حالات کی اس اچانک اور پُر خطر تبدیلی کے پیش نظر رسول اللہﷺ نے ایک اعلیٰ فوجی مجلس شوریٰ منعقد کی۔ جس میں درپیش صورتِ حال کا تذکرہ فرمایا اور کمانڈروں اور عام فوجیوں سے تبادلہ ٔ خیالات کیا۔ اس موقع پر ایک گروہ خون ریز ٹکراؤ کا نام سن کرکانپ اٹھا اور اس کا دل لرزنے اور دھڑکنے لگا۔ اسی گروہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
''جیسا کہ تجھے تیرے رب نے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا اور مومنین کا ایک گروہ ناگوار سمجھ رہا تھا۔ وہ تجھ سے حق کے بارے میں اس کے و اضح ہوچکنے کے بعد جھگڑرہے تھے گویا وہ آنکھوں دیکھتے موت کی طرف ہانکے جارہے ہیں۔ '' (۸: ۵،۶)
لیکن جہاں تک قائدین لشکر کا تعلق ہے توحضرت ابوبکرؓ اُٹھے اور نہایت اچھی بات کہی۔ پھر عمر بن خطابؓ اٹھے اور اُنہوں نے بھی نہایت عمدہ بات کہی۔ پھر حضرت مقداد بن عمروؓ اٹھے اور عرض پرداز ہوئے : ''اے اللہ کے رسول !(ﷺ ) اللہ نے آپ کو جو راہ دکھلائی ہے اس پر رواں دواں رہئے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کی قسم !ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنو اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ :
فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۵: ۲۴)
''تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔''
بلکہ ہم کہیں گے کہ آپﷺ اور آپ کے پروردگار چلیں اور لڑیں اور ہم بھی آپﷺ کے ساتھ ساتھ لڑیں گے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ﷺ ہم کو برکِ غما د تک لے چلیں تو ہم راستے والوں سے لڑتے بھڑتے آپﷺ کے ساتھ وہاں بھی چلیں گے۔ ''
رسول اللہﷺ نے ان کے حق میں کلمہ خیر ارشاد فرمایا اور دعا دی۔
یہ تینوں کمانڈر مہاجرین سے تھے جن کی تعداد لشکر میں کم تھی۔ رسول اللہﷺ کی خواہش تھی کہ انصار کی رائے معلوم کریں کیونکہ وہی لشکر میں اکثریت رکھتے تھے اور معرکے کا اصل بوجھ انہیں کے شانوں پر پڑنے والاتھا۔ درآں حالیکہ بیعت ِ عقبہ کی رُو سے ان پر لازم نہ تھا کہ مدینے سے باہر نکل کر جنگ کریں اس لیے آپﷺ نے مذکور ہ تینوں حضرات کی باتیں سننے کے بعد پھر فرمایا: ''لوگو! مجھے مشورہ دو ۔'' مقصود انصار تھے اور یہ بات انصار کے کمانڈر اور علمبردار حضرت سعدؓ بن معاذؓ نے بھانپ لی ، چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ واللہ ! ایسا معلو م ہوتا ہے کہ اے اللہ کے رسول ! آپ کا رُوئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ نے فرمایا : ہاں !
انہوں نے کہا :''ہم تو آپﷺ پر ایمان لائے ہیں ، آپﷺ کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ آپ جوکچھ لے کر آئے ہیں سب حق ہے اور اس پر ہم نے آپﷺ کو اپنی سمع وطاعت کا عہد ومیثاق دیا ہے ، لہٰذا اے اللہ کے رسولﷺ ! آپﷺ کا جو ارادہ ہے اس کے لیے پیش قدمی فرمایئے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپﷺ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا۔ہمیں قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ کل آپﷺ ہمارے دشمن سے ٹکراجائیں۔ ہم جنگ میں پامرد اور لڑنے میں جوانمرد ہیں اور ممکن ہے اللہ آپﷺ کو ہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں ، پس آپﷺ ہمیں ہمراہ لے کر چلیں، اللہ برکت دے۔''
حضرت سعدؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہﷺ بہت خوش ہوئے ۔ آپﷺ پر نشاط طاری ہوگئی۔ آپﷺ نے فرمایا : ''چلو اور خوشی خوشی چلو۔ اللہ نے مجھ سے دوگروہوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے۔ واللہ! اس وقت گویا میں قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں۔''
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔