Sunday 24 May 2015

جنگ کی اجازت


ان پُر خطر حالات میں جو مدینہ میں مسلمانوں کے وجود کے لیے چیلنج بنے ہوئے تھے اور جن سے عیاں تھا کہ قریش کسی طرح ہوش کے ناخن لینے اور اپنے تمرد سے باز آنے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت فرمادی ، لیکن اسے فرض قرار نہیں دیا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کا جوارشاد نازل ہو ا وہ یہ تھا:
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ نَصْرِ‌هِمْ لَقَدِيرٌ‌ (۲۲: ۳۹)
''جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انہیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقینا ً اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔''
پھراس آیت کے ضمن میں مزید چند آیتیں نازل ہوئیں جن میں بتایا گیا کہ یہ اجازت محض جنگ برائے جنگ کے طور پرنہیں ہے بلکہ اس سے مقصود باطل کے خاتمے اور اللہ کے شعائر کا قیام ہے۔ چنانچہ آگے چل کر ارشاد ہوا :
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُ‌وا بِالْمَعْرُ‌وفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ‌ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ‌ (۲۲: ۴۱)
'' جنہیں ہم اگر زمین میں اقتدار سونپ دیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ اداکریں گے، بھلائی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے روکیں گے۔''
صحیح بات جسے قبول کرنے کے سوا چارہ ٔ کار نہیں یہی ہے کہ یہ اجازت ہجرت کے بعد مدینے میں نازل ہوئی تھی ، مکے میں نازل نہیں ہوئی تھی، البتہ وقت ِ نزول کا قطعی تعین مشکل ہے۔
قتال کی یہ اجازت پہلے پہل قریش تک محدود تھی۔ پھر حالات بدلنے کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آئی۔ چنانچہ آگے چل کر یہ اجازت وجوب سے بدل گئی اور قریش سے متجاوز ہوکر غیر قریش کو بھی شامل ہوگئی۔ مناسب ہوگا کہ واقعات کے ذکر سے پہلے اس کے مختلف مراحل کو مختصراً پیش کردیا جائے:
پہلا مرحلہ : قریش کو برسر جنگ شمار کیا گیا کیونکہ انہیں نے ظلم کا آغاز کیا تھا، لہٰذا مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ ان سے لڑیں اور ان کے اموال ضبط کریں لیکن دوسرے مشرکین عرب کے ساتھ یہ بات درست نہ تھی۔
غیر قریش میں سے وہ فریق جس نے قریش کا ساتھ دیا اور ان سے اتحاد کیا ، یاجس نے بذات خود مسلمانوں پر ظلم وتعدی کی ان سے جنگ کرنا۔
جن یہود کے ساتھ رسول اللہﷺ کا عہد وپیمان تھا ، مگر انہوں نے خیانت کی اور مشرکین کا ساتھ دیا، ایسے یہود کے عہد وپیمان کو ان کے منہ پر دے مارنا اور ان سے جنگ کرنا۔
اہل کتاب مثلاً: نصاریٰ میں سے جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ عداوت کا آغاز کیا اور مد مقابل آئے۔ ان سے جنگ کرنا، یہاں تک کہ وہ چھوٹے بن کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ اداکریں۔
جو اسلام میں داخل ہوجائے اس سے ہاتھ روک لینا۔ خواہ وہ مشرک رہا ہو یا یہودی یا نصرانی یا کچھ اور۔ اب اس کی جان یا مال سے اسلام کے حق کے مطابق ہی تعرض کیا جاسکتا ہے اور اس کے باطن کا حساب اللہ پر ہے۔
جنگ کی اجازت تو نازل ہوگئی لیکن جن حالات میں نازل ہوئی وہ چونکہ محض قریش کی قوت اور تمرد کا نتیجہ تھے، اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی ہے ، اسی لیے رسول اللہﷺ نے تسلط کے اس پھیلاؤ کے لیے دو منصوبے اختیار کیے :

(۱) ایک:... جو قبائل اس شاہراہ کے اردگرد یا اس شاہراہ سے مدینے تک کے درمیانی علاقے میں آبادتھے ان کے ساتھ حلف (دوستی وتعاون) اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ۔
(۲) دوسرا منصوبہ:... اس شاہراہ پر گشتی دستے بھیجنا۔
پہلے منصوبے کے ضمن میں یہ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ پچھلے صفحات میں یہود کے ساتھ کیے گئے جس معاہدے کی تفصیل گزر چکی ہے ، آپﷺ نے عسکری مہم شروع کرنے سے پہلے اسی طرح کی دوستی وتعاون اور عدم ِ جنگ کا ایک معاہدہ قبیلہ جُہینہ کے ساتھ بھی کیا۔ ان کی آبادی مدینے سے تین مرحلے پر -- ۴۵ یا ۵۰ میل کے فاصلے پر -- واقع تھی۔ اس کے علاوہ طلایہ گردی کے دوران بھی آپﷺ نے متعدد معاہدے کیے جن کاذکر آئندہ آئے گا۔
دوسرا منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے جس کی تفصیلات اپنی اپنی جگہ آتی رہیں گی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔