Sunday 30 August 2015

غزوہِ خیبر - محرم ٧ ہجری


غزوہ ٔ خیبر (محرم ۷ھ )
خیبر ، مدینہ کے شمال میں ایک سو ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں قلعے بھی تھے اور کھیتیاں بھی۔ اب یہ ایک بستی رہ گئی ہے۔ اس کی آب وہوا قدرے غیر صحت مند ہے۔
غزوے کا سبب:
جب رسول اللہﷺ صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں جنگِ احزاب کے تین بازوؤں میں سب سے مضبوط بازو (قریش ) کی طرف سے پوری طرح مطمئن اور مامون ہوگئے تو آپ نے چاہا کہ بقیہ دوبازوؤں -یہود اور قبائل نجد-سے بھی حساب کتاب چکا لیں۔ تاکہ ہرجانب سے مکمل امن وسلامتی حاصل ہوجائے۔ اور پورے علاقے میں سکون کا دور دورہ ہو۔ اور مسلمان ایک پیہم خون ریز کشمکش سے نجات پاکر اللہ کی پیغام رسانی اور اس کی دعوت کے لیے فارغ ہوجائیں۔
چونکہ خیبر سازشوں اور دسیسہ کاریوں کا گڑھ ، فوجی انگیخت کا مرکز اور لڑانے بھڑانے اور جنگ کی آگ بھڑکانے کی کان تھا۔ اس لیے سب سے پہلے یہی مقام مسلمانوں کی نگہِ التفات کا مستحق تھا۔
رہا یہ سوال کہ خیبر واقعتاً ایسا تھا یا نہیں تواس سلسلے میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اہل ِ خیبر ہی تھے جو جنگ ِ خندق میں مشرکین کے تمام گروہوں کو مسلمانوں پر چڑھالائے تھے۔
پھر یہی تھے جنہوں نے بنو قریظہ کو غدر وخیانت پر آمادہ کیا تھا۔ نیز یہی تھے جنہوں نے اسلامی معاشرے کے پانچویں کالم منافقین سے اور جنگِ احزاب کے تیسرے بازو - بنو غطفان اور بدوؤں - سے رابطہ پیہم کر رکھا تھا اور خود بھی جنگ کی تیاریاں کررہے تھے۔ اور اپنی ا ن کارروائیوں کے ذریعے مسلمانوں کو آزمائشوں میں ڈال رکھا تھا۔ یہاں تک کہ نبیﷺ کو بھی شہید کرنے کا پروگرام بنالیا تھا۔ اور ان حالات سے مجبور ہوکر مسلمانوں کو بار بارفوجی مہمیں بھیجنی پڑی تھیں۔ اور ان دسیسہ کاروں اور سازشیوں کے سربراہوں مثلاً:''سلام بن ابی الحقیق اور اسیر بن زارم ''کا صفایا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان یہود کے تئیں مسلمانوں کا فرض درحقیقت اس سے بھی کہیں بڑاتھا۔ البتہ مسلمانوں نے اس فرض کی ادائیگی میں قدرے تاخیر سے کام لیا تھا کہ ابھی ایک قوت - یعنی قریش- جو ان یہود سے زیادہ بڑی ،طاقتور،جنگجو اورسرکش تھی۔ مسلمانوں کے مد مقابل تھی۔ اس لیے مسلمان اسے نظر انداز کر کے یہود کا رُخ نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن جو نہی قریش کے ساتھ اس محاذآرائی کا خاتمہ ہوا ان مجرم یہودیوں کے محاسبہ کے لیے فضا صاف ہوگئی اور ان کا یوم الحساب قریب آگیا۔

مکمل تحریر >>

صلح حدیبیہ کے بعد کی فوجی سرگرمیاں - غزوہِ غابہ یا غزوہِ ذی قرد


غزوۂ غابہ یا غزوہ ٔ ذی قرد :
یہ غزوہ درحقیقت بنو فزارہ کی ایک ٹکڑی کے خلاف جس نے رسول اللہﷺ کے مویشیوں پر ڈاکہ ڈالاتھا ، تعاقب سے عبارت ہے۔
حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے پہلے یہ پہلا اور واحد غزوہ ہے جو رسول اللہﷺ کوپیش آیا۔ امام بخاری نے اس کا باب منعقد کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خیبر سے صرف تین روز پہلے پیش آیا تھا۔ اور یہی بات ا س غزوے کے خصوصی کار پرداز حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے بھی مروی ہے۔ ان کی روایت صحیح مسلم میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جمہور اہل مغازی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حدیبیہ سے پہلے کا ہے لیکن جو بات صحیح میں بیان کی گئی ہے اہلِ مغازی کے بیان کے مقابل میں وہی زیادہ صحیح ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری باب غزوۃ ذات قرد ۲/۶۰۳ صحیح مسلم باب غزوۃ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۳،۱۱۴، ۱۱۵فتح الباری ۷/ ۴۶۰،۴۶۱،۴۶۲، زاد المعاد ۲/۱۲۰۔ حدیبیہ سے اس غزوے کے موخرہونے پر حضرت ابو سعید خدریؓ کی ایک اور حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔ دیکھئے: مسلم : کتاب الحج باب الترغیب فی سکنی المدینۃ والصبر علی لاوائہا حدیث نمبر ۴۷۵ (۱۳۷۴) ۲/۱۰۰۱۔
اس غزوہ کے ہیرو حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے جوروایات مروی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے اپنی سواری کے اونٹ اپنے غلام رباح کے ہمراہ چرنے کے لیے بھیجے تھے۔ اور میں بھی ابو طلحہ کے گھوڑے سمیت ان کے ساتھ تھا کہ اچانک صبح دم عبد الرحمن فزاری نے اونٹوں پر چھاپہ مارا۔ اور ان سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو قتل کردیا۔ میں نے کہا کہ رباح ! یہ گھوڑا لو۔ اسے ابوطلحہ تک پہنچادو۔ اور رسول اللہﷺ کو خبر کردو۔ اور خود میں نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر مدینہ کی طرف رُخ کیا۔ اور تین بار پکار لگائی : یا صَبَاحاہ !ہائے صبح کا حملہ۔ پھر حملہ آوروں کے پیچھے چل نکلا۔ ان پر تیر برساتا جاتا تھا اور یہ رجزپڑھتا جاتا تھا۔
[خذھا ] أنا ابن الأکوع والیـوم یـوم الـرضـع
''( لو )میں اکوع کا بیٹا ہوں۔ اور آج کا دن دودھ پینے والے کا دن ہے (یعنی آج پتہ لگ جائے گا کہ کس نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہے )''
سلمہ بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ واللہ میں انھیں مسلسل تیروں سے چھلنی کرتا رہا۔ جب کوئی سوار میری طرف پلٹ کر آتا تو میں کسی درخت کی اوٹ میں بیٹھ جاتا۔ پھراسے تیر مار کر زخمی کردیتا۔ یہاں تک کہ جب یہ لوگ پہاڑ کے تنگ راستے میں داخل ہوئے تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور پتھروں سے ان کی خبر لینے لگا۔ اس طرح میں نے مسلسل ان کا پیچھا کیے رکھا ، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کے جتنے بھی اونٹ تھے میں نے ان سب کو اپنے پیچھے کرلیا۔ اور ان لوگوں نے میرے لیے ان اونٹوں کو آزاد چھوڑدیا۔
لیکن میں نے پھر بھی ان کا پیچھا جاری رکھا۔ اور ان پر تیر برساتارہا یہاں تک کہ بوجھ کم کرنے کے لیے انہوں نے تیس سے زیادہ چادریں اور تیس سے زیادہ نیزے پھینک دیئے۔ وہ لوگ جو کچھ بھی پھینکتے تھے میں اس پر (بطور نشان ) تھوڑے سے پتھر ڈال دیتا تھا تاکہ رسول اللہﷺ اور ان کے رفقاء پہچان لیں (کہ یہ دشمن سے چھینا ہوا مال ہے۔ ) اس کے بعد وہ لوگ ایک گھاٹی کے تنگ موڑ پر بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھانے لگے۔ میں بھی ایک چوٹی پر جابیٹھا۔ یہ دیکھ کر ان کے چار آدمی پہاڑ پر چڑھ کر میری طرف آئے (جب اتنے قریب آگئے کہ بات سن سکیں تو ) میں نے کہا: تم لوگ مجھے پہچانتے ہو؟ میں سلمہ بن اکوعؓ ہوں ، تم میں سے جس کسی کو دوڑاؤں گا بے دھڑک پالوں گا اور جوکوئی مجھے دوڑائے گا ہرگزنہ پاسکے گا۔ میری یہ بات سن کر چاروں واپس چلے گئے۔ اور میں اپنی جگہ جمارہا۔ یہاں تک کہ میں نے رسول اللہﷺ کے سواروں کو دیکھا کہ درختوں کے درمیان سے چلے آرہے ہیں۔ سب سے آگے اخرم تھے۔ ان کے پیچھے ابو قتادہ ، اور ان کے پیچھے مقداد بن اسود۔ (محاذ پر پہنچ کر ) عبدالرحمن اور حضرت اخرم میں ٹکر ہوئی۔ حضرت اخرم نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو زخمی کردیا لیکن عبد الرحمن نے نیزہ مار کر حضرت اخرم کو قتل کردیا۔ اور ان کے گھوڑے پر جاپلٹا مگر اتنے میں حضرت قتادہؓ ، عبدالرحمن کے سر پر جاپہنچے اور اسے نیزہ مار کرزخمی کردیا۔ بقیہ حملہ آور پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ اور ہم نے انھیں کھدیڑنا شروع کیا۔ میں اپنے پاؤں پر اچھلتا ہوا دوڑ رہا تھا۔ سورج ڈوبنے سے کچھ پہلے ان لوگوں نے اپنا رخ ایک گھاٹی کی طرف موڑا جس میں ذی قرد نام کا ایک چشمہ تھا۔ یہ لوگ پیاسے تھے اور وہاں پانی پینا چاہتے تھے لیکن میں نے انھیں چشمے سے پرے ہی رکھا اور وہ ایک قطرہ بھی نہ چکھ سکے۔ رسول اللہﷺ اور شہسوار صحابہ دن ڈوبنے کے بعد میرے پاس پہنچے۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! یہ سب پیاسے تھے۔ اگرآپ مجھے سو آدمی دے دیں تو میں ان کے جانور بھی چھین لوں۔ اور ان کی گردنیں پکڑ کر حاضر خدمت بھی کردوں۔ آپ نے فرمایا : اکوع کے بیٹے! تم قابوپاگئے ہو تو اب ذرا نرمی برتو۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اس وقت بنو غطفان میں ان کی مہمان نوازی کی جارہی ہے۔
(اس غزوے پر ) رسول اللہﷺ نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: آج ہمارے سب سے بہتر شہسوار ابو قتادہ اور سب سے بہتر پیادہ سلمہ ہیں۔ اور آپ نے مجھے دو حصے دیے۔ ایک پیادہ کا حصہ اور ایک شہسوار کا حصہ۔ اور مدینہ واپس ہوتے ہوئے مجھے (یہ شرف بخشا کہ ) اپنی عضباء نامی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار فرمالیا۔
ا س غزوے کے دوران رسول اللہﷺ نے مدینہ کاانتظام حضرت ابن اُمِ مکتوم کو سونپا تھا۔ اور اس غزوے کا پرچم حضرت مقداد بن عمروؓ کو عطافرمایا تھا۔( سابقہ مآخذ)

مکمل تحریر >>

بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط - شاہِ عمان کے نام خط


نبیﷺ نے ایک خط شاہ ِ عمان جیفر اور اس کے بھائی عبد کے نام لکھا۔ ان دونوں کے والد کا نام جلندی تھا۔
محمد بن عبداللہ کی جانب سے جلندی کے دونوں صاحبزادوں جیفر اور عبد کے نام !!
اس شخص پر سلا م جو ہدایت کی پیروی کرے۔میں تم دونوں کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں ، اسلام لاؤ ، سلامت رہوگے۔ کیونکہ میں تمام انسانوں کی جانب اللہ کا رسول ہوں ، تاکہ جو زندہ ہے اسے انجام کے خطرہ سے آگاہ کردوں۔ اور کافرین پر قول برحق ہوجائے۔ اگر تم دونوں اسلام کا اقرار کر لوگے تو تم ہی دونوں کو والی اور حاکم بناؤں گا۔ اور اگرتم دونوں نے اسلام کا اقرار کرنے سے گریز کیا تو تمہاری بادشاہت ختم ہوجائے گی۔ تمہاری زمین پر گھوڑوں کی یلغار ہوگی۔ اور تمہاری بادشاہت پر میری نبوت غالب آجائے گی۔
اس خط کو لے جانے کے لیے ایلچی کی حیثیت سے حضرت عمرو بن العاصؓ کا انتخاب عمل میں آیا۔ ان کا بیان ہے کہ میں روانہ ہوکر عمان پہنچا۔ اور عبد سے ملاقات کی۔ دونوں بھائیوں میں یہ زیادہ دور اندیش اور نرم خوتھا۔ میں نے کہا : میں تمہارے پاس اور تمہارے بھائی کے پاس رسول اللہﷺ کا ایلچی بن کر آیا ہوں۔ اس نے کہا : میرا بھائی عمر اور بادشاہت دونوں میں مجھ سے بڑا اور مجھ پر مقدم ہے۔ اس لیے میں تم کو اس کے پاس پہنچا دیتا ہوں کہ وہ تمہارا خط پڑھ لے۔
اس کے بعد اس نے کہا: اچھا ! تم دعوت کس بات کی دیتے ہو ؟
میں نے کہا : ہم ایک اللہ کی طرف بلاتے ہیں ، جو تنہا ہے ، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اور ہم کہتے ہیں کہ
اس کے علاوہ جس کی پوجا کی جاتی ہے اسے چھوڑدو اور یہ گواہی دوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
عبد نے کہا : اے عمرو! تم اپنی قوم کے سردار کے صاحبزادے ہو ، بتاؤ تمہارے والد نے کیا کیا؟ کیونکہ ہمارے لیے اس کا طرز عمل لائق ِاتباع ہوگا۔
میں نے کہا: وہ تو محمدﷺ پر ایمان لائے بغیر وفات پاگئے ، لیکن مجھے حسرت ہے کہ کاش! انہوں نے اسلام قبول کیا ہوتا اور آپ کی تصدیق کی ہوتی۔ میں خود بھی انہیں کی رائے پر تھا لیکن اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی۔
عبد نے کہا : تم نے کب ان کی پیروی کی ؟
میں نے کہا : ابھی جلد ہی۔
اس نے دریافت کیا : تم کس جگہ اسلام لائے ؟
میں نے کہا : نجاشی کے پاس اور بتلایا کہ نجاشی بھی مسلمان ہوچکا ہے۔
عبد نے کہا : اس کی قوم نے اس کی بادشاہت کا کیا کیا ؟
میں نے کہا : اسے برقرار رکھا ، اوراس کی پیروی کی۔
اس نے کہا : اسقفوں اور راہبوں نے بھی اس کی پیروی کی ؟
میں نے کہا : ہاں!
عبد نے کہا : اے عمرو ! دیکھو کیا کہہ رہے ہو کیونکہ آدمی کی کوئی بھی خصلت جھوٹ سے زیادہ رسواکن نہیں۔
میں نے کہا : میں جھوٹ نہیں کہہ رہاہوں ،اور نہ ہم اسے حلال سمجھتے ہیں۔
عبد نے کہا : میں سمجھتا ہوں ، ہرقل کو نجاشی کے اسلام لانے کا علم نہیں۔
میں نے کہا : کیوں نہیں۔
عبدنے کہا : تمہیں یہ بات کیسے معلوم ؟
میں نے کہا : نجاشی ہرقل کو خراج ادا کیا کرتا تھا لیکن جب اس نے اسلام قبول کیا ، اور محمدﷺ کی تصدیق کی تو بولا : اللہ کی قسم! اب اگر وہ مجھ سے ایک درہم بھی مانگے تو میں نہ دوںگا۔ اور جب اس کی اطلاع ہرقل کو ہوئی تو اس کے بھائی یناق نے کہا : کیا تم اپنے غلام کو چھوڑ دوگے کہ وہ تمہیں خراج نہ دے ؟ اور تمہارے بجائے ایک دوسرے شخص کا نیا دین اختیار کرلے ؟ ہرقل نے کہا : یہ ایک آدمی ہے جس نے ایک دین کو پسند کیا۔ اور اسے اپنے لیے اختیار کرلیا۔ اب میں اس کا کیا کرسکتا ہوں ؟ اللہ کی قسم ! اگر مجھے اپنی بادشاہت کی حرص نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جو اس نے کیا ہے۔
عبد نے کہا : عمرو! دیکھو کیا کہہ رہے ہو ؟
میں نے کہا : واللہ ! میں تم سے سچ کہہ رہا ہوں۔
عبد نے کہا: اچھا مجھے بتاؤوہ کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟اور کس چیز سے منع کرتے ہیں ؟
میں نے کہا : اللہ عزوجل کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں اور اس کی نافرمانی سے منع کرتے ہیں۔ نیکی وصِلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اور ظلم وزیادتی ، زنا کاری ، شراب نوشی اور پتھر ، بت اور صلیب کی عبادت سے منع کرتے ہیں۔
عبد نے کہا: یہ کتنی اچھی بات ہے جس کی طرف بلاتے ہیں۔ اگر میرا بھائی بھی اس بات پر میری متابعت کرتا تو ہم لوگ سوار ہوکر (چل پڑتے )یہاں تک کہ محمدﷺ پر ایمان لاتے اور ان کی تصدیق کرتے لیکن میرابھائی اپنی بادشاہت کااس سے کہیں زیادہ حریص ہے کہ اسے چھوڑ کر کسی کا تابع فرمان بن جائے۔
میں نے کہا: اگر وہ اسلام قبول کرلے تو رسول اللہﷺ اس کی قوم پر اس کی بادشاہت برقرار رکھیں گے۔ البتہ ان کے مالداروں سے صدقہ لے کر فقیروں پر تقسیم کردیں۔
عبد نے کہا: یہ بڑی اچھی بات ہے ، اچھا بتاؤ صدقہ کیا ہے ؟
جواب میں میں نے مختلف اموال کے اندر رسول اللہﷺ کے مقرر کیے ہوئے صدقات کی تفصیل بتائی۔ جب اونٹ کی باری آئی تو وہ بولا : اے عمرو ! ہمارے ان مویشیوں میں سے بھی صدقہ لیا جائے گا ، جو خود ہی درخت پر چر لیتے ہیں۔
میں نے کہا: ہاں !
عبد نے کہا : واللہ !میں نہیں سمجھتا تھا کہ میری قوم اپنے ملک کی وسعت اور تعداد کی کثرت کے باوجود اس کو مان لے گی۔
حضرت عمرو بن عاص کا بیان ہے کہ میں اس کی ڈیوڑھی میں چند دن ٹھہرارہا۔ وہ اپنے بھائی کے پاس جاکر میری ساری باتیں بتاتا رہتا تھا۔ پھر ایک دن اس نے مجھے بلایا۔اور میں اندر داخل ہوا۔ چوبداروں نے میرے بازو پکڑ لیے۔ اس نے کہا :چھوڑ دو اور مجھے چھوڑ دیا گیا۔ میں نے بیٹھنا چاہا تو چوبداروں نے مجھے بیٹھنے نہ دیا۔ میں نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو اس نے کہا : اپنی بات کہو۔ میں نے سر بمہر خط اس کے حوالے کردیا۔ اس نے مہر توڑ کر خط پڑھا۔ اور پورا خط پڑھ چکا تو اپنے بھائی کے حوالہ کردیا۔ بھائی نے بھی اسی طرح پڑھا مگر میں نے دیکھا کہ اس کا بھائی اس سے زیادہ نرم دل ہے۔
بادشاہ نے پوچھا : مجھے بتاؤ قریش نے کیا روش اختیار کی ہے ؟
میں نے کہا : سب ان کے اطاعت گزار ہوگئے ہیں۔ کسی نے دین کی رغبت کی بنا پر اور کسی نے تلوار سے مقہور ہوکر۔
بادشاہ نے پوچھا: ان کے ساتھ کون لوگ ہیں ؟
میں نے کہا: سارے لوگ ہیں۔ انہو ں نے اسلام کو برضاورغبت قبول کرلیا ہے۔ اور اسے تمام دوسری چیزوں پر ترجیح دی ہے۔ انہیں اللہ کی ہدایت اور اپنی عقل کی رہنمائی سے یہ بات معلوم ہوگئی ہے کہ وہ گمراہ تھے۔ اب اس علاقہ میں میں نہیں جانتا کہ تمہارے سوا کوئی اور باقی رہ گیا ہے۔ اور اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا اور محمدﷺ کی پیروی نہ کی تو تمہیں سوار روند ڈالیں گے۔ اور تمہاری ہریالی کا صفایا کردیں گے۔ اس لیے اسلام قبول کرلو۔ سلامت رہوگے۔اور رسول اللہﷺ تم کو تمہاری قوم کا حکمراں بنادیں گے۔ تم پر نہ سوار داخل ہوں گے نہ پیادے۔
بادشاہ نے کہا : مجھے آج چھوڑ دو اور کل پھر آؤ۔ اس کے بعد میں اس کے بھائی کے واپس آگیا۔
اس نے کہا: عمرو ! مجھے امید ہے کہ اگر بادشاہت کی حرص غالب نہ آئی تو وہ اسلام قبول کرلے گا۔ دوسرے دن پھر بادشاہ کے پاس گیا لیکن اس نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اس لیے میں اس کے بھائی کے پاس واپس آگیا اور بتلایا کہ بادشاہ تک میری رسائی نہ ہوسکی۔ بھائی نے مجھے اس کے یہاں پہنچا دیا۔ ا س نے کہا : میں نے تمہاری دعوت پر غور کیا۔ اگر میں بادشاہت ایک ایسے آدمی کے حوالے کردوں جس کے شہسوار یہاں پہنچے بھی نہیں تو میں عرب میں سب سے کمزور سمجھا جاؤں گا۔ اور اگر شہسوار یہاں پہنچ آئے تو ایسا رن پڑے گا کہ انہیں کبھی اس سے سابقہ نہ پڑا ہوگا۔
میں نے کہا: اچھا تو میں کل واپس جارہا ہوں۔
جب اسے میری واپسی کا یقین ہوگیا تو اس نے بھائی سے خلوت میں بات کی۔ اور بو لا : یہ پیغمبر جن پر غالب آچکا ہے ان کے مقابل ہماری کوئی حیثیت نہیں۔ اور اس نے جس کسی کے پاس پیغام بھیجا ہے اس نے دعوت قبول کرلی ہے۔ لہٰذا دوسرے دن صبح ہی مجھے بلوایا گیا۔ اور بادشاہ اور اس کے بھائی دونوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اور نبیﷺ کی تصدیق کی۔ اور صدقہ وصول کرنے اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے مجھے آزاد چھوڑ دیا۔ اور جس کسی نے میری مخالفت کی اس کے خلاف میرے مدد گار ثابت ہوئے۔( زاد المعاد ۳/۶۲، ۶۳)
اس واقعے کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیہ بادشاہوں کی بہ نسبت ان دونوں کے پاس خط کی روانگی خاصی تاخیر سے عمل میں آئی تھی غالبا ً یہ فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے۔
ان خطوط کے ذریعے نبیﷺ نے اپنی دعوت روئے زمین کے بیشتر بادشاہوں تک پہنچا دی۔ اور اس کے جواب میں کوئی ایمان لایا تو کسی نے کفر کیا ، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ کفر کرنے والوں کی توجہ بھی اس جانب مبذول ہوگئی۔ اور ان کے نزدیک آپﷺ کا دین اور آپ کا نام ایک جانی پہچانی چیز بن گیا۔

مکمل تحریر >>

بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط (نقشہ)

مکمل تحریر >>

بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط - حاکم یمامہ و دمشق کے نام خط


۶۔ ہوذہ بن علی صاحبِ یمامہ کے نام خط:
نبیﷺ نے ہوذہ بن علی حاکم ِ یمامہ کے نام حسب ذیل خط لکھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے ہوذہ بن علی کی جانب !!
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا دین اونٹوں اور گھوڑوں کی رسائی کی آخری حد تک غالب آکر رہے گا۔ لہٰذااسلا م لاؤ سالم رہو گے اور تمہارے ماتحت جو کچھ ہے اسے تمہارے لیے برقرار رکھوں گا۔''
اس خط کو پہنچانے کے لیے بحیثیت قاصد سلیط بن عمرو عامری کا انتخاب فرمایا گیا۔ حضرت سلیط اس مہر لگے ہوئے خط کو لے کر ہوذہ کے پاس تشریف لے گئے تو اس نے آپ کو مہمان بنایا۔ اور مبارکباد دی۔ حضرت سلیط نے اسے خط پڑھ کر سنایا تو اس نے درمیانی قسم کا جواب دیا۔ اور نبیﷺ کی خدمت میں یہ لکھا :آپ جس چیز کی دعوت دیتے ہیں اس کی بہتری اور عمدگی کا کیا پوچھنا۔ اور عرب پر میری ہیبت بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لیے کچھ کار پردازی میرے ذمہ کردیں۔ میں آپ کی پیروی کروں گا۔
اس نے حضرت سلیط کو تحائف بھی دیے۔ انہیں ہجر کا بناہوا کپڑا دیا۔ حضرت سلیط یہ تحائف لے کر خدمت نبوی میں واپس آئے اور ساری تفصیلات گوش گزار کیں۔ نبیﷺ نے اس کا خط پڑھ کر فرمایا : اگر وہ زمین کا ایک ٹکڑا بھی مجھ سے طلب کرے گا تو میں اسے نہ دوں گا۔ وہ خود بھی تباہ ہوگا ، اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے وہ بھی تباہ ہوگا۔ پھر جب رسول اللہﷺ فتح مکہ سے واپس تشریف لائے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ خبر دی کہ ہوذہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا : سنو ! یمامہ میں ایک کذاب نمودار ہونے والا ہے جو میرے بعد قتل کیا جائے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا : یارسول اللہ ! اسے کون قتل کرے گا ؟ آپ نے فرمایا : تم اور تمہارے ساتھی ، اور واقعۃً ایسا ہی ہوا۔( زادالمعاد ۳/۶۳)

۷۔ حارث بن ابی شمر غسانی حاکم دمشق کے نام خط:
نبیﷺ نے اس کے پاس ذیل کا خط رقم فرمایا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے حارث بن ابی شمر کی طرف !!
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اور ایمان لائے اور تصدیق کرے۔ اور میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ اللہ پر ایمان لاؤ جو تنہا ہے ، اور جس کا کوئی شریک نہیں۔ اور تمہارے لیے تمہاری بادشاہت باقی رہے گی۔''
یہ خط قبیلہ اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی حضرت شجاع بن وہب کے بدست روانہ کیا گیا۔ جب انہوں نے یہ خط حارث کے حوالے کیا تو اس نے کہا :''مجھ سے میری بادشاہت کون چھین سکتا ہے ؟میں اس پر یلغار کرنے ہی والاہوں۔'' اور اسلام نہ لایا۔( زاد المعاد ۳/۶۳ محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ ، خضیری ۱/۱۴۶)بلکہ قیصر سے رسول اللہﷺ کے خلاف جنگ کی اجازت چاہی۔ مگر اس نے اس کو اس کے ارادے سے باز رکھا۔ پھر حارث نے شجاع بن وہب کو پارچہ جات اور اخراجات کا تحفہ دے کر اچھائی کے ساتھ واپس کردیا۔
Hakm
مکمل تحریر >>

بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط - منزر بن ساوی حاکمِ بحرین کے نام خط


نبیﷺ نے ایک خط منذر بن ساوی حاکم بحرین کے پاس لکھ کر اسے بھی اسلام کی دعوت دی، اور اس خط کو حضرت علاء بن الحضرمیؓ کے ہاتھوں روانہ فرمایا۔ جواب میں منذر نے رسول اللہﷺ کو لکھا۔ امابعد : اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کا خط اہل بحرین کو پڑھ کر سنادیا۔
بعض لوگوں نے اسلام کو محبت اور پاکیزگی کی نظر سے دیکھا اور اس کے حلقہ بگوش ہوئے۔ اور بعض نے پسند نہیں کیا۔ اور میری زمین میں یہود اور مجوس بھی ہیں۔ لہٰذا آپ اس بارے میں اپنا حکم صادر فرمایئے۔اس کے جواب میں رسول اللہﷺ نے یہ خط لکھا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی جانب سے منذر بن ساوی کی طرف !!
تم پر سلام ہو۔ میں تمہاری طرف اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سواکوئی لائق عبادت نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔''
امابعد: میں تمہیں اللہ عزوجل کو یاد دلاتا ہوں۔ یاد رہے کہ جو شخص بھلائی اور خیر خواہی کرے گا وہ اپنے ہی لیے بھلائی کرے گا۔ اور جو شخص میرے قاصدوں کی اطاعت اور ان کے حکم کی پیروی کرے اس نے میری اطاعت کی اور جو ان کے ساتھ خیرخواہی کرے اس نے میرے ساتھ خیرخواہی کی اور میرے قاصدوں نے تمہاری اچھی تعریف کی ہے اور میں نے تمہاری قوم کے بارے میں تمہاری سفارش قبول کرلی ہے۔ لہٰذا مسلمان جس حال پر ایمان لائے ہیں انھیں اس پر چھوڑ دو۔ اور میں نے خطا کاروں کو معاف کردیا ہے، لہٰذا ان سے قبول کرلو۔ اور جب تک تم اصلاح کی راہ اختیار کیے رہو گے ہم تمہیں تمہارے عمل سے معزول نہ کریں گے اور جو یہودیت یا مجوسیت پر قائم رہے اس پر جزیہ ہے۔''(زادالمعاد ۳/۶۱، ۶۲
یہ خط ماضی قریب میں دستیاب ہوا ہے۔ اور ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے اس کا فوٹو شائع کیا ہے زادالمعاد کی عبارت اور اس فوٹو والی عبارت میں صرف ایک لفظ کا فرق (یعنی فوٹو میں) ہے لاالہ الا ھو کے بجائے لاالہ غیرہ ہے۔)

مکمل تحریر >>

بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط - قیصرِ روم کے نام خط


۴۔ قیصر شاہ روم کے نام خط
صحیح بخاری میں ایک طویل حدیث کے ضمن میں اس گرامی نامہ کی نص مروی ہے، جسے رسول اللہﷺ نے ہِرَقْل شاہ روم کے پاس روانہ فرمایا تھا۔ وہ مکتوب یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی جانب سے ہرقْل عظیم روم کی طرف !
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ تم اسلام لاؤ سالم رہو گے۔ اسلام لاؤ اللہ تمہیں تمہارا اجر دوبار دے گا۔ اور اگر تم نے روگردانی کی تو تم پر اَرِیْسییوں (رعایا ) کا (بھی )گناہ ہوگا۔ اے اہل ِ کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پوجیں۔ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں۔ اور اللہ کے بجائے ہمارا بعض بعض کو رب نہ بنائے۔ پس اگر لوگ رخ پھیریں تو کہہ دو کہ تم لوگ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔( صحیح بخاری ۱/۴، ۵)
اس گرامی نامہ کو پہنچانے کے لیے دِحْیَہ بن خلیفہ کلبی کا انتخاب ہوا۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ یہ خط سربراہ بصری کے حوالے کردیں۔ اور وہ اسے قیصر کے پا س پہنچادے گا۔ اس کے بعد جوکچھ پیش آیا ا س کی تفصیل صحیح بخاری میں ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ ا ن کا ارشاد ہے کہ ابو سفیان بن حرب نے ان سے بیان کیا کہ ہِرَقل نے اس کو قریش کی ایک جماعت سمیت بلوایا۔ یہ جماعت صلح حدیبیہ کے تحت رسول اللہﷺ اور کفار قریش کے درمیان طے شدہ عرصہ امن میں ملک شام کی تجارت کے لیے گئی ہوئی تھی۔ یہ لوگ ایلیاء (بیت المقدس ) میں اس کے پاس حاضر ہوئے۔ (اس وقت قیصر اس بات پر اللہ کا شکر بجالانے کے لیے حمص سے ایلیاء (بیت المقدس) گیا ہوا تھا کہ اللہ نے اس کے ہاتھو ں اہل ِ فارس کو شکست فاش دی۔ (دیکھئے صحیح مسلم ۲/۹۹) اس کی تفصیل یہ ہے کہ فارسیوں نے خسرو پرویز کو قتل کرنے کے بعد رومیوں سے ان کے مقبوضہ علاقوں کی واپسی کی شرط پر صلح کرلی۔ اور وہ صلیب بھی واپس کردی جس کے متعلق نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ اسی پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دی گئی تھی۔ قیصر اس صلح کے بعد صلیب کو اصل جگہ نصب کرنے اور اس فتح مبین پر اللہ کا شکر بجالانے کے لیے ۶۲۹ء یعنی۷ ھ میں ایلیاء (بیت المقدس ) گیا تھا۔)
ہرقل نے انھیں اپنے دربار میں بلایا۔ اس وقت اس کے گرداگرد روم کے بڑے بڑے لوگ تھے۔ پھر اس نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلا کر کہا کہ یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے اس سے تمہارا کونسا آدمی سب سے زیادہ قریبی نسبی تعلق رکھتا ہے؟ ابو سفیان کا بیان ہے کہ میں نے کہا : میں اس کا سب سے زیادہ قریب النسب ہوں۔ ہرقل نے کہا : اسے میرے قریب کردو۔ اور اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کرکے اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھادو۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ میں اس شخص سے اس آدمی (نبیﷺ ) کے متعلق سوالات کروں گا۔ اگر یہ جھوٹ بولے توتم لوگ اسے جھٹلادینا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر جھوٹ بولنے کی بدنامی کا خوف نہ ہوتا تو میں آپ کے متعلق یقینا جھوٹ بولتا۔
ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس کے بعد پہلا سوال جو ہرقل نے مجھ سے آپ کے بارے میں کیا وہ یہ تھا کہ تم لوگوں میں اس کا نسب کیسا ہے ؟
میں نے کہا : وہ اونچے نسب والا ہے۔
ہرقل نے کہا : تو کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی ؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا اس کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : اچھا تو بڑے لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے یا کمزوروں نے؟
میں نے کہا : بلکہ کمزوروں نے۔
ہرقل نے کہا : یہ لوگ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں ؟
میں نے کہا : بلکہ بڑھ رہے ہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس دین سے برگشتہ ہوکر مرتد بھی ہوتا ہے ؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : اس نے جو بات کہی ہے کیا اسے کہنے سے پہلے تم لو گ اس کو جھوٹ سے متہم کرتے تھے؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا وہ بد عہدی بھی کرتا ہے ؟
میں نے کہا: نہیں۔ البتہ ہم لوگ اس وقت اس کے ساتھ صلح کی ایک مدت گزار رہے ہیں معلوم نہیں اس میں وہ کیا کرے گا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس فقرے کے سوامجھے اور کہیں کچھ گھُسیڑ نے کا موقع نہ ملا۔
ہرقل نے کہا : کیاتم لوگوں نے اس سے جنگ کی ہے ؟
میں نے کہا: جی ہاں۔
ہرقل نے کہا : تو تمہاری اور اس کی جنگ کیسی رہی ؟
میں نے کہا : جنگ ہمارے اور اس کے درمیان ڈول ہے۔ وہ ہمیں زک پہنچالیتا ہے اور ہم اسے زک پہنچالیتے ہیں۔
ہرقل نے کہا : تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے ؟
میں نے کہا : وہ کہتا ہے : صرف اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ کرو۔ تمہارے باپ دادا جو کچھ کہتے تھے اسے چھوڑ دو۔ اور وہ ہمیں نماز ، سچائی ، پرہیز ، پاک دامنی اور قرابت داروں کے ساتھ حسن ِ سلوک کا حکم دیتا ہے۔
اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: تم اس شخص (ابو سفیان) سے کہو کہ میں نے تم سے اس شخص (نبیﷺ ) کا نسب پوچھا تو تم نے بتا یا کہ وہ اونچے نسب کا ہے۔اور دستور یہی ہے کہ پیغمبر اپنی قوم کے اونچے نسب میں بھیجے جاتے ہیں۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی ؟ تم نے بتلایا کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی اور نے کہی ہوتی تو میں یہ کہتا کہ یہ شخص ایک ایسی بات کی نقالی کر رہاہے جواس سے پہلے کہی جاچکی ہے۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ تم نے بتلایا کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزراہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنے باپ کی بادشاہت کا طالب ہے۔
اور میں نے یہ دریافت کیا کہ کیا جو بات اس نے کہی ہے اسے کہنے سے پہلے تم لوگ اسے جھوٹ سے مُتّہم کرتے تھے ؟ تو تم نے بتایا کہ نہیں۔ اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں پرتوجھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولے۔
میں نے یہ بھی دریافت کیا کہ بڑے لوگ اس کی پیروی کررہے ہیں یا کمزور ؟ تو تم نے بتایا کہ کمزورں نے اس کی پیروی کی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ پیغمبر وں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص برگشتہ ہوکرمرتد بھی ہوتا ہے ؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی بشاشت جب دلوں میں گھس جاتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا وہ بدعہدی بھی کرتا ہے ؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں۔ اور پیغمبر ایسے ہی ہوتے ہیں۔وہ بدعہدی نہیں کرتے۔
میں نے یہ بھی پوچھا کہ وہ کن باتوں کا حکم دیتا ہے ؟ تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دیتا ہے۔ بت پرستی سے منع کرتا ہے۔ اور نماز ، سچائی اور پرہیزگاری وپاکدامنی کا حکم دیتا ہے۔
تو جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تویہ شخص بہت جلد میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کا مالک ہوجائے گا۔ میں جانتا تھا کہ یہ نبی آنے والا ہے ، لیکن میرا یہ گمان نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو اس سے ملاقات کی زحمت اٹھاتا۔ اور اگر اس کے پاس ہوتا تو اس کے دونوں پاؤں دھوتا۔
اس کے بعد ہرقل نے رسول اللہﷺ کا خط منگا کر پڑھا۔ جب خط پڑھ کر فارغ ہوا تو وہاں آوازیں بلند ہوئیں اور بڑا شور مچا۔ ہرقل نے ہمارے بارے میں حکم دیا اور ہم باہر کردیے گئے۔ جب ہم لوگ باہر لائے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ابو کبشہ* کے بیٹے کا معاملہ بڑا زور پکڑگیا۔ اس سے تو بنو اَصْفَرْ *(رومیوں) کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ اس کے بعد مجھے برابر یقین رہا کہ رسول اللہﷺ کا دین غالب آکر رہے گا۔ یہاں تک کہ اللہ نے میرے اندر اسلام کو جاگزیں کردیا۔( صحیح بخاری ۱/۴ ، صحیح مسلم ۲/۹۷- ۹۹)
*ابو کبشہ کے بیٹے سے مراد نبیﷺ کی ذات گرامی ہے۔ ابو کبشہ رجزبن غالب خزاعی کی کنیت ہے۔ یہ وہب بن عبد مناف کا نانا تھا۔ اور وہب نبیﷺ کے نانا تھے۔ ابو کبشہ مشرک تھا۔ شام گیا تو نصرانی ہو گیا۔ جب نبیﷺ نے قریش کے دین کی مخالف کی ، اور حنیفیہ لے کر آئے تو آپ کی تنقیص کے لیے اس کے ساتھ تشبیہ دی۔ اور اس کی طرف منسوب کیا۔ (دلائل النبوۃ بیہقی ۱/۸۲، ۸۳، سیرت نبویہ لابی حاتم ص ۴۴) بہرحال ابو کبشہ غیر معروف شخص ہے۔ اور عرب کا دستور تھا کہ جب کسی کی تنقیص کرنی ہوتی تو اسے اس کے آباء واجداد میں سے کسی غیر معروف شخص کی طرف منسوب کردیتے۔
*بنوالاصفر (اصفر کی اولاد۔ اوراصفر کے معنی زرد ، یعنی پیلا ) رومیوں کو بنوالاصفر کہا جاتا ہے۔ کیونکہ روم کے جس بیٹے سے رومیوں کی نسل تھی وہ کسی وجہ سے اصفر (پیلے ) کے لقب سے مشہور ہوگیا تھا۔
یہ قیصر پر نبیﷺ کے نامہ ٔ مبارک کا وہ اثر تھا جس کا مشاہدہ ابو سفیان نے کیا۔ اس نامۂ مبارک کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ قیصر نے رسول اللہﷺ کے اس نامہ ٔ مبارک کو پہنچانے والے، یعنی دِحْیہ کلبیؓ کو مال اور پارچہ جات سے نوازا ، لیکن حضر ت دِحیہؓ یہ تحائف لے کر واپس ہوئے تو حُسْمیٰ میں قبیلہ جذام کے کچھ لوگو ں نے ان پر ڈاکہ ڈال کر سب کچھ لوٹ لیا۔ حضرت دِحیہ مدینہ پہنچے تو اپنے گھر کے بجائے سیدھے خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔

مکمل تحریر >>

بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط - شاہِ فارس خسرو پرویز کے نام خط


۳۔ شاہ فارس خسرو پرویز کے نام خط
نبیﷺ نے ایک خط بادشاہِ فارس کسریٰ (خسرو ) کے پاس روانہ کیا جو یہ تھا :
''بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے کِسریٰ عظیم فارس کی جانب !!
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ کیونکہ میں تمام انسانوں کی جانب اللہ کا فرستادہ ہوں تاکہ جو شخص زندہ ہے اسے انجام ِ بد سے ڈرایا جائے۔ اور کافرین پر حق بات ثابت ہوجائے۔( یعنی حجت تمام ہو جائے ) پس تم اسلام لاؤ، سالم رہوگے۔ اور اگر اس سے انکارکیا توتم پر مجوس کا بھی بارِ گناہ ہوگا۔''
اس خط کو لے جانے کے لیے آپﷺ نے حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمیؓ کو منتخب فرمایا۔ انہوں نے یہ خط سربراہ بحرین کے حوالے کیا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ سربراہ بحرین نے یہ خط اپنے کسی آدمی کے ذریعہ کسریٰ کے پاس بھیجا یا خود حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی کو روانہ کیا۔ بہرحال جب یہ خط کسریٰ کو پڑھ کرسنا یا گیا تو اس نے چاک کردیا۔ اور نہایت متکبرانہ اندازمیں بولا : میری رعایا میں سے ایک حقیر غلام اپنانام مجھ سے پہلے لکھتا ہے۔
رسول اللہﷺ کو اس واقعے کی جب خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا : اللہ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کرے۔ اور پھر وہی ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد کسریٰ نے اپنے یمن کے گورنر باذان کو لکھا کہ یہ شخص جو حجاز میں ہے اس کے یہاں اپنے دو توانا اور مضبوط آدمی بھیج دو کہ وہ اسے میرے پاس حاضر کریں۔ باذان نے اس کی تعمیل کرتے ہوئے دو آدمی منتخب کیے۔ ایک اسکا قہرمان بانویہ جو حساب داں تھا اور فارسی میں لکھتا تھا۔ دوسرا خرخسرو۔ یہ بھی فارسی تھا۔( تاریخ ابن خلدون ۲/۳۷) اور انھیں ایک خط دے کر رسول اللہﷺ کے پاس روانہ کیا جس میں آپ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھ کسریٰ کے پاس حاضر ہوجائیں۔ جب وہ مدینہ پہنچے اور نبیﷺ کے روبرو حاضر ہوئے تو ایک نے کہا : شہنشاہ کسریٰ نے شاہ باذان کو ایک مکتوب کے ذریعہ حکم دیا ہے کہ وہ آپ کے پا س ایک آدمی بھیج کر آپ کو کسریٰ کے روبروحاضر کرے اور باذان نے اس کام کے لیے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں۔ ساتھ ہی دونوں نے دھمکی آمیز باتیں بھی کہیں۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ کل ملاقات کریں۔
ادھر عین اسی وقت جبکہ مدینہ میں یہ دلچسپ ''مہم '' درپیش تھی۔ خود خسروپرویز کے گھرانے کے اندر اس کے خلاف ایک زبردست بغاوت کا شعلہ بھڑ ک رہا تھا جس کے نتیجے میں قیصر کی فوج کے ہاتھوں فارسی فوجوں کی پے در پے شکست کے بعد اب خسرو کا بیٹا شیرویہ اپنے باپ کو قتل کر کے خود بادشاہ بن بیٹھا تھا۔ یہ منگل کی رات ۱۰ جمادی الاولیٰ ۷ھ کا واقعہ ہے۔ (فتح الباری ۸/۱۲۷ تاریخ ابن خلدون ۲/۳۷)
رسول اللہﷺ کو اس واقعہ کا علم وحی کے ذریعہ ہوا۔ چنانچہ جب صبح ہوئی اور دونوں فارسی نمائندے حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں اس واقعے کی خبردی۔ ان دونوں نے کہا : کچھ ہوش ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ ہم نے اس سے بہت معمولی بات بھی آپ کے جرائم میں شمار کی ہے۔ تو کیا آپ کی یہ بات ہم بادشاہ کو لکھ بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اسے میری اس بات کی خبر کردو۔ اور اس سے یہ بھی کہہ دو کہ میرا دین اور میری حکومت وہاں تک پہنچ کررہے گی جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اس جگہ جاکر رُکے گی جس سے آگے اونٹ اور گھوڑے کے قدم جاہی نہیں سکتے۔ تم دونوں اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو جو کچھ تمہارے زیراقتدار ہے وہ سب میں تمہیں دے دوں گا اور تمہیں تمہاری قوم ابناء کا بادشاہ بنادوں گا۔ اس کے بعد وہ دونوں مدینہ سے روانہ ہوکر باذان کے پاس پہنچے اور اسے ساری تفصیلات سے آگاہ کیا۔ تھوڑے عرصہ بعد ایک خط آیا کہ شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کردیا ہے۔ شیرویہ نے اپنے اس خط میں یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس شخص کے بارے میں میرے والد نے تمہیں لکھا تھا اسے تا حکم ثانی برانگیختہ نہ کرنا۔
اس واقعہ کی وجہ سے باذان اور اس کے فارسی رفقاء (جو یمن میں موجود تھے) مسلمان ہوگئے۔( محاضرات خضری ۱/۱۴۷ فتح الباری ۸/۱۲۷ ، ۱۲۸)

مکمل تحریر >>

بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط - مقوقس شاہِ مصر کے نام خط


۲۔ مقوقس شاہ ِ مصر کے نام خط
نبیﷺ نے ایک گرامی نامہ جریج بن متی (یہ نام علامہ منصورپوری نے رحمۃ للعالمین ۱/۱۷۸ میں ذکر فرمایا ہے۔ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا نام بنیامین بتلایا ہے۔ دیکھئے رسول اکرم کی سیا سی زندگی ، ص ۱۴۱)کے نام روانہ فرمایا جس کا لقب مقوقس تھا۔ اور جو مصر واسکندریہ کا بادشاہ تھا۔ نامۂ گرامی یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی طرف سے مقوقس عظیم ِ قِبط کی جانب !!
اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اما بعد :
میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لاؤ سلامت رہوگے۔ اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پراہل ِ قبط کا بھی گناہ ہوگا۔ ''اے اہل ِ قبط ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم میں سے بعض ، بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائیں۔ پس اگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دوکہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔''(زاد المعاد لابن قیم ۳/۶۱ ماضی قریب میں یہ خط دستیاب ہوا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا جو فوٹو شائع کیا ہے اس میں اور زاد المعاد کی عبارت میں صرف دو حرف کا فرق ہے۔ زاد المعاد میں ہے اسلم تسلم۔ اسلم یوتک اللہ...الخ اور خط میں ہے فاسلم تسلم یوتک اللّٰہ ، اسی طرح زاد المعاد میں ہے اثم اہل القبط اور خط میں ہے اثم القبط۔ دیکھئے: رسول اکرم کی سیاسی زندگی ص ۱۳۶، ۱۳۷)
اس خط کو پہنچانے کے لیے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کا انتخاب فرمایا گیا۔ وہ مقوقس کے دربار میں پہنچے تو فرمایا کہ (اس زمین پر ) تم سے پہلے ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا۔ اللہ نے اسے آخر واوّل کے لیے عبرت بنادیا۔ پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا۔ پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ لہٰذا دوسرے سے عبرت پکڑو۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں۔
مقوقس نے کہا : ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے۔
حضرت حاطب نے فرمایا: ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا (ادیان) کے بدلے کافی بنادیا ہے۔ دیکھو ! اس نبی نے لوگوں کو (اسلام کی ) دعوت دی تو اس کیخلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے۔ یہودنے سب سے بڑھ کر دشمنی کی۔ اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے۔ میری عمر کی قسم ! جس طرح حضرت موسیٰ ؑنے حضرت عیسیٰ ؑکے لیے بشارت دی تھی۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ نے محمدﷺ کے لیے بشارت دی ہے۔ اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہلِ تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو۔ جو نبی جس قوم کو پاجاتا ہے وہ قوم اس کی امت ہوجاتی ہے۔ اور اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے اور تم نے اس نبی کا عہد پالیا ہے۔ اور پھر ہم تمہیں دین ِ مسیح سے روکتے نہیں ہیں بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں۔
مقوقس نے کہا : میں نے اس نبی کے معاملے پر غور کیا تو میں نے پایا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے۔ اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے۔ وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن۔ بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں میں مزید غور کروں گا۔
مقوقس نے نبیﷺ کا خط لے کر (احترام کے ساتھ ) ہاتھی دانت کی ایک ڈبیہ میں رکھ دیا اور مہرلگا کر اپنی ایک لونڈی کے حوالے کردیا۔ پھر عربی لکھنے والے ایک کاتب کو بلا کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھوایا :

بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد بن عبد اللہ کے لیے مقوقس عظیم قبط کی طرف سے۔
آپ پر سلام ! اما بعد میں نے آپ کا خط پڑھا۔ اورا س میں آپ کی ذکر کی ہوئی بات اور دعوت کو سمجھا۔ مجھے معلوم ہے کہ ابھی ایک نبی کی آمد باقی ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ شام سے نمودار ہوگا۔ میں نے آپ کے قاصد کا اعزاز واکرام کیا۔ اور آپ کی خدمت میں دولونڈیاں بھیج رہاہوں جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے۔ اور کپڑے بھیج رہا ہوں۔ اور آپ کی سواری کے لیے ایک خچر بھی ہدیہ کررہا ہوں ، اور آپ پرسلام۔''
مقوقس نے اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا اور اسلام نہیں لایا۔ دونوں لونڈیاں ماریہ اور سیرین تھیں۔ خچر کا نام دُلدل تھا۔ جو حضرت معاویہؓ کے زمانے تک باقی رہا۔ (زاد المعاد ۳/۶۱)نبیﷺ نے ماریہ کو اپنے پاس رکھا۔ اور انہی کے بطن سے نبیﷺ کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے۔
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا مصر سے حضرت حاطب رضی اللہ عنہا کے ساتھ آئی تھیں، اس لیے وہ ان سے بہت زیادہ مانوس ہوگئی تھیں، حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے اس انس سے فائدہ اُٹھاکر اُن کے سامنے اسلام پیش کیا، حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا اور اُن کی بہن حضرت سیرین رضی اللہ عنہا نے تواسلام قبول کرلیا؛ لیکن اُن کے بھائی مابور اپنے قدیم دین عیسائیت پرقائم رہے۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا گوازواجِ مطہرات میں نہیں تھیں؛ لیکن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ازواجِ مطہرات ہی کے ایسا سلوک کرتے تھے، آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اعزاز واحترام کوباقی رکھا اور ہمیشہ ان کے نان ونفقہ کا خیال کرتے رہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے ساتھ یہی سلوک مرعی رکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے بیحد محبت تھی اور اس وجہ سے اُن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدورفت بہت زیادہ رہتی تھی؛ گووہ کنیز تھیں (جاربات، یعنی کنیزوں کے لیے پردہ کی ضرورت نہیں) لیکن ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کی طرح اُن کوبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ میں رہنے کا حکم دیا تھا (اصابہ، وابن سعد) اُن کے فضل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ مبارک کافی ہے کہ:
استوصوا بالقبط خيرا فإن لهم ذمة ورحما قال ورحمهم أن أم إسماعيل بن إبراهيم منهم وأم إبراهيم بن النبي صلى الله عليه وسلم منهم۔
(الطبقات الكبرى،ابن سعد:۸/۲۱۴، شاملہ،المؤلف: محمد بن سعد بن منيع أبوعبدالله البصري الزهري، الناشر:دارصادر،بيروت)
ترجمہ: قبطیوں کے (مصر کے عیسائی) ساتھ حسنِ سلوک کرو، اس لیے کہ اُن سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے، اُن سے نسب کا تعلق تویہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (حضرت ہاجرہ) اور میرے لڑکے ابراہیم دونوں کی ماں اسی قوم سے ہیں (اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ اُن سے معاہدہ ہوچکا ہے)۔

مکمل تحریر >>

بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط - نجاشی شاہِ حبش کے نام خط


اس نجاشی کا نام اَصْحَمہ بن اَبْجَر تھا۔ نبیﷺ نے اس کے نام جو خط لکھا اسے عَمرو بن امیہ ضمری کے بدست ۶ ھ کے اخیر یا ۷ ھ کے شروع میں روانہ فرمایا۔بیہقی نے ابن عباسؓ سے خط کی عبارت روایت کی ہے جسے نبیﷺ نے نجاشی کے پاس روانہ کیا تھا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے :
''یہ خط ہے محمد نبی کی طرف سے نجاشی اصحم شاہ ِ حبش کے نام ، اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اس نے نہ کوئی بیوی اختیار کی نہ لڑکا۔ اور ( میں اس کی بھی شہادت دیتاہوں کہ ) محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ اور میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں کیوں کہ میں اس کا رسول ہوں۔ لہٰذا تم اسلام لاؤ سلامت رہوگے۔'' اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور عبادت نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم میں سے بعض بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائے۔ پس آگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں ۔'' اگر تم نے(یہ دعوت ) قبول نہ کی تو تم پر اپنی قوم کے نصاریٰ کا گناہ ہے۔''(مستدر ک حاکم ۲/۶۲۳،دلائل النبوۃ ، بیہقی ۲/۳۰۸)
ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے ایک اور خط کی عبارت درج فرمائی ہے۔ جو ماضی قریب میں دستیاب ہوا ہے اور صرف ایک لفظ کے اختلاف کے ساتھ یہی خط علامہ ابن قیم کی کتاب زاد المعاد میں بھی موجود ہے۔ ڈاکٹرصاحب موصوف نے اس خط کی عبارت کی تحقیق میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ دَورِ جدید کے اکتشافات سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے اور اس خط کا فوٹو کتا ب کے اندر ثبت فرمایا ہے۔
اس کا ترجمہ یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی جانب سے نجاشی عظیم حبشہ کے نام !!
اس شخص پرسلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ امابعد!میں تمہاری طرف اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں،جو قدوس اور سلام ہے۔ امن دینے والا محافظ ونگراں ہے۔ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ اللہ نے انہیں پاکیزہ اور پاکدامن مریم بتول کی طرف ڈال دیا۔ اور اس کی روح اور پھونک سے مریم عیسیٰ کے لیے حاملہ ہوئیں۔ جیسے اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ میں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی جانب اور اس کی اطاعت پر ایک دوسرے کی مددکی جانب دعوت دیتا ہوں۔ اور اس بات کی طرف (بلاتا ہوں ) کہ تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میرے پاس آیا ہے اس پر ایمان لاؤ۔ کیونکہ میں اللہ کا رسول (ﷺ ) ہوں۔ اور میں تمہیں اور تمہارے لشکر کو اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہوں۔ اورمیں نے تبلیغ ونصیحت کردی۔ لہٰذا میری نصیحت قبولکرو۔ اور اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔''(رسول اکرم کی سیاسی زندگی ، مولفہ ڈاکٹر حمید اللہ ص ۱۰۸ ، ۱۰۹ ، ۱۲۲، ۱۲۳ ، ۱۲۴، ۱۲۵، زاد المعاد میں آخری فقرہ والسلام علی من اتبع الہدی کے بجا ئے أسلم أنت ہے۔ دیکھئے: زاد المعاد ۳/۶۰)
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے بڑے یقینی انداز میں کہا ہے کہ یہی وہ خط ہے جسے رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے بعد نجاشی کے پاس روانہ فرمایا تھا۔
بہرحال جب عَمرو بن امیہ ضمریؓ نے نبیﷺ کا خط نجاشی کے حوالے کیا تو نجاشی نے اسے لے کر آنکھ پر رکھا اور تخت سے زمین پر اتر آیا۔ اور حضرت جعفر بن ابی طالب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ اور نبیﷺ کے پاس اس بارے میں خط لکھا جو یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی خدمت میں نجاشی اصحمہ کی طرف سے !!
اے اللہ کے نبی! آپ پر اللہ کی طرف سے سلام اور اس کی رحمت اور برکت ہو۔ وہ اللہ جس کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں۔ اما بعد!
اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ کا گرامی نامہ ملا۔ جس میں آپ نے عیسیٰ ؑ کا معاملہ ذکر کیا ہے۔ رب آسمان وزمین کی قسم! آپ نے جو کچھ فرمایا ہے حضرت عیسیٰ اس سے ایک تنکہ بڑھ کر نہ تھے۔ وہ ویسے ہی ہیں جیسے آپ نے ذکر فرمایا ہے۔ 1پھر آپ نے جو کچھ ہمارے پاس بھیجا ہے ہم نے اسے جانا اور آپ کے چچیرے بھائی اور آپ کے صحابہ کی مہمان نوازی کی۔ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے اور پکے رسول ہیں۔ اور میں نے آپ سے بیعت کی اور آپ کے چچیرے بھائی سے بیعت کی۔ اور ان کے ہاتھ پر اللہ رب العالمین کے لیے اسلام قبول کیا۔( زادا لمعاد ۳/۶۱)
نبیﷺ نے نجاشی سے یہ بھی طلب کیا تھا کہ وہ حضرت جعفر اور دوسرے مہاجرین ِ حبشہ کو روانہ کردے۔ چنانچہ اس نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری کے ساتھ دوکشتیوں میں ان کی روانگی کا انتظام کردیا۔ ایک کشتی کے سوار جس میں حضرت جعفر اور حضرت ابو موسیٰ اشعری اور کچھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے ، براہ راست خیبر پہنچ کر خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے۔ اور دوسری کشتی کے سوار جن میں زیادہ تر بال بچے تھے سیدھے مدینہ پہنچے۔( ابن ہشام ۲/۳۵۹)
مذکورہ نجاشی نے غزوہ تبوک کے بعد رجب ۹ ھ میں وفات پائی۔ نبیﷺ نے اس کی وفات ہی کے دن صحابہ کرام کو اس کی موت کی اطلاع دی۔ اور اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ اس کی وفات کے بعد دوسرا بادشاہ اس کا جانشین ہوکر سریرآرائے سلطنت ہوا تو نبیﷺ نے اس کے پاس بھی ایک خط روانہ فرمایا لیکن یہ نہ معلوم ہوسکا کہ اس نے اسلام قبول کیا یا نہیں۔

مکمل تحریر >>

مسلمانوں کی مدینہ سے روانگی


رسول اللہﷺ نے یہ خواب بھی دیکھا کہ آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد حرام میں داخل ہوئے، آپﷺ نے خانہ کعبہ کی کنجی لی اور صحابہ سمیت بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کیا،پھر کچھ لوگوں نے سر کے بال منڈائے اور کچھ نے کٹوانے پر اکتفاکی۔ آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ا س خواب کی اطلاع دی تو انھیں بڑی مسرت ہوئی۔ اورانہوں نے یہ سمجھا کہ اس سال مکہ میں داخلہ نصیب ہوگا۔ آپﷺ نے صحابہ کرام کو یہ بھی بتلایا کہ آپﷺ عمرہ ادا فرمائیں گے۔ لہٰذا صحابہ کرام بھی سفر کے لیے تیار ہوگئے۔
آپﷺ نے مدینہ اور گردوپیش کی آبادیوں میں اعلان فرمادیا کہ لو گ آپ کے ہمراہ روانہ ہوں ، لیکن بیشتر اعراب نے تاخیر کی۔ ادھر آپﷺ نے اپنے کپڑے دھوئے۔ مدینہ پر ابن اُم ِ مکتوم یا نمیلہ لیثی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ اور اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہوکر یکم ذی قعد ہ ۶ ھ روز دوشنبہ کو روانہ ہوگئے۔ آپ کے ہمراہ اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ بھی تھیں۔ چودہ سو (اور کہا جاتا ہے کہ پندرہ سو ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمرکاب تھے۔ آپﷺ نے مسافرانہ ہتھیار یعنی میان کے اندر بند تلواروں کے سوااور کسی قسم کا ہتھیار نہیں لیاتھا۔
آپ• کا رُخ مکہ کی جانب تھا۔ ذو الحلیفہ پہنچ کر آپ نے ہدی کو قلادے پہنائے۔( ہدی ، وہ جانورجسے حج وعمرہ کرنے والے مکہ یامنیٰ میں ذبح کرتے ہیں۔ دور جاہلیت میں عرب کا دستور تھا کہ ہَدْی کا جانور اگر بھیڑ بکری ہے تو علامت کے طور پر گلے میں قلادہ ڈال دیا جاتا تھا اور اگر اونٹ ہے توکوہان چیر کر خون پوت دیا جاتا تھا۔ ایسے جانور سے کوئی شخص تعرض نہ کرتا تھا۔ شریعت نے اس دستور کو برقرار رکھا۔)۔ کوہان چیر کر نشان بنایا۔ اور عمرہ کا احرام باندھا تاکہ لوگوں کو اطمینان رہے کہ آپ جنگ نہیں کریں گے۔ آگے آگے قبیلہ خزاعہ کا ایک جاسوس بھیج دیا تاکہ وہ قریش کے عزائم کی خبر لائے۔ عسفان کے قریب پہنچے تو اس جاسوس نے آکر اطلاع دی کہ میں کعب بن لوی کو اس حالت میں چھوڑ کر آرہا ہوں کہ انھوں نے آپ سے مقابلہ کرنے کے لیے احابیش (حلیف قبائل ) کو جمع کررکھا ہے(یہ حبشی لوگ نہیں ہیں جیسا کہ بظاہر لفظ سے محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ بنوکنانہ اور دوسرے عرب قبائل کی چند شاخیں ہیں۔ یہ حبشی -ح کو پیش ، ب ساکن ش کو زیر -پہاڑ کی طرف منسوب ہیں۔ جو وادی نعمان اراک سے نیچے واقع ہے۔ یہاں سے مکہ کا فاصلہ چھ میل ہے۔ اس پہاڑ کے دامن میں بنوحارث بن عبد مناۃ بن کنانہ ، بنومصطلق بن حیا بن سعد بن عمر اور بنو الہون بن خزیمہ نے اکٹھے ہوکر قریش سے عہد کیا تھا، اور سب نے مل کر اللہ کی قسم کھائی تھی کہ جب تک رات تاریک اور دن روشن ہے ، اور حبشی پہاڑاپنی جگہ برقرار ہے ہم سب دوسروں کے خلاف ایک ہاتھ ہوں گے۔ ( معجم البلدان ۲/۲۱۴، المنمق ۵ ۷ ۲ ))۔ اور بھی جمعیتیں فراہم کی ہیں۔ اور وہ آپ سے لڑنے اورآپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔
اس اطلاع کے بعد نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور فرمایا : کیا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ لوگ جو قریش کی اعانت پر کمر بستہ ہیں ہم ان کے اہل وعیال پر ٹوٹ پڑیں اور قبضہ کرلیں ؟ اس کے بعد اگر وہ خاموش بیٹھتے ہیں تو اس حالت میں خاموش بیٹھتے ہیں کہ جنگ کی مار اور غم والم سے دوچار ہوچکے ہیں اور بھاگتے ہیں تو وہ بھی اس حالت میں کہ اللہ ایک گردن کا ٹ چکا ہوگا۔ یا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ہم خانہ کعبہ کا رُخ کریں۔ اور جو راہ میں حائل ہواس سے لڑائی کریں ؟ اس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ مگر ہم عمرہ اداکرنے آئے ہیں۔ کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں۔ البتہ جو ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگا اس سے لڑائی کریں گے نبیﷺ نے فرمایا : اچھا تب چلو۔ چنانچہ لوگوں نے سفر جاری رکھا۔

مکمل تحریر >>

نئی تبدیلی کا آغاز


صلح حدیبیہ درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کی زندگی میں ایک نئی تبدیلی کا آغاز تھا۔ کیونکہ اسلام کی عداوت ودشمنی میں قریش سب سے زیادہ مضبوط ، ہٹ دھرم اور لڑاکا قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے جب وہ جنگ کے میدان میں پسپا ہوکرامن وسلامتی کی طرف آگئے تو احزاب کے تین بازوؤں- قریش ، غطفان اور یہود - میں سب سے مضبوط بازو ٹوٹ گیا۔ اور چونکہ قریش ہی پورے جزیرۃ العرب میں بت پرستی کے نمائندے اور سربراہ تھے، اس لیے میدان جنگ سے ان کے ہٹتے ہی بت پرستوں کے جذبات سردپڑگئے اور دشمنانہ روش میں بڑی حد تک تبدیلی آگئی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس صلح کے بعد غطفان کی طرف سے بھی کسی بڑی تگ ودو اور شور وشر کا مظاہرہ نہیں ہو ا بلکہ انہوں نے کچھ کیا بھی تو یہود کے بھڑکانے پر۔
جہاں تک یہود کا تعلق ہے تو وہ یثرب سے جلاوطنی کے بعد خیبر کو اپنی دسیسہ کاریوں اور سازشوں کا اڈہ بنا چکے تھے وہاں ان کے شیطان انڈے بچے دے رہے تھے۔ اور فتنے کی آگ بھڑکانے میں مصروف تھے۔ وہ مدینہ کے گرد وپیش آباد بدوؤں کو بھڑکاتے رہتے تھے اور نبیﷺ اور مسلمانوں کے خاتمے یا کم ازکم انہیں بڑے پیمانے پر زک پہنچانے کی تدبیریں سوچتے رہتے تھے۔ اس لیے صلح حدیبیہ کے بعد نبیﷺ نے سب سے پہلا اور فیصلہ کن راست اقدام اسی مرکز شروفساد کے خلاف کیا۔
بہر حال امن کے اس مرحلے پر جو صلح حدیبیہ کے بعد شروع ہوا تھا مسلمانوں کو اسلامی دعوت پھیلانے اور تبلیغ کرنے کا اہم موقع ہاتھ آگیا تھا۔ اس لیے اس میدان میں ان کی سرگرمیاں تیز تر ہوگئیں جو جنگی سرگرمیوں پر غالب رہیں، لہٰذا مناسب ہوگا کہ اس دور کی دو قسمیں کردی جائیں :
1. تبلیغی سرگرمیاں ، اور بادشاہوں اور سربراہوں کے نام خُطوط
2. جنگی سرگرمیاں
پھر بے جا نہ ہوگا کہ اس مرحلے کی جنگی سرگرمیاں پیش کرنے سے پہلے بادشاہوں اور سربراہوں کے نام خطوط کی تفصیلات پیش کردی جائیں کیونکہ طبعی طور پر اسلامی دعوت مقدم ہے بلکہ یہی وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے مسلمانوں نے طرح طرح کی مشکلات ومصائب ، جنگ اور فتنے ، ہنگامے اور اضطرابات برداشت کیے تھے۔

مکمل تحریر >>

مکہ کے کمزور مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہونا


رسول اللہﷺ مدینہ واپس تشریف لاکر مطمئن ہوچکے تو ایک مسلمان جسے مکہ میں اذیتیں دی جارہی تھیں چھوٹ کر بھاگ آیا۔ ان کا نام ابو بصیر تھا۔ وہ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے تھے۔ اور قریش کے حلیف تھے۔ قریش نے ان کی واپسی کے لیے دوآدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان جو عہد وپیمان ہے اس کی تعمیل کیجیے۔ نبیﷺ نے ابو بصیر کو ان دونوں کے حوالے کردیا۔ یہ دونوں انہیں ہمراہ لے کر روانہ ہوئے۔ اور ذُو الحلیفہ پہنچ کر اترے ، اور کھجور کھانے لگے۔ ابو بصیر نے ایک شخص سے کہا : اے فلاں ! اللہ کی قسم! میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری یہ تلوار بڑی عمدہ ہے۔ اس شخص نے اسے نیام سے نکال کر کہا : ہاں ہاں ! واللہ یہ بہت عمدہ ہے۔ میں نے اس کا بارہا تجربہ کیا ہے۔ ابو بصیر نے کہا: ذرا مجھے دکھلاؤ ، میں بھی دیکھوں۔ اس شخص نے ابو بصیر کو تلوار دے دی۔ اور ابوبصیر نے تلوار لیتے ہی اسے مار کر ڈھیر کردیا۔
دوسر اشخص بھاگ کر مدینہ آیا اور دوڑتا ہو ا مسجد نبوی میں گھس گیا۔ رسول اللہﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا : اس نے خطرہ دیکھا ہے۔ وہ شخص نبیﷺ کے پاس پہنچ کر بولا : میرا ساتھی اللہ کی قسم قتل کردیا گیا۔ اور میں بھی قتل ہی کیا جانے والا ہوں۔ اتنے میں ابو بصیر آگئے۔ اور بولے : یا رسول اللہ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کردیا۔ آپ نے مجھے ان کی طرف پلٹا دیا۔ پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دے دی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اس کی ماں کی بربادی ہو۔ اسے کوئی ساتھی مل جائے تو یہ تو جنگ کی آگ بھڑ کا دے گا۔ یہ بات سن کر ابو بصیر سمجھ گئے کہ اب انہیں پھر کافروں کے حوالے کیا جائے گا۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے۔ ادھر ابو جندل بن سہیل بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر سے آملے۔ اب قریش کا جو آدمی بھی اسلام لاکر بھاگتا وہ ابو بصیر سے آملتا۔ یہاں تک کہ ا ن کی ایک جماعت اکٹھی ہوگئی۔ اس کے بعد ان لوگوں کو ملک شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتاتو وہ اس سے ضرور چھیڑ چھاڑ کرتے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے۔ قریش نے تنگ آکر نبیﷺ کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلالیں۔ اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا مامون رہے گا۔
اس کے بعد نبیﷺ نے انھیں بلوالیا اور وہ مدینہ آگئے۔ (سابقہ مآخذ)
کبار قریش کا قبولِ اسلام
اس معاہدہ ٔ صلح کے بعد ۷ھ کے اوائل میں حضرت عَمرو بن عاص ،خالد بن ولید اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم مسلمان ہوگئے۔ جب یہ لوگ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : مکہ نے اپنے جگر گوشو ں کو ہمارے حوالے کردیا ہے۔2
اس بارے میں سخت اختلاف ہے کہ ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس سنہ میں اسلام لائے۔ اسماء الرجال کی عام کتابوںمیں اسے ۸ ھ کا واقعہ بتایا گیا ہے ، لیکن نجاشی کے پاس حضرت عمرو بن عاصؓ کے اسلام لانے کا واقعہ معروف ہے جو ۷ ھ کا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت خالد اور عثمان بن طلحہ اس وقت مسلمان ہوئے تھے جب عمرو بن عاص حبشہ سے واپس آئے تھے کیونکہ انہوں نے حبشہ سے واپس آکر مدینہ کا قصد کیا توراستے میں ان دونوں سے ملاقات ہوئی۔ اور تینوں حضرات نے ایک ساتھ خدمت نبوی میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سبھی حضرات ۷ ھ کے اوائل میں مسلمان ہوئے۔ واللہ اعلم

مکمل تحریر >>

صلح حدیبیہ کی دفعات کا حاصل


دفعات - حضور ﷺ کی شاندار سیاسی بصیرت کا ایک نمونہ
صلح حدیبیہ کی مسلمانوں کی فتح عظیم تھی۔ کیونکہ قریش نے اب تک مسلمانوں کا وجود تسلیم نہیں کیا تھا اور انہیں نیست ونابود کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے تھے۔ انہیں انتظار تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ قوت دم توڑ دے گی۔ اس کے علاوہ قریش جزیرۃ العرب کے دینی پیشوا اور دنیاوی صدر نشین ہونے کی حیثیت سے اسلامی دعوت اور عام لوگوں کے درمیان پوری قوت کے ساتھ حائل رہنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ اس پس منظر میں دیکھئے تو صلح کی جانب محض جھک جانا ہی مسلمانوں کی قوت کا اعتراف اور اس بات کا اعلان تھا کہ اب قریش اس قوت کو کچلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ پھر تیسری دفعہ کے پیچھے صاف طور پر یہ نفسیاتی کیفیت کارفرما نظر آتی ہے کہ قریش کو دنیاوی صدرنشینی اور دینی پیشوائی کا جو منصب حاصل تھا اسے انہوں نے بالکل بھُلا دیا تھا۔ اور اب انہیں صرف اپنی پڑی تھی۔ ان کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا کہ بقیہ لوگوں کا کیا بنتا ہے۔ یعنی اگر سارے کا سارا جزیرۃ العرب حلقہ بگوش ِ اسلام ہوجائے تو قریش کو اس کی کوئی پروانہیں اور وہ اس میں کسی طرح کی مداخلت نہ کریں گے۔
کیا قریش کے عزائم اور مقاصد کے لحاظ سے یہ ان کی شکستِ فاش نہیں ہے؟ اور مسلمانوں کے مقاصد کے لحاظ سے یہ فتحِ مبین نہیں ہے ؟ آخر اہلِ اسلام اور اعدائے اسلام کے درمیان جو خونریز جنگیں پیش آئی تھیں ان کا منشاء اور مقصد اس کے سوا کیا تھا کہ عقیدے اور دین کے بارے میں لوگوں کو مکمل آزادی اور خودمختاری حاصل ہوجائے۔ یعنی اپنی آزاد مرضی سے جو شخص چاہے مسلمان ہو اور جو چاہے کافررہے۔ کوئی طاقت ان کی مرضی اور ارادے کے سامنے روڑا بن کر کھڑی نہ ہو۔ مسلمانوں کا یہ مقصد تو ہرگز نہ تھا کہ دشمن کے مال ضبط کیے جائیں۔ انہیں موت کے گھاٹ اتارا جائے۔ اور انہیں زبردستی مسلمان بنایا جائے۔ یعنی مسلمانوں کا مقصو د صرف وہی تھا جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے ؎
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی!
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس صلح کے ذریعے مسلمانوں کا مذکورہ مقصد اپنے تمام اجزا اور لوازم سمیت حاصل ہو گیا اور اس طرح حاصل ہوگیا کہ بسا اوقات جنگ میں فتح ِ مبین سے ہمکنارہونے کے باوجود حاصل نہیں ہوپاتا۔ پھر اس آزادی کی وجہ سے مسلمانوں نے دعوت وتبلیغ کے میدان میں نہایت زبردست کامیابی حاصل کی، چنانچہ مسلمان افواج کی تعداد جو اس صلح سے پہلے تین ہزار سے زائد کبھی نہ ہوسکی تھی وہ محض دوسال کے اندر فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار ہوگئی۔
دفعہ نمبر ۲بھی درحقیقت اس فتح ِ مبین کا ایک جزو ہے کیونکہ جنگ کی ابتدا مسلمانو ں نے نہیں بلکہ مشرکین نے کی تھی۔ اللہ کا ارشاد ہے :
وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّ‌ةٍ ۚ (۹: ۱۳)
''یعنی پہلی بار ان ہی لوگوں نے تم لوگو ں سے ابتداء کی۔''
جہاں تک مسلمانوں کی طلایہ گردیوں اور فوجی گشتوں کا تعلق ہے تو مسلمانوں کا مقصود ان سے صرف یہ تھا کہ قریش اپنے احمقانہ غرورمیں اللہ کی راہ روکنے سے باز آجائیں اور مساویانہ بنیاد پر معاملہ کرلیں۔ یعنی ہر فریق اپنی اپنی ڈگرپر گامزن رہنے کے لیے آزاد رہے۔ اب غور کیجیے کہ دس سالہ جنگ بندرکھنے کا معاہدہ آخر اس غرور اور اللہ کی راہ میں رکاوٹ سے باز آنے ہی کا توعہد ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ جنگ کا آغاز کرنے والا کمزور اور بے دست وپا ہو کر اپنے مقصد میں ناکام ہوگیا۔
جہاں تک پہلی دفعہ کا تعلق ہے تو یہ بھی درحقیقت مسلمانوں کی ناکامی کے بجائے کامیابی کی علامت ہے کیونکہ یہ دفعہ درحقیقت اس پابندی کے خاتمے کا اعلان ہے جسے قریش نے مسلمانوں پر مسجد حرام میں داخلے سے متعلق عائد کررکھی تھی۔ البتہ اس دفعہ میں قریش کے لیے بھی تشفی کی اتنی سی بات تھی کہ وہ اس ایک سال مسلمانوں کو روکنے میں کامیاب رہے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ وقتی اور بے حیثیت فائدہ تھا۔
اس کے بعد اس صلح کے سلسلے میں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ قریش نے مسلمانوں کو یہ تین رعائتیں دے کر صرف ایک رعایت حاصل کی جو دفعہ ۴ میں مذکور ہے ، لیکن یہ رعایت حددرجہ معمولی اور بے وقعت تھی اور اس میں مسلمانوں کا کوئی نقصان نہ تھا۔ کیونکہ یہ معلوم تھا کہ جب تک مسلمان رہے گا۔ اللہ ، رسول اور مدینۃ الاسلام سے بھاگ نہیں سکتا۔ اس کے بھاگنے کی صرف ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ وہ مرتد ہوجائے۔ خواہ ظاہراً خواہ درپردہ۔ اور ظاہر ہے کہ جب مُرتد ہوجائے تو مسلمانوں کو اس کی ضرورت نہیں بلکہ اسلامی معاشرے میں اس کی موجودگی سے کہیں بہتر ہے کہ وہ الگ ہوجائے اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف رسول اللہﷺ نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ فرمایا تھا :
(( إنہ من ذہب منا إلیہم فأبعدہ اللہ ۔ ))
''جو ہمیں چھوڑ کران مشرکین کی طرف بھاگا اسے اللہ نے دور (یابرباد) کردیا۔''(صحیح مسلم باب صلح الحدیبیہ ۲/۱۰۵)
باقی رہے مکے کے وہ باشندے جو مسلمان ہوچکے تھے یا مسلمان ہونے والے تھے تو ان کے لیے اگرچہ اس معاہدے کی رو سے مدینہ میں پناہ گزین ہونے کی گنجائش نہ تھی لیکن اللہ کی زمین تو بہر حال کشادہ تھی۔ کیا حبشہ کی زمین نے ایسے نازک وقت میں مسلمانوں کے لیے اپنی آغوش وانہیں کردی تھی ، جب مدینہ کے باشندے اسلام کا نام بھی نہ جانتے تھے ؟ اسی طرح آج بھی زمین کا کوئی ٹکڑا مسلمانوں کے لیے اپنی آغوش کھول سکتا تھا، اور یہی بات تھی جس کی طرف رسول اللہﷺ نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ فرمایاتھا :
(( ومن جاء نا منہم سیجعل اللہ لہ فرجاً ومخرجاً ۔))1
''ان کا جو آدمی ہمارے پاس آئے گا۔ اللہ اس کے لیے کشادگی اور نکلنے کی جگہ بنادے گا۔''
پھر اس قسم کے تحفظات سے اگرچہ نظر بظاہر قریش نے عزّووقار حاصل کیا تھا مگر یہ درحقیقت قریش کی سخت نفسیاتی گھبراہٹ ، پریشانی ، اعصابی دباؤ اور شکستگی کی علامت ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اپنے بُت پرست سماج کے بارے میں سخت خوف لاحق تھا اور وہ محسوس کررہے تھے کہ ان کا یہ سماجی گھروندا ایک کھائی کے ایسے کھوکھلے اور اندر سے کٹے ہوئے کنارے پر کھڑاہے جو کسی بھی دم ٹوٹ گرنے والا ہے۔ لہٰذا اس کی حفاظت کے لیے اس طرح کے تحفظات حاصل کر لینا ضروری ہیں۔ دوسری طرف رسول اللہﷺ نے جس فراخ دلی کے ساتھ یہ شرط منظور کی کہ قریش کے یہاں پناہ لینے والے کسی مسلمان کو واپس نہ طلب کریں گے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو اپنے سماج کی ثابت قدمی اور پختگی پر پورا پورا اعتماد تھا اور اس قسم کی شرط آپ کے لیے قطعا ً کسی اندیشے کا سبب نہ تھی۔
صلح حدیبیہ کی تفصیلات کے مآخذ یہ ہیں: فتح الباری۷/۴۳۹تا ۴۵۸ صحیح بخای ۱/۳۷۸ تا ۳۸۱ ، ۲/۵۹۸، ۶۰۰،۷۱۷ صحیح مسلم ۲/۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۶ ابن ہشام ۲/۳۰۸ تا ۳۲۲ زادا لمعاد ۲/۱۲۲ تا ۱۲۷ ، تاریخ عمر بن الخطاب لابن الجوزی ص ۳۹، ۴۰۔

مکمل تحریر >>

مسلمانوں کا غم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مناقشہ


یہ ہے معاہدۂ صلح کی دفعات کی حقیقت لیکن ان دفعات میں دوباتیں بظاہر اس قسم کی تھیں کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت غم والم لاحق ہوا۔ ایک یہ کہ آ پﷺ نے بتایا تھا کہ آپ بیت اللہ تشریف لے جائیں گے اوراس کا طواف کرینگے ، لیکن آپﷺ طواف کیے بغیر واپس ہورہے تھے۔ دوسرے یہ کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں اور حق پر ہیں۔ اور اللہ نے اپنے دین کو غالب کرنے کا وعدہ کیا ہے ، پھر کیا وجہ ہے کہ آپﷺ نے قریش کا دباؤ قبول کیا۔ اور دب کر صلح کی ؟
یہ دونوں باتیں طرح طرح کے شکوک وشبہات اور گمان ووسوسے پیدا کررہی تھیں۔ ادھر مسلمانوں کے احساسات اس قدر مجروح تھے کہ وہ صلح کی دفعات کی گہرائیوں اور مآل پر غور کرنے کے بجائے حُزن وغم سے نڈھال تھے۔ اور غالباً سب سے زیادہ غم حضرت عمر بن خطابؓ کوتھا۔ چنانچہ انہوں نے خدمت ِ نبوی میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہم لوگ حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ انہوں نے کہا : کیاہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: تو پھر کیوں ہم اپنے دین کے بارے میں دباؤ قبول کریں ؟ اور ایسی حالت میں پلٹیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : خطاب کے صاحبزادے ! میں اللہ کا رسول ہو ں اور اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔ وہ میری مدد کرے گا۔ اور مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا ، انہوں نے کہا:کیاآپﷺ نے ہم سے یہ بیان نہیں کیا تھا کہ آپﷺ بیت اللہ کے پاس تشریف لائیں گے اور اس کا طواف
کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟لیکن کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم اسی سال آئیں گے ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو بہرحال تم بیت اللہ کے پاس آؤگے اور اس کا طواف کرو گے۔اس کے بعد حضرت عمرؓ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس پہنچے۔ اور ان سے وہی بات کہی جو رسول اللہﷺ سے کہی تھیں۔ اور انہو ں نے بھی ٹھیک وہی جواب دیا جو رسول اللہﷺ نے دیا تھا۔ اور اخیر میں اتنا اور اضافہ کیا کہ آپﷺ کی رکاب تھامے رہویہاں تک کہ موت آجائے کیونکہ اللہ کی قسم آپ حق پر ہیں۔
اس کے بعد إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا (۴۸: ۱)کی آیات نازل ہوئیں۔ جس میں اس صلح کو فتح ِ مبین قراردیا گیا ہے۔ اس کا نزول ہوا تو رسول اللہﷺ نے حضرت عمر بن خطابؓ کوبلایا اور پڑھ کرسنایا۔ وہ کہنے لگے : یارسول اللہ ! یہ فتح ہے ؟ فرمایا : ہاں۔ اس سے ان کے دل کو سکون ہوگیا۔ اور واپس چلے گئے۔
بعد میں حضرت عمرؓ کو اپنی تقصیر کا احساس ہوا تو سخت نادم ہوئے۔ خود ان کا بیان ہے کہ میں نے اس روز جو غلطی کی تھی اور جو بات کہہ دی تھی اس سے ڈرکر میں نے بہت سے اعمال کیے۔ برابر صدقہ وخیرات کرتا رہا۔ روزے رکھتا اور نماز پڑھتا رہا۔ اور غلام آزاد کرتا رہا ، یہاں تک کہ اب مجھے خیر کی امید ہے۔

مکمل تحریر >>

عمرہ سے حلال ہونے کے لئے قربانی اور بالوں کی کٹائی


رسول اللہﷺ معاہدہ ٔ صلح لکھوا کر فارغ ہوچکے تو فرمایا : اٹھو ! اور اپنے اپنے جانور قربان کردو ، لیکن واللہ کوئی بھی نہ اٹھا۔ حتیٰ کہ آپﷺ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔ مگر پھر بھی کوئی نہ اٹھا تو آپ اُم سلمہ ؓ کے پاس گئے۔ اور لوگوں کے اس پیش آمدہ طرزِ عمل کا ذکر کیا۔ ام المومنین نے کہا : یارسول اللہ! کیا آپﷺ ایسا چاہتے ہیں ؟ تو پھر آپﷺ تشریف لے جایئے اور کسی سے کچھ کہے بغیر چُپ چاپ اپنا جانور ذبح کردیجیے۔ اور اپنے حجام کو بلا کر سر منڈا لیجئے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ باہر تشریف لائے۔ اور کسی سے کچھ کہے بغیر یہی کیا۔ یعنی اپنا ہَدی کا جانور ذبح کردیا۔ اور حجام بلا کر سرمنڈا لیا۔ جب لوگوں نے دیکھا تو خود بھی اٹھ کر اپنے اپنے جانور ذبح کردیے۔ اور اس کے بعد باہم ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔ کیفیت یہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا فرطِ غم کے سبب ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔ اس موقعہ پر گائے اور اونٹ سات سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیے گئے۔ رسول اللہﷺ نے ابو جہل کا ایک اونٹ ذبح کیا۔ جس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مشرکین جل بھن کر رہ جائیں۔ پھر رسول اللہﷺ نے سرمنڈانے والوں کے لیے تین بار مغفرت کی دعا کی۔ اور قینچی سے کٹانے والوں کے لیے ایک بار۔ اسی سفر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت کعب بن عجرہ کے سلسلے میں یہ حکم بھی نازل فرمایا کہ جو شخص اذّیت کے سبب اپنا سر (حالت احرام میں ) منڈالے وہ روزے یا صدقے یا ذبیحے کی شکل میں فدیہ دے۔

اس کے بعد کچھ مومنہ عورتیں آگئیں۔ ان کے اولیاء نے مطالبہ کیا کہ حدیبیہ میں جو صلح مکمل ہوچکی ہے اس کی روسے انہیں واپس کیا جائے ، لیکن آپ نے یہ مطالبہ اس دلیل کی بنا پر مسترد کردیا کہ اس دفعہ کے متعلق معاہدے میں جو لفظ لکھاگیا تھا وہ یہ تھا :
(( وعلی أن لا یأتیک منا رجل وإن کان علی دینک إلا رددتہ علینا))
''اور (یہ معاہدہ اس شرط پر کیا جارہا ہے کہ ) ہمارا جو آدمی آپ کے پاس جائے گا آپ اسے لازما ً واپس کر دیں گے، خواہ وہ آپ ہی کے دین پر کیوں نہ ہو۔''(صحیح بخاری۱/۳۸۰)
لہٰذا عورتیں اس معاہدے میں سرے سے داخل ہی نہ تھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلے میں یہ آیت بھی نازل فرمائی :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَ‌اتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْ‌جِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ‌ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَ‌هُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ‌ (۶۰: ۱۰ )
یعنی ''اے اہل ایمان جب تمہارے پاس مومنہ عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو ان کا امتحان لو۔ اللہ ان کے ایمان کو بہتر جانتا ہے۔ پس اگر انہیں مومنہ جانو تو کفار کی طرف نہ پلٹاؤ۔ نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال ہیں۔ البتہ ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دیے تھے اسے واپس دے دو۔ (پھر ) تم پر کوئی حرج نہیں کہ ان سے نکاح کر لو جب کہ انہیں ان کے مہر ادا کرو۔ اور کافرہ عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھو۔''
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب کوئی مومنہ عورت ہجرت کرکے آتی تو رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں اس کا امتحان لیتے کہ
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِ‌كْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِ‌قْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِ‌ينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْ‌جُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُ‌وفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ‌ لَهُنَّ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (۶۰: ۱۲)
یعنی''اے نبی ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں آئیں اور اس بات پر بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی ، چوری نہ کریں گی ، زنانہ کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیا ن سے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی معروف بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی توان سے بیعت لے لو۔ اور ان کے لیے اللہ سے دعائے مغفرت کرو۔ یقینا اللہ غفور رحیم ہے۔ )''
چنانچہ جو عورتیں اس آیت میں ذکر کی ہوئی شرائط کی پابندی کا عہد کرتیں۔ آپ ان سے فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کر لی ، پھر انہیں واپس نہ پلٹا تے۔
اس حکم کے مطابق مسلمانوں نے اپنی کافرہ بیویوں کو طلاق دے دی۔ اس وقت حضرت عمر کی زوجیت میں دوعورتیں تھیں جو شرک پر قائم تھیں۔ آپ نے ان دونوں کوطلاق دے دی ، پھر ایک سے معاویہ نے شادی کرلی اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے۔

مکمل تحریر >>

ابو جندل رضی اللہ عنہ کی واپسی


نوشتہ صلح ابھی لکھا ہی جارہاتھا کہ سہیل کے بیٹے ابو جندل اپنی بیڑیاں گھسیٹتے آپہنچے۔ وہ زیریں مکہ سے نکل کر آئے تھے۔ انہوں نے یہاں پہنچ کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دیا۔ سہیل نے کہا : یہ پہلا شخص ہے جس کے متعلق میں آپ سے معاملہ کرتا ہوں کہ آپ اسے واپس کردیں۔
نبیﷺ نے فرمایا : ابھی تو ہم نے نوشتہ مکمل نہیں کیا ہے۔
اس نے کہا : تب میں آپ سے کسی بات پر صلح کا کوئی معاملہ ہی نہ کروں گا۔
نبیﷺ نے فرمایا: اچھا تو تم اس کو میری خاطر چھوڑدو۔ اس نے کہا : میں آپ کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ نے فرمایا : نہیں نہیں اتنا تو کرہی دو۔ اس نے کہا نہیں میں نہیں کرسکتا۔ پھر سہیل نے ابو جند ل کے چہرے پر چانٹا رسید کیا۔ اور مشرکین کی طرف واپس کرنے کے لیے ان کے کرتے کاگلا پکڑ کر گھسیٹا۔
ابو جندل زور زور سے چیخ کر کہنے لگے : مسلمانو! کیا میں مشرکین کی طرف واپس کیا جاؤں گا کہ وہ مجھے میرے دین کے متعلق فتنے میں ڈالیں ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ابو جندل ! صبر کرو۔ اور اسے باعث ِ ثواب سمجھو۔ اللہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ بنائے گا۔ ہم نے قریش سے صلح کر لی ہے۔ اور ہم نے ان کو اور انہوں نے ہم کواس پر اللہ کا عہد دے رکھا ہے۔ اس لیے ہم بد عہدی نہیں کرسکتے۔
اس کے بعد حضرت عمرؓ اچھل کر ابو جندل کے پاس پہنچے۔ وہ ان کے پہلو میں چلتے جارہے تھے اور کہتے جارہے تھے: ابو جندل ! صبر کرو۔ یہ لوگ مشرک ہیں۔ ان کا خون تو بس کتے کا خون ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی تلوار کا دستہ بھی ان کے قریب کرتے جارہے تھے۔
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ مجھے امید تھی کہ وہ تلوار لے کر اپنے باپ (سہیل ) کو اڑادیں گے ، لیکن انہوں نے اپنے باپ کے بارے میں بخل سے کام لیا۔ اور معاہدۂ صلح نافذ ہو گیا۔

مکمل تحریر >>

صلح اور دفعاتِ صلح


قریش نے صورتِ حال کی نزاکت محسوس کرلی۔ لہٰذا جھٹ سُہیل بن عَمرو کو معاملات صلح طے کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اور یہ تاکید کردی کہ صلح میں لازما ً یہ بات طے کی جائے کہ آپ اس سال واپس چلے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ عرب یہ کہیں کہ آپﷺ ہمارے شہر میں جبراً داخل ہوگئے۔ ان ہدایات کو لے کر سہیل بن عمرو آپﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ نبیﷺ نے اسے آتا دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا۔ تمہارا کا م تمہارے لیے سہل کردیا گیا۔ اس شخص کو بھیجنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ قریش صلح چاہتے ہیں۔ سُہیل نے آپﷺ کے پاس پہنچ کر دیر تک گفتگو کی۔ اور بالآخر طَرفَین میں صلح کی دفعات طے ہوگئیں جو یہ تھیں:
1. رسول اللہﷺ اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس جائیں گے۔ اگلے سال مسلمان مکہ آئیں گے۔ اور تین روز قیام کریں گے۔ ان کے ساتھ سوار کا ہتھیار ہوگا۔ میانوں میں تلواریں ہوں گی۔ اور ان سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا۔
2. دس سال تک فریقین جنگ بندرکھیں گے۔ اس عرصے میں لوگ مامون رہیں گے۔ کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا۔
3. جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکے گا۔ اور جو قریش کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکے گا۔ جو قبیلہ جس فریق میں شامل ہوگا اس فریق کا ایک جزو سمجھا جائے گا۔ لہٰذا ایسے کسی قبیلے پر زیادتی ہوئی تو خود اس فریق پر زیادتی متصور ہوگی۔
4. قریش کا جو آدمی اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر - یعنی بھاگ کر- محمد ﷺ کے پاس جائے گا محمدﷺ اسے واپس کردیں گے ، لیکن محمدﷺ کے ساتھیوں میں سے جو شخص - پناہ کی غرض سے بھاگ کر - قریش کے پاس آئے گا قریش اسے واپس نہ کریں گے۔
اس کے بعد آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بلایا کہ تحریر لکھ دیں۔ اور یہ املا کرایا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس پر سہیل نے کہا: ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہے ؟ آپ یوں لکھئے : باِسْمِک اللہمَّ (اے اللہ تیرے نام سے ) نبیﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ یہی لکھو۔ اس کے بعد آپ نے یہ املا کرایا۔ یہ وہ بات ہے جس پر محمد رسول اللہ نے مصالحت کی۔ اس پر سہیل نے کہا : اگر ہم جانتے کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں تو پھر ہم نہ تو آپ کو بیت اللہ سے روکتے ، اور نہ جنگ کرتے ، لیکن آپﷺ محمد بن عبد اللہ لکھوایئے۔ آپﷺ نے فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں اگر چہ تم لوگ جھٹلاؤ۔ پھر حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ محمد بن عبد اللہ لکھیں۔ اور لفظ ''رسول اللہ '' مٹادیں ، لیکن حضرت علیؓ نے گوارا نہ کیا کہ اس لفظ کو مٹائیں۔ لہٰذا نبیﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے مٹادیا۔ اس کے بعد پوری دستاویز لکھی گئی۔
پھر جب صلح مکمل ہوچکی تو بنو خُزاعہ رسول اللہﷺ کے عہدوپیمان میں داخل ہوگئے۔ یہ لوگ درحقیقت عبدالمطلب کے زمانے ہی سے بنوہاشم کے حلیف تھے جیسا کہ آغازِ کتاب میں گزرچکا ہے۔ اس لیے اس عہدوپیمان میں داخلہ درحقیقت اسی قدیم حلف کی تاکید اور پختگی تھی۔ دوسری طرف بنو بکر قریش کے عہدوپیمان میں داخل ہوگئے۔

مکمل تحریر >>

حضرت عثمان کی سفارت اور بیعتِ رضوان


رسول اللہﷺ نے سوچا کہ ایک سفیر روانہ فرمائیں جو قریش کے سامنے مؤکد طریقے پر آپ کے موجودہ سفر کے مقصد وموقف کی وضاحت کردے۔ اس کام کے لیے آپﷺ نے حضرت عمر بن خطابؓ کو بلایا لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ اے اللہ کے رسول ! اگر مجھے اذّیت دی گئی تو مکہ میں بنی کعب کا ایک فرد بھی ایسا نہیں جو میری حمایت میں بگڑ سکتا ہو۔ آپﷺ حضرت عثمان بن عفانؓ کو بھیج دیں۔ ان کا کنبہ قبیلہ مکہ ہی میں ہے۔ وہ آپﷺ کا پیغام اچھی طرح پہنچا دیں گے۔ آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو بلایا۔ اور قریش کے پاس روانگی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: انہیں بتلادو کہ ہم لڑنے نہیں آئے ہیں۔ عمرہ کرنے آئے ہیں۔ انہیں اسلام کی دعوت بھی دو۔ آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ مکہ میں اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے پاس جاکر انہیں فتح کی بشارت سنا دیں۔ اور یہ بتلادیں کہ اللہ عزوجل اب اپنے دین کومکہ میں ظاہر وغالب کرنے والا ہے۔ یہاں تک کہ ایمان کی وجہ سے کسی کو یہاں روپوش ہونے کی ضرورت نہ ہوگی۔
حضرت عثمانؓ آپﷺ کا پیغام لے کر روانہ ہوئے۔ مقام بلدح میں قریش کے پاس سے گذرے تو انہوں نے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے ؟ فرمایا: مجھے رسول اللہﷺ نے یہ اور یہ پیغام دے کر بھیجا ہے۔ قریش نے کہا : ہم نے آپ کی بات سن لی۔ آپ اپنے کام پر جایئے۔ ادھر سعید بن عاص نے اُٹھ کر حضرت عثمانؓ کو مرحبا کہا۔ اور اپنے گھوڑے پر زین کس کر آپ کو سوار کیا۔ اور ساتھ بٹھا کر اپنی پناہ میں مکہ لے گیا ، وہاں جاکر حضرت عثمانؓ نے سربراہان ِ قریش کو رسول اللہﷺ کا پیغام سنایا۔ اس سے فارغ ہوچکے تو قریش نے پیشکش کی کہ آپ بیت اللہ کا طواف کرلیں۔ مگر آپ نے یہ پیش کش مسترد کردی اور یہ گورا نہ کیا کہ رسول اللہﷺ کے طواف کرنے سے پہلے خود طواف کر لیں۔
حضرت عثما نؓ کی شہادت کی افواہ اور بیعت رضوان :
حضرت عثمانؓ اپنی سفارت کی مہم پوری کر چکے تھے ، لیکن قریش نے انہیں اپنے پاس روک لیا۔ غالباً وہ چاہتے تھے کہ پیش آمدہ صورتِ حال پر باہم مشورہ کر کے کوئی قطعی فیصلہ کرلیں اور حضرت عثمانؓ کو ان کے لائے ہوئے پیغام کا جواب دے کر واپس کریں، مگر حضرت عثمانؓ کے دیر تک رُکے رہنے کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے۔ جب رسول اللہﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا: ہم اس جگہ سے ٹل نہیں سکتے یہاں تک کہ لوگوں سے معرکہ آرائی کرلیں۔ پھر آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیعت کی دعوت دی۔ صحابہ کرام ٹوٹ پڑے۔ اور اس پر بیعت کی کہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتے۔ ایک جماعت نے موت پر بیعت کی۔ یعنی مر جائیں گے مگر میدان ِ جنگ نہ چھوڑیں گے۔ سب سے پہلے ابو سنان اسدی نے بیعت کی۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ نے تین بار بیعت کی۔ شروع میں ، درمیان میں اور اخیر میں۔ رسول اللہﷺ نے خود اپنا ہاتھ پکڑکر فرمایا: یہ عثمان کا ہاتھ ہے، پھر جب بیعت مکمل ہوچکی تو حضرت عثمانؓ بھی آگئے اور انہوں نے بھی بیعت کی۔ اس بیعت میں صرف ایک آدمی نے جو منافق تھا شرکت نہیں کی ، اس کا نام جد بن قیس تھا۔
رسول اللہﷺ نے یہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی۔ حضرت عمرؓ دست مبارک تھا مے ہوئے تھے۔ اور حضرت معقل بن یسارؓ نے درخت کی بعض ٹہنیاں پکڑ کر رسول اللہﷺ کے اوپر سے ہٹا رکھی تھیں۔ اسی بیعت کا نام بیعت ِ رضوان ہے۔ اور اسی کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے:
لَّقَدْ رَ‌ضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَ‌ةِ (۴۸: ۱۸)
''اللہ مومنین سے راضی ہوا۔ جب کہ وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے۔''

مکمل تحریر >>

قریش کے ایلچی


مکرز بن حفص کے واپس آجانے کے بعد حلیس بن علقمہ نامی بنوکنانہ کے ایک آدمی نے کہا: مجھے ان کے پاس جانے دو۔ لو گوں نے کہا: جاؤ۔ جب وہ نمودار ہوا تو نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : یہ فلاں شخص ہے۔ یہ ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جو ہَدْی کے جانوروں کا بہت احترام کرتی ہے۔لہٰذا جانوروں کو کھڑا کردو۔ صحابہ نے جانوروں کو کھڑا کردیا۔ اور خود بھی لبیک پکارتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ اس شخص نے یہ کیفیت دیکھی تو کہا : سبحان اللہ ! ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا ہرگز مناسب نہیں۔ اور وہیں سے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پلٹ گیا۔ اور بو لا : میں نے ہدی کے جانور دیکھے ہیں جن کے گلوں میں قلادے ہیں۔ اورجن کی کوہان چیری ہوئی ہیں۔ اس لیے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ انہیں بیت اللہ سے روکا جائے۔ اس پر قریش اور اس شخص میں کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ وہ تاؤ میں آگیا۔
اس موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے مداخلت کی اور بو لا : اس شخص (محمدﷺ ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز پیش کی ہے۔ لہٰذا اسے قبول کرلو۔ اور مجھے ان کے پاس جانے دو۔ لوگوں نے کہا : جاؤ ! چنانچہ وہ آپ کے پاس حاضر ہوا۔ اور گفتگو شروع کی۔ نبیﷺ نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی۔ اس پر عروہ نے کہا : اے محمد ! یہ بتایئے کہ اگر آپ نے اپنی قوم کا صفایا بھی کردیا تو کیا اپنے آپ سے پہلے کسی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا صفایا کردیا ہو۔ اور اگر دوسری صورتِ حال پیش آئی تو اللہ کی قسم! میں ایسے چہرے اور ایسے اوباش لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو اسی لائق ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ اس پر حضرت ابو بکرؓ نے کہا: لات (بت) کی شرمگاہ کا لٹکتا ہوا چمڑا چوس۔ ہم حضور کو چھوڑ کر بھاگیں گے ؟ عروہ نے کہا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا : ابو بکرؓ ہیں۔ اس نے حضرت ابو بکر کو مخاطب کرکے کہا : دیکھو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی کہ تم نے مجھ پر ایک احسان کیا تھا اور میں نے اس کا بدلہ نہیں دیا ہے ، تو میں یقینا تمہاری اس بات کا جواب دیتا۔
اس کے بعد عروہ پھر نبیﷺ سے گفتگو کرنے لگا۔ وہ جب گفتگو کرتا تو آپ کی ڈاڑھی پکڑ لیتا۔ مغیرہ بن شعبہؓ نبیﷺ کے سر کے پاس ہی کھڑے تھے۔ ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خُود ، عروہ جب نبیﷺ کی داڑھی پر ہاتھ بڑھاتا تو وہ تلوار کے دستے سے اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ نبیﷺ کی داڑھی سے پرے رکھ۔ آخر عروہ نے اپناسر اٹھایا ، اور بولا: یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ اس پر اس نے کہا: ... او ...بدعہد ... ! کیا میں تیری بدعہدی کے سلسلے میں دوڑ دھوپ نہیں کررہا ہوں ؟ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ جاہلیت میں حضرت مغیرہ کچھ لوگوں کے ساتھ تھے۔ پھر انہیں قتل کرکے ان کا مال لے بھاگے تھے۔ اور آکر مسلمان ہوگئے تھے۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ میں اسلام تو قبول کرلیتا ہوں ، لیکن مال سے میرا کوئی واسطہ نہیں (اس معاملے میں عروہ کے دوڑدھوپ کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مغیرہ اس کے بھتیجے تھے )
اس کے بعد عروہ نبیﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کے تعلق ِ خاطر کا منظر دیکھنے لگا۔ پھر اپنے رفقاء کے پاس واپس آیا اور بولا : اے قوم ! واللہ میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس جاچکا ہوں۔ واللہ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اُس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد کے ساتھی محمدﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! وہ کھنکار بھی تھوکتے تھے تو کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا تھا۔ اور وہ شخص اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا۔ اور جب وہ کوئی حکم دیتے تھے تواس کی بجاآوری کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے۔ اور جب وضو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ اس کے وضو کے پانی کے لیے لوگ لڑپڑیں گے۔ اور جب کوئی بات بولتے تھے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے تھے۔ اور فرطِ تعظیم کے سبب انہیں بھرپورنظر نہ دیکھتے تھے۔ اور انہوں نے تم پر ایک اچھی تجویز پیش کی ہے۔ لہٰذااسے قبول کرلو۔ وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے روکے :
جب قریش کے پُر جوش اور جنگ بازنوجوان نے دیکھا کہ ان کے سر برآوردہ حضرات صلح کے جو یا ہیں تو انہوں نے صلح میں ایک رخنہ اندازی کا پروگرام بنایا۔ اور یہ طے کیا کہ رات میں یہاں سے نکل کر چپکے سے مسلمانوں کے کیمپ میں گھس جائیں اور ایسا ہنگامہ برپا کردیں کہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھے۔ پھر انہوں نے اس پروگرام کی تنفیذ کے لیے عملی قدم بھی اٹھا یا۔ چنانچہ رات کی تاریکی میں ستر یااسیّ نوجوانوں نے جبل تنعیم سے اتر کر مسلمانوں کے کیمپ میں چپکے سے گھسنے کی کوشش کی لیکن اسلامی پہرے داروں کے کمانڈر محمد بن مسلمہ نے ان سب کو گرفتار کر لیا پھر نبیﷺ نے صلح کی خاطر ان سب کو معاف کرتے ہوئے آزاد کر دیا۔ اسی کے بارے میں اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا :
وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَ‌كُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرً‌ا (۴۸: ۲۴)
''وہی ہے جس نے بطن ِ مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے روکے۔ اور تمہارے ہاتھ ان سے روکے۔ اس کے بعد کہ تم کو ان پر قابو دے چکا تھا۔''

مکمل تحریر >>

بیت اللہ سے مسلمانوں کو روکنے کی کوشش


ادھر قریش کو رسول اللہﷺ کی روانگی کا عِلم ہوا تو اس نے ایک مجلس ِ شوریٰ منعقد کی۔ اور طے کیا کہ جیسے بھی ممکن ہو مسلمانوں کو بیت اللہ سے دور رکھا جائے چنانچہ رسول اللہﷺ نے جب احابیش سے ہٹ کر اپنا سفر جاری رکھاتو بنی کعب کے ایک آدمی نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ قریش نے مقام ذی طویٰ میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے اور خالد بن ولید دوسو سواروں کا دستہ لے کر کُرَاع الغمیم میں تیا ر کھڑے ہیں (کُراع الغمیم ، مکہ جانے والی مرکزی اور کاروانی شاہراہ پر واقع ہے ) خالد نے مسلمانوں کو روکنے کی بھی کوشش کی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سواروں کو ایسی جگہ تعینات کیا جہاں سے دونوں فریق ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ خالد نے ظہر کی نماز میں یہ بھی دیکھا کہ مسلمان رکوع اور سجدے کررہے ہیں تو کہنے لگے کہ یہ لوگ غافل تھے۔ ہم نے حملہ کردیا ہوتا تو انھیں مارلیاہوتا۔ اس کے بعد طے کیا کہ عصر کی نماز میں مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑیں گے ، لیکن اللہ نے اسی دوران صلوٰۃ خوف (حالت جنگ کی مخصوص نماز) کا حکم نازل کردیا۔ اور خالد کے ہاتھ سے موقع جاتا رہا۔
خونریز ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش اور راستے کی تبدیلی :
ادھر رسول اللہﷺ کُراع الغمیم کا مرکزی راستہ چھوڑ کر ایک دوسرا پُر پیچ راستہ اختیار کیا جو پہاڑی گھاٹیوں کے درمیان سے ہوکر گزرتا تھا۔ یعنی آپ داہنے جانب حمش کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک ایسے راستے پر چلے جو ثنیۃ المرار پر نکلتا تھا۔ ثنیۃالمرار سے حدیبیہ میں اترتے ہیں۔ اور حدیبیہ مکہ کے زیریں علاقہ میں واقع ہے۔ اس راستے کو اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کُراع الغمیم کا وہ مرکزی راستہ جو تنعیم سے گزر کر حرم تک جاتا تھا ، اور جس پر خالد بن ولید کا رسالہ تعینات تھا وہ بائیں جانب چھوٹ گیا۔ خالد نے مسلمانوں کے گرد وغبار کو دیکھ کر جب یہ محسوس کیاکہ انہوں نے راستہ تبدیل کردیا ہے تو گھوڑے کو ایڑ لگائی اور قریش کو اس نئی صورت ِ حال کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے بھاگم بھاگ مکہ پہنچے۔
ادھر رسول اللہﷺ نے اپنا سفر بدستور جاری رکھا ، جب ثنیۃ المرار پہنچے تو اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگو ں نے کہا : حل حل ، لیکن وہ بیٹھی ہی رہی۔ لوگوں نے کہا : قصواء اڑگئی ہے۔ آپ نے فرمایا :قصواء اڑی نہیں ہے اور نہ اس کی یہ عادت ہے ، لیکن اسے اس ہستی نے روک رکھا ہے جس نے ہاتھی کوروک دیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ لوگ کسی بھی ایسے معاملے کا مطالبہ نہیں کریں گے جس میں اللہ کی حُرمتوں کی تعظیم کررہے ہوں لیکن میں اسے ضرور تسلیم کر لوں گا۔ اس کے بعد آپ نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی ، پھر آپ نے راستہ میں تھوڑی سی تبدیلی کی اور اقصائے حدیبیہ میں ایک چشمہ پر نزول فرمایا۔ جس میں تھو ڑا سا پانی تھا اور اسے لوگ ذراذرا سالے رہے تھے، چنانچہ چند ہی لمحوں میں ساراپانی ختم ہوگیا۔ اب لوگوں نے رسول اللہﷺ سے پیاس کی شکایت کی۔ آپ نے ترکش سے ایک تیر نکالا۔ اور حکم دیا کہ چشمے میں ڈال دیں۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد واللہ! اس چشمے سے مسلسل پانی ابلتا رہا یہاں تک کہ تمام لوگ آسودہ ہوکر واپس ہوگئے۔
بدیل بن ورقاء کا توسط :
رسول اللہﷺ مطمئن ہوچکے تو بُدَیل بن ورقاء خزاعی اپنے قبیلہ خزاعہ کے چند افراد کی معیّت میں حاضر ہوا۔ تہامہ کے باشندوں میں یہی قبیلہ (خزاعہ ) رسول اللہﷺ کا خیر خواہ تھا۔ بدیل نے کہا : میں کعب بن لؤی کو دیکھ کر آرہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے فراواں پانی پر پڑ اؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے ہمراہ عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ وہ آپ سے لڑنے اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں۔ قریش کو لڑائیوں نے توڑ ڈالا ہے۔ اور سخت ضرر پہنچا یا ہے اس لیے اگر وہ چاہیں تو ان سے ایک مدت طے کرلوں۔ اور وہ میرے اور لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ اور اگر وہ چاہیں تو جس چیز میں لوگ داخل ہوئے ہیں اس میں وہ بھی داخل ہوجائیں۔ورنہ ان کو راحت تو حاصل ہی رہے گی۔
اور اگر انہیں لڑائی کے سو ا کچھ منظور نہیں تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اپنے دین کے معاملے میں ان سے اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک کہ میری گردن جدا نہ ہوجائے یا جب تک اللہ اپنا امر نافذنہ کردے۔
بُدَیل نے کہا : آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں میں اسے قریش تک پہنچادوںگا۔ اس کے بعد وہ قریش کے پاس پہنچا۔ اور بولا: میں ان صاحب کے پا س سے آرہا ہوں میں نے ان سے ایک بات سنی ہے ، اگر چاہو تو پیش کردوں۔ اس پر بیوقوفوں نے کہا:ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہم سے ان کی کوئی بات بیان کرو۔لیکن جو لوگ سوجھ بوجھ رکھتے تھے انہوں نے کہا : لاؤ سناؤ تم نے کیا سنا ہے ؟ بدیل نے کہا : میں نے انہیں یہ اور یہ بات کہتے سنا ہے۔ اس پر قریش نے مکرز بن حفص کو بھیجا۔ اسے دیکھ کر رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ بد عہد آدمی ہے، چنانچہ جب اس نے آپ کے پاس آکر گفتگوکی تو آپ نے اس سے وہی بات کہی جو بدیل اور ا س کے رفقاء سے کہی تھی۔ اس نے واپس پلٹ کر قریش کو پوری بات سے باخبر کیا۔

مکمل تحریر >>

صلح حدیبیہ ذوالقعدہ ٦ ھجری- پس منظر


پس منظر :
ہجرت کا پانچواںسال غزؤہ خندق پر ختم ہوا، آغاز ۶ ہجری سے صلح حُدیبیہ تک جتنے غزوات و سرایہ ہوئے ان کی تعداد سترہ ہے جو تمام تادیبی ہیں،ہجرت کے بعد حضور ﷺ نے مدینہ منورہ کی خارجی حفاظت کے لئے یہ تدبیر اختیار کی کہ مدینہ سے باہر کے قبائل کو مصالحت کا پیغام دیا جائے اور ایسی صورت اختیار کی جائے کہ قریش جن کی نخوت اور غرور کا پارہ سارے قبائل عرب سے اونچا ہے وہ بھی مصالحت پر آمادہ ہوجائیں، چنانچہ اس کے لئے آپﷺ نے بذات خود مدینہ سے قبائل عرب کا سفر کیا اور مختلف قبائل سے مصالحت فرمائی، قریش سے مصالحت کا معاملہ نہایت اہم تھا، مٹھی بھر بے سر و سامان مسلمانوں کے مقابلہ میں مصالحت کے لفظ کا سننا بھی ان کے لئے توہین کا باعث تھا ، ان کے لئے براہ راست پیغام مصالحت کے بجائے ایسے اسباب کا پیدا کرنا مناسب سمجھا گیا جو ان کو صلح پر مجبور کردیں ،اس سارے جتن کا مقصد یہ تھا کہ اس مصالحت سے عالمی مشن کی عالمی دعوت کے لئے راہ کھل جائے جس کے لئے آپﷺ ہجرت اور انصار کی بیعت سے پہلے ہر قبیلے کے پاس جاتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ تم ہماری حفاظت کی ذمہ داری لے لو تاکہ تمھاری پناہ میں دنیا کو میں خدا کا پیغام پہنچادوں جس کو لے کر میں مبعوث ہوا ہوں ، غزؤہ خندق کے بعد آپﷺ نے یہ اعلان فرمایا کہ :" اب ہم ان لوگوں پر حملہ کریں گے، وہ لوگ ہم پر حملہ نہیں کریں گے، ہم ہی ان کی طرف بڑھیں گے،
(بخاری)

یعنی آپﷺ نے اس کا پورا پورا اندازہ فرمالیا کہ قریش میں بداہتاً اب اس کی طاقت نہیں رہی کہ وہ اپنی جنگی طاقت سے اسلام اور مسلمانوں کا استیصال کر سکیں گے ؛بلکہ ہم ہی ان پر چڑھائی کریں گے، اسی کے ساتھ آپﷺ نے یہ بھی اندازہ فرمایا کہ اب اس حالت میں کہ وہ غزؤہ خندق سے خائب و خاسر لوٹے ہیں اور اپنی کامیابی سے مایوس ہو چکے ہیں اور ان کی امیدیں منقطع ہوچکی ہیں قدرتی طور پر ان کی نخوت و غرور کا پارہ نیچے اتر چکا ہوگا اور اب ان کا قومی مزاج اس قابل ہوگیاہوگا کہ صلح کی دعوت کارگر ہو، اب آپﷺ کے سامنے دو صورتیں تھیں :
۱) فدائیوں اور جانثاروں کی جماعت کو لے کر ان پر حملہ آور ہوں اور ان کے ساتھ بھی تادیبی معاملہ کریں اور ان کی ظلم کشی اور مسلمانوں کے ان جانی و مالی نقصان کا بھر پور انتقام لیں جو انھوں نے مسلسل ابتدا ئے بعثت سے لے کر غزؤہ خندق تک پورے اٹھارہ سال پہنچائے اور اس سلسلہ میں کوئی دقیقہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اٹھا نہیں رکھا،
۲) دوسرے یہ کہ صلح کا پیغام دیا جائے اور اس طریقہ سے دیا جائے اور موثر اور کارگر ہو اور ان کو یہ احساس نہ ہو کہ تلوار کے نیچے اپنی طاقت کے بل پر ہم سے جبراً صلح کا معاہدہ لکھوایاجارہاہے،
آپﷺ نے تادیب کی پہلی صورت کے مقابلہ میں دوسری صورت کو پسند فرمایا، اس کی دو وجوہ تھیں :
اول یہ کہ آپﷺ کا مقصد صرف یہ تھا کہ " عالمی مشن کی عالمی دعوت کی راہ سے مزاحمت ختم ہوجائے اور قریش دعوت حق کو کھلے دل سے بلا جبر و اکراہ اختیار کریں ، آپﷺ کا مقصد اور آپﷺ کی پالیسی ہرگز یہ نہیں تھی کہ قریش کا یا ان جیسے دشمن اسلام کا استیصال کردیاجائے یا ان کو اسلام لانے پر مجبور کیاجائے یا اسلام قبول نہ کرنے پر اور اس کی دعوت کو رد کردینے کی بنا پر ان کو جانی و مالی نقصان پہنچایاجائے کیونکہ اسلام میں نہ ایسے اسلام کی کوئی قیمت ہے اور نہ ایسا اسلام قابل اعتبار ہے جو کھلے دل سے بلا جبر و اکراہ نہ قبول کیا گیا ہو ،دوم یہ کہ اسلامی نقطہ نظر سے آپﷺ صلح ہی کو اسلام کی فتح بھی سمجھتے تھے اور عالمی مشن کی عالمی دعوت کی کامیابی اور اثر اندازی کے لئے اختلاط ، میل جول ، صلح و آتشی اور کھلے دل سے باہمی تبادلہ خیال اور گفتگو کے مواقع کو ضروری سمجھتے تھے جو مصالحت ہی کی راہ سے حاصل ہوسکتے تھے،چنانچہ صلح حُدیبیہ سے فارغ ہو کر جب آپﷺ چلے تو پہلی منزل یا دوسری منزل پر آپﷺ کو حق تعالیٰ کی جانب سے اس مصالحت پر ان الفاظ میں مبارکباد دی گئی:
" (اے پیغمبر) بے شک ہم نے تم کو ایک کھلی فتح دی"
(سورہ ٔ فتح : ۱)

واقعتاً صلح حُدیبیہ کے بعد باہمی اختلاط کا کیا اثر ہوا؟ تما م مورخین کا متفقہ بیان ہے کہ صلح حُدیبیہ سے لے کر فتح مکہ تک یعنی دو برس کے اندر کثرت سے اتنے لوگوں نے کھلے دل سے اسلام قبول کیا کہ اس اٹھارہ انیس سال میں اتنے لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیاتھا،بہر حال آپﷺ نے مصالحت کی راہ کو اختیار کیا اور اس کے لئے یہ موثر صورت اختیار کی کہ آپﷺ نے عمرہ کا عزم کیا اور اس کے ذیل میں پیغام صلح کو رکھا تاکہ دل میں اس کا معمولی خطرہ بھی پیدا نہ ہو کہ محمدﷺ کے ساتھ چودہ ، پندرہ سو فدائیوں کا جو جتھا ہے اور سب کے سب احرام باندھے ہوئے ہیں اور جنگی ہتھیاروں سے خالی ہیں یہ مکہ پر چڑھائی کے لئے آرہے ہیں، اگلے واقعات بتائیں گے کہ آپﷺ کا اندازہ صحیح ثابت ہوا کہ قریش کے قومی مزاج میں مصالحت کی قبولیت کی استعداد پیداہوگئی تھی چنانچہ جب حُدیبیہ میں آپﷺ نے قریش کو پیغام صلح دیا تو رد و کد کے بعد یہ پیغام کامیا ب ہوا اور حُدیبیہ میں صلح ہوگئی اور حضور ﷺ کا عمرہ کے ذیل میں پیغام صلح کو رکھنا نہایت موثر ثابت ہوا اور معاہدہ صلح پر سکون فضا میں طئے ہوا،
( پیغمبر عالم )

مکمل تحریر >>

٦ ھجری کے سرایہ


یہ سریہ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کی قیادت میں شعبان ۶ ھ میں بھیجا گیا۔رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے سامنے بٹھا کر خود اپنے دستِ مبارک سے پگڑی باندھی۔ اورلڑائی میں سب سے اچھی صورت اختیار کرنے کی وصیت فرمائی۔ اور فرمایا کہ اگر وہ لوگ تمہاری اطاعت کرلیں تو تم ان کے بادشاہ کی لڑکی سے شادی کرلینا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے وہاں پہنچ کر تین روز پیہم اسلام کی دعوت دی۔ بالآخر قو م نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے تماضر بنت اصبغ سے شادی کی۔ یہی حضرت عبد الرحمن کے صاحبزادے ابو سلمہ کی ماں ہیں۔اس خاتون کے والد اپنی قوم کے سردار اور بادشاہ تھے۔
7۔ سر یہ دیار بنی سعد۔ علاقہ فدک :
یہ سریہ شعبان ۶ ھ میں حضرت علیؓ کی سرکردگی میں روانہ کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول اللہﷺ کو معلوم ہوا کہ بنو سعد کی ایک جمعیت یہود کو کمک پہنچا نا چاہتی ہے، لہٰذا آپﷺ نے حضرت علیؓ کو دوسو آدمی دے کر روانہ فرمایا۔ یہ لوگ رات میں سفر کرتے اور دن میں چھپے رہتے تھے ، آخر ایک جاسوس گرفت میں آیا اور اس نے اقرار کیا کہ ان لوگوں نے خیبر کی کھجور کے عوض امداد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے جاسوس نے یہ بھی بتلایا کہ بنو سعد نے کس جگہ جتھ بندی کی ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے ان پر شبخون مار کر پانچ سو اونٹ اور دوہزار بکریوں پر قبضہ کرلیا۔ البتہ بنو سعد اپنی عورتوں بچوں سمیت بھاگ نکلے ان کا سردار وبر بن علیم تھا۔
8۔ سریہ وادی القری:
یہ سریہ حضر ت ابو بکر صدیقؓ یا حضرت زید بن حارثہؓ کے زیر قیادت رمضان ۶ ھ میں روانہ کیا گیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بنو فزارہ کی ایک شاخ نے دھوکے سے رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ لہٰذا آپﷺ نے ابو بکر صدیقؓ کو روانہ فرمایا۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ کا بیان ہے کہ اس سریہ میں مَیں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ جب ہم صبح کی نماز پڑھ چکے تو آپ کے حکم سے ہم لوگوں نے چھاپہ مارا۔ اور چشمے پر دھاوا بول دیا۔ ابو بکر صدیقؓ نے کچھ لوگوں کو قتل کیا۔ میں نے ایک گروہ کو دیکھا جس میں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ لوگ مجھ سے پہلے پہاڑ پر نہ پہنچ جائیں۔ اس لیے میں نے ان کو جالیا اور ان کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر چلایا۔ تیر دیکھ کر یہ لوگ ٹھہر گئے۔ ان میں ام قرفہ نامی ایک عورت تھی جس کے اوپر ایک پرانی پوستین تھی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی جو عرب کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے تھی۔ میں ان سب کو ہانکتا ہوا ابو بکر صدیقؓ کے پاس لے آیا۔ انہوں نے وہ لڑکی مجھے عطاکی ، لیکن میں نے اس کا کپڑا نہ کھولا۔ بعد میں رسول اللہﷺ نے یہ لڑکی حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے مانگ لی اور اس کے عوض متعدد مسلمان قیدیوں کو رہا کرا لیا۔( صحیح مسلم ۲/۸۹)
ام قرفہ ایک شیطان عورت تھی۔نبیﷺ کے قتل کی تدبیریں کیا کرتی تھی۔ اور ا س مقصد کے لیے اس نے اپنے خاندان کے تیس سوار بھی تیار کیے تھے ، لہٰذا اسے ٹھیک بدلہ مل گیا اور اس کے تیسوں سوار مارے گئے۔
9۔ سر یہ عرنییّن :
یہ سریہ شوال ۶ ھ میں حضرت کرز بن جابر فہریؓ (یہ وہی حضرت کرز بن جابر فہری ہیں جنہوں نے غزوہ بدر سے پہلے غزوہ سفوان میں مدینہ کے چوپایوں پر چھاپہ مارا تھا۔ بعد میں انہوں نے اسلام قبول کیا اور فتح مکہ کے موقع پر خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے)کی قیادت میں روانہ کیا گیا اس کا سبب یہ ہوا کہ عکل اور عُرینہ کے چند افراد نے مدینہ آکر اسلام کا اظہار کیا اور مدینہ ہی میں قیام کیا ، لیکن ان کے لیے مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی اور نبیﷺ نے انھیں چند اونٹوں کے ساتھ چراگاہ بھیج دیا اور حکم دیا کہ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیئیں۔ جب یہ لوگ تندرست ہوگئے تو رسول اللہﷺ کے راعی کو قتل کردیا۔ اونٹوں کو ہانک لے گئے۔ اور اظہارِ اسلام کے بعد اب پھر کفر اختیار کیا۔ لہٰذارسول اللہﷺ نے ان کی تلاش کے لیے کرز بن جابر فہری کو بیس صحابہ کی معیت میں روانہ فرمایا، اور یہ دعافرمائی کہ : اے اللہ عُرنیوں پر راستہ اندھا کردے اور کنگن سے بھی زیادہ تنگ بنا دے۔ اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی ، ان پر راستہ اندھا کردیا۔ چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور انہوں نے مسلمان چرواہوں کے ساتھ جو کچھ کیا تھا اس کے قصاص اور بدلے کے طور پر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے۔ آنکھیں داغ دی گئیں۔ اور انھیں حرّہ کے ایک گوشے میں چھوڑ دیا گیا۔ جہاں وہ زمین کریدتے کریدتے اپنے کیفر ِ کردار کو پہنچ گئے ۔ان کا واقعہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت انسؓ سے مروی ہے۔( زاد المعاد ۲/۱۲۲ مع بعض اضافات، صحیح بخاری ۲/۶۰۲)

یہ ہیں وہ سرایا اور غزوات جو جنگ ِ احزاب وبنی قریظہ کے بعد پیش آئے۔ ان میں سے کسی بھی سریے یا غزوے میں کوئی سخت جنگ نہیں ہوئی۔ صرف بعض بعض میں معمولی قسم کی جھڑپیں ہوئیں۔ لہٰذا ان مہموں کو جنگ کے بجائے طلایہ گردی ، فوجی گشت اور تادیبی نقل وحرکت کہا جاسکتا ہے۔ جس کا مقصد ڈھیٹ بدوؤں اور ا کڑے ہوئے دشمنوں کو خوفزدہ کرنا تھا۔
حالات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ غزوۂ احزاب کے بعد صورت ِ حال میں تبدیلی شروع ہوگئی تھی اور اعدائے اسلام کے حوصلے ٹوٹتے جارہے تھے۔ اب انہیں یہ امید باقی نہیں رہ گئی تھی کہ دعوتِ اسلام کوتوڑا اور اس کی شوکت کو پامال کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ تبدیلی ذرا اچھی طرح کھل کر اس وقت رونما ہوئی جب مسلمان صلح حدیبیہ سے فارغ ہوچکے۔ یہ صلح دراصل اسلامی قوت کا اعتراف اور اس بات پر مہر تصدیق تھی کہ اب اس قوت کو جزیرہ نمائے عرب میں باقی اور برقراررکھنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔

مکمل تحریر >>

غزوہِ احزاب اور قریظہ کے بعد کی جنگی مہمات - غزوہ بنی مصطلق یا غزوہِ مریسیع


یہ غزوہ جنگی نقطۂ نظر سے کوئی بھاری بھرکم غزوہ نہیں ہے مگر اس حیثیت سے اس کی بڑی اہمیت ہے کہ اس میں چند واقعات ایسے رُونما ہوئے جن کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں اضطراب اور ہلچل مچ گئی۔ اور جس کے نتیجے میں ایک طرف منافقین کا پردہ فاش ہو ا۔ تو دوسری طرف ایسے تعزیری قوانین نازل ہوئے جن سے اسلامی معاشرے کو شرف وعظمت اور پاکیزگی کی ایک خاص شکل عطا ہوئی۔ ان میں ایک افک کا واقعہ اور حضور کی حضرت زینب کے ساتھ شادی کا واقعہ قابل ذکر ہے، ان دونوں واقعات ، ان پر منافقین کی بدزبانیاں اور پھر اس پر قرآن کی جو آیات نازل ہوئیں انکا تذکرہ گزشتہ تحاریر میں آچکا۔
یہ غزوہ --- عام اہل سیر کے بقول شعبان ۵ ھ میں اور ابن اسحاق کے بقول ۶ ھ1میں پیش آیا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ نبیﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ بنو المصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار آپ سے جنگ کے لیے اپنے قبیلے اور کچھ دوسرے عربوں کو ساتھ لے کر آرہا ہے۔ آپ نے بریدہ بن حصیب اسلمیؓ کو تحقیق حال کے لیے روانہ فرمایا۔ انہوں نے اس قبیلے میں جاکر حارث بن ضرار سے ملاقات کی اور بات چیت کی۔ اور واپس آکر رسول اللہﷺ کو حالات سے باخبر کیا۔
جب آپﷺ کو خبر کی صحت کا اچھی طرح یقین آگیا تو آپﷺ نے صحابہ کرام کو تیاری کا حکم دیا اور بہت جلد روانہ ہوگئے۔ روانگی ۲/شعبان کوہوئی۔ اس غزوے میں آپ کے ہمراہ منافقین کی بھی ایک جماعت تھی۔ جو اس سے پہلے کسی غزوے میں نہیں گئی تھی۔ آپ نے مدینہ کا انتظام حضرت زید بن حارثہ کو (اور کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو ذر کو ، اور کہا جاتا ہے کہ نمیلہ بن عبد اللہ لیثی کو ) سونپا تھا۔ حارث بن ابی ضرار نے اسلامی لشکرکی خبر لانے کے لیے ایک جاسوس بھیجا تھا ، لیکن مسلمانوں نے اسے گرفتار کرکے قتل کردیا۔
جب حارث بن ابی ضرار اور اس کے رفقاء کو رسول اللہﷺ کی روانگی اور اپنے جاسوس کے قتل کیے جانے کا علم ہوا تو وہ سخت خوفزدہ ہوا۔ اور جو عرب ان کے ساتھ تھے ، وہ سب بکھر گئے۔ رسول اللہﷺ چشمۂ مریسیع(مریْسیع۔ م کو پیش۔ اور ر کو زبر ، قدید کے اطراف میں ساحل سمندر کے قریب بنو مصطلق کے ایک چشمے کا نام تھا) تک پہنچے تو بنو مصطلق آمادہ ٔ جنگ ہوگئے۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام نے بھی صف بندی کر لی۔ پورے اسلامی لشکر کے علمبردار حضرت ابو بکرؓ تھے اور خاص انصار کا پھریرا حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاتھ میں تھا کچھ دیر فریقین میں تیروں کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد رسو ل اللہﷺ کے حکم سے صحابہ کرام نے یکبارگی حملہ کیا۔ اور فتح یاب ہوگئے ، مشرکین نے شکست کھائی۔ کچھ مارے گئے۔ مسلمان کا صرف ایک آدمی ماراگیا۔ اسے ایک انصار ی نے دشمن کا آدمی سمجھ کر مار دیا تھا۔
۔( صحیح بخاری کتاب العتق ۱/۳۴۵ فتح الباری ۵/۲۰۲ ، ۷/۴۳۱)
قیدیوں میں حضرت جویریہ ؓ بھی تھیں۔ جو بنو المصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرارکی بیٹی تھیں۔ وہ ثابت بن قَیس کے حصے میں آئیں۔ ثابت نے انہیں مکاتب بنا لیا۔( مکاتب اس غلام یا لونڈی کو کہتے ہیں جو اپنے مالک سے یہ طے کر لے کہ وہ ایک مقررہ رقم مالک کو ادا کر کے آزاد ہوجائیگا)۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان کی جانب سے مقررہ رقم ادا کرکے ان سے شادی کرلی۔ اس شادی کی وجہ سے مسلمانوں نے بنو المصطلق کے ایک سو گھرانوں کو جو مسلمان ہوچکے تھے۔ آزاد کردیا۔ کہنے لگے کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے سسرال کے لوگ ہیں۔( زادالمعاد ۲/۱۱۲، ۱۱۳ ابن ہشام ۲۸۹، ۲۹۰ ، ۲۹۴ ، ۲۹۵)

مکمل تحریر >>

غزوہِ احزاب اور قریظہ کے بعد کی جنگی مہمات - غزوہ بنو لحیان اور سریہَ خبط


بنو لحیان وہی ہیں جنہوں نے مقام رجیع میں دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے گھیر کر آٹھ کو قتل کردیا تھا۔ اور دو کو اہل ِ مکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا۔ جہاں وہ بے دردی سے قتل کردیئے گئے تھے لیکن چونکہ ان کا علاقہ حجاز کے اندر بہت دور حدودِ مکہ سے قریب واقع تھا ، اور اس وقت مسلمانوں اور قریش واعراب کے درمیان سخت کشاکش برپا تھی، اس لیے رسول اللہﷺ اس علاقے میں بہت اندر گھُس کر ''بڑے دشمن '' کے قریب چلے جانا مناسب نہیں سمجھتے تھے ، لیکن جب کفار کے مختلف گروہوں کے درمیان پھوٹ پڑگئی۔ ان کے عزائم کمزور پڑ گئے۔ اور انہوں نے حالات کے سامنے بڑی حد تک گھٹنے ٹیک دیئے تو آپﷺ نے محسوس کیا کہ اب بنو لحیان سے رجیع کے مقتولین کا بدلہ لینے کا وقت آگیا ہے۔ چنانچہ آپ نے ربیع الاول یا جمادی الاولیٰ ۶ ھ میں دوسو صحابہ کی معیت میں ان کا رُخ کیا۔ مدینے میں حضرت ابن ام مکتوم کو اپنا جانشین بنایا۔ اور ظاہر کیا کہ آپ ملک شام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد آپﷺ یلغار کرتے ہوئے امج اور عسفان کے درمیان بطن غران نامی ایک وادی میں -جہاں آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا گیا ‘ پہنچے اور ان کے لیے رحمت کی دعائیں کیں۔ ادھر بنو لحیان کو آپ کی آمد کی خبر ہوگئی تھی۔ اس لیے وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر نکل بھاگے۔ اور ان کا کوئی آدمی گرفت میں نہ آسکا۔ آپﷺ نے انکی سر زمین میں دوروز قیام فرمایا۔ اس دوران سریے بھی بھیجے ، لیکن بنو لحیان نہ مل سکے۔ اس کے بعد آپﷺ نے عسفان کا قصد کیا۔ اور وہاں سے دس شہسوار کو کراع الغمیم بھیجا تاکہ قریش کو بھی آپ کی آمد کی خبر ہو جائے۔ اس کے بعد آپ کل چودہ دن مدینے سے باہر گزار کر مدینہ واپس آگئے۔
4.سریہ ٔخبط:
ا س سریہ کا زمانہ رجب ۸ ھ بتایا جاتا ہے مگر سیاق بتاتا ہے کہ یہ حدیبیہ سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ نبیﷺ نے تین سو سواروں کی جمعیت روانہ فرمائی۔ ہمارے امیر ابو عبیدہ بن جراحؓ تھے۔ قریش کے ایک قافلہ کا پتہ لگانا تھا۔ ہم اس مہم کے دوران سخت بھوک سے دوچار ہوئے۔ یہاں تک کہ پتے جھاڑ جھاڑ کر کھا نا پڑے۔ اسی لیے اس کا نام جیش خبط پڑ گیا۔ (خبط جھاڑے جانے والے پتوں کو کہتے ہیں۔ ) آخر ایک آدمی نے تین اونٹ ذبح کیے۔ پھر تین اونٹ ذبح کیے۔ پھر تین اونٹ ذبح کیے ، لیکن اس کے بعد ابو عبیدہ نے اسے منع کردیا۔ پھر اس کے بعد ہی سمندر نے عنبر نامی ایک مچھلی پھینک دی۔ جس سے ہم آدھے مہینے تک کھاتے رہے۔ اوراس کا تیل بھی لگاتے رہے۔ یہاں تک کہ ہمارے جسم ہماری طرف پلٹ آئے۔ اور تندرست ہوگئے۔ ابوعبیدہؓ نے اس کی پسلی کا ایک کانٹا لیا۔ اور لشکر کے اندر سب سے لمبے آدمی اور سب سے لمبے اونٹ کو دیکھ کر آدمی کو اس پر سوار کیا۔ اور وہ (سوار ہوکر ) کانٹے کے نیچے سے گزر گیا۔ ہم نے اس کے گوشت کے کچھ ٹکڑے توشہ کے طور پر رکھ لیے اور جب مدینہ پہنچے تو رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا تذکرہ کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ ایک رزق ہے ، جو اللہ نے تمہارے لیے برآمد کیا تھا۔ اس کا گوشت تمہارے پاس ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ۔ہم نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں کچھ گوشت بھیج دیا۔( صحیح بخاری ۲/۶۲۶۶۲۵ صحیح مسلم ۲/۱۴۵، ۱۴۶)۔

مکمل تحریر >>

غزوہِ احزاب اور قریظہ کے بعد کی جنگی مہمات - سریہ محمد بن مسلمہ


جب رسول اللہﷺ احزاب اور قریظہ کی جنگوں سے فارغ ہوگئے۔ اور جنگی مجرمین سے نمٹ چکے توان قبائل اور اعراب کے خلاف تادیبی حملے شروع کی جو امن وسلامتی کی راہ میں سنگ گراں بنے ہوئے تھے۔ اور قُوتِ قاہرہ کے بغیر پُر سکون نہیں رہ سکتے تھے۔ ذیل میں اس سلسلے کے سرایا اور غزوات کا اجمالی ذکر کیا جارہا ہے۔
۲۔ سریۂ محمد بن مسلمہ :
احزاب وقریظہ کی جنگوں سے فراغت کے بعد یہ پہلا سریہ ہے جس کی روانگی عمل میں آئی۔ یہ تیس آدمیوں کی مختصر سی نفری پر مشتمل تھا۔
اس سریہ کو نجد کے اندر بکرات کے علاقہ میں ضریہ کے آس پاس قرطاء نامی مقام پر بھیجا گیا تھا۔ ضریہ اور مدینہ کے درمیا ن سات رات کا فاصلہ ہے۔ روانگی ۱۰/محرم ۶ ھ کو عمل میں آئی تھی۔ اور نشانہ بنو بکر بن کلاب کی ایک شاخ تھی۔ مسلمانوں نے چھاپہ مارا تو دشمن کے سارے افراد بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے چوپائے اور بکریاں ہانک لیں۔ اور محرم میں ایک دن باقی تھا کہ مدینہ آگئے۔ یہ لوگ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال حنفی کو بھی گرفتار کر لائے تھے۔ وہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبیﷺ کو قتل کرنے نکلے تھے۔( سیرت حلبیہ ۲/۲۹۷)لیکن مسلمانوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ اور مدینہ لاکر مسجد نبوی کے ایک کھمبے سے باندھ دیا۔نبیﷺ تشریف لائے تو دریافت فرمایا : ثمامہ! تمہارے نزدیک کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اے محمد ! میرے نزدیک خیر ہے۔ اگر تم قتل کرو تو ایک خون والے کو قتل کرو گے۔ اور اگراحسان کروتو ایک قدردان پر احسان کرو گے۔ اور اگر مال چاہتے ہوتو جو چاہومانگ لو۔ اس کے بعد آپﷺ نے انہیں اسی حال میں چھوڑ دیا۔ پھر آپ دوبارہ گذرے تو پھر وہی سوال کیا۔ اور ثمامہ نے پھر وہی جواب دیا۔ اس کے بعد آپﷺ تیسری بار گذرے۔ تو پھر وہی سوال وجواب ہوا۔ اس کے بعد آپﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ ثمامہ کو آزاد کردو۔ انہوں نے آزاد کردیا۔ ثمامہ مسجد نبوی کے قریب کھجور کے ایک باغ میں گئے۔ غسل کیا اور آپﷺ کے پاس واپس آکر مشرف باسلام ہوگئے۔ پھرکہا :اللہ کی قسم ! روئے زمین پر کوئی چہرہ میرے نزدیک آپ ﷺ کے چہرے سے زیادہ مبغوض نہ تھا ، لیکن اب آپﷺ کا چہرہ دوسرے تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہوگیا ہے۔ اور اللہ کی قسم ! روئے زمین پر کوئی دین میرے نزدیک آپ کے دین سے زیادہ مبغوض نہ تھا۔ مگر اب آپ کا دین دوسرے تمام ادیان سے زیادہ محبوب ہوگیا ہے۔ اور آپ کے سواروں نے مجھے اس حالت میں گرفتار کیا تھا کہ میں عمر ہ کا ارادہ کررہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں بشارت دی اور حکم دیا کہ عمرہ کرلیں۔ جب وہ دیارِ قریش میں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ ثمامہ ! تم بددین ہوگئے ؟ ثمامہ نے کہا : نہیں ! بلکہ میں محمدﷺ کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا ہوں۔ اور سنو ! اللہ کی قسم! تمہارے پاس یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ نہیں آسکتا جب تک کہ رسول اللہﷺ اس کی اجازت نہ دے دیں۔ یمامہ ، اہل ِ مکہ کے لیے کھیت کی حیثیت رکھتا تھا۔ حضرت ثمامہؓ نے وطن واپس جاکر مکہ کے لیے غلہ کی روانگی بند کردی۔ جس سے قریش سخت مشکلات میں پڑ گئے۔ اور رسول اللہﷺ کو قرابت کا واسطہ دیتے ہوئے لکھا کہ ثمامہ کو لکھ دیں کہ وہ غلے کی روانگی بند نہ کریں ، رسول اللہﷺ نے ایسا ہی کیا۔( زاد المعاد ۲/۱۱۹ صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۳۷۳ وغیرہ ، فتح الباری ۷/۶۸۸)

مکمل تحریر >>

غزوہِ احزاب اور قریظہ کے بعد کی جنگی مہمات - سلام بن ابی حقیق کا قتل


سلام بن ابی الحقیق - جس کی کنیت ابو رافع تھی - یہود کے ان اکابر مجرمین میں تھا جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف مشرکین کو ورغلا نے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اور مال اور رسد سے ان کی امداد کی تھی۔( فتح الباری ۷/۳۴۳)اس کے علاوہ رسول اللہﷺ کو ایذا بھی پہنچاتا تھا۔ اس لیے جب مسلمان بنو قریظہ سے فارغ ہوچکے تو قبیلہ خزرج کے لوگوں نے رسول اللہﷺ سے اس کے قتل کی اجازت چاہی چونکہ اس سے پہلے کعب بن اشرف کا قتل قبیلہ ٔ اوس کے چند صحابہ کے ہاتھوں ہوچکاتھا ، اس لیے قبیلہ خزرج کی خواہش تھی کہ ایسا ہی کوئی کارنامہ ہم بھی انجام دیں ، اس لیے انہوں نے اجازت مانگنے میں جلدی کی۔
رسول اللہﷺ نے انہیں اجازت تو دے دی لیکن تاکید فرمادی کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے۔ اس کے بعد ایک مختصر سادستہ جو پانچ آدمیوں پر مشتمل تھا اپنی مہم پر روانہ ہوا۔ یہ سب کے سب قبیلہ ٔ خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے کمانڈر حضرت عبد اللہ بن عتیک تھے۔
اس جماعت نے سیدھے خیبر کا رخ کیا کیونکہ ابورافع کا قلعہ وہیں تھا۔ جب قریب پہنچے تو سورج غروب ہوچکا تھا۔ اور لوگ اپنے ڈھور ڈنگر لے کر واپس ہو چکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک نے کہا : تم لوگ یہیں ٹھہرو۔ میں جاتا ہوں اور دروازے کے پہرے دار کے ساتھ کوئی لطیف حیلہ اختیار کرتاہوں۔ ممکن ہے اندر داخل ہوجائوں۔اس کے بعد وہ تشریف لے گئے اور دروازے کے قریب جاکر سرپرکپڑا ڈال کر یوں بیٹھ گئے گویا قضائے حاجت کررہے ہیں۔ پہرے دار نے زور سے پکار کر کہا : اواے اللہ کے بندے ! اگر اندر آنا ہے تو آجاؤ ورنہ میں دروازہ بند کرنے جارہا ہوں۔
عبد اللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ میں اندر گھس گیا اور چھپ گیا۔ جب سب لوگ اندر آگئے تو پہرے دار نے دروازہ بند کرکے ایک کھونٹی پر چابیاں لٹکا دیں۔ (کچھ دیر بعد جب ہر طرف سکون ہو گیا تو ) میں نے اٹھ کر چابیاں لیں۔ اور دروازہ کھول دیا۔ ابو رافع بالاخانے میں رہتا تھا۔ اور وہاں مجلس ہواکرتی تھی۔ جب اہل مجلس چلے گئے تو میں اس کے بالاخانے کی طرف چڑھا۔ میں جو کوئی دروازہ بھی کھولتا تھا اسے اندر کی جانب سے بند کر لیتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگوں کو میرا پتہ لگ بھی گیا تو اپنے پاس ان کے پہنچنے سے پہلے پہلے ابو رافع کو قتل کرلوں گا۔ اس طرح میں اس کے پاس پہنچ تو گیا ،(لیکن ) وہ اپنے بال بچوں کے درمیان ایک تاریک کمرے میں تھا۔ اور مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ اس کمرے میں کس جگہ ہے۔ اس لیے میں نے کہا : ابو رافع ! اس نے کہا : یہ کون ہے ؟ میں نے جھٹ آواز کی طرف لپک کر اس پر تلوار کی ایک ضرب لگائی لیکن میں اس وقت ہڑبڑایا ہوا تھا۔ اس لیے کچھ نہ کر سکا۔ ادھر اس نے زور کی چیخ ماری۔ لہٰذا میں جھٹ کمرے سے باہر نکل گیا اور ذرا دور ٹھہرکر پھر آگیا۔ اور (آواز بدل کر ) بو لا: ابو رافع ! یہ کیسی آوازتھی؟ اس نے کہا : تیری ماں برباد ہو۔ ایک آدمی نے ابھی مجھے اس کمرے میں تلوار ماری ہے۔ عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ اب میں نے ایک زور دار ضرب لگائی۔ جس سے وہ خون میں لت پت ہوگیا لیکن اب بھی میں اسے قتل نہ کرسکا تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبا دیا۔ اور وہ اس کی پیٹھ تک جارہا۔ میں سمجھ گیا کہ میں نے اسے قتل کرلیا ہے۔ اس لیے اب میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا واپس ہوا اور ایک سیڑھی کے پاس پہنچ کر یہ سمجھتے ہوئے کہ زمین تک پہنچ چکا ہوں۔ پاؤں رکھا تو نیچے گرپڑا۔ چاندنی رات تھی۔ پنڈلی سرک گئی ، میں نے پگڑی سے اسے کس کر باندھا۔ اور دروازے پر آکر بیٹھ گیا۔ اور جی ہی جی میں کہا کہ آج جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ میں نے اسے قتل کرلیا ہے یہاں سے نہیں نکلوں گا۔ چنانچہ جب مرغ نے بانگ دی تو موت کی خبر دینے والا قلعے کی فصیل پر چڑھا۔ اوربلند آواز سے پکار اکہ میں اہلِ حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کی اطلاع دے رہا ہوں۔ اب میں اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا اور کہا: بھاگ چلو۔ اللہ نے ابو رافع کو کیفر ِ کردار تک پہنچا دیا۔ چنانچہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا۔ اور آپ سے واقعہ بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: اپنا پاؤں پھیلاؤ۔ میں نے اپنا پاؤں پھیلایا ، آپﷺ نے اس پر اپنا دست مُبارک پھیرا۔ اور ایسا لگا گویا کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔( صحیح بخاری ۲/۵۷۷)

مکمل تحریر >>

غزوہِ بنو المصطلق میں منافقین کا کردار


جب غزوہ بنی المصطلق پیش آیا۔ اور منافقین بھی اس میں شریک ہوئے، تو انہوں نے ٹھیک وہی کیا جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے:
لَوْ خَرَ‌جُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (۹: ۴۷)
''اگر وہ تمہارے اندر نکلتے تو تمہیں مزید فساد ہی سے دوچار کرتے اور فتنے کی تلاش میں تمہارے اندر تگ ودو کرتے۔''
چنانچہ اس غزوے میں انہیں بھڑاس نکالنے کے دو مواقع ہاتھ آئے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے مسلمانوں کی صفوں میں خاصا اضطراب وانتشار مچایا۔ اور نبیﷺ کے خلاف بدترین پر وپیگنڈہ کیا۔ ایک اہم واقعہ جس پر منافقین کھل کر سامنے آئے وہ واقعہ افک ہے جسکا تذکرہ گزشتہ تحاریر میں آچکا ۔
دوسرے موقع کی کسی قدر تفصیلات یہ ہیں :
مدینہ سے ذلیل ترین آدمی کو نکالنے کی بات :
رسول اللہﷺ غزوہ بنی المصطلق سے فارغ ہوکر ابھی چشمہ مُریسیع پر قیام فرماہی تھے کہ کچھ لوگ پانی لینے گئے ان ہی میں حضرت عمر بن خطابؓ کا ایک مزدور بھی تھا۔ جس کا نام جَہْجَاہ غِفاری تھا۔ پانی پر ایک اور شخص سنان بن وبرجُہنی سے اس کی دھکم دھکا ہوگئی۔ اور دونوں لڑپڑے۔ پھر جُہنی نے پکارا : یا معشر الانصار (انصار کے لوگو! مدد کو پہنچو ) اور جہجاہ نے آوازدی : یامعشر المہاجرین (مہاجرین ! مدد کو آؤ!) رسول اللہﷺ (خبر پاتے ہی وہاں تشریف لے گئے۔ اور )فرمایا: میں تمہارے اندر موجود ہوں اور جاہلیت کی پکار پکاری جارہی ہے ؟ اسے چھوڑو، یہ بدبودار ہے۔
اس واقعے کی خبر عبد اللہ بن ابی بن سَلُول کو ہوئی تو غصے سے بھڑک اٹھا۔ اور بولا: کیا ان لوگوں نے ایسی حرکت کی ہے؟ یہ ہمارے علاقے میں آکر اب ہمارے ہی حریف اور مدّ ِ مقابل ہوگئے ہیں۔ اللہ کی قسم ! ہماری اور ان کی حالت پر تو وہی مثل صادق آتی ہے ، جو پہلوں نے کہی ہے کہ اپنے کتے کو پال پوس کر موٹا تازہ کرو تاکہ وہ تمہیں کو پھاڑ کھائے۔ سنو ! اللہ کی قسم ! اگر ہم مدینہ واپس ہوئے تو ہم میں کا معزز ترین آدمی ، ذلیل ترین آدمی کونکال باہر کرے گا۔ پھر حاضرین کی طرف متوجہ ہوکر بولا: یہ مصیبت تم نے خود مول لی ہے۔ تم نے انہیں اپنے شہر میں اتارا۔ اور اپنے اموال بانٹ کر دیئے۔ دیکھو ! تمہارے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اگر اسے دینا بند کر دو تو یہ تمہارا شہر چھوڑ کر کہیں اور چلتے بنیں گے۔
اس وقت مجلس میں ایک نوجوان صحابی حضرت زید بن ارقم بھی موجود تھے۔ انہوں نے آکر اپنے چچا کو پوری بات کہہ سنائی۔ ان کے چچا نے رسول اللہﷺ کو اطلاع دی۔ اس وقت حضرت عمرؓ بھی موجود تھے۔ بولے : حضور عباد بن بِشر سے کہئے کہ اسے قتل کردیں۔ آپ نے فرمایا : عمر ! یہ کیسے مناسب رہے گا لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کررہا ہے ؟ نہیں بلکہ تم کوچ کا اعلان کردو۔ یہ ایسا وقت تھا جس میں آپ کوچ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ لوگ چل پڑے تو حضرت اُسید بن حُضَیرؓ حاضر خدمت ہوئے۔ اور سلام کر کے عرض کیا کہ آج آپ نے ناوقت کوچ فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تمہارے صاحب (یعنی ابن اُبیّ) نے جو کچھ کہا ہے تمہیں اس کی خبر نہیں ہوئی ؟ انہوں نے دریافت کیا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا: اس کا خیال ہے کہ وہ مدینہ واپس ہوا تو معززترین آدمی ذلیل ترین آدمی کو مدینہ سے نکال باہر کرے گا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اگر چاہیں تو اسے مدینے سے نکال باہر کریں۔ اللہ کی قسم! وہ ذلیل ہے اور آپ باعزت ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے ساتھ نرمی برتئے۔ کیونکہ واللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے پا س اس وقت لے آیا جب اس کی قوم اس کی تاجپوشی کے لیے مونگوں کا تاج تیار کررہی تھی۔ اس لیے اب وہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس سے اس کی بادشاہت چھین لی ہے۔
پھر آپ شام تک پورا دن اور صبح تک پوری رات چلتے رہے بلکہ اگلے دن کے ابتدائی اوقات میں اتنی دیر تک سفر جاری رکھا کہ دھوپ سے تکلیف ہونے لگی۔ اس کے بعد اتر کر پڑاؤ ڈالا گیا تو لوگ زمین پر جسم رکھتے ہی بے خبر ہوگئے۔ آپ کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگوں کو سکون سے بیٹھ کر گپ لڑانے کا موقع نہ ملے۔
ادھر عبداللہ بن ابی کو جب پتہ چلا کہ زید بن ارقم نے بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ تو وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اللہ کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ اس نے جوبات آپ کو بتائی ہے وہ بات میں نے نہیں کہی ہے۔ اور نہ اسے زبان پر لے آیا ہوں۔ اس وقت وہاں انصار کے جو لوگ موجود تھے انہوں نے بھی کہا: یارسول اللہ ! ابھی وہ لڑکا ہے۔ ممکن ہے اسے وہم ہوگیا ہو۔ اور اس شخص نے جو کچھ کہا تھا اسے ٹھیک ٹھیک یاد نہ رکھ سکا ہو۔ اس لیے آپ نے ابن ابی کی با ت سچ مان لی۔ حضرت زید کا بیان ہے کہ اس پر مجھے ایسا غم لاحق ہوا کہ ویسے غم سے میں کبھی دوچار نہیں ہوا تھا۔ میں صدمے سے اپنے گھر میں بیٹھ رہا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔ منافقین نازل فرمائی۔ جس میں دونوں باتیں مذکور ہیں۔
هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَ‌سُولِ اللَّـهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا (۶۳: ۷)
''یہ منافقین وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جولوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ چلتے بنیں ''
يَقُولُونَ لَئِن رَّ‌جَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِ‌جَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ (۶۳: ۸)
''یہ منافقین کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ واپس ہوئے تو اس سے عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔''
حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ ( اس کے بعد ) رسول اللہﷺ نے مجھے بلوایا۔ اور یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں ، پھر فرمایا : اللہ نے تمہاری تصدیق کردی۔ (صحیح بخاری ۱/۴۹۹ ، ۲/۲۲۷، ۲۲۸، ۲۲۹ صحیح مسلم حدیث نمبر ۳۵۸۴ ، ترمذی حدیث نمبر ۳۳۱۲،ابن ہشام ۲/۲۹۰ ، ۲۹۱ ، ۲۹۲)
اس منافق کے صاحبزادے جن کا نام عبد اللہ ہی تھا ، اس کے بالکل برعکس نہایت نیک طینت انسان اور خیارِ صحابہ میں سے تھے۔ انہوں نے اپنے باپ سے برأت اختیار کرلی۔ اور مدینہ کے دروازے پر تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے۔ جب ان کا باپ عبد اللہ بن اُبیّ وہاں پہنچاتو اس سے بولے : اللہ کی قسم! آپ یہاں سے آگے نہیں بڑھ سکتے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ اجازت دے دیں۔ کیونکہ حضور عزیز ہیں اور آپ ذلیل ہیں۔ اس کے بعد جب نبیﷺ وہاں تشریف لائے تو آپ نے اس کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ اور تب صاحبزادے نے باپ کا راستہ چھو ڑا۔ عبداللہ بن اُبی کے ان ہی صاحبزادے حضرت عبد اللہ نے آپ سے یہ بھی عرض کی تھی کہ اے اللہ کے رسول ! آپ اسے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو مجھے فرمایئے اللہ کی قسم میں اس کا سر آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں گا۔( ابن ہشام ایضا ، مختصر السیرہ للشیخ عبدا للہ ص ۲۷۷)

مکمل تحریر >>