Sunday, 24 May 2015

قریشِ مکہ کا رویہ


بیرون ِ مدینہ مسلمانوں کے سب سے کٹر دشمن قریش تھے اور تیرہ سال تک جب کہ مسلمان ان کے زیر دست تھے ، دہشت مچانے ، دھمکی دینے اور تنگ کرنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرچکے تھے۔ طرح طرح کی سختیاں اور مظالم کرچکے تھے۔ منظم اور وسیع پر وپیگنڈے اور نہایت صبر آزما نفسیاتی حربے استعمال میں لاچکے تھے۔ پھر جب مسلمانوں نے مدینہ ہجرت کی تو قریش نے ان کی زمینیں ، مکانات اور مال ودولت سب کچھ ضبط کر لیا اور مسلمانو ں اور اس کے اہل وعیال کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ، بلکہ جس کو پاس کے قید کر کے طرح طرح کی اذیتیں دیں ، پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ سربراہِ دعوت حضرت محمد رسول اللہﷺ کو قتل کرنے اور آپﷺ کی دعوت کو بیخ وبُن سے اکھاڑنے کے لیے خوفناک سازشیں کیں اور اسے رُوبہ عمل لانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردیں۔ بایں ہمہ جب مسلمان کسی طرح بچ بچا کر کوئی پانچ سو کیلو میٹر دور مدینہ کی سرزمین پر جاپہنچے تو قریش نے اپنی ساکھ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھناؤنا سیاسی کردار انجام دیا۔ یعنی یہ چونکہ حرم کے باشندے اور بیت اللہ کے پڑوسی تھے اور اس کی وجہ سے انہیں اہلِ عرب کے درمیان دینی قیادت اور دنیاوی ریاست کا منصب حاصل تھا، اس لیے انہوں نے جزیرۃ العرب کے دوسرے مشرکین کو بھڑکااور ورغلا کر مدینے کا تقریباً مکمل بائیکاٹ کرادیا جس کی وجہ سے مدینہ کی درآمدات نہایت مختصر رہ گئیں جب کہ وہاں مہاجرین پناہ گیروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ درحقیقت مکے کے ان سرکشوںاور مسلمانوں کے اس نئے وطن کے درمیان حالت جنگ قائم ہوچکی تھی اور یہ نہایت احمقانہ بات ہے کہ اس جھگڑے کا الزام مسلمانوں کے سرڈالاجائے۔
مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ جس طرح ان کے اموال ضبط کیے گئے تھے اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کے اموال ضبط کریں ، جس طرح انہیں ستایا گیا تھا اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کو ستائیں ، اور جس طرح مسلمانوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں اسی طرح مسلمان بھی ان سرکشوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کریں اور ان سرکشوں کو ''جیسے کا تیسا'' والا بدلہ دیں تاکہ انہیں مسلمانوں کو تباہ کرنے اور بیخ وبن سے اکھاڑنے کاموقع نہ مل سکے۔
یہ تھے وہ قضا یا اور مسائل جس سے رسول اللہﷺ کو مدینہ تشریف لانے کے بعد بحیثیت رسول وہادی اور امام وقائد واسطہ درپیش تھا۔
رسول اللہﷺ نے ان تمام مسائل کے تئیں مدینہ میں پیغمبرانہ کردار اور قائدانہ رول ادا کیا اور جو قوم نرمی ومحبت یاسختی ودرشتی جس سلوک کی مستحق تھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رحمت ومحبت کا پہلو سختی اور درشتی پر غالب تھا ، یہاں تک کہ چند برسوں میں زمامِ کار اسلام اور اہل اسلا م کے ہاتھ آگئی۔ اگلی تحاریر میں انہی باتوں کی تفصیلات ہدیۂ قارئین کی جائیں گی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔