Thursday, 7 May 2015

مدینہ منورہ کی داخلی آبادی کی نوعیت


جس وقت آپﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت مدینہ منورہ کا یہ حال تھا کہ چند مدنی قبائل مسلمان ہوچکے تھے اور چند خاندان مثلاً بنی خطمہ ، بنی واقف، بنی وائل ، بنی اُمیہ وغیرہ ایسے بھی تھے جنھوں نے اسلام کا کوئی اثر قبول نہیں کیا تھا اور چند قبائل ایسے تھے جن میں اسلام پوری طرح ہنوز پھیلا نہیں تھا اور جن قبائل میں اسلام پوری طرح دخیل ہو گیا تھا ان کا حال یہ تھا کہ چند روز پہلے اوس و خزرج دو رقیب قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، جنگ بعاث کی خوں ریزیوں نے جس کا خون بھی ہنوز خشک نہیں ہواتھا دونوں کو کمزور اور بے جان کردیاتھا، اور ان کی قومی طاقت برباد ہوچکی تھی، اسلام نے ان دونوں کو اسلامی رشتہ " انما المومنون اخوۃ" (سب مسلمان بھائی بھائی ہیں) کے ناطے سے گر چہ باہم ملادیاتھا؛ لیکن پھر بھی اس دور کے قبائلی مزاج اور عربی خصائص کی بناء پر قبائل عصبیت کے نام پر مشتعل ہوجانے کا مادہ موجودتھا جس سے دشمن اسلام فائدہ اٹھاتے تھے۔
چنانچہ یہود نے جو انصار کے مزاج شناس تھے ایک دفعہ انصار کو باہم لڑادینے کے لئے یہ چال چلی کہ ان کی ملی جلی مجلس میں جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دیا او ر اتنا بھڑکایا کہ معاملہ تیز و تند گفتگو سے بڑھ کر یہاں تک پہنچ گیا کہ مقابلہ کے لئے اسی وقت ایک سیاہ پتھریلا مقام مقرر ہوگیا اور دونوں طرف سے ہتھیا ر لاؤ ہتھیار لاؤ کی چیخ پکار ہوگئی اور دم کے دم میں دونوں طرف کے لوگ میدان میں نکل پڑے، حضور ﷺ کو جب خبر ملی تو آپﷺ مہاجرین کو ساتھ لئے ہوئے میدان جنگ میں پہنچ گئے اور فرمایا:
اے مسلمانوں کے گروہ ! خدا سے ڈرو ، خدا سے خوف کرو، کیا جاہلیت کے دعوے پر لڑے پڑتے ہو ؛حالانکہ میں تم میں موجود ہوں ، تمھیں اﷲنے اسلام کی ہدایت دی اور تمھیں عزت دی اور اسلام کی وجہ سے جاہلیت کی باتیں تم سے الگ کردیں اور اس کے ذریعہ تمھیں کفر سے نجات دلائی اور اس کے ذریعہ تمھارے اندر الفت و محبت پیدا کردی،
( ابن ہشام)
پھر ان انصار کے ساتھ مدینہ منورہ میں ہزاروں کی تعداد میں ہمسایہ کی حیثیت سے یہود کے تین قبیلے رہتے تھے ، ان میں بھی آپس میں رقابتیں تھیں، بنو قریظہ کو بنو نضیر کے لوگ کم رتبہ اور نیچی نگاہ سے دیکھتے تھے؛ چنانچہ بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے آدمی کو قتل کردیتا تھا تو بنونضیر اس کا آدھا خوں بہا دیتے تھے ، اور جب بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نظیر کے آدمی کو قتل کردیتا تھا تو بنو نظیر اس سے پورا خوں بہا دیتے تھے، قبیلہ بنو قینقاع یہودیوں میں اپنے کو سب سے زیادہ جریح اور بہادر سمجھتے تھے اور اپنے مقابلہ میں کسی کو آنکھ نہیں لگاتے تھے ، ان کے پاس ہمیشہ اسلحہ جنگ کے ذخیرے مہیا رہتے تھے ، ان کے غرور کا یہ حال تھا کہ جب مسلمان غزوہ بدر سے فتح و ظفر کا علم لہراتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے تو انھوں نے کہا " بیچارے مکہ کے قریش لڑنا کیا جانیں ہم سے مقابلہ پڑے تو معلوم ہو مگر یہ تینوں قبیلے اسلام دشمنی میں ایک رائے تھے اور اہل کتاب اور توحید کے دعوے دار ہونے کے باوجود بت پرست مشرکین عرب کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ مذہبی حیثیت سے یہ کفار مسلمانوں سے اچھے ہیں۔
" اے پیغمبر!کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب الٰہی سے حصہ دیاگیاتھا کہ وہ بتوں اور شیطانوں کو مانتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ سیدھے راستہ پر ہیں
(سورہ نسا ء :۵۱ )
ان کے علاوہ بت پرست منافقین کی بھی ایک اچھی خاصی جماعت تھی جس کی سیادت عبداﷲ بن اُبی کو حاصل تھی ان سب کے علاوہ مہاجرین کی جماعت تھی جو بیسیوں قبائل سے تعلق رکھتے تھے ، حاصل یہ کہ مدینہ منورہ اس وقت اپنی گوناگوں آبادی کے لحاظ سے مجموعہ اضداد تھا ، اور ایک عجیب طرح کے اندرونی خلفشار اور انتشار میں مبتلا تھا اور بظاہر ان تمام عناصر میں وفاقی وحدت پیدا کرنی ناممکن معلوم ہوتی تھی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔