Tuesday 27 January 2015

اسلامی ذخائر کتب میں گمراہ کن نظریات کی تدسیس پر ایک تحقیق


یہ تحریر سات حصوں پر مشتمل ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔


حضرت جعفر رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد شیعہ کے دو گروہ پیدا ہوئے ۔جس نے ان کے چھوٹے بیٹے حضرت موسی کاظم کو ان کا جانشین تسلیم کیا وہ آگے چل کر امامیہ اثنا عشریہ کے نام سے مشہور ہوا۔جنہوں نے ان کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کو ان کا جانشین تسلیم کیا وہ آگے چل کر اسمعیلیہ کے نام سے مشہور ہوا ۔ یہ اگرچہ شیعت ہی کی شاخ تھی لیکن بعد میں یہ تحریک اپنے معتقدات اور اعمال کے لحاظ سے شیعت سے بھی کوسوں دور نکل گئی ، تاریخ میں اسے ملاحدہ، باطنیہ، تعلیمیہ اور قرامطہ جیسے القاب سے یاد کیا گیا۔ حمدان قرمط ایک عراقی کاشتکار تھا ، چونکہ اس کی ٹانگیں چھوٹیں تھیں اس لیے اسے قرمط کہتےتھے۔ ا س نے اسمعیلی مذہب کو باطنی تحریک میں تبدیل کردیا، اسی کے نام سے اسماعیلی فرقہ قرامطہ کے نام سے موسوم ہوگیا۔
شروع میں یہ مسلح تحریک کے طور پر سامنے آئے اور عرصے تک قتل و غارت کا بازار گرم رکھا۔ سنہ۳۱۳ھ میں قرامطہ کے خوف سے کسی نے حج نہیں کیا، اس قدر شدت پسند، لڑاکے اور خبثاء تھے کہ ایک سال حج کے موقع پربیت اللہ شریف سے حجراسود کواُٹھا کر لے گئے اوربیس برس تک حجراسود انکے قبضہ میں رہا۔ 
عباسی خلیفہ نے انکی سرکوبی شروع کی اور مصر ، بحرین عراق وشام وغیرہ پر عرصے سے چلے آنے والی انکی حکومتیں برباد ہوگئیں، اس کے بعد قرامطہ کے عقائد و اعمال میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی، انہوں نے خفیہ طور پر اپنی انجمنیں قائم کیں اوراُن خفیہ جماعتوں کے ذریعہ انہوں نے اپنی تبلیغ اوراپنی جماعت کے ترقی دینے کا سلسلہ جاری کیا، جا بجا اپنے داعی مقرر کردئیے، ان داعیوں کی جماعت اپنے رازوں کو بہت محفوظ رکھتی تھی زاہدوں اور پیروں کے لباس میں یہ لوگ نظر آتے اور لوگوں کو اپنا مرید بناتے پھرتے تھے۔
مصر کے عبیدی بادشاہ نے ان کی سر پرستی اور ہر قسم کی امداد کی، ان کے ذریعے سلطنت اسلامیہ کی بربادی کے لئے عبیدیوں نے اسلامی ممالک میں قرامطہ کے داعیوں کا ایک جال غیر محسوس طریقہ پر پھیلادیا تھا، چونکہ یہ لوگ ایک مٹی ہوئی سلطنت کے سوگوار تھے،اس لئے موقعہ پاتے ہی یہی داعی یا پیراپنے رفیقوں یعنی خاص مریدوں کے مدد سے رہزنوں اور ڈاکوؤں کے لباس میں بھی تبدیل ہوجاتے تھے، چونکہ ان کی کماحقہ،سرکوبی ابتدا میں نہ ہوسکی اس لئے ان کی قوت بہت بڑھ گئی تھی،مسلمان سرداروں کو چُھپ چُھپ کر قتل کرنا اُنہوں نے اپنا خاص شیوہ بنالیا تھا،جس جگہ کوئی حاکم نہایت چست اورچوکس ہوتا وہاں یہ بالکل خاموش اور روپوش رہتے،لیکن جس جگہ انتظام سلطنت کو کسی قدر کمزور پاتے وہاں قتل وغارت کے ہنگاموں سے قیامت برپا کردیتے، یہ خفیہ طور پر اپنا کام کرتے تھے اس لئے ان کو باطینہ کے نام سے مشہور ہوئے، بعد میں ان باطینوں نے رفتہ رفتہ ترقی کرکے اصفہان کے قلعہ شاہ ورپر قبضہ کرلیا.
ان کے جس لیڈر کو سب سے ذیادہ شہرت ملی وہ حسن بن صباح تھا ، حسن بن صباح کا صحیح نام ونسب حسن بن علی بن احمد بن جعفر بن حسن بن صباح الحمیری تھا۔ اس نے قلعہ الموت میں اپنی سلطنت قائم کررکھی تھی؛ اس کے پیروکار حشیشین کہلاتے ، حشیش کا نشہ ان کی زندگی کا لازمہ تھا، 
سلجوقیوں کی خانہ جنگی اورضعف واختلال نے ان باطنیوں کی حکومت کو مستقل وپائدار ہونے کا موقعہ دیا،جس کو بعد میں فدائیوں کی سلطنت ،سلطنتِ اسمعیلیہ،سلطنت حشاشین وغیرہ ناموں سے یاد کیا گیا،حسن بن صباح جس طرح اس سلطنت وحکومت کا بانی تھا، اسی طرح وہ اپنے فرقہ اورمذہب کا بھی بانی سمجھا گیا، اُس نے عام باطنیوں کے برعکس بعض نئے طریقے اعمال وعبادات میں ایجاد کئے،اُس کے تمام مریدین اُس کو سیدنا کہتے تھے، عام طور پر وہ شیخ الجبل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، وہ ۳۵سال قلعہ الموت پر قابض و حکمراں رہا۔
اس نے فدائیوں کا ایک گروہ تیار کیا ہوا تھا، جو اس کے اشارے پر جان دینا اپنا مقصد زندگی سمجھتے تھے، حسن دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں، وزیروں، عالموں کوحسن بن صباح قلعہ الموت میں بیٹھا ہوا اپنے فدائیوں کے ہاتھ سے قتل کرادیتا تھا،اس طرح اُس کی دھاک دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی اوربڑے بڑے بادشاہ اپنے محلوں اور دارالحکومتوں میں اطمینان کے ساتھ نہیں سوسکتے تھے،
اسکے فدائیوں کے ہاتھ سے جو لوگ قتل ہوئے اُن میں خواجہ نظام الملک طوسی ،وزیر اعظم سلطان الپ ارسلان وملک شاہ سلجوقی،فخر الملک بن خواجہ نظام الملک ، شمس تبریزی، مولونا رومی،نظام الملک معود بن علی وزیر خوارزم شاہ،سلطان شہاب الدین غوری اور بعض عیسائی سلاطین یورپ خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں، سلطان صلاح الدین ایوبی اورحضرت امام فخر الدین رازی کو بھی ملاحدہ نے قتل کی دھمکی دی تھی مگر وہ بچ گئے۔
انکی حکومت سنہ۴۸۳ھ سے سنہ۶۵۵ھ تک پونے دوسوسال تک قائم رہی، پہلے جلال الدین بن علاء الدین خوارزم شاہ نے ان پر چڑھائی کرکے ان کے زور وقوت کو توڑا اورقلعہ الموت میں ان کو محصور کرکے تمام دوسرے قلعوں کو اُن سے چھین کر ویران ومنہدم کردیا ، رہی سہی کسر ہلاکو خان نے آکر نکال دی۔
سلطنت کے برباد ہونے کے بعد قرامطہ نے دوبارہ زاہدوں اور پیروں کا لباس اوڑھا اور دور علاقوں ہندوستان وغیرہ کی طرف نقل مکانی کرگئے۔ 

اس باطنیہ اسمٰعیلیہ فرقہ نے جہاں ایک طویل عرصے تک ملت اسلامیہ کو جانی و مالی نقصان پہنچایا وہیں اپنے باطل نظریات کو بھی بالواسطہ طور پر عامۃ المسلمین کے مختلف طبقات و عناصر میں پوری قوت کے ساتھ پیوست کرنے کی اپنی شیطانی کوشش میں کوئی کسر نہ چھوڑی، چنانچہ انہوں نےمسلمانوں کے تہذیب، تمدن، معیشت، سیاست، معاشرت، عبادات، تفسیر، احادیث، اسلامی علوم و فنون غرض ہر شعبہ زندگی میں اپنا اثر ڈالا ۔
انہوں نے اپنی عیاری اور معاندانہ سرگرمیوں سے اسلامی کتابوں میں جو گمراہ کن تدسیس (اپنی باتوں کو دوسروں کی باتوں میں ملا کر چھپانا) کرنے کی کوشش کی، اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو اس موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے ، مگر ہم مضمون کو طوالت سے بچانے کے لیے آئندہ اقساط میں صرف چند بڑی مثالوں پر اکتفا کریں گے۔
(جاری ہے)



قرآن کی حفاظت کے لیے حضرات صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں یہ سلسلہ رہا کہ ایک ہی شخص حافظ قرآن، مفسر قرآن اور علم قراء ت کا ماہر ہوتا تھا۔ پھر جیسے جیسے صلاحیتوں میں کمزوری آتی گئی ویسے ویسے حفاظت قرآن کی خدمت امت مسلمہ کے مختلف طبقوں میں تقسیم ہوتی گئی۔
چناں چہ حضرات علمائے مفسرین نے قرآن کریم کے معانی ومطالب، تفسیر وتشریح او رمراد خداوندی کی حفاظت فرمائی۔ حضرات قراء ومجودین نے اس کی مختلف قراءت ، ادائیگی حروف او رمخارج وصفات کی حفاظت کی او رحضرات حفاظ نے اس کے الفاظ کو اپنے سینوں میں محفوظ کرکے یہ خدمت انجام دی ۔ 
یوں متن کی حفاظت، معنی ومفہوم کی حفاظت، زبان کی حفاظت، الفاظ و معانی کی عملی صورت کی حفاظت، شانِ نزول کی حفاظت، سیرت نبوی کی حفاظت ، قرآن کے اولین مخاطب کے حالات کی حفاظت ، تابعین کے حالات کی حفاظت وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کو قرآن کی حفاظت کی خاطر اللہ رب العزت نے حیرت انگیز انداز میں تحفظ بخشا، اوراپنی کامل قدرت کا مظاہرہ کیا۔
دشمنان اسلام نے اپنے تمام وسائل و طریقے استعمال کرنے کے بعد یہ جان لیا کہ اللہ کی اس کتاب میں وہ لوگ کسی طرح کی لفظی تبدیلی نہیں کر سکتے ، پھر انہوں نے قران کے فہم میں معنوی تحریف کا راستہ اپنایا اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ، اور ہیں۔
باطنیہ نے قرآن کی باطنی تفسیر کو اپنے پیروں ، جوگیوں کے ذریعے رواج دیا ، وہ یہ کہتے ہی قرآنی نصوص کے باطنی معانی بھی ہیں جن کو ’مرشد‘ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس سے مقصود ان کا یہ ہے کہ شریعت کو بالکلیہ معطل کردیا جائے“۔
تفسیر باطنی دراصل ”تحریف الکلم عن مواضعہ“ کی ہی ایک صورت ہے یعنی کلمات کو ان کے اصل مواضع سے ہٹا دینا اور یوں شرعی دلائل کو اپنی اصل حیثیت اور دلالت سے محروم کر دینا۔ 
باطنیوں کی کچھ فاسد تاویلات ملاحظہ فرمائیں:
وورث سلیمان داؤد (النحل: 16) ”سلیمان علیہ السلام نے داؤد علیہ السلام کی وراثت پائی“ کہتے ہیں (سلیمان اور داؤد رمزیہ بیان ہوئے) مراد ہے امام علی رضی اللہ تعالی عنہ کا نبی کا وارث بننا۔
” طہارت حاصل کرنے‘ سے مراد ہے ’امام معصوم‘ کی پیروی کے ماسوا ہر مذہب سے براءت کرلینا!
’تیمم‘ سے مراد ہے امام کے شہود تک رخصتیں اختیار کئے رکھنا!
’روزہ‘ یہ ہے کہ آدمی راز کو قابو کئے رہے!
’کعبہ‘ سے مراد ہیں: نبی اور بابِ کعبہ: علی رضی اللہ تعالی عنہ! 
اسی طرح قرآن میں ’صفا‘ سے مراد ہیں: نبی اور مروہ سے: علی رضی اللہ تعالی عنہ۔
یوں آدمی کو نبی اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مابین سعی کرتے رہنا ہے!
’آتش نمرود‘ سے مراد ہے نمرود کا قہر وغضب، جس کی ابراہیم علیہ السلام نے پرواہ نہ کی!
عصائے موسی علیہ السلام سے مراد ہے موسی علیہ السلام کی قوتِ دلیل وحجت!
یہ ہیں چند مثالیں ان خرافات کی جو باطنی تفسیر کے تحت کی جاتی ہیں اور جو نہ عقل کی رو سے قابل قبول ہیں اور نہ نقل کی رو سے۔ یہ حقیقت میں قرآن اور سنت کو ایک شدید انارکی سے دوچار کردینے کی ایک کوشش تھی کہ شریعت کے الفاظ کو کوئی جو معنی چاہے پہنا لے اور یہ کہ شریعت کے کسی لفظ کا کسی دن کچھ بھی مطلب نکل آئے! شریعت گویا معاذ اللہ ایک مہمل کلام ہے۔ کچھ بھی بول کر کچھ بھی مراد لی جا سکتی ہے اس کے لئے کوئی بھی قاعدہ ضابطہ نہیں! مزید یہ کہ لوگ ایک دوسرے کا سر پھوڑتے پھریں اور ہر آدمی یہ دعویٰ کرے کہ ’دوسرے‘ قرآن کامطلب ہی نہیں سمجھ پائے!
آج کے دور میں قرآن میں تحریف کا ایک طریقہ رائج کیا گیا ہے وہ یہ کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل ، رائے ، منطق اور فلسفہ کا استعمال ۔اُمت مسلمہ کے ہر کس و ناکس کو بظاہر قران کا محب اور قران پر عمل پیرا ہونے کےزعم میں مبتلا کرکے یہ کج روی سجھائی گئی ہے کہ احادیث کو چھوڑ کر اپنی سوچ و فکر کی بنا پر قرآن کو سمجھے اور سمجھائے ، چنانچہ آج ہم ایسے کئی لوگوں کو دیکھتے ہیں جو قران کریم میں مذکور اللہ تبارک و تعالی کے الفاظ مبارک میں سے چند ایک کے بھی لفظی و لغوی معانی نہیں جانتے چہ جائیکہ ان کے احکام اور اللہ کی مراد جانتے ہوں' وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو رد کرتے ہیں ، اور قران کی معنوی تحریف کرتے ہیں ۔
(جاری ہے)



باطنیہ نے قرآن کے بعد د احادیث میں تدسیس کے لیے بھی کوششیں کیں ، چنانچہ ملا علی قاری کے ایک قول کے مطابق باطنیہ نے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں تین لاکھ کے قریب روایات گھڑ کے پھیلائی ہیں۔ کچھ گھڑی گئی روایتوں کی مثالیں پیش خدمت ہیں جنہیں قرامطہ نے ذخیرہ احادیث میں داخل کرنے کی کوشش کی اور علما نے انکی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔

روایت "انا مدینۃ العلم" یا " انا دادالحکمۃ وعلی بابھا" :۔
قرامطہ اور ان کے ہم خیالوں نے اس قدر جسارت کی کہ اپنے مزعوماتِ باطلہ احادیث نبوی کے لباس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیے ، منجملہ ان کے یہ حدیث ہے جو ترمذ ی میں بھی موجود ہے۔
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أنا دار الحكمة وعلي بابها " . رواه الترمذي 
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : میں حکمت ودانائی کا گھر ہوں اورعلی اس گھر کا دروازہ ہیں ''
مشہور محدت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اپنے مکتوب میں صفحہ ۷۵، ۱۷۹،۱۸۰ پر تحریر فرماتے ہیں۔
" یہ روایت نہ تو صحیحین میں ہے اور نہ روایت کا ذکر کرنیوالے اس کی تصحیح فرماتے ہیں۔ تر مذی نے بھی روایت کے بعد کلام کیا ہے کہ بعض علما نے یہ حدیث شریک تابعی سے روایت کی ہے مگر علمائے حدیث اس کو ثقات میں سے نہیں پہچانتے۔ سوائے شریک کے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے موضوعات میں اس کے جملہ طرق پر یقین کے ساتھ باطل ہونے کا حکم دیا ہے ۔ ایک جماعت محدثین کی اس کے موضوع ہونے کی قائل ہے۔امام الجرح والتعدیل یحیی بن معین رحمہ اللہ صاف فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سرے سے کوئی اصل نہیں ہے۔ طاہر پٹنی نے بھی اس کی صحت کا انکار کیا ہے۔ ۔ ۔ امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری بھی روایت کی صحت کو تسلیم نہیں فرماتے"۔
( مکتوبات شیخ الاسلام حصہ اول، اردو بک سٹال لاہور) ( حاشیہ از مولانا نجم الدین صاحب اصلاحی مرتب مکتوبات شیخ الاسلام) ۔

ناد علی کی روایت :۔
قرامطہ کے سلسلے میں یہ روایت بہت مقبول ہے اور کم علم صوفیا کے ہاں بھی نقل ہوتی آرہی ہے ۔ جب جنگ احد میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے اور جسم سے خون بہنے لگا تو جبریل نے آکر آپ سے کہا کہ نادِ علیاَ والی دعا پڑھو یعنی علی کو پکارو، جب آپ نےیہ دعا پڑھی تو علی رضی اللہ عنہ فورا آپ کی مدد کے لئے آئے اور کفار کو قتل کرکے آپ کو اور تمام مسلمانوں کو قتل ہونے سے بچا لیا۔
( درویشوں کا بیکتاشی سلسلہ مصنفہ ڈاکٹر برج صفحہ ۱۳۸)
اہل علم جانتے ہیں کہ حضور نے ایسی کوئی دعا نہیں پڑھی اور نہ تاریخ یا سیرت کی کسی کتاب میں یہ دعا مرقوم ہے، پھر بھی یہ روایت اہل سنت کی کتابوں میں راہ پاگئی اور ایک سنی صوفی سید مظفر علی شاہ چشتی نے اپنی کتاب جواہر غیبی میں اسے ذکر کیا۔ 

اس کے علاوہ بھی بہت سی گھڑی ہوئی احادیث ہے جن کی ہمارے علما نے تحقیق کے بعد نشاندہی کی ہے لیکن یہ روایات پھر بھی اس تحقیق سے لا علم لوگوں کی تحریرات میں نقل ہوتی آرہی ہیں۔
حدیث چونکہ وحی کی ایک قسم تھی اس لیے اللہ نے اس کی حفاظت کا بھی ایک نظام بنایا ۔جھوٹی احادیث وضع کرنے کا سلسلہ صحابہ کے دور سے سبائیوں نے شروع کردیا تھا اس لیے اہل علم صحابہ کرام نے روایت کو قبول کرنے کے لئے تحقیق کو لازم قرار دیا اور حدیث کے قبول کرنے کا ایک معیار مقرر کیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف من گھڑت بات منسوب نہ ہوجائے۔ بعد میں باقاعدہ علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول مرتب ہوئے اور اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کا باقائدہ ایک فن وجود میں آیا جس سے چودہ سوسال بعد بھی ہر حدیث کی سند اور متن کی تحقیق با آسانی ہوجاتی ہے۔
خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک زندیق کو قتل کے لیے لایا گیا ، وہ کہنے لگا کہ تم مجھے تو قتل کردوں گے لیکن ان ایک ہزار حدیثوں کا کیا کرو گے جو میں نے وضع کرکے چالو کردی ہیں، ہارون الرشید نے فورا جواب دیا :
اے دشمن خدا ! تو ابو اسحق فزاری اور ابن مبارک سے بچ کر کہا ں جاسکتا ہے وہ ان کو چھلنی کی طرح چھان کر ایک ایک حروف نکال پھینکیں گے۔(

(جاری ہے)



قرامطہ نے قرآن و حدیث کے بعد تاریخ اسلام کو خصوصی طور پر تدسیس وتحریف کا ہدف بنایا اور اسکا خاص مقصد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ کی تنقیص و توہین وتحقیر تھی۔ سیرۃ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ مولفہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ سے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ مولانا لکھتے ہیں :۔
" بعض شیعہ مورخوں نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کچھ سپاہیوں کے ساتھ ایک سپید خچر پر سوار ہوکر اما م حسن رضی اللہ عنہ کے جنازے کو روکنے کے لیے نکلیں، یہ روایت تاریخ طبری کے ایک پرانے(نسخے) فارسی ترجمے میں، جو ہندوستان میں بھی چھپ گیا ہے، میں نظر سے گذری، لیکن جب اصل متن عربی مطبوعہ یورپ کی طرف رجوع کیا تو جلد ہفتم کا ایک ایک لفظ پڑھنے کے بعد بھی یہ واقعہ نہ ملا، طبری کے اس فارسی ترجمہ میں درحقیقت بہت سے حذف و اضافے ہیں "۔
اسی طرح تاریخ میں سینکڑوں روایات گھڑی ہوئی موجود ہیں، کچھ کے متعلق ہم پہلے بھی تحقیق پیش کرچکے ۔ تاریخ کا موضوع تھا ہی ایسا کہ اس میں ہر بات میں اپنی پسند نا پسند اور سمجھ بوجھ کو بیان کرنے کی پوری آزادی تھی اس لیے اس میں تمام رطب ویابس اور صحیح وسقیم چیزیں جمع کی جاتی رہیں ‘ہر کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق تاریخ کو بیان کیا۔ چنانچہ صحت کا جو معیار ”حدیث“ میں قائم رکھا گیا ‘ تاریخ میں وہ معیار قائم نہیں رہ سکا‘ نہ اسے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اس لئے حضرات محدثین نےمتنازعہ واقعات کی روایات کی صحت کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا ہے‘ حافظ عراقی فرماتے ہیں: (علم تاریخ وسیر صحیح اور منکر سب کو جمع کرلیتا ہے)۔
ولیعلم الطالب ان السیر
یجمع ما قد صح وما قد انکرا
اب جو شخص کسی خاص مدعا کو ثابت کرنے کے لئے تاریخی مواد کو کھنگال کر تاریخی روایات سے استدلال کرنا چاہتا ہے اسے عقل وشرع کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف یہ دیکھ لینا کافی نہیں ہے کہ یہ روایت فلاں فلاں تاریخ میں لکھی ہے‘ بلکہ جس طرح وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ روایت اس کے مقصد ومدعا کے لئے مفید ہے یا نہیں؟ اسی طرح اسے اس پر بھی غور کرلینا چاہئے کہ کیا یہ روایت شریعت یا عقل سے متصادم تو نہیں؟ 
قرآنِ کریم کی نصوصِ قطعیہ‘ احادیثِ ثابتہ اور اہل حق کا اجماع صحابہ کی عیب چینی کی ممانعت پر متفق ہیں‘ ان قطعیات کے مقابلہ میں تاریخی قصہ کہانیوں کا سرے سے کوئی وزن ہی نہیں‘ رسول اللہ کا یہ ارشاد یاد رکھیں۔
”اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنة اللہ علی شرکم“ (ترمذی)
ترجمہ:” جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہہ رہے ہوں تو ان سے کہنا کہ تمہارے اس شر اور فتنہ پروری پر اللہ کی لعنت ہو۔
( ترمذی، مشکوٰۃ)




امام عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ الیواقیت والجواہر صفحہ ۷ میں لکھتے ہیں 
" باطنیہ ، ملاحطہ اور زنداقہ نے سب سے پہلے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پھر امام غزالی رحمہ اللہ کی تصانیف میں اپنی طرف سے تدسیس کی ، نیز اس فرقہ باطنیہ نے ایک کتاب جس میں اپنے عقائد کی تبلیغ کی تھی، میری زندگی میں میری طرف منسوب کردی اور میری انتہائی کوشش کے باوجود یہ کتاب تین سال تک متداول رہی"
(الیواقیت والجواہر صفحہ ۷)

حضرت فرید الدین عطار نیشاپوری رحمہ اللہ سےمنسوب کتابیں :۔
شیخ عطار سنی عالم اور سلسلہ کبیرویہ سے متعلق تھے اور شیخ نجم الدین کبری کے متعقد تھے، ان سے بائیس کتابیں منسوب ہیں حالانکہ وہ صرف دس کتابوں کے مصنف تھے۔ ان سے منسوب کتابوں میں بڑی کتابین جواہرالذات، حلاج نامہ، لسان الغیب وغیرہ ہیں ، ان کتابوں میں مصنف نے جگہ جگہ اظہار تشیع کیا ہے۔ مشہور ایرانی محقق پروفیسر سعید نفیسی نے بھی فرید الدین عطار کی زندگی اور کتابوں پر تحقیق " جستجو دراحوال و آثار ِفریدالدین عطار نیشاپوری" میں پیش کی ہے۔ہم نسخہ جواہر الذات سے دو شعر پیش کرتے ہیں جن سے پوری کتاب کا اندازہ ہوجائے گا اور یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ شعر شیخ فریدالدین عطار نیشاپوری رحمہ اللہ اپنے قلم سے ہرگز نہیں لکھ سکتے تھے۔
محمد راشناس ایں جا خدا تو وگرنہ اوفتی اندر بلا تو
علی بامصطفی ہردو خدا یند کہ دم دم راز برمامی کشانید

ان شعروں کے مضمون سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے کہنے والا عبد اللہ ابن سبا کا مخلص پیرو اور باطنیہ یا قرامطہ سے تعلق رکھتا تھا۔

امام غزالی سے منسوب ایک کتاب :۔
مولانا سعید احمد جلالپوری شہید جو کہ روزنامہ جنگ کے اقرا صفحہ پر اسلامی سوالات کا جواب دیتے تھےْ کو ایک ڈاکٹر صاحب نے اپنے سوالہ نامہ میں یہ تحریر بھیجی جس میں شیعی موقف کو امام غزالی رحمہ الله عليہ کی کتاب کے ذریعے ان سے منسوب کیا گیا تھا کہ امام غزالی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”سر العالمین“ کے صفحہ :۹ پر لکھتے ہیں کہ:
” غدیر خم میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ”من کنت مولاہ“ فرمانے کے بعد اور اس موقع پر مبارک باد دینے کے بعد جب لوگوں پر خلافت کی ہوأ و ہوس غالب آگئی تو انہوں نے غدیر خم کی تمام باتیں بھلادیں۔“
اس پر مولانا سعید احمد جلالپوری رحمہ اللہ نے ایک تحقیقی، تفصیلی و وقیع علمی مقالہ لکھا جو ماہنامہ بینات میں چھپا۔ مولانا نے تحقیق کے لئے اکابر متأخرین اور اربابِ تحقیق کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو پتا چلا کہ غدیر خم میں خلافت ِعلی رضى الله عنہ (بلافصل) سے متعلق امام غزالی رحمہ اللہ کی جانب منسوب یہ کتاب”سر العالمین“ سرے سے امام صاحب کی ہے ہی نہیں اور روافض نے خود لکھ کر بعد میں ان سے منسوب کی۔یہ بات امام صاحب پر جھوٹ اور بہتانِ عظیم ہے اور امام رحمہ اللہ کی دوسری کتابیں اس تحریر کے موقف کو بری طرح رد کرتیں ہیں۔ مولانا نے اس سلسلہ میں مسند الہندحضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی شہرئہ آفاق تصنیف ”تحفہ اثنا عشریہ“ کا حوالہ بھی دیا ۔شاہ صاحب لکھتے ہیں :۔
"روافض کوئی کتاب لکھ کر اس کو اکابر اہل سنت کی طرف منسوب کردیتے ہیں، اور اس میں حضرات صحابہ کرام کے خلاف مطاعن اور مذہب اہل سنت کے بطلان کو درج کرتے ہیں اور اس کے خطبہ یا دیباچہ میں اپنے بھید اور راز کے چھپانے اور امانت کی حفاظت کی وصیت کرتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ اس کتاب میں لکھا ہے، یہی ہمارا دلی اور پوشیدہ عقیدہ ہے، اور ہم نے اپنی دوسری کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ محض پردہ داری اور زمانہ سازی تھا، جیسا کہ کتاب ”سرالعالمین“ خود سے لکھ کر انہوں نے اس کی نسبت حضرت امام غزالی رحمہ اللہ کی طرف کردی ہے، علیٰ ہذا القیاس انہوں بھی بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان پر اکابر اہل سنت اور قابل اعتماد بزرگوں کا نام لکھ دیا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے افراد بہت کم ہیں جو کسی بزرگ کے کلام سے واقف و آشنا ہوں اور اس کے مذاق سخن یا اس کے اور دوسروں کے کلام میں فرق وامتیاز کرسکتے ہوں، لہٰذا ناچار سیدھے سادے لوگ ان کے اس مکر سے متاثر ہوتے ہیں اور بہت سے حیران و پریشان ہوتے ہیں․․․․ بلکہ بہت سے لوگ اس کو ایک مستند بزرگ یا اہل سنت کے امام کا کلام سمجھ کر اس کو اپناکر اپنا ایمان و عقیدہ غارت کر تے ہیں․․․․۔“ (تحفہ اثنا عشریہ فارسی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفیٰ ۱۲۳۹ھ)
مولانا جلالپوری شہید کا وہ مقالہ جامعہ العلوم الااسلامیہ، بنوری ٹاؤں ، کراچی کی سائیٹ پریہاںملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
http://banuri.edu.pk/ur/node/971
جاری ہے





اکابر اولیا اور صوفیاء کے ملفوظات میں تدسیس کی کوششیں :
جس زمانہ میں قرامطہ نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں شروع کیں، مسلمانوں میں تصوف کا آغاز ہوچکا تھا اور مختلف سلسلے قائم ہوچکے تھے۔قرامطہ نے تقیہ کرتے ہوئے " جیسا دیس ویسا بھیس" کے اصول پر عمل کیا اور صوفیوں کے حلقوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو صوفی ظاہر کیا اور تصوف کے لباس میں صوفیوں کو گمراہ کرنا شروع کیا اور اسلامی تصوف میں غیر اسلامی عقائد کی اس طرح آمیزش کی کہ اسلامی اور غیر اسلامی تصوف میں امتیاز عوام کے لیے ناممکن ہوگیا۔ 

رومی کے ملفوظات میں الحاق :۔
رومی کے ملفوظات فیہ مافیہ سے صفحہ نمبر ۹۹ پر یہ رومی سے منسوب روایت ، پڑھیے سر دھنیے :
" ایک شب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ کسی غزوے سے واپس آئے تو آپ نے فرمایا :ببانگ دہل اعلان کردو کہ آج کی رات ہم ثہر کے دروازے کے پاس بسر کریں گے اور کل صبح شہر میں داخل ہوں گے، یہ سن کر صحابہ نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ تم اجنبی لوگوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ مباثرت میں مشغول پاؤ اور یہ دیکھ کر تمہیں بہت صدمہ ہوگا اور ایک ہنگامہ برپا ہوجائے گا، لیکن ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل نہ کیا اور گھر چلا گیا، چنانچہ اس نے اپنی بیوی کو ایک غیر مرد کے ساتھ مشغول پایا"۔
اس لغوروایت پر تنقید کرنے کو دل نہیں چاہتا تا ہم دل پر جبر کرکے اتنا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ روایت کسی سبائی کے اسی خبث باطنی کا مظہر ہےجو وہ صحابہ رضوان اللہ کے بارے میں کرتے آرہے ہیں ۔ غور کریں اس خبیث سبائی نے ایک تیر سے کتنے شکار کیے ہیں۔
1 - حضور کو علم غیب سے معلوم ہوچکا تھا کہ صحابہ کی بیویا ں نعوذ بااللہ زنا کروارہی ہیں لیکن آپ نے جان بوجھ کر چشم پوشی کی، اور اس زنا کو روکنے سے صحابہ کو منع کیا۔ نعوذباللہ
2 - بعض صحابہ حضور کے نافرمان تھے ، حضور کے منع کرنے کے باجود نہیں سنی اور گھر چلے گئے۔ نعوذباللہ
3 - صحابہ کی بیویاں زنا کار تھیں۔ نعوذباللہ
کیا مولانا روم یہ روایت بیان کرسکتے ہیں ؟

امام شعرانی کی تصنیف الطبقات الکبری :۔
اس کتاب کے اردو ترجمہ صفحہ 468 پر روایت ہے :
بضمن ظاہروباطن عارف۔ علی ابن ابی طالب اسی طرح اٹھائے گئے ہیں جس طرح عیسی اور عیسی کی طرح عنقریب نازل ہوں گے۔ میں کہتا ہوں کہ سید علی خواص بھی اس کے قائل تھے ۔ چنانچہ میں نے ان کو کہتے سنا کہ نوح نے کشتی میں سے ایک تختہ علی کے نام اٹھا کر رکھا، وہ تختہ محفوظ رہا، چنانچہ علی اسی تختہ پر اٹھائے گئے۔
اس روایت کا مضمون بتا رہا ہےکہ یہ کسی ایسے شخص کی گھڑی ہوئی ہے جو حضرت علی رضی اللہ کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا عقیدہ رکھتا تھا اور تاریخ وتحقیق سے ثابت ہے کہ یہ عقیدہ امام شعرانی کا بالکل نہیں بلکہ یہ سب سے پہلے عبداللہ ابن سبا نے شائع کیا تھا۔

رباعی ازخواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ :۔
قرامطہ نے فصوص الحکم، فتوحات مکیہ، مثنوی مولانا روم، احیا ءالعلوم اور دوسری بہت سی کتابوں میں عبارتیں اور اشعار داخل کیے اور بہت سی کتابیں خود لکھ کر بعض سنی بزرگوں کے نام منسوب کیں، بہت سی رباعیات مختلف صوفیوں سے منسوب کردیں ، مثلا یہ مشہور رباعی خواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ سے منسوب کی جو آج تک سنی اور کتابوں میں بھی نقل ہوتی چلی آرہی ہے۔
شاہ است حسین بادشاہ ہست حسین دین است حسین دیں پناہ ہست حسین
سردادنداو دست در دست یزید حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین

جاری ہے




شیخ محی الدین ابن عربی کی فتوحات مکیہ :۔
شیخ جیسا کہ فتوحات مکیہ کے مطالعے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ نہایت راسخ العقیدہ اور متبع شریعت بزرگ تھے، اسی کتاب کی پہلی فصل میں انہوں نے اپنا عقیدہ بیان کیا ہے اسے غور سے پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عقائد نسفی کی شرح پڑھ رہے ہیں۔ انکی تصانیف میں بھی سبائیہ قرامطہ نے تدسیس کی ۔ چنانچہ امام شعرانی اپنی تصنیف الیواقیت والجواہر صفحہ 7 پر لکھتے ہیں :
" انکی تصنیف میں جو عبارتیں ظاہر شریعت سے متعارض(ٹکرانے والی) ہیں وہ سب مدسوس(گھسائی ہوئی) ہیں۔ مجھے اس حقیقت سے ابو طاہر المغربی نے آگاہ کیا جو اس وقت مکہ معظمہ میں مقیم تھے۔ انہوں نے مجھے فتوحات کا وہ نسخہ دکھایا جس کا مقابلہ انہوں نے قونیہ میں شیخ اکبر کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے سے کیا تھا، اس نسخے میں وہ فقرے نہیں تھے جو میرے نسخے میں تھے اور میں نے ان فقروں کی صحت پر شک کیا تھا جب میں فتوحات کا اختصار کررہا تھا۔"
پھر لکھتے ہیں کہ زناوقہ نے امام احمد بن حنبل کے مرض الموت کے زمانے میں ایک کتاب جس میں اپنے باطنی عقائد بیان کیے تھے، پوشیدہ طور پر ( ان کا شاگرد بن کر) ان کے سرہانے تکیے کے نیچے رکھ دی تھی اور اگر امام مرحوم کے تلامذہ ان کے عقائد سے بخوبی واقف نہ ہوتے تو جو کچھ انہوں نے تکیے کے نیچے پایاتھا اسکی وجہ سے وہ لوگ بہت بڑے فتنے میں مبتلا ہوجاتے۔

دیوان شمس تبریز :۔
قرامطہ نے بہت سے اشعار مولانا رومی کی کتابوں میں داخل کئے، دیوان شمس تبریز میں داخل کی گئی ایک پوری غزل سے چند اشعار پیش کرتا ہوں۔
ہم اول و ہم آخر وہم ظاہر وباطن 
ہم موعد و ہم وعدہ و موعود علی بود 
جبریل کہ آمد زبرِ خالقِ بیچوں 
درپیش محمد شدوتابود علی بود 
اور
اے رہنمائے مومناں، اللہ مولا علی 
اے عیب پوش و غیب دان اللہ مولانا علی

فارسی سمجھنے والے باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ مولان روم جیسا سنی عالم یہ مصرے نہیں لکھ سکتا۔ کیونکہ یہ اشعار تو واضح شیعہ ذہن کی عکاسی کررہے ہیں اور نص قرآنی کے خلاف ہیں جیسا کہ پہلے شعر کےپہلے مصرع میں قرآنی آیت میں مذکور اللہ کی صفات " ہو الاول والاخر والظاہر والباطن" کو علی رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت کیا گیا ہے۔ دیوان شمس تبریز پر جلا ل ہمائی نے جو مقدمہ لکھا اس میں ان اشعار کو الحاقی قرار دیا۔

سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا رحمہ اللہ کے ملفوظات:۔
سلطان المشائخ نے اپنے مرشد شیخ فرید الدین گنج شکر کے ملفوظات کو راحتہ القلوب کے نام سے مرتب کیا تھا، اس کے صفحہ ۸۵ سے ایک واقعہ نقل کرتا ہوں :
" ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم باجمیع صحابہ کبار بیٹھے ہوئے تھے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یزید پلید کو اپنے کاندھے پر بٹھائے سامنے سے گذرے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور کہا سبحان اللہ، ایک دوزخی ایک جنتی کے کاندھے پر سوار ہو کرجارہا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن کر کہا، یارسول اللہ یہ تو معاویہ کا بیٹا ہے۔ دوزخی کجا است ؟ حضور نے فرمایا: یا علی یہ یزید بدبخت وہ ہے جو حسن حسین اور میری تمام آل کو شہید کرے گا۔ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے تلوار نیام سے نکالی کہ 'ایشاں را بُکُشَد 'مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مانع ہوئے کہ اے علی ایسا مت کر کہ اللہ کی تقدیر یہی فیصلہ کرچکی ہے، یہ سن کر علی رونے لگے۔"
حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بلاشک وشبہ گیارہ ہجری میں ہوگئی تھی جبکہ یزید کی ولادت حضور کی وفات کے پندرہ سال بعد ۲۶ ہجری میں ہوئی تھی، ثابت ہوا کہ یہ افسانہ سراسر جھوٹا ہے اور کسی سبائی نے یہ لغو اور من گھڑت داستان نظام الدین اولیاء کے ملفوظات میں شامل کردی ہے۔

قرامطہ ہندوستان میں :
جب یہ لوگ ہندوستان آئے تو انہوں نے ہندو صوفیوں اور جوگیوں اور پیروں کے طور طریقے اختیار کیے اور ہندوؤں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وشنو کے دسویں اوتار کے روپ میں پیش کیا۔ عوام میں ہر دلعزیزی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنے ناموں سے پہلے " پیر" کے لقب کا اضافہ کیا۔
پیر صدرالدین نے گجرات اور پیر شمس الدین نے ملتان میں تصوف کے پردے میں اپنے عقائد کی تبلیغ کی۔ اس بات کی تصدیق ڈاکٹر جے این ہالسٹر کی تالیف " شیعان ہند" سے بھی بخوبی ہوسکتی ہے۔ مولف اسی کتاب کے صفحہ ۳۳۳ پر لکھتے ہیں۔
" اسمعیلی سیدوں کا قافلہ قاہرہ سے چل کر سبزوار آیا۔ پیر شمس الدین سبزواری یہیں سے ملتان آیا تھا، اور اس نے صوفیوں کے لباس میں اسمعیلیت کی تبلیغ کی۔ بعض لوگوں نے شمس الدین سبزواری کو غلطی سے شمس تبریز سمجھ لیاہے جو جلال الدین رومی کے مرشد تھے، جبکہ یہ ملتان کا پیر شمس الدین اسمعیلیہ نزاری فرقہ کا داعی تھا"
 (شیعان ہندصفحہ ۳۳۳)



سوال :
یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ قرامطہ ، باطنیہ، روافض کو اسکی جرات کیسے ہوتی تھی کہ وہ اپنی باتیں ان بزرگوں کی کتابوں میں ملا دیا کرتے تھے
جواب :در اصل تمام صوفی سلسلے اور انکے افراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہایت مکرم اور لائق توقیر سمجھتے ہیں اور تین سلسلے تو حضرت علی رضی اللہ پر ختم ہوتے ہیں۔ صوفی شعرا نے جہا ں خلفائے ثلاثہ کی منقبت میں زور قلم صرف کیا ہے وہاں علی رضی اللہ عنہ کی منقبت میں بھی اپنی عقیدت کا مظاہر ہ کیا ہے،اس لیے روافض اور قرامطہ کو مبالغہ آمیز اور شرکیہ اشعار کو شامل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔باطنیہ، قرامطہ اور اسمعیلیہ حضرات نے تصوف کا لبادہ اوڑھ کر اپنے عقائد مسلمانوں میں شائع کردیے ، بعد میں آنے والے صوفیوں نے اسلاف پر تنقید کو سو ادب سمجھا اس لیے قرامطہ کے عقائد کو من وعن تسلیم کرلیا اور رفتہ رفتہ ان باطنیہ کے ہم عقیدہ بن گئے۔، یہ انہی روایات کا کرشمہ ہے کہ آج چودھویں صدی ہجری میں حیدرآباد دکن ، بریلی، دہلی، اجمیر، داتا دربار، پاک پتن، ملتان، اچ، سیہون اور تمام بڑے بڑے مزارات سبائیت اور باطنیت کے فروغ و شیوع کے مرکز بن گئے ہیں۔ 
اسلامی تصوف جو دین اسلام کی روح اور جان ہے، میں غیر اسلامی عقائد کی آمیزش سے نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ نفس تصوف ہی سے بدظن ہوگیا دوسری طرف خود یہ اسلامی تصوف اپنی ساری افادیت کھو بیٹھا بلکہ جہلا کے حق میں تو افیون بن گیا اور اہل خانقاہ کے حق میں بے عملی کا بہانہ بن گیا ۔
یہ اسی آمیزش کا نتیجہ ہے کہ وہ خانقائیں جہاں مسلمانوں کو ایزد پرستی کا درس دیا جاتا تھا ان کی روحانی اصلاح ہوتی تھی آج شخصیت پرستی بلکہ قبر پرستی کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور جہاں ہر طرف اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے تھے آج وہ خانقاہیں قوالی کی محفلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ شرک و بدعت کا مرکز بن گئیں شاید اقبال نے اسی حالت کو دیکھ کر فرمایا تھا
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
اس غیر اسلامی نظریات کی آمیز ش سے تصوف کو نقصان ضرور پہنچا ، لیکن اسلامی تصوف بالکل ختم نہیں ہوا۔ علمائے حق کےتصوف کے ایسے مراکز اب بھی موجو د ہیں جہاں صوفیا بالکل اسلامی طریقہ پر لوگوں کو اصلاح فرمارہے ہیں۔
ان چند مثالوں سے یہ دکھلانا مقصود تھا کہ زمانہ قدیم سے روافض اور اہل تشیع کی یہی عیاری، مکاری اوررَوِشِ بد رہی ہے کہ وہ اپنے فاسد و باطل عقائد اور نظریات کی ترویج کی خاطر اپنی جانب سے کوئی کتاب لکھ کر اہل سنت کے کسی نامی گرامی بزرگ، بڑے عالم دین اورمحقق کی وفات کے بعد اس کی طرف نسبت کرکے شائع کردیتے ہیں اور سیدھے سادے مسلمانوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اہل سنت کا فلاں بڑا عالم اور محقق بھی وہی عقیدہ رکھتا تھا جو ہمارا ہے۔اللہ ہمارے علما کو جزائے خیر دے انہوں نے ہر دور میں انکے حملوں کو ناکام بنا کر امت کو گمراہی سے بچایا ہے۔

تجویز :
ان مثالوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس مکاری کے ساتھ باطل فرقوں نے ہماری دینی کتابوں میں اپنے گمراہ نظریات کو داخل کیا اور مشہور علمائے امت کی کتابوں میں انکی زندگی میں ملاوٹ کی بھی جرات کرگئے ، موجودہ دور میں ایسا کرنا مزید آسان ہوگیا ہے۔ ان کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ کسی پرانے عالم کی کتاب کو اٹھا کر اس میں جگہ جگہ اپنے نظریات کو داخل کرکے خوبصورت کور اور پرنٹ میں چھاپ کر مارکیٹ میں دے دیں۔۔!! 
حقیقت میں کئی ایسےگمنام کتب خانے موجود بھی ہیں جو کہ مختلف اسلامی موضوعات پرعلما کی کتابیں چھاپ رہے ہیں، انکی کتابیں اصل پبلشر کے مقابلے میں ذیادہ جاذب نظر ، کوالٹی پیپر لیکن کم قیمت پر دستیاب ہوتیں ہیں۔ اب ان اسلامی کتابوں میں باطل نظریات کی آمیزش کے شر سے وہی قاری بچ سکتا ہے جس کا مستند علماءکے ساتھ تعلق ہو۔
ممتاز عالم دین مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
” مطالعہ کووسیع کیجیے اور اس کے لیے اساتدہ سے ، خاص طور پر مربی اصلاح سے اور ان اساتذہ سے جن سے آپ کا رابطہ ہے ، ان سے مشورہ لیجیے۔“ مولانا ندوی مزید فرماتے ہیں :
یہ ایک پل صراط ہے، اس پر سبک روی اور بہت احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ جیسے عظیم شخص کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے توریت جیسی عظیم المرتبت آسمانی کتاب کے مطالعہ سے منع فرما دیا تھا۔


مکمل تحریر >>

Sunday 25 January 2015

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم وستم کا سلسلہ جاری


ابو لہب اس کے باوجود کہ رسول اللہﷺ کا چچا اور پڑوسی تھا'یہ ساری حرکتیں کررہا تھا ۔ اس کا گھر آپ کے گھر سے متصل تھا۔ اسی طرح آپ کے دوسرے پڑوسی بھی آپ کو گھر کے اندر ستاتے تھے۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جوگروہ گھر کے اندر رسول اللہﷺ کو اذیت دیا کر تا تھا وہ یہ تھا۔ ابو لہب ، حَکم بن ابی العاص بن امیہ ، عقبہ بن ابی مُعیط ، عَدِی بن حمراء ثقفی ، ابن الاصداء ہذلی۔ یہ سب کے سب آپﷺ کے پڑوسی تھے اور ان میں سے حکم بن ابی العاص (یہ اموی خلیفہ مروان بن الحکم کے باپ ہیں) کے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہ ہوا۔ 
ان کے ستانے کا طریقہ یہ تھا کہ جب آپﷺ نماز پڑھتے تو کوئی شخص بکری کی بچہ دانی اس طرح ٹکا کر پھینکتا کہ وہ ٹھیک آپﷺ کے اوپر گرتی۔ چولھے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جا گرتی۔ آپﷺ نے مجبور ہوکر ایک گھروندا بنا لیا تاکہ نماز پڑھتے ہوئے ان سے بچ سکیں۔
بہر حال جب آپﷺ پر یہ گندگی پھینکی جاتی تو آپﷺ اسے لکڑی پر لے کر نکلتے اور دروازے پر کھڑے ہو کر فرماتے :
اے بنی عبد مناف ! یہ کیسی ہمسائیگی ہے ؟ پھر اسے راستے میں سائیڈ پر ڈال دیتے۔ 

عُقبہ بن ابی مُعیط اپنی بدبختی اور خباثت میں اور بڑھا ہو ا تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ بیت اللہ کے پاس نماز پڑ ھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے کچھ رفقاء بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں بعض نے بعض سے کہا : کون ہے جو بنی فلاں کے اونٹ کی اوجھڑی لائے اور جب محمد سجدہ کریں تو ان کی پیٹھ پر ڈال دے ؟ اس پر قوم کا بد بخت ترین آدمی...عقبہ بن ابی معیط(ابن ہشام ۱/۴۱۶)...اٹھا اور اوجھ لاکر انتظار کرنے لگا۔ جب نبیﷺ سجدے میں تشریف لے گئے تو اسے آپ کی پیٹھ پر دونوں کندھوں کے درمیان ڈال دیا۔ میں سارا ماجرا دیکھ رہا تھا ، مگر کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ کاش! میرے اندر بچانے کی طاقت ہوتی۔
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعدوہ ہنسی کے مارے ایک دوسرے پر گرنے لگے اور رسول اللہﷺ سجدے میں ہی پڑے رہے، سَر نہ اٹھایا۔ یہاں تک کہ فاطمہؓ آئیں اور آپ کی پیٹھ سے اوجھ ہٹا کر پھینکی، تب آپ نے سَر اٹھایا۔ پھر تین بار فرمایا : ((اللّٰھم علیک بقریش۔)) '' اے اللہ تو قریش کو پکڑ لے۔'' جب آپ نے بد عا کی تو ان پر بہت گراں گزری۔ کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ اس شہر میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد آپ نے نام لے لے کر بددعا کی : اے اللہ ! ابوجہل کو پکڑ لے اور عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عتبہ ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ لے ...انہوں نے ساتویں کا بھی نام گنایا لیکن راوی کو یاد نہ رہا...( خود صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں اس کی صراحت آگئی۔ دیکھئے ۱/۵۴۳۔)
ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے دیکھا کہ جن لوگوں کے نام رسول اللہﷺ نے گن گن کر لیے تھے۔ سب کے سب بدر کے کنویں میں مقتول پڑے ہوئے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب الوضوء باب اذا ألقی علی المصلی قذر أو جیفۃ ۱/۳۷)

مکمل تحریر >>

قریش کا وفد ابو طالب کے سامنے


رسول اللہﷺ کو شروع سے ابو طالب کی حمایت وحفاظت حاصل تھی اور ابوطالب مکہ کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جو اپنی ذاتی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے اتنے باعظمت تھے کہ کوئی شخص بڑی مشکل سے ان کے عہد توڑ نے اور ان کے خانوادے پر ہاتھ ڈالنے کی جسارت کرسکتا تھا۔
اس صورت حال نے قریش کو سخت پریشانی اور کشمکش سے دوچار کر رکھا تھا جو تقاضا کر رہی تھی کہ کسی ناپسند یدہ دائرے میں پڑے بغیر اس مشکل سے نکلنے کے لیے سنجیدگی سے غور کریں۔ بالآخر انہیں یہ راستہ سمجھ میں آیا کہ سب سے بڑے ذمہ دار ابوطالب سے بات چیت کریں لیکن خاصی حکمت اور واقعیت پسندی کے ساتھ اور ایک گونہ چیلنج اور پوشیدہ دھمکی لیے ہوئے ، تاکہ جو بات کہی جائے اسے وہ تسلیم کر لیں۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اشراف قریش سے چند آدمی ابو طالب کے پاس گئے اور بولے : ابو طالب ! آپ کے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا ہے۔ ہمارے دین کی عیب چینی کی ہے۔ ہماری عقلوں کو حماقت زدہ کہا ہے اور ہمارے باپ دادا کو گمراہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا یا تو آپ انہیں اس سے روک دیں ، یا ہمارے اور ان کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ کیونکہ آپ بھی ہماری طرح ان سے مختلف دین پر ہیں۔ ہم ان کے معاملے میں آپ کے لیے بھی کافی رہیں گے۔
اس کے جواب میں ابوطالب نے نرم بات کہی اور روادارانہ لب ولہجہ اختیار کیا۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے اور رسول اللہﷺ اپنے سابقہ طریقہ پر رواں دواں رہتے ہوئے اللہ کا دین پھیلانے اور اس کی تبلیغ کرنے میں مصروف رہے۔( ابن ہشام ۱/۲۵۶)
لیکن جب قریش نے دیکھا کہ آپ دعوت الیٰ اللہ کے کام میں حسب سابق مصروف عمل ہیں تو زیادہ دیر تک صبر نہ کر سکے۔ بلکہ آپس میں خاصی چہ میگوئی کی اور ناگواری کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ ابوطالب سے دوبارہ زیادہ سخت اور سنگین لہجے میں گفتگو کرنے کا فیصلہ کیا۔
سرداران قریش ابوطالب کے پاس پھر حاضر ہوئے اور بولے: ابو طالب ! آپ ہمارے اندر سن وشرف اور اعزاز کے مالک ہیں ، ہم نے آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ اپنے بھتیجے کو روکیے لیکن آپ نے انہیں نہیں روکا۔ آپ یاد رکھیں ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے اباء واجداد کو گالیاں دی جائیں۔ ہماری عقل وفہم کو حماقت زدہ قرار دیا جائے اور ہمارے معبودوں کی عیب چینی کی جائے۔ آپ روک دیجیے ورنہ ہم آپ سے اور ان سے ایسی جنگ چھیڑ دیں گے کہ ایک فریق کا صفایا ہو کر رہے گا۔
ابو طالب پر اس زور دار دھمکی کا بہت زیادہ اثر ہوا اور انہوں نے رسول اللہﷺ کو بلا کر کہا : بھتیجے ! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے اور ایسی ایسی باتیں کہہ گئے ہیں۔ اب مجھ پر اور خود اپنے آپ پر رحم کرو۔ اوراس معاملے میں مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو میرے بس سے باہر ہے۔
یہ سن کر رسول اللہﷺ نے سمجھا کہ اب آپ کے چچا بھی آپ کا ساتھ چھوڑدیں گے اور وہ بھی آپ کی مدد سے کمزور پڑ گئے ہیں۔ اس لیے فرمایا : چچا جا ن ! اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں کہ میں اس کام کو اس حد تک پہنچائے بغیر چھوڑ دوں کہ یا تواللہ اسے غالب کردے یا مَیں اسی راہ میں فنا ہو جاؤں تو نہیں چھوڑ سکتا۔
اس کے بعد آپ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں ، آپ روپڑے۔ اور اٹھ گئے۔ جب واپس ہونے لگے تو ابوطالب نے پکارا اور سامنے تشریف لائے تو کہا : بھتیجے ! جاؤ جو چاہو کہو۔ اللہ کی قسم! میں تمہیں کبھی بھی کسی بھی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا۔ (ابن ہشام۱/۲۶۵، ۲۶۶) اور یہ اشعار کہے :
واللّٰہ لن یصلوا الیک بجمعہم
حتی أوسد فی التراب دفیناً
فاصدع بآمرک ما علیک غضاضۃ
وابشر وقر بذاک منک عیونًا
''واللہ! وہ لوگ تمہارے پاس اپنی جمعیت سمیت بھی ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔ یہاں تک کہ میں مٹی میں دفن کردیا جاؤں۔ تم اپنی بات کھلم کھلا کہو۔ تم پر کوئی قدغن نہیں ، تم خوش ہوجاؤ اور تمہاری آنکھیں اس سے ٹھنڈی ہو جائیں۔'' (مختصر السیرۃشیخ محمد بن عبد الوھاب ص ۶۸)
قریش کی ابو طالب کو ایک آفر:
پچھلی دھمکی کے باوجود جب قریش نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ اپنا کام کیے جارہے ہیں تو ان کی سمجھ میں آگیا کہ ابو طالب رسول اللہﷺ کو چھوڑ نہیں سکتے۔ بلکہ اس بارے میں قریش سے جدا ہونے اور ان کی عداوت مول لینے کو تیار ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ ولید بن مغیرہ کے لڑکے عُمَارَہ کو ہمراہ لے کر ابوطالب کے پاس پہنچے اور ان سے یوں عرض کیا :
اے ابو طالب ! یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے ، آپ اسے لے لیں۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حق دار ہوں گے، آپ اسے اپنا لڑکا بنالیں ، یہ آپ کا ہوگا اور آپ اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالے کردیں جس نے آپ کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی ہے۔ آپ کی قوم کا شیرازہ منتشر کر رکھا ہے اور ان کی عقلوں کوحماقت سے دوچار بتلایاہے ، ہم اسے قتل کریں گے۔ بس یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔
ابو طالب نے کہا : اللہ کی قسم ! کتنا بُرا سودا ہے جو تم لوگ مجھ سے کر رہے ہو۔ تم اپنا بیٹا مجھے دیتے ہو کہ میں اسے کھلاؤں پلاؤں۔ پالوں پوسوں اور میرا بیٹا مجھ سے طلب کرتے ہو کہ اسے قتل کردو۔ اللہ کی قسم ! یہ نہیں ہوسکتا۔
اس پر نوفَل بن عبد مناف کا پوتا مُطْعِم بن عَدِی بولا : اللہ کی قسم ! اے ابوطالب ! تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے اور جو صورت تمہیں ناگوار ہے اس سے بچنے کی کوشش کی ہے ، لیکن دیکھتا ہوں کہ تم ان کی کسی بات کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔
جواب میں ابوطالب نے کہا : واللہ !تم لوگوں نے مجھ سے انصاف کی بات نہیں کی ہے بلکہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر میرے مخالف لوگوں کی مدد پر تُلے بیٹھے ہو تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو۔ (ابن ہشام ۱/۲۶۶، ۲۶۷)

مکمل تحریر >>

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم


ابو جہل نے پہلے دن جب نبیﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسی دن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے روکتا رہا۔ ایک بار نبیﷺ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ اس کا گزر ہوا۔ دیکھتے ہی بولا : 
محمد ! کیا میں نے تجھے اس سے منع نہیں کیا تھا؟ ساتھ ہی دھمکی بھی دی۔ رسول اللہﷺ نے بھی ڈانٹ کر سختی سے جواب دیا۔ اس پر وہ کہنے لگا : اے محمد ! کاہے کی دھمکی دے رہے ہو ، دیکھو، اللہ کی قسم ! اس وادی (مکہ ) میں میری محفل سب سے بڑی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (۹۶: ۱۷)اچھا! تو بلائے اپنی محفل کو( ہم بھی سزا کے فرشتوں کو بلائے دیتے ہیں)
اس ڈانٹ کے باوجود ابوجہل اپنی حماقت سے باز آنے والا نہ تھا۔ بلکہ اس کی بدبختی میں کچھ اور اضافہ ہی ہوگیا۔
چنانچہ صحیح مسلم میں ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ (ایک بارسردارانِ قریش سے) ابوجہل نے کہا کہ محمد آپ حضرات کے رُو برو اپنا چہرہ خاک آلود کرتا ہے ؟ جواب دیا گیا: ہاں۔ اس نے کہا: لات وعزیٰ کی قسم ! اگر میں نے (اس حالت میں) اسے دیکھ لیا تو اس کی گردن روند دوں گا اور اس کا چہرہ مٹی پر رگڑ دوں گا۔ اس کے بعد اس نے رسول اللہﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور اس زعم میں چلا کہ آپ کی گردن روند دے گا لیکن لوگوں نے اچانک کیا دیکھا کہ وہ ایڑی کے بل پلٹ رہاہے ، اور دونوں ہاتھ سے بچائو کررہاہے۔ لوگوں نے کہا : ابوالحکم ! تمہیں کیا ہوا؟ اس نے کہا : میرے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق ہے۔ ہولناکیاں ہیں اور پَر ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو اچک لیتے۔ (تفسیر ابن کثیر ۴/۴۷۷ ، الدر المنثور ۶/۴۷۸ وغیرہ)
اُمَیہ بن خلف کا وطیرہ تھا کہ وہ جب رسول اللہﷺ کو دیکھتا تولعن طعن کرتا۔ اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ (۱۰۴: ۱) ''ہر لعن طعن اور برائیاں کرنے والے کے لیے تباہی ہے۔'' ابن ہشام کہتے ہیں ہُمَزَہ وہ شخص ہے جو علانیہ گالی بکے اور آنکھیں ٹیڑھی کر کے اشارے کرے اور لُمَزَہ وہ شخص جو پیٹھ پیچھے لوگوں کی برائیاں کرے اور انہیں اذیت دے۔ (ابن ہشام ۱/۳۵۶، ۳۵۷)
اُمیہ کا بھائی اُبی بن خلف ، عُقبہ بن ابی معیط کا گہرا دوست تھا۔ ایک بار عقبہ نے نبیﷺ کے پاس بیٹھ کر کچھ سنا۔ اُبی کو معلوم ہوا تو اس نے سخت سست کہا ، عتاب کیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ جا کر رسول اللہﷺ کے منہ پر تھوک آئے۔
آخر عُقبہ نے ایسا ہی کیا ،خود اُبی بن خَلف نے ایک مرتبہ ایک بوسیدہ ہڈی لا کر توڑی اور ہوا میں پھینک کر رسول اللہﷺ کی طرف اڑادی۔ (ابن ہشام ۱/۳۶۱ ، ۳۶۲)

مکمل تحریر >>

اسلام قبول کرنے والوں پر ظلم و ستم


۴ نبوت میں اسلامی دعوت کے منظر عام پر آنے کے بعد مشرکین نے اس کے خاتمے کے لیے سابقہ کارروائیاں رفتہ رفتہ انجام دیں۔ مہینوں اس سے آگے قدم نہیں بڑھا یا اور ظلم وزیادتی شروع نہیں کی لیکن جب دیکھا کہ یہ تدبیریں اسلامی دعوت کو ناکام بنانے میں مؤثر نہیں ہورہی ہیں تو باہمی مشورے سے طے کیا کہ مسلمانوں کو سزائیں دے دے کر ان کو ان کے دین سے باز رکھا جائے۔ اس کے بعد سردار نے اپنے قبیلے کے ماتحت لوگوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے۔ سزائیں دینی شروع کیں اور ہر مالک اپنے ایمان لانے والے غلاموں پر ٹوٹ پڑا اور یہ بات تو بالکل فطری تھی کہ دم چھلے اور اوباش اپنے سرداروں کے پیچھے دوڑیں اور ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق حرکت کریں ، چنانچہ مسلمانوں اور بالخصوص کمزوروں پر ایسے ایسے مصائب توڑے گئے اور انہیں ایسی ایسی سزائیں دی گئیں جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل پھٹ جاتا ہے۔ ذیل میں محض ایک جھلک دی جارہی ہے۔

ابو جہل جب کسی معزز اور طاقتور آدمی کے مسلمان ہونے کی خبر سنتا تو اسے برا بھلا کہتا۔ ذلیل ورسوا کرتا اور مال کو سخت خسارے سے دوچار کرنے کی دھمکیاں دیتا اور اگر کوئی کمزور آدمی مسلمان ہوتا تو اسے خود بھی مارتا اور دوسروں کو بھی بر انگیختہ کرتا۔ (ابن ہشام ۱/۳۲۰ 2 رحمۃ للعالمین ۱/۵۷)

حضرت عثمان بن عفانؓ کا چچا انہیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیتا۔ (اسد الغابہ ۴/۴۰۶، تلقیح الفہوم ص۶۰)

حضرت مصعب بن عمیرؓ کی ماں کو ان کے اسلام لانے کا علم ہوا تو ان کا دانہ پانی بند کر دیا اور گھر سے نکال دیا، یہ بڑے ناز ونعمت میںپلے تھے۔ شدت سے دوچار ہو ئے تو کھال اس طرح ادھڑ گئی جیسے سانپ کچلی چھوڑتا ہے۔ (الاصابہ ۳،۴/۲۵۵، ابن سعد ۳/۲۴۸)

حضرت بلالؓ امیہ بن خلف جحمی کے غلام تھے۔ امیہ ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے حوالے کردیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں میں گھماتے اور کھینچتے پھرتے۔ یہاں تک کہ گردن پر رسی کا نشان پڑ جاتا۔ پھر بھی أحد أحدکہتے رہتے۔ خود بھی انہیں باندھ کر ڈنڈے مارتا ، اور چلچلاتی دھوپ میں جبراً بٹھائے رکھتا۔ کھانا پانی بھی نہ دیتا،بلکہ بھوکا پیاسا رکھتا اور ان سب سے بڑھ کر یہ ظلم کرتا کہ جب دوپہر کی گرمی شباب پر ہوتی تو مکہ کے پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھوا دیتا۔ پھر کہتا : واللہ! تو اسی طرح پڑارہے گا یہا ں تک کہ مر جائے یا محمد کے ساتھ کفر کرے اور لات وعزیٰ کی پوجا کرے۔ حضرت بلالؓ اس حالت میں بھی کہتے : أحد ،أحد اور فرماتے : اگر مجھے کوئی ایسا کلمہ معلوم ہوتا جو تمہیں اس سے بھی زیادہ ناگوار ہوتا تو میں اسے کہتا۔ ایک روز یہی کاروائی جاری تھی کہ حضرت ابوبکرؓ کا گزر ہوا۔ انہوں نے حضرت بلالؓ کو ایک کالے غلام کے بدلے اور کہا جاتا ہے کہ دوسو درہم (۷۳۵ گرام چاندی) یا دوسو اسی درہم (ایک کلو سے زائد چاندی ) کے بدلے خرید کر آزاد کر دیا۔ (ابن ہشام ۱/۳۱۷، ۳۱۸ ، تلقیح الفہوم ص۶ تفسیر ابن کثیر سورۂ النحل ۳/۶۴۸)

حضرت عمار بن یاسرؓ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ انہوں نے اور ان کے والدین نے اسلام قبول کیا تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مشرکین ، جن میں ابوجہل پیش پیش تھا۔ سخت دھوپ کے وقت پتھریلی زمین پرلے جاکر اس کی تپش سے سزا دیتے۔ ایک بار انہیں اسی طرح سزادی جارہی تھی کہ نبیﷺ کا گزر ہوا۔ آپ نے فرمایا : آل یاسر ! صبر کرنا۔ تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔ آخر کار یاسر ظلم کی تاب نہ لاکر وفات پاگئے اور حضرت سمیہؓ ، جو حضرت عمارؓ کی والدہ تھیں۔ ابوجہل نے ان کی شرمگاہ میں نیزہ مارا اور وہ دم توڑ گئیں۔ یہ اسلام میں پہلی شہیدہ ہیں۔ ان کے والد کا نام خیاط تھا اور یہ ابوحذیفہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم کی لونڈی تھیں۔ بہت بوڑھی اور ضعیف تھیں۔
حضرت عمار پر سختی کا سلسلہ جاری رہا۔ انہیں کبھی دھوپ میں تپایا جاتا تو کبھی ان کے سینے پر سرخ پتھر رکھ دیا جاتا اور کبھی پانی میں ڈبویا جاتا یہاں تک کہ وہ ہوش حواس کھو بیٹھتے۔ ان سے مشرکین کہتے تھے کہ جب تک تم محمد کو گالی نہ دو گے ، یا لات وعزیٰ کے بارے میں کلمۂ خیر نہ کہو گے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ مجبوراً انہوں نے مشرکین کی بات مان لی۔ پھر نبیﷺ کے پاس روتے اور معذرت کرتے ہوئے تشریف لائے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
(۱۶ : ۱۰۶ ) ''جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کیا (اس پر اللہ کا غضب اور عذاب عظیم ہے ) لیکن جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو '' (اس پر کوئی گرفت نہیں )
(ابن ہشام ۱/۳۱۹ ، ۳۲۰ ، طبقات ابن سعد ۳/۲۴۸، ۲۴۹، آخری ٹکڑا طوفی نے ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے۔ ابن کثیر اورالدرالمنثور تفسیر سورۂ نحل آیت ۲۰۶۔)



حضرت ابو فکیہہ جن کا نام افلح تھا۔ جو اصلاً قبیلہ ازد سے تھے اور بنو عبد الدار کے غلام تھے ، ان کے دونوں پاؤں میں لوہے کی بیڑیاں ڈال کر دوپہر کی سخت گرمی میں باہر نکالتے اور جسم سے کپڑے اتار کر تپتی ہوئی زمین پر پیٹ کے بل لٹادیتے اور پیٹھ پر بھاری پتھر رکھ دیتے کہ حرکت نہ کرسکیں۔ وہ اسی طرح پڑے پڑ ے ہوش حواس کھو بیٹھتے۔ انہیں اسی طرح کی سزائیں دی جاتی رہیں ، یہاں تک کہ دوسری ہجرتِ حبشہ میں وہ بھی ہجرت کر گئے۔ ایک بار مشرکین نے ان کا پاؤں رسی میں باندھ ، اور گھسیٹ کر تپتی ہوئی زمین پر ڈال دیا، پھر اس طرح گلا دبا یا کہ سمجھے یہ مر گئے ہیں۔ اسی دوران وہاں حضرت ابوبکر کا گزر ہوا۔ انہوں نے خرید کر اللہ کے لیے آزاد کر دیا۔ (اسد الغابہ ۵/۲۴۸، الاصابہ ۷،۸/۱۵۲وغیرہ۔)

خباب بن ارت قبیلہ خزاعہ کی ایک عورت ام انمار کے غلام تھے اور لوہاری کا کام کرتے تھے۔ مسلمان ہوئے تو ان کی مالکہ انھیں آگ سے جلانے کی سزا دیتی۔ وہ لوہے کا گرم ٹکڑا لاتی اور ان کی پیٹھ یا سر پر رکھ دیتی۔ تاکہ وہ محمدﷺ کے ساتھ کفر کریں۔ مگر اس سے ان کے ایمان اور تسلیم ورضا میں اور اضافہ ہوتا۔ انھیں مشرکین بھی طرح طرح کی سزائیں دیتے۔ کبھی سختی سے گردن مروڑتے تو کبھی سر کے بال نوچتے۔ ایک بار تو انھیں دہکتے ہوئے انگاروں پر ڈال دیا۔ اسی پر گھسیٹا اور دبائے رکھا، یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کی چربی پگھلنے سے آگ بچھی۔ (اسد الغابہ ۱/۵۹۱ ، ۵۹۳ ، تلقیح الفہوم ص ۶ وغیرہ۔)

حضرت زنیرہ رومی لونڈی تھیں۔ وہ مسلمان ہوئیں تو انھیں اللہ کی راہ میں سزائیں دی گئیں۔ اتفاق سے ان کی آنکھ جاتی رہی۔ مشرکین نے کہا :دیکھو ! تم پر لات وعزیٰ کی مار پڑگئی ہے۔ انہوں نے کہا: نہیں ، واللہ ! یہ لات وعزیٰ کی مار نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر وہ چاہے تو دوبارہ بحال کرسکتا ہے۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دوسرے دن نگاہ پلٹ آئی ، مشرکین کہنے لگے :یہ محمد کا جادو ہے۔ (طبقات ابن سعد ۸/۲۵۶ ، ابن ہشام ۱/۱۳۸)

غلاموں میں عامر بن فہیرہ بھی تھے، اسلام لانے پر انھیں بھی اس قدر سزائیں دی جاتیں کہ وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھتے اور انھیں پتہ نہ چلتا کہ کیا بول رہے ہیں۔( طبقات ابن سعد ۳/۲۴۸)

حضرت ابوبکرؓ نے ان سارے غلاموں اورلونڈیوں کو خرید کو آزاد کردیا۔ اس پر ان کے والد ابو قحافہ نے ان کو عتاب کیا۔ کہنے لگے : (بیٹا ) میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ کمزور گرد نیں آزاد کر رہے ہو۔ توانا لوگوں کو آزاد کرتے تو وہ تمہارا بچاؤ بھی کرتے۔ انہوں نے کہا : میں اللہ کی رضا چاہتا ہوں اس پر اللہ نے قرآن اتارا۔ حضرت ابوبکرؓ کی مدح کی اور ان کے دشمنوں کی مذمت کی۔ فرمایا
وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى ﴿١٧﴾ الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ ﴿١٨﴾ وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَىٰ ﴿١٩﴾ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَ‌بِّهِ الْأَعْلَىٰ ﴿٢٠﴾ وَلَسَوْفَ يَرْ‌ضَىٰ ﴿٢١﴾ (۹۲: ۱۷ تا ۲۱)
اور اس آگ سے وہ پرہیزگار آدمی دور رکھا جائے گا جو اپنا مال پاکی حاصل کرنے کے لیے خرچ کررہا ہے۔ اس پر کسی کا احسان نہیں ہے جس کا بدلہ دیا جارہا ہو۔ بلکہ محض اپنے رب اعلیٰ کی مرضی کی طلب ہے۔ اس سے مقصود حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ (ابن ہشام ۱/۱۳۸ ، ۳۱۹ ، طبقات ابن سعد ۸/۲۵۶ کتب تفسیر آیت مذکورہ۔)

یہ اس ظلم وجور کا ایک نہایت مختصر خاکہ ہے جو اہل اللہ اور سکان حرم ہونے کا دعویٰ رکھنے والے سرکش مشرکین کے ہاتھوں رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کو سہنا پڑ رہے تھے۔
اس سنگین صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ رسول اللہﷺ ایسا محتاط اور حزم وتدبیر پر مبنی موقف اختیار کریں کہ مسلمانوں پر جو آفت ٹوٹ پڑی تھی اس سے بچانے کی کوئی صورت نکل آئے اور ممکن حد تک اس کی سختی کم کی جاسکے۔ اس مقصد کے لیے رسول اللہﷺ نے دو حکیمانہ قدم اٹھائے۔ جو دعوت کا کام آگے بڑھانے میں بھی مؤثر ثابت ہوئے:
ارقم بن ابی الارقم مخزومی کے مکان کو دعوت وتربیت کے مرکز کے طور پر اختیار فرمایا۔
" مسلمانوں کو ہجرت حبشہ کا حکم فرمایا۔

مکمل تحریر >>

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و جور


قریش نے بالآخر وہ حدیں توڑ دیں جنہیں ظہور دعوت سے اب تک عظیم سمجھتے اور جن کا احترام کرتے آرہے تھے۔ درحقیقت قریش کی اکڑ اور کبریائی پر یہ بات بڑی گراں گزر رہی تھی کہ وہ لمبے عرصے تک صبر کریں۔ چنانچہ وہ اب تک ہنسی اور ٹھٹھے۔ تحقیر اور استہزاء۔ تلبیس اور تشویش اور حقائق کو مسخ کرنے کا جو کام کرتے آرہے تھے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر رسول اللہﷺ کی طرف ظلم وتعدی کا ہاتھ بھی بڑھادیا اور یہ بالکل فطری بات تھی کہ اس کام میں بھی آپ کا چچا ابولہب سر فہرست ہو۔ کیونکہ وہ بنو ہاشم کا ایک سردار تھا ، اسے وہ خطرہ نہ تھا جو اوروں کو تھا اور وہ اسلام اور اہل اسلام کا کٹر دشمن تھا۔ نبیﷺ کے متعلق اس کا موقف روز اول ہی سے ، جبکہ قریش نے اس طرح کی بات ابھی سوچی بھی نہ تھی ، یہی تھا ْ۔ اس نے بنو ہاشم کی مجلس میں جو کچھ کیا ، پھر کوہ صفا پر جو حرکت کی اس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے۔
بعثت کے پہلے ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں عُتْبہ اور عُتَیْبہ کی شادی نبیﷺ کی دو صاحبزادیوں رقیّہ اور ام کلثوم سے کی تھی لیکن بعثت کے بعد اس نے نہایت سختی اور درشتی سے ان دونوں کو طلاق دلوادی۔ (ابن ہشام ۱/۶۵۲)
اسی طرح جب نبیﷺ کے دوسرے صاحبزادے عبد اللہ کا انتقال ہو اتو ابولہب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ دوڑتا ہوااپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور انہیں یہ ''خوشخبری'' سنائی کہ محمدﷺ ابتر (نسل بریدہ ) ہوگئے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ، سورۃ الکوثر ۴/۵۹۵)
ہم ذکر کرچکے ہیں کہ ایام حج میں ابولہب نبیﷺ کی تکذیب کے لیے بازاروں ،اجتماعات میں آپ کے پیچھے پیچھے لگا رہتا تھا۔ طارق بن عبد اللہ مُحَاربی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف تکذیب ہی پر بس نہیں کرتا تھا، بلکہ پتھر بھی مارتارہتا تھا جس سے آپ کی ایڑیاں خون آلود ہوجاتی تھیں۔ (کنز العمال ۱۲/۴۴۹)
ابو لہب کی بیوی اُم ِ جمیل ، جس کا نام اَرْویٰ تھا ، اور جو حَرب بن اُمیہ کی بیٹی اور ابو سفیان کی بہن تھی ، وہ نبیﷺ کی عداوت میں اپنے شوہرسے پیچھے نہ تھی۔چنانچہ وہ نبیﷺ کے راستے میں اور دروازے پر رات کو کانٹے ڈال دیا کرتی تھی۔ خاصی بدزبان اور مفسدہ پرداز بھی تھی۔چنانچہ نبیﷺ کے خلاف بدزبانی کرنا ، لمبی چوڑی دَسِیسَہ کاری وافتراء پردازی سے کام لینا، فتنے کی آگ بھڑکانا ، اور خوفناک جنگ بپا رکھنا اس کا شیوہ تھا۔ اسی لیے قرآن میں اس کو وَامْرَ‌أَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ (۱۱۱: ۴) (لکڑی ڈھونے والی ) کا لقب عطا کیا۔
جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی اور اس کے شوہر کی مَذَمت میں قرآن نازل ہوا ہے تو وہ رسول اللہﷺ کو تلاش کرتی ہوئی آئی۔ آپ خانہ کعبہ کے پاس مسجد حرام میں تشریف فرما تھے۔ ابو بکر صدیقؓ بھی ہمراہ تھے۔ یہ مُٹھی بھر پتھر لیے ہوئے تھی۔ سامنے کھڑی ہوئی تو اللہ نے اس کی نگاہ پکڑ لی اور وہ رسول اللہﷺ کو نہ دیکھ سکی۔ صرف ابو بکرؓ کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے سامنے پہنچتے ہی سوال کیا : ابوبکر تمہارا ساتھی کہاں ہے ؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ میری ہجو کرتا ہے۔ واللہ! اگر میں اسے پاگئی تو اس کے منہ پر یہ پتھر دے ماروں گی۔ دیکھو! اللہ کی قسم! میں بھی شاعرہ ہوں، پھر اس نے یہ شعر سنایا: 
مذمماً عصینا وأمرہ أبینا ودینہ قلینا
''ہم نے مذمم کی نافرمانی کی۔ اس کے امر کو تسلیم نہ کیا اور اس کے دین کو نفرت وحقارت سے چھوڑدیا۔''
مشرکین جل کر نبیﷺ کومحمد کے بجائے مُذمم کہتے تھے جس کا معنی محمد کے معنی کے بالکل عکس ہے محمد : وہ شخص ہے جس کی تعریف کی جائے۔ مذمم : وہ شخص ہے جس کی مذمت اور برائی کی جائے۔ وہ چونکہ مذمم کی برائی کرتے تھے اس لیے ان کی برائی نبیﷺ پر لاگونہ ہوتی۔ تاریخ بخاری ۱/۱۱، صحیح بخاری مع الفتح ۷/۱۶۲، مسند احمد ۲/۲۴۴ ، ۳۴۰ ، ۳۶۹۔
اس کے بعد واپس چلی گئی۔ ابو بکرؓ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں تھا ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ؟ اس نے مجھے نہیں دیکھا۔ اللہ نے اس کی نگاہ پکڑ لی تھی۔ (ابن ہشام ۱/۳۳۵، ۳۳۶)

مکمل تحریر >>

ًمحاز آرائی کی تیسری صورت: پہلوں کے واقعات اور افسانوں کا قرآن سے مقابلہ کرنا


مشرکین اپنے مذکورہ شبہات کو پھیلانے کے علاوہ ہر ممکن طریقے سے لوگوں کو قرآن کی سماعت سے دور رکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ چنانچہ وہ لوگوں کو ایسی جگہوں سے بھگا تے اور جب دیکھتے کہ نبیﷺ دعوت وتبلیغ کے لیے اٹھنا چاہتے ہیں یا نماز میں قرآن کی تلاوت فرما رہے ہیں تو شور کرتے اور تالیاں اور سیٹیاں بجاتے۔ جیسا کہ قرآن بتاتا ہے۔
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (۴۱: ۲۶) 
کفار نے کہا: یہ قرآن نہ سنو ، اور اس میں شور مچاؤ تاکہ تم غالب رہو۔
اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ تھا کہ نبیﷺ کو ان کے مجمعوں اور محفلوں کے اندر پہلی بار قرآن تلاوت کرنے کا موقع پانچویں سن نبوت کے اخیر میں مل سکا۔ وہ بھی اس طرح کہ آپ نے اچانک کھڑے ہوکر قرآن کی تلاوت شروع کردی اور پہلے سے کسی کو اس کا اندازہ نہ ہو سکا۔
نضر بن حارث قریش کے شیطانوں میں سے ایک شیطان تھا۔ وہ حیرہ گیا۔ وہاں بادشاہوں کے واقعات اور رستم واِسْفَنْدیار کے قصے سیکھے۔ پھر واپس آیا تو جب رسول اللہﷺ کسی جگہ بیٹھ کر اللہ کی باتیں کرتے اور اس کی گرفت سے لوگوں کو ڈراتے تو آپ کے بعد یہ شخص وہاں پہنچ جاتا اور کہتاکہ واللہ ! محمدکی باتیں مجھ سے بہتر نہیں، اس کے بعد وہ فارس کے بادشاہوں اور رُستم واسفندیار کے قصے سناتا پھر کہتا۔ آخر کس بنا پر محمد کی بات مجھ سے بہتر ہے۔( ملخص از ابن ہشام ۱/۲۹۹ ، ۳۰۰، ۳۵۸ )
ابن عباسؓ کی ایک روایت ہے کہ نضر نے ایک لونڈی خرید رکھی تھی جب وہ کسی آدمی کے متعلق سنتا کہ وہ نبیﷺ کی طرف مائل ہے تو اس کو اس لونڈی کے پاس لیجاکر کہتا کہ اسے کھلاؤ پلاؤ اور گانے سناؤ۔ یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم کو محمد بلاتے ہیں۔( الدر المنثور تفسیر سورۂ لقمان آیت ۶ (۵؍۳۷)) اسی کے بارے میں یہ ارشاد ِ الٰہی نازل ہوا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِ‌ي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ (۳۱: ۶)
''کچھ لوگ ایسے ہیں جو کھیل کی بات خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں۔''
جب قریش اپنی اس گفت وشنید میں ناکا م ہوگئے اور ابو طالب کو اس بات پر مطمئن نہ کرسکے کہ وہ رسول اللہﷺ کو روکیں ، اور انہیں دعوت الیٰ اللہ سے باز رکھیں توا نہوں نے ایک ایسا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جس پر چلنے سے وہ اب تک کتراتے رہے تھے اور جس کے انجام ونتائج کے خوف سے انہوں اب تک دو ر رہنا ہی مناسب سمجھا تھا اور وہ راستہ تھا رسول اللہﷺ کی ذات پر ظلم وجور کا راستہ۔

مکمل تحریر >>

محاز آرائی کی دوسری صورت: شکوک و شبہات پیدا کرنا اور جھوٹا پروپیگینڈا کرنا


یہ کام انہوں نے اس کثرت سے کیا اور ایسے ایسے انداز سے کیا کہ عوام کو آپ کی دعوت وتبلیغ پر غور وفکر کا موقع ہی نہ مل سکا، چنانچہ وہ قرآن کے بارے میں کہتے کہ:
یہ پریشان خواب ہیں جنہیں محمد رات میں دیکھتے اور دن میں تلاوت کردیتے ہیں۔ کبھی کہتے بلکہ اسے انہوں نے خود ہی گھڑ لیا ہے۔ کبھی کہتے انہیں کوئی انسان سکھاتا ہے۔ کبھی کہتےیہ قرآن تو محض جھوٹ ہے۔ اسے محمد نے گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس پر ان کی مدد کی ہے۔ یعنی آپ اور آپ کے ساتھیوں نے مل کر اسے گھڑ لیا ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ پہلوں کے افسانے ہیں جنہیں اس نے لکھوا لیا ہے۔ اور اب یہ اس پر صبح وشام پڑھے جاتے ہیں۔کبھی یہ کہتے کہ کاہنوں کی طرح آپ پر بھی کوئی جن یا شیطان اترتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا: 
هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ ﴿٢٢١﴾ تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ﴿٢٢٢﴾ (۲۶:۲۲۱، ۲۲۲
آپ کہہ دیں میں بتلاؤں کس پر شیطان اترتے ہیں ؟ ہر جھوٹ گھڑنے والے گنہگار پر اترتے ہیں۔
یعنی شیطان کا نزول جھوٹے اور گناہوں میں لت پت لوگوں پر ہوتا ہے اور تم لوگوں نے مجھ سے نہ کبھی کوئی جھوٹ سنا ، اور نہ مجھ میں کبھی کوئی فسق پایا؟ پھر قرآن کو شیطان کا نازل کیا ہوا کیسے قرار دے سکتے ہو ؟
کبھی انہوں نے نبیﷺ کے بارے میں یہ کہا کہ آپ ایک قسم کے جنون میں مبتلا ہیں۔ جس کی وجہ سے آپ معانی کا تخیل کرتے ہیں، اور انہیں عمدہ اورنادر قسم کے کلمات میں ڈھال لیتے ہیں۔ جس طرح شعراء اپنے خیالات کو حسین الفاظ کا جامہ پہنایا کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ بھی شاعر ہیں ، اور ان کا کلام شعر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا 
: وَالشُّعَرَ‌اءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ﴿٢٢٤﴾ أَلَمْ تَرَ‌ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ ﴿٢٢٥﴾ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ ﴿٢٢٦﴾ (۲۶: ۲۲۴ تا ۲۲۶)
یعنی شعراء کے پیچھے گمراہ لوگ چلتے ہیں تم دیکھتے نہیں کہ وہ ہر وادی کا چکر کاٹتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جنہیں کرتے نہیں،
یعنی یہ شعراء کی تین خصوصیات ہیں اور ان میں سے کوئی بھی خصوصیت نبیﷺ میں موجود نہیں۔ چنانچہ جو لوگ آپ کے پیروکار ہیں وہ ہدایت یاب وہدایت کار ہیں۔ اپنے دین ، اخلاق ، اعمال اور تصرفات ہر چیز میں صالح اور پرہیز گار ہیں۔ ان پر ان کی زندگی کے کسی بھی معاملے میں گمراہی کا نام ونشان نہیں۔ پھر نبیﷺ شعراء کی طرح ہر وادی کا چکر نہیں کاٹتے، بلکہ ایک رب، ایک دین ، اور ایک راستے کی دعوت دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ وہی کہتے ہیں جو کرتے ہیں ، اور وہی کرتے ہیں جو کہتے ہیں۔ لہٰذا آپ کو شعراء اور ان کی شاعری سے کیا واسطہ ؟ اور شعراء اور ان کی شاعری کو آپ سے کیا واسطہ ؟ 
یوں وہ لوگ نبیﷺ کے خلاف اور قرآن واسلام کے خلاف جو شبہ بھی اٹھاتے تھے ، اللہ تعالیٰ اس کا کافی وشافی جواب دیتا تھا۔
ان کے زیادہ تر شبہات توحید ، محمدﷺ کی رسالت اور مرنے کے بعد قیامت کے روز دوبارہ اٹھائے جانے سے متعلق ہوا کرتے تھے۔ قرآن نے توحید کے متعلق ان کے ہر شبہے کا ردّ کیا ہے۔ بلکہ مزید اتنی باتیں بیان کی ہیں جن سے اس قضیے کا ہر پہلو واضح ہوگیا ہے اور اس کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوٹا ہے۔ اس ضمن میں ان کے معبودوں کی عاجزی ومجبوری اس طرح کھول کر بیان کی ہے کہ اس پر اضافے کی گنجائش نہیں اور شاید اسی بات پر ان کا غصہ بھڑک اٹھا اور پھر جو کچھ پیش آیا وہ معلوم ہے۔
جہاں تک نبیﷺ کی پیغمبری کے بارے میں ان کی شبہات کا تعلق ہے تو وہ تو یہ تسلیم کرتے تھے کہ آپﷺ سچے، امانتدار اور انتہائی صلاح وتقویٰ پر قائم ہیں ، لیکن وہ سمجھتے تھے کہ منصب نبوت ورسالت اس سے کہیں زیادہ عظیم وجلیل ہے کہ وہ کسی انسان کو دیا جائے۔ یعنی ان کا عقیدہ تھا کہ جو بشر ہے وہ رسول نہیں ہوسکتا اور جو رسول ہو وہ بشر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جب رسول اللہﷺ نے اپنی نبوت کاا علان کیا اور اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دی تو انہیں حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا
: وَقَالُوا مَالِ هَـٰذَا الرَّ‌سُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرً‌ا ﴿٧﴾ (۲۵:۷) 
یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا
: قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ بَشَرٍ‌ مِّن شَيْءٍ (۶: 91) اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نہیں اتاری ہے۔
اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا
: قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورً‌ا وَهُدًى لِّلنَّاسِ (۶: ۹۱) آپ کہہ دیں وہ کتاب کس نے اتاری ہے جسے موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے اور جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت ہے۔
وہ چونکہ جانتے تھے اور مانتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام بشر ہیں۔ اس لیے جواب نہ دے سکے۔ اللہ نے ان کے رد میں یہ بھی فرمایا کہ ہرقوم نے اپنے پیغمبروں کی پیغمبری کا انکار کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ
: أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ‌ مِّثْلُنَا (۱۴: ۱۰) تم لوگ ہمارے ہی جیسے بشر ہو
نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ‌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ (۱۴: ۱۱) اور اس کے جواب میں پیغمبر وں نے ان سے کہا تھا کہ ہم لوگ یقینا ً تمہارے ہی جیسے بشرہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے۔
مطلب یہ کہ انبیاء ورسل ہمیشہ بشر ہی ہوا کیے ہیں۔ بشریت اور رسالت میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ 
چونکہ انہیں اقرار تھا کہ ابراہیم اور اسماعیل اور موسیٰ پیغمبر تھے اور بشر بھی تھے، اس لیے وہ اپنے اس شبہ پر زیادہ اصرار نہ کر سکے۔ اس لیے انہوں نے پینترا بدلا اور کہنے لگے : اچھا اگر ایسا ہے بھی کہ بشر پیغمبر ہوسکتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو اپنی پیغمبری کے لیے یہی یتیم ومسکین انسان ملا تھا ؟ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکہ اور طائف کے بڑے بڑے لوگوں کو چھوڑ کر اس مسکین کو پیغمبر بنالے۔
لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنُ عَلَىٰ رَ‌جُلٍ مِّنَ الْقَرْ‌يَتَيْنِ عَظِيمٍ (۴۳: ۳۱) یہ قرآن ان دونوں آبادیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ اتارا گیا۔ اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا؟
کیا یہ لوگ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وحی ورسالت تو اللہ کی رحمت ہے اور
اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِ‌سَالَتَهُ (۶: ۱۲۴) اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ اسے اپنی پیغمبری کہاں رکھنی چاہیے۔


ان جوابات کے بعد مشرکین نے ایک اور پہلو بدلا اور کہنے لگے کہ دنیا کے بادشاہوں کے ایلچی تو خدم وحشم کے جلو میں چلتے ہیں، ان کا بڑا جاہ وجلال ہوا کرتا ہے اور ان کے لیے ہر طرح کے سامان زندگی مہیا رہا کرتے ہیں۔ پھر محمد کا کیا معاملہ ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور انہیں لقمۂ زندگی کے لیے بازاروں کے چکر بھی کاٹنا پڑتے ہیں۔
لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرً‌ا ﴿٧﴾ أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ (۲۵:۷،۸) ان پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا جو ان کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا۔ یا ان کی طرف خزانہ کیوں نہیں ڈال دیاگیا۔ یا ان کا کوئی باغ ہی ہوتا جس سے وہ کھاتے اور ظالموں نے کہا کہ تم لوگ تو ایک جادو کیے ہوئے آدمی کی پیروی کر رہے ہو۔
اللہ نے اس ساری کٹ حجتی کا ایک مختصر سا جواب دیا کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ یعنی آپ کی مہم یہ ہے کہ آپ ہر چھوٹے بڑے ، کمزور اور طاقتور ، شریف اور پست ، آزاد اور غلام تک اللہ کا پیغام پہنچا دیں۔ لہٰذا اگر ایسا ہوتاکہ آپ بھی بادشاہوں کے ایلچیوں کی طرح جاہ وجلال ،خدم وحشم ، اردلی اور جلو میں چلنے والوں کے ساتھ بھیجے جاتے تو کمزور اور چھوٹے لوگ تو آپ تک پہنچ ہی نہیں سکتے تھے کہ آپ سے کسی طرح کا استفادہ کر سکیں۔ حالانکہ یہی جمہور ہیں۔ لہٰذا ایسی صورت میں پیغمبر بنانے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا اور اس کا کوئی قابل ذکر فائدہ نہ ہوتا۔
جہاں تک مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے معاملے کا تعلق ہے تو اس کے انکار کے لیے مشرکین کے پاس ،حیرت واستعجاب اورعقلی استبعاد کے علاوہ کوئی دلیل نہ تھی۔ وہ تعجب سے کہتے تھے:
وَكَانُوا يَقُولُونَ أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَ‌ابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ ﴿٤٧﴾ أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ ﴿٤٨﴾ (۵۶: ۴۷، ۴۸
کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے تو پھر اٹھادئے جائیں گے کیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی؟ (الصافات :۱۶، ۱۷) پھر خود ہی کہتے تھے:یہ دور کی واپسی ہے۔ تعجب سے کہتے
: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَ‌جُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿٧﴾ أَفْتَرَ‌ىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ (۳۴: ۷،۸)
کیاہم تمہیں ایک ایسا آدمی نہ بتلائیں جو خبر دیتا ہے کہ جب تم لوگ بالکل ریزہ ریزہ ہوجائوگے تو پھر تمہاری ایک نئی پیدائش ہوگی۔ معلوم نہیں اس نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ہے یا اس کو پاگل پن ہے۔ کہنے والے نے یہ بھی کہا:
أموت ثم بعث ثم حشر
حدیث خرافۃ یا أم عمرو
''کیا موت ، اس کے بعد زندگی ، اس کے بعد حشر ؟ ام عمرو ! یہ تو خرافات کی بات ہے۔ ''
اللہ نے اس کی تردید کے لیے دنیا میں پیش آنے والے حالات پر ان کی نظر ڈلوائی کہ دیکھو ! ظالم اپنے ظلم کی جزا پائے بغیر دنیا سے گزر جاتا ہے اور مظلوم بھی ظالم سے اپناحق وصول کیے بغیر موت سے دوچار ہو جاتاہے۔ محسن اور صالح اپنے احسان اور صلاح کا بدلہ پائے بغیر فوت ہوجاتا ہے اور فاجر اور بدکار اپنی بدعملی کی سزا پائے بغیر مر جاتا ہے۔ اب اگر انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اٹھایا جائے اور اس کے عمل کا بدلہ نہ دیا جائے تو دونوں فریق برابر ہو جائیں گے۔ بلکہ ظالم اور فاجر مظلوم اور نیکوکار سے زیادہ ہی خوش قسمت ہوں گے اور یہ بات قطعاً غیر معقول ہے اور اللہ کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ اپنی مخلوق کے نظام کی بنیاد ایسے فساد پر رکھے گا۔ اللہ فرماتا ہے:
أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِ‌مِينَ ﴿٣٥﴾ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴿٣٦﴾ (۶۸: ۳۵،۳۶) کیا ہم تابعداروں کو مجرموں جیسا ٹھہرائیں گے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ تم کیسے فیصلے کررہے ہو؟
نیز فرمایا: أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْ‌ضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ‌ (۳۸: ۲۸)
کیا ہم ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو زمین کے اندر فساد برپا کرنے والوں جیسا بنائیں گے ؟ یا کیا ہم پرہیز گاروں کو فاجروں جیسا ٹھہرائیں گے؟
اور فرمایا
: أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ أَن يَسْبِقُونَا ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (۲۹: ۴)
کیا برائیاں کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں جیسا بنائیں گے کہ ان (دونوں گروہوں) کی زندگی اور موت یکساں ہو۔ بر افیصلہ ہے جو یہ کرتے ہیں۔
جہاں تک ان کے عقل استبعاد کا تعلق ہے تو اللہ نے اس کا رد کرتے ہوئے فرمایا
: أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا (۷۹: ۲۷) کیا تم پیدائش میں زیادہ سخت ہو یا آسمان ؟
اور فرمایا
: أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّ اللَّـهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ‌ عَلَىٰ أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ ۚ بَلَىٰ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ (۴۶: ۳۳)
کیا انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کو پیدا کرنے سے نہیں تھکا ، وہ اس پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کردے ؟ کیوں نہیں ،یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
نیز فرمایا
: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولَىٰ فَلَوْلَا تَذَكَّرُ‌ونَ (۵۶: ۶۲) تم پہلی پیدائش تو جانتے ہی ہو، پھر حقیقت کیوں نہیں مانتے۔
اللہ تعالیٰ نے وہ بات بھی بتلائی جو عقلاً اور عرفاً دونوں طرح معروف ہے کہ کسی چیز کو دوبارہ کرنا پہلی بار سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ فرمایا
: كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ (۲۱: ۱۰۴) جیسے ہم نے پہلی بار پیدائش کی ابتدا کی تھی اسی طرح پلٹا بھی لیں گے۔
اور فرمایا :کیا پہلی بار پیدا کرنے سے ہم تھک گئے ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ نے ان کے ایک ایک شبہے کا نہایت اطمینان بخش جواب دیا۔ جس سے ہر سوجھ بوجھ والا آدمی مطمئن ہو سکتا ہے لیکن کفار مکہ ہنگامہ پسند تھے۔ ان میں استکبار تھا۔ وہ زمین پر بڑے بن کر رہنا چاہتے تھے اور مخلوق پر اپنی رائے لاگو کرنا چاہتے تھے، اس لیے اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہے۔

مکمل تحریر >>

قریش کی محاز آرائی کی پہلی صورت


یہ قرار داد طے پاچکی تو اسے جامۂ عمل پہنانے کی کارروائی شروع ہوئی کچھ کفارِ مکہ عازمین حج کے مختلف راستوں پر بیٹھ گئے اور وہاں سے ہر گزرنے والے کو آپ کے ''خطرے'' سے آگاہ کرتے ہوئے آپ کے متعلق تفصیلات بتانے لگے۔ (ابن ہشام ۱/۲۷۱)
جہاں تک رسول اللہﷺ کا تعلق ہے تو آپ حج کے ایام میں لوگوں کے ڈیروں اور عُکاظ، مجنہ اور ذو المجازکے بازاروں میں تشریف لے جاتے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے۔ ادھر ابولہب آپ کے پیچھے پیچھے لگا رہتا اور کہتا کہ اس کی بات نہ ماننا یہ جھوٹا بددین ہے۔ (مسند احمد ۳/۴۹۲، ۴/۳۴۱ میں اس کی یہ حرکت مروی ہے۔ نیز دیکھئے: البدایۃ والنہایۃ ۵/۷۵ ، کنزل العمال ۱۲/۴۴۹، ۴۵۰)
اس دوڑ دھوپ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس حج سے اپنے گھروں کو واپس ہوئے تو ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی ٔنبوت کیا ہے اور یوں ان کے ذریعے پورے دیارِ عرب میں آپ کا چرچا پھیل گیا۔
جب قریش نے دیکھا کہ محمدﷺ کو تبلیغ دین سے روکنے کی حکمت کار گر نہیں ہورہی ہے تو ایک بار پھر انہوں نے غور وخوض کیا اور آپ کی دعوت کا قلع قمع کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جن کا خلاصہ یہ ہے۔
ہنسی ، ٹھٹھا ، تحقیر ، استہزا ، اور تکذیب:... اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو بددل کر کے ان کے حوصلے توڑ دیئے جائیں۔ اس کے لیے مشرکین نے نبیﷺ کو نارواتہمتوں اور بیہودہ گالیوں کا نشانہ بنا یا۔
چنانچہ وہ کبھی آپ کو پاگل کہتے، جیسا کہ ارشاد ہے :
وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ‌ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ (۱۵: ۶)
''ان کفار نے کہا کہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا تو یقینا پاگل ہے۔''
اور کبھی آپ پر جادو گر اور جھُوٹے ہونے کا الزام لگاتے۔چنانچہ ارشاد ہے :
وَعَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ‌ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُ‌ونَ هَـٰذَا سَاحِرٌ‌ كَذَّابٌ (۳۸: ۴)
''انہیں حیرت ہے کہ خود انہیں میں سے ایک ڈرانے والا آیا اور کافرین کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے جھوٹا ہے۔''
یہ کفار آپ کے آگے پیچھے پُر غضب ،منتقمانہ نگاہوں اور بھڑکتے ہوئے جذبات کے ساتھ چلتے تھے۔
وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِ‌هِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ‌ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ (۶۸: ۵۱)
''اور جب کفار اس قرآن کو سنتے ہیں تو آپ کو ایسی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ گویا آپ کے قدم اکھاڑدیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ یقینا ً پاگل ہے۔''
اور جب آپ کسی جگہ تشریف فرما ہوتے اور آپ کے ارد گرد کمزور اور مظلوم صحابہ کرام ؓ موجود ہوتے تو انہیں دیکھ کر مشرکین استہزاء کرتے ہو ئے کہتے :
أَهَـٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا (۶: ۵۳)
''اچھا ! یہی حضرات ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان سے احسان فرمایا ہے ؟''
جواباً اللہ کا ارشاد ہے :
أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِ‌ينَ (۶: ۵۳)
''کیا اللہ شکر گزاروں کو سب سے زیادہ نہیں جانتا۔''
عام طور پر مشرکین کی کیفیت وہی تھی جس کا نقشہ ذیل کی آیات میں کھینچا گیا ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَ‌مُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ ﴿٢٩﴾ وَإِذَا مَرُّ‌وا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ ﴿٣٠﴾ وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ ﴿٣١﴾ وَإِذَا رَ‌أَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ ﴿٣٢﴾ وَمَا أُرْ‌سِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ ﴿٣٣﴾ (۸۳: ۲۹تا۳۳)
''جو مجرم تھے وہ ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اورجب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مارتے تھے اور جب اپنے گھروں کو پلٹتے تو لُطف اندوز ہوتے ہوئے پلٹتے تھے اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے کہ یہی گمراہ ہیں۔ حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔''
انہوں نے سخریہ اور استہزاء کی بڑی کثرت کی اور طعن وتضحیک میں رفتہ رفتہ آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کی طبیعت پر اس کا اثر پڑا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُ‌كَ بِمَا يَقُولُونَ (۱۵: ۹۷)
''ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں اس سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے۔''
لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثبات قدمی عطا فرمائی اور بتلایا کہ سینے کی یہ تنگی کس طرح جاسکتی ہے چنانچہ فرمایا:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَ‌بِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿٩٨﴾ وَاعْبُدْ رَ‌بَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ﴿٩٩﴾ (۱۵:۹۸،۹۹)
یعنی''اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور سجدہ گزاروں میں سے ہو جاؤ اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے جاؤ یہاں تک کہ موت آجائے۔''
اور اس سے پہلے یہ بھی بتلادیا کہ ان استہزاء کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ چنانچہ فرمایا :
إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ﴿٩٥﴾ الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ‌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (الحجر: ۹۵، ۹۶)
''ہم آپ کے لیے استہزاء کرنے والوں سے (نمٹنے کو) کافی ہیں جوا للہ کے ساتھ دوسرے کو معبود ٹھہراتے ہیں ، انہیں جلد ہی معلوم ہوجائے گا۔''
اللہ نے یہ بھی بتلایا کہ ان کا یہ فعل جلد ہی وبال بن کر ان پر پلٹے گا۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُ‌سُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُ‌وا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (الانعام :۱۰ ۔ الانبیاء :۴۱ )
''آپ سے پہلے پیغمبروں سے بھی استہزاء کیا گیا۔ توا ن کی ہنسی اڑانے والے جو استہزاء کر رہے تھے اس نے انہیں کو گھیر لیا۔''
مکمل تحریر >>

کھلی تبلیغ کا دوسرا حکم


اس آواز کی گونج ابھی مکے کے اطراف میں سنائی ہی دے رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کا ایک اور حکم نازل ہوا :
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ‌ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْمُشْرِ‌كِينَ (۱۵: ۹۴ )
''آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اس کھول کر بیان کر دیجیے اور مشرکین سے رخ پھیر لیجئے۔''
چنانچہ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے مشرکین کے مجمعوں اور ان کی محفلوں میں کھلے عام دعوت دینی شروع کر دی۔ آپ لوگوں پر اللہ کی کتاب تلاوت کرتے اور ان سے وہی فرماتے جو پچھلے پیغمبروں نے اپنی قوموں سے فرمایا تھا کہ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُ‌هُ (۷: ۵۹) ''اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ تمہارے لیے اس کے سوا کوئی اور لائق عبادت نہیں۔''
اس کے ساتھ آپ نے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ، دن دھاڑے مجمعِ عام کے روبرو اللہ کی عبادت بھی شروع کر دی۔
آپ کی دعوت کو مزید قبولیت حاصل ہوئی اور لوگ اللہ کے دین میں اکا دکا داخل ہوتے گئے۔ پھر جو اسلام لاتا اس میں اور اس کے گھر والوں میں بغض ، دوری اور اختلاف کھڑا ہوجاتا۔ قریش اس صورتِ حال سے تنگ ہو رہے تھے اور جو کچھ ان کی نگاہوں کے سامنے آرہا تھا انہیں ناگوار محسوس ہو رہا تھا۔
حجاج کو روکنے کے لیے مجلس شوریٰ:
ان ہی دنوں قریش کے سامنے ایک اور مشکل آن کھڑی ہوئی، یعنی ابھی کھُم کھلا تبلیغ پر چند ہی مہینے گزرے تھے کہ موسم حج قریب آگیا۔ قریش کو معلوم تھا کہ اب عرب کے وفود کی آمد شروع ہوگی۔ اس لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ نبیﷺ کے متعلق کوئی ایسی بات کہیں کہ جس کی وجہ سے اہل عرب کے دلوں پر آپ کی تبلیغ کا اثر نہ ہو۔ چنانچہ وہ اس بات پر گفت وشنید کے لیے ولید بن مغیرہ کے پاس اکٹھے ہوئے۔
ولید نے کہا :اس بارے میں تم سب لوگ ایک رائے اختیار کر لو تم میں باہم کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ خود تمہارا ہی ایک آدمی دوسرے آدمی کی تکذیب کردے اور ایک کی بات دوسرے کی بات کاٹ دے۔ لوگوں نے کہا :آپ ہی کہئے۔ اس نے کہا : نہیں تم لوگ کہو، میں سنوں گا۔ اس پر چند لوگوں نے کہا: ہم کہیں گے وہ کاہن ہے۔ ولید نے کہا: نہیں واللہ! وہ کاہن نہیں ہے، ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے۔ اس شخص کے اندر نہ کا ہنوں جیسی گنگنا ہٹ ہے۔نہ ان کے جیسی قافیہ گوئی اور تُک بند ی۔
اس پر لوگوں نے کہا : تب ہم کہیں گے کہ وہ پاگل ہے۔ ولید نے کہا : نہیں ، وہ پاگل بھی نہیں، ہم نے پاگل بھی دیکھا ہے اور اس کی کیفیت بھی۔ اس شخص کے اندر نہ پاگلوں جیسی دَم گھٹنے کی کیفیت اور الٹی سیدھی حرکتیں ہیں۔ اورنہ ان کے جیسی بہکی بہکی باتیں۔
لوگوں نے کہا : تب ہم کہیں گے کہ وہ شاعر ہے۔ ولید نے کہا: وہ شاعر بھی نہیں۔ ہمیں رَجَز، ہجز ، قریض ، مقبوض،مبسوط سارے ہی اصنافِ سخن معلوم ہیں۔ اس کی بات بہر حال شعر نہیں ہے۔
لوگوں نے کہا: تب ہم کہیں کہ وہ جادو گر ہے۔ ولید نے کہا یہ شخص جادو گر بھی نہیں۔ ہم نے جادوگر اور ان کا جادو بھی دیکھا ہے ، یہ شخص نہ تو ان کی طرح چھا ڑ پھونک کرتا ہے نہ گرہ لگا تا ہے۔
لوگوں نے کہا : تب ہم کیا کہیں گے ؟ ولید نے کہا : اللہ کی قسم! اس کی بات بڑی شیریں ہے۔ اس کی جڑ پائیدار ہے اور اس کی شاخ پھلدار۔ تم جوبات بھی کہو گے لوگ اسے باطل سمجھیں گے۔ البتہ اس کے بارے میں سب سے مناسب بات یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ جادوگر ہے۔ اس نے ایسا کلام پیش کیا ہے جو جادو ہے۔ اس سے باپ بیٹے ، بھائی بھائی ، شوہر بیوی اور کنبے قبیلے میں پھوٹ پڑ جاتی ہے بالآخر لوگ اسی تجویز پر متفق ہو کر وہاں سے رخصت ہوئے۔ (ابن ہشام ۱/۲۷۱)
بعض روایات میں یہ تفصیل بھی مذکور ہے کہ جب ولید نے لوگوں کی ساری تجویزیں رد کردیں تو لوگوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اپنی بے دماغ رائے پیش کیجیے۔ اس پر ولید نے کہا : ذرا سوچ لینے دو۔ اس کے بعد وہ سوچتا رہا سوچتا رہا یہاں تک کہ اپنی مذکورہ بالا رائے ظاہر کی۔ 
(المستدرک الحاکم ۲/۳۶۱ میں ، ابن ابی شیبہ نے مصنف ۱۱/۴۹۸(حدیث نمبر ۱۱۸۱۷) )
اسی معاملے میں ولید کے متعلق سورۂ مد ثر کی سولہ آیات ( ۱۱ تا ۲۶ ) نازل ہوئیں۔ جن میں سے چند آیات کے اندر اس کے سوچنے کی کیفیت کا نقشہ بھی کھینچا گیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا :
إِنَّهُ فَكَّرَ‌ وَقَدَّرَ‌ ﴿١٨﴾ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ‌ ﴿١٩﴾ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ‌ ﴿٢٠﴾ ثُمَّ نَظَرَ‌ ﴿٢١﴾ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ‌ ﴿٢٢﴾ ثُمَّ أَدْبَرَ‌ وَاسْتَكْبَرَ‌ ﴿٢٣﴾ فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ‌ يُؤْثَرُ‌ ﴿٢٤﴾ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ‌ ﴿٢٥﴾ (۷۴: ۱۸ تا ۲۵)
''اس نے سوچا اور اندازہ لگا یا۔ وہ غارت ہو۔ اس نے کیسا اندازہ لگا یا۔ پھر غارت ہوا س نے کیا اندازہ لگا یا پھر نظر دوڑائی ، پھرپیشانی سکیڑ ی اور منہ بسورا۔ پھر پلٹا اور تکبر کیا۔ آخرکار کہا کہ یہ نرالا جادو ہے جو پہلے سے نقل ہوتا آرہا ہے۔ یہ محض انسان کا کلام ہے۔
مکمل تحریر >>

کوہِ صفا پر۔۔


جب نبیﷺ نے اچھی طرح اطمینان کر لیا کہ اللہ کے دین کی تبلیغ کے دوران ابو طالب ان کی حمایت کریں گے۔ تو ایک روز آپ کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور سب سب سے اونچے پتھر پر چڑھ کر یہ آواز لگائی:
یاصَبَاحَاہ۔ ہائے صبح! (اہل عرب کا دستور تھا کہ دشمن کے حملے یا کسی سنگین خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے کسی بلند مقام پر چڑھ کر انہی الفاظ سے پکارتے تھے )
اس کے بعد آپ نے قریش کی ایک ایک شاخ اور ایک ایک خاندان کو آواز لگائی۔ اے بنی فہر ! اے بنی عدی ! اے بنی فلاں اوراے بنی فلاں ! اے بنی عبد مناف ! اے بنی عبد المطلب !
جب لوگوں نے یہ آواز سنی تو کہا: کون پکار رہا ہے ؟ جواب ملا :محمد ہیں ،اس پر لوگ تیزی سے آئے۔ اگر کوئی خود نہ آسکا تو اپنا آدمی بھیج دیا کہ دیکھے کیا بات ہے۔ یوں قریش کے لوگ آگئے اور ان میں ابو لہب بھی تھا۔
جب سب جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا : یہ بتاؤ اگر میں خبر دوں کہ ادھر اس پہاڑ کے دامن میں وادی کے اندر شہسواروں کی ایک جماعت ہے جو تم پر چھاپہ مارنا چاہتی ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا مانو گے ؟
لوگوں نے کہا : ہاں ! ہاں! ہم نے آپ پر کبھی جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا ، ہم نے آپ پر سچ ہی کا تجربہ کیا ہے۔
آپ نے فرمایا : اچھا تو میں ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ میری اور تمہاری مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی نے دشمن کو دیکھا پھر اس نے کسی اونچی جگہ چڑھ کر اپنے خاندان والوں پر نظر ڈالی تو اسے اندیشہ ہوا کہ دشمن اس سے پہلے پہنچ جائے گا، لہٰذا اس نے وہیں سے پکار لگانی شروع کردی یا صباحاہ ! ہائے صبح !
اس کے بعد آپ نے لوگوں کو حق کی دعوت دی اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور خاص کو بھی خطاب کیا اور عام کو بھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قریش کے لوگو! اپنے آپ کو اللہ سے خرید لو، جہنم سے بچالو۔ میں تمہارے نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ نہ تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے کچھ کام آسکتا ہوں۔
بنو کعب بن لؤی ! بنو مرہ بن کعب ! بنو قصی ،بنو عبد مناف ! بنو عبد شمس ! بنو ہاشم ! بنو عبد المطلب ، اپنے آپ کو جہنم سے بچالو کیونکہ میں تمہارے نفع ونقصان مالک نہیں۔ اورنہ تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے کچھ کام آسکتا ہوں، میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو۔ مگر میں تمہیں اللہ سے بچانے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔
جب تم لوگوں سے پوچھا جائے تو یہ کنایات ہیں۔ جسے میں اس کی تری کے مطابق تر کروں گا۔
جب یہ انذار ختم ہوا تو لوگ بکھر گئے۔ ان کے کسی قوی رد عمل کا کوئی ذکر نہیں ملتا ، البتہ ابولہب نے بدتمیزی کی ، کہنے لگا : تو سارے دن غارت ہو۔ تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا۔ اس پر سورۂ تبت یداأبی لہب نازل ہوئی کہ ابو لہب کے دونوں ہاتھ غارت ہوں اور وہ خود غارت ہو۔ 
(صحیح بخاری ۱/۲۷۵۳ ، ۳۵۲۵، ۳۵۲۶، ۳۵۲۷، ۴۷۷۱، صحیح مسلم ۱/۱۱۴ ،فتح الباری ۵/ ۴۴۹، ۶/۶۳۷ ، ۸/۳۶۰، جامع ترمذی تفسیر سور ۂ شعراء وغیرہ ، میں نے تمام روایات کے الفاظ کو مرتب کردیا ہے۔)
یہ بانگ درا غایت تبلیغ تھی۔ رسول اللہﷺ نے اپنے قریب ترین لوگوں پر واضح کر دیا تھا کہ اب اس رسالت کی تصدیق ہی پر تعلقات موقوف ہیں اور جس نسلی اور قبائلی عصبیت پر عرب قائم ہیں وہ اس الٰہی انذار کی حرارت میں پگھل کر ختم ہو چکی ہے۔
مکمل تحریر >>

کھلی دعوت کا پہلا حکم


جب مومنین کی ایک جماعت اخوت وتعاون کی بنیاد پر قائم ہوگئی۔ جو اللہ کا پیغام پہنچانے اور اس کو اس کا مقام دلانے کا بوجھ اٹھاسکتی تھی تو وحی نازل ہوئی اور رسول اللہﷺ کو مکلف کیا گیا کہ اپنی قوم کو کھلم کھلا دعوت دیں اور ان کے باطل کا خوبصورتی کے ساتھ رد کریں۔
اس بارے میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نازل ہوا ،
وَأَنذِرْ‌ عَشِيرَ‌تَكَ الْأَقْرَ‌بِينَ (۲۶:۲۱۴) ''آپ اپنے نزدیک ترین قرابتداروں کو (عذاب الٰہی سے) ڈرایئے ''
یہ سورئہ شعراء کی آیت ہے اور اس سورت میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کاآغاز ہوا۔ پھر آخر میں انہوں نے بنی اسرائیل سمیت ہجرت کر کے فرعون اور قومِ فرعون سے نجات پائی اور فرعون وآل فرعون کو غرق کیا گیا۔ بلفظ دیگر یہ تذکرہ ان تمام مراحل پر مشتمل ہے جن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ، فرعون اور قومِ فرعون کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے گزرے تھے۔
جب رسول اللہﷺ کو اپنی قوم کے اندر کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس موقعے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کی یہ تفصیل اس لیے بیا ن کر دی گئی تاکہ کھلم کھلا دعوت دینے کے بعد جس طرح کی تکذیب اور ظلم وزیادتی سے سابقہ آنے والا تھا اس کا ایک نمونہ آپ اور صحابہ کرامؓ کے سامنے موجودر ہے۔
دوسری طرف اس سورت میں پیغمبروں کو جھٹلانے والی اقوام مثلاً: فرعون اور قومِ فرعون کے علاوہ قومِ نوح ،عاد، ثمود قومِ ابراہیم ، قومِ لوط اور اصحاب الأیکہ کے انجام کا بھی ذکر ہے۔ اس کا مقصد غالباً یہ ہے کہ جو لوگ آپ کو جھٹلائیں انہیں معلوم ہوجائے کہ تکذیب پر اصرار کی صورت میں ان کا انجام کیا ہونے والا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کس قسم کے مؤاخذے سے دوچار ہوں گے، نیز اہل ایمان کو معلوم ہوجائے کہ اچھا انجام انھیں کا ہوگا، جھٹلانے والوں کا نہیں۔ 
قرابت داروں میں تبلیغ:
بہرحال اس آیت کے نزول کے بعد نبیﷺ نے پہلا کام یہ کیا کہ بنی ہاشم کو جمع کیا ان کے ساتھ بنی مطلب بن عبد مناف کی بھی ایک جماعت تھی۔ کل پینتالیس آدمی تھے لیکن ابولہب نے بات لپک لی اور بولا: دیکھو یہ تمہارے چچا اور چچیرے بھائی ہیں، بات کرو لیکن نادانی چھوڑدو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب سے مقابلے کی تاب نہیں رکھتا اور میں سب سے زیادہ حق دار ہوں کہ تمہیں پکڑلوں۔ پس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے اور اگر تم اپنی بات پر قائم رہے تو یہ بہت آسان ہوگا کہ قریش کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑیں اور بقیہ عرب بھی ان کی مدد کریں۔ پھر میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص اپنے باپ کے خانوادے کے لیے تم سے بڑھ کر شر (اور تباہی ) کا باعث ہوگا۔ اس پر نبیﷺ نے خاموشی اختیار کرلی۔ اوراس مجلس میں کوئی گفتگو نہ کی۔اس کے بعد آپ نے انہیں دوبارہ جمع کیا اور ارشاد فرمایا:
ساری حمد اللہ کے لیے ہے، میں اس کی حمد کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں۔ اس پر ایمان رکھتا ہوں، اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور یہ گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، پھر آپ نے فرمایا: رہنما اپنے گھر کے لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ اس اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں تمہاری طرف خصوصاً اور لوگوں کی طرف عموماً اللہ کا رسول (فرستادہ) ہوں۔ واللہ ! تم لوگ اسی طرح موت سے دوچار ہوگے جیسے سوجاتے ہو اور اسی طرح اٹھا ئے جاؤ گے جیسے سو کر جاگتے ہو۔ پھر جو کچھ تم کرتے ہو اس کا تم سے حساب لیا جائے گا۔ اس کے بعد یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہے یا ہمیشہ کے لیے جہنم۔
اس پر ابو طالب نے کہا (نہ پوچھو ) ہمیں تمہاری معاونت کس قدر پسند ہے۔ تمہاری نصیحت کس قدر قابلِ قبول ہے اور ہم تمہاری بات کس قدر سچی جانتے اور مانتے ہیں اور یہ تمہارے والد کا خانوادہ جمع ہے اور میں بھی ان کا ایک فرد ہوں ، فرق اتنا ہے کہ میں تمہاری پسند کی تکمیل کے لیے ان سب سے پیش پیش ہوں۔ لہٰذا تمہیں جس بات کا حکم ہوا ہے اسے انجام دو۔واللہ! میں تمہاری مسلسل حفاظت واعانت کرتا رہوں گا۔ البتہ میری طبیعت عبد المطلب کا دین چھوڑنے پر راضی نہیں۔
ابو لہب نے کہا: یہ اللہ کی قسم! برائی ہے۔ اس کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم لوگ خود ہی پکڑ لو۔ اس پر ابوطالب نے کہا : اللہ کی قسم! جب تک جان میں جان ہے، ہم ان کی حفاظت کرتے رہیں گے۔
مکمل تحریر >>

ملحدین اور مستشرقین کے ایک سوال کا جواب


چند دن پہلے ایک ممبر نے میسج کرکے ایک تحریر کی جانب توجہ دلائی جو کہ ایک ملحد نے دہریوں کے ایک پیج سے کاپی کرکے ایک گروپ میں پیش کی ہوئی تھی ۔ اس تحریر میں مکہ، کعبہ اور زم زم کے تاریخی وجود پر تاریخی حوالہ جات پیش کرکے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ہم ان کا جواب بمعہ اہم اعتراضات کے جملوں کے پیش کررہے ہیں ۔ تحریر کی طوالت کی وجہ سے اسے تین قسطوں میں پیش کیا جارہا ہے۔

اعتراض :توحید کے گھر میں بت پرستی کیسے آگئی ؟؟
ایک بات جو سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم نے یہ کعبہ بنایا تو مطلب اس نے توحید کا گھر بنایا ۔ اب توحید کے گھر میں وقت کے ساتھ بت کیسے آگئے ؟ تاریخ میں موجود تمام تر عبادت گاہوں کو اٹھا کے دیکھ لیجئے کہ وہ جس مقصد کے لیئے بنی تھی اسی مقصد کی آج تک زبان بول رہی ہیں۔ اگر کسی نے کعبہ پہ چڑھائی کرکے اسے بتوں کا گھر بنایا تھا تو اسلامی اور باقی تاریخ کسی ایسے واقعے سے خالی کیوں ہے ؟

جواب: تاریخ کسی ایسے واقعے سے اس لیے خالی ہے کہ کسی نے کعبہ پر چڑھائی کرکے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ یہ بت پرستی بتدریج ملک عرب میں رائج ہوئی، اسکی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ ہم مختصرا پیش کرتے ہیں۔
عام باشندگانِ عرب شروع سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعوت وتبلیغ کے نتیجے میں دینِ ابراہیمی کے پَیرو تھے تاآنکہ بنو خزاعہ کا سردار عَمر و بن لُحَی منظر عام پر آیا۔ اس کی نشوونما بڑی نیکوکاری ، صدقہ وخیرات اور دینی امور سے گہری دلچسپی پر ہوئی تھی۔ اس لیے لوگوں نے اسے محبت کی نظر سے دیکھا اور اسے اکابر علماء اور افاضل اوّلیاء میں سے سمجھ کر اس کی پیروی کی۔ اس شخص نے ملک شام کے سفر میں بتوں کی پوجا دیکھی تو اس نے سمجھا کہ یہی بہتر اور بر حق ہے کیونکہ ملک شام پیغمبروں کی سر زمین اور آسمانی کتابوں کی نزول گاہ تھی۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھ ہبل بت بھی لے آیا اور اسے خانہ کعبہ کے اندر نصب کر دیا اور اہل مکہ کو اللہ کے ساتھ شرک کی دعوت دی۔ اہل مکہ نے اس پر لبیک کہا۔ اس کے بعد بہت جلد باشندگان حجاز بھی اہل مکہ کے نقش قدم پر چل پڑے۔ کیونکہ وہ بیت اللہ کے والی اور حرم کے باشندے تھے۔ اس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا اور اس کے بعد حجاز کے ہر خطے میں شرک کی کثرت او ر بتوں کی بھر مار ہو گئی۔ ہبل سرخ عقیق سے تراشا گیا تھا۔ صورت انسان کی تھی۔ یہ مشرکین کا پہلا بت تھا اور ان کے نزدیک سب سے عظیم اور مقدس تھا۔ (کتاب الاصنام لابن الکلبی ص ۲۸)
دوسری بات یہ چیز اہل عرب کے ساتھ خاص نہیں تھی پہلے عیسائی بھی ایسی بے راہروی کا شکار ہوئے، پولس جو کہ ایک یہودی تھا' اسی طرح عیسائی مذہب میں داخل ہوا اور اپنی ولایت اور پاکبازی دکھا کر مشہور راہب اور پھر عیسی علیہ السلام کے بعد سب سے معتبر شخص کہلایا گیا ،اسی نے بعد میں عیسائیت میں تثلیث کا عقیدہ رائج کیا اور عیسائیت کو ایک مشرک مذہب میں تبدیل کردیا ۔

زم زم کے کنویں پر اعتراض :۔
اب ابن اسحاق ہی لکھتا ہے کہ جرہم کا قبیلہ باہر سے آنے والوں کے لیئے ایذا کا باعث بن گیا۔ ان کے رشتوں داروں کے علاوہ جو بھی وہاں آتا ان سے ناروا سلوک کیا جاتا۔اس بات پہ بنو خزاع اور بنو جرہم کی لڑائی ہوتی ہے اور جرہم کے قبیلے کو شکست ہوتی ہے اور وہ علاقہ چھوڑ کے چلے جاتے ہیں۔ جاتے جاتے وہ لوگ دو عدد سونے کے بنے ہوئے مجسمے اور حجر اسود زمزم میں چھپا دیتے ہیں۔ لیکن یہ واقعہ پرانا نہیں بلکہ دوسری صدی بعد از مسیح کا ہے ۔
سیرت النبی انب اسحاق، اشاعت محمدیہ یونیورسٹی صفحہ نمبر 67
ابن اسحاق لکھتا ہے کہ ایک دن نبی کریم کے دادا عبدالمطلب کو ان کے خواب کے زریعے ایک جگہ کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ اس جگہ پہ کھود دو
سیرت النبی انب اسحاق، اشاعت محمدیہ یونیورسٹی صفحہ نمبر 64
ایک کنواں جس کے ساتھ اتنی مقدس روایات وابستہ ہیں کہ ایک بچے کے رونے پہ اس کنویں کو فرشتے نے کھودا، ان لوگوں نے اس کنویں کو دوبارہ کیونکر نہ کھودا ہوگا۔

جواب : یہ بالکل ایک بچگانہ اعتراض ہے جسکا جواب اسلامی تاریخ کا بیسک علم رکھنے والا بھی دے سکتا ہے، معترض کی اگر نیت ٹھیک ہوتی تو اسے ریفرینس کے سیاق و سباق اور خود ان حوالوں پر غور کرنے سے ہی سے ہی جواب مل جاتا ہے۔ بحرحال ہم صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ جب آپ کنویں کی نسبت اسماعیل علیہ السلام سے مانتے ہوئے (فرض کرکے ہی سہی ) اگلے سوال اٹھاتے ہیں تو پھر انہی لوگوں کا جواب قبول کرنے میں کیا حرج ہے جن کے حوالے آپ بھی سوال میں دے رہے کہ قبیلہ جرہم نے جاتے ہوئے اس کنویں میں زیورات وغیرہ ڈال کے اسکا منہ ریت ، مٹی سے بھر کر برابر کردیا تھا اور اہل قریش کو نشانی یاد نہ رہی یا بھلا دی گئی تھی اور بعد میں حضور کے دادا کو یہ اعزاز ا دکھلائی گئی اور کنویں کو انکے ذریعے صاف کروایا گیا۔؟؟!!



مکہ اور کعبہ پر اعتراض :
بقیہ تاریخ کچھ یوں گویا ہوئی ہے کہ اول تو مکہ شہر کا چوتھی صدی عیسوی تک کوئی زکر ہی نہیں اور اس کے بعد کا جو زکر ہے اس میں مکہ کو کسی بڑے شہر کے طور پہ نہیں دکھایا گیا۔ کئی رومن اور یونانی جغرافیہ دانوں اور تاریخ دانوں نے عرب کا سفر کیا اور اس کے بارے میں لکھا لیکن کسی نے بھی مکہ کا زکر نہیں کیا۔
مسلمان اسے بائبل کے اندر موجود ایک نام بکا (bacca) سے ملاتے ہیں ۔ اگر بکا والی سابقے لاحقے میں تمام آیات کو غور سے پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں یروشلم کا زکر کرتے ہوئے ایک وادی کے جس میں ایک مخصوص پھول " بکا " لگتےہیں کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔

جواب :مکہ کا قدیم اور اصلی نام بکہ ہے۔ 
اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا(ال عمران-3:96) ترجمہ- پہلا مبارک گھر جو آدمیوں کے لیے بنایا گیا تھا وہ بکہ ہی تھا۔ 
معترض نے بائبل کے حوالے کے متعلق یہ کہا کہ اس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہم اسکو سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرتے ہیں، بات واضح ہوجائے گی۔زبور 84 کی آیت 6 میں ہے 
” بکہ کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بناتے، برکتوں سے مورو کو ڈھانک لیتے، قوت سقوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ہیں“
اس عبارت میں بکہ کا جو لفظ ہے وہ ہی مکہ معظمہ ہے لیکن اگر اس لفظ کو اسم علم کے بجائے مشتق قرار دیں تو اس کے معنی ”رونے“ کے ہوں گے اور یہ وہی عربی لفظ بکاء ہے۔ مستشریقین نے مکہ کی وقعت مٹانے کی کوشش میں عبارت مذکورہ میں بکہ کا ترجمہ رونا پیش کیا ۔ لیکن ہر شخص خود سمجھ سکتا ہے کہ اس حالت میں وادی بکا کے کیا معنی ہوں گے؟ پھر زبور کی عبارت مذکورہ کی اوپر کی آیتوں سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس نشید میں حضرت داؤدؑ نے مکہ معظمہ اور مروہ اور قربان گاہ اسماعیلی کی نسبت اپنا شوق اور حسرت ظاہر کی ہے۔ اوپر کی عبارت یہ ہے 
(حضرت داؤد ؑ خدا سے کہتے ہیں) ”اے فوجوں کے خدا! تیرے مسکن کس قدر شیریں ہیں، میرا نفس خدا کے گھر کا مشتاق بلکہ عاشق ہے…اے خدا! 'تیرے قربان گاہ 'میرے مالک اور میرے خدا ہیں، مبارکی ہو ان لوگوں کو جو تیرے گھر میں ہمیشہ رہتے ہیں اور تیری تسبیح پڑھتے ہیں“
اس کے بعد بکہ والی آیتیں ہیں اب غور کریں حضرت داؤد ؑ جس مقام کے پہنچنے کا شوق ظاہر کرتے ہیں وہ اس مقام پر صادق آ سکتا ہے جس میں حسب ذیل باتیں پائی جاتی ہوں۔
1. قربانی گاہ ہو ۔
2. حضرت داؤد ؑ کے وطن سے دور ہو کہ وہاں تک سفر کر کے جائیں۔ 
3. وہ وادی بکہ کہلاتا ہو۔ 
4. وہاں مقام مورو بھی ہو۔ 
ان باتوں کو پیش نظر رکھیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بکہ وہی مکہ معظمہ اور مورو وہی مروہ ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اندازہ ہو گا کہ یہود کس طرح تعصب سے الفاظ کو ادل بدل کر دیتے ہیں۔یُحَرِّفُوۡنَ الْکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ ۔ 
ڈاکٹر ہسٹنگس نے ”ڈکشنری آف دی بائیبل“ میں وادی بکا پر جو آرٹیکل لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس لفظ سے اگر کوئی وادی مراد ہے تو حسب ذیل ہے۔
1. ایک وادی ہے جس میں ہو کر زائرین بیت المقدس جاتے ہیں۔ 
2. وادی اخور ہے جو یشوعا باب 7 آیات 24- 26 میں مذکور ہے۔ 
3. وادی رفایون ہے جو سامویل دوم باب 5 آیات 18-22 وغیرہ میں مذکور ہے۔ 
4. کوہ سینا کی ایک وادی ہے۔ 
5. بیت المقدس تک جو کاروانی راستہ شمال سے آتا ہے اس راستے کی آخری منزل ہے۔ 
(رینان کی کتاب ”حیات عیسی“ باب 4) 
کیا عجب بات ہے ڈاکٹر ہسٹنگس کو اتنے احتمالات کِثیرہ میں کہیں مکہ معظمہ کا پتہ نہیں لگتا۔ 
؏ ہمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدعا اینجاست 
حیرت پر حیرت یہ کہ جن وادیوں کا نام لیا ہے ان میں ایک کو بھی بکا کے لفظ سے کسی قسم کی مناسبت نہیں۔ یہاں تک کہ ایک حرف بھی مشترک نہیں۔ بخلاف اس کے کہ بکا اور بکہ بالکل ایک لفظ ہیں۔ قرق صرف اس قدر ہے کہ ایک ہی لفظ کے تلفظ میں فرق ہے۔ 


اسی طرح مارگیو لیس اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ 
”اگرچہ مذہبی خیال کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے مذہبی مرکز کو نہایت قدیم قرار دیا ہے دیا ہے لیکن صحیح روایات سے پتا چلتا ہے کہ مکہ کی سب سے قدیم عمارت محمد کے صرف چند پشت قبل تعمیر ہوئی تھی“ 
جدیدانسائیکلوپیڈیا جلد 7 صفحہ 399 پر محمد ﷺ کے عنوان سے جو مضمون ہے وہ مارگیو لیوس کا ہی ہے ۔مارگیو لیوس نے اوپر اپنی بات کے ثبوت میں جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے ہم کو بھی اس کی صحت سے انکار نہیں لیکن اس کل بیان میں مغالطہ ہے ۔
مارگیو لیوس نے جس بنا پر مکہ معظمہ کی قدامت کا انکار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اصابہ میں تصریح ہے کہ ”مکہ میں سب سے پہلی عمارت جو تعمیر ہوئی وہ سعید یا سعد بن عمرو نے تعمیر کی“ لیکن مارگیو لیوس کو یہ معلوم نہیں کہ مؤرخین نے جابجا یہ بھی تصریح کی ہے کہ چونکہ اہل عرب کعبہ کے مقابل یا آس پاس عمارات بنانے کو کعبہ کی بے ادبی سمجھتے تھے اس لئے عمارتیں نہیں بنوائیں، بلکہ خیموں اور شامیانوں میں رہتے تھے اور اس طرح مکہ ہمیشہ سے خیموں کا ایک وسیع شہر تھا۔ 

پرانے مورخین کو مکہ کے متعلق اختلاف نہ تھا لیکن اب بیسویں صدی کے بعد کے ان محققین کو انکی باتیں قبول نہیں۔ پروفیسر ڈوزی جو فرانس کا مشہور محقق اور عربی دان عالم ہے وہ لکھتا ہے 
”بکہ وہی مقام ہے جس کو یونانی جعرافیہ دان ماکروبہ لکھتے ہیں“(جدید انسائیکلوپیڈیا جلد 7 صفحہ 392) 
اسی طرح کارلائل نے اپنی کتاب ”ہیروز اینڈ ہیروورشپ“ میں لکھا ہے کہ 
”رومن مؤرخ سیسلس نے کعبہ کا ذکر کیا اور لکھا ہے '' وہ دنیا کے تمام معبدوں سے قدیم اور اشرد ہے اور یہ ولادت مسیح ؑ سے پچاس برس پہلے کا ذکر ہے''۔“ 
اگر کعبہ حضرت عیسیؑ سے بہت پہلے موجود تھا تو مکہ بھی تقریباً اسی زمانے کا شہر ہوگا کیونکہ جہاں کہیں کوئی معبد ہوتا ہے اس کے آس پاس ضرور کوئی نہ کوئی شہر یا گاؤں آباد ہو جاتا ہے۔ 
یاقوت حمومی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ مکہ معظمہ کا عرض اور طول بلد بطلیموس کے جغرافیہ میں حسب ذیل ہے۔ 
”طول78 درجہ عرض13 درجہ“
یہ بطلیموس نہایت قدیم زمانہ کا مصنف ہے اس نے اپنے جغرافیہ میں مکہ کا ذکر کیا ہے تو اس سے زیادہ قدامت کی کیا سند درکار ہے؟ 

مستشرقین و جدید ملحدین کی منافقت :
یہ لوگ حضرات امام بخاری کی لائف لونگ ریسرچ اور مشقت میں تو کیڑے نکلتے ہیں بساط بھر، جو کے نسبتاً نزدیک کے زمانے کے ہیں مگر وہ تاریخ دان جو بخاری سے ہزاروں سال پہلے کے ہیں اور جن کی کوئی بھی اصلی تحریر موجود نہیں، انہیں امّنا صدقنا کے مترادف آنکھیں بند کر کے قبول کرتے ہیں، ہم پوچھتے ہیں اگر آپ ١٤٠٠ سال پرانی تاریخ کی صحت پے انگشت نمائی کرتے ہیں تو وہ اصول بھی بتا دیں جس کے تحت ٣٠٠٠ سال پرانی تاریخ آپ کے لیے قابل قبول ہوگئی ہے؟ 
اتنے پرانے تاریخی حوالوں پر بحث یہاں سے ہی شروع ہونی چاہیے کہ جن کی باتوں کو پیش کیا جارہا وہ خود کس قدر مستند ہیں؟ انکی باتیں کس قدر سچی ہیں ؟ انکے بیان میں کس قدر انکی پسند نا پسند شامل ہوتی ہے۔ جب واقدی، ابن اسحاق اور دوسرے مورخین اور محدیثین وغیرہ پر جانبداری کی تہمت لگائی جاسکتی ہے حالانکہ وہ سند سے بات لکھتے ہیں اور انکے ہر ہر راوی کے حالات تک محفوظ ہیں تو ان بغیر سند سے لکھنے والوں کی حقیقت زیر بحث کیوں نہیں آسکتی؟ ۔ ۔ جنہوں نے تاریخ کو پہلی دفعہ ایک فن کی شکل دی اور یورپ کے بڑے بڑے مورخین اس فیلڈ میں انکے شاگرد ہیں انکی بات جھٹلائی جاسکتی ہے ان پر اسطرح جرح کی جاسکتی ہے تو ان مجہول لوگوں پر کیوں نہیں ؟

اصل میں یہی وہ سوچ اور پلان ہے جس کے متعلق پیج پر ہم کئی دفعہ لکھ چکے کہ مسلمانوں کی نوجوان نسل کو اپنی تاریخ اور مذہب سے دور کرکے ان کے ساتھ کیا کیا جانا ہے ۔۔؟ ؟ جب انکو اپنی تاریخ کا علم ہی نہیں ہوگا تو وہ پھر ان دشمنان اسلام کی تیار کردہ ایسی کچھڑیوں سے ہی متاثر ہونگے اور انہی کو ہی اصل تاریخ سمجھیں گے ۔

مکمل تحریر >>