Sunday, 24 May 2015

مسلمانوں میں بھائی چارہ


جس طرح رسول اللہﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر کا اہتمام فرماکر باہمی اجتماع اور میل ومحبت کے ایک مرکز کو وجود بخشا اسی طرح آپﷺ نے تاریخ ِ انسانی کا ایک اور نہایت تابناک کارنامہ انجام دیا جسے مہاجرین وانصار کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کے عمل کا نام دیا جاتا ہے۔ ابن قیم لکھتے ہیں :
پھر رسول اللہﷺ نے حضرت انس بن مالکؓ کے مکان میں مہاجرین وانصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔ کل نوے آدمی تھے ، آدھے مہاجرین اور آدھے انصار۔ بھائی چارے کی بنیاد یہ تھی کہ یہ ایک دوسرے کے غمخوار ہوں گے اور موت کے بعد نسبتی قرابتداروں کے بجائے یہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ وراثت کا یہ حکم جنگ ِ بدر تک قائم رہا ، پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ :
وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِ‌ينَ
(۳۳: ۶)''نسبتی قرابتدار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔'' (یعنی وراثت میں )
توانصار ومہاجرین میں باہمی توارُث کا حکم ختم کردیا گیا لیکن بھائی چارے کا عہد باقی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ آپﷺ نے ایک اور بھائی چارہ کرایا تھا جو خود باہم مہاجرین کے درمیان تھا لیکن پہلی بات ہی ثابت ہے۔ یوںبھی مہاجرین اپنی باہمی اسلامی اخوت ، وطنی اخوت اور رشتہ وقرابتداری کی اخوت کی بنا پر آپس میں اب مزید کسی بھائی چارے کے محتاج نہ تھے جبکہ مہاجرین اور انصار کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ (زاد المعاد ۲/۵۶)
اس بھائی چارے کا مقصود یہ تھا کہ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہوجائیں۔ نسل ، رنگ اور وطن کے امتیاز ات مٹ جائیں۔ موالات اور برا ء ت کی اساس اسلام کے علاوہ کچھ اور نہ ہو۔
اس بھائی چارے کے ساتھ ایثار وغمگساری اور موانست اور خیر وبھلائی کرنے کے جذبات مخلوط تھے، اسی لیے اس نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا۔
چنانچہ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ مہاجرین جب مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہﷺ نے عبد الرحمن بن عوفؓ اور سعدؓ بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کرادیا۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے حضرت عبدالرحمنؓ سے کہا: ''انصار میں میں سب سے زیادہ مال دار ہوں۔ آپ میرا مال دوحصوں میں بانٹ کر (آدھا لے لیں) اور میری دوبیویاں ہیں، آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو مجھے بتادیں میں اسے طلاق دے دوں اور عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں۔'' حضرت عبد الرحمنؓ نے کہا: اللہ آپ کے اہل اور مال میں برکت دے۔ آپ لوگوں کا بازار کہا ں ہے ؟ لوگوں نے انہیں بنو قینقاع کا بازار بتلادیا۔ وہ واپس آئے تو ان کے پاس کچھ فاضل پنیر اور گھی تھا۔اس کے بعدوہ روزانہ جاتے رہے، پھر ایک دن آئے تو اُن پر زردی کا اثر تھا۔ نبیﷺ نے دریافت فرمایا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا :میں نے شادی کی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : عورت کو مہر کتنا دیا ہے ؟ بولے : ایک نواۃ (گٹھلی ) کے ہموزن (یعنی کوئی سواتولہ ) سونا۔( صحیح بخاری : باب اخاء البنی ﷺ بین المہاجرین والانصار ۱/۵۵۳)
اسی طرح حضرتِ ابو ہریرہؓ سے ایک روایت آئی ہے کہ انصار نے نبیﷺ سے عرض کیا : آپﷺ ہمارے درمیان اور ہمارے بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کے باغات تقسیم فرمادیں۔ آپﷺ نے فرمایا : نہیں۔ انصار نے کہا : تب آپ لوگ، یعنی مہاجرین ہمارا کام کردیا کریں اور ہم پھل میں آپ لوگوں کو شریک رکھیں گے۔ انہوں نے کہا : ٹھیک ہے ہم نے بات سنی اور مانی۔( ایضاً باب اذا قال اکفنی مؤنۃ النخل ۱/۲۱۳)
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انصار نے کس طرح بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کا اعزاز واکرام کیاتھا اور کس قدر محبت ، خلوص ، ایثار اور قربانی سے کام لیا تھا اور مہاجرین ان کی اس کرم ونوازش کی کتنی قدر کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا کو ئی غلط فائد ہ نہیں اٹھا یا بلکہ ان سے صرف اتنا ہی حاصل کیا جس سے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کی کمرسیدھی کرسکتے تھے۔ اور حق یہ ہے کہ بھائی چارہ ایک نادر حکمت ، حکیمانہ سیاست اور مسلمانوں کو درپیش بہت سارے مسائل کا ایک بہترین حل تھا۔

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

رسول اللہﷺ نے حضرت انس بن مالکؓ کے مکان میں مہاجرین وانصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔ کل نوے آدمی تھے ، آدھے مہاجرین اور آدھے انصار۔ بھائی چارے کی بنیاد یہ تھی کہ یہ ایک دوسرے کے غمخوار ہوں گے

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔