Sunday 24 May 2015

اسلامی لشکر کے لئے حالات کی نظاکت


ابو سفیان کا پیغام سن کر مکی لشکر نے چاہا کہ واپس چلا جائے لیکن قریش کا طاغوت اکبر ابو جہل کھڑا ہوگیا اور نہایت کبر وغرور سے بولا :'' اللہ کی قسم! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ بدر جاکر وہاں تین روز قیام کریں گے اور اس دوران اونٹ ذبح کریں گے۔ لوگوں کو کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے۔ لونڈیاں ہمارے لیے گانے گائیں گی اور سار ا عرب ہمارا اور ہمارے سفر واجتماع کا حال سنے گا اور اس طرح ہمیشہ کے لیے ان پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔''
لیکن ابو جہل کے علی الرغم اخنس بن شُرَیْق نے یہی مشورہ دیا کہ واپس چلے چلو مگر لوگوں نے اس کی بات نہ مانی اس لیے وہ بنو زہرہ کے لوگوں کو ساتھ لے کر واپس ہوگیا کیونکہ وہ بنو زہرہ کا حلیف اور اس لشکر میں ان کا سردار تھا۔ بنو زہرہ کی کل تعداد کوئی تین سو تھی۔ ان کا کوئی بھی آدمی جنگ بدر میں حاضر نہ ہوا۔ بعد میں بنو زہرہ اخنس بن شریق کی رائے پر حددرجہ شاداں وفرحاں تھے اور ان کے اندر اس کی تعظیم واطاعت ہمیشہ برقرار رہی۔
بنو زہرہ کے علاوہ بنو ہاشم نے بھی چاہا کہ واپس چلے جائیں لیکن ابو جہل نے بڑی سختی کی اور کہا کہ جب تک ہم واپس نہ ہوں یہ گروہ ہم سے الگ نہ ہونے پائے۔
غرض لشکر نے اپنا سفر جاری رکھا۔ بنو زہرہ کی واپسی کے بعد اب اس کی تعداد ایک ہزار رہ گئی تھی اور اس کا رخ بدر کی جانب تھا۔ بدر کے قریب پہنچ کر اس نے ایک ٹیلے کے پیچھے پڑاؤ ڈالا۔یہ ٹیلہ وادی کے حدود پر جنوبی دہانے کے پاس واقع ہے۔
ادھر مدینے کے ذرائع اطلاعات نے رسول اللہﷺ کو جبکہ ابھی آپﷺ راستے ہی میں تھے اور وادی ذفران سے گزررہے تھے قافلے اور لشکردونوں کے متعلق اطلاعات فراہم کیں۔ آپﷺ نے ان اطلاعات کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد یقین کر لیا کہ اب ایک خون ریز ٹکراؤ کا وقت آگیا ہے اور ایک ایسا اقدام ناگزیر ہے جو شجاعت وبسالت اور جرأت وجسارت پر مبنی ہو۔ کیونکہ یہ بات قطعی تھی کہ اگر مکی لشکر کو اس علاقے میں یوںہی دندناتا ہوا پھرتے دیا جاتا تو اس سے قریش کی فوجی ساکھ کو بڑی قوت پہنچ جاتی اور ان کی سیا سی بالادستی کا دائرہ دور تک پھیل جاتا۔ مسلمانوں کی آواز دب کر کمزور ہو جاتی اور اس کے بعد اسلامی دعوت کو ایک بے روح ڈھانچہ سمجھ کر اس علاقے کا ہرکس وناکس ، جو اپنے سینے میں اسلام کے خلاف کینہ وعداوت رکھتا تھا شر پر آمادہ ہوجاتا۔
پھر ان سب باتوں کے علاوہ آخر اس کی کیا ضمانت تھی کہ کفار کا لشکر مدینے کی جانب پیش قدمی نہیں کرے گا اور اس معرکہ کو مدینہ کی چہار دیواری تک منتقل کرکے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر تباہ کرنے کی جرأت اور کوشش نہیں کرے گا ؟ جی ہاں ! اگر مسلمانوں کے لشکر کی جانب سے ذرا بھی گریز کیا جاتا تو یہ سب کچھ ممکن تھا اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو مسلمانوں کی ہیبت وشہرت پر تو بہرحال اس کا نہایت بُرا اثر پڑتا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔