Saturday 18 June 2016

سلطنتِ روم و ایران


بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت دنیا میں دو سلطنتیں سب سے بڑی تھیں اوروہی گویا تمام قابل تذکرہ دنیا پر چھائی ہوئی تھیں، ایک روم کی سلطنت اور دوسری ایرانی شہنشاہی،اُس وقت دنیا میں صرف دوہی تمدن تھے،آدھی دنیا پر رومی تمدن چھایا ہوا تھا اورآدھی پر ایرانی، ملک عرب جو بالکل کس مپرسی اورتاریکی کے عالم میں پڑا تھا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا اور اسلام کے ذریعہ ایک نئی سلطنت اورنئے تمدن کی ابتدا ہوئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ عربی یا اسلامی سلطنت کے مقابلے میں رومی وایرانی سلطنتیں اور رومی وایرانی ہوا ہوکر فنا ہوگئے اورساری دنیا اسلامی حکومت اوراسلامی تمدن کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے لگی، اس اجمال کی تفصیل آئندہ اوراق میں پیش کریں گے اب چونکہ عرب کی سلطنت اوررومی وایرانی سلطنتوں کی زور آزمائی شروع ہونے والی ہے اوربہت جلد ہم ایران وروم کو عرب کے مقابلہ میں ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے دیکھنے والے ہیں،لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مشہور ومتمدن سلطنتوں سے بقدر ضرورت واقف ہوجائیں ۔
کسی زمانہ میں ایرانی سلطنت بحرۂ روم ،بحرۂ اسود، خلیج فارس،دریائے سندھ ،کشمیر ،تبت کوہ الٹائی بحیرہ کاسپین تک وسیع تھی،کیانی خاندان کی حکمرانی اور رستم زابستان کی پہلوانی کا زمانہ گذرنے کے بعد اسکندر یونانی نے سلطنت ایرانی کو پارہ پارہ کردیا تھا،لیکن تمدن ایرانی باقی رہا تھا،بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سو سال پیشتر اروشیربابکاں نے ساسانی خاندان کی بنیاد ڈالی،ساسانی خاندان نے کیانیوں کی وسیع سلطنت کے اکثر حصوں کو اپنی مملکت میں شامل کرکے خلیج فارس دریائے فرات بحرۂ کاسپین دریائے سندھ دریائے جیحون کے درمیان ایک وسیع اورٹھوس سلطنت قائم کرکے تمام برا اعظم ایشیا کی سیادت حاصل کرلی۔
رومیوں کی سلطنت کا مرکز سلطنت اٹلی کا شہر روما تھا جس میں جولیس سیزرزیسنٹ انموسطس وغیرہ شہنشاہ گذر چکے ہیں، اس سلطنت میں قریباً تمام برااعظم یورپ اورمصر وایشیا ئے کوچک شامل تھا کچھ عرصہ کے بعد اس رومی شہنشاہی کے دو ٹکڑے ہوگئے مغربی حصہ کا دارالسلطنت تو شہر روماہی رہا،لیکن مشرقی حصہ کا دارالسلطنت شہر قسطنطنیہ قرار پایا،قسطنطنیہ کے قیصر کو بھی قیصر روم ہی کے نام سے پکارا جاتا تھا،جس کے تحت وتصرف میں مصر وحبش وفلسطین وشام وایشیائے کوچک وبلقان کے ممالک تھے،اس مشرقی رومی سلطنت کی شان وشوکت اورقوت وسطوت کے آگے مغربی روم کی حیثیت وحقیقت ماند پڑگئی تھی،ایشیائے کوچک اورعراق کے میدانوں میں ان دونوں شہنشائیوں یعنی رومی وایرانی سلطنتوں کی حد فاصل کوئی قدرتی چیز یعنی پہاڑ وسمندر وغیرہ کے نہ ہونے سے کبھی کبھی ایک دوسرے سے ٹکرانے اورمعرکہ آرا ہونے کا بھی موقع آجاتا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت ایران کا شہنشاہ نوشیروانِ عادل ساسانی تھا،آپ کی بعثت کے وقت ایران پر نوشیروان عادل کا پوتا خسرو پرویز متمکن تھا اور قسطنطنیہ میں ایک زبردست بغاوت قیصر فوقا کے خلاف نمودار ہوئی،امرائے سلطنت اوررعایائے ملک نے فوقا کو تخت سے اُتار کر قتل کردیا اورافریقہ مقبوضات کے گورنر یعنی فرماں روائے مصر کو قسطنطیہ کے تخت پر بٹھانے کی دعوت دی،گورنر افریقہ تو پیرانہ سالی کی وجہ سے نہ جاسکا، لیکن اُس کا جوان العمر وجواں بخت بیٹا ہر قل قسطنطنیہ میں تخت نشین ہوگیا اور ہر قل کی شہنشاہی کو ارکان سلطنت نے بخوشی تسلیم کرلیا ،مقتول قیصر فوقا اورخسرو پرویز کے درمیان دوستی ومحبت کے تعلقات تھے کیونکہ خسرو پرویز نے رومی سلطنت یعنی ہر قل پر حملہ کیا ایک ایسے شخص کے تخت نشین ہونے کے بعد جو وراثتاً تخت وتاج کا حق دار نہ تھا ،ایرانیوں کے لئے سلطنت روم پر حملہ آور ہونے کا بہترین موقع تھا، ایرانیوں اور رومیوں میں لڑائی شروع ہوئی،ان لڑائیوں کا سلسلہ چھ سات سال تک جاری رہا،بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آٹھویں سال ایرانیوں نے شام کا ملک فتح کرکے بیت المقدس پر قبضہ کیا اورعیسائیوں سے صلیب چھین کرلے گئے،ساتھ ہی فلسطین کے تمام ملک کو فتح کرکے اسکندریہ تک پہنچ گئے۔
مشرکین مکہ نے ایرانیوں کی ان فتوحات کا حال سُن کر بڑی خوشیاں منائیں؛ کیونکہ رومی اہل کتاب اورایرانی مشرک تھے مسلمانوں کو مشرکوں کے مقابلہ میں اہل کتاب سے ہمدردی تھی، اس لئے اس خبر سے مسلمان رنجیدہ ہوئے،خدائے تعالیٰ نے سورۂ روم کی آیات نازل فرمائیں اور ان میں اطلاع دی کہ اگرچہ رومی اس وقت میں مغلوب ہوگئے ہیں؛ لیکن چند سال کے بعد غالب ہوجائیں گے اورمسلمان اس وقت مسرور ہوں گے ؛چنانچہ ایسا ہی ہوا ،ہر قل چھ سات سال تک برابر فوجی تیاریوں میں مصروف رہا،اس عرصہ میں اس نے اپنے ملک کے اندرونی انتظامات پر بھی پورے طور پر قابو پالیا ،ایرانیوں کو اپنی حدود مملکت سے نکالنے اور سابقہ ہزیمتوں کا انتقام لینے کے لئے نکلا اوربالآخر ملک شام کے میدانوں میں رومی لشکر نے ایرانیوں کو فیصلہ کن شکست دی،ایرانی بھاگے اور قیصر روم نے اپنے علاقے ایرانیوں سے خالی کرالینے کے علاوہ ایرانیوں کے بعض صوبوں پر بھی قبضہ کرلیا۔
ادھر رومیوں نے ایرانیوں پر فتح عظیم حاصل کی،ادھر بدر کے میدان میں مسلمانوں نےکفار مکہ کو شکست فاش دی اورقرآن کریم کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی، اس کے بعد بھی ایرانیوں اور رومیوں میں لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،۷ھ کے ابتدا میں رومیوں اورایرانیوں کے درمیان صلح ہوگئی اورایرانیوں نے وہ صلیب جو بیت المقدس سے لے گئے تھے رومیوں کو واپس کردی، اس صلح نے ہر قل کی فتوحات کو ایک طرف مکمل کردیا، دوسری طرف ایرانیوں نے اپنے کھوئے ہوئے علاقے اورصوبے رومیوں سے واپس لئے لہذا ایرانی و رومی دونوں درباروں میں بیداری کے علامات نمایاں تھے، اوردونوں اپنی اپنی ترقی ومضبوطی کے لئے مناسب تدابیر میں مصروف ہوگئے تھے ۔



اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کے نام خطوط روانہ کئے،کیانیوں کے زمانے میں ایران کا دارالسلطنت مدائن تھا،اُدھر ہر قل اپنی فتوحات اور صلیب کے واپس ملنے کی خوشی میں زیارت کے لئے بیت المقدس آیا ہوا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط خسرو پرویز کے پاس مدائن میں ہر قل کے پاس بیت المقدس میں پہنچا ،خسرو پرویز نے آپ کے نامۂ گرامی کوچاک کردیا اورہر قل نے تکریم وعزت کے ساتھ اس خط کو لیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایرانی بادشاہ کی حرکت نامعقول کا حال سُن کر فرمایا کہ اُس کی سلطنت پارہ پارہ ہوجائے گی خسرو پرویز نے یہی نہیں کہ آپ کے خط اور قاصد کے ساتھ گستاخی کی ؛بلکہ اپنے عامل باذان والئ یمن کو لکھا کہ اس عربی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرکے ہمارے پاس بھیج دو،باذان نے دو آدمی مدینے میں بھیجے،وہ دونوں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور خسروپرویز کے حکم سے اطلاع دی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اپنا خدا سمجھتے ہو یعنی خسرو پرویز،وہ رات اپنے بیٹے کے ہاتھ سے مارا گیا، یہ دونوں جب باذان کے پاس واپس پہنچے تو وہاں مدائن سے اطلاع پہنچی کہ خسرو پرویز کو اُس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا ہے،یہ واقعہ ٹھیک اُسی رات کا تھا جس رات کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،باذان گورنر یمن مسلمان ہوگیااور اس طرح ملک یمن میں بہت جلد اسلام پھیل گیا ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باذان ہی کو یمن کا عامل رکھا ،شیرویہ کو اس قدر مہلت ہی نہ ملی کہ وہ اندرونی جھگڑوں سے فارغ ہوکر عرب اورمسلمانوں کی طرف متوجہ ہوتا چند روز کے بعد اُس کی جگہ اُس کا کمسن بچہ تخت ایرانی پر بٹھایا گیا جس کا نام اردشیر تھا، اس کمسن ارد شیر کو ایرانی سپہ سالار شہر یار نامی نے چند مہینے کے بعد قتل کرکے خود تخت سلطنت پر جلوس کیا،چند روز کے بعدارکان سلطنت نے اس کو قتل کرکے شیرویہ کی بہن اور خسرو پریز کی بیٹی بوران کو تخت پر بٹھایا جو صرف ایک سال چند ماہ حکمراں رہی ،اُسی کے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی بوران کے بعد کئی نو عمر لڑکے اور عورتیں یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئیں،آخر میں یزد جروتخت نشین ہوا جس کے زمانے میں ایران پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، غرض جس روز سے خسرو پرویز نے نامۂ نبوی چاک کیا تھا اسی روز سے ایرانی سلطنت کا قصر رفیع قدرتی طور پر منہدم ہونا شروع ہوگیا تھا اورایران کے تخت پر بجائے ملک گیر وملک دار عالی ہمت بادشاہوں کے لڑکوں اور عورتوں نے قبضہ پالیا تھا ایرانی سلطنت کے قبضہ سے اس کا ایک صوبہ یعنی یمن کا ملک نکل چکا تھا،اس لئے ایرانیوں کو مسلمانوں سے اوربھی زیادہ عداوت ہوگئی تھی۔
ایرانی مشرک ہونے کی وجہ سے زیادہ متکبر ومغرور تھے،لہذا وہ عربوں کو زیادہ حقیر سمجھ کر اُن کی قوت واستقلال کی خبریں سُن سُن کر زیادہ بے چین اور مسلمانوں کے استیصال پر زیادہ آمادہ تھے؛ لیکن قدرت نے ان کو اس طرح اندرونی جھگڑوں اور بادشاہوں کے عزل ونصب کی مصیبتوں میں گرفتار کردیا تھا کہ ملک عرب کی طرف جلدی متوجہ نہ ہوسکتے تھے،منافقین مدینہ اوریہودان مدینہ نے جو جلاوطن ہوئے تھے بہ تواتر دربار مدائن میں اپنے زبان آور اورچالاک ایلچی بھیج بھیج کر ایرانیوں کو مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے اُبھارا تھا دوسری طرف ان لوگوں نے ہر قل کے دربار میں بھی اسی قسم کی کوششیں شروع کررکھی تھیں ۔
ہر قل کا دربار چونکہ اندرونی جھگڑوں سےپاک تھا،لہذا ان کو وہاں زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ،ملکِ شام کے جنوبی حصہ میں عرب قوم کے لوگ آباد تھے اوران کی بہت سی چھوٹی چھوٹی خود مختار ریا ستیں قائم تھیں ،عربی لوگ عیسائی مذہب اختیار کرچکے تھے،اورعرب مستنصرہ کے نام سے مشہور تھے،عرب مستنصرہ کی خود مختارریاستوں سے ہر قل کے دوستانہ وہمدردانہ تعلقات تھے،جب کبھی ان اعراب مستنصرہ کی ریاستوں پر ایرانیوں نے حملہ کئے تھے،تو قیصر قسطنطنیہ نے ان کی مدد وحفاظت پر آمادگی ظاہر کی،اس لئے یہ لوگ اور بھی مجبور تھے کہ اپنے آپ کو قیصر روم کی حمایت میں رکھیں؛چونکہ عربی النسل ہونے کے سبب یہ لوگ زیادہ بہادر تھے،اس لئے قیصر روم ان کے وجود کو زیادہ قیمتی سمجھتا تھا اورضرورت کے وقت ان کی جنگجویانہ قابلیتوں سے فائدہ اٹھایا کرتا تھا،ملکِ عرب میں جو ایک اسلامی سلطنت قائم ہوچکی تھی،اس اسلامی سلطنت اورقیصر روم کی سلطنت کے درمیان عرب مستنصر کی ریاستیں حد فاضل تھیں چونکہ یہ ریاستیں سب عیسائی مذہب رکھتی تھیں،اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ رومیوں اور عربوں کے درمیان تو ایک حد فاصل تھی ؛لیکن اسلامی سلطنت اورعیسائی حکومت کے درمیان کوئی حد فاصل نہ تھی، حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جب عیسائی ریاستوں اور مسلمانوں کے درمیان مقابلہ مقاتلہ کی نوبت پہنچی تو ایک طرف ان اعراب مستنصرہ نے ہر قل سے مدد کی درخواست کی دوسری طرف منافقوں اوریہودیوں کی ریشہ دوانیوں نے دربار ہرقل کو مسلمانوں کی بیخ کنی پر آمادہ ومستعد کیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زمانہ میں ہر قل کے پاس خط بھیجا تھا،اسی زمانہ میں بصرہ ود مشق کے رئیسوں کی طرف بھی خط روانہ کئے تھے،لیکن ان دونوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچیوں کے ساتھ بُرابرتاؤ کیا تھا؛چنانچہ بصرہ کے حاکم شرجیل نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی حارثؓ کو شہید کردیا تھا،آنحضرتﷺ حضرت زید بن حارث کو شرجیل بن عمرو غسانی سے حضرت حارث کا انتقام لینے کے لئے روانہ کیا اورجنگ موتہ میں حضرت زیدؓ،حضرت جعفرؓ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ شہید ہوئے،اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے لڑائی کی حالت کو سنبھالا اس جنگ میں ہر قل کی فوجوں نے شرجیل غسانی کی حمایت میں مسلمانوں کا مقابلہ کیا.
رومیوں نے اس کے بعد ملکِ عرب پر چڑھائی کی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود چشمہ تبوک تک لشکر لے کر جانا پڑا، اس وقت رومی سامنے سے ٹل گئے اور کوئی بڑی لڑائی نہ ہوئی، بلکہ انہیں اعراب مستنصرہ کی ریاستوں سے جزیہ لے کر اوراُن پر رعب قائم کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو خبر سنی کہ ہر قل ملک عرب پر حملہ کی تیاریاں کرہا ہے اورسرحد شام پر فوجیں جمع ہو رہی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُسامہؓ بن زید کو اس طرف روانہ کیا،لیکن آپ کی علالت کی وجہ سے یہ لشکر مدینے کے باہر رکارہا، اورآخر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ ہوکر اس لشکر کو روانہ کیا،یہ لشکر سرحد شام تک گیا اور وہاں کے سرکش وباغی رؤساء کو درست کرکے واپس چلا آیا۔
ہرقل کی فوجوں سے اس لئے مقابلہ پیش نہ آیا کہ رؤسا عرب مستنصرہ میں سے بعض بطیب خاطر اسلام کو حق سمجھ کر تسلیم کرچکے تھے اور ہر قل متامل تھا کہ یہ سرحدی ریاستیں اسلام میں داخل ہونے وال ہیں یا عیسائیت پر قائم رہ کر مسلمانوں کے مقابلہ پر مستعد ہونے والی ہیں،محض ان ریاستوں کی وجہ سے جو کئی بار اسلامی طاقت کے نظارے دیکھ چکی تھیں اوراصول اسلامی سے واقف ہوکر اسلام کی طرف مائل نظر آتی تھیں ہر قل کو لڑائی کے لئے اقدام میں تامل تھا، وہ خود بھی اسلامی صداقت کا دلی طور پر معترف تھا،لہذا ایک طرف مسلمانوں کی ترقی اُس کے زوالِ سلطنت کا پیغام تھا اور وہ مسلمانوں کی طاقت کوپیش از خطرہ مٹادینا چاہتا تھا دوسری طرف چونکہ اُس کو انجام اورنتیجہ مشتبہ نظر آتا تھا،لہذاا ٓئندہ بہترین موقع کے انتظار میں وہ جنگ کو ٹالتا تھا،بہرحال وہ ہرقل جو ایرانیوں کی عظیم الشان شہنشاہ ہی کو نیچا دکھا چکا تھا وہ ہمہ تن اسلامی طاقت کے برباد کرنے کی طرف متوجہ تھا اورکسی مناسب موقعہ کو ہاتھ سے گنوادینے والا نہ تھا۔
مکمل تحریر >>

عرب کی بغاوتوں کا اختتام


غرض ۱۱ھ کے ختم ۱۲ ھ کے شروع ہونے سے پہلے پہلے یعنی ایک سال سے کم مدت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملک عرب کے فتنہ ارتداد پر پورے طور پر غالب آگئے ،محرم ۱۱ ھ میں جزیرۃ العرب مشرکین ومرتدین سے بالکل پاک وصاف ہوچکا تھا اوربراعظم عرب کے کسی گوشہ اورکسی حصہ پر شرک وارتداد کی کوئی سیاہی باقی نہ تھی،ایک طرف چند مہینے پہلے کی اس حالت پر غور کرو کہ مدینہ ومکہ وطائف کے سوا تمام ملک کا مطلع غبار آلود تھا اوراُس غبار سے شمشیر ونیزہ وسنان اورکمند وکمان کے طوفان ابلتے ہوئے اورامنڈتے ہوئے نظر آتے تھے، پھر یہ کیفیت تھی کہ پتھر کے موم کی طرف پگھلنے اور فولاد کی رگیں کچے دھاگے کی طرح گیسختہ ہونے سے باز نہیں رہ سکتی تھیں،پہاڑوں سے زیادہ ہمتیں دریاؤں کے پانی کی طرح بہ سکتی تھیں اور آسمان کی طرح بلند ووسیع حوصلے تنگ وپست ہوکر تحت الثریٰ کی گم نامیوں میں شامل ہوسکتے تھے؛ لیکن دستان محمدی کے تربیت یافتہ صدیق اکبرؓ کی ہمت وحوصلہ کا اندازہ کرو کہ تنہا اس تمام طوفان کے مقابلہ کو جس شوکت وشجاعت کے ساتھ میدان میں نکلا ہے ہم اس کی مثال میں نہ شیر ونہنگ کا نام لے سکتے ہیں نہ رستم واسفند یار کا نام زبان پر لاسکتے ہیں، شیر نیستاں اور رستم دستاں کے دلوں کو اگر صدیق اکبرؓ کے دل کی طاقت کے سو حصوں میں سے ایک حصہ بھی ملا ہوتا تو ہم کو کسی مثال تشبیہ کے تلاش و تجسس میں سرگردانی کی ضرورت نہ تھی،لیکن اب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ خیر البشر کے شاگرد رشید خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفۂ اول نے ٹھیک اپنے مرتبہ کے موافق ہمت واستقلال اور قوت قدسی کا اظہار کیا اورجس کام کو اسکندر یونانی جو لیس سیزر رومی کیسروایرانی مل کر بھی پورا کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے،صدیق اکبرؓ نے چند مہینے میں اس کو بہ حُسن وخوبی پورا کرکے دکھایا۔
اس میں شک نہیں کہ لشکرِ صدیق میں خالدؓ ،عکرمہؓ، شرجیلؓ، حذیفہؓ،وغیرہ جیسے بے نظیر مردانِ صف شکن موجود تھے،لیکن صدیق اکبرؓ مدینہ منورہ میں بیٹھے ہوئے ملک کے ہر حصے اورہر گوشے کی حالت سے باخبر تھے اورکس طرح فوجی دستوں کے پاس ان کے احکام متواتر پہنچ رہے تھے، غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دستہ فوج اورہر سالار لشکر ملک عرب کی بساط پر شطرنج کے ایک مہرہ کی طرح تھا اورصدیق اکبرؓ کی انگشتِ تدبیر جس مُہرہ کو جس جگہ مناسب ہوتا تھا اٹھا کر رکھ دیتی تھی ، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان گیارہ اسلامی لشکروں نے ہر طرف روانہ ہوکر ملکِ عرب سے فتنہ ارتداد کو مٹا دیا؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیفۃ الرسول نے مدینہ میں بیٹھ کر شام ونجد سے مسقط وحضر موت تک اور خلیج فارس سے یمن وعدن تک تمام براعظم کو تنہا اپنی تدبیر ورائے سے چند مہینے کے اندر ہر ایک خس وخاشاک سے پاک وصاف کردیا اس فتنہ کی ہمت شکن ابتداء میں کوئی متنفس صدیق اکبرؓ کے سوا ایسا نہ تھا جو اس کی انتہا کو دیکھ سکتا اور صرف صدیق اکبرؓ ہی کو وہ اندیشہ سوز ایماں حاصل تھا کہ انہوں نے نہ لشکر اسامہؓ کی روانگی کو ملتوی کرنا مناسب سمجھا نہ مسجد نبوی میں فاروق اعظم ؓ کے ہاتھ پاؤں پُھلادینے والی باتوں سے مرعوب ومتاثر ہوئے،نہ منکرین زکوٰۃ کے مطالبات کو پرکاہ کے برابر وقعت دی،اب تم غور کرو اورسوچو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی سلطنت کا شہنشاہ صدیق اکبرؓ کے سوا اورکون ہوسکتا تھا؟

اب عرب کی تمام بغاوتیں فرو ہو چکی تھیں۔ مرتدین کا قلع قمع ہو چکا تھا اللہ نے اپنے دین کو عزت دے کر اسے غلبہ عطا فرما دیا تھا اور اسلامی حکومت کی بنیادیں اقصائے عرب میں مضبوطی سے قائم ہو چکی تھیں۔ ابوبکرؓ کو اسلام کے غلبے سے بے حد مسرت تھی لیکن ا س مسرت میں غرور و فخروتکبر کا شائبہ تک نہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سیہوا۔ ان کی یہ طاقت نہ تھی کہ وہ گنے چنے مسلمانوں کے ذریعے سے سارے عرب کے مرتدین کی جرار فوجوں کا مقابلہ کر سکتے اورانہیں شکست دے کر اسلام کا علم نہایت شان سے دوبارہ بلند کرسکتے۔
آئندہ اقدام
اب ابوبکرؓ کے سامنے یہ مسئلہ تھاا کہ دین کی وحدت کو تقویت دینے اور اسلام کو عروج تک پہنچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں ۔ ابوبکر ؓ کی سیاست کا محور صرف اعلاء کلمۃ الحق تھا۔ یہی خواہش تھی کہ جو ہر آن ان کے دماغ میںگردش کرتی رہتی تھی۔ اسی جذبے کے تحت انہوںنے انتہائی بے سروسامانی ے باوجود مرتدین کے عظیم الشان لشکروں سے جنگیں لڑیں اوریہی جذبہ تھا کہ جو عراق و شام کی لڑائیوں میں کارفرما رہا۔
مکمل تحریر >>

کنزہ اور حضرِ موت کی بغاوت کا سدِ باب


ان حوادث اور واقعات کے ذکر کے بعد اب ہمیں کندہ اور حضر موت کے حالات کاجائزہ لینا ہے جہاں کے باشندے بھی ارتداد اختیار کر چکے تھے۔ اور جہاں مہاجرین ابی امیہ اور عکرمہ کے زیر قیادت مرتدین سے آخری جنگیں پیش آئیں۔
بنوکندہ نے اشعث بن قیس کو اپنا سردار بناکر لشکر اسلام کے مقابلہ کی زبردست تیاریاں کی تھیں اور روز بروز اُن کی جمعیت میں اضافہ ہورہا تھا،یہ خبر سن کر مہاجر بن ابی اُمیہؓ نے لشکر اسلام میں سے تیز رفتار سواروں کا ایک دستہ منتخب کرکے اپنے ہمراہ لیا اور لشکر عکرمہؓ بن ابی جہل کی سرداری میں چھوڑ کر نہایت تیزی وبرق رفتاری سے یلغار کرتے ہوئے مقام محجر میں جہاں اشعث بن قیس مرتدین کا لشکر لئے ہوئے پڑا تھا پہنچے اور جاتے ہی قضائے مبرم کی طرح مرتدین پر ٹوٹ پڑے،مرتدین اس حملہ کی تاب نہ لاسکے سر اسیمہ ہوکر بھاگے اشعث نے وہاں سے فرار ہوکر قلعہ بحیر میں پناہ لی ،وہیں تمام مرتدین پہنچ کر قلعہ بند ہوگئے،
قلعہ بخیر کا محاصرہ
بخیر ایک مضبوط قلعہ تھا اور اس پر حملہ کرنا آسان نہ تھا۔ وہاں تک پہنچنے میں تین راستے تھے۔ ایک راستے پر تو زیاد نے قبضہ کرلیا۔ دوسرے راستے کی ناکہ بندی مہاجرنے کی تیسر ا راستہ کھلا تھا۔ اس کے ذریعے سے قلعہ والوں کو سامان رسد او رفوجی مدد برابر پہنچتی رہتی تھی۔
آخر عکرمہ بھی اپنی فوج کے ہمراہ آپہنچے اورانہوں نے اس تیسرے راستے پر قبضہ کر لیا جس سے قلعے والوں تک مد د پہنچنی بند ہو گئی اور وہ مکمل طورپر محصور ہوکر رہ گئے۔ عکرمہ نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے شہسواروں کو کندہ سے ساحل بحر تک پھیلا دیا اور حکم دے دیا کہ انہیں جو بھی باغی ملے اسے بے دریغ قتل کر دیں۔ بخیر میں محصور لوگوں نے اپنی قوم کی تباہی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔ اب خون ان کے سامنے بھی موت گردش کر رہی تھی۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے بعض لوگوں نے کہا:
’’تمہاری موجودہ حالات سے موت بہرحال بہتر ہے تم اپنی پیشانیوں کے بال کاٹ ڈالو اور ا س طرح یہ ظاہر کرو کہ تم نے اپنی جانوں کوخدا کے حضور میں پیش کر دیا ہے‘‘۔
شاید تمام لوگوں نے اپنی پیشانیوں کے بال کاٹ ڈالے اور عہد کیا کہ کوئی بھی شخص اپنے بھائیوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کے مقابلے میں راہ فرار اختیار نہ کرے۔
اپنے قبیلے سے اشعث کی بد عہدی
صبح ہونے پر وہ لوگ تینوں راستوں سے باہر نکلے اور مسلمانوں سے جنگ شروع کر دی۔ ان لوگوں کی تعداد صرف چھ ہی تھی۔ اس کے بالمقابل مہاجر اور عکرمہ کے لشکر کا شمار ہی نہ تھا۔ جب اہل بخیرنے دیکھا کہ مسلمان بھاری تعداد میں ان کے مقابلے کے لیے موجود ہیں تو انہیں یقین ہو گیا کہ وہ کسی صورت فتح حاصل نہیں کر سکتے۔ مایوسی نے ان پر غلبہ پا لیا اوروہ زندگی سے بالکل ناامید ہو گئے۔ اس وقت اان کے سرداروں کو اپنی جانیں بچانے کی سوجھی۔ اشعث عکرمہ کے پسا آیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ مہاجر سے کہہ کر اس کی اور اس کے نو ساتھیوں کی جان بخشی کرا دیں۔ اس کے بدلے وہ قلعے کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دے گا۔
محاصرہ کی سختی اورکمک وسامان رسد کی آمد سے مایوس ہوکر اشعث نے صلح کی درخواست پیش کی،یہ درخواست اس قدر عاجز ہوکر پیش کی کہ اُس نے اپنی قوم کے صرف نو آدمیوں کے لئے معہ اہل وعیال جاں بخشی اوررہائی چاہی،مہاجرین نے اس درخواست کو منظور کرلیا،عجیب اتفاق یہ ہوا کہ اشعث غلطی سے ان نو آدمیوں کی فہرست میں اپنا نام بھول گیا ؛چنانچہ ان نو آدمیوں کو چھوڑ کر باقی کو مسلمانوں نے گرفتار کرلیا،ان اسیران جنگ میں اشعث بن قیس بھی شامل تھا،جب یہ لوگ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے سامنے مدینے میں لاکر پیش کئے گئے تو اشعث نے اپنے افعالِ گذشتہ پر اظہار پشیمانی کیا اور صدیق اکبرؓ سے کہا کہ آپ میرا اسلام قبول فرمالیں میں بطیب خاطر اسلام کو پسند اوراختیار کرتا ہوں، صدیق اکبرؓ نے نہ صرف اشعث ؛بلکہ تمام اسیرانِ بنوکندہ کو آزاد کردیا اورصرف اس قدر کہا کہ میں آئندہ تم سے سوائے بھلائی کے اور کچھ نہ دیکھو گا۔
اپنی قوم سے بدعہدی کرنے کے باعث اشعث اپنے قبیلے میں واپس جانے کی جرات نہ کر سکا اور قید سے چھوٹنے کے بعد ام فروہ کے ساتھ مدینہ میں قیام پذیر رہا عمرؓ کے عہد میں جب عراق اور شام کی جنگیںپیش آئیں تو وہ بھی اسلام فوجوں کے ہمراہ ایرانیوں اور رومیوں سے جنگ کرے کے لیے باہر نکلا اور کارہائے نمایاں انجام دیے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار پھر بلند ہو گیا اور اس کی گم گشتہ عزت اسے پھر واپس مل گئی۔
مکمل تحریر >>

یمن اور حجاز کی دیرینہ دشمنی


جب قیس بن مکشوح نے گہری نظر سے حالات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ فیروز کا قتل آسان کام نہیں کیونکہ اس صورت میں تمام انباء اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ انباء ان ایرانی النسل لوگوں کو کہا جاتا تھا جنہوں نے سلطنت ایران کے دو اقتدارمیں یمن کو وطن بنا لیا تھا۔ یہاں انہوں نے بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل کر لیا حتیٰ کہ حکومت میں بھی ان کا عمل دخل ہو گیا۔
انباء کی طاقت و قوت کے پیش نظر قیس کے لیے ضروری تھا کہ وہ یمن کے تمام عربی قبائل کو ساتھ ملا کر وہاں کے ایرانی النسل باشندوں کا پوری طرح قلع قمع کرنے کی کوشش کرتا ورنہ اسے بھی ایسے ہی انجام سے دو چار ہونا پڑتا جس سے اسود کو ہونا پڑا اور اسے بھی اپنی جان اسی طرح کھونی پڑتی جس طرح اسود کی جان گئی۔
چنانچہ اس نے ذوالکلاع حمیری اور یمن کے دوسرے عربی النسل سر بر آوردہ اشخاص اور سرداروں کو لکھا کہ انباء نے زبردستی تمہارے علاقے پر تسلط پر جمالیا ہے اور ناجائز طور پر ایران سے آ کر یہاں آباد ہو گئے ہیں۔ اگر تم نے ان کی طرف سے بے پروائی برتی تو عنقریب تم پر پورے طور سے غالب آ جائیں گے۔ میری رائے ہے کہ ان کے سرداروں کو قتل کر کے انہیں ملک سے نکال دیا جائے۔ تم اس کام میں میری مدد کرو۔
قیس کے جواب میں ذوالکلاع اور اس کے ساتھیوں نے غیر جانب داری کی پالیسی اختیار کیے رکھی، نہ قیس سے مل کر انباء کے خلاف کارروائی کی اور نہ انباء کی مدد کر کے قیس کو زک پہنچانی چاہی۔ قیس کو انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہم اس معاملے میں دخل دینے سے معذور ہیں۔ تم اپنے ساتھیوں سے مل کر جو مناسب سمجھو کرو۔ انہیں انباء کے خلاف قیس کی مدد کرنے میں غالباً کوئی عذر نہ بھی ہوتا لیکن انہیں معلوم تھا کہ اس صورت میں ابوبکرؓ یقینا انباء کی مدد کریں گے کیونکہ انباء بدستور اسلام پر قائم اور مدینہ کی حکومت کے کامل فرمانبردار تھے۔ اس صورت میں ان کے خلاف محاذ قائم کرنا اپنے آپ کو ایسی مصیبت میں پھنسا لینے کے مترادف تھا جس کے متعلق کوئی نہ جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا، خصوصاً اس صورت میں کہ ارتداد کی وبا پھیل جانے کے باعث یمن اسلامی فوجوں کی آماجگاہ بننے والا تھا اور اس سے پہلے مسلمان ہر میدان میں فتح یاب ہو چکے تھے۔
معاونین عنسی سے قیس کی استمداد:
ذوالکلاع اور اس کے ساتھیوں کے انکار کے باوجود قیس شکستہ خاطر نہ ہوا بلکہ اب اس نے خفیہ طور پر ان گروہوں سے خط و کتابت کرنی شروع کی جنہوں نے اسود عنسی کے خروج کے زمانے میں اس کی (عنسی کی)مدد کی تھی اور انباء کو یمن سے نکالنے میں ان کی مدد کا طالب ہوا۔ وہ لوگ پہلے ہی سے چاہتے تھے کہ انہیں اس غیر ملکی عنصر سے نجات ملے انہوں نے بڑی خوشی سے قیس کا ساتھ دینا منظور کر لیا اور اسے لکھ دیا کہ ہم تمہاری مدد کے لیے جلد از جلد پہنچ رہے ہیں، مطمئن رہو۔
چونکہ یہ خط و کتابت انتہائی خفیہ تھی اور فوجوں کی نقل و حرکت میں بھی نہایت راز داری برتی گئی تھی۔ اس لیے اہل صنعاء کو ان فوجوں کی اطلاع اس وقت تک نہ مل سکی جب تک وہ شہر کے بالکل قریب نہ پہنچ گئیں۔
جب ان فوجوں کے آنے کی خبر شہر میں پھیلی تو قیس فوراً فیروز کے پاس پہنچا اور اس پر یہ ظاہر کیا کہ اسے بھی یہ خبر ابھی ابھی اچانک ملی ہے۔ چہرے پر بھی اس نے گھبراہٹ اور سراسیمگی کی علامات پیدا کر لیں اور انتہائی مکاری سے کام لیتے ہوئے اس نے فیروز اور داذویہ سے موجودہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے متعلق مشورہ کیا۔ مزید صلاح مشورے کے لیے اس نے فیروز، داذویہ اور حشبنس کو اگلے روز صبح اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔
داذویہ کا قتل:
داذویہ حسب قرار داد اگلے روز قیس کے گھر پہنچ گیا۔ اس کے دونوں ساتھی فیروز اور حشبنس ابھی تک نہ آئے تھے۔ جوں ہی داذویہ نے گھر میں قدم رکھا قیس نے تلوار کا ہاتھ مار کر اس کا کام تمام کر دیا تھوڑی دیر بعد فیروز بھی آ پہنچا مگر دروازے میں داخل ہوتے ہی اس نے سنا کہ اس کے ساتھیوں کے قتل کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ گھوڑے پر سوار ہو کر سرپٹ بھاگا۔ راستے میں اسے حشبنس ملا۔ یہ ماجرا معلوم ہونے پر وہ بھی اس کے ساتھ ہو لیا اور انہوں نے کسی ایسی جگہ کی تلاش شروع کی جہاں وہ دونوں پناہ لے سکیں۔ قیس کے آدمیوں نے گھوڑوں پر سوار ہو کر ان کا پیچھا کیا لیکن وہ انہیں نہ پا سکے اور ناکام واپس آ گئے۔ فیروز اور حشبنس جبل خولان پہنچے جہاں فیروز کی ننھیال تھی۔ لیکن انہیں اب تک یقین نہ تھا کہ وہ ہلاکت سے بچ گئے ہیں۔
صنعاء پر قیس کا مسلط:
قیس صنعاء پر قابض ہو گیا اور بڑے اطمینان سے وہاں حکومت کرنی شروع کر دی۔ اس سے یہ خیال بھی نہ آ سکتا تھا کہ اب کوئی شخص اس کے اقتدار کو چیلنج اور اسے حکومت سے محروم کر سکتا ہے ۔قبیلہ حمیر کے عوام بھی قیس کے ساتھ مل گئے البتہ قبیلہ کے سرداروں نے اس کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور گوشہ عزلت میں مقیم ہو گئے۔
ابناء سے قیس کا سلوکـ:
جب قیس کو اپنی قوت و طاقت کا پوری طرح اندازہ ہو گیا تو اس نے ابناء پر توجہ مبذول کی اور انہیں تین گروہوں میں تقسیم کر کے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ سلوک روا رکھا۔جن لوگوں نے قیس کی اطاعت قبول کر لی اور فیروز کی طرف میلان ظاہر نہ کیا انہیں اس نے کچھ نہ کہا، وہ اور ان کے اہل و عیال بدستور اپنی اپنی جگہ مقیم رہے۔ لیکن جو لوگ بھاگ کر فیروز کے پاس چلے گئے ان کے اہل و عیال کو اس نے دو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک گروہ کو عدن بھیج دیا تاکہ وہ جہازوں میں سوار ہو کر اپنے وطن چلے جائیں اور دوسرے گروہ کو خشکی کے راستے خلیج فارس کی جانب روانہ کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے شہروں کو چلے جائیں اور ان میں سے کوئی یمن میں نہ رہے۔
قیس کی شکست:
فیروز کے اہل وطن پر جو کچھ بیتی اسے اس کا سارا حال معلوم ہو گیا۔ اسنے اپنی مدد کے لیے ان قبائل کو ابھارنا شروع کیا جو بدستور اسلام پر قائم تھے اور اس طرح مذہبی عصبیت کے ذریعے سے وطنی عصبیت کا سد باب کرنا چاہا۔ بنو عقیل بن ربیعہ اور بنو عک نے اس کا ساتھ دیا اور وہ ایک فوج مرتب کر کے قیس کے مقابلے کے لیے روانہ ہوا۔ صنعاء سے کچھ دور قیس کی فوجوں سے اس کا مقابلہ ہوا جس میں قیس کو شکست ہوئی۔ فیروز نے دوبارہ صنعاء پر قبضہ کر لیا اور خلیفتہ المسلمین کی طرف سے دوبارہ وہاں کی امارت سنبھال لی۔
قیس اپنے ہزیمت خوردہ لشکر کے ساتھ بھاگ کر اسی جگہ جا پہنچا جہاں وہ اسود عنسی کے وقت موجود تھا۔ اس کی شکست سے اس قوی عصبیت کا خاتمہ ہو گیا۔ جس کے بل بوتے پر اس نے اپنی دعوت کی بنیاد رکھی تھی۔
فیروز کی فتح اور تخت امارت پر اس کے دوبارہ متمکن ہونے سے بھی یمن میں متوقع امن قائم نہ ہو سکا۔ صنعاء میں تو بے شک فیروز کی حکومت قائم ہو گئی لیکن باقی یمن بدستور بغاوت کی آگ میں جل رہا تھا اور وہاں کے مرتدین مسلمانوں کے مقابلہ میں جمع ہوئے تھے۔
مکمل تحریر >>

یمن میں فتنہ کا سدِ باب


جب قیس بن مکشوح نے گہری نظر سے حالات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ فیروز کا قتل آسان کام نہیں کیونکہ اس صورت میں تمام انباء اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ انباء ان ایرانی النسل لوگوں کو کہا جاتا تھا جنہوں نے سلطنت ایران کے دو اقتدارمیں یمن کو وطن بنا لیا تھا۔ یہاں انہوں نے بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل کر لیا حتیٰ کہ حکومت میں بھی ان کا عمل دخل ہو گیا۔
انباء کی طاقت و قوت کے پیش نظر قیس کے لیے ضروری تھا کہ وہ یمن کے تمام عربی قبائل کو ساتھ ملا کر وہاں کے ایرانی النسل باشندوں کا پوری طرح قلع قمع کرنے کی کوشش کرتا ورنہ اسے بھی ایسے ہی انجام سے دو چار ہونا پڑتا جس سے اسود کو ہونا پڑا اور اسے بھی اپنی جان اسی طرح کھونی پڑتی جس طرح اسود کی جان گئی۔
چنانچہ اس نے ذوالکلاع حمیری اور یمن کے دوسرے عربی النسل سر بر آوردہ اشخاص اور سرداروں کو لکھا کہ انباء نے زبردستی تمہارے علاقے پر تسلط پر جمالیا ہے اور ناجائز طور پر ایران سے آ کر یہاں آباد ہو گئے ہیں۔ اگر تم نے ان کی طرف سے بے پروائی برتی تو عنقریب تم پر پورے طور سے غالب آ جائیں گے۔ میری رائے ہے کہ ان کے سرداروں کو قتل کر کے انہیں ملک سے نکال دیا جائے۔ تم اس کام میں میری مدد کرو۔
قیس کے جواب میں ذوالکلاع اور اس کے ساتھیوں نے غیر جانب داری کی پالیسی اختیار کیے رکھی، نہ قیس سے مل کر انباء کے خلاف کارروائی کی اور نہ انباء کی مدد کر کے قیس کو زک پہنچانی چاہی۔ قیس کو انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہم اس معاملے میں دخل دینے سے معذور ہیں۔ تم اپنے ساتھیوں سے مل کر جو مناسب سمجھو کرو۔ انہیں انباء کے خلاف قیس کی مدد کرنے میں غالباً کوئی عذر نہ بھی ہوتا لیکن انہیں معلوم تھا کہ اس صورت میں ابوبکرؓ یقینا انباء کی مدد کریں گے کیونکہ انباء بدستور اسلام پر قائم اور مدینہ کی حکومت کے کامل فرمانبردار تھے۔ اس صورت میں ان کے خلاف محاذ قائم کرنا اپنے آپ کو ایسی مصیبت میں پھنسا لینے کے مترادف تھا جس کے متعلق کوئی نہ جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا، خصوصاً اس صورت میں کہ ارتداد کی وبا پھیل جانے کے باعث یمن اسلامی فوجوں کی آماجگاہ بننے والا تھا اور اس سے پہلے مسلمان ہر میدان میں فتح یاب ہو چکے تھے۔
معاونین عنسی سے قیس کی استمداد:
ذوالکلاع اور اس کے ساتھیوں کے انکار کے باوجود قیس شکستہ خاطر نہ ہوا بلکہ اب اس نے خفیہ طور پر ان گروہوں سے خط و کتابت کرنی شروع کی جنہوں نے اسود عنسی کے خروج کے زمانے میں اس کی (عنسی کی)مدد کی تھی اور انباء کو یمن سے نکالنے میں ان کی مدد کا طالب ہوا۔ وہ لوگ پہلے ہی سے چاہتے تھے کہ انہیں اس غیر ملکی عنصر سے نجات ملے انہوں نے بڑی خوشی سے قیس کا ساتھ دینا منظور کر لیا اور اسے لکھ دیا کہ ہم تمہاری مدد کے لیے جلد از جلد پہنچ رہے ہیں، مطمئن رہو۔
چونکہ یہ خط و کتابت انتہائی خفیہ تھی اور فوجوں کی نقل و حرکت میں بھی نہایت راز داری برتی گئی تھی۔ اس لیے اہل صنعاء کو ان فوجوں کی اطلاع اس وقت تک نہ مل سکی جب تک وہ شہر کے بالکل قریب نہ پہنچ گئیں۔
جب ان فوجوں کے آنے کی خبر شہر میں پھیلی تو قیس فوراً فیروز کے پاس پہنچا اور اس پر یہ ظاہر کیا کہ اسے بھی یہ خبر ابھی ابھی اچانک ملی ہے۔ چہرے پر بھی اس نے گھبراہٹ اور سراسیمگی کی علامات پیدا کر لیں اور انتہائی مکاری سے کام لیتے ہوئے اس نے فیروز اور داذویہ سے موجودہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے متعلق مشورہ کیا۔ مزید صلاح مشورے کے لیے اس نے فیروز، داذویہ اور حشبنس کو اگلے روز صبح اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔
داذویہ کا قتل:
داذویہ حسب قرار داد اگلے روز قیس کے گھر پہنچ گیا۔ اس کے دونوں ساتھی فیروز اور حشبنس ابھی تک نہ آئے تھے۔ جوں ہی داذویہ نے گھر میں قدم رکھا قیس نے تلوار کا ہاتھ مار کر اس کا کام تمام کر دیا تھوڑی دیر بعد فیروز بھی آ پہنچا مگر دروازے میں داخل ہوتے ہی اس نے سنا کہ اس کے ساتھیوں کے قتل کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ گھوڑے پر سوار ہو کر سرپٹ بھاگا۔ راستے میں اسے حشبنس ملا۔ یہ ماجرا معلوم ہونے پر وہ بھی اس کے ساتھ ہو لیا اور انہوں نے کسی ایسی جگہ کی تلاش شروع کی جہاں وہ دونوں پناہ لے سکیں۔ قیس کے آدمیوں نے گھوڑوں پر سوار ہو کر ان کا پیچھا کیا لیکن وہ انہیں نہ پا سکے اور ناکام واپس آ گئے۔ فیروز اور حشبنس جبل خولان پہنچے جہاں فیروز کی ننھیال تھی۔ لیکن انہیں اب تک یقین نہ تھا کہ وہ ہلاکت سے بچ گئے ہیں۔
صنعاء پر قیس کا مسلط:
قیس صنعاء پر قابض ہو گیا اور بڑے اطمینان سے وہاں حکومت کرنی شروع کر دی۔ اس سے یہ خیال بھی نہ آ سکتا تھا کہ اب کوئی شخص اس کے اقتدار کو چیلنج اور اسے حکومت سے محروم کر سکتا ہے ۔قبیلہ حمیر کے عوام بھی قیس کے ساتھ مل گئے البتہ قبیلہ کے سرداروں نے اس کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور گوشہ عزلت میں مقیم ہو گئے۔
ابناء سے قیس کا سلوکـ:
جب قیس کو اپنی قوت و طاقت کا پوری طرح اندازہ ہو گیا تو اس نے ابناء پر توجہ مبذول کی اور انہیں تین گروہوں میں تقسیم کر کے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ سلوک روا رکھا۔جن لوگوں نے قیس کی اطاعت قبول کر لی اور فیروز کی طرف میلان ظاہر نہ کیا انہیں اس نے کچھ نہ کہا، وہ اور ان کے اہل و عیال بدستور اپنی اپنی جگہ مقیم رہے۔ لیکن جو لوگ بھاگ کر فیروز کے پاس چلے گئے ان کے اہل و عیال کو اس نے دو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک گروہ کو عدن بھیج دیا تاکہ وہ جہازوں میں سوار ہو کر اپنے وطن چلے جائیں اور دوسرے گروہ کو خشکی کے راستے خلیج فارس کی جانب روانہ کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے شہروں کو چلے جائیں اور ان میں سے کوئی یمن میں نہ رہے۔
قیس کی شکست:
فیروز کے اہل وطن پر جو کچھ بیتی اسے اس کا سارا حال معلوم ہو گیا۔ اسنے اپنی مدد کے لیے ان قبائل کو ابھارنا شروع کیا جو بدستور اسلام پر قائم تھے اور اس طرح مذہبی عصبیت کے ذریعے سے وطنی عصبیت کا سد باب کرنا چاہا۔ بنو عقیل بن ربیعہ اور بنو عک نے اس کا ساتھ دیا اور وہ ایک فوج مرتب کر کے قیس کے مقابلے کے لیے روانہ ہوا۔ صنعاء سے کچھ دور قیس کی فوجوں سے اس کا مقابلہ ہوا جس میں قیس کو شکست ہوئی۔ فیروز نے دوبارہ صنعاء پر قبضہ کر لیا اور خلیفتہ المسلمین کی طرف سے دوبارہ وہاں کی امارت سنبھال لی۔
قیس اپنے ہزیمت خوردہ لشکر کے ساتھ بھاگ کر اسی جگہ جا پہنچا جہاں وہ اسود عنسی کے وقت موجود تھا۔ اس کی شکست سے اس قوی عصبیت کا خاتمہ ہو گیا۔ جس کے بل بوتے پر اس نے اپنی دعوت کی بنیاد رکھی تھی۔
فیروز کی فتح اور تخت امارت پر اس کے دوبارہ متمکن ہونے سے بھی یمن میں متوقع امن قائم نہ ہو سکا۔ صنعاء میں تو بے شک فیروز کی حکومت قائم ہو گئی لیکن باقی یمن بدستور بغاوت کی آگ میں جل رہا تھا اور وہاں کے مرتدین مسلمانوں کے مقابلہ میں جمع ہوئے تھے۔
مکمل تحریر >>

یمن میں قیامِ امن کی کوششیں


عکرمہ ساحل کے ساتھ ساتھ مہرہ سے حضرت موت اور کندہ کی جانب بڑھے اس سفر میں انہیں کسی خاص دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ کیونکہ حضرت موت مہرہ سے ملحق ہے البتہ مہاجر بن ابی امیہ کو وہاں تک پہنچنے میں سخت مشکلات پیش آئیں کیونکہ انہیں شمالی جانب سے یمن پہنچنا تھا۔ عکرمہ مہاجر سے ملنے کی خاطر تیزی سے سفر کرتے یمن پہنچے۔ یمن کی بغاوت کو مدت دراز گزر چکی تھی اور فتنے کے جراثیم نے سارا علاقہ سخت مسموم کر رکھا تھا۔ اس لیے اب کہ دوسرے علاقوں سے بغاوت اور فتنہ و فساد کے شعلے سرد کیے جا چکے تھے، ضروری تھا کہ یمن میں بھی امن و امان قائم کرنے کی سعی بلیغ کی جاتی تاکہ نہ صرف اس علاقے کی جانب سے سلطنت اسلامیہ کو اطمینان نصیب ہوتا بلکہ کندہ اور حضر موت کے بقیہ مرتدین کے استیصال میں بھی آسانی پیدا کی جا سکتی۔
یمن میں بغاوت کے اسباب:
صفحات ما قبل میں اسود عنسی کی بغاوت کا حال بالتفصیل بیان کیا گیا تھا کہ کس طرح ا س نے نبوت کا دعویٰ کر کے صنعاء کی طرف کوچ کیا، کس طرح انتہائی سرعت سے مکہ اور طائف تک اس کا اثر جا پہنچا اور کس طرح اس کی بیوی آزاد کی سازش سے جو قبل ازیں صنعاء کے بادشاہ شہر بن بازان کی زوجیت میں تھی، عنسی کیفر کردار کو پہنچا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عنسی کے قتل کی خبر مدینہ میں عین اس روز پہنچی جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تھا۔ ابوبکرؓ نے فیروز کو یمن کا حاکم مقرر فرمایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات سن کر بغاوت کے شعلے ایک بار پھر زور و شور سے بھڑک اٹھے۔ مزید برآں کئی عوامل اس قسم کے پیدا ہو گئے جنہوں نے اس آگ کو بھڑکانے میں اور زیادہ مدد دی۔
شورش یمن کا پہلا سبب:
بغاوت کی آگ کو زیادہ بھڑکانے کا پہلا سبب یہ بنا کہ اس علاقے میں ایک متحدہ حکومت قائم کرنے کے بجائے اسے مختلف عمال کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔ چنانچہ بازاران کی وفات کے بعد یمن کی حکومت میں اس کے بیٹے شہر کے علاوہ دیگر عمال کو بھی شریک کر لیا گیا۔ شہر کو صنعاء کی ولدیت سپرد کی گئی اور دیگر عمال کو نجران اور ہمذان وغیرہ کی۔ اس صورت حال نے اسود عنسی کو بغاوت کرنے پر مزید جرات دلائی۔ صرف یمن ہی کا یہ حال نہ تھا بلکہ یمن کے شمالی علاقے میں بھی جو کہ اور طائف تک پھیلتا چلا گیا تھا، سلطنت کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے اسے مختلف عمال کے زیر حکومت دے دیا گیا، چنانچہ تہامہ کا وہ علاقہ جو ساحل بحر کے متوازی واقع تھا ایک حاکم کے ماتحت تھا اور انرونی علاقہ دوسرے عمال کے ماتحت۔ اسود عنسی کا فتنہ فرو ہو جانے کے بعد ان عمال میں سے ہر ایک نے یہی چاہا کہ وہ اپنی جگہ واپس جا کر عنان حکومت ہاتھ میں سنبھالے اور اگر اس مقصد کے لیے لڑنا بھی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے۔
دوسری طرف اسود عنسی کے مددگاروں کو یہ صورت حال گوارا نہ تھی کہ جو علاقہ عنسی نے سخت کوشش اور جدوجہد کے بعد قبضے میں کیا تھا وہ دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ اس لیے انہوں نے بھی مسلمان حکام کو دوبارہ اپنے اپنے علاقوں پر مسلط ہونے سے روکنے اور اسود عنسی کی جگہ لینے کے لیے کارروائی شروع کر دی۔
تیسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب میں ارتداد کا فتنہ وبا کی طرح پھوٹ پڑا تھا اور ہر قبیلے کی یہ کوشش تھی کہ وہ مسلمانوں کی اطاعت سے آزاد ہو کر اور اسلامی حکومت کا جو ا گردن سے اتار کر خود مختاری حاصل کر لے۔
ان تمام اسباب نے مل کر یمن اور اس کے ملحقہ علاقے میں، جو اسود عنسی اور اس کے مددگاروں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا، شدید ہیجان و اضطراب پیدا کر دیا۔
اسود کے بعد مددگاروں کی سرگرمیاں:
اسود عنسی کی موت کے بعد بھی اس کے مددگاروں کا جوش و خروش ٹھنڈا نہ ہو سکا تھا اور انہوں نے نجران اور صنعا کے علاقے میں سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دی تھیں۔ عمرو بن معدی کرب نے جو شاعر ہونے کے علاوہ اعلیٰ درجے کا بہادر بھی تھا، جس کی شجاعت اور جواں مردی کی دھاک سارے عرب پر بیٹھی ہوئی تھی اور جس نے عنسی سے مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا۔ یہ موقع غنیمت جان کر مسلمانوں کے خلاف علم شورش بلند کر دیا اور قیس بن عبد یغوث کو ساتھ ملا کر فیروز کو یمن سے نکال دیا، ساتھ ہی داذویہ کو بھی ملک بدر کر دیا۔ اس طرح یمن میں دوبارہ فتنہ برپا ہو گیا اور اس علاقے میں امن کی راہیں مسدود ہو گئیں۔
اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سب سے ضروری امر یہ تھا کہ مدینہ اور یمن کے درمیانی راستے میں امن و امان قائم کیا جائے۔ اس راستے پر، جو ساحل بحر کے ساتھ ساتھ چلا گیا تھا، عک اور اشعریین کے بعض قبائل آباد تھے۔ انہوں نے شورش پسندوں سے مل کر مسلمانوں کے لیے یہ راستہ مسدود کر دیا۔ طائف اس راستے کے بالکل قریب واقع تھا۔ وہاں کے حاکم طاہر بن ابی ہالہ نے تمام واقعات سے ابوبکرؓ کو اطلاع دی اور خود ایک لشکر جرار لے کر ان لوگوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہو گیا۔ بڑی سخت لڑائی ہوئی اور جس میں مفسدین کو شکست فاش اٹھانی پڑی۔ ان کے بے شمار آدمی قتل ہوئے۔ مورخین نے یہاں تک لکھا ہے کہ ان کی لاشوں سے سارا راستہ پٹ گیا اور آمد و رفت معطل ہو کر رہ گئی۔ ابوبکرؓ فتح کی خوش خبری پہنچنے سے پہلے ہی طاہر کو خط لکھ چکے تھے۔ جس میں اسے ڈھارس دیتے ہوئے ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے کی تلقین اور ہدایت کی گئی تھی کہ جب تک اس راستے میں، جس پر خبیث لوگ قابض ہیں، امن و امان قائم نہ ہو جائے اس وقت تک وہ اعلاب (اعلاب: مکہ اور ساحل بحر کے درمیان ایک مقام ہے جہاں بنوعک بن عدنان آباد تھے۔)میں مقیم رہے۔ اس روز سے قبیلہ عک کی فوجوں کا نام جموع الاخابث اور راستے کا نام طریق الاخابث پڑ گیا۔ بعد میں لمبے عرصے تک یہ نام عربوں میں رائج رہے۔
شورش و اضطراب کا دوسرا سبب:
یمن میں فتنے کے بھڑکنے اور اس میں شدت پیدا ہونے کا دوسرا بڑا سبب قومیت کا اختلاف تھا۔ شہر کے قتل ہونے کے بعد ابوبکرؓ نے صنعاء میں فیروز کو حاکم مقرر فرمایا تھا۔ اسود کے قتل کی سازش میں فیروز کے ساتھ شہر کے دو وزیر، داذویہ اور حشبنس اور سپہ سالار قیس بن قیس بن مکشوح شریک تھے۔ فیروز، دادویہ اود حشبنس فارسی الاصل تھے۔ لیکن قیس عربی النسل اور یمن کے قبیلہ حمیر میں سے تھا۔ اس لیے جب ابوبکرؓ نے فیروز کو حاکم مقرر کیا تو قیس کو یہ بات بری لگی اور اس نے فیروز کے قتل کا مصمم ارادہ کر لیا۔
مکمل تحریر >>

عمان اور مہرہ کی بغاوت کا سدِ باب


عمان کا ارتداد کا فتنہ دوسرے علاقوں کے فتنوں سے کسی طرح کم نہ تھا۔عمان رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایرانیوں کی عمل داری میں شامل تھا۔ ایرانیوں کی جانب سے یہاں جیفر نامی ایک شخص عامل مقرر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی کا پیغام اس تک پہنچانے کے لیے عمرو بن عاص کو اس کے پاس بھیجا۔ جیفر نے کہا مجھے اسلام لانے میں تو کوئی عذر نہیں لیکن یہ ڈر ضرور ہے کہ اگر میں نے یہاں سے زکوٰۃ اکٹھی کر کے مدینہ بھیجی تو میری قوم مجھ سے بگڑ جائے گی۔ اس پر عمرو بن عاص نے اسے پیش کش کی کہ اس علاقے سے زکوٰۃ کا جو مال وصول ہو گا وہ اسی علاقے کے غربا پر خرچ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ جیفر اسلام لے آیا۔ عمرو بن عاص نے بھی ہیں سکونت اختیار کر لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب اہل عمان نے بھی ارتداد اختیار کیا تو عمرو بن عاص تومدینہ چلے آئے اور جیفر پہاڑوں میں بھاگ گیا۔
عمان میں فتنہ ارتداد کا بانیـ:
عمان میں فتنہ ارتداد بانی ذوالتاج لقیط بن مالک ازدی تھا جس نے نبوت کا دعویٰ رکھا تھا۔ ابوبکرؓ نے حمیر کے ایک شخص حذیفہ بن محصن غلفانی کو عمان اور قبیلہ ازد کے ایک شخص عرفجہ بن ہرثمہ البارقی کو طبرہ بھیجا تھا اور حکم دیا تھا کہ وہ دونوں ساتھ ساتھ سفر کریں اور جنگوں کا آغاز عمان سے کریں۔ جب عمان میں جنگ ہو تو حذیفہ قائد ہوں گے اور جب مہرہ میں جنگ پیش آئے تو عرفہ سپہ سالاری کے فرائض انجام دیں گے۔
اس سے پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ابوبکرؓ نے عکرمہ بن ابوجہل کو یمامہ میں فتنہ ارتداد کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا تھا اور شرحبیل بن حسنہ کو ان کی مدد کے لیے روانہ کیا تھا۔ لیکن عکرمہ نے شرحبیل کا انتظار کیے بغیر مسیلمہ کی فوجوں پر حملہ کر دیا۔ لیکن مسیلمہ نے انہیں شکست دے کر پیچھے ہٹا دیا۔ ابوبکرؓ نے ان کی جلد بازی پر ملامت کرتے ہوئے انہیں آنے سے منع کر دیا اور حکم دیا کہ عمان جا کر باغیوں کے مقابلے میں حذیفہ اور عرفجہ کی مدد کریں۔ ابوبکرؓ نے ان دونوں سرداروں کو بھی اس کی اطلاع دے دی اور حکم دیا کہ وہ کوئی کام عکرمہ سے مشورہ کیے بغیر نہ کریں۔ عکرمہ ان دونوں سرداروں کے پہنچنے سے پہلے ہی عمان پہنچ گئے۔ جب یہ تینوں اکٹھے ہوئے تو باہم صلاح مشورے کے بعد طے پایا کہ جیفر اور اس کے بھائی عباد(کامل ابن اثیر میں جیفر کے بھائی کا نام عباد کے بجائے عیاذ لکھا ہے) کو جو پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں، لکھا جائے کہ وہ آ کر اسلامی لشکر سے مل جائیں۔
مسلمانوں کی کامیابی :
جب لقیط کو مسلمانوں کے آنے کا پتہ چلا تو وہ لشکر لے کر دبا میں خیمہ زن ہو گیا۔ ادھر جیفر اور عباد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑوں سے نکل کر پہلے صحاء پہنچے اور وہاں سے چل کر اسلامی فوج سے آکر مل گئے۔ دبا کے میدان کار زار میں دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔ ابتداء میں لقیط کا پلہ بھاری تھا۔ مسلمان شدید اضطراب کی حالت میں تھے اور ان کی صفوں میں انتشار کے آثار نمودار ہونے شروع ہو گئے تھے۔
قریب تھا کہ انہیں شکست ہو جاتی کہ اللہ کی نصرت بنو عبدالقیس اور بحرین کے دوسرے قبائل کی جانب سے بھاری کمک کی صورت میں نمودار ہوئی جس سے جنگ کا پانسا بالکل پلٹ گیا۔مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ ان کی قوت و طاقت میں معتد بہ اضافہ ہو گیا اور وہ بڑھ چڑھ کر لقیط کی فوج پر حملے کرنے لگے۔ آخر دشمن کو شکست ہوئی اور کثیر مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ اس طرح عمان میں بھی ارتداد کے فتنے کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمانوں کی حکومت پائیدار بنیادوں پر قائم ہو گئی۔جنگ کے بعد حذیفہ نے عمان ہی میں سکونت اختیار کر لی اور یہاں کے حالات کی درستی اور امن و امان قائم کرنے میں مصروف ہو گئے۔
مہرہ کی بغاوت کا سدباب
عکرمہ نے حذیفہ کو جنوبی عرب کے انتہائی مشرقی علاقے عمان میں چھوڑا تھا اور خود مہرہ کی بغاوت فرو کرنے اور ارتداد کا فتنہ مٹانے کی غرض سے بجانب غرب روانہ ہو گئے تھے۔ ان کے ہمراہ مسلمانوں کی بھاری جمعیت تھی، جو زیادہ تر ان قبائل کے لوگوں پر مشتمل تھی جو ارتداد سے تائب ہو کر دوبارہ اسلام کی آغوش میں آ چکے تھے۔ مہرہ پہنچ کر انہیں دو جماعتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف تھیں۔ ہر جماعت چاہتی تھی کہ ملک کا اقتدار اسی کے ہاتھ میں رہے اور دوسری جماعت اس کے ماتحت رہ کر زندگی بسر کرے۔ یہ صورتحال دیکھ کر عکرمہ نے مناسب سمجھا کہ وہ کمزور جماعت کو ساتھ ملا کر اس کی مدد سے طاقت ور جماعت پر غلبہ حاصل کریں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور کمزور جماعت کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ شروع کر کے اسے اسلام لانے کی دعوت دی جو اس نے قبول کر لی۔
عکرمہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر کے اپنی فوج اور اہل مہرہ کے نو مسلم لوگوں کو لے کر طاقت و ر جماعت کے مقابلے کیلئے روانہ ہوئے۔ اس موقع پر دبا سے بھی زیادہ گھمسان کا رن پڑا جس میں انجام کار مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور انہیں کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا۔
عکرمہ نے فتح کی خوش خبری اور خمس ارسال کرنے کے علاوہ حلیف جماعت کے سردار کو بھی ابوبکرؓ کی خدمت میں مدینہ روانہ کیا اور خود امن و امان بحال کرنے کی غرض سے کچھ عرصے کے لیے مہرہ ہی میں ٹھہر گئے۔ جب یہاں کے حالات کے متعلق انہیں کامل اطمینان ہو گیا تو خلیفتہ المسلمین کے احکام کے مطابق بھاری فوج کے ہمراہ جس میں دیگر قبائل کے علاوہ اہل مہرہ بھی شامل ہو گئے تھے۔ مہاجر بن ابی امیہ کی مدد کے لیے یمن کی جانب روانہ ہو گئے۔
مکمل تحریر >>

نحرین میں ارتداد اور اسکا سدِ باب


جس مہینے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اسی مہینے منذر بن ساوی کا بھی انتقال ہوا اور عرب کے دوسرے علاقوں کی طرح بحرین والے بھی سب کے سب مرتد ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی علاء حضرمی کو بحرین سے نکلنا پڑا لیکن جارود بن معلی عبدی بدستور اسلام پر قائم رہے۔ انہوں نے اپنی قوم بنو عبدالقیس سے ارتداد کا سبب پوچھا۔ انہوں نے کہا:
اگر محمد نبی ؐ ہوتے تو کبھی وفات نہ پاتے۔
جارود نے پوچھا:
تم جانتے ہو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی اللہ اپنے انبیاء کو مبعوث فرماتا رہا۔ وہ سب کے سب کہاں گئے؟
انہوں نے جواب دیا:
فوت ہو گئے
جارود نے کہا:
جس طرح دیگر انبیاء فوت ہو گئے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے۔ اگر دوسرے انبیاء کے فوت ہونے سے ان کی نبوت میں کوئی فرق نہیں پڑا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے سے آپ کی نبوت کس طرح زائل ہو سکتی ہے؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
جارود کی باتوں کا ان کی قوم پر بہت اثر ہوا اور وہ لوگ دوبارہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔
بنو عبدالقیس گو اسلام لے آئے۔ لیکن بحرین کے دوسرے قبائل حطم بن ضبیعہ کے زیر سرکردگی بدستور حالت ارتداد پر قائم رہے اور انہوں نے بادشاہی کو دوبارہ آل منذر میں منتقل کر کے منذر بن نعمان کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ سب سے پہلے انہوں نے جارود اور قبیلہ بنی عبدالقیس کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس کوشش میں یکسر ناکامی ہوئی۔ اس پر حطم بن ضبیعہ نے طاقت کے زور سے انہیں زیر کرنا چاہا۔ اس نے قطیف اور ہجر میں مقیم غیر ملکی تاجروں اور ان لوگوں کو، جنہوں نے اس سے قبل اسلام قبول نہ کیا تھا، اپنے ساتھ ملا لیا اور قصبہ جراثی کے قریب جارود اور ان کے ساتھیوں کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ نہایت سخت تھا۔ بھوک اور پیاس کی وجہ سے بنو عبدالقیس جاں بہ لب ہو چکے تھے ، لیکن انہوں نے انتہائی ثابت قدمی دکھائی اور دوبارہ ارتداد اختیار کرنا قبول نہ کیا۔
بحرین سے ارتداد کی خبریں موصول ہونے پر ابوبکرؓ نے علاء بن حضرمی کو مرتدین کے مقابلے کے لیے روانہ فرمایا۔ دریں اثناء خالدؓ بن ولید، مسیلمہ اور ان کے پیروؤں کو عقرباء میں عبرتناک شکست دے چکے تھے۔ اس لیے جب علاء یمامہ سے گزرے تو بنی حنفیہ کی ایک کثیر جمعیت ثمامہ بن آثال اور قیس بن عاصم منقری کے زیر سرکردگی ان کے ساتھ ہو لی۔ اہل یمن اور بعض دیگر قبائل کے لوگ بھی کثیر تعداد میں ان کے لشکر میں شامل تھے جنہیں یقین تھا کہ مسلمان آخر سارے عرب پر قابض ہو جائیں گے کیونکہ ہر زمانے میں یہی ہوتا رہا ہے کہ لوگ قوت و طاقت ہی کے آگے سر جھکاتے ہیں۔
مرتدین بحرین کی شکست:
علاء بن حضرمی لشکر لے کر بحرین پہنچے اور حطم کے قریب خیمہ زن ہوئے۔ وہاں سے انہوں نے جارود کو، جو بنی عبدالقیس کے ساتھ قلعہ بند تھے پیغام بھیجا کہ اسلامی لشکر آ پہنچا اس لیے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں۔ خود انہوں نے لڑائی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ محاذ جنگ اور دشمنوں کا جائزہ لینے سے انہیں معلوم ہوا کہ مرتدین اس قدر بھاری تعداد میں ان کے مقابلے کے لیے موجود ہیں کہ بے سوچے سمجھے ان پر حملہ کرنا مناسب نہ ہو گا۔ انہوں نے اپنے لشکر کے ارد گرد خندق کھدوائی اور اس کے پیچھے لشکر لے کر پڑاؤ ڈال دیا۔ کبھی کبھی وہ خندق عبور کر کے مرتدین پر حملہ کرتے اور تھوڑی دیر کی لڑائی کے بعد پھر خندق کے پیچھے ہٹ آتے۔ اسی طرح ایک مہینہ گزر گیا۔ کسی فریق کو معلوم نہ تھا کہ لڑائی کا انجام کیا ہو گا۔ آخر ایک رات مسلمانوں کو مرتدین پر بھرپور حملہ کرنے کا موقع مل ہی گیا جس سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے دشمن کو تہس نہس کر ڈالا۔
واقعہ اس طرح ہوا کہ ایک ر ات لشکر گاہ مشرکین کی طرف سے سخت شور و غل کی آوازیں آنے لگیں، علاء بن حضرمی نے اپنے جاسوسوں کو خبر لانے کے لیے دشمنوں کے کیمپ میں روانہ کیا۔ انہوں نے آ کر خبر دی کہ مشرکین کا لشکر شراب میں دھت ہے اور واہی تباہی بک رہا ہے۔ علاء نے موقع غنیمت جان کر فوج کو ہمراہ لیا اور خندق عبور کر کے دشمن کے لشکر میں داخل ہوتے ہی اسے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ دشمن نے کوئی چارہ کار نہ دیکھ کر بے تحاشا بھاگنا شروع کر دیا۔ سینکڑوں لوگ بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے خندق میں گر پڑے۔ہزاروں لوگوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ اسی ہنگامے کے دوران میں قیس بن عاصم نے حطم کو زمین پر گرا ہوا پایا۔ اس نے جھٹ تلوار نکال آن کی آن میں اس کا کام تمام کر دیا۔ عنیف بن منذر الغرور کو مسلمانوں نے زندہ گرفتار کر لیا۔ جب وہ علاء کے سامنے پیش کیا گیا تو علاء نے کہا:
تمہیں تھے جنہوں نے ان لوگوں کو دھوکا دیا تھا؟غرور نے کوئی چارہ کار نہ دیکھ کر اسلام قبول کر لیا اور کہا:میں دھوکا دینے والا نہیں البتہ اپنی طاقت پر ناز ضرور تھا۔
یہ سن کر علاء نے اسے معاف کر دیا۔
جو لوگ قتل اور قید ہونے سے بچ گئے تھے انہوں نے کشتیوں میں سوار ہو کر جزیرہ دارین میں پناہ لی۔ علاء نے فی الحال ان سے تعرض نہ کیا بلکہ اپنی توجہ بحرین کے دوسرے علاقوں میں امن و امان قائم رکھنے پر مبذول کی۔ جب سارے علاقے میں امن قائم ہو گیا، قبائل نے اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر لی اور علاء کے لشکر میں بھی معتدبہ اضافہ ہوگیا تو دارین کی طرف متوجہ ہوئے ، ایک روایت میں مذکور ہے کہ علاء نے اس موقع پر جنگ نہیں کی اور یہ جزیرہ بہ دستور اسلامی سلطنت سے الگ تھلگ رہا اور عمرؓ بن خطاب کے زمانے میں اس کی فتح عمل میں آئی۔ اب اگر انہیں خطرہ تھا تو بعض ان بدوی قبائل کی طرف سے جن کا پیشہ ہی لوٹ مار اور غارت گری تھا، یا ایرانیوں کی فریب کاریوں کا جن کے اثر و نفوذ کو مسلمانوں کی پیش قدمی کے نتیجے میں سخت دھچکا لگا تھا۔ پھر بھی وہ اس طرف سے بڑی حد تک مطمئن تھے کیونکہ پہلے ہی بحرین کے متعدد قبائل اور انباء نے سچے دل سے ان کی اطاعت قبول کر کے اپنے آپ کو مسلمانوں کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ان لوگوں میں پیش پیش عتیبہ بن نہاس اور مثنیٰ بن حارثہ شیبانی تھے۔ ان لوگوں کی کوششوں سے شکست خوردہ قبائل اور فسادی عنصر کا دوبارہ سر اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی۔
مثنیٰ بن حارثہ نے ایرانی فریب کاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے باقاعدہ جدوجہد شروع کی اور اس غرض کے لیے خلیج فارس کے ساحل کے ساتھ ساتھ پیش قدمی کر کے دریائے فرات کے دہانے تک پہنچ گئے۔ مثنیٰ کا عراق کی سرحد پر پہنچ کر دشمنان اسلام کی سرگرمیوں کی روک تھام کرنا اور اس علاقے میں تبلیغ اسلام کی جدوجہد کرنا عراق کی فتح کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
مکمل تحریر >>

جنوبی قبائل کا اثرارِ بغاوت


شمالی عرب کے منکرین زکوٰۃ اور مرتد قبائل خالدؓ بن ولید کی فوج کشی کے نتیجے میں خلیفہ رسول اللہ ؐ کی اطاعت قبول کر کے دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے۔ ان قبائل کی حدود عرب کے شمال مشرقی حسے سے شروع ہو کر انتہائی مشرق میں خلیج فارس تک اور وہاں سے نیچے اتر کر مکہ کے جنوب مشرق تک پھیلی ہوئی تھیں۔ حالانکہ جب ابوبکرؓ نے زمام خلافت سنبھالی تھی تو ان کا دائرہ اقتدار مدینہ، مکہ اور طائف کے درمیان ایک چھوٹے سے مثلث نما خطے تک محدود تھا۔
جنوبی علاقے کے قبائل نے شمالی علاقے کے واقعات سے متعلق نصیحت حاصل نہ کی اور بد ستور ابوبکرؓ کے خلاف بغاوت پر آمادہ اور ارتدادپر جمے رہے۔ اسی سبب سے جنوبی قبائل اور مسلمانوں کے درمیان مدت دراز تک جدال و قتال کا سلسلہ جاری رہا۔
جنوبی علاقہ جو نصف عرب پر مشتمل ہے، خلیج فارس سے یمن کے عمال میں بحیرہ احمر تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں بحرین، عمان، مہرہ، حضرت موت، کندہ اور یمن کے صوبے واقع ہیں۔ مشرقی علاقوں سے مغربی علاقوں تک اور مغربی علاقوں سے مشرقی علاقوں تک آنے جانے کے لیے مذکورہ بالا تمام صوبوں سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ تمام صوبے خلیج فارس، خلیج عدن اور بحیرہ احمر کے ساحلی علاقوں پر واقع ہیں اور یمن کے سوا باقی تمام کی چوڑائی بہت کم ہے۔۔۔۔ اتنی کم کہ ان کی حدود اور ساحل بحر کا فاصلہ چند میل کا ہے۔ عرب کا سارا جنوبی علاقہ جو ان صوبوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ ایک خوفناک لق و دق صحرا پر مشتمل ہے جسے عبور کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔ اس صحرا کو دیکھ کر آج بھی اسی طرح دہشت طاری ہو جاتی ہے جس طرح پہلے زمانوں میں ہوتی تھی۔ اسے ربع الخالی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
جنوبی عرب میں ایرانی اثر ونفوذ:
ان صوبوں کے محل وقوع پر ایک نظر ڈالنے سے صاف پتا چل جاتا ہے کہ ان میں ایرانی اثر و نفوذ بہت آسانی سے راہ پا سکتا تھا۔شمالی اور جنوبی علاقوں کے مابین آمدورفت کا سلسلہ بے حد دشوار تھا کیونکہ درمیان کے ہولناک اور ویران صحرا کو قطع کرنا مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ حجاز سے عمان و بحرین تک پہنچنے اور عمان و بحرین سے حجاز تک جانے کے لیے طول و طویل ساحلی علاقہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ اس لحاظ سے بحرین، عمان، حضر موت اور یمن کے مشرقی و جنوبی صوبے حجاز کے شمالی علاقے سے تقریباً کٹ کر رہ گئے تھے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ایرانی شہنشاہوں نے ان علاقوں پر توجہ مبذول کی اور یہاں اپنا اقتدار قائم کر لیا۔
ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ یمن ’’ بدھان‘‘ کے اسلام قبول کرنے تک ایرانی عمل داری میں شامل رہا۔ ’’ بدھان‘‘ ابتداء میں کسریٰ کی جانب سے اس علاقے کا عامل تھا۔ اسلام لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدستور یہاں کا حاکم مقرر کیے رکھا۔ بحرین اور عمان بھی ایرانی عمل داری میں شامل تھے اور کثیر التعداد ایرانیوں نے بحرین اور عمان میں سکونت اختیار کر کے انہیں اپنا وطن بنا لیا تھا۔ اس وجہ سے ایرانی اقتدار میں مزید اضافہ ہو گیاتھا ۔ جب کبھی سلطنت ایران کو عربوں کی جانب سے بغاوت کا خطرہ ہوتا اور عرب ان کے اثر و اقتدار کو زائل کرنے کی کوشش کرتے تو وہ ان ایرانی نژاد لوگوں سے کام لے کر اس بغاوت کو فرو کر دیتی اور آزادی کی جدوجہد کو ناکام بنا دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عرب کے جن علاقوں کو سب سے آخر میں اسلام لانے کی توفیق ملی وہ عمان اور بحرین کے علاقے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انہیں نے سب سے اول ارتداد اختیار کیا مگر جب سخت جنگوں کے بعد فتنہ ارتداد پاس پاش ہو گیا اور اہل عرب دوبارہ ایک دینی اور سیاسی وحدت پر جمع ہو گئے تو یہی لوگ تھے جو مجبور ہو کر سب سے آخر میں اسلام لائے۔
ان علاقوں میں جنگ ہائے ارتداد کے زمانہ وقوع کے متعلق مورخین میں خاصا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ جنگیں11ھ میں وقوع پذیر ہوئیں اور بعض کہتے ہیں 12ھ میں۔ پھر بھی یہ اختلاف کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ بہرحال یہ امر مسلم ہے کہ یہ جنگیں ابوبکرؓ کی خلافت کے اوائل سے شروع ہوئیں اور اس وقت تک ختم نہ ہوئیں جب تک سارے عرب نے کاملاً ان کی اطاعت قبول نہ کر لی۔ ابتدا شمالی عرب سے ہوئی اور وہاں کے مرتدین کا قلع قمع ہونے کے بعد جنگوں کا رخ جنوبی علاقے کی طرف پھر گیا۔
جغرافیائی محل و قوع کے پیش نظر مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ جنوبی علاقے میں سرگرمیوں کی ابتداء وہ یا تو بحرین سے کرتے اور عمان، مہرہ، حضر موت کے علاقوں کو زیر کرتے ہوئے یمن تک پہنچ جاتے یا اپنی کارروائیاں یمن سے شروع کرتے اور حضرت موت مہرہ اور عمان کے لوگوں کی سرکوبی کرتے ہوئے ان کارروائیوں کا اختتام بحرین پر کرتے۔
تمام حالات کے پیش نظر مسلمانوں نے بحرین سے جنگی کارروائی کا آغاز کرنا مناسب خیال کیا۔ کیونکہ اول تو بحرین یمامہ سے بالکل نزدیک تھا اور یمامہ میں عقرباء کے مقام پر وہ ابھی ابھی بنی حنفیہ کے مقابلے میں عظیم الشان فتح حاصل کر چکے تھے جس کی وجہ سے ان کی دھاک تمام قبائل عرب میں بیٹھ چکی تھی۔ دوسرے یمن کے مقابلے میں یہاں سے کارروائی کا آغاز کرنا نسبتاً سہل بھی تھا۔ اگر یہاں کامیابی حاصل ہو جاتی تو اس کا اثر دوسرے قبائل پر پڑنا لازم تھا۔
9ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قاصد علاء بن حضرمی کو ان کے پاس بھیجا تو انکا حاکم اسلام لے آیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدستور بحرین کا حاکم مقرر کیے رکھا۔ اسلام لانے کے بعد اس نے اپنی قوم کو بھی دین حق کی دعوت دینی شروع کی اور جارود بن معلی کو دینی تربیت حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا۔ جارود نے مدینہ پہنچ کر اسلامی تعلیمات اور احکام سے واقفیت حاصل کی اور اپنی قوم میں واپس جا کر لوگوں کو دین کی تبلیغ کرنے اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کا کام شروع کر دیا۔
مکمل تحریر >>

مرتدین کا استیصال


ابوبکرؓ نے قبائل عبس، ذبیان، بکر اور ان کے مددگاروں کو شکست دے کر جلاوطن کر دیا تھا اور وہ بزاخہ جا کر طلیحہ بن خویلد اسدی سے مل گئے تھے۔اب ان کے پیش نظر مرتدین کا استیصال تھا جو عرب کے مختلف خطوں میں بغاوت کے شعلے بھڑکا رہے تھے اور ان کے ہاتھوں اسلام اور مسلمانوں کو سخت خطرہ در پیش تھا۔ منکرین زکوٰۃ کی طرح مرتدین کے متعلق بھی انہوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ انہیں ہر قیمت پر عبرت ناک شکست دی جائے گی اور ان سے کسی قسم کی مصالحت نہ کی جائے گی۔
جب اسامہؓ کا لشکر اچھی طرح آرام کر چکا تو ابوبکرؓ اسے لے کر مدینہ سے نکلے اور ذی القصہ میں قیام فرمایا۔ وہاں انہوں نے گیارہ علم تیار کیے۔ لشکر کو گیارہ حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے پر ایک امیر مقرر کیا۔ پھر ان امراء کو حکم دیا کہ وہ مرتدین کے استیصال کے لیے اپنے اپنے مقرر کردہ علاقے کی جانب روانہ ہوجائیں اور راستے میں جن قبیلوں کے پاس سے گزریں وہاں کے مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے لیں۔ مرتدین کے مقابلے میں فوجیں بھیجتے ہوئے ابوبکرؓ نے اس امر کا خاص خیال رکھا کہ مرتدین کی جمعیت اور قوت و طاقت کا لحاظ رکھ کر ان کی طرف فوجیں روانہ کی جائیں۔ اسی لیے انہوں نے خالد بن ولید کو طلیحہ بن خویلد سے لڑنے کے لیے بنی اسد کی طرف روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ طلیحہ سے فراغت حاصل ہونے کے بعد بطاح جا کر بنی تمیم کے سردار مالک بن نویرہ سے جنگ کی جائے۔
ابوبکرؓ نے مدینہ کی حفاظت کے لیے فوج رکھ چھوڑی تھی وہ باہر جانے والے لشکروں سے بہت کم تھی کیونکہ اب مدینہ کو فوری حملے کا خطرہ نہ تھا۔ منکرین زکوٰۃ کی سرکوبی کے بعد وہاں کے باشندے بڑے اطمینان سے زندگی بسر کر رہے تھے۔
بنو اسد اور بنو تمیم مدینہ کے قریب ترین مرتد قبائل تھے اس لیے ضروری تھا کہ جنگ کا آغاز انہیں سے کیا جائے تاکہ ان کی شکست کا اثر دوسرے قبائل پر بھی پڑے اور وہ با آسانی زیر ہو سکیں۔ خالد بجا طور پر مستحق تھے کہ انہیں ان طاقتور قبائل سے جنگ کرنے والی فوجوں کی کمان سونپی جائے۔
عکرمہ بن ابوجہل کو دوسرا جھنڈا دیا گیا اور انہیں یمامہ جا کر بنی حنفیہ کے سردار مسیلمہ سے جنگ کرنے کا کام سپرد کیا گیا۔
شرجیل بن حسنہ کو تیسرا جھنڈا سپرد کر کے حکم دیا گیا کہ وہ پہلے مسیلمہ کے خلاف عکرمہ کی مدد کریں اور یہاں سے فراغت حاصل ہونے کے بعد عمرو بن عاص کی امداد کے لیے قضاعہ کی جانب روانہ ہو جائیں۔
عکرمہ اور شرجیل کو یمامہ میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی بلکہ یہ فخر خالد بن ولید کے حصے میں آیا اور انہوں نے غزوہ عرقباء میں مسیلمہ کو قتل کر کے بنی حنیفہ کی کمر توڑ دی۔
چوتھا جھنڈا مہاجرین ابی امیہ مخزومی کے حوالے کر کے حکم دیا گیا کہ وہ یمن جا کر اسود عنسی کے لشکر اور عمرو بن معدی کرب زبیدی، قید بن مکشوح مرادی اور ان کے مددگاروں سے جنگ کریں۔ یہاں سے فراغت حاصل ہونے کے بعد کندہ اور حضرت موت جا کر اشعث بن قیس اور اس کے ساتھی مرتدین سے لڑیں۔
پانچواں جھنڈا سوید بن مقرن اوسی کو عطا کر کے انہیں تہامہ یمن جانے کا حکم دیا گیا۔
چھٹا جھنڈا علاء بن حضرمی کو مرحمت کر کے انہیں بحرین میں حطم بن ضبیعہ اور بنی قیس بن ثعلبہ کے مرتدین کی سرکوبی کا حکم دیا گیا۔
ساتواں جھنڈا م۔۔۔۔ حمیر کے حذیفہ بن محصن غلغانی کو دیا گیا اور انہیں عمان جا کر وہاں کے مدعی نبوت ذوالمتاج لقیط بن مالک ازدی سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا۔
آٹھواں جھنڈا عرفجہ بن ہرثمہ کو دے کر انہیں مہرہ بھیجا گیا۔
اس جانب اتنے کثیر لشکر بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ ارتداد کا فتنہ اسی حصے میں زیادہ پھل پھول رہا تھا اور یہاں کے مرتدین کی سرکوبی کے لیے زیادہ لشکر بھیجنے کی ضرورت تھی۔ اس کے بالمقابل شمالی جانب تین فوجیں بھیجی گئیں۔
پہلی فوج عمرو بن عاص کے زیر سر کردگی قضاعہ سے لڑنے کے لیے روانہ کی گئی۔ دوسری فوج معن بن حاجز علمی کی قیادت میں بنی سلیم اور بنی ہوازن کے شوریدہ سر قبائل کی سرکوبی کے لیے روانہ کی گئی اور تیسری فوج خالد بن سعید بن عاص کی سالاری میں شام کی سرحدوں پر امن و امان قائم رکھنے کے لیے بھیجی گئی۔
کسی قبیلے کو مدینہ پر حملہ کرنے کی جرات بھی کس طرح ہو سکتی تھی جب مسلمانوں کی فتح مندی کی خبریں ہر طرف پھیل چکی تھی، ان کا رعب سارے عرب پر چھا چکا تھا اور ان کی بہادری کا سکہ تمام قبائل پر بیٹھ چکا تھا۔
ان لشکروں کو رخصت کرنے کے بعد ابوبکرؓ مدینہ واپس تشریف لے آئے اور مستقل طور پر یہیں قیام فرمایا۔ مدینہ میں قیام کی وجہ یہ تھی کہ اب یہ شہر مسلمانوں کا جنگی ہیڈ کوارٹر بن چکا تھا اور فوجوں کی نقل و حرکت کے متعلق تمام احکام یہیں سے صادر ہوتے تھے۔ اس لیے خلیفہ کا مستقل طور پر دار الخلافہ میں قیام نہایت ضروری تھا ورنہ فتوحات کا سلسلہ درہم برہم ہو جاتا اور مسلمانوں کو مخالفین کے مقابلے میں وہ کامیابی ہرگز حاصل نہ ہوتی جو ہوئی۔
سب سے ضروری حکم، جو ابوبکرؓ نے لشکروں کے سپہ سالاروں کی روانگی کے وقت دیا یہ تھا کہ کوئی سپہ سالار مخالف پر فتح پانے کے بعد اس وقت تک کسی دوسری جانب رخ نہ کرے جب تک دربار خلافت سے اس کی اجازت حاصل نہ کر لے کیونکہ ابوبکرؓ کے خیال میں سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ دوران میں دار الخلافہ کی انتظامی مشینری اور جنگی قیادت میں کامل اتحاد ہونا چاہیے۔
مکمل تحریر >>

ضالد بن ولید کی سبہ سالاری


خالدؓ بن ولید کو ابوبکرؓ نے جس لشکر کی کمان سپرد کی تھی وہ تمام لشکروں سے زیادہ مضبوط تھا اور اس میں مہاجرین و انصار کے منتخب آدمی جمع تھے جن کا انتخاب خود خالد نے کیا تھا۔ صفحات آئندہ میں آپ دیکھیں گے کہ ان لوگوں نے جنگ ہائے ارتداد میں بے نظیر کارنامے انجام دئیے اور عراق و شام کی جنگوں میں تو انہوں نے وہ معرکے سر کیے جنہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ان فوجوں کی کامیابی کا راز خالد بن ولید کی سپہ سالاری میں مضمر تھا۔ خالد کو جو جنگی مہارت حاصل تھی اس کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سکندر اعظم، چنگیز خاں، جولیس سیزر ہنی بال اور نپولین کی شخصیتیں خواہ کتنی ہی عظیم کیوں نہ نظر آتی ہوں لیکن حق یہ ہے کہ خالدؓ کی شخصیت کے آگے وہ سب ہیچ ہیں۔ وہ اسلام کے بطل جلیل تھے اور ہر قسم کے خطرات و خدشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دشمنوں کی صفوں میں دلیرانہ گھس جانا ان کا خاص شیوہ تھا۔ فنون جنگ سے گہری واقفیت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ دشمن کا ہر چال اور اس کا ہر منصوبہ ان کی نگاہ میں ہوتا تھا اور مخالف کی کوئی حرکت ان سے چھپی نہ رہ سکتی تھی۔ تمام مسلمانوں کو ان کی صلاحیتوں کا علم تھا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگ موتہ میں مسلمانوں کی قلیل التعداد فوج کو ہزار ہا رومیوں کے نرغے سے نکال لانے کی بنا پر سیف اللہ کا خطاب مرحمت فرمایا تھا۔ زندگی بھر انہوں نے کبھی شکست نہیں کھائی، ہمیشہ فتح یاب ہی ہوتے رہے اور اسی حالت میں وفات پائی۔
اسلام لانے سے قبل بھی خالد کا شمار قریش کے چوٹی کے بہادروں میں ہوتا تھا۔ جنگ احد اور خندق میں وہ کفار کے دوش بہ دوش مسلمانوں سے لڑے۔ سرتاپا فوجی ہونے کی وجہ سے ان کی طبیعت میں خشونت، تندی اور تیزی آ گئی تھی۔ دشمن کو سامنے دیکھ کر ان سے مطلق صبر نہ ہو سکتا اور چاہتے تھے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اس پر ٹوٹ پڑیں۔ اللہ کا فضل ہمیشہ ان کے شام حال رہا ورنہ ممکن تھا کہ اپنی جلد بازی کے باعث انہیں بھاری نقصان سے دو چار ہونا پڑتا۔ دشمن بڑی سے بڑی تعداد اور کثر اسلحہ کے باوجود کبھی انہیں مرعوب نہ کر سکتا تھا۔ صلح حدیبیہ سے اگلے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرمۃ القضاء کے لیے مکہ تشریف لے گئے تو خالد مسلمانوں سے حد درجہ نفرت کے باعث مکہ چھوڑ کر ہی چلے گئے۔ لیکن اچانک اللہ نے ان کے دل پر پڑے ہوئے تاریک پردے ہٹا دئیے اور انہیں حق و صداقت سے آگاہی عطا فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ واپس تشریف لے جانے کے بعد خالد مکہ واپس آ گئے اور ایک روز انہوں نے قریش کے مجمع میں علانیہ کہہ دیا کہ اب ہر ذی عقل انسان پر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ جادوگر ہیں نہ شاعر، ان کا کلام یقینا اللہ کی طرف سے ہے، اب قریش کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع اختیار کے بغیر چارہ نہیں۔
خالدؓ کی زبان سے یہ کلمات سن کر قریش کو سخت حیرت ہوئی۔ ان کے وہم میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ خالد کا میلان اسلام کی جانب ہو سکتا ہے۔ عکرمہ بن ابوجہل اور خالد کے مابین بحث بھی ہوئی لیکن خلاف معمول اس نے تیزی اختیار نہ کی۔ ابو سفیان اس اجتماع میں موجود نہ تھا۔ جب اسے اس واقعے کا علم ہوا تو اس نے انہیں بلا کر پوچھا کیا تمہارے اسلام لانے کی خبر سچ ہے؟ خالدؓ نے جواب دیا۔ ہاں میں اسلام لے آیا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین رکھتا ہوں۔ یہ سن کر ابوسفیان کو بہت غصہ آیا اور اس نے کہا لات اور عزیٰ کی قسم! اگر یہی بات ہے تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تم ہی سے نپٹ لیتا ہوں۔ خالدؓ نے جواب دیا۔ اسلام بہرحال سچا ہے خواہ کوئی شخص اس بات کو کتنا ہی ناپسند کیوں نہ کرے۔
اسلام لانے کے بعد خالد مدینہ چلے آئے۔ اپنی جنگی قابلیت کی وجہ سے مسلمانوں میں خاص قدر و منزلت حاصل کر لی اور اس امر کے باوجود کہ ان کی ساری عمر اسلام کی مخالفت میں گزری تھی، ہر شخص انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔ اس عزت و توقیر میں گراں قدر اضافہ اس وقت ہوا جب جنگ موتہ کے بعد انہیں دربار نبوی سے سیف اللہ کا خطاب مرحمت ہوا۔ بعد میں انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو اس خطاب کا پورا پورا مستحق ثابت کیا۔ عراق اور شام کی فتوحات انہیں کے ذریعے سے ہوئیں۔ فارس اور روم کی عظیم الشان سلطنتیں جو اس زمانے میں روئے زمین کی مالک تھیں، انہیں کے ہاتھوں نابود ہوئیں ۔ ان ہی اوصاف کی بدولت انہیں مرتدین کے مقابلے میں سب سے بڑے لشکر کی سپہ سالاری نصیب ہوئی۔
مکمل تحریر >>

مسیلمہ کذاب کا قتل


خالدؓ نے جب مسلمانوں کی جوش دلانے والی آوازیں سنیں تو انہیں بھی یقین ہو گیا کہ بنی حنفیہ کی سخت مدافعت کے باوجو انجام کار فتح انہیں کے حصے میں آئے گی۔ لیکن وہ چاہتے تھے کہ فتح کا حصول حتیٰ الامکان جلد ہو جائے اس لیے بہت غور سے ایک بار میدان کا جائزہ لیا۔ انہوں نے دیکھا کہ بنو حنفیہ مسیلمہ کے گرد کٹ کٹ کر گر رہے ہیں اور مسیلمہ کی حفاظت میں موت کی بھی پروا نہیں کرتے۔ یہ دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا کہ فتح کے جلد از جلد حصول کا طریق یہ ہے کہ کسی طرح مسیلمہ کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ وہ اپنے آدمی لے کر آگے بڑھے اور مسیلمہ کے آدمیوں کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ اس کے بعد کوشش کی کہ کسی طرح مسیلمہ ان کے سامنے آ جائے تاکہ اس کا کام تمام کیا جا سکے۔ لیکن قبل اس کے کہ مسیلمہ ان کے سامنے آتا، اس کے آدمیوں نے بڑھ چڑھ کر خالدؓ پر حملے کرنے شروع کیے۔ خالدؓ تو ان کے بس میں کیا آتے البتہ جو شخص ان کے مقابلے میں آتا زندہ واپس نہ جاتا۔ اس طرح بے شمار آدمی قتل ہو گئے۔
مسیلمہ کا تردد و اضطراب:
جب مسیلمہ نے دیکھا کہ اس کے حامیوں کی تعداد بہ سرعت کم ہوتی جا رہی ہے تو اس نے کود خالدؓ کے مقابلے پر آنے کا ارادہ کیا لیکن اس خیال سے رک گیا کہ اگر وہ بھی خالدؓ کے مقابلے کے لیے نکلا تو لا محالہ مارا جائے گا۔ اب اس کے تردد و اضطراب کی انتہا نہ رہی۔ اس کے جاں نثار کٹ کٹ کر گر رہے تھے اور اسے خود بھی اپنی موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ وہ اس اضطراب کی حالت میں کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ یکایک خالدؓ نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے اس کے محافظین پر ایک بھرپور حملہ کر کے تلوار کے جوہر دکھانے شروع کیے۔
یہ دیکھ کر مسیلمہ کے ساتھیوں نے اس سے پکار کر پوچھا:
آپ کے وہ وعدے، جو اپنی فتح کے متعلق آپ نے ہم سے کیے تھے، کہاں گئے؟
اس وقت مسیلمہ کے حوصلے ختم ہو چکے اور اس نے میدان جنگ سے بھاگنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ چنانچہ اس نے پیٹھ پھیرتے ہوئے جواب دیا:
اپنے حسب و نسب کی خاطر لڑتے رہو۔
لیکن ا ب وہ کیا لڑتے جب ان کا سردار انہیں مسلمانوں کی تلواروں کے سپرد کر کے انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کر چکا تھا۔
بنی حنفیہ کے ایک سردار محکم بن طفیل نے جب لوگوں کو بھاگتے اور مسلمانوں کو ان کا پیچھا کرتے دیکھا تو پکار پکار کر کہنے لگا:
اے بنو حنفیہ! باغ میں داخل ہو جاؤ۔
یہ باغ جسے حدیقۃ الرحمن کہا جاتا تھا میدان جنگ سے قریب ہی تھا اور مسیلمہ کی ملکیت میں تھا۔ یہ بہت طویل و عریض تھا اور قلعے کی طرح اس کے چاروں بلند دیواریں کھڑی تھیں۔ محکم بن طفیل کی آواز سن کر لوگوں نے اس باغ کی طرف بھاگنا شروع کیا (جس میں مسیلمہ پہلے ہی داخل ہو چکا تھا) لیکن محکم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مسلمانوں کو بنی حنفیہ کے تعاقب سے روکنے کے لیے میدان جنگ ہی میں رہ گیا تھا۔ اس نے بہت بہادری سے مسلمانوں کا مقابلہ کیا اور آخر عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کے ایک تیر سے جو اس کے سینے میں لگا اس کا کام تمام ہو گیا۔
مسیلمہ اور اس کی قوم باغ میں پناہ گزین ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کے لیے باغ کا محاصرہ کر لینے اور کامل فتح کے حصول تک وہاں سے نہ ٹلنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ چنانچہ نے ایسا ہی کیا۔ باغ کے چاروں طرف مسلمانوں نے پڑاؤ ڈال دیا اور کسی ایسی کمزور جگہ کی تلاش کرنے لگے جہاں سے باغ میں گھس کر اس کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو سکیں۔ لیکن انتہائی تلاش کے باوجود انہیں ایسی کوئی جگہ نہ ملی۔
آخر براء بن مالک نے کہا :
’’ مسلمانو! اب صرف یہ راستہ ہے کہ تم مجھے اٹھا کر باغ میں پھینک دو۔ میں اندر جا کر دروازہ کھول دوں گا۔‘‘
لیکن مسلمان یہ کس طرح گوارا کر سکتے تھے کہ ان کا ایک بلند مرتبت ساتھی ہزاروں دشمنوں میں گھر کر اپنی جان گنوا دے۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا لیکن براء نے اصرار کرنا شروع کیا اور کہا:
’’ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم مجھے باغ کے اندر پھینک دو۔‘‘
آخر مجبور ہو کر مسلمانوں نے انہیں باغ کی دیوار پر چڑھا دیا۔ دیوار پر چڑھ کر جب براء نے دشمن کی زبردست جمعیت کی جانب نظر دوڑائی تو ایک لمحے کے لیے ٹھٹکے لیکن پھر اللہ کا نام لے کر باغ کے دروازے کے سامنے کود پڑے اور دشمنوں سے دو دو ہاتھ کرتے، دائیں بائیں لوگوں کو قتل کرتے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ آخر بیسیوں آدمیوں کے قتل کے بعد وہ دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور آگے بڑھ کر بڑی پھرتی سے اسے کھول دیا۔
مسلمان، باہر دروازہ کھلنے کے منتظر تھے ہی۔ جونہی دروازہ کھلا وہ باغ میں داخل ہو گئے اور تلواریں سونت کر دشمنوں کو بے دریغ قتل کرنے لگے۔ بنو حنفیہ مسلمانوں کے سامنے سے بھاگنے لگے لیکن باغ سے باہر وہ کس طرح نکل سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ صرف براء نے نہیں بلکہ اور بھی کئی مسلمانوں نے دیواریں پھاند کر دروازے کا رخ کیا تھا۔ چونکہ براء نے دروازے کے بالکل قریب دیوار پھاندی تھی۔ اس لیے دروازے پر سب سے پہلے وہی پہنچے اور لڑتے بھڑتے دروازہ کھول دیا۔ بنو حنفیہ نے ان مٹھی بھر مسلمانوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن دیوار پر جو مسلمان متعین تھے انہوں نے تیار مار مار کر انہیں مسلمانوں سے دور رکھا۔

مسلمانوں نے اگرچہ باغ میں گھس کر بنو حنفیہ کو بے دریغ قتل کرنا شروع کر دیا تھا۔ مگر بنو حنفیہ نے بھی بڑی بہادری سے ان کا مقابلہ کیا۔ لیکن مسلمانوں کے سامنے ان کی پیش نہ گئی طرفین کے کثیر آدمی اس معرکے میں قتل ہوئے لیکن بنی حنفیہ کے مقتولوں کی تعداد مسلمانوں سے بیسیوں گنا تھی۔ حبشی غلام وحشی، جس نے جنگ احد میں حمزہ بن عبدالمطلبؓ کو شہید کیا تھا اور جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہو گیا تھا، اس موقع پر موجود تھا۔ اس نے مسیلمہ کو باغ میں دیکھا اور اپنا چھوٹا سا نیزہ ترک کر مسیلمہ کے مارا جو سیدھا اسے جا کر لگا۔ اسی وقت ایک انصاری نے بھی مسیلمہ پر تلوارکا وار کیا۔ وحشی کہا کرتا تھا ’’ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہم میں سے کس نے اسے قتل کیا۔ لیکن مسیلمہ اگر مرنے کے بعد زندہ ہوتا تو ہمیشہ ہی یہ کہتا کہ اسے اس سیاہ فام غلام نے قتل کیا ہے۔‘‘
جب بنو حنفیہ نے مسیلمہ کی خبر موت سنی تو ان کے حوصلے پست ہو گئے۔ مسلمانوں نے انہیں بے تحاشا قتل کرنا شروع کیا۔ عرب میں اس وقت تک جتنی جنگیں ہوئی تھیں یمامہ سے بڑھ کر کسی بھی جنگ میں اتنی خونریزی نہ ہوئی تھی۔ اس لیے حدیقتہ الرحمن کا نام حدیقتہ الموت پڑ گیا اور آج تک تاریخ کی کتابوں میں یہی نام چلا آتا ہے۔

بنی حنفیہ کے مقتولین کی تعداد:
روایات سے پتا چلتا ہے کہ حدیقتہ الموت کی لڑائی میں سات ہزار بنی حنفیہ قتل ہوئے تھے۔ میدان جنگ میں بھی ان کے مقتولین کی تعداد سات ہزار تھی۔ اس کے بعد جب خالدؓ نے اپنے دستوں کو مفرورین کے تعاقب میں روانہ کیا تو بھی سات ہزار آدمی قتل ہوئے۔
مسلمان شہداء کی تعداد:
اس جنگ میں جہاں بنی حنفیہ کے مقتولین کی تعداد پچھلی تمام جنگوں سے زیادہ تھی وہاں مسلمان شہداء کی تعداد بھی پچھلی تمام جنگوں کو مات کر گئی تھی۔ اس جنگ میں مسلمان شہداء کی تعداد بارہ سو تھی۔ تین سو ستر مہاجرین، تین سو انصار اور باقی دیگر قبائل کے لوگ، ان شہداء میں تین سو ستر صحابہ کبار اور قرآن کے حافظ بھی تھے جن کا مقام اور درجہ مسلمانوں میں بے حد بلند تھا۔ اگرچہ ان حافظوں کی شہادت سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا لیکن بعض اوقات ایک نقصان دہ چیز بھی آخر فائدے کا موجب بن جاتی ہے چنانچہ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ابوبکرؓ نے اس ڈر سے کہ کہیں آئندہ جنگوں میں بقیہ حافظوں سے بھی مسلمانوں کو ہاتھ نہ دھونے پڑیں، قرآن جمع کرنے کا حکم دے دیا اور اس طرح پہلی مرتبہ قرآن کریم ایک جلد میں مدون کیا گیا۔
مسلمانوں کا حزن و الم:
مسلمانوں کی بھاری تعداد کے شہید ہو جانے سے ان کے رشتہ داروں کو جس صدمے سے دو چار ہونا پڑتا تھا اس کی تلافی صرف یہ چیز کر سکتی تھی کہ گو مسلمانوں کو کئی قیمتی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا پھر بھی فتح کا شرف انہیں کے حصے میں آیا۔ عمرؓ بن خطاب کے صاحبزادے عبداللہ جنگ یمامہ میں بہادری کے عظیم کارنامے انجام دینے کے بعد مدینہ واپس آئے تو ان کے والد نے کہا:
’’ جب تمہارے چچا زید شہید ہو گئے تھے تو تم واپس کیوں آ گئے اور کیوں نہ اپنا چہرہ مجھ سے چھپا لیا؟‘‘
صرف عمرؓ ہی کا یہ حال نہ تھا بلکہ مکہ اور مدینہ کے سینکڑوں گھرانے اپنے بہادروں اور سپوتوں کی شہادت پر خون کے آنسو بہا رہے تھے۔
مکمل تحریر >>

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور مسیلمہ میں جنگ


مسیلمہ نے اپنا لشکر یمامہ کی ایک جانب عقرباء میں جمع کیا تھا اور سارا مال اسباب لشکر کے پیچھے رکھا تھا۔ اس کا لشکر بعض روایات کے مطابق چالیس ہزار اور بعض دوسری روایتوں کے رو سے ستر ہزار تھا۔ ایسے عظیم الشان لشکر کا ذکر عربوں نے اس سے پہلے بہت ہی کم سنا تھا۔
خالدؓ اسی روز، مسیلمہ کی فوج کے مقابلے میں آ گئے۔ دونوں لشکر میدان جنگ میں کھڑے آخری اعلان کے منتظر تھے۔ ہر ایک کویقین تھا کہ فتح مندی و کامرانی اسی کے حصے میں آئے گی اور وہ دوسرے لشکر کو تباہ و برباد کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنگ یمامہ کا دن اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسلام میں ایک منفرد دن ہے کیونکہ اس روز اسلام اور نبوت کا ذبہ کا آخری مقابلہ ہونے والا تھا۔
مسیلمہ کی طرف یمن ، عمان، مہرہ، بحرین، حضرت موت اور عرب کی جنوبی جانب، مکہ اور طائف سے خلیج عدن تک کے تمام علاقوں کے لوگوں کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ ایرانی بھی بڑی بے صبری سے اس جنگ کے نتیجے کے منتظر تھے۔ مسیلمہ کا لشکر اس پر کامل ایمان رکھتا تھا اور اس کی راہ میں کٹ مرنے کے لیے تیار تھا۔ علاوہ بریں حجاز اور عرب کے جنوبی علاقوں کی دیرینہ دشمنی بھی مسلمانوں کے خلاف اپنی ہیئت کے لحاظ سے کچھ کم طاقت ور نہ تھی۔ اس کے سپہ سالار خالد بن ولیدؓ تھے جو بلا شبہ اپنے زمانے کے سالار اعظم تھے۔ لشکر میں کلام اللہ کے حافظوں اور قاریوں کی بھی کمی نہ تھی۔ یہ تمام لوگ اس جذبے سے میدان جنگ میں آئے تھے کہ اللہ کے راستے میں جہاد اور اس کے دین کی مدافعت مومن کا فرض اولین ہے اور علم و بصیرت رکھنے والے کے لیے تو یہ فرض عین ہے۔ اس جذبے ان کے ولولوں اور امنگوں کو بہت بڑھا دیا تھا اور وہ تعداد میں مرتدین سے بہت کم ہونے کے باوجود عزم و ہمت میں ان سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھے۔
آغاز جنگ میں مسلمان بنی حنفیہ کے مقابلے میں ثابت قدم نہ رہ سکے اور پیچھے ہٹنے لگے۔ مسلمانوں نے پیچھے ہٹنے کے باوجود پہلے ہی ہلے میں بنی حنفیہ کے سینکڑوں آدمیوں کو قتل کر ڈالا تھا۔ ان قتل ہونے والوں میں سب سے پہلا شخص نہار الرجال تھا۔ جو بنی حنفیہ کے مقدمہ پر مقرر تھا۔ اسے حضرت عمرؓ کے بھائی زیدؓ بن خطاب نے قتل کیا تھا۔ اس کے قتل سے فتنہ مسیلمہ کے سب سے بڑے سرغنے کا خاتمہ ہو گیا۔
خالدؓ کی حکمت عملی:
لشکر اسلام کے پیچھے ہٹنے کے باوجود خالدؓ کے عزم و ثبات میں مطلق کمی نہ آئی اور انہیں ایک لمحے کے لیے بھی اپنی شکست کاخیال پیدا نہ ہوا۔ انہوں نے یہ بات بھانپ لی تھی کہ لشکر کے پیچھے ہٹنے کا سبب فخر و مباہات کا وہ جذبہ تھا جو مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں پیدا ہو گیا تھا اور جس کے باعث ان میں کمزوری راہ پا گئی تھی۔ یہ خیال آتے ہی انہوں نے پکار کر اپنے لشکر سے کہا:اے لوگو! علیحدہ علیحدہ ہو جاؤ اور اسی حالت میں دشمن سے لڑو تاکہ ہم دیکھ سکیں، کس قبیلے نے لڑائی میں بہادری کا سب سے اچھا مظاہرہ کیا۔
مجاہدین اسلام کا عزم و ثباتـ:
خالدؓ کے اس حکم کا خاطر خواہ اثر ہوا اور ہر قبیلے نے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر ثابت کرنے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے دشمن کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ آخر مسلمانوں کو بھی یہ احساس ہو گیا ہے انہوں نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے فخر و مباہات اور تعلی کا جو مظاہرہ کیا تھا وہ نامناسب تھا۔ چنانچہ انصار کے ایک سردار ثابت بن قیس نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
اے مسلمانو! تم نے بہت بری مثال قائم کی ہے۔
پھر اہل یمامہ کی طرف اشارہ کر کے کہا:
اے اللہ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں میں اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔
اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے میں اس سے بھی بیزاری کا اظہار کرتا ہو۔
اس کے بعد وہ تلوار سونت کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بڑی بہادری سے لڑنے لگے۔ وہ لڑتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے:
میری تلوار کا مزہ چکھو، میں تمہیں صبر و استقلال کا حقیقی نمونہ دکھاؤں گا۔
وہ اسی طرح بے جگری سے لڑتے رہے۔ ان کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں زخم نہ لگے ہوں۔ آخر اسی طرح لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔
براء بن مالک ان صنادید عرب میں سے تھے جو پیٹھ دکھانا جانتے ہی نہ تھے۔ جب انہوں نے مسلمانوں کو بھاگتے دیکھا تو وہ تیزی سے کود کر ان کے سامنے آ گئے اور کہا:
اے مسلمانو! میں براء بن مالک ہوں۔ میری پیروی کرو۔
مسلمان ان کی بہادری اور شجاعت سے خوب واقف تھے ان کی ایک جماعت براء کے ساتھ ہو لی۔ وہ اسے لے کر دشمن کے مقابلے میں آ گئے اور اس بہادری سے لڑے کہ دشمن کو پیچھے ہٹتے ہی بن پڑی۔
عین لڑائی کے دوران میں یہ اتفاق ہوا کہ سخت آندھی آ گئی اور ریت اڑ اڑ کر مسلمانوں کے چہروں پر پڑنے لگی۔ چند لوگوں نے اس پریشانی کا ذکر زیدؓ بن خطاب سے کیا اور پوچھا کہ اب کیا کریں۔ انہوں نے جواب میں کہا:
واللہ! میں آج کے دن اس وقت تک کسی سے بات نہ کروں گا جب تک دشمن کو شکست نہ دے لوں یا اللہ مجھے شہادت عطا نہ فرمائے اے لوگو! آندھی سے بچاؤ کی خاطر اپنی نظریں نیچی کر لو اور ثابت قدم رہ کر لڑو۔
یہ کہہ کر تلوار سونت لی اور دشمن کی صفوں میں گھس کر بے جگری سے لڑنے لگے۔ ان کا دستہ بھی ان کے پیچھے ثابت قدمی سے لڑ رہا تھا آخر ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پورے ہو گئے اور انہوں نے اسی طرح لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کیا۔
ابو حذیفہ پکار پکار کر کہہ رہے تھے:
اے اہل قرآن! اپنے افعال کے ذریعے سے قرآن کو عزت بخشو پھر خود بھی دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت کے بعد جھنڈا ان کے غلام سالم نے اٹھایا اور کہا:
اگر آج ثابت قدم نہ رہوں تو میں بدترین حامل قرآن ہوں گا۔
چنانچہ وہ بھی لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔
ان آوازوں نے جو ایمان و یقین سے بھرپور قلوب سے نکل رہی تھیں مسلمانوں کے لشکر میں بہادری کی ایک نئی روح پھونک دی۔ زندگی ان کی نظروں میں حقیر بن کر رہ گئی اور شہادت کی تمنا ہر دل میں چٹکیاں لینے لگی چنانچہ وہ بے جگری سے لڑے اور تھوڑی دیر میں مسیلمہ کے لشکر کو اس کی پہلی جگہ پر لا کھڑا کیا۔
جہاں مسلمان دین حق کی حفاظت اور حصول جنت کی خاطر لڑ رہے تھے وہاں مسیلمہ کا لشکر اپنے وطن، حسب و نسب اور ایسے کمزور عقیدے کی خاطر لڑ رہا تھا جو ان کے نزدیک وطن اور حسب و نسب سے بھی بہت کم درجے کا تھا۔ اسی لیے مسلمانوں نے بنو حنفیہ سے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور انتہائی بے جگری سے لڑے۔
مکمل تحریر >>

جنگِ یمامہ


مسیلمہ کے خلاف خالدؓ کی چڑھائی:
بطاح سے خالدؓ بن ولید اپنے لشکر اور ابوبکرؓ کی بھیجی ہوئی کمک لے کر بنی حنفیہ کے متنبی مسیلمہ بن حبیب سے جنگ کرنے کے لیے یمامہ روانہ ہوئے۔ جو کمک ابوبکرؓ نے بھیجی تھی وہ تعداد اور قوت میں خالدؓ کے اصل لشکر سے کم نہ تھی۔ اس میں ان مہاجرین اور انصار کے علاوہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفار سے لڑائیاں کی تھیں، ان قبائل کے لوگ بھی شامل تھے جن کا شمار عرب کے طاقتور اور جنگجو قبیلوں میں ہوتا تھا۔ انصار ثابت بن قیس اور براء بن مالک کے زیر سرکردگی تھے اور مہاجرین ابو حذیفہ بن عتبہ اور زید بن خطاب کے ماتحت۔ دوسرے قبائل میں سے ہر قبیلے کا سردار علیحدہ تھا جسے ابوبکرؓ نے اس کی حسن کارکردگی کے باعث اس عہدے پر مقرر فرمایا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ جنگ کے وقت چالیس ہزار بنو حنفیہ مسیلمہ کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہوں گے اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور اسلئے اس وقت مدینہ کی جانب سے بھی بہترین آدمیوں کو جو قیادت اور جنگ کا کامل تجربہ رکھتے ہوں، محاذ جنگ پر نہ بھیجا گیا تو ان مرتدین کا مقابلہ بے حد دشوار ہو جائے گا۔
ان لوگوں میں جنہیں ابوبکرؓ نے خالدؓ کی امداد کے لیے روانہ کیا تھا، قرآن مجید کے حافظوں اور قاریوں کی بھی بھاری تعداد شامل تھی۔ اسی طرح ایک خاص دستہ ان صحابہ کا تھا جنہوں نے جنگ بدرمیں حصہ لیا تھا۔ ایسا کرنا ابوبکرؓ کی اس پالیسی کے خلاف تھا جو انہوں نے اہل بدر کے متعلق وضع کی تھی۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں جنگوں میں اہل بدر کو استعمال نہ کروں گا یہاں تک کہ وہ اپنے نیک اعمال کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہو جائیں۔ لیکن اس موقع پر نازک صورتحال کے پیش نظر انہوں نے اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے اہل بدر اور دوسرے صحابہ کو جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی جنگوں میں حصہ لیا تھا، خالدؓ کی مدد کے لیے روانہ فرمایا کیونکہ یمامہ میں مسیلمہ کو خوب فروغ ہو چلا تھا اور وہ آسانی سے زیر ہونے والا نہ تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ یمامہ میں مسلمانوں کی کامیابی خالدؓ کا معمولی کارنامہ نہیں۔ یمامہ کی حالت دوسرے قبائل سے بالکل مختلف تھی۔ مدینہ کے قریبی مسائل میں سے جنہوں نے ابوبکرؓ کے خلیفہ بننے کے بعد مدینہ کا محاصرہ کرنا چاہا تھا، کوئی شخص نبوت کا مدعی نہ تھا اور زکوٰۃ کے معافی کے سوا انہیں اور کوئی خواہش نہ تھی۔ مزید برآں عدی بن حاتم اپنے قبیلے کو طلیحہ اسدی کی امداد سے باز رکھنے میں کامیاب ہو گئے تھے جس سے اس کے لشکر میں ابتری پھیل گئی اور وہ جم کر مسلمانوں کا مقابلہ نہ کر سکا۔ اس کے لشکر کے مفرورین ام زمل کے پاس جا کر اکٹھے ہوئے لیکن ایک ہزیمت خوردہ فوج سے مقابلے کی توقع عبث تھی۔ اس لیے ام زمل ک وبھی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
رہ گئے بنو تمیم تو ان میں خود تفرقہ پڑا ہوا تھا۔ مسلمانوں سے کیامقابلہ کر سکتے تھے!سجاح کے عزم اور ہمت کو مالک بن نویرہ نے متزلزل کر دیا اور اس نے مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ ہی ترک کر دیا تھا مالک بن نویرہ مسلمانوں سے اس قدر خوف زدہ تھا کہ وہ خالدؓ کے مقابلے میں آنے کی جرأت ہی نہ کر سکا۔
ان لوگوں کے بالمقابل مسیلمہ اور یمامہ میں اس کے پیروؤں کو اصلاً اس بات ہی سے انکار تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف بھی رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قریش کی طرح نبوت و رسالت پر ان کا بھی حق ہے۔ انہیں بھی عرب میں وہی درجہ حاصل ہے جو قریش کا ہے۔ انکا لشکر قریش کے لشکر سے کئی گنا بڑا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں کامل اتحاد پایا جاتا ہے۔ آپس کی مخالفت اور شکر رنجی بالکل مفقود ہے۔ عقیدے اور قبیلے کا اختلاف ان میں بالکل نہیں۔ ان وجوہ کی بنا پر وہ اپنے آپ کو بہت طاقتو رسمجھتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ وہ ابوبکرؓ کی فوجوں سے بڑی کامیاب ٹکر لے سکتے ہیں۔
عکرمہ کی ہزیمت:
ابوبکرؓ کی نظر میں یہ تمام باتیں پہلے ہی سے موجود تھیں اس لیے انہوں نے پوری کوشش کی کہ یمامہ کی جانب جو لشکر بھیجے جائیں وہ طاقتور ہوں ۔ مرتدین سے لڑنے کے لیے انہوں نے گیارہ لشکر تیار کیے تھے اور ہر لشکر کو علیحدہ علیحدہ قبیلے کی طرف بھیجا تھا۔ لیکن مسیلمہ کے بارے میں ایسا نہ ہوا بلکہ اس کی جانب انہوں نے عکرمہ بن ابوجہل کو بھیجا اور ان کے پیچھے پیچھے شرجیل بن حسنہ کو ایک لشکر دے کر ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا عکرمہ یمامہ کی جانب بڑھتے چلے گئے اور شرجیل کے پہنچنے کا انتظار نہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ مسیلمہ پر فتح یاب ہونے کا فخر تنہا انہیں کے حصے میں آئے۔ عکرمہ ایک تجربہ کار ماہر جنگ اور دشمن کو خاطر میں نہ لانے والے شہسوار تھے۔ ان کی فوج میں بڑے بڑے بہادر شامل تھے جو پچھلی جنگوں میں لوگوں پر اپنے کارناموں کی دھاک بٹھا چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ مسیلمہ کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکے اور بنو حنفیہ نے انہیں شکست دے کر پیچھے ہٹا دیا۔ عکرمہ نے اپنی ہزیمت کا سارا حال ابوبکرؓ کو لکھ بھیجا جسے پڑھ کر ان کے غصے کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے عکرمہ کو لکھا:
اے ابن ام عکرمہ! (عکرمہ کی ماں کے بیٹے) میں تمہاری صورت دیکھنے کا مطلق روادار نہیں۔ تم واپس آ کر لوگوں میں بد دلی پھیلانے کا باعث نہ ہو بلکہ حذیفہ اور عرفجہ کے پاس جا کر اہل عمان اور مہرہ سے لڑو۔ اس کے بعد یمن اور حضر موت جا کر مہاجر بن ابی امیہ سے مل جاؤ اور ان کے دوش بہ دوش مرتدین سے جنگ میں حصہ لو۔اس خط میں جو غیظ و غضب پنہاں ہے اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ ابن ام عکرمہ کا خطاب ہی اس غیظ و غضب کی صحیح کیفیت ظاہر کر رہا ہے۔
مسیلمہ کی قوت و طاقت بڑھ جانے اور اس کے مقابلے میں عکرمہ کے شکست کھانے کے باعث ابوبکرؓ کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ خالدؓ بن ولید کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے شرجیل بن حسنہ کو لکھا کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں، جب تک خالدؓ ان کے پاس نہ پہنچ جائیں مسیلمہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد (شرجیل) عمرو بن عاص کے پاس چلے جائیں اور شمالی حصے میں قضاعہ کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں۔
شرحبیل کی شکست:
ابھی خالدؓ یمامہ کے راستے ہی پر تھے کہ مسیلمہ کی فوجوں نے شرحبیل کی فوج سے ٹکر لی اور اسے پیچھے ہٹا دیا۔ بعض مورخین لکھتے ہیں کہ شرحبیل نے بھی وہی کیا جو اس سے پہلے عکرمہ کر چکے تھے یعنی وہ مسیلمہ پر فتح یابی کا فخر خود حاصل کرنے کے شوق میں آگے بڑھے۔ لیکن انہیں بھی شکست کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا۔ پھر بھی میرے خیال میں واقعہ اس طرح نہیں بلکہ خود یمامہ کے لشکر نے اس خیال سے کہ کہیں شرحبیل خالدؓ سے مل کر انہیں نقصان نہ پہنچائیں، اگے بڑھ کر لشکر پر حملہ کر دیا اور شکست دے کر اسے پیچھے ہٹا دیا۔ دونوں میں سے کوئی بات ہوئی ہو مگر واقعہ یہی ہوا کہ شرحبیل اپنا لشکر لے کر پیچھے ہٹ گئے۔
اب خالدؓ نے اپنے لشکروں کے ہمراہ یمامہ کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ مسیلمہ کو بھی ان کی نقل و حرکت کی تمام خبریں پہنچ رہی تھیں۔
مکمل تحریر >>

سجاح اور مسیلمہ کی شادی


اس واقعے کے بعد اہل جزیرہ کی فوج کے سردار ایک جگہ جمع ہوئے اور انہوں نے سجاح سے کہا:
اب آپ ہمیں کیا حکم دیتی ہیں؟ مالک اور وکیع نے اپنی قوم سے صلح کر لی ہے۔ نہ وہ ہمیں مدد دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ اس بات پر رضا مند کہ ہم ان کی سر زمین سے گزر سکیں۔ ان لوگوں سے بھی ہم نے یہ معاہدہ کیا ہے اور مدینہ جانے کے لیے ہماری راہ مسدود ہو گئی ہے۔ اب بتائیے ہم کیا کریں۔
سجاح نے جواب دیا:
اگر مدینہ جانے کی راہ مسدود ہو گئی ہے تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں، تم یمامہ چلو۔
انہوں نے کہا:
اہل یمامہ شان و شوکت میں ہم سے بڑھے ہوئے ہیں اور مسیلمہ کی طاقت و قوت بہت زیادہ ہو چکی ہے۔
ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ جب اس کے لشکر کے سرداروں نے سجاح سے آئندہ اقدام کے متعلق دریافت کیا تو اس نے جواب دیا:
علیکم بالیمامہ، ود فواد فیف الحماہم، فانھا غزوۃ صرامہ، لا یلحقکم بعدھا ندامہ
(یمامہ چلو۔ کبوتر کی طرح تیزی سے ان پر جھپٹو۔ وہاں ایک زبردست جنگ پیش آئے گی جس کے بعد تمہیں پھر کبھی ندامت نہ اٹھانی پڑے گی۔)
یہ مسجع و مقفی عبارت سننے کے بعد، جسے اس کے لشکر والے وحی خیال کرتے تھے، انہیں اس کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس نے کس مقصد کے لیے یمامہ کا قصد کیا جب خود اسے اپنی قوم بنو تمیم میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کے بعد مدینہ کی جانب کوچ کرتے ہوئے اوس بن خزیمہ کے ہاتھوں اسے شکست اٹھانی پڑی تھی۔ کیا اس کے لشکر میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو ان ناکامیوں کو دیکھنے کے بعد اسے یمامہ نہ جانے کا مشورہ دیتا؟ یا یہ خیال کیا جائے کہ اس کی وفات پر ان لوگوں کو اس درجہ یقین تھا کہ وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اس کی باتوں کو وحٰ خیال کرتے اور نہایت فرماں برداری سے اس کی اطاعت اور اس کے احکام کی تعمیل میں کوئی دقیقہ سعی و فروگزاشت نہ کرتے تھے؟

سچ تو یہ ہے کہ سجاح کا سارا قصہ ہی عجائب و غرائب کا مجموعہ ہے۔ مورخین ذکر کرتے ہیں کہ جب وہ اپنے لشکر کے ہمراہ یمامہ پہنچی تو مسیلمہ کو بڑا فکر پیدا ہوا۔ اس نے سوچا اگر وہ سجاع کی فوجوں سے جنگ میں مشغول ہو گیا تو اس کی طاقت کمزور ہو جائے گی، اسلامی لشکر اس پر دھاوا بول دے گا اور ارد گرد کے قبائل بھی اس کی اطاعت کا دم بھرنے سے انکار کر دیں گے۔ یہ سوچ کر اس نے سجاح سے مصالحت کرنے کی ٹھانی۔ پہلے اسے تحفے تحائف بھیجے پھر کہلا بھیجا کہ وہ خود اس سے ملنا چاہتا ہے۔ سجاح اپنا لشکر لیے پانی کے ایک چشمے پر مقیم تھی، اس نے مسیلمہ کو باریابی کی اجازت دے دی۔ یہ مسیلمہ بنی حنیفہ کے چالیس آدمیوں کے ہمراہ اس کے پاس آیا۔ کیمپ میں پہنچ کر خلوت میں اس سے تملق آمیز گفتگو کی اور کہا کہ عرب کی آدھی زمین کے مالک قریش ہیں اور آدھی زمین کی مالک تم ہو۔ اس کے بعد مسیلمہ نے کچھ مسجع و مقفی عبارتیں سجاح کو سنائیں جن سے وہ بہت متاثر ہوئی۔ سجاح نے بھی جواب میں اسے اسی قسم کی بعض عبارتیں سنائیں یہ ملاقات خاصی دیر تک جاری رہی۔ مسیلمہ نے اپنی خوش کلامی اور چال بازی سے سجاح کا دل موہ لیا اور سجاح کو اقرار کرتے ہی بن پڑی کہ مسیلمہ اس سے ہر طرح فائق ہے۔
سجاح کو پوری طرح اپنے قبضے میں لینے اور ہم نوا بنانے کے لیے مسیلمہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم دونوں اپنی نبوتوں کو یکجا کر لیں اور باہم رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں۔ سجاح نے جو پہلے ہی اس کی خوش کلامی اور محبت آمیز باتوں سے مسحور ہو چکی تھی، نہایت خوشی سے یہ مشورہ قبول کر لیا اور مسیلمہ کے ساتھ اس کے کیمپ میں چلی گئی۔ تین روز تک وہاں رہی، اس کے بعد اپنے لشکر میں واپس آئی اور ساتھیوں سے ذکر کیا کہ اس نے مسیلمہ کو حق پر پایا ہے اس لیے اس سے شادی کر لی ہے۔
سجاح کا مہر
لوگوں نے اس سے پوچھا آپ نے کچھ مہر بھی مقرر کیا؟ اس نے کہا مہر تو مقرر نہیں کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا۔ آپ واپس جائیے اور مہر مقرر کر آئیے کیونکہ آپ جیسی شخصیت کے لیے مہر لیے بغیر شادی کرنا زیبا نہیں۔ چنانچہ وہ مسیلمہ کے پاس واپس گئی اور اسے اپنی آمد کے مقصد سے آگاہ کیا۔ مسیلمہ نے اس کی خاطر عشاء اور فجر کی نمازوں میں تخفیف کر دی۔ مہر کے بارے میں یہ تصفیہ ہوا کہ مسیلمہ یمامہ کی زمینوں کے لگان کی نصف آمدنی سجاح کو بھیجا کرے گا۔ سجاح نے یہ مطالبہ کیا کہ وہ آئندہ سال کی نصف آمدنی میں سے اس کا حصہ پہلے ہی ادا کر دے ۔ اس پر مسیلمہ نے نصف سال کی آمدنی کا اسے دے دیا جسے لے کر وہ جزیرہ واپس چلی گئی۔ بقیہ نصف سال کی آمدنی کے حصول کے لیے اس نے اپنے کچھ آدمیوں کو بنو حنفیہ ہی میں چھوڑ دیا۔ وہ ابھی وہیں مقیم تھے کہ اسلامی لشکر آ پہنچا اور مسیلمہ سے جنگ کر کے اس کاکام تمام کر دیا۔ سجاح بد ستور بنو تغلب میں مقیم رہی یہاں تک کہ امیر معاویہ نے قحط والے سال (عام المجاعہ) اسے اس کی وم کے ساتھ بنو تمیم میں بھیج دیا جہاں وہ وفات تک مسلمان ہونے کی حالت میں مقیم رہی۔
یہ ہے سجاح کا قصہ ہے اور۔۔۔ جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔۔۔۔ بہت ہی عجیب قصہ ہے۔ وہ جزیرہ سے ابوبکرؓ کے مقابلے کو روانہ ہوتی ہے لیکن مالک بن نویرہ سے بات چیت کے بعد اس کی رائے بدل جاتی ہے اور وہ مدینہ پر ہلہ بولنے کے بجائے یمامہ کا رخ کرتی ہے۔ وہاں مسیلمہ سے اس کی ملاقات ہوتی ہے اور ان دونوں کی شادی ہو جاتی ہے۔ شادی کے فوراً بعد وہ اپنے قبیلے میں لوٹ آتی ہے اور بقیہ ساری عمر اس طرح بسر کرتی ہے جیسے کبھی وہ اپنے قبیلے سے باہر نکلی ہی نہ تھی اور اپنے پہلے خاوند کے سوا کسی سے شادی کی ہی نہ تھی۔
مسیلمہ کا معاملہ بھی سجاح کے معاملے سے کم تر نہیں۔ اگر سجاح سے اس کی شادی کا قصہ درست ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسیلمہ اول درجے کا سیاست دان اور لوگوں کے دلی جذبات بھانپ لینے والا شخص تھا۔ اس نے چاہا کہ وہ اس طرح سجاح سے چھٹکارا حاصل کرے تاکہ ابوبکرؓ کی بھیجی ہوئی افواج کا مقابلہ دل جمعی سے کیا جا سکے۔ اس نے سجاح کو میٹھی میٹھی اور چکنی چپڑی باتوں سے رام کر لیا اور چال بازی سے کام لے کر اسے اس کے قبیلے میں واپس بھیج دیا۔ مالک بن نویرہ اور مسیلمہ کے ساتھ سجاح کے تعلقات جس قسم کے رہے ان پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ سجاح ایک ہوشیار کاہنہ، مسجع مقفی عبارتیں بنانے میں ماہر، بہت نرم طبیعت اور نسوانی خصوصیات کی پوری طرح حامل تھی۔ ادھر مسیلمہ بھی ایک ہوشیار سیاست دان تھا۔ وہ خوبصورت نہ تھا لیکن میٹھی میٹھی باتوں سے لوگوں کے دل موہ لیتا تھا۔ عورتوں سے اسے بہت کم رغبت تھی اور عورت کا حسن و جمال اس پر مطلق اثر نہ کرتا تھا۔ اسی وجہ سے اس نے اپنی شریعت میں یہ بات رکھ دی تھی کہ جس شخص کے بیٹا پیدا ہو اس کے لیے اس وقت تک اپنی بیوی کے پاس جانا ناجائز ہے جب تک وہ بیٹا زندہ ہے۔ اگر بیٹا مر جائے تو دوسرے بیٹے کے حصول کے لیے بیوی کے پاس جا سکتا ہے لیکن جس کا بیٹا موجود ہو اس کے لیے عورتیں حرام ہیں۔
مکمل تحریر >>

سجاح اور مالک بن نویرہ


بنو عامر اور ان کے مسکن:
عرب کے جنوبی حصے میں بنی تمیم کے قبائل بنی عامر کے قریب ہی آباد تھے۔ یہ قبائل مدینہ سے جانب شرق خلیج فارس تک پھیلتے چلے گئے تھے اور شمال مشرق میں ان کی حدود دریائے فرات کے دہانے تک تھیں۔ بنو تمیم کو عہد جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں قبائل عرب کے درمیان خاص مقام حاصل تھا۔ یہاں کے لوگ شجاعت اور سخاوت میں مشہور تھے اور شاعری اور فصاحت و بلاغت میں بھی یہ دوسرے قبائل سے کسی طرح کم نہ تھے۔ چنانچہ اب ایک تاریخ اور ادب کی کتابوں میں اس قبیلے کی شاخوں: بنی حنظلہ، دارم، بنی مالک اور بنی یربوع کے کارناموں کا ذکر محفوظ چلاتا ہے۔
چونکہ یہ قبائل دریائے فرات اور خلیج فارس تک آباد تھے۔ اس لیے ایرانیوں سے بھی ان کا تعلق تھا۔ یہ لوگ زیادہ قبر پرست تھے اگرچہ ان میں سے بہت سے عیسائی بھی ہو گئے تھے۔ دوسرے قبائل کی طرح یہ بھی مسلمانوں کی بالا دستی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محصلین کو ان قبائل سے جزیہ وصول کرنے کی غرض سے بھیجا تو سب سے پہلے بنو تمیم نے جزیہ دینے سے انکار کیا اور بنو العنبر تو تلواریں اور نیزے لے کر محصل کا استقبال کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عینیہ بن حصن کو ان کی طرف بھیجا جنہوں نے ان قبائل کو بزور مطیع کیا اور کئی لوگوں کو گرفتار کر کے اپنے ہمراہ لے آئے۔ اس پر ان کا ایک وفد مدینہ آیا اور مسجد نبوی میں داخل ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے میں تشریف فرما تھے۔ ان لوگوں نے با آواز بلند اپنی شرافت، عزت اور حسب و نسب کا واسطہ دے کر اور جنگ حنین کے واقعات کا ذکر کر کے اپنے قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آوازیں سن کر باہر تشریف لے آئے۔ انہوں نے کہا ہم آپ سے فخر و مباہات میں مقابلہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کا خطیب ان کے خطیب سے زیادہ فصیح و بلیغ ، مسلمانوں کا شاعر ان کے شاعر سے زیادہ سحر بیان اور مسلمانوں کی گفتگو ان کی گفتگو سے زیادہ شیریں ہے تو یہ لوگ اسلام لے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قیدی رہا کر دئیے اور یہ انہیں اپنے ہمراہ لے کر خوشی خوشی واپس چلے گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی تمیم کی مختلف شاخوں کے لیے مختلف امیر مقرر فرمائے تھے۔ ان میں مالک بن نویرہ بھی تھا جو بنی یربوع کا سردار تھا۔ جب ان عمال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات سنی تو ان میں اختلاف پیدا ہوا کہ آیا ابوبکرؓ کی خدمت میں زکوٰۃ بھیجی جائے یا خاموشی اختیار کی جائے۔ اس اختلاف نے یہاں تک شدت اختیار کی کہ آپس ہی میں سخت لڑائی ہونے لگی۔ ایک فریق مدینہ کا تسلط قبول کرنے کو تیار تھا لیکن دوسرے فریق کو اس سے انکار تھا اور وہ ابوبکرؓ کو زکوٰۃ بھیجنے پر آمادہ نہ تھا۔ مالک بن نویرہ موخر الذکر فریق سے تعلق رکھتا تھا۔
ابھی ان اعمال میں یہ اختلاف برپا ہی تھا کہ سجاح بنت حارث عراق کے علاقے الجزیرہ سے اپنے قبیلے تغلب کے ہمراہ پہنچی۔ تغلب کے علاوہ اس کے ساتھ ربیعہ، نمر، ایاد اور شیبان کے لوگوں پر مشتمل ایک لشکر بھی تھا۔ سجاح اصل میں بنی تمیم کی شاخ بنو یر بوع سے تعلق رکھتی تھی۔ لیکن اس کی ننھیال عراق کے قبیلہ تغلب میں تھی۔ اس کی شادی بھی بنو تغلب ہی میں ہوئی تھی اور یہ وہیں رہتی تھی۔ یہ بڑی ذکی اور فہیم عورت تھی اور اسے کہانت کا دعویٰ بھی تھا۔ لوگوں کی قیادت اور رہبری کا فن اسے خوب آتا تھا۔ جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات ملی تو اس نے نواحی قبائل کا دورہ کیا اور انہیں مدینہ پر ہلہ بولنے کے لیے آمادہ کرنے لگی۔
سجاح کے آنے کی غرض:
بعض مورخین کہتے ہیں اور اپنے خیال میں وہ درست کہتے ہیں کہ سجاح کسی ذاتی لالچ اور کہانت کا کاروبار وسیع کرنے کے لیے شمالی عراق سے سر زمین عرب میں نہ ہوئی تھی بلکہ اصل میں وہ عراق کے ایرانی عمال کی انگیخت پر یہاں آئی تھی تاکہ فتنہ و فساد پھیلا سکے۔ اور اس شورش سے فائدہ اٹھا کر اہل ایران اپنے روبہ انحطاط اقتدار کو سنبھالا دے سکیں جو یمن میں دربار ایران کے مقرر کردہ ایک عامل بدبان کے اسلام لانے کے بعد سے گرنا شروع ہوگیا تھا۔
مذکورہ بالا مورخین اپنی تائید میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سجاح واحد عورت تھی جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اس جیسی ہوشیار اور ذکی و فہیم عورتیں ہی اکثر اوقات جاسوسی اور لوگوں کو ورغلانے اور پھسلانے کے کام پر مامور کی جاتی ہیں۔ چنانچہ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ یہ عرب میں اس وقت تک ٹھہری رہی جب تک اس کی کوششوں سے فتنہ و فساد او ربغاوت کی آگ پورے زور سے نہ بھڑک اٹھی۔ جب ا س کا مقصد پورا ہو گیا تو یہ عراق واپس چلی آئی اور بقیہ عمر سکون و اطمینان سے بسر کی۔
ایرانیوں کی سرشت کو دیکھتے ہوئے کوئی تعجب نہیں کہ انہوں نے اسے بلاد عرب میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے کے لیے آلہ کار بنایا ہو اور یہ خیال کیا ہو، بجائے اس سے کہ عرب پر چڑھائی کرنے کے لیے ایرانی فوج روانہ کی جائے، اس ہوشیار عورت کے ذریعے سے خود عربوں کو ایک دوسرے سے بھڑا کر ان کی طاقت ختم کر دی جائے تاکہ کسی محنت و مشقت کے بغیر جزیرہ نما پر دوبارہ تسلط بٹھا سکیں۔
بنی تمیم کا طرز عمل:
سجاح ان عوامل سے متاثر ہو کر جزیرہ عرب میں داخل ہوئی۔ یہ طبعی امر تھا کہ وہ سب سے پہلے اپنی قوم بنو تمیم میں پہنچی۔ بنی تمیم کا اس وقت جو حال تھا۔ وہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ ایک گروہ زکوٰۃ ادا کرنے اور خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے پر آمادہ تھا لیکن دوسرا فریق اس کی سخت مخالفت کر رہا تھا۔ ایک تیسرا فریق تھا جس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے، اور کیا نہ کرے۔
اس اختلاف نے اتنی شدت اختیار کی کہ بنو تمیم نے آپس ہی میں لڑنا اور جدال و قتال کرنا شروع کر دیا۔ اسی اثناء میں ان قبائل نے سجاح کے آنے کی خبر سنی اور انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ سجاح مدینہ پہنچ کر ابوبکرؓ کی فوجوں سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پھر تو اس اختلاف نے مزید وسعت اختیار کر لی۔
سجاح اس ارادے سے بڑھی چلی آ رہی تھی کہ وہ اپنے عظیم الشان لشکر کے ہمراہ اچانک بنو تمیم میں پہنچ جائے گی اور اپنی نبوت کا اعلان کر کے انہیں اپنے آپ پر ایمان لانے کی دعوت دے گی۔سارا قبیلہ بالاتفاق اس کے ساتھ ہو جائے گا اور عینیہ کی طرح بنو تمیم بھی اس کے متعلق یہ کہنا شروع کردیں گے کہ بنو یربوع کی نبیہ، قریش کے نبی سے بہتر ہے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور سجاح زندہ ہے۔ اس کے بعد وہ بنو تمیم کو ہمراہ لے کر مدینہ کی طرف کوچ کرے گی اور ابوبکرؓ کے لشکر سے مقابلے کے بعد فتح یاب ہو کر مدینہ پر قابض ہو جائے گی۔
سجاح اور مالک بن نویرہ:
سجاح اپنے لشکر کے ہمراہ بنو یربوع کی حدود پر پہنچ کر ٹھہر گئی اور قبیلے کے سردار مالک بن نویرہ کو بلا کر مصالحت کرنے اور مدینہ پر حملہ کرنے کی غرض سے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔۔۔ مالک نے صلح کی دعوت تو قبول کر لی لیکن اس نے مدینہ پر چڑھائی کے ارادے سے باز رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مدینہ پہنچ کر ابوبکرؓ کی فوجوں کا مقابلہ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ اپنے قبیلے کے مخالف عنصر کا صفایا کر دیا جائے۔ سجاح کو بھی یہ بات پسند آئی اور اس نے کہا:
جو تمہاری مرضی۔ میں تو بنی یربوع کی ایک عورت ہوں۔ جو تم کہو گے وہی کروں گی۔
سجاح نے مالک کے علاوہ بنو تمیم کے دوسرے سرداروں کو بھی مصالحت کی دعوت دی۔ لیکن وکیع کے سوا کسی نے یہ دعوت قبول نہ کی۔ اس پر سجاع نے مالک، وکیع اور اپنے لشکر کے ہمراہ دوسرے سرداروں پر دھاوا بول دیا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں جانبین کے کثیر التعداد آدمی قتل ہوئے اور ایک ہی قبیلے کے لوگوں نے ایک دوسرے کو گرفتار کر لیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد مالک اور وکیع نے یہ محسوس کیا کہ انہوں نے اس عورت کی اتباع کر کے سخت غلطی کی ہے۔ اس پر انہوں نے دوسرے سرداروں سے مصالحت کر لی اور ایک دوسرے کے قیدی واپس کر دئیے۔ اس طرح قبلہ تمیم میں امن قائم ہو گیا۔
سجاح کی شکست:
اب یہاں سجاح کی دال گلنی مشکل تھی۔ اس نے بنو تمیم سے بوریا بستر اٹھایا اور مدینہ کی جانب کوچ کر دیا۔ نباج کی بستی پر پہنچ کر اوس بن خزیمہ سے اس کی مٹ بھیڑ ہوئی جس میں سجاح نے شکست کھائی اور اوس بن خزیمہ نے اس طرح پر اسے واپس جانے دیا کہ اس امر کا پختہ اقرار کرے، وہ کبھی مدینہ کی جانب پیش قدمی نہ کرے گی۔
مکمل تحریر >>

ام زمل کا خروج


جب لوگوں میں یہ خبریں مشہور ہوئیں کہ ابوبکرؓ بالعموم ایسے لوگوں کے متعلق عفو و در گزر سے کام لے رہے ہیں جو مرتد ہونے کے بعد اسلام لے آتے ہیں تو ان قبائل کا جوش و خروش ٹھنڈا ہو گیا جنہوں نے طلیحہ کی مدد کی تھی اور وہ بھی رفتہ رفتہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ لیکن غطفان، طئی، سلیم اور ہوازن کے بعض لوگ جنہوں نے بزاخہ میں خالدؓ کے ہاتھوں شکست کھائی تھی، بھاگ کر ام زمل سلمیٰ بنت مالک کے پاس پہنچے اور وعدہ کیا کہ اس کے ساتھ مسلمانوں سے جنگ کریں گے اور جانیں قربان کر دیں گے لیکن پیچھے نہ ہٹیں گے۔ لاریب یہ مفررین اتنے آتش زیر پا تھے کہ مسلمانوں کے خلاف ان کا جوش و خروش نہ ان کی عبرت ناک شکست ٹھنڈا کر سکی اور نہ ابوبکرؓ کا عفو و در گزر ان پر کچھ اثر کر سکا اور وہ ایک بار پھر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے جمع ہو گئے۔ اگر مسلمانوں سے ان کی نفرت اوران کے خلاف سخت غیظ و غضب کا جذبہ ان کے دلوں میں موجزن نہ ہوتا تو طلیحہ کے بزدلانہ فرار اور اس کے کذب و افتراء کا حال ظاہر ہو جانے کے بعد وہ ضرور خالدؓ کی اطاعت قبول کر لیتے۔ ام زمل بھی مسلمانوں سے خار کھائے بیٹھی تھی اور اس کے دل پر ایک ایسا چرکا لگا ہوا تھا جو مرور زمانہ کے باوجود مندمل نہ ہو سکا تھا۔ اسلئے طبعی امر تھا کہ بزاخہ کا شکست خوردہ لشکر ام زمل کے پاس جمع ہوتا اور اپنے مقتولین کا انتظام لینے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرتا۔
ام زمل ام قرفہ کی بیٹی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قتل کر دی گئی تھی۔ یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ زید بن حارثہ بنی فزارہ کی جانب گئے۔ وادی القریٰ میں ان کا سامنا بنی فزارہ کے چند لوگوں سے ہوا۔ انہوں نے زید کے ساتھیوں کو قتل کر دیا اور خود انہیں گہرا زخم پہنچایا۔ وہ اسی حالت میں مدینہ پہنچے۔ا ن کے زخم مندمل ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک لشکر کے ہمراہ دوبارہ بنی فزارہ کی جانب روانہ فرمایا۔ اس مرتبہ زید کے لشکر کو کامیابی ہوئی۔ بنی فزارہ کے اکثر آدمی قتل یا مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔ ان قیدیوں میں ام قرفہ فاطمہ بنت بدر بھی تھی۔ چونکہ اس نے اپنی قوم کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر انہیں مقابلے کے لیے تیار کیاتھا اس لیے اس جرم کی پاداش میں اسے قتل کر دیا گیا اور اس کی بیٹی ام زمل کو لونڈی بنا لیا گیا۔ یہ عائشہ صدیقہؓ کے حصے میں آئی لیکن انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔ کچھ عرصے تک تو یہ عائشہؓ ہی کے پاس رہی پھر اپنے قبیلے میں واپس چلی آئی۔ والدہ کے قتل نے اس کے دل میں انتقام کی آگ بھڑکا دی تھی چنانچہ وہ اس انتظار میں رہی کہ موقع ملنے پر مسلمانوں سے اس قتل کا بدلہ لے۔ فتنہ ارتداد نے اس کے لیے یہ موقع جلد بہم پہنچا دیا اور وہ بزاخہ کے ہزیمت خوردہ لشکر کو ساتھ لے کر مسلمانوں کے بالمقابل میدان میں نکل آئی۔
اس کی والدہ ام قرفہ اپنی قوم میں بڑی عزت اور شان کی مالک تھی۔ وہ عینیہ بن حصن کی چچی اور مالک بن حذیفہ کی بیوی تھی۔ اس کے بیٹوں کا شمار بھی بنی فزارہ کے معزز ترین افراد میں ہوتا تھا۔ اس کے پاس ایک جنگی اونٹ تھا جس پر سوار ہو کر وہ دوسرے قبائل سے لڑنے کے الیے اپنی قوم کے آگے چلا کرتی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد یہ اونٹ ام زمل کے حصے میں آیا۔
عزت و افتخار میں ام زمل بھی اپنی والدہ کی ہم پلہ تھی اور اس کا مرتبہ اپنی قوم میں وہی تھا جو اس کی والدہ کا تھا۔ جب ابوبکرؓ اور خالدؓ کے مقابلے میں شکست کھانے والے مفرورین ام زمل کے گرد جمع ہوئے تو اس نے ان کی ہمت بندھا کر انہیں ایک بار پھر خالدؓ کی فوج سے ٹکر لینے کے لیے تیار کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ اور لوگ بھی اس کے گرد جمع ہوتے گئے اور اس کی قوت و طاقت میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ جب خالدؓ کو اس کا پتا چلا تو وہ بزاخہ سے اس لشکر کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے۔
دونوں فوجیں میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوئیں اور لڑائی شروع ہو گئی۔ ام زمل اونٹ پر سوار اشتعال انگیز تقریروں سے برابر فوج کو جوش دلا رہی تھی۔ مرتدین بھی بڑی بہادری سے جان توڑ کر لڑ رہے تھے۔ ام زمل کے اونٹ کے گرد سو اونٹ اور تھے۔ جن پر بڑے بڑے بہادر سوار تھے اور وہ بڑی پامردی سے ام زمل کی حفاظت کر رہے تھے۔
مسلمان شہسواروں نے ام زمل کے پاس پہنچنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن اس کے محافظوں نے ہر بار انہیں پیچھے ہٹا دیا۔ پورے سو آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد مسلمان ام زمل کے اونٹ کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔ وہاں پہنچتے ہی انہوں نے اونٹ کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور ام زمل کو نیچے گرا کر قتل کر ڈالا۔ اس کے ساتھیوں نے جب اس کے اونٹ کو گرتے اور اسے قتل ہوتے دیکھا تو ان کی ہمت نے جواب دے دیا اور بد حواس ہو کر بے تحاشا میدان جنگ میں بھاگنے لگے۔ اس طرح اس فتنے کی آگ ٹھنڈی ہو گئی اور جزیرہ نمائے عرب کے شمال مشرقی حصے میں ارتداد کا خاتمہ ہو گیا۔

جنوبی حصے کے مرتدین:
ابوبکرؓ نے جس اولو العزمی سے شمال مشرقی عرب کی بغاوتوں کو فرو کیا تھا اس کا تقاضا یہ تھا کہ باقی حصے اس عبرت حاصل کرتے اور اسلامی حکومت کی مخالفت سے باز آ جاتے۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ابوبکرؓ کے بھیجے ہوئے لشکر انتہائی نامساعد حالات میں بھی دار الخلافہ سے سینکڑوں میل دور جانے اور دشمن کو زیر کرنے میں دریغ نہ کرتے۔ انہیں خالدؓ بن ولید کی فتح یابی اور طلیحہ کے انجام کی بھی تمام خبریں معلوم ہو چکی تھیں۔ لیکن ان سب امور کے باوجود انہوں نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
شمالی حصے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ابوبکرؓ نے جنوبی حصے پر توجہ مبذول کی جہاں کے لوگ بدستور حالت ارتداد پر قائم تھے اور کسی طرح بھی اسلام قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ ان لوگوں سے عہدہ برآ ہونے اور انہیں راہ راست پر لانے کے لیے ابوبکرؓ نے خالدؓ کو بزاخہ سے بطاح اور وہاں سے یمامہ جانے کا حکم دیا۔
مکمل تحریر >>

مرتد قیدیوں کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی معافی


خالدؓ کے برعکس ابوبکرؓ نے ان قیدیوں پر سختی نہ کی جو میدان جنگ سے پابجولاں مدینہ پہنچے تھے۔ عینیہ بن حصن مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا اور طلیحہ کی فوج میں شامل ہو کر مسلمانوں سے جنگ کر چکا تھا۔ وہ قرہ بن ہبیرہ کے ساتھ قید ہو کر مدینہ آیا اس کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ مدینہ کے لڑکے اسے کھجور کی شاخوں سے مارتے اور کہتے تھے:
اے اللہ کے دشمن! تو ہی ایمان لانے کے بعد کافر ہو گیا تھا؟
عینیہ جواب دیتا:
میں تو کبھی اللہ پر ایمان نہیں لایا۔
لیکن اس کے باوجود ابوبکرؓ نے اس کی جاں بخشی کر دی اور اسے کچھ نہ کہا، بعض روایتوں کے مطابق اس نے نہایت گستاخی کا اظہار کیا جسکی بنیاد پر قتل کردیاگیا۔

قرہ بن ہبیرہ:
قرہ بن ہبیرہ بنو عامر سے تعلق رکھتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عمرو بن عاص عمان سے مدینہ آتے ہوئے راستے میں اس کے پاس ٹھہرے تھے۔ اس وقت بنو عامر ارتداد کے لیے پر تول رہے تھے۔ جب عمروؓ بن عاص نے وہاں سے کوچ کرنے کا ارادہ کیا تو قرہ نے علیحدہ میں ان سے مل کر کہا:
عرب تمہیں تاوان (زکوٰۃ) دینے پر ہرگز راضی نہ ہوں گے۔ اگر تم ان کے اموال انہیں کے پاس رہنے دو اور ان پر زکوٰۃ عائد نہ کرو تو وہ تمہاری باتیں ماننے اور اطاقت قبول کرنے پر رضا مند ہو جائیں گے۔ لیکن اگر تم نے انکار کیا تو پھر وہ ضرور تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
یہ سن کر عمرو بن عاص نے جواب دیا:
اے قرہ! کیا تو کافر ہو گیا ہے اور ہمیں عربوں کا خوف دلاتا ہے؟
جب قرہ اسیر ہو کر مدینہ آیا اور ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو اس نے کہا:
اے خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں تو مسلمان ہوں اور میرے اسلام پر عمرو بن عاص گواہ ہیں۔ وہ مدینہ آتے ہوئے ہمارے قبیلے میں سے گزرے تھے۔ میں نے انہیں اپنے پاس ٹھہرایا تھا اور بڑی خاطر تواضع کی تھی۔
ابوبکرؓ نے عمروؓ بن عاص کو بلایا اور ان سے قرہ کی باتوں کی تصدیق چاہی۔ عمرو بن عاص نے سارا واقعہ بیان کرنا شروع کیا۔ جب وہ زکوٰۃ کی بات پر پہنچے تو قرہ کہنے لگا:
عمروؓ بن عاص اس بات کو جانے دو۔
عمروؓ بن عاص نے کہا:
کیوں؟ واللہ! میں تو سارا حال بیان کروں گا۔
جب وہ بات ختم کر چکے تو ابوبکرؓ مسکرائے اور قرہ کی جان بخشی کر دی۔

علقمہ بن علاثہ:
عفو و در گزر کی یہ پالیسی ابوبکرؓ کی جانب سے کمزوری کی آئینہ دار تھی بلکہ اس سے صرف وہ جوش و خروش اس انداز سے سرد کرنا مقصود تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ ہو۔ لیکن جہاں معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تک پہنچتا وہاں ابوبکرؓ کسی قسم کی نرمی ہرگز گوارا نہ کر سکتے تھے۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے چند مثالیں کافی ہوں گی۔
بنی کلب کے ایک شخص علقمہ بن علاثہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا لیکن آپ کی زندگی ہی میں مرتد ہو گیا اور شام چلا گیا۔ آپ کی وفات کے بعد وہ اپنے قبیلے میں واپس آیا اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری کرنے لگا۔ ابوبکرؓ نے خبر پا کر قعقاع بن عمرو کو اس کے مقابلے کے لیے بھیجا لیکن مقابلے کی نوبت آنے سے پیشتر ہی عقلمہ فرار ہو گیا۔ا س کی بیوی، بیٹیاں اور دوسرے ساتھی اسلام لے آئے اور اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ بعد میں علقمہ بھی تائب ہو کر ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے اس کی توبہ قبول کر لی اور جان بخشی کر دی کیونکہ اس نے نہ مسلمانوں سے جنگ کی تھی اور نہ کسی مسلمان کو قتل کیا تھا۔

فجاۂ ایاس:
لیکن اس کے مقابل انہوں نے فجاۂ ایاس بن عبد یا لیل کے عذرات قبول نہ کیے اور نہ اس کی جان بخشی ہی کی۔ یہ شخص ابوبکرؓ کے پاس آیا اور ان سے عرض کی کہ آپ مجھے کچھ ہتھیار دیجئے، میں جس مرتد قبیلے سے آپ چاہیں گے لڑنے کے لیے تیار ہوں۔ انہوں نے اسے ہتھیار دے کر ایک قبیلے سے لڑنے کا حکم دیا۔ لیکن فجاۂ نے وہ ہتھیا ر قبیلہ سلیم، عامر اور ہوازن کے مسلمانوں اور مرتدین دونوں کے خلاف استعمال کیے اور کئی مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ اس پر ابوبکرؓ نے طریفہ بن حاجز کو ایک دستے کے ہمراہ فجاۂ کی جانب بھیجا۔ لڑائی میں فجاۂ گرفتار ہوا اور طریفہ اسے اپنے ہمراہ مدینہ لے آئے۔ ابوبکرؓ نے اسے جلا دینے کا حکم دیا۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر فجاۂ مسلمانوں کو قتل نہ کرتا تو اسے اتنی ہولناک سزا نہ دی جاتی جس پر بعد میں ابوبکرؓ کو افسوس بھی ہوا۔

ابو شجرہ:
اسی ضمن میں ابو شجرہ بن عبدالعزیٰ کا واقعہ بیان کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ واقعہ عینیہ، قرہ اور علقمہ کے واقعات سے بڑی حد تک مشابہت رکھتا ہے۔ ابو شجرہ، مشہور شاعرہ خنسا کا بیٹا تھا جس نے اپنے بھائی صخر کی یاد میں بڑے دل دوز مرثیے کہے ہیں۔ ابو شجرہ اپنی والدہ کی طرح شاعر تھا۔ وہ مرتدین سے مل گیا اور ایسے شعر کہنے لگا جن میں اپنے ساتھیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جاتا تھا اور ان سے لڑنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ چنانچہ منجملہ اور اشعار کے اس کا ایک شعر یہ بھی تھا:
فرویت رمحی من کتیبۃ خالد
وانی لارجو بعدھا ان اعمرا
(میں نے اپنا نیزہ خالدؓ کے لشکر کے خون سے سیراب کر دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی میں اسی طرح کرتا رہوں گا۔)
لیکن جب اس نے دیکھا کہ خالد کے خلاف ترغیب و تحریض بار آور ثابت نہیں ہوئی اور لوگ برابر اسلام قبول کر رہے ہیں تو وہ بھی اسلام لے آیا۔ ابوبکرؓ نے اس کی بھی جان بخشی کر دی اور اسے معاف کر دیا۔
عمرؓ کے عہد خلافت میں ایک دفعہ ابو شجرہ ان کے پاس آیا۔ وہ اس وقت زکوٰۃ کا مال غرباء میں تقسیم کر رہے تھے۔ ابو شجرہ نے کہا:
امیر المومنین! مجھے بھی کچھ دیجئے کیونکہ میں حاجت مند ہوں۔
عمرؓ نے پوچھا: تو کون ہے؟
جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ ابو شجرہ ہے تو فرمایا:
اے اللہ کے دشمن! کیا تو وہی نہیں جس نے کہا تھا:
فرویت رمحی من کتیبۃ خالد
وانی لارجو بعدھا ان اعمرا
اس کے بعد انہوں نے اسے درے مارنے کا حکم دیا مگر وہ بھاگ کر اونٹنی پر سوار ہو کر اپنی قوم بنو سلیم میں آ گیا۔
مکمل تحریر >>