Sunday, 24 May 2015

معرکے کا پہلا ایندھن


اس معرکے کا پہلا ایندھن اسود بن عبد الاسد مخزومی تھا۔ یہ شخص بڑا اڑیل اور بد خلق تھا۔ یہ کہتے ہوئے میدان میں نکلا کہ میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ ان کے حوض کا پانی پی کررہوں گا۔ ورنہ اسے ڈھا دوں گا یا اس کے لیے جان دے دوں گا۔ جب یہ اُدھر سے نکلا تو اِدھر سے حضرت حمزہ بن عبدا لمطلبؓ برآمد ہوئے۔ دونوں میں حوض سے پرے ہی مڈبھیڑ ہوئی۔ حضرت حمزہؓ نے ایسی تلوار ماری کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے کٹ کر اڑگیا اور وہ پیٹھ کے بل گر پڑا۔ اس کے پاؤں سے خون کا فوارہ نکل رہا تھاجس کا رخ اس کے ساتھیوں کی طرف تھا لیکن اس کے باوجود وہ گھٹنوں کے بل گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھا اور اس میں داخل ہوا ہی چاہتا تھا تا کہ اپنی قسم پوری کرلے اتنے میں حضرت حمزہؓ نے دوسری ضرب لگائی اور وہ حوض کے اندر ہی ڈھیر ہوگیا۔
یہ اس معرکے کا پہلا قتل تھا اور اس سے جنگ کی آگ بھڑک اُٹھی ، چنانچہ اس کے بعد قریش کے تین بہترین شہسوارنکلے جو سب کے سب ایک ہی خاندان کے تھے۔ ایک عُتبہ اور دوسرا اس کا بھائی شیبہ جو دونوں ربیعہ کے بیٹے تھے اور تیسرا ولید جو عتبہ کا بیٹا تھا۔ انہوں نے اپنی صف سے الگ ہوتے ہی دعوت مُبارزت دی۔ مقابلے کے لیے انصار کے تین جوان نکلے۔ ایک عوفؓ ، دوسرے معوذؓ - یہ دونوں حارث کے بیٹے تھے اوران کی ماں کا نام عفراء تھا -تیسرے عبد اللہ بن رواحہ۔
قریشیوں نے کہا : تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا : انصار کی ایک جماعت ہیں۔ قریشیوں نے کہا: آپ لو گ شریف مدمقابل ہیں لیکن ہمیں آپ سے سروکار نہیں۔ ہم تو اپنے چچیرے بھائیوں کو چاہتے ہیں، پھر ان کے منادی نے آواز لگائی:
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ... ! ہمارے پاس قوم کے ہمسروں کو بھیجو۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : عبیدہؓ بن حارثؓ ! اٹھو۔ حمزہؓ ! اٹھئے۔ علی! اٹھو۔ جب یہ لوگ اُٹھے اور قریشیوں کے قریب پہنچے تو انہوں نے پوچھا : آپ کو ن لوگ ہیں ؟ انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ قریشیوں نے کہا : ہاں آپ لوگ شریف مدمقابل ہیں، اس کے بعد معرکہ آرائی ہوئی۔ حضرت عبیدہ نے - جو سب سے معمر تھے - عتبہ بن ربیعہ سے مقابلہ کیا، حضرت حمزہؓ نے شیبہ سے اور حضرت علیؓ نے ولید سے۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے تو اپنے اپنے مقابل کو جھٹ مارلیا لیکن حضرت عبیدہ اور ان کے مدّ ِ مقابل کے درمیان ایک ایک وار کا تبادلہ ہوااور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو گہرا زخم لگایا۔ اتنے میں حضرت علیؓ اور حضرت حمزہؓ اپنے اپنے شکار سے فارغ ہوکر آگئے ، آتے ہی عتبہ پر ٹوٹ پڑے ، اس کا کام تمام کیا اور حضرت عبیدہ کو اٹھا لائے۔ ان کا پاؤں کٹ گیا تھا اورآواز بند ہوگئی تھی جو مسلسل بند ہی رہی یہاں تک کہ جنگ کے چوتھے یا پانچویں دن جب مسلمان مدینہ واپس ہوتے ہوئے وادیٔ صفراء سے گزر رہے تھے ان کا انتقال ہوگیا۔
حضرت علیؓ اللہ کی قسم کھاکر فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی:
هَـٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَ‌بِّهِمْ ۖ (۲۲: ۱۹)
''یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا ہے۔''

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔