رسول اللہﷺ نے معرکہ ختم ہونے کے بعد تین دن بدر میں قیام فرمایا ، اور ابھی آپﷺ نے میدانِ جنگ سے کوچ نہیں فرمایا تھا کہ مالِ غنیمت کے بارے میں لشکر کے اندر اختلاف پڑگیا اور جب یہ اختلاف شدت اختیار کر گیا تو رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ آپﷺ کے حوالے کردے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم کی تعمیل کی اور اس کے بعد اللہ نے وحی کے ذریعہ اس مسئلے کا حل نازل فرمایا۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ نبیﷺ کے ساتھ مدینے سے نکلے اور بدر میں پہنچے۔ لوگوں سے جنگ ہوئی اور اللہ نے دشمن کو شکست دی۔ پھر ایک گروہ ان کے تعاقب میں لگ گیا اور انہیں کھدیڑ نے اور قتل کرنے لگا اور ایک گروہ مالِ غنیمت پر ٹوٹ پڑا اور اسے بٹورنے اور سمیٹنے لگا اور ایک گروہ نے رسول اللہﷺ کے گرد گھیرا ڈالے رکھا کہ مبادا دشمن دھوکے سے آپﷺ کو کوئی اذیت پہنچادے۔ جب رات آئی اور لوگ پلٹ پلٹ کر ایک دوسرے کے پاس پہنچے تو مالِ غنیمت جمع کرنے والوں نے کہا کہ ہم نے اسے جمع کیا ہے، لہٰذا اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں۔ دشمن کا تعاقب کرنے والوں نے کہا :''تم لوگ ہم سے بڑھ کر اس کے حق دار نہیں کیونکہ اس مال سے دشمن کو بھگانے اور دور رکھنے کاکام ہم نے کیا تھا۔'' اور جو لوگ رسول اللہﷺ کی حفاظت فرما رہے تھے انہوں نے کہا :''ہمیں یہ خطرہ تھا کہ دشمن آپ کو غفلت میں پاکر کوئی اذیت نہ پہنچا دے اس لیے ہم آپﷺ کی حفاظت میں مشغول رہے۔'' اس پراللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١﴾ (۸: ۱)
''لوگ آپﷺ سے مال ِ غنیمت کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو غنیمت اللہ اور رسولﷺ کے لیے ہے، پس اللہ سے ڈرو ، اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرلو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اگر واقعی تم لوگ مومن ہو۔''
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے مالِ غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم فرمادیا۔( مسند احمد ۵ / ۳۲۳ ، ۳۲۴ حاکم ۲/۳۲۶)
رسول اللہﷺ تین روز بدر میں قیام فرماکر مدینے کے لیے چل پڑے۔ آپﷺ کے ہمراہ مشرک قیدی بھی تھے اور مشرکین سے حاصل کیا ہوا مالِ غنیمت بھی۔ آپﷺ نے حضرت عبد اللہ بن کعبؓ کو اس کی نگرانی سونپی تھی۔ جب آپﷺ وادیٔ صفرا ء کے درّے سے باہر نکلے تو درّے اور نازیہ کے درمیان ایک ٹیلے پر پڑاؤ ڈالا اور وہیں خمس (پانچواں حصہ ) علیحدہ کر کے باقی مال ِ غنیمت مسلمانوں پر برابر تقسیم کردیا۔
اور وادیٔ صفراء ہی میں آپﷺ نے حکم صادر فرمایا کہ نضر بن حارث کو قتل کردیا جائے۔ اس شخص نے جنگ ِ بدر میں مشرکین کا پرچم اُٹھارکھا تھا اور یہ قریش کے اکابر مجرمین میں سے تھا۔ اسلام دشمنی اور رسول اللہﷺ کی ایذاء رسانی میں حد درجہ بڑھا ہوا تھا۔ آپﷺ کے حکم پر حضرت علیؓ نے اس کی گردن مار دی۔
اس کے بعد آپﷺ عرق الظبیہ پہنچے تو عقبہ بن ابی معیط کے قتل کا حکم صادر فرمایا۔ یہ شخص جس طرح رسول اللہﷺ کو ایذاء پہنچایا کرتا تھا اس کا کچھ ذکرپیچھے گزر چکا ہے۔ یہی شخص ہے جس نے رسول اللہﷺ کی پیٹھ پر نماز کی حالت میں اونٹ کی اوجھ ڈالی تھی اور اسی شخص نے آپﷺ کی گردن پہ چادر لپیٹ کر آپﷺ کو قتل کرنا چاہا تھا اور اگر ابوبکرؓ بروقت نہ گئے ہوتے تو اس نے (اپنی دانست میں تو )آپﷺ کا گلا گھونٹ کر مار ہی ڈالاتھا۔ جب نبیﷺ نے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا تو کہنے لگا: ''اے محمد ! بچوں کے لیے کون ہے ؟'' آپ نے فرمایا : آگ اس کے بعد حضرت عاصم بن ثابت انصاریؓ نے - اور کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ نے - اس کی گردن ماردی۔( سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود ۳/۱۲)
جنگی نقطۂ نظر سے ان دونوں طاغوتوں کا قتل کیا جانا ضروری تھا کیونکہ یہ صرف جنگی قیدی نہ تھے بلکہ جدید اصطلاح کی روسے جنگی مجرم بھی تھے۔
اس کے بعد آپﷺ مقامِ رَوحا ء پہنچے تو ان مسلمان سربراہوں سے ملاقات ہوئی جو دونوں قاصدوں سے فتح کی بشارت سن کر آپﷺ کا استقبال کرنے اور آپﷺ کو فتح کی مبارک باد پیش کرنے کے لیے مدینے سے نکل پڑے تھے۔ جب انہوں نے مبارک پیش کی تو حضرت سلمہ بن سلامہؓ نے کہا :'' آپ لوگ ہمیں کاہے کی مبارک باد دے رہے ہیں ہمارا ٹکراؤ تو اللہ کی قسم ! گنجے سر کے بوڑھوں سے ہوا تھا جو اونٹ جیسے تھے۔'' اس پر رسول اللہﷺ نے مسکرا کر فرمایا : بھتیجے! یہی لوگ سر برآوردگانِ قوم تھے۔
حضرت اسید بن حضیرؓ عرض پر داز ہوئے :''یارسول اللہ!(ﷺ ) اللہ کی حمد ہے کہ اس نے آپ کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشی۔ واللہ ! میں یہ سمجھتے ہوئے بدر سے پیچھے نہ رہا تھا کہ آپ کا ٹکراؤ دشمن سے ہوگا ، میں تو سمجھ رہا تھا کہ بس قافلے کا معاملہ ہے ، اور اگر میں یہ سمجھتا کہ دشمن سے سابقہ پڑے گا تو میں پیچھے نہ رہتا۔'' رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' سچ کہتے ہو۔''
اس کے بعد آپﷺ مدینہ منور ہ میں اس طرح مظفر ومنصور داخل ہوئے کہ شہر اور گرد وپیش کے سارے دشمنوں پر آپﷺ کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اس فتح کے اثر سے مدینے کے بہت سے لوگ حلقۂ بگوش اسلام ہوئے اور اسی موقع پر عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں نے بھی دکھاوے کے لیے اسلام قبول کیا۔
آپﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے ایک دن بعد قیدیوں کی آمد آمد ہوئی۔ آپ نے انہیں صحابہ کرامؓ پر تقسیم فرمادیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ اس وصیت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود کھجور کھاتے تھے لیکن قیدیوں کو روٹی پیش کرتے تھے۔ (واضح رہے کہ مدینے میں کھجور بے حیثیت چیز تھی اور روٹی خاصی گراں قیمت )
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔