Sunday 24 May 2015

مکے میں شکست کی خبر


مشرکین نے میدانِ بدر سے غیر منظم شکل میں بھاگتے ہوئے تتر بتر ہو کر گھبراہٹ کے عالم میں مکے کا رخ کیا۔ شرم وندامت کے سبب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح مکے میں داخل ہوں۔
ابن ِ اسحاق کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جو شخص قریش کی شکست کی خبر لے کر مکے وارد ہوا وہ حَیْسمان بن عبد اللہ خزاعی تھا۔ لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ پیچھے کی کیا خبر ہے ؟ اس نے کہا : عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ابو الحکم بن ہشام ، اُمیہ بن خلف ...اورمزید کچھ سرداروں کا نام لیتے ہوئے ...یہ سب قتل کردیئے گئے۔ جب اس نے مقتولین کی فہرست میں اشراف قریش کو گنا نا شروع کیا تو صفوان بن اُمیہ نے جو حطیم میں بیٹھا تھا کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ ہوش میں ہے تو اس سے میرے متعلق پوچھو۔ لوگوں نے پوچھا: صفوان بن امیہ کا کیا ہوا ؟ اس نے کہا : وہ تو وہ دیکھو ! حطیم میں بیٹھا ہوا ہے۔ واللہ! اس کے باپ اور اس کے بھائی کو قتل ہوتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے۔
ابورافعؓ کا بیان ہے کہ میں ان دنوں حضرت عباسؓ کا غلام تھا۔ ہمارے گھر میں اسلام داخل ہوچکا تھا۔ حضرت عباسؓ مسلمان ہوچکے تھے ، امّ الفضلؓ مسلمان ہو چکی تھیں ، میں بھی مسلمان ہو چکا تھا ، البتہ حضرت عباسؓ نے اپنا اسلا م چھپا رکھا تھا۔ ادھر ابو لہب جنگ بدر میں حاضر نہ ہوا تھا۔ جب اسے خبر ملی تو اللہ نے اس پر ذلت و روسیاہی طاری کردی اور ہمیں اپنے اندر قوت وعزت محسوس ہوئی۔ میں کمزور آدمی تھا تیر بنایا کرتا تھا اور زمزم کے حجرے میں بیٹھا تیر کے دستے چھیلتا رہتا تھا۔ واللہ ! اس وقت میں حجرے میں بیٹھا اپنے تیر چھیل رہا تھا۔ میرے پاس اُم ّ الفضلؓ بیٹھی ہوئی تھیں اور جو خبر آئی تھی اس سے ہم شاداں وفرحاں تھے کہ اتنے میں ابو لہب اپنے دونوں پاؤں بری طرح گھسیٹتا ہواآپہنچا اور حجرے کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ اس کی پیٹھ میری پیٹھ کی طرف تھی۔ ابھی وہ بیٹھا ہی ہوا تھا کہ اچانک شور ہوا: یہ ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب آگیا۔ ابو لہب نے اس سے کہا: میرے پاس آؤ ، میری عمر کی قسم ! تمہارے پاس خبر ہے۔ وہ ابو لہب کے پاس بیٹھ گیا۔ لوگ کھڑے تھے۔ ابو لہب نے کہا: بھتیجے بتاؤ لوگوں کا کیا حال رہا ؟
ابوسفیان نے کہا : کچھ نہیں۔ بس لوگوں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی اور ہم نے اپنے کندھے ان کے حوالے کردیئے۔ وہ ہمیں جیسے چاہتے تھے قتل کرتے تھے اور جیسے چاہتے تھے قید کرتے تھے ، اور اللہ کی قسم! میں اس کے باوجود لوگوں کو ملامت نہیں کر سکتا۔ درحقیقت ہماری مڈبھیڑ کچھ ایسے گورے چٹے لوگوں سے ہوئی تھی جو آسمان وزمین کے درمیان چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے۔ اللہ کی قسم! نہ وہ کسی چیز کو چھوڑتے تھے اور نہ کوئی چیز ان کے مقابل ٹک پاتی تھی۔
ابو رافعؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے خیمے کا کنارہ اٹھا یا ، پھر کہا : وہ اللہ کی قسم فرشتے تھے ۔
یہ سن کر ابو لہب نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میرے چہرے پر زور دار تھپڑ رسید کیا۔ میں اس سے لڑ پڑا۔ لیکن اس نے مجھے اٹھا کر زمین پر پٹک دیا۔ پھر میرے اوپر گھٹنے کے بل بیٹھ کر مجھے مارنے لگا۔ میں کمزور جو ٹھہرا، لیکن اُم ّ الفضل نے اٹھ کر خیمے کا ایک کھمبا لیا اور اسے ایسی ضرب ماری کہ سر میں بُری چوٹ آگئی اور ساتھ ہی بولیں: اس کا مالک نہیں ہے اس لیے اسے کمزور سمجھ رکھا ہے ؟ ابولہب رسوا ہو کر اٹھا اور چلا گیا۔ اس کے بعد اللہ کی قسم صرف سات راتیں گزری تھیں کہ اللہ نے اسے عدسہ (ایک قسم کے طاعون ) میں مبتلا کردیا اوراس کا خاتمہ کردیا۔ عدسہ کی گلٹی کو عرب بہت منحوس سمجھتے تھے ، چنانچہ (مرنے کے بعد ) اس کے بیٹوں نے بھی اسے یوں ہی چھوڑ دیا اور وہ تین روز تک بے گور وکفن پڑا رہا۔کوئی اس کے قریب نہ جاتا تھا اور نہ اس کی تدفین کی کوشش کرتا تھا۔ جب اس کے بیٹوں کو خطرہ محسوس ہو اکہ اس طرح چھوڑنے پر لوگ انہیں ملامت کریں گے تو ایک گڑھا کھود کر اسی میں لکڑی سے اس کی لاش دھکیل دی اور دور ہی سے پتھر پھینک پھینک کر چھپادی۔
اس طرح اہل ِ مکہ کو میدان ِ بدر کی شکست ِ فاش کی خبر ملی اور ان کی طبیعت پر اس کا نہایت برا اثر پڑا حتیٰ کہ انہوں نے مقتولین پر نوحہ کرنے کی ممانعت کردی تاکہ مسلمانوں کو اس کے غم پر خوش ہونے کا موقع نہ ملے۔
اس سلسلے کاا یک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں اسود بن عبد المطلب کے تین بیٹے مارگئے، اس لیے وہ ان پر رونا چاہتا تھا۔ وہ اندھا آدمی تھا۔ ایک رات اس نے نوحہ کرنے والی عورت کی آواز سنی۔ جھٹ اپنے غلام کو بھیجا اور کہا :''ذرا ، دیکھو ! کیا نوحہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے ؟ کیا قریش اپنے مقتولین پر رورہے ہیں تاکہ میں بھی ... اپنے بیٹے ...ابو حکیمہ پر روؤں ، کیونکہ میرا سینہ جل رہا ہے۔'' غلام نے واپس آکر بتا یا کہ یہ عورت تو اپنے گم شدہ اُونٹ پر رورہی ہے۔ اسود یہ سن کر اپنے آپ پر قابو نہ پاس کا اور بے اختیار کہہ پڑا :
أتبـکی أن یضـل لہـا بعیــر ویمنعہـا مـن النوم السہــود
فلا تبکی علی بکـر ولکــن علی بدر تقـاصرت الجـدود
علي بدر سراۃ بنی ہصیـص ومخـزوم ورہـط أبی الولیـد
وبـکی إن بکیت علی عقیل وبکي حارثاً أســد الأســود
وبکیہــم ولا تسمي جمیعاً وما لأبی حـکیـمۃ من ندیــد
ألا قد سـاد بعــدہم رجال ولولا یـوم بــدر لم یسـودوا
''کیا وہ اس بات پر روتی ہے کہ اس کاا ونٹ غائب ہوگیا ؟ اور اس پر بے خوابی نے اس کی نیند حرام کر رکھی ہے ؟ تو اونٹ پر نہ رو بلکہ بدر پر روجہاں قسمتیں پھوٹ گئیں۔ ہاں ہاں ! بدر پر رو جہاں بنی ہصیص، بنی مخزوم اور ابو الولید کے قبیلے کے سر بر آوردہ افراد ہیں۔ اگر روناہی ہے تو عقیل پر رو اور حارث پر رو جو شیروں کا شیر تھا، تو ان لوگوں پر رو اورسب کا نام نہ لے اور ابوحکیمہ کا تو کوئی ہمسر ہی نہ تھا۔ دیکھو ! ان کے بعد ایسے ایسے لوگ سردار ہوگئے کہ اگر بدر کا دن نہ ہوتا تو وہ سردار نہ ہوسکتے تھے۔''

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔