کعب بن اشرف کے قتل کے بارے میں روایات کا حاصل یہ ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کعب بن اشرف سے کون نمٹے گا ؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اذیت دی ہے ، تو محمد بن مسلمہ نے اٹھ کر عرض کیا:''یارسول اللہ!میں حاضر ہوں۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں ؟آپﷺ نے فرمایا : ہاں ! انہوں نے عرض کیا : ''تو آپ مجھے کچھ کہنے کی اجازت عطافرمائیں۔'' آپﷺ نے فرمایا : کہہ سکتے ہو۔
اس کے بعد محمدبن مسلمہؓ ،کعب بن اشرف کے پاس تشریف لے گئے اور بولے : ''اس شخص نے - اشارہ نبیﷺ کی طرف تھا - ہم سے صدقہ طلب کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے۔''
کعب نے کہا :''واللہ ، ابھی تم لوگ اور بھی اکتاجاؤ گے۔''
محمدبن مسلمہؓ نے کہا : اب جبکہ ہم اس کے پیروکار بن ہی چکے ہیں تو مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ اس کا ساتھ چھوڑ دیں جب تک یہ دیکھ نہ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے ! اچھا ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ایک وَسق یا دووسق غلہ دے دیں۔''
کعب نے کہا :''میرے پاس کچھ رہن رکھو۔''
محمدبن مسلمہؓ نے کہا : ''آپ کو ن سی چیز پسند کریں گے ؟''
کعب نے کہا :''اپنی عورتوں کو میرے پاس رہن رکھ دو۔''
محمدؓ بن مسلمہ نے کہا :''بھلا ہم اپنی عورتیں آپ کے پاس کیسے رہن رکھ دیں جبکہ آپ عرب کے سب سے خوبصورت انسان ہیں۔''
اس نے کہا :''تو پھر اپنے بیٹوں ہی کو رہن رکھ دو۔''
محمد بن مسلمہؓ نے کاکہا :''ہم اپنے بیٹوں کو کیسے رہن رکھ دیں ؟ اگر ایسا ہوگیا تو انہیں گالی دی جائے گی کہ یہ ایک وسق یا دووسق کے بدلے رہن رکھا گیا تھا۔ یہ ہمارے لیے عار کی بات ہے۔ البتہ ہم آپ کے پاس ہتھیار رہن رکھ سکتے ہیں۔''
اس کے بعد دونوں میں طے ہوگیا کہ محمدبن مسلمہؓ (ہتھیار لے کر ) اس کے پاس آئیں گے۔
ادھر ابو نائلہ نے بھی اسی طرح کا اقدام کیا ، یعنی کعب بن اشرف کے پاس آئے۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر کے اشعار سنتے سناتے رہے پھر بو لے :''بھئ ابن اشرف ! میں ایک ضرورت سے آیا ہوں ، اسے ذکرکرنا چاہتا ہوں ، لیکن اسے آپ ذراصیغہ ٔ راز ہی میں رکھیں گے۔''
کعب نے کہا:'' ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔ ''
ابو نائلہؓ نے کہا :'' بھئ اس شخص ...اشارہ نبیﷺ کی طرف تھا ...کی آمد تو ہمارے لیے آزمائش بن گئی ہے۔ ساراعرب ہمارا دشمن ہوگیا ہے۔ سب نے ہمارے خلاف اتحاد کرلیا ہے ، ہماری راہیں بند ہوگئی ہیں، اہل وعیال برباد ہورہے ہیں ، جانوں پر بن آئی ہے، ہم اور ہمارے بال بچے مشقتوں سے چورچور ہیں۔'' اس کے بعد انہوں نے بھی کچھ اسی ڈھنگ کی گفتگو کی جیسی محمدؓ بن مسلمہ نے کی تھی۔ دورانِ گفتگو ابو نائلہؓ نے بھی کہا کہ میرے کچھ رفقا ء ہیں جن کے خیالات بھی بالکل میرے ہی جیسے ہیں۔ انہیں بھی آپ کے پاس لانا چاہتا ہوں۔ آپ ان کے ہاتھ بھی کچھ بیچیں اور ان پر احسان کریں۔
محمدؓ بن مسلمہ اور ابو نائلہؓ اپنی اپنی گفتگو کے ذریعے اپنے مقصد میں کامیاب رہے کیونکہ اس گفتگوکے بعد ہتھیا ر اور رفقاء سمیت ان دونوں کی آمد پرکعب بن اشرف چونک نہیں سکتا تھا۔ اس ابتدائی مرحلے کو مکمل کر لینے کے بعد ۱۴۔ ربیع الاول ۳ ھ کی چاندنی رات کو یہ مختصر سا دستہ رسو ل اللہﷺ کے پاس جمع ہوا۔ آپﷺ نے بقیع غَرقد تک ان کی مشایعت فرمائی۔ پھر فرمایا : اللہ کے نام لے کر جاؤ۔ اللہ تمہاری مدد فرمائے۔ پھر آپﷺ اپنے گھر پلٹ آئے اور نماز و مناجات میں مشغول ہوگئے۔
ادھر یہ دستہ کعب بن اشرف کے قلعے کے دامن میں پہنچا تو اسے ابو نائلہؓ نے قدرے زور سے آواز دی۔ آواز سن کر وہ ان کے پا س آنے کے لیے اٹھا تو اس کی بیوی نے...جو ابھی نئی نویلی دلہن تھی... کہا : '' اس وقت کہاں جارہے ہیں ؟ میں ایسی آواز سن رہی ہوں جس سے گویا خون ٹپک رہا ہے۔''
کعب نے کہا :''یہ تو میرا بھائی محمدؓ بن مسلمہ اور میرا دودھ کا ساتھی ابو نائلہؓ ہے۔ کریم آدمی کو اگر نیزے کی مار کی طرف بلایا جائے تو اس پکار پر بھی وہ جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ باہر آگیا۔ خوشبو میں بسا ہواتھا اور سر سے خوشبو کی لہریں پھوٹ رہی تھیں۔
ابو نائلہؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہہ رکھاتھا کہ جب وہ آجائے گا تومیں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا۔ جب تم دیکھنا کہ میں نے اس کا سر پکڑ کر اسے قابو میں کرلیا ہے تو اس پر پل پڑنا ... اور اسے مار ڈالنا۔ چنانچہ جب کعب آیا تو کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں۔ پھر ابو نائلہؓ نے کہا :''ابن اشرف!کیوں نہ شِعب عجوز تک چلیں، ذرآج رات باتیں کی جائیں۔'' اس نے کہا : اگر تم چاہتے ہو تو چلتے ہیں ؟ اس پر سب لوگ چل پڑے۔ اثنا ء راہ میں ابو نائلہؓ نے کہا : آج جیسی عمدہ خوشبوتو میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔یہ سن کر کعب کا سینہ فخر سے تن گیا۔ کہنے لگا : میرے پاس عرب کی سب سے زیادہ خوشبو والی عور ت ہے۔ ابو نائلہ نے کہا : اجازت ہوتو ذرآپ کا سر سونگھ لوں ؟ وہ بو لا: ہا ں ہاں۔ ابو نائلہ نے اس کے سر میں اپنا ہاتھ ڈالا۔ پھر خود بھی سونگھا اور ساتھیوں کو بھی سونگھایا۔
کچھ اور چلے توابو نائلہؓ نے کہا : بھئ ایک بار اور۔ کعب نے کہا : ہاں ہاں ، ابو نائلہ نے پھر وہی حرکت کی یہاں تک کہ وہ مطمئن ہوگیا۔
اس کے بعد کچھ اور چلے تو ابو نائلہؓ نے پھر کہا : بھئ ایک باراور۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے۔ اب کی بار ابو نائلہ نے اس کے سر میں ہاتھ ڈال کر ذرا اچھی طرح پکڑ لیا تو بولے :''لے لو اللہ کے اس دشمن کو۔'' اتنے میں اس پر کئی تلواریں پڑیں ، لیکن کچھ کام نہ دے سکیں۔ یہ دیکھ کر محمدؓ بن مسلمہ نے جھٹ اپنی کدال لی اور اس کے پیڑو پر لگا کر چڑھ بیٹھے۔ کدال آر پار ہوگئی ا ور اللہ کا دشمن وہیں ڈھیر ہوگیا۔ حملے کے دوران اس نے اتنی زبردست چیخ لگائی تھی کہ گرد وپیش میں ہلچل مچ گئی اور کوئی ایسا قلعہ باقی نہ بچا جس پر آگ روشن نہ کی گئی ہو۔ (لیکن ہوا کچھ بھی نہیں)
کارروائی کے دوران حضرت حارثؓ بن اوس کو بعض ساتھیوں کی تلوار کی نوک لگ گئی تھی۔ جس سے وہ زخمی ہوگئے تھے اور ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا ، چنانچہ واپسی میں جب یہ دستہ حرہ ٔ عریض پہنچا تو دیکھا کہ حارثؓ ساتھ نہیں ہیں، اس لیے سب لوگ وہیں رک گئے۔ تھوڑی دیر بعد حارث بھی ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوئے آن پہنچے۔ وہاں سے لوگوں نے انہیں اٹھا لیا اور بقیع غرقد پہنچ کر اس زور کا نعرہ لگایا کہ رسول اللہﷺ کو بھی سنائی پڑا۔ آپﷺ سمجھ گئے کہ ان لوگوں نے اسے مار لیا ہے ، چنانچہ آپﷺ نے بھی اللہ اکبر کہا ، پھر جب یہ لوگ آپﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا: ((افلحت الوجوہ )) یہ چہرے کامیاب رہیں۔ ان لوگوں نے کہا: (ووجہک یا رسول اللہ) آپﷺ کا چہرہ بھی اے اللہ کے رسول! اور اس کے ساتھ ہی اس طاغوت کا سر آپﷺ کے سامنے رکھ دیا۔ آپﷺ نے اس کے قتل پر اللہ کی حمد وثنا کی اور حارث کے زخم پر لعابِ دہن لگادیا جس سے وہ شفایاب ہوگئے اور آئندہ کبھی تکلیف نہ ہوئی۔
اس واقعے کی تفصیل ابن ِ ہشام ۲/۵۱ - ۵۷ صحیح بخاری ۱/۳۴۱ -۴۲۵ ، ۲/۵۷۷۔ سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۲/۴۲، ۴۳۔ اور زاد المعاد ۲/۹۱ سے ماخوذ ہے۔
ادھر یہود کو جب اپنے طاغوت کعب بن اشرف کے قتل کا علم ہوا تو ان کے ہٹ دھرم اور ضدی دلوں میں رعب کی لہر دوڑ گئی۔ ان کی سمجھ میں آگیا کہ رسول اللہﷺ جب یہ محسوس کرلیں گے کہ امن وامان کے ساتھ کھیلنے والوں، ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے والوں اور عہد وپیمان کا احترام نہ کرنے والوں پر نصیحت کا ر گر نہیں ہورہی ہے تو آپﷺ طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کریں گے ، اس لیے انہوں نے اپنے اس طاغوت کے قتل پر چوں نہ کیا بلکہ ایک دم ، دم سادھے پڑے رہے۔ ایفاء عہد کا مظاہرہ کیا اور ہمت ہار بیٹھے، یعنی سانپ تیزی کے ساتھ اپنی بلوں میں جاگھسے۔
اس طرح ایک مدّت تک کے لیے رسول اللہﷺ بیرون مدینہ سے پیش آنے والے متوقع خطرات کا سامنا کرنے کے لیے فارغ ہوگئے اور مسلمان ان بہت سی اندرونی مشکلات کے بارِ گراں سے سبکدوش ہوگئے جن کا اندیشہ انہیں محسوس ہورہا تھا اور جن کی بُو وقتاً فوقتا ًوہ سونگھتے رہتے تھے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔