Thursday 7 May 2015

پہلے مہاجر


جب دوسری بیعت عقبہ مکمل ہوگئی۔ اسلام ، کفر وجہالت کے لق ودق صحرا میں اپنے ایک وطن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگیا -- اور یہ سب سے اہم کامیابی تھی جو اسلام نے اپنی دعوت کے آغاز سے اب تک حاصل کی تھی -- تو رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ اپنے وطن کی طرف ہجرت کرجائیں۔
ہجرت کے معنی یہ تھے کہ سارے مفادات تج کر اور مال کی قربانی دے کر محض جان بچالی جائے اور وہ بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ جان بھی خطرے کی زد میں ہے۔ ابتدائے راہ سے انتہائے راہ تک کہیں بھی ہلاک کی جاسکتی ہے۔ پھر سفر ایک مبہم مستقبل کی طرف ہے۔ معلوم نہیں آگے چل کر ابھی کون کون سے مصائب اور غم والم رونماہوں گے۔
مسلمانوں نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے ہجرت کی ابتدا کردی۔ ادھر مشرکین نے بھی ان کی روانگی میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کیں۔ کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس میں خطرات مضمر ہیں۔ ہجرت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں :
سب سے پہلے مہاجر حضرت ابوسلمہؓ تھے۔ انہوں نے ابن اسحاق کے بقول بیعت عقبہ کُبریٰ سے ایک سال پہلے ہجرت کی تھی ، ان کے ہمراہ ان کے بیوی بچے بھی تھے۔ جب انہوں نے روانہ ہونا چاہا تو ان کے سسرال والوں نے کہا کہ یہ رہی آپ کی جان۔ اس کے متعلق تو آپ ہم پر غالب آگئے لیکن یہ بتائیے کہ یہ ہمارے گھر کی لڑکی؟ آخر کس بنا پر ہم آپ کو چھوڑ دیں کہ آپ اسے شہر شہر گھماتے پھریں ؟ 
چنانچہ انہوں نے ان سے ان کی بیوی چھین لی۔ اس پر ا بوسلمہ کے گھر والوں کو تاؤ آگیا اور انہوں نے کہا کہ جب تم لوگوں نے اس عورت کو ہمارے آدمی سے چھین لیا تو ہم اپنا بیٹا اس عورت کے پاس نہیں رہنے دے سکتے۔ چنانچہ دونوں فریق نے اس بچے کو اپنی اپنی طرف کھینچا جس سے اس کا ہاتھ اکھڑ گیا اور ابوسلمہ ؓ کے گھر والے اس کو اپنے پاس لے گئے۔ خلاصہ یہ کہ ابوسلمہ ؓ نے تنہا مدینہ کا سفر کیا۔
اس کے بعد حضرت ام سلمہ ؓ کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے شوہر کی روانگی اور اپنے بچے سے محرومی کے بعد روز انہ صبح صبح ابطح پہنچ جاتیں۔(جہاں یہ ماجرا پیش آیا تھا) اور شام تک روتی رہتیں۔ اسی حالت میں ایک سال گزر گیا۔ بالآخر ان کے گھرانے کے کسی آدمی کوترس آگیا اور اس نے کہا کہ اس بیچاری کو جانے کیوں نہیں دیتے ؟ اسے خواہ مخواہ اس کے شوہر اور بیٹے سے جدا کر رکھا ہے۔ اس پر ام سلمہؓ سے ان کے گھر والوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے بیٹے کو اس ددھیال والوں سے واپس لیا اور مدینہ چل پڑیں۔ اللہ اکبر ! کوئی پانچ سو کیلومیٹر کی مسافت کا سفر اور ساتھ میں اللہ کی کوئی مخلوق نہیں۔ جب تَنَعِیم پہنچیں تو عثمان بن ابی طلحہ مل گیا۔ اسے حالات کی تفصیل معلوم ہوئی تو مشایعت کرتا ہو ا مدینہ پہنچانے لے گیا اور جب قباء کی آبادی نظر آئی تو بولا : تمہارا شوہر اسی بستی میں ہے اسی میں چلی جاؤ۔ اللہ برکت دے۔ اس کے بعد وہ مکہ پلٹ آیا۔( ابن ہشام ۱/۴۶۸، ۴۶۹، ۴۷۰)
! حضرت صہیب ؓ نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو ان سے کفار قریش نے کہا : تم ہمارے پاس آئے تھے تو حقیر وفقیر تھے لیکن یہاں آکر تمہارا مال بہت زیادہ ہوگیا اور تم بہت آگے پہنچ گئے۔ اب تم چاہتے ہو کہ اپنی جان اور اپنا مال دونوں لے کر چل دوتو واللہ ایسا نہیں ہوسکتا، حضرت صہیب ؓ نے کہا: اچھایہ بتاؤ کہ اگر میں ا پنا مال چھوڑ دوں تو تم میری راہ چھوڑ دوگے ؟ انہوں نے کہا: ہاں ! حضرت صہیب ؓ نے کہا: اچھا تو پھر ٹھیک ہے ، چلو میرا مال تمہارے حوالے۔ رسول اللہﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا : صہیب ؓ نے نفع اٹھایا۔ صہیب ؓ نے نفع اٹھایا۔( ایضاً ۱/۴۷۷)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔