Thursday 7 May 2015

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا گھیراوُ


ادھر قریش کے اکابرمجرمین نے اپنا سارا دن مکے کی پارلیمان دار الندوہ کی پہلے پہر کی طے کردہ قرارداد کے نفاذ کی تیاری میں گزاری اور اس مقصد کے لیے ان ا کابرمجرمین میں سے گیارہ سردار منتخب کیے گئے ، ابن سعد کے مطابق ان بارہ سرداروں کے نام یہ ہیں،۱- ابو جہل ۲- حکم بن العاص ۳- عقبہ بن ابی معیط ۴- نضر بن حارث ۵- اُمیہ بن خلف ۶- حارث بن قیس بن الغیطلہ ۷- زمعہ بن الاسود ۸- طعیمہ بن عدی ۹- ابو لہب بن عبدالمطلب ۱۰- ابی بن خلف ۱۱- بنیّہ بن حجاج ۱۲- منبّہ بن حجاج-

نبیﷺ کا معمول تھا کہ آپ شروع رات میں عشاء کی نماز کے بعد سوجاتے اور آدھی رات کے بعد گھر سے نکل کر مسجد حرام تشریف لاتے اور وہاں تہجد کی نماز ادا فرماتے۔ اس رات آپ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ وہ آپ کے بستر پر سوجائیں اور آپ کی سبز حضرمی (۲)چادر اوڑھ لیں۔ یہ بھی بتلادیا کہ تمہیں ان کے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ (آپﷺ وہی چادر اوڑھ کر سویا کرتے تھے)
ادھر رات جب ذرا تاریک ہوگئی۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا ، اور عام لوگ اپنی خوابگاہوں میں جاچکے تو مذکورہ بالا افراد نے خفیہ طور پر نبیﷺ کے گھر کا رخ کیا اور دروازے پر جمع ہوکر گھات میں بیٹھ گئے۔ وہ حضرت علیؓ کودیکھ کر سمجھ رہے تھے کہ آپﷺ سوئے ہوئے ہیں۔ اس لیے انتظار کرنے لگے کہ آپ اٹھیں اور باہر نکلیں تو یہ لوگ یکایک آپ پر ٹوٹ پڑیں اور مقررہ فیصلہ نافذ کرتے ہوئے آپ کو قتل کردیں۔
ان لوگوں کو پورا وثوق اور پختہ یقین تھا کہ ان کی یہ ناپاک سازش کامیاب ہوکر رہے گی۔ یہاں تک کہ ابوجہل نے بڑے متکبرانہ اور پُر غرور انداز میں مذاق واستہزاء کرتے ہوئے اپنے گھیرا ڈالنے والے ساتھیوں سے کہا : محمد (ﷺ ) کہتا ہے کہ اگر تم لوگ اس کے دین میں داخل ہوکر اس کی پیروی کرو گے تو عرب وعجم کے بادشاہ بن جاؤ گے۔ پھر مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو تمہارے لیے اردن کے باغات جیسی جنتیں ہوں گی اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ان کی طرف سے تمہارے اندر ذبح کے واقعات پیش آئیں گے۔ پھر تم مرنے کے بعد اٹھا ئے جاؤ گے اور تمہارے لیے آگ ہوگی جس میں جلائے جاؤگے۔( ابن ہشام ۱/۴۸۲، ۴۸۳)
بہرحال اس سازش کے نفاذ کے لیے آدھی رات کے بعد کا وقت مقرر تھا۔ اس لیے یہ لوگ جاگ کر رات گزار رہے تھے اور وقتِ مقررہ کے منتظر تھے ، لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ اسی کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے وہ جوچاہتاہے کرتا ہے۔ جسے بچانا چاہے کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا اورجسے پکڑنا چاہے کوئی اس کو بچا نہیں سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پروہ کام کیا جسے ذیل کی آیت کریمہ میں رسول اللہﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ :
وَإِذْ يَمْكُرُ‌ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِ‌جُوكَ ۚ وَيَمْكُرُ‌ونَ وَيَمْكُرُ‌ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ‌ الْمَاكِرِ‌ينَ (۸:۳۰)
''وہ موقع یاد کرو جب کفار تمہارے خلاف مکر کررہے تھے تاکہ تمہیں قید کردیں یاقتل کردیں یانکال باہر کریں اور وہ لوگ داؤ چل رہے تھے اور اللہ بھی داؤ چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر داؤ والاہے۔''
رسول اللہﷺ اپنا گھر چھوڑتے ہیں:
بہر حال قریش اپنے پلان کے نفاذکی انتہائی تیاری کے باوجود فاش ناکامی سے دوچار ہوئے کیونکہ رسول اللہﷺ گھر سے باہر تشریف لے آئے۔ مشرکین کی صفیں چیر یں اور ایک مٹھی سنگریزوں والی مٹی لے کر ان کے سروں پر ڈالی لیکن اللہ نے ان کی نگاہیں پکڑ لیں اور وہ آپﷺ کو دیکھ نہ سکے۔ اس وقت آپﷺ یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے :
وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُ‌ونَ (۳۶: ۹)
''ہم نے ان کے آگے رکاوٹ کھڑی کردی اور ان کے پیچھے رکاوٹ کھڑی کردی۔ پس ہم نے انہیں ڈھانک لیا ہے اور وہ دیکھ نہیں رہے تھے۔''
اس موقع پر کوئی بھی مشرک باقی نہ بچا۔ جس کے سر پر آپﷺ نے مٹی نہ ڈالی ہو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور پھر ان کے مکان کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے رات ہی رات یمن کا رخ کیا اور چند میل پر واقع ثور نامی پہاڑ کے ایک غار میں جا پہنچے۔( ایضاً ۱/۴۸۳ ، زادا لمعاد ۲/۵۲)
ادھر محاصرین وقت صفر کا انتظار کررہے تھے لیکن اس سے ذرا پہلے انہیں اپنی ناکامی ونامرادی کا علم ہوگیا۔ ہوا یہ کہ ان کے پاس ایک غیر متعلق شخص آیا اورانہیں آپﷺ کے دروازے پر دیکھ کر پوچھا کہ آپ لوگ کس چیز کا انتظار کررہے ہیں ؟ انہوں نے کہا: محمد(ﷺ )کا۔اس نے کہا : آپ لوگ ناکام ونامراد ہوئے۔ اللہ کی قسم ! محمد(ﷺ تو آپ لوگوں کے پاس سے گزرے اور آپ کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے اپنے کام کو گئے۔ انہوں نے کہا :واللہ! ہم نے تو انہیں نہیں دیکھا اور اس کے بعد اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھ پڑے۔
لیکن پھر دروازے کی دراز سے جھانک کر دیکھا تو حضرت علیؓ نظر آئے۔ کہنے لگے :اللہ کی قسم ! یہ تو محمد(ﷺ ) سوئے پڑے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی چادر موجود ہے۔ چنانچہ یہ لوگ صبح تک وہیں ڈٹے رہے۔ ادھر صبح ہوئی اور حضرت علیؓ بستر سے اٹھے تو مشرکین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ انہوں نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کہا ں ہیں۔ حضرت علیؓ نے کہا : مجھے معلوم نہیں۔
( ابن ہشام ۱/۴۸۳ ، زادا لمعاد ۲/۵۲)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔