اس کے بعد رسول اللہﷺ نے لشکر کی ترتیب فرمائی اور میدان جنگ میں تشریف لے گئے ، وہاں آپﷺ اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے جارہے تھے کہ یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے ، ان شاء اللہ ، اور یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے ، ان شاء اللہ ،اس کے بعد رسول اللہﷺ نے وہیں ایک درخت کی جڑ کے پا س رات گزاری اور مسلمانوں نے بھی پُر سکون نفس اور تابناک اُفق کے ساتھ رات گزاری۔ ان کے دل اعتماد سے پُر تھے اور انہوں نے راحت وسکون سے اپنا حصہ حاصل کیا۔ انہیں یہ توقع تھی کہ صبح اپنی آنکھوں سے اپنے رب کی بشارتیں دیکھیں گے۔
إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ (۸: ۱۱)
''جب اللہ تم پر اپنی طرف سے امن وبے خوفی کے طور پر نیند طاری کررہا تھا اور تم پر آسمان سے پانی برسارہا تھا تاکہ تمہیں اس کے ذریعے پاک کردے اور تم سے شیطان کی گندگی دور کر دے اور تمہارے دل مضبوط کر دے اور تمہارے قدم جمادے۔''
یہ رات جمعہ ۱۷ رمضان۲ ھ کی رات تھی اور آپ اس مہینے کی ۸ یا ۱۲ تاریخ کو مدینے سے روانہ ہوئے تھے۔
میدانِ جنگ میں مکی لشکر کی آمداور ان کا باہمی اختلاف:
دوسری طرف قریش نے وادی کے دہانے کے باہر اپنے کیمپ میں رات گزاری اور صبح اپنے تمام دستوں سمیت ٹیلے سے اتر کر بدر کی جانب روانہ ہوئے۔ ایک گروہ رسول اللہﷺ کے حوض کی جانب بڑھا۔ آپﷺ نے فرمایا:'' انہیں چھوڑ دو۔'' مگر ان میں سے جس نے بھی پانی پیا وہ اس جنگ میں مارا گیا۔ صرف حکیم بن حزام باقی بچا جو بعد میں مسلمان ہوا، اور بہت اچھا مسلمان ہوا۔ اس کا دستور تھا کہ جب بہت پختہ قسم کھانی ہوتی کہتا: ''لا والذی نجانی من یوم بدر۔'' ''قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے بدر کے دن سے نجات دی۔''
بہر حال جب قریش مطمئن ہوچکے تو انہوں نے مدنی لشکر کی قوت کا اندازہ لگانے کے لیے عمیر بن وہب جمحی کو روانہ کیا۔ عمیر نے گھوڑے پر سوار ہوکر لشکر کا چکر لگایا، پھر واپس جاکر بولا : ''کچھ کم یا کچھ زیادہ تین سو آدمی ہیں ، لیکن ذرا ٹھہرو۔ میں دیکھ لوں ان کی کمین گاہ یا کمک تو نہیں ؟'' اس کے بعد وہ وادی میں گھوڑا دوڑاتا ہو ادور تک نکل گیا لیکن اسے کچھ دکھائی نہ پڑا، چنانچہ اس نے واپس جا کر کہا:''میں نے کچھ پایا تو نہیں لیکن اے قریش کے لوگو! میں نے بلائیں دیکھی ہیں جو موت کو لادے ہوئے ہیں۔ یثرب کے اونٹ اپنے اوپر خالص موت سوار کیے ہوئے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی ساری حفاظت اور ملجا وماویٰ خود ان کی تلواریں ہیں۔ کوئی اور چیز نہیں۔ اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ ان کا کوئی آدمی تمہارے آدمی کو قتل کیے بغیر قتل نہ ہوگا ، اور اگر تمہارے خاص خاص افراد کو انہوں نے مار لیا تو اس کے بعد جینے کا مزہ ہی کیاہے ! اس لیے ذرا اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔''
اس موقعے پر ابو جہل کے خلاف -جو معرکہ آرائی پر تُلا ہوا تھا - ایک اور جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا جنگ کے بغیر مکہ واپس جائیں۔ چنانچہ حکیم بن حزام نے لوگوں کے درمیان دوڑ دھوپ شروع کردی۔ وہ عُتبَہ بن ربیعہ کے پاس آیا اور بولا :''ابو الولید ! آپ قریش کے بڑے آدمی اور واجب الاطاعت سردار ہیں ، پھر آپ کیوں نہ ایک اچھا کام کرجائیں جس کے سبب آپ کا ذکر ہمیشہ بھلائی سے ہوتا رہے۔ '' عتبہ نے کہا : حکیم! وہ کون سا کام ہے ؟ اس نے کہا: '' آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور اپنے حلیف عمرو بن حضرمی کا معاملہ - جو سریہ نخلہ میں مارا گیا تھا - اپنے ذمے لے لیں۔'' عتبہ نے کہا:'' مجھے منظور ہے۔ تم میری طرف سے ا س کی ضمانت لو۔ وہ میرا حلیف ہے ، اس کی دیت کا بھی ذمے دار ہوں اور اس کا جو مال ضائع ہوا اس کا بھی۔''
اس کے بعد عتبہ نے حکیم بن حزام سے کہا :''تم حنظلیہ کے پوت کے پاس جاؤ کیونکہ لوگوں کے معاملات کو بگاڑنے اور بھڑکانے کے سلسلے میں مجھے اس کے علاوہ کسی اور سے کوئی اندیشہ نہیں۔'' حنظلیہ کے پوت سے مراد ابوجہل ہے۔ حنظلیہ اس کی ماں تھی۔
اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ نے کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا :''قریش کے لوگو! تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے لڑ کر کوئی کارنامہ انجام نہ دوگے۔ اللہ کی قسم ! اگر تم نے انہیں مار لیا تو صرف ایسے ہی چہرے دکھائی پڑیں گے جنہیں دیکھنا پسند نہ ہوگا ، کیونکہ آدمی نے اپنے چچیرے بھائی کو یا خالہ زاد بھائی کویا اپنے ہی کنبے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل کیا ہو گا۔ اس لیے چلے چلو اور محمد (ﷺ ) اور سارے عرب سے کنارہ کش ہورہو۔ اگر عرب نے انہیں مارلیا تویہ وہی چیز ہوگی جسے تم چاہتے ہو ، اور اگر دوسری صورت پیش آئی تو محمد (ﷺ ) تمہیں اس حالت میں پائیں گے کہ تم نے جو سلوک ان سے کرنا چاہا تھا اسے کیا نہ تھا۔''
ادھر حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس پہنچا تو ابو جہل اپنی زِرَہ درست کر رہا تھا۔ حکیم نے کہا کہ اے ابو الحکم ! مجھے عتبہ نے تمہارے پاس یہ اور یہ پیغام دے کر بھیجا ہے۔ ابو جہل نے کہا :''اللہ کی قسم! محمد (ﷺ ) اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے ، نہیں ہرگز نہیں۔ واللہ ! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور محمد (ﷺ )کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ عتبہ نے جو کچھ کہا ہے محض اس لیے کہا ہے کہ وہ محمد (ﷺ ) اور اس کے ساتھیوں کو اونٹ خور سمجھتا ہے اور خود عتبہ کا بیٹا بھی انہیں کے درمیان ہے اس لیے وہ تمہیں ان سے ڈراتا ہے۔'' - عتبہ کے صاحبزادے ابو حذیفہ قدیم الاسلام تھے اور ہجرت کر کے مدینہ تشریف لاچکے تھے- عتبہ کو پتا چلا کہ ابو جہل کہتا ہے۔ ''اللہ کی قسم عتبہ کا سینہ سوج آیا ہے۔'' تو بولا : ''اس سرین پر خوشبو لگا کر بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس کا سینہ سوج آیا ہے میرا یا اس کا ؟ '' ادھر ابوجہل نے اس خوف سے کہ کہیں یہ معارضہ طاقتور نہ ہوجائے ، اس گفتگو کے بعد جھٹ عامر بن حضرمی کو - جو سریہ عبد اللہ بن جحش کے مقتول عمرو بن حضرمی کا بھائی تھا - بلا بھیجا اور کہا کہ یہ تمہارا حلیف - عتبہ - چاہتا ہے کہ لوگوں کو واپس لے جائے حالانکہ تم اپنا انتقام اپنی آنکھ سے دیکھ چکے ہو، لہٰذا اٹھو ! اور اپنی مظلومیت اور اپنے بھائی کے قتل کی دہائی دو۔ اس پر عامر اُٹھا اور سرین سے کپڑا اٹھا کر چیخا۔ واعمراہ، واعمراہ ، ہائے عمرو، ہائے عمرو۔ اس پر قوم گرم ہوگئی۔ ان کا معاملہ سنگین اور ان کا ارادہ ٔ جنگ پختہ ہوگیا اور عتبہ نے جس سوجھ بوجھ کی دعوت دی تھی وہ رائیگاں گئی۔ اس طرح ہوش پر جوش غالب آگیا اور یہ معارضہ بھی بے نتیجہ رہا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔