حضرت عمیر بن الحمام اور حضرت عوف بن حارث ابن عَفراء کے ایمان افروز کارناموں کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معرکے میں قدم قدم پر ایسے مناظر پیش آئے جن میں عقیدے کی قوت اور اصول کی پختگی نمایاں اور جلوہ گر تھی۔ اس معرکے میں باپ اور بیٹے میں بھائی اور بھائی میں صف آرائی ہوئی۔ اصولوں کے اختلاف پر تلواریں بے نیام ہوئیں اور مظلوم ومقہور نے ظالم وقاہر سے ٹکر ا کر اپنے غصے کی آگ بجھائی۔
حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیااور قرابت کی کوئی پروا نہ کی۔ بلکہ مدینہ آئے تو رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس کو قید میں پاکر کہا : اے عباس ! اسلام لائیے ، واللہ آپ اسلام لائیں تو یہ میرے نزدیک خطاب کے بھی اسلام لانے سے زیادہ پسند ہے اور ایسا صرف اس لیے ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہﷺ کو آپ کا اسلام لانا پسند ہے۔( مستدرک حاکم (فتح القدیر للشوکانی ۲/۳۲۷ ))
جس وقت مسلمانوں نے مشرکین کی گرفتاری شروع کی رسول اللہﷺ چھپر میں تشریف فرماتھے اور حضرت سعد بن معاذؓ تلوار حمائل کیے دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ رسول اللہﷺ نے دیکھا کہ حضرت سعدؓ کے چہرے پر لوگوں کی اس حرکت کا ناگوار اثر پڑ رہا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :''اے سعد ! واللہ! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم کو مسلمانوں کا یہ کام ناگوار ہے۔'' انہوں نے کہا : جی ہاں ! اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول ! یہ اہل ِ شرک کے ساتھ پہلا معرکہ ہے جس کا موقع اللہ نے ہمیں فراہم کیا ہے۔ اس لیے اہلِ شرک کو باقی چھوڑنے کے بجائے مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ انہیں خوب قتل کیا جائے اور اچھی طرح کچل دیا جائے۔''
اس جنگ میں حضرت عکاشہ بن محصن اسدیؓ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے انہیں لکڑی کا ایک پھٹا تھمادیا اور فرمایا: عکاشہؓ ! اسی سے لڑائی کرو۔ عکاشہؓ نے اسے رسو ل اللہﷺ سے لے کر ہلا یا تو وہ ایک لمبی ، مضبوط اور چم چم کرتی ہوئی سفید تلوار میں تبدیل ہوگیا۔ پھر انہو ں نے اسی سے لڑائی کی یہاں تک کہ اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ اس تلوار کا نام عون ...یعنی مدد ...رکھا گیا تھا۔ یہ تلوار مستقلاً حضرت عکاشہؓ کے پاس رہی اوروہ اسی کو لڑائیوں میں استعمال کرتے رہے یہاں تک کہ دَورِ صدیقی میں مرتدین کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس وقت بھی یہ تلوار اُن کے پاس ہی تھی۔
خاتمۂ جنگ کے بعد حضرت مُصعب بن عمیر عبدریؓ اپنے بھائی ابو عزیر بن عُمیر عبدری کے پاس سے گزرے۔ ابو عزیز نے مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی تھی اور اس وقت ایک انصاری صحابی اِس کا ہاتھ باندھ رہے تھے۔ حضرت مصعبؓ نے اس انصاری سے کہا : ''اس شخص کے ذریعے اپنے ہاتھ مضبوط کرنا، اس کی ماں بڑی مالدار ہے وہ غالبا ً تمہیں اچھا فدیہ دے گی ۔'' اس پر ابوعزیز نے اپنے بھائی مُصعبؓ سے کہا : کیا میرے بارے میں تمہاری یہی وصیت ہے ؟ حضرت مصعب نے فرمایا : (ہاں) تمہارے بجائے یہ ...انصاری ...میرا بھائی ہے۔
( جب مشرکین کی لاشوں کو کنویں میں ڈالنے کا حکم دیا گیا اور عتبہ بن ربیعہ کو کنویں کی طرف گھسیٹ کر لے جایا جانے لگا تو رسول اللہﷺ نے اس کے صاحبزادے حضرت ابو حذیفہؓ کے چہرے پر نظر ڈالی ، دیکھا تو غمزدہ تھے ، چہرہ بدلا ہوا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا :''ابو حذیفہ ! غالبا ً اپنے والد کے سلسلے میں تمہارے دل کے اندر کچھ احساسات ہیں ؟'' انہوں نے کہا :'' نہیں واللہ، یا رسول اللہ ! میرے اندر اپنے باپ کے بارے میں اور ان کے قتل کے بارے میں ذرا بھی لرزش نہیں۔ البتہ میں اپنے باپ کے متعلق جانتا تھا کہ ان میں سوجھ بوجھ ہے۔ دوراندیشی اور فضل وکمال ہے، اس لیے میں آس لگائے بیٹھا تھا کہ یہ خوبیاں انہیں اسلام تک پہنچادیں گی ، لیکن اب ان کا انجام دیکھ کر اور اپنی توقع کے خلاف کفر پر ان کا خاتمہ دیکھ کر مجھے افسوس ہے۔'' اس پر رسول اللہﷺ نے حضرت حذیفہؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی اور ان سے بھلی بات کہی۔
یہ معرکہ ، مشرکین کی شکست ِ فاش اور مسلمانوں کی فتح ِ مبین پر ختم ہوا۔ اور اس میں چودہ مسلمان شہید ہوئے۔ چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے ، لیکن مشرکین کو بھاری نقصان اٹھا نا پڑا۔ ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید کیے گئے جو عموماً قائد ، سردار اوربڑے بڑے سر بر آوردہ حضرات تھے۔
خاتمۂ جنگ کے بعد رسول اللہﷺ نے مقتولین کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا : تم لوگ اپنے نبی کے لیے کتنا برا کنبہ اور قبیلہ تھے۔ تم نے مجھے جھٹلایا جبکہ اوروں نے میری تصدیق کی۔ تم نے مجھے بے یارومددگار چھوڑا جبکہ اوروں نے میری تائید کی۔ تم نے مجھے نکالا جبکہ اوروں نے مجھے پناہ دی۔'' اس کے بعد آپ نے حکم دیا اور انہیں گھسیٹ کر بدر کے ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔
حضرت ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے حکم سے بدر کے روز قریش کے چوبیس بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں بدر کے ایک گندے خبیث کنویں میں پھینک دی گئیں۔ آپﷺ کا دستورتھا کہ آپ جب کسی قوم پر فتح یاب ہوتے تو تین دن میدانِ جنگ میں قیام فرماتے تھے۔ چنانچہ جب بدر میں تیسرا دن آیا تو آپﷺ کے حسب الحکم آپﷺ کی سواری پر کجاوہ کسا گیا۔ اس کے بعد آپﷺ پیدل چلے اور پیچھے پیچھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی چلے یہاں تک کہ آپﷺ کنویں کی بار پر کھڑے ہوگئے۔ پھر انہیں ان کا اور ان کے باپ کا نام لے لے کر پکارنا شروع کیا۔ اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں ! کیا تمہیں یہ بات خوش آتی ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی؟ کیونکہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے ہم نے برحق پایا تو کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے تم نے برحق پایا ؟ حضرت عمرؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ! آپ ایسے جسموں سے کیاباتیں کررہے ہیں جن میں رُوح ہی نہیں ؟ نبیﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تم لوگ ان سے زیادہ سننے والے نہیں لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔( متفق علیہ۔ مشکوٰۃ ۲/۳۴۵)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔