا آغاز تھا وہ ایک ہی جست میں اپنے تین بہترین شہ سوار وں اور کمانڈروں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے، اس لیے انہوں نے غیظ وغضب سے بے قابو ہو کر ایک آدمی کی طرح یکبار گی حملہ کردیا۔
دوسری طرف مسلمان اپنے رب سے نصرت اور مدد کی دعا کرنے اور اس کے حضور اخلاص و تضر ع اپنانے کے بعد اپنی اپنی جگہوں پر جمے اور دفاعی موقف اختیار کیے مشرکین کے تابڑ توڑ حملوں کو روک رہے تھے اور انہیں خاصا نقصان پہنچارہے تھے۔ زبان پر أحد أحد کا کلمہ تھا۔
ادھر رسول اللہﷺ صفیں درست کرکے واپس آتے ہی اپنے پاک پروردگار سے نصرت ومدد کا وعدہ پورا کرنے کی دعا مانگنے لگے۔ آپﷺ کی دعا یہ تھی :
((اللّٰہم انجز لی ما وعدتنی، اللّٰہم أنشدک عہدک ووعدک۔))
''اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرمادے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرے وعدے کا سوال کررہا ہوں۔''
جب گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی، نہایت زور کا رَن پڑا اور لڑائی شباب پر آگئی تو آپﷺ نے یہ دعا فرمائی :
((اللہم إن تہلک ہذہ العصابۃ الیوم لا تعبد اللہم إن شئت لم تعبد بعد الیوم أبداً۔))
''اے اللہ ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اے اللہ ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت کبھی نہ کی جائے۔''
آپﷺ نے خوب تضرع کے ساتھ دعا کی یہاں تک کہ دونوں کندھوں سے چادر گر گئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چادر درست کی اور عرض پرداز ہوئے :''اے اللہ کے رسول ! بس فرمائیے ! آپ نے اپنے رب سے بڑے الحاح کے ساتھ دعا فرمالی۔'' ادھر اللہ نے فرشتوں کو وحی کی کہ :
أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا ۚ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا الرُّ‌عْبَ (۸: ۱۲)
''میں تمہارے ساتھ ہوں ، تم اہل ِ ایمان کے قدم جماؤ ، میں کافروں کے دل میں رُعب ڈال دوں گا۔''
اور رسول اللہﷺ کے پاس وحی بھیجی کہ :
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَ‌بَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْ‌دِفِينَ ﴿٩﴾ (۸: ۹)
''میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔''
اس کے بعد رسول اللہﷺ کو ایک جھپکی آئی۔ پھر آپﷺ نے سر اٹھا یا اور فرمایا: ''ابو بکر خوش ہو جاؤ ، یہ جبریل ؑہیں ، گرد وغبار میں اٹے ہوئے۔'' ابن اسحاق کی روایت میں یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : ''ابوبکر خوش ہو جاؤ ، تمہارے پاس اللہ کی مدد آگئی۔ یہ جبریل علیہ السلام ہیں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اور اس کے آگے آگے چلتے ہوئے آرہے ہیں اور گرد وغبار میں اَٹے ہوئے ہیں۔''
اس کے بعد رسول اللہﷺ چھپر کے دروازے سے باہر تشریف لائے۔ آپﷺ نے زرہ پہن رکھی تھی۔ آپﷺ پُر جوش طور پر آگے بڑھ رہے تھے اور فرماتے جارہے تھے :
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ‌ ﴿٤٥﴾ (۵۴: ۴۵)
''عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔''
اس کے بعد آپﷺ نے ایک مٹھی کنکریلی مٹی لی اور قریش کی طرف رُخ کر کے فرمایا: ((شاھتِ الوجوہ۔))چہرے بگڑ جائیں اور ساتھ ہی مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینک دی۔ پھر مشرکین میں سے کوئی بھی نہیں تھا جس کی دونوں آنکھوں،نتھنے اور منہ میں اس ایک مٹھی مٹی سے کچھ نہ کچھ گیا نہ ہو۔ اسی کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَا رَ‌مَيْتَ إِذْ رَ‌مَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَ‌مَىٰ (۸: ۱۷)
''جب آپ (ﷺ ) نے پھینکا تو درحقیقت آپ (ﷺ )نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔''

مکمل تحریر >>

معرکے کا پہلا ایندھن


اس معرکے کا پہلا ایندھن اسود بن عبد الاسد مخزومی تھا۔ یہ شخص بڑا اڑیل اور بد خلق تھا۔ یہ کہتے ہوئے میدان میں نکلا کہ میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ ان کے حوض کا پانی پی کررہوں گا۔ ورنہ اسے ڈھا دوں گا یا اس کے لیے جان دے دوں گا۔ جب یہ اُدھر سے نکلا تو اِدھر سے حضرت حمزہ بن عبدا لمطلبؓ برآمد ہوئے۔ دونوں میں حوض سے پرے ہی مڈبھیڑ ہوئی۔ حضرت حمزہؓ نے ایسی تلوار ماری کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے کٹ کر اڑگیا اور وہ پیٹھ کے بل گر پڑا۔ اس کے پاؤں سے خون کا فوارہ نکل رہا تھاجس کا رخ اس کے ساتھیوں کی طرف تھا لیکن اس کے باوجود وہ گھٹنوں کے بل گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھا اور اس میں داخل ہوا ہی چاہتا تھا تا کہ اپنی قسم پوری کرلے اتنے میں حضرت حمزہؓ نے دوسری ضرب لگائی اور وہ حوض کے اندر ہی ڈھیر ہوگیا۔
یہ اس معرکے کا پہلا قتل تھا اور اس سے جنگ کی آگ بھڑک اُٹھی ، چنانچہ اس کے بعد قریش کے تین بہترین شہسوارنکلے جو سب کے سب ایک ہی خاندان کے تھے۔ ایک عُتبہ اور دوسرا اس کا بھائی شیبہ جو دونوں ربیعہ کے بیٹے تھے اور تیسرا ولید جو عتبہ کا بیٹا تھا۔ انہوں نے اپنی صف سے الگ ہوتے ہی دعوت مُبارزت دی۔ مقابلے کے لیے انصار کے تین جوان نکلے۔ ایک عوفؓ ، دوسرے معوذؓ - یہ دونوں حارث کے بیٹے تھے اوران کی ماں کا نام عفراء تھا -تیسرے عبد اللہ بن رواحہ۔
قریشیوں نے کہا : تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا : انصار کی ایک جماعت ہیں۔ قریشیوں نے کہا: آپ لو گ شریف مدمقابل ہیں لیکن ہمیں آپ سے سروکار نہیں۔ ہم تو اپنے چچیرے بھائیوں کو چاہتے ہیں، پھر ان کے منادی نے آواز لگائی:
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ... ! ہمارے پاس قوم کے ہمسروں کو بھیجو۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : عبیدہؓ بن حارثؓ ! اٹھو۔ حمزہؓ ! اٹھئے۔ علی! اٹھو۔ جب یہ لوگ اُٹھے اور قریشیوں کے قریب پہنچے تو انہوں نے پوچھا : آپ کو ن لوگ ہیں ؟ انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ قریشیوں نے کہا : ہاں آپ لوگ شریف مدمقابل ہیں، اس کے بعد معرکہ آرائی ہوئی۔ حضرت عبیدہ نے - جو سب سے معمر تھے - عتبہ بن ربیعہ سے مقابلہ کیا، حضرت حمزہؓ نے شیبہ سے اور حضرت علیؓ نے ولید سے۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے تو اپنے اپنے مقابل کو جھٹ مارلیا لیکن حضرت عبیدہ اور ان کے مدّ ِ مقابل کے درمیان ایک ایک وار کا تبادلہ ہوااور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو گہرا زخم لگایا۔ اتنے میں حضرت علیؓ اور حضرت حمزہؓ اپنے اپنے شکار سے فارغ ہوکر آگئے ، آتے ہی عتبہ پر ٹوٹ پڑے ، اس کا کام تمام کیا اور حضرت عبیدہ کو اٹھا لائے۔ ان کا پاؤں کٹ گیا تھا اورآواز بند ہوگئی تھی جو مسلسل بند ہی رہی یہاں تک کہ جنگ کے چوتھے یا پانچویں دن جب مسلمان مدینہ واپس ہوتے ہوئے وادیٔ صفراء سے گزر رہے تھے ان کا انتقال ہوگیا۔
حضرت علیؓ اللہ کی قسم کھاکر فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی:
هَـٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَ‌بِّهِمْ ۖ (۲۲: ۱۹)
''یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا ہے۔''

مکمل تحریر >>

دونوں لشکر آمنے سامنے


بہر حال جب مشرکین کا لشکر نمودار ہوا اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کو دکھائی دینے لگیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اے اللہ! یہ قریش ہیں جو اپنے پورے غرور وتکبر کے ساتھ تیری مخالف کرتے ہوئے اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے ہوئے آگئے ہیں۔ اے اللہ! تیری مدد ... جس کا تو نے وعدہ کیا ہے۔ اے اللہ! آج انہیں اینٹھ کر رکھ دے۔''
نیز رسول اللہﷺ نے عتبہ بن ربیعہ کو اس کے ایک سرخ اونٹ پر دیکھ کر فرمایا:
''اگر قوم میں کسی کے پاس خیر ہے تو سُرخ اونٹ والے کے پاس ہے۔ اگر لوگوں نے اس کی بات مان لی تو صحیح راہ پائیں گے۔''
اس موقع پر رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کی صفیں درست فرمائیں۔ صف کی درستگی کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ آپﷺ کے ہاتھ میں ایک تیر تھا۔ جس کے ذریعے آپ صف سیدھی فرمارہے تھے کہ سواد بن غزیہ کے پیٹ پر، جو صف سے کچھ آگے نکلے ہوئے تھے ، تیر کا دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا : سواد ! برابر ہوجاؤ۔ سواد نے کہا :اے اللہ کے رسول ! آپ نے مجھے تکلیف پہنچادی بدلہ دیجیے۔ آ پ نے اپنا پیٹ کھول دیا اور فرمایا: بدلہ لے لو۔ سواد آپ سے چمٹ گئے اور آپﷺ کے پیٹ کا بوسہ لینے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا : سواد اس حرکت پر تمہیں کس بات نے آمادہ کیا ؟ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسولﷺ ! جو کچھ درپیش ہے آپ ﷺ دیکھ ہی رہے ہیں۔ میں نے چاہا کہ ایسے موقعے پر آپﷺ سے آخری معاملہ یہ ہو کہ میری جلد آپ ﷺ کی جلد سے چھو جائے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔
پھر جب صفیں درست ہو چکیں تو آپﷺ نے لشکر کو ہدایت فرمائی کہ جب تک اسے آپ کے آخری احکام موصول نہ ہوجائیں جنگ شروع نہ کرے۔ اس کے بعد طریقہ جنگ کے بارے میں ایک خصوصی رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب مشرکین جمگھٹ کرکے تمہارے قریب آجائیں تو ان پر تیر چلانا اور اپنے تیر بچانے کی کوشش کرنا۔ 1(یعنی پہلے ہی سے فضول تیر اندازی کر کے تیروں کو ضائع نہ کرنا) اور جب تک وہ تم پر چھا نہ جائیں تلوار نہ کھینچنا۔ (صحیح بخاری ۲/۵۶۸، سنن ابی داؤد: باب فی سل السیوف عند اللقاء ۲/۱۳)اس کے بعد خاص آپﷺ اور ابوبکرؓ چھپر کی طرف واپس چلے گئے اور حضرت سعد بن معاذؓ اپنا نگراں دستہ لے کر چھپر کے دروازے پر تعینات ہوگئے۔
دوسری طرف مشرکین کی صورت ِ حال یہ تھی کہ ابوجہل نے اللہ سے فیصلہ کی دعا کی۔ اس نے کہا :''اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق قرابت کو زیادہ کاٹنے والا اور غلط حرکتیں زیادہ کرنے والا ہے اسے توآج توڑ دے۔ اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ پسندیدہ ہے آج اس کی مدد فرما۔'' بعد میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ ۖ وَإِن تَنتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَعُودُوا نَعُدْ وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَ‌تْ وَأَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ (۸: ۱۹ )
'' اگر تم فیصلہ چاہتے تو تمہارے پاس فیصلہ آگیا ، اور اگر تم باز آجاؤ تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے ، لیکن اگر تم (اپنی ا س حرکت کی طرف ) پلٹو گے تو ہم بھی (تمہاری سزا کی طرف ) پلٹیں گے اور تمہاری جماعت اگر چہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو تمہارے کچھ کام نہ آسکے گی۔ (اور یاد رکھوکہ ) اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔''

مکمل تحریر >>

لشکر کی ترتیب اور شب گزاری


اس کے بعد رسول اللہﷺ نے لشکر کی ترتیب فرمائی اور میدان جنگ میں تشریف لے گئے ، وہاں آپﷺ اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے جارہے تھے کہ یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے ، ان شاء اللہ ، اور یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے ، ان شاء اللہ ،اس کے بعد رسول اللہﷺ نے وہیں ایک درخت کی جڑ کے پا س رات گزاری اور مسلمانوں نے بھی پُر سکون نفس اور تابناک اُفق کے ساتھ رات گزاری۔ ان کے دل اعتماد سے پُر تھے اور انہوں نے راحت وسکون سے اپنا حصہ حاصل کیا۔ انہیں یہ توقع تھی کہ صبح اپنی آنکھوں سے اپنے رب کی بشارتیں دیکھیں گے۔
إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَ‌كُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِ‌جْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْ‌بِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ (۸: ۱۱)
''جب اللہ تم پر اپنی طرف سے امن وبے خوفی کے طور پر نیند طاری کررہا تھا اور تم پر آسمان سے پانی برسارہا تھا تاکہ تمہیں اس کے ذریعے پاک کردے اور تم سے شیطان کی گندگی دور کر دے اور تمہارے دل مضبوط کر دے اور تمہارے قدم جمادے۔''
یہ رات جمعہ ۱۷ رمضان۲ ھ کی رات تھی اور آپ اس مہینے کی ۸ یا ۱۲ تاریخ کو مدینے سے روانہ ہوئے تھے۔
میدانِ جنگ میں مکی لشکر کی آمداور ان کا باہمی اختلاف:
دوسری طرف قریش نے وادی کے دہانے کے باہر اپنے کیمپ میں رات گزاری اور صبح اپنے تمام دستوں سمیت ٹیلے سے اتر کر بدر کی جانب روانہ ہوئے۔ ایک گروہ رسول اللہﷺ کے حوض کی جانب بڑھا۔ آپﷺ نے فرمایا:'' انہیں چھوڑ دو۔'' مگر ان میں سے جس نے بھی پانی پیا وہ اس جنگ میں مارا گیا۔ صرف حکیم بن حزام باقی بچا جو بعد میں مسلمان ہوا، اور بہت اچھا مسلمان ہوا۔ اس کا دستور تھا کہ جب بہت پختہ قسم کھانی ہوتی کہتا: ''لا والذی نجانی من یوم بدر۔'' ''قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے بدر کے دن سے نجات دی۔''
بہر حال جب قریش مطمئن ہوچکے تو انہوں نے مدنی لشکر کی قوت کا اندازہ لگانے کے لیے عمیر بن وہب جمحی کو روانہ کیا۔ عمیر نے گھوڑے پر سوار ہوکر لشکر کا چکر لگایا، پھر واپس جاکر بولا : ''کچھ کم یا کچھ زیادہ تین سو آدمی ہیں ، لیکن ذرا ٹھہرو۔ میں دیکھ لوں ان کی کمین گاہ یا کمک تو نہیں ؟'' اس کے بعد وہ وادی میں گھوڑا دوڑاتا ہو ادور تک نکل گیا لیکن اسے کچھ دکھائی نہ پڑا، چنانچہ اس نے واپس جا کر کہا:''میں نے کچھ پایا تو نہیں لیکن اے قریش کے لوگو! میں نے بلائیں دیکھی ہیں جو موت کو لادے ہوئے ہیں۔ یثرب کے اونٹ اپنے اوپر خالص موت سوار کیے ہوئے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی ساری حفاظت اور ملجا وماویٰ خود ان کی تلواریں ہیں۔ کوئی اور چیز نہیں۔ اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ ان کا کوئی آدمی تمہارے آدمی کو قتل کیے بغیر قتل نہ ہوگا ، اور اگر تمہارے خاص خاص افراد کو انہوں نے مار لیا تو اس کے بعد جینے کا مزہ ہی کیاہے ! اس لیے ذرا اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔''
اس موقعے پر ابو جہل کے خلاف -جو معرکہ آرائی پر تُلا ہوا تھا - ایک اور جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا جنگ کے بغیر مکہ واپس جائیں۔ چنانچہ حکیم بن حزام نے لوگوں کے درمیان دوڑ دھوپ شروع کردی۔ وہ عُتبَہ بن ربیعہ کے پاس آیا اور بولا :''ابو الولید ! آپ قریش کے بڑے آدمی اور واجب الاطاعت سردار ہیں ، پھر آپ کیوں نہ ایک اچھا کام کرجائیں جس کے سبب آپ کا ذکر ہمیشہ بھلائی سے ہوتا رہے۔ '' عتبہ نے کہا : حکیم! وہ کون سا کام ہے ؟ اس نے کہا: '' آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور اپنے حلیف عمرو بن حضرمی کا معاملہ - جو سریہ نخلہ میں مارا گیا تھا - اپنے ذمے لے لیں۔'' عتبہ نے کہا:'' مجھے منظور ہے۔ تم میری طرف سے ا س کی ضمانت لو۔ وہ میرا حلیف ہے ، اس کی دیت کا بھی ذمے دار ہوں اور اس کا جو مال ضائع ہوا اس کا بھی۔''
اس کے بعد عتبہ نے حکیم بن حزام سے کہا :''تم حنظلیہ کے پوت کے پاس جاؤ کیونکہ لوگوں کے معاملات کو بگاڑنے اور بھڑکانے کے سلسلے میں مجھے اس کے علاوہ کسی اور سے کوئی اندیشہ نہیں۔'' حنظلیہ کے پوت سے مراد ابوجہل ہے۔ حنظلیہ اس کی ماں تھی۔
اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ نے کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا :''قریش کے لوگو! تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے لڑ کر کوئی کارنامہ انجام نہ دوگے۔ اللہ کی قسم ! اگر تم نے انہیں مار لیا تو صرف ایسے ہی چہرے دکھائی پڑیں گے جنہیں دیکھنا پسند نہ ہوگا ، کیونکہ آدمی نے اپنے چچیرے بھائی کو یا خالہ زاد بھائی کویا اپنے ہی کنبے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل کیا ہو گا۔ اس لیے چلے چلو اور محمد (ﷺ ) اور سارے عرب سے کنارہ کش ہورہو۔ اگر عرب نے انہیں مارلیا تویہ وہی چیز ہوگی جسے تم چاہتے ہو ، اور اگر دوسری صورت پیش آئی تو محمد (ﷺ ) تمہیں اس حالت میں پائیں گے کہ تم نے جو سلوک ان سے کرنا چاہا تھا اسے کیا نہ تھا۔''
ادھر حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس پہنچا تو ابو جہل اپنی زِرَہ درست کر رہا تھا۔ حکیم نے کہا کہ اے ابو الحکم ! مجھے عتبہ نے تمہارے پاس یہ اور یہ پیغام دے کر بھیجا ہے۔ ابو جہل نے کہا :''اللہ کی قسم! محمد (ﷺ ) اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے ، نہیں ہرگز نہیں۔ واللہ ! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور محمد (ﷺ )کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ عتبہ نے جو کچھ کہا ہے محض اس لیے کہا ہے کہ وہ محمد (ﷺ ) اور اس کے ساتھیوں کو اونٹ خور سمجھتا ہے اور خود عتبہ کا بیٹا بھی انہیں کے درمیان ہے اس لیے وہ تمہیں ان سے ڈراتا ہے۔'' - عتبہ کے صاحبزادے ابو حذیفہ قدیم الاسلام تھے اور ہجرت کر کے مدینہ تشریف لاچکے تھے- عتبہ کو پتا چلا کہ ابو جہل کہتا ہے۔ ''اللہ کی قسم عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے۔'' تو بولا : ''اس سرین پر خوشبو لگا کر بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس کا سینہ سوج آیا ہے میرا یا اس کا ؟ '' ادھر ابوجہل نے اس خوف سے کہ کہیں یہ معارضہ طاقتور نہ ہوجائے ، اس گفتگو کے بعد جھٹ عامر بن حضرمی کو - جو سریہ عبد اللہ بن جحش کے مقتول عمرو بن حضرمی کا بھائی تھا - بلا بھیجا اور کہا کہ یہ تمہارا حلیف - عتبہ - چاہتا ہے کہ لوگوں کو واپس لے جائے حالانکہ تم اپنا انتقام اپنی آنکھ سے دیکھ چکے ہو، لہٰذا اٹھو ! اور اپنی مظلومیت اور اپنے بھائی کے قتل کی دہائی دو۔ اس پر عامر اُٹھا اور سرین سے کپڑا اٹھا کر چیخا۔ واعمراہ، واعمراہ ، ہائے عمرو، ہائے عمرو۔ اس پر قوم گرم ہوگئی۔ ان کا معاملہ سنگین اور ان کا ارادہ ٔ جنگ پختہ ہوگیا اور عتبہ نے جس سوجھ بوجھ کی دعوت دی تھی وہ رائیگاں گئی۔ اس طرح ہوش پر جوش غالب آگیا اور یہ معارضہ بھی بے نتیجہ رہا۔

مکمل تحریر >>

اہم فوجی مراکز کی طرف اسلامی لشکر کی سبقت


اللہ عزوجل نے اسی رات ایک بارش نازل فرمائی جو مشرکین پر موسلا دھار برسی۔ اور ان کی پیش قدمی میں رکاوٹ بن گئی لیکن مسلمانوں پر پھوار بن کر بر سی۔اور انہیں پاک کردیا ، شیطان کی گندگید (بزدلی) دور کردی اور زمین کو ہموار کر دیا۔ اس کی وجہ سے ریت میں سختی آگئی اور قدم ٹکنے کے لائق ہوگئے۔ قیام خوشگوار ہو گیا اور دل مضبوط ہوگئے۔
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اپنے لشکر کو حرکت دی تاکہ مشرکین سے پہلے بدر کے چشمے پر پہنچ جائیں اور اس پر مشرکین کو مُسلط نہ ہونے دیں۔ چنانچہ عشاء کے وقت آپﷺ نے بدر کے قریب ترین چشمے پر نزول فرمایا۔ اس موقعے پر حضرت حباب بن منذرؓ نے ایک ماہرفوجی کی حیثیت سے دریافت کیاکہ یارسول اللہ!(ﷺ ) کیا اس مقام پر آپ اللہ کے حکم سے نازل ہوئے ہیں کہ ہمارے لیے اس سے آگے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں یا آپ نے اسے محض ایک جنگی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار فرمایا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : یہ محض جنگی حکمتِ عملی کے طور پر ہے۔ انہوں نے کہا: ''یہ مناسب جگہ نہیں ہے۔ آپﷺ آگے تشریف لے چلیں اور قریش کے سب سے قریب جو چشمہ ہو اس پر پڑاؤ ڈالیں۔ پھر ہم بقیہ چشمے پاٹ دیں گے اور اپنے چشمے پر حوض بنا کر پانی بھر لیں گے ، اس کے بعد ہم قریش سے جنگ کریں گے تو ہم پانی پیتے رہیں گے اور انہیں پانی نہ ملے گا۔'' رسول اللہﷺ نے فرمایا :''تم نے بہت ٹھیک مشورہ دیا۔'' اس کے بعد آپﷺ لشکر سمیت اُٹھے اور کوئی آدھی رات گئے دشمن کے سب سے قریب ترین چشمے پر پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حوض بنایا اور باقی تمام چشموں کو بند کر دیا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چشمے پر پڑاؤ ڈال چکے تو حضرت سعد بن معاذؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ مسلمان آپﷺ کے لیے ایک مرکزِ قیادت تعمیر کردیں تاکہ خدانخواستہ فتح کے بجائے شکست سے دوچار ہونا پڑ جائے یا کسی اور ہنگامی حالت سے سابقہ پیش آجائے تو اس کے لیے آپ پہلے ہی سے مستعد رہیں ، چنانچہ انہوں نے عرض کیا :
''اے اللہ کے نبیﷺ ! کیوں نہ ہم آپﷺ کے لیے ایک چھپر تعمیر کردیں جس میں آپﷺ تشریف رکھیں گے اور ہم آپ ﷺ کے پاس آپ ﷺ کی سواریاں بھی مہیا رکھیں گے۔ اس کے بعد دشمن سے ٹکر لیں گے۔ اگر اللہ نے ہمیں عزت بخشی اور دشمن پر غلبہ فرمایا تو یہ وہ چیز ہوگی جو ہمیں پسند ہے ، اور اگر دوسری صورت پیش آگئی تو آپﷺ سوار ہوکر ہماری قوم کے ا ن لوگوں کے پاس جارہیں گے جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ درحقیقت آپﷺ کے پیچھے اے اللہ کے نبیﷺ ! ایسے لوگ رہ گئے ہیں کہ ہم آپﷺ کی محبت میں ان سے بڑھ کر نہیں۔ اگر انہیں یہ اندازہ ہوتا کہ آپﷺ جنگ سے دوچار ہوں گے تو وہ ہرگز پیچھے نہ رہتے۔ اللہ ان کے ذریعے آپﷺ کی حفاظت فرمائے گا۔ وہ آپ ﷺ کے خیر خواہ ہوں گے اور آپﷺ کے ہمراہ جہاد کریں گے۔''
اس پر رسول اللہﷺ نے ان کی تعریف فرمائی اور ان کے لیے دعائے خیر کی ، اور مسلمانوں نے میدان جنگ کے شمال مشرق میں ایک اونچے ٹیلے پر چھپر بنایا جہاں سے پورا میدانِ جنگ دکھائی پڑتاتھا۔ آپﷺ کے اس مرکزِ قیادت کی نگرانی کے لیے حضرت سعد بن معاذؓ کی کمان میں انصار نوجوانوں کا ایک دستہ منتخب کردیا گیا۔

مکمل تحریر >>

لشکرِ کفار کے بارے میں اہم معلومات کا حصول


اس کے بعد رسول اللہﷺ ذفران سے آگے بڑھے اور چند پہاڑی موڑ سے گزر کر جنہیں اصافر کہا جاتا ہے دیت نامی ایک آبادی میں اترے۔ اور حنان نامی پہاڑ نماتودے کو دائیں ہاتھ چھوڑ دیا۔ اور اس کے بعد بدر کے قریب نزول فرمایا۔
یہاں پہنچ کر رسول اللہﷺ نے اپنے رفیق ِ غار حضرت ابوبکرؓ کو ہمراہ لیا اور حود فراہمی ٔ اطلاعات کے لیے نکل پڑے۔ ابھی دور ہی سے مکی لشکر کے کیمپ کا جائزہ لے رہے تھے کہ ایک بوڑھا عرب مل گیا۔ رسول اللہﷺ نے اس سے قریش اور محمدﷺ واصحابِ محمد کا حال دریافت کیا - دونوں لشکر وں کے متعلق پو چھنے کا مقصد یہ تھا کہ آپﷺ کی شخصیت پر پردہ پڑارہے - لیکن بڈھے نے کہا :'' جب تک تم لوگ یہ نہیں بتاؤ گے کہ تمہارا تعلق کس قوم سے ہے میں بھی کچھ نہیں بتاؤں گا۔'' رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب تم ہمیں بتادو گے تو ہم بھی تمہیں بتادیں گے۔ اس نے کہا : اچھا تو یہ اس کے بدلے ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اس نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمدﷺ اور ان کے ساتھی فلاں روز نکلے ہیں۔ اگر مجھے بتانے والے نے صحیح بتایا ہے تو آج وہ لوگ فلاں جگہ ہوں گے۔اور ٹھیک اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں اس وقت مدینے کا لشکر تھا اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قریش فلاں دن نکلے ہیں۔ اگر خبر دینے والے نے صحیح خبر دی ہے تو وہ آج فلاں جگہ ہوں گے۔اور ٹھیک اس جگہ کا نام لیا جہاں اس وقت مکے کا لشکر تھا۔
جب بڈھا اپنی بات کہہ چکاتو بولا : اچھا اب یہ بتاؤ کہ تم دونوں کس سے ہو ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہم لوگ پانی سے ہیں اور یہ کہہ کر واپس چل پڑے۔ بڈھا بکتا رہا۔ ''پانی سے ہیں ''کیا ؟ کیا عراق کے پانی سے ہیں؟
اسی روز شام کو آپﷺ نے دشمن کے حالات کا پتا لگانے کے لیے نئے سرے سے جاسوسی دستہ روانہ فرمایا۔ اس کاروائی کے لیے مہاجرین کے تین قائد علی بن ابی طالب ، زُبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ یہ لوگ سیدھے بدر کے چشمے پر پہنچے۔ وہاں دوغلام مکی لشکر کے لیے پانی بھر رہے تھے۔ انہیں گرفتار کر لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر کیا۔ اس وقت آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دونوں سے حالات دریافت کیے۔ انہوں نے کہا : ہم قریش کے سقے ہیں ، انہوں نے ہمیں پانی بھرنے کے لیے بھیجا ہے قوم کو یہ جواب پسندنہ آیا۔ انہیں توقع تھی کہ یہ دونوں ابوسفیان کے آدمی ہوں گے -- کیونکہ ان کے دلوں میں اب بھی بچی کھچی آرزو رہ گئی تھی کہ قافلے پر غلبہ حاصل ہو -- چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دونوں کی ذرا سخت پٹائی کردی اور انہوں نے مجبور ہو کر کہہ دیا کہ ہاں ہم ابو سفیان کے آدمی ہیں۔ اس کے بعدمارنے والوں نے ہاتھ روک لیا۔
رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ناراضی سے فرمایا : جب ان دونوں نے صحیح بات بتائی تو آپ لوگوں نے پٹائی کردی اور جب جھوٹ کہا تو چھوڑدیا۔ اللہ کی قسم! ان دونوں نے صحیح کہا تھاکہ یہ قریش کے آدمی ہیں۔
اس کے بعدآپ نے ان دونوں غلاموں سے فرمایا : اچھا ! اب مجھے قریش کے متعلق بتاؤ۔ انہوں نے کہا : یہ ٹیلہ جو وادی کے آخری دہانے پر دکھائی دے رہا ہے قریش اسی کے پیچھے ہیں۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا : لوگ کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا : بہت ہیں۔ آپﷺ نے پوچھا : تعداد کتنی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہمیں معلوم نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : روزانہ کتنے اُونٹ ذبح کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : ایک دن نو اور ایک دن دس۔ آپﷺ نے فرمایا : تب لوگوں کی تعداد نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے۔ پھر آپﷺ نے پوچھا : ان کے اندر معززین قریش میں سے کون کون ہیں؟ انہوں نے کہا : ربیعہ کے دونوں صاحبزادے عتبہ اور شیبہ اور ابو البختری بن ہشام ، حکیم بن حزام ، نوَفل بن خُوَیْلد ، حارث بن عامر ، طعیمہ بن عدی ، نضر بن حارث، زمعہ بن اسود ، ابوجہل بن ہشام ، اُمیہ بن خلف اور مزید کچھ لوگوں کے نام گنوائے۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ''مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے پاس لا کر ڈال دیا ہے۔''

مکمل تحریر >>

مسلمانوں کی مجلسِ شورہ کا انعقاد


حالات کی اس اچانک اور پُر خطر تبدیلی کے پیش نظر رسول اللہﷺ نے ایک اعلیٰ فوجی مجلس شوریٰ منعقد کی۔ جس میں درپیش صورتِ حال کا تذکرہ فرمایا اور کمانڈروں اور عام فوجیوں سے تبادلہ ٔ خیالات کیا۔ اس موقع پر ایک گروہ خون ریز ٹکراؤ کا نام سن کرکانپ اٹھا اور اس کا دل لرزنے اور دھڑکنے لگا۔ اسی گروہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
''جیسا کہ تجھے تیرے رب نے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا اور مومنین کا ایک گروہ ناگوار سمجھ رہا تھا۔ وہ تجھ سے حق کے بارے میں اس کے و اضح ہوچکنے کے بعد جھگڑرہے تھے گویا وہ آنکھوں دیکھتے موت کی طرف ہانکے جارہے ہیں۔ '' (۸: ۵،۶)
لیکن جہاں تک قائدین لشکر کا تعلق ہے توحضرت ابوبکرؓ اُٹھے اور نہایت اچھی بات کہی۔ پھر عمر بن خطابؓ اٹھے اور اُنہوں نے بھی نہایت عمدہ بات کہی۔ پھر حضرت مقداد بن عمروؓ اٹھے اور عرض پرداز ہوئے : ''اے اللہ کے رسول !(ﷺ ) اللہ نے آپ کو جو راہ دکھلائی ہے اس پر رواں دواں رہئے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کی قسم !ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنو اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ :
فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَ‌بُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۵: ۲۴)
''تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔''
بلکہ ہم کہیں گے کہ آپﷺ اور آپ کے پروردگار چلیں اور لڑیں اور ہم بھی آپﷺ کے ساتھ ساتھ لڑیں گے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ﷺ ہم کو برکِ غما د تک لے چلیں تو ہم راستے والوں سے لڑتے بھڑتے آپﷺ کے ساتھ وہاں بھی چلیں گے۔ ''
رسول اللہﷺ نے ان کے حق میں کلمہ خیر ارشاد فرمایا اور دعا دی۔
یہ تینوں کمانڈر مہاجرین سے تھے جن کی تعداد لشکر میں کم تھی۔ رسول اللہﷺ کی خواہش تھی کہ انصار کی رائے معلوم کریں کیونکہ وہی لشکر میں اکثریت رکھتے تھے اور معرکے کا اصل بوجھ انہیں کے شانوں پر پڑنے والاتھا۔ درآں حالیکہ بیعت ِ عقبہ کی رُو سے ان پر لازم نہ تھا کہ مدینے سے باہر نکل کر جنگ کریں اس لیے آپﷺ نے مذکور ہ تینوں حضرات کی باتیں سننے کے بعد پھر فرمایا: ''لوگو! مجھے مشورہ دو ۔'' مقصود انصار تھے اور یہ بات انصار کے کمانڈر اور علمبردار حضرت سعدؓ بن معاذؓ نے بھانپ لی ، چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ واللہ ! ایسا معلو م ہوتا ہے کہ اے اللہ کے رسول ! آپ کا رُوئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ نے فرمایا : ہاں !
انہوں نے کہا :''ہم تو آپﷺ پر ایمان لائے ہیں ، آپﷺ کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ آپ جوکچھ لے کر آئے ہیں سب حق ہے اور اس پر ہم نے آپﷺ کو اپنی سمع وطاعت کا عہد ومیثاق دیا ہے ، لہٰذا اے اللہ کے رسولﷺ ! آپﷺ کا جو ارادہ ہے اس کے لیے پیش قدمی فرمایئے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپﷺ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا۔ہمیں قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ کل آپﷺ ہمارے دشمن سے ٹکراجائیں۔ ہم جنگ میں پامرد اور لڑنے میں جوانمرد ہیں اور ممکن ہے اللہ آپﷺ کو ہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں ، پس آپﷺ ہمیں ہمراہ لے کر چلیں، اللہ برکت دے۔''
حضرت سعدؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہﷺ بہت خوش ہوئے ۔ آپﷺ پر نشاط طاری ہوگئی۔ آپﷺ نے فرمایا : ''چلو اور خوشی خوشی چلو۔ اللہ نے مجھ سے دوگروہوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے۔ واللہ! اس وقت گویا میں قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں۔''

مکمل تحریر >>