صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:ہم لوگ (غار سے نکل کر) رات بھراور دن میں دوپہر تک چلتے رہے۔ جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا ، راستہ خالی ہوگیا اور کوئی گزرنے والا نہ رہا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھلائی پڑی جس کے سائے پردھوپ نہیں آئی تھی۔ ہم وہیں اترپڑے۔ میں نے اپنے ہاتھ سے نبیﷺ کے سونے کے لیے ایک جگہ برابر کی اور اس پر ایک پوستین بچھا کر گزارش کی اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جائیں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد وپیش کی دیکھ بھال کیے لیتا ہوں۔ آپﷺ سو گئے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردوپیش کی دیکھ بھا ل کے لیے نکلا۔ ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چٹان کی جانب چلا آرہا ہے، وہ بھی اس چٹان سے وہی چاہتا تھا جوہم نے چاہا تھا۔ میں نے اس سے کہا : اے جوان تم کس کے آدمی ہو ؟ اس نے مکہ یا مدینہ کے کسی آدمی کا ذکر کیا۔
میں نے کہا: تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے ؟ اس نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: دوھ سکتا ہوں۔ اس نے کہا:ہاں اور ایک بکری پکڑی۔ میں نے کہا: ذرا تھن کومٹی ، بال اور تنکے وغیرہ سے صاف کرلو۔ اس نے ایک کاب میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے پاس ایک چرمی لوٹا تھا جو میں نے رسول اللہﷺ کے پینے اور وضو کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔ میں نبیﷺ کے پاس آیا لیکن گوارانہ ہوا کہ آپ کو بیدار کروں۔ چنانچہ جب آپ بیدار ہوئے تومیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور دودھ پر پانی انڈیلا یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے کہا: اے اللہ کے رسول (ﷺ ) ! پی لیجئے۔ آپ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا: ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا ؟ میں کہا: کیوں نہیں ؟ اس کے بعد ہم لوگ چل پڑے۔( صحیح البخاری ۱/۵۱۰)
اس سفر میں ابوبکرؓ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نبیﷺ کے ردیف رہا کرتے تھے۔ یعنی سواری پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا کرتے تھے۔ چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے۔ اس لیے لوگوں کی توجہ انہیں کی طرف جاتی تھی۔ نبیﷺ پر ابھی جوانی کے آثار غالب تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ کم جاتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑتا تو وہ ابوبکرؓ سے پوچھتا کہ یہ آپ کے آگے کون ساآدمی ہے ؟
(حضرت ابوبکرؓ اس کا بڑا لطیف جواب دیتے ) فرماتے : ''یہ آدمی مجھے راستہ بتا تا ہے۔'' اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ وہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں حالانکہ وہ خیر کا راستہ مراد لیتے تھے۔
( صحیح البخاری عن انس ۱/۵۵۶)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔