حضرت امیر معاویہ رض کی شخصیت وہ ہے کہ جن پر تاریخ میں سب سے زیادہ گند اچھالا گیا ہے مختار بن عبید ثقفی جیسے مدعی نبوت جسکو حضرت عبدللہ ابن زبیر رض نے جہنم واصل کیا تھا 'کی یاد تو بطور ہیرو اور رہنما منائی جاتی ہے لیکن حضرت امیر معاویہ رض پر دل کھول کر کیچڑ اچھالی جاتی ہے انکے اسلام کو مشکوک قرار دیا جاتا ہے اور ہر وہ برائی انکی شخصیت میں تلاش کی جاتی ہے جو انکے کردار کو اسلام کے منافی ثابت کر سکے لیکن ان مذموم کوششوں سے نہ تو ماضی میں انکی شخصیت و کردار کو گہنایا جا سکا ہے اور نہ ہی دور جدید میں یہ کوششیں رنگ لائینگی ۔ انکی شخصیت پر کئی اعتراضات کیے گئے ہیں اور پھر انکے جواب میں باقاعدہ کتابیں بھی لکھیں گئی ہیں، بہت سی کتابیں نیٹ پر بھی موجود ہیں ۔ ہم فضائل یا اعتراضات کی کسی بحث میں پڑے بغیر انکے بارے میں کچھ مستند سطور پیش کرتے ہیں ۔ان کو کھلے ذہن سے پڑھیے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
اے لوگو! تم معاويہ رضی اﷲ عنہ کی گورنری اور امارت کو نا پسند مت کرو، کیونکہ اگر تم نے انہیں (معاويہ رضی اﷲعنہ) گم کر دیا تو ديکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے، جس طرح ہنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹو ٹ کر گر تا ہے۔(البدايہ والنہايہ حافظ ابن کثیر ص130)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے کہ ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور شائد اللہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے‘‘۔
صحیح بخاری۔ جلد:۲/ انتیسواں پارہ/ حدیث نمبر:۶۶۴۳/ حدیث مرفوع
جس شخصیت کی تعریف خود حضرت علی رض نے فرمائی ہو ،جس گروہ کو خود الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کے گروہ میں شامل کیا ہو اور جن لوگوں سے خود حضرت امام حسن رض نے صلح کی ہو آج انکے نام لیوا کس منہ سے حضرت امیر پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔
خالص شیعہ مراجع سے حضرت امیر معاویہ رض کی شخصیت پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں .:
قیس ابن ابی خازم کہتے ہیں کہ ایک شخص معاویہ کے پاس آیا اور اُس سے کوئی مسئلہ پوچھا۔ معاویہ نے جواب دیا کہ جاؤ علی علیہ السلام سے پوچھ لو، وہ سب سے بڑا عالم ہے۔ اُس شخص نے کہا کہ میں نے مسئلہ آپ سے پوچھا ہے اور آپ ہی سے جواب چاہتا ہوں۔
معاویہ نے فوراً جواب دیا: افسوس ہے تم پر! کیا تم اس پر خوش نہیں کہ تمہارے سوال کا جواب تمہیں وہ دے جس کو پیغمبر خدا نے خود اپنی زبان سے علم کی غذا دی ہو اور جس کے بارے میں پیغمبر نے یہ بھی کہا ہو کہ اے علی ! تیری نسبت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ کے ساتھ نسبت تھی۔جس سے خلیفہ دوم حضرتِ عمر ابن خطاب متعدد بار سوال پوچھتے رہے ہوں اور جب بھی مشکل آتی تو حضرتِ عمر یہ پوچھتے کہ کیا علی علیہ السلام یہاں ہیں؟
اس کے بعد معاویہ نے غصے سے اُس شخص کو کہا کہ چلا جا۔ خدا تجھے اس زمین پر پاؤں نہ پھیلانے دے۔ اس کے بعد اُس کا نام بیت المال کی فہرست سے خارج کردیا۔
حوالہ1۔ کتاب”بوستانِ معرفت“،صفحہ305،نقل از حموئی کی کتاب فرائد السمطین،جلد1،
باب68صفحہ371،حدیث302۔
2۔ ابن عساکر، کتاب تاریخ امیر الموٴمنین ،ج1،ص369،370،حدیث410،411
3۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، صفحہ34،حدیث54۔
ماہِ رمضان میں ایک دن احنف بن قیس معاویہ کے دسترخوان پر افطاری کے وقت بیٹھا تھا۔ قسم قسم کی غذا دستر خوان پر چن دی گئی۔ احنف بن قیس یہ دیکھ کر سخت حیران ہوا اور بے اختیار اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ معاویہ نے رونے کا سبب پوچھا۔ اُس نے کہا کہ مجھے علی کے دسترخوان کی افطاری یاد آگئی۔ کس قدر سادہ تھی۔
معاویہ نے جواب دیا:”علی علیہ السلام کی بات نہ کرو کیونکہ اُن جیسا کوئی نہیں“۔
حوالہ کتاب”علی علیہ السلام معیارِ کمال“، تالیف:ڈاکٹر مظلومی۔
وہ سوالات جن کا معاویہ کو جواب معلوم نہ ہوتا تھا ،وہ لکھ کر اپنے کسی آدمی کو دیتا تھا اور کہتا تھا کہ جاؤ ان سوالات کا جواب علی علیہ السلام سے پوچھ کر آؤ۔ شہادتِ علی علیہ السلام کی خبر جب معاویہ کو ملی تو کہنے لگا کہ علی علیہ السلام کے مرنے کے ساتھ فقہ و علم کا در بھی بند ہوگیا۔ اس پر اُس کے بھائی عتبہ نے کہا کہ اے معاویہ! تمہاری اس بات کو اہلِ شام نہ سنیں۔ معاویہ نے جواب دیا:”مجھے( میرے حال پر )چھوڑ دو“۔
حوالہ کتاب”بوستانِ معرفت“، صفحہ659،نقل از ابوعمر کی کتاب استیعاب، جلد3،صفحہ45
شرح حالِ علی علیہ السلام سے۔
معاویہ نے ابوہریرہ سے کہا کہ میں گمان نہیں کرتا کہ زمام داریٴ حکومت کیلئے میں حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ مستحق ہوں۔
حوالہ :کتاب”بررسی مسائل کلی امامت“، تالیف: آیۃ اللہ ابراہیم امینی،صفحہ74،نقل از کتاب”الامامۃ والسیاسۃ“، جلد1،صفحہ28۔
معاویہ کا خط علی علیہ السلام کے نام
”معاویہ نے اپنے خط بنام علی علیہ السلام میں لکھا کہ میں اپنی جان کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ آپ کے فضائلِ اسلامی اور رسولِ خدا کے ساتھ قرابت داری کا منکر نہیں ہوں“۔
علی علیہ السلام کی تعریف معاویہ کی زبان سے
جب محصن ضبی معاویہ کے پاس پہنچا تو معاویہ نے اُس سے پوچھا کہ تم کہاں سے آرہے ہو؟اُس نے جواب دیا کہ میں(معاذاللہ) کنجوس ترین شخص علی ابن ابی طالب کے پاس سے آرہا ہوں۔ یہ سن کر معاویہ اُس پر چلّایا اور کہا :کیا تم اُس کو بخیل ترین شخص کہہ رہے ہو جس کے پاس اگر ایک گھر سونے(طلاء) سے بھرا ہوا ہو اور دوسرا گھر چاندی سے بھرا ہوا ہو تو وہ بیکسوں کو زیادہ سونا بانٹ دے گا اور پھر طلاء اور چاندی کو مخاطب کرکے کہے گا کہ:
یٰاصَفْرٰاءُ وَیٰا بَیْضٰاءُ غُرِّی غَیْرِی أَبِی تَعَرَّضْتِ اَمْ اِلیَّ
تَشَوَّقْتِ؟ھَیھٰاتَ ھَیھٰاتَ قَدْ طَلَّقْتُکِ ثَلٰثاً لاٰ رَجْعَةَ فِیْکَ۔
”اے طلاءِ زرد اور سفید چاندی! میرے کسی غیر کو دھوکہ دو، کیا اس طرح تم میری مخالفت کررہی ہو یا مجھے حوصلہ دے رہی ہو۔ افسوس ہے، افسوس ہے، میں نے تجھے تین مرتبہ طلاق دے دی ہے جس کے بعد رجوع ممکن نہیں“۔
حوالہ کتاب”چراشیعہ شدم“،صفحہ227۔
جاحظ کتاب المحاسن والاضداد میں لکھتا ہے کہ ایک دن حضرتِ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام معاویہ کی محفل میں گئے۔ اس محفل میں عمروعاص، مروان بن حکم اور مغیرہ بن شعبہ اور دوسرے افراد پہلے سے موجود تھے۔جس وقت امام حسن علیہ السلام وہاں پہنچے تو معاویہ نے اُن کا استقبال کیا اور اُن کو منبر پر جگہ دی۔ مروان بن حکم نے جب یہ منظر دیکھا تو حسد سے جل گیا۔ اُس نے اپنی تقریر کے دوران امام حسن علیہ السلام کی توہین کی ۔ امام حسن علیہ السلام نے فوراً اُس خبیث انسان کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان حالات کو دیکھ کر معاویہ اپنی جگہ سے بلند ہوا اور مروان بن حکم کو مخاطب کرکے کہنے لگا:
”قَدْ نَھَیْتُکَ عَنْ ھٰذا الرَّجُل۔۔۔۔۔فَلَیْسَ اَ بُوْہُ کَاَبِیْکَ وَلَا ھُوَ مِثْلُکَ۔اَنْتَ اِبْنُ الطَّرِیْد الشَرِیْد،وَھُوَ اِبْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ الکریم۔
”میں نے تجھے اس مرد(کی توہین) کے بارے میں منع کیا تھا کیونکہ نہ اُس کا باپ تمہارے باپ جیسا ہے اور نہ وہ خود تمہارے جیسا ہے۔ تم ایک مردود و مفرور باپ کے بیٹے ہو جبکہ وہ رسولِ خدا کا بیٹا ہے“۔
حوالہ کتاب”المحاسن والاضداد“،تالیف:جاحظ(از علمای اہلِ سنت)،صفحہ181۔
گزارش ہے کہ اہل بیت کی محبت کا دم بھرنے والے اصحاب رسول سے مخاصمت چھوڑ دیں کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاۓ گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انکی عاقبت کی سیاہی میں مزید اضافہ ضرور ہوگا اس تبرائی فکر نے اب تک تو اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بجز انتشار کے۔۔۔
یہ دور سینوں کی غلاظت کو اگلنے کا نہیں بلکہ افہام و تفہیم کا تقاضہ کرتا ہے. ......
اگریہ
مشاجرات برپا نہ ہوتے
مورخ اسلام مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی رحمہ اللہ کا اس دور پر تبصرہ انکی کتاب تاریخ اسلام سے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش ہے۔
"اگریہ
مشاجرات برپا نہ ہوتے اگرحضرت امیرمعاویہ اور حضرت علی کی معرکہ آرائیاں
نہ ہوتیں توہم آج شریعتِ اسلام کے ایک بڑے اور ضروری حصے سے محروم وتہی دست
ہوتے؛ خدائے تعالیٰ خود اس دین کا محافظ ونگہبان ہے، وہ خود اس کی حفاظت
کے سامان پیدا کرتا ہے؛ چنانچہ اس نے وہ سامان یعنی حضرت علی اور
امیرمعاویہ میں اختلاف پیدا کیا،
اب اسی مذکورہ مدعا کے ایک دوسرے پہلو پرنظر کرو؛ ہرایک حکومت، ہرایک
سلطنت اور ہرایک نظامِ تمدن کے لیئے جس جس قسم کی رکاوٹیں دقتیں اور
پیچیدگیاں پیدا ہونی ممکن ہیں اور آج تک دنیا میں دیکھی گئی ہیں، ان سب کے
نمونے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشاجرات
میں موجود ہیں،
ان
مشکلات کے پیدا ہونے پرعام طور پرحکمرانوں، حکمراں خاندانوں اور بادشاہوں
نے آج تک جن اخلاق اور جن کوششوں کا اظہار کیا ہے ان سب سے بہتر اور قابل
تحسین طرزِ عمل وہ ہے جوصحابہ کرام نے ایسی حالتوں میں ظاہر کیا،
سلطنتوں
کے بننے اور بگڑنے، قوموں کے گرنے اور ابھرنے، خاندانوں کے ناکام رہنے اور
بامراد ہونے کے واقعات سے اس دنیا کی تمام تاریخ لبریز ہے، چالاکیوں، ریشہ
دوانیوں اور فریب کاریوں کے واقعات سے کوئی زمانہ اور کوئی عہد حکومت خالی
نظر نہیں آتا، ان سب چیزوں کے متعلق ہم جب تلاش کرتے ہیں توحضرت علی کرم
اللہ وجہہ اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفتوں کی روئداد ہمارے
سامنے یک جاسب کے نمونے پیش کردیتی ہے اور ہم اپنے لیئے بہترین طرز کار اور
اعلیٰ ترین راہ عمل تجویز کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،
یہ
ہماری نابینائی اور بدنصیبی ہے کہ ہم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین
کی اجتہادی مخالفتوں اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ وحضرت علی رضی اللہ
عنہ کے مشاجرات کو بجائے اس کے کہ اپنے لیے موجب عبرت وبصیرت اور باعثِ
خیرونافع بناتے، اپنی نااتفاقی ودرندگی اور اپنی فلاکت ونکبت کا سامان
بنالیا "۔