Thursday, 7 May 2015

ہجرت کے وقت مدینہ کے حالات


ہجرت کا مطلب صرف یہی نہیں تھا کہ فتنے اور تمسخر کا نشانہ بننے سے نجات حاصل کر لی جائے بلکہ اس میں یہ مفہوم بھی شامل تھا کہ ایک پُر امن علاقے کے اندر ایک نئے معاشرے کی تشکیل میں تعاون کیا جائے۔ اسی لیے ہرصاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض قرار پایا تھا کہ اس وطنِ جدید کی تعمیر میں حصہ لے اور اس کی پختگی ، حفاظت اور رفعتِ شان میں اپنی کوشش صرف کرے۔
یہ بات توقطعی طور پر معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ ہی اس معاشرے کی تشکیل کے امام، قائد اور رہنماتھے۔ اور کسی نزاع کے بغیر سارے معالات کی باگ ڈور آپﷺ ہی کے ہاتھ میں تھی۔
مدینے میں رسول اللہﷺ کو تین طرح کے قوموں سے سابقہ درپیش تھا جن میں سے ہر ایک کے حالات دوسرے سے بالکل جداگانہ تھے اور ہر ایک قوم کے تعلق سے کچھ خصوصی مسائل تھے جودوسری قوموں کے مسائل سے مختلف تھے۔ یہ تینوں اقوام حسبِ ذیل تھیں :
1. آپﷺ کے پاکباز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی منتخب اور ممتاز جماعت۔
2. مدینے کے قدیم اور اصلی قبائل سے تعلق رکھنے والے مشرکین ، جو اب تک ایمان نہیں لائے تھے۔
3. یہود۔
الف ... صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعلق سے آپﷺ کو جن مسائل کا سامنا تھا ان کی توضیح یہ ہے کہ ان کے لیے مدینے کے حالات مکے کے حالات سے قطعی طور پر مختلف تھے۔ مکے میں اگر چہ ان کا کلمہ ایک تھا اور ان کے مقاصد بھی ایک تھے مگر وہ خود مختلف گھرانوں میں بکھر ے ہوئے تھے اور مجبور ومقہور اور ذلیل وکمزور تھے۔ ان کے ہاتھ میں کسی طرح کا کوئی اختیار نہ تھا۔ سارے اختیار دشمنان دین کے ہاتھوں میں تھے اور دنیا کا کوئی بھی انسانی معاشرہ جن اجزاء اور لوازمات سے قائم ہوتا ہے مَکہ کے مسلمانوں کے پاس وہ اجزاء سرے سے تھے ہی نہیں کہ ان کی بنیاد پر کسی نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل کرسکیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مکی سورتوں میں صرف اسلامی مبادیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور صرف ایسے احکامات نازل کیے گئے ہیں جن پر ہر آدمی تنہا عمل کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ نیکی بھلائی اور مکارمِ اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور رَذِیل وذلیل کا موں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔
اس کے برخلاف مدینے میں مسلمانوں کی زمامِ کار پہلے ہی دن سے خود ان کے اپنے ہاتھ میں تھی۔ ان پر کسی دوسرے کا تسلّط نہ تھا۔ اس لیے اب وقت آگیا تھا کہ مسلمان تہذیب وعمرانیات ، معاشیات واقتصادیات ، سیاست وحکومت اور صلح وجنگ کے مسائل کا سامنا کریں اور ان کے لیے حلال وحرام اور عبادات واخلاق وغیرہ مسائل زندگی کی بھر پور تنقیح کی جائے۔
وقت آگیا تھا کہ مسلمان ایک نیا معاشرہ، یعنی اسلامی معاشرہ تشکیل کریں جو زندگی کے تمام مرحلوں میں جاہلی معاشرے سے مختلف اور عالمِ انسانی کے اندرموجود کسی بھی دوسرے معاشرے سے ممتاز ہو اور اس دعوت ِ اسلامی کا نمائندہ ہو جس کی راہ میں مسلمانوں نے تیرہ سال تک طرح طرح کی مصیبتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔
ظاہر ہے اس طرح کے کسی معاشرے کی تشکیل ایک دن ، ایک مہینہ یا ایک سال میں نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے تاکہ اس میں آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ احکام صادر کیے جائیں اور قانون سازی کا کام مشق وتربیت اور عملی نفاذ کے ساتھ ساتھ مکمل کیا جائے۔ لیکن اس کے علاوہ کچھ دوسرے مسائل بھی تھے جو فوری توجہ کے طالب تھے۔ جن کی مختصرکیفیت یہ ہے :
مسلمانوں کی جماعت میں دوطرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو خود اپنی زمین ، اپنے مکان اور اپنے اموال کے اندر رہ رہے تھے اور اس بارے میں ان کو اس سے زیادہ فکرنہ تھی جتنی کسی آدمی کو اپنے اہل وعیال میں امن وسکون کے ساتھ رہتے ہوئے کرنی پڑتی ہے۔ یہ انصار کا گروہ تھا اور ان میں پشت ہا پشت سے باہم بڑی مستحکم عداوتیں اور نفر تیں چلی آرہی تھیں۔ ان کے پہلوبہ پہلودوسرا گروہ مہاجرین کا تھا جو ان ساری سہولتوں سے محروم تھا اور لٹ پٹ کر کسی نہ کسی طرح تن بہ تقدیر مدینہ پہنچ گیا تھا۔ ان کے پاس نہ تو رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ تھا نہ پیٹ پالنے کے لیے کوئی کام اور نہ سرے سے کسی قسم کا کوئی مال جس پر ان کی معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہوسکے ، پھر ان پناہ گیر مہاجرین کی تعداد کوئی معمولی بھی نہ تھی اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہی ہورہا تھا کیونکہ اعلان کردیا گیا تھا جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان رکھتا ہے وہ ہجرت کرکے مدینہ آجائے ، اور معلوم ہے کہ مدینے میں نہ کوئی بڑی دولت تھی نہ آمدنی کے ذرائع ووسائل۔ چنانچہ مدینے کا اقتصادی توازن بگڑ گیا اور اسی تنگی ترشی میں اسلام دشمن طاقتوں نے بھی مدینے کا تقریباً اقتصادی بائیکاٹ کردیا جس سے درآمدات بند ہوگئیں اور حالات انتہائی سنگین ہوگئے۔



دوسری قوم:...یعنی مدینے کے اصل مشرک باشندے - کا حال یہ تھا کہ انہیں مسلمانوں پر کوئی بالادستی حاصل نہ تھی۔ کچھ مشرکین شک وشبہے میں مبتلا تھے اور اپنے آبائی دین کو چھوڑنے میں تردّدمحسوس کررہے تھے ، لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دل میں کوئی عداوت اور داؤ گھات نہیں رکھ رہے تھے۔ اس طرح کے لوگ تھوڑے ہی عرصے کے بعد مسلمان ہوگئے اور خالص اور پکے مسلمان ہوئے۔
اس کے برخلاف کچھ مشرکین ایسے تھے جو اپنے سینے میں رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ وعداوت چھپائے ہوئے تھے لیکن انہیں مَدّ ِ مقابل آنے کی جرأت نہ تھی بلکہ حالات کے پیشِ نظر آپﷺ سے محبت وخلوص کے اظہار پر مجبور تھے۔ ان میں سرِ فہرست عبد اللہ بن ابی ا بن سلول تھا۔ یہ وہ شخص ہے جس کو جنگ ِ بعاث کے بعد اپنا سربراہ بنانے پر اوس وخزرج نے اتفاق کرلیا تھا حالانکہ اس سے قبل دونوں فریق کسی کی سربراہی پر متفق نہیں ہوئے تھے لیکن اب اس کے لیے مونگوں کا تاج تیار کیا جارہا تھا تاکہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھ کر اس کی باقاعدہ بادشاہت کا اعلان کردیا جائے ، یعنی یہ شخص مدینے کا بادشاہ ہونے ہی والا تھا کہ اچانک رسول اللہﷺ کی آمد آمد ہوگئی اور لوگوں کا رُخ اس کے بجائے آپﷺ کی طرف ہوگیا، اِس لیے اسے احساس تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے اس کی بادشاہت چھینی ہے، لہٰذاوہ اپنے نہاں خانہ ٔ دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت عداوت چھپا ئے ہوئے تھا۔ اس کے باوجود جب اس نے جنگ ِ بدر کے بعد دیکھا کہ حالات اس کے موافق نہیں ہیں اور وہ شرک پر قائم رہ کر اب دنیا وی فوائد سے بھی محروم ہوا چاہتا ہے تو اس نے بظاہر قبول اسلام کا اعلان کردیا ، لیکن وہ اب بھی درپردہ کا فر ہی تھا، اسی لیے جب بھی اسے رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے خلاف کسی شرارت کا موقع ملتا وہ ہرگز نہ چوکتا۔ اس کے ساتھ عموماً وہ رؤساء تھے جو اس کی بادشاہت کے زیرِ سایہ بڑے بڑے مناصب کے حصول کی توقع باندھے بیٹھے تھے مگر اب انہیں اس سے محروم ہوجانا پڑا تھا۔ یہ لوگ اس شخص کے شریکِ کار تھے اور اس کے منصوبوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے بسا اوقات نوجوانوں اور سادہ لوح مسلمانوں کوبھی اپنی چابکدستی سے اپنا آلۂ کار بنالیتے تھے۔
تیسری قوم:... یہود تھی - جیسا کہ گزرچکا ہے - یہ لوگ اشوری اور رومی ظلم وجبر سے بھا گ کر حجاز میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ یہ درحقیقت عبرانی تھے لیکن حجاز میں پناہ گزین ہونے کے بعد ان کی وضع قطع ، زبان اور تہذیب وغیرہ بالکل عربی رنگ میں رنگ گئی تھی یہاں تک کہ ان کے قبیلوں اور افراد کے نام بھی عربی ہوگئے تھے اور ان کے اور عربوں کے آپس میں شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم ہوگئے تھے لیکن ان سب کے باوجود ان کی نسلی عصبیت برقرار تھی اور وہ عربوں میں مدغم نہ ہوئے تھے بلکہ اپنی اسرائیلی -- یہودی-- قومیت پر فخر کرتے تھے اور عربوں کو انتہائی حقیر سمجھتے تھے۔ حتیٰ کہ انہیں اُمیّ کہتے تھے جس کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا : بدھو ، وحشی ، رذیل ، پسماندہ اور اچھوت۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عربوں کا مال ان کے لیے مباح ہے ، جیسے چاہیں کھائیں۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے :
قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ (۳: ۷۵)
''انہوں نے کہا ہم پر اُمیوں کے معاملے میں کوئی راہ نہیں۔''
یعنی امیوں کا مال کھانے میں ہماری کو ئی پکڑ نہیں۔ ان یہودیوں میں اپنے دین کی اشاعت کے لیے کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی تھی۔ لے دے کر ان کے پاس دین کی جو پونجی رہ گئی تھی وہ تھی فال گیری ، جادو اور جھاڑ پھونک وغیرہ۔ انہیں چیزوں کی بدولت وہ اپنے آپ کو صاحبِ علم وفضل اور روحانی قائد وپیشوا سمجھتے تھے۔
یہودیوں کو دولت کمانے کے فنون میں بڑی مہارت تھی۔ غلّے ، کھجور ، شراب ، اور کپڑے کی تجارت انہیں کے ہاتھ میں تھی۔ یہ غلے ، کپڑے اور شراب درآمد کرتے تھے اور کھجور برآمد کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے مختلف کام تھے جن میں وہ سرگرم رہتے تھے۔ وہ اموالِ تجارت میں عربوں سے دوگنا تین گنا منافع لیتے تھے اور اسی پر بس نہ کرتے تھے بلکہ وہ سود خور بھی تھے۔ اس لیے وہ عرب شیوخ اور سرداروں کوسودی قرض کے طور پر بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے۔ جنہیں یہ سردار حصولِ شہرت کے لیے اپنی مدح سرائی کرنے والے شعراء وغیرہ پر بالکل فضول اور بے دریغ خرچ کردیتے تھے۔ ادھر یہود ان رقموں کے عوض ان سرداروں سے ان کی زمینیں ، کھیتیاں اور باغات وغیرہ گرو ی رکھوالیتے تھے۔ اورچند سال گزرتے گزرتے ان کے مالک بن بیٹھے تھے۔
یہ لوگ دسیسہ کاریوں ، سازشوں اور جنگ وفساد کی آگ بھڑکانے میں بھی بڑے ماہر تھے۔ ایسی باریکی سے ہمسایہ قبائل میں دشمنی کے بیج بوتے اور ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکاتے کہ ان قبائل کو احساس تک نہ ہوتا۔ اس کے بعد ان قبائل میں پیہم جنگ برپارہتی اور اگر خدانخواستہ جنگ کی یہ آگ سر د پڑتی دکھائی دیتی تو یہود کی خفیہ انگلیاں پھر حرکت میں آجاتیں اور جنگ پھر بھڑک اٹھتی۔ کمال یہ تھا کہ یہ لوگ قبائل کو لڑا بھڑا کر چپ چاپ کنارے بیٹھ رہتے اور عربوں کی تباہی کاتماشا دیکھتے۔ البتہ بھاری بھرکم سود ی قرض دیتے رہتے تاکہ سرمائے کی کمی کے سبب لڑائی بند نہ ہونے پائے اور اس طرح دوہر انفع کماتے رہتے۔ ایک طرف اپنی یہودی جمعیت کو محفوظ رکھتے اور دوسری طرف سود کا بازار ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے بلکہ سود در سود کے ذریعے بڑی بڑی دولت کماتے۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔