1. جب رسول اللہﷺ مدینہ پہنچ گئے تو آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا :''یا رسول اللہ! (ﷺ ) یہ لوگ چچیرے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگ ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپﷺ ان سے فدیہ لے لیں۔ اس طرح جو کچھ ہم لیں گے وہ کفارکے خلاف ہماری قوت کا ذریعہ ہوگا اور یہ بھی متوقع ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے دے اور وہ ہمارے بازو بن جائیں۔''
رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''ابن ِ خطاب! تمہاری کیا رائے ہے ؟ ''انہوں نے کہا : ''واللہ ! میری وہ رائے نہیں ہے جو ابوبکرؓ کی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں کو...جو حضرت عمرؓ کا قریبی تھا - میرے حوالے کردیں اور میں اس کی گردن ماروں۔ عقیل بن ابی طالب کو علیؓ کے حوالے کریں اور وہ اس کی گردن ماریں اور فلاں کوجو حمزہؓ کا بھائی ہے حمزہؓ کے حوالے کریں اور وہ اس کی گردن ماردیں یہاں تک کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے نرم گوشہ نہیں ہے ، اور یہ حضرات مشرکین کے صنادِید وائمہ اور قائدین ہیں۔''
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے ابو بکرؓ کی بات پسند فرمائی اور میری بات پسند نہیں فرمائی ، چنانچہ قیدیوں سے فدیہ لینا طے کرلیا۔ اس کے بعد جب اگلا دن آیا تو میں صبح ہی صبح رسول اللہﷺ اور ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہو ا۔ وہ دونوں رورہے تھے۔ میں نے کہا : ''اے اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں ؟ اگر مجھے بھی رونے کی وجہ ملی تو روؤں گا اور اگر نہ مل سکی تو آپ حضرات کے رونے کی وجہ سے روؤں گا۔'' رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''فدیہ قبول کرنے کی وجہ سے تمہارے اصحاب پر جو چیز پیش کی گئی ہے۔ اسی کی وجہ سے رو رہا ہوں۔'' اور آپﷺ نے ایک قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : مجھ پر ان کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب پیش کیا گیا۔( تاریخ عمر بن خطاب ابن جوزی۔ ص ۳۶) اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٧﴾ لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّـهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٦٨﴾ (۸: ۶۷،۶۸ )
'' کسی نبی کے لیے درست نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خونریزی کرلے۔ تم لوگ دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے ، اور اللہ غالب حکمت والاہے۔ اگر اللہ کی طرف سے نوشتہ سبقت نہ کرچکا ہوتا تو تم لوگوں نے جو کچھ لیا ہے اس پر تم کو سخت عذاب پکڑ لیتا۔''
اور اللہ کی طرف سے جو نوشتہ سبقت کرچکا تھا وہ یہ تھا: إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً (۴۷: ۴) یعنی ''مشرکین کو جنگ میں قیدی کرنے کے بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لے لو۔''
چونکہ اس نوشتے میں قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قبولِ فدیہ پر سزا نہیں دی گئی بلکہ صرف سرزنش کی گئی اور یہ بھی اِس لیے کہ انہوں نے کفار کوا چھی طرح کچلنے سے پہلے قیدی بنا لیا تھا ، اور کہا جاتا ہے کہ آیت مذکورہ بعد میں نازل ہوئی اور جو نوشتہ اللہ کی طرف سے سبقت کرچکا تھا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ تھا کہ اس امت کے لیے مال ِ غنیمت حلال ہے یا کہ اہل بدر کے لیے رحمت ومغفرت ہے۔
بہر حال چونکہ حضرت ابوبکرؓ کی رائے کے مطابق معاملہ طے ہوچکا تھا، اس لیے مشرکین سے فدیہ لیا گیا۔ فدیہ کی مقدار چار ہزار اور تین ہزار درہم سے لے کر ایک ہزار درہم تک تھی۔ اہل ِ مکہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے جبکہ اہل ِ مدینہ لکھنے پڑھنے سے واقف نہ تھے، اس لیے طے کیا گیا کہ جس کے پاس فدیہ نہ ہووہ مدینے کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے۔ جب یہ بچے اچھی طرح سیکھ جائیں تو یہی اس کا فدیہ ہوگا۔
رسول اللہﷺ نے قیدیوں پر احسان بھی فرمایا اور انہیں فدیہ لیے بغیر رہا کردیا۔ اس فہرست میں مطلب بن حنطب ، صیفی بن ابی رفاعہ اور ابو عزہ جمحی کے نام آتے ہیں۔ آخر الذکر کو آئندہ جنگ احد میں قید اور قتل کیا گیا۔ (تفصیل آگے آرہی ہے )
آپﷺ نے اپنے داماد ابو العاص کو بھی اس شرط پر بلا فدیہ چھو ڑ دیا کہ وہ حضرت زینب ؓکی راہ نہ روکیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت زینبؓ نے ابو العاص کے فدیے میں کچھ مال بھیجا تھا جس میں ایک ہار بھی تھا۔ یہ ہا ر درحقیقت خدیجہ ؓ کا تھا اور جب انہوں نے حضرت زینبؓ کو ابو العاص کے پا س رخصت کیا تھا تو یہ ہار انہیں دے دیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے اسے دیکھا تو آپﷺ پر بڑی رِقت طاری ہوگئی اور آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اجازت چاہی کہ ابوالعاص کو چھوڑ دیں۔ صحابہ نے اسے بسرو چشم قبول کر لیا اور رسول اللہﷺ نے ابو لعاص کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ حضرت زینبؓ کی راہ چھوڑ دیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو العاص نے ان کا راستہ چھوڑ دیا اور حضرت زینبؓ نے ہجرت فرمائی۔ رسول اللہﷺ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ اور ایک انصاری صحابی کو بھیج دیا کہ تم دونوں بطن یا جج میں رہنا۔ جب زینبؓ تمہارے پاس سے گزریں تو ساتھ ہو لینا۔ یہ دونوں حضرات تشریف لے گئے اور حضرت زینبؓ کو ساتھ لے کر مدینہ واپس آئے۔ حضرت زینبؓ کی ہجرت کا واقعہ بڑا طویل اور المناک ہے۔
قیدیوں میں سہیل بن عمرو بھی تھا جو بڑا زبان آور خطیب تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا :''اے اللہ کے رسول! سہیل بن عمرو کے اگلے دو دانت تڑوادیجیے ا س کی زبان لپٹ جایا کرے گی اور وہ کسی جگہ خطیب بن کر آپ کے خلاف کبھی کھڑا نہ ہو سکے گا۔'' لیکن رسول اللہﷺ نے ان کی یہ گزارش مسترد کردی کیونکہ یہ مثلے کے ضمن میں آتا ہے جس پر قیامت کے روز اللہ کی طرف سے پکڑ کا خطرہ تھا۔
حضرت سعد بن نعمانؓ عمرہ کرنے کے لیے نکلے تو انہیں ابو سفیان نے قید کر لیا۔ ابو سفیان کا بیٹا عمرو بھی جنگ ِ بدر کے قیدیوں میں تھا۔ چنانچہ عمرو کوابو سفیان کے حوالے کردیا گیا اور اس نے حضرت سعدؓ کو چھوڑ دیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔