ادھر قریش کا یہ حال تھا کہ جب منصوبۂ قتل کی رات گزر گئی اور صبح کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ رسول اللہﷺ ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں تو ان پر گویا جنون طاری ہوگیا۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علیؓ پر اتارا آپ کو گھسیٹ کر خانہ کعبہ لے گئے اور ایک گھڑی زیر حراست رکھا کہ ممکن ہے ان دونوں کی خبر لگ جائے۔( تاریخ طبری ۲/۳۷۴)لیکن جب حضرت علیؓ سے کچھ حاصل نہ ہوا تو ابوبکرؓ کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ برآمد ہوئیں۔ ان سے پوچھا :تمہارے ابا کہاں ہیں ؟ انہوں نے کہا: واللہ! مجھے معلوم نہیں کہ میرے ابا کہا ں ہیں۔ اس پر کمبخت خبیث ابوجہل نے ہاتھ اٹھا کر ان کے رخسار پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی گرگئی۔( ابن ہشام ۱/۴۸۷)
اس کے بعد قریش نے ایک ہنگامی اجلاس کر کے یہ طے کیا کہ ان دونوں کو گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل کام میں لائے جائیں۔ چنانچہ مکے سے نکلنے والے تمام راستوں پر خواہ وہ کسی بھی سمت جارہا ہو نہایت کڑا مسلح پہرہ بٹھا دیا گیا۔ اسی طرح یہ اعلان عام بھی کیا گیا کہ جوکوئی رسول اللہﷺ اور ابوبکرؓ کو یا ان میں سے کسی ایک کو زندہ یامردہ حاضر کرے گا اسے ہر ایک کے بدلے سو اونٹوں کا گرانقدر انعام دیا جائے گا۔ (صحیح بخاری ۱/۵۵۴)اس اعلان کے نتیجے میں سوار اور پیادے اور نشانات ِ قدم کے ماہر کھوجی نہایت سرگرمی سے تلاش میں لگ گئے اور پہاڑوں ، وادیوں اور نشیب وفراز میں ہر طرف بکھر گئے لیکن نتیجہ اور حاصل کچھ نہ رہا۔
تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک بھی پہنچے لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ابوبکرؓ نے فرمایا: میں نبیﷺ کے ساتھ غار میں تھا۔ سر اٹھا یا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پاؤں نظر آرہے ہیں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! اگر ان میں سے کوئی شخص محض اپنی نگاہ نیچی کردے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپﷺ نے فرمایا : ابوبکر ! خاموش رہو (ہم ) دوہیں جن کا تیسرا اللہ ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
((ما ظنک یا أبا بکر باثنین اللہ ثالثھما۔))
'' ابوبکر ! ایسے دوآدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ جن کا تیسرا اللہ ہے۔''
(ایضاً ۱/۵۱۶ ، ۵۵۸۔)
ایسا ہی مسند احمد ۱/۴ میں ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ابو بکرؓ کا اضطراب اپنی جان کے خوف سے نہ تھا بلکہ اس کا واحد سبب وہی تھا۔ جو اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ ابوبکرؓ نے جب قیافہ شناسوں کو دیکھا تو رسول اللہﷺ پر آپ کا غم فزوں تر ہوگیا اور آپ نے کہا : اگر میں مارا گیا تو میں محض ایک آدمی ہوں لیکن آگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیے گئے تو پوری امت ہی غارت ہوجائے گی اور اسی موقع پر ان سے رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ غم نہ کرو۔ یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ دیکھئے: مختصرالسیرۃ للشیخ عبداللہ ص ۱۶۸
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو مشرف فرمایا، چنانچہ تلاش کرنے والے اس وقت واپس پلٹ گئے۔ جب آپﷺ کے درمیان اور ان کے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ باقی نہ رہ گیا تھا۔
جب جستجو کی آگ بجھ گئی۔ تلاش کی تگ ودو رک گئی اور تین روز کی مسلسل اور بے نتیجہ دوڑ دھوپ کے بعد قریش کے جوش وجذبات سرد پڑ گئے تو رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ نے مدینہ کے لیے نکلنے کا عزم فرمایا۔ عبد اللہ بن اریقط لَیْثی سے ، جو صحرائی اور بیابانی راستوں کا ماہر تھا، پہلے ہی اجرت پر مدینہ پہنچانے کا معاملہ طے ہو چکا تھا۔ یہ شخص ابھی قریش ہی کے دین پر تھا لیکن قابل اطمینان تھا۔ اس لیے سواریاں اس کے حوالے کردی گئی تھیں اور طے ہواتھا کہ تین راتیں گزر جانے کے بعد وہ دونوں سواریاں لے کر غار ثور پہنچ جائے گا۔ چنانچہ جب دوشنبہ کی رات جو ربیع الاول ۱ ھ کی چاند رات تھی (مطابق ۱۶؍ستمبر ۶۲۲ ء) عبد اللہ بن اریقط سواریاں لے کر آگیا اور اسی موقع پر ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں افضل ترین اونٹنی پیش کرتے ہوئے گزارش کی کہ آپ میری ان دوسواریوں میں سے ایک قبول فرمالیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : قیمتاً
ادھر اسماء بنت ابی بکر ؓ بھی زاد سفر لے کر آئیں۔ مگر اس میں لٹکانے والا بندھن لگانا بھول گئیں۔ جب روانگی کا وقت آیا اور حضرت اسماء نے توشہ لٹکانا چاہا تو دیکھا کہ اس میں بندھن ہی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنا پٹکا (کمر بند) کھولا اور دوحصوں میں چاک کر کے ایک میں توشہ لٹکا دیا اور دوسرا کمر میں باندھ لیا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب ذاتُ النّطاقین پڑ گیا۔( صحیح بخاری ۱/۵۵۳، ۵۵۵ ، ابن ہشام ۱/۴۸۶)
اس کے بعد رسول اللہﷺ اور ابو بکرؓ نے کوچ فرمایا۔ عامر بن فُہیرہؓ بھی ساتھ تھے۔ دلیل راہ عبداللہ بن اریقط نے ساحل کا راستہ اختیار کیا۔
غار سے روانہ ہوکر اس نے سب سے پہلے یمن کے رخ پر چلایا اور جنوب کی سمت خوب دورتک لے گیا۔ پھر پچھم کی طرف مڑا اور ساحل سمندر کا رخ کیا۔ پھر ایک ایسے راستے پر پہنچ کر جس سے عام لوگ واقف نہ تھے۔شمال کی طرف مڑ گیا ، یہ راستہ ساحل بحرِ احمر کے قریب ہی تھا اور اس پر شاذونادر ہی کوئی چلتا تھا۔
رسول اللہﷺ اس راستے میں جن مقامات سے گزرے ابن اسحاق نے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب راہنماآپ دونوں کو ساتھ لے کر نکلا تو زیرین مکہ سے لے چلا پھر ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا زیر ین عسفان سے راستہ کاٹا ، پھر زیرین امج سے گزرتا ہوا آگے بڑھا اور قد ید پار کرنے کے بعد پھر راستہ کا ٹا اور وہیں سے آگے بڑھتا ہو ا خرار سے گزرا۔ پھر ثنیۃ المرہ سے ، پھر لقف سے ، پھر بیابان لقف سے گزرا ، پھر مجاح کے بیابان میں پہنچا اور وہاں سے پھر مجاح کے موڑ سے گزرا۔ پھر ذی الغضوین کے موڑ کے نشیب میں چلا۔ پھر ذی کشرکی وادی میں داخل ہوا۔ پھر جدا جدکا رخ کیا۔ پھر اجرد پہنچا اور اس کے بعد بیابا ن تعہن کے وادئ ذو سلم سے گزرا۔ وہاں سے عبابید اور اس کے بعد فاجہ کا رخ کیا۔ پھر عرج میں اترا۔ پھر رکوبہ کے داہنے ہاتھ ثنیۃ العائر میں چلا، یہاں تک کہ وادی رئم میں اترا اور اس کے بعد قبا ء پہنچ گیا۔( ابن ہشام ۱/۴۹۱، ۴۹۲)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔