اس کے بعد حضرت سعد بن معاذؓ عمرہ کے لیے مکہ گئے اور اُمَیّہ بن خلف کے مہمان ہوئے۔ انہوں نے اُمیہ سے کہا : ''میرے لیے کوئی خلوت کا وقت دیکھو ذرا میں بیت اللہ کا طواف کر لوں۔'' اُمیّہ دوپہر کے قریب انہیں لے کر نکلا تو ابوجہل سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے (اُمیہ کو مخاطب کرکے ) کہا : ابوصفوان تمہارے ساتھ یہ کون ہے ؟ اُمیہ نے کہا: یہ سعد ہیں۔ ابوجہل نے سعد کو مخاطب کرکے کہا: ''اچھا ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بڑے امن واطمینان سے طواف کررہے ہو حالانکہ تم لوگوں نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور یہ زعم رکھتے ہو کہ ان کی نصرت واعانت بھی کرو گے۔ سنو ! اللہ کی قسم! اگر تم ابوصفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامت پلٹ کر نہ جاسکتے تھے۔'' اس پر حضرت سعدؓ نے بلند آواز میں کہا :''سن ! اللہ کی قسم اگر تو نے مجھ کو اس سے روکا تو میں تجھے ایسی چیز سے روک دوں گا جو تجھ پر اس سے بھی زیادہ گراں ہوگی۔'' (یعنی اہل مدینہ کے پاس سے گزرنے والا تیرا۔ (تجارتی ) راستہ ۔ (بخاری ، کتاب المغازی ۲/۵۶۳)
پھر قریش نے مسلمانوں کو کہلا بھیجا : ''تم مغرور نہ ہونا کہ مکہ سے صاف بچ کرنکل آئے ، ہم یثرب ہی پہنچ کر تمہارا ستیاناس کردیتے ہیں۔''(رحمۃ للعالمین ۱/۴۰۴)
اور یہ محض دھمکی نہ تھی بلکہ رسول اللہﷺ کو اتنے مؤکد طریقے پر قریش کی چالوں اور بُرے ارادوں کا علم ہوگیا تھا کہ آپ یا توجاگ کر رات گزارتے تھے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہرے ۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ مدینہ آنے کے بعد ایک رات رسول اللہﷺ جاگ رہے تھے کہ ہمیں ہتھیار کی جھنکار سنائی پڑی۔ آپ نے فرمایا : ''کون ہے ؟'' جواب آیا : ''سعد بن ابی وقاص '' فرمایا: کیسے آنا ہوا؟ َ بولے : ''میرے دل میں آپﷺ کے متعلق خطرے کا اندیشہ ہوا تو میں آپﷺ کے یہاں پہرہ دینے آگیا۔'' اس پر رسول اللہﷺ نے انہیں دُعا دی، پھر سو گئے۔( مسلم باب فضل سعدؓ بن ابی وقاص ۲/۲۸۰ ، صحیح بخاری باب الحراسۃ فی الغزو فی سبیل اللہ ۱/۴۰۴)
یہ بھی یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام بعض راتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اور دائمی تھا ، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ ہی سے مروی ہے کہ رات کو رسول اللہﷺ کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:
(۵: ۶۷) (اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا ) تب رسول اللہﷺ نے قبے سے سر نکالا اور فرمایا : ''لوگو ! واپس جاؤ اللہ عزّوجل نے مجھے محفوظ کردیا ہے۔''(جامع ترمذی : ابواب التفسیر ۲/۱۳۰)
پھر یہ خطرہ صرف رسول اللہﷺ کی ذات تک محدود نہ تھا بلکہ سارے ہی مسلمانوں کو لاحق تھا ، چنانچہ حضرت اُبیّ بن کعبؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺ اور آپ کے رُفقاء مدینہ تشریف لائے ، اور انصار نے انہیں اپنے یہاں پناہ دی تو سارا عرب اُن کے خلاف متحد ہوگیا۔ چنانچہ یہ لوگ نہ ہتھیار کے بغیر رات گزارتے تھے اور نہ ہتھیار کے بغیر صبح کرتے تھے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔