Sunday 30 August 2015

بیت اللہ سے مسلمانوں کو روکنے کی کوشش


ادھر قریش کو رسول اللہﷺ کی روانگی کا عِلم ہوا تو اس نے ایک مجلس ِ شوریٰ منعقد کی۔ اور طے کیا کہ جیسے بھی ممکن ہو مسلمانوں کو بیت اللہ سے دور رکھا جائے چنانچہ رسول اللہﷺ نے جب احابیش سے ہٹ کر اپنا سفر جاری رکھاتو بنی کعب کے ایک آدمی نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ قریش نے مقام ذی طویٰ میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے اور خالد بن ولید دوسو سواروں کا دستہ لے کر کُرَاع الغمیم میں تیا ر کھڑے ہیں (کُراع الغمیم ، مکہ جانے والی مرکزی اور کاروانی شاہراہ پر واقع ہے ) خالد نے مسلمانوں کو روکنے کی بھی کوشش کی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سواروں کو ایسی جگہ تعینات کیا جہاں سے دونوں فریق ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ خالد نے ظہر کی نماز میں یہ بھی دیکھا کہ مسلمان رکوع اور سجدے کررہے ہیں تو کہنے لگے کہ یہ لوگ غافل تھے۔ ہم نے حملہ کردیا ہوتا تو انھیں مارلیاہوتا۔ اس کے بعد طے کیا کہ عصر کی نماز میں مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑیں گے ، لیکن اللہ نے اسی دوران صلوٰۃ خوف (حالت جنگ کی مخصوص نماز) کا حکم نازل کردیا۔ اور خالد کے ہاتھ سے موقع جاتا رہا۔
خونریز ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش اور راستے کی تبدیلی :
ادھر رسول اللہﷺ کُراع الغمیم کا مرکزی راستہ چھوڑ کر ایک دوسرا پُر پیچ راستہ اختیار کیا جو پہاڑی گھاٹیوں کے درمیان سے ہوکر گزرتا تھا۔ یعنی آپ داہنے جانب حمش کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک ایسے راستے پر چلے جو ثنیۃ المرار پر نکلتا تھا۔ ثنیۃالمرار سے حدیبیہ میں اترتے ہیں۔ اور حدیبیہ مکہ کے زیریں علاقہ میں واقع ہے۔ اس راستے کو اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کُراع الغمیم کا وہ مرکزی راستہ جو تنعیم سے گزر کر حرم تک جاتا تھا ، اور جس پر خالد بن ولید کا رسالہ تعینات تھا وہ بائیں جانب چھوٹ گیا۔ خالد نے مسلمانوں کے گرد وغبار کو دیکھ کر جب یہ محسوس کیاکہ انہوں نے راستہ تبدیل کردیا ہے تو گھوڑے کو ایڑ لگائی اور قریش کو اس نئی صورت ِ حال کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے بھاگم بھاگ مکہ پہنچے۔
ادھر رسول اللہﷺ نے اپنا سفر بدستور جاری رکھا ، جب ثنیۃ المرار پہنچے تو اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگو ں نے کہا : حل حل ، لیکن وہ بیٹھی ہی رہی۔ لوگوں نے کہا : قصواء اڑگئی ہے۔ آپ نے فرمایا :قصواء اڑی نہیں ہے اور نہ اس کی یہ عادت ہے ، لیکن اسے اس ہستی نے روک رکھا ہے جس نے ہاتھی کوروک دیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ لوگ کسی بھی ایسے معاملے کا مطالبہ نہیں کریں گے جس میں اللہ کی حُرمتوں کی تعظیم کررہے ہوں لیکن میں اسے ضرور تسلیم کر لوں گا۔ اس کے بعد آپ نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی ، پھر آپ نے راستہ میں تھوڑی سی تبدیلی کی اور اقصائے حدیبیہ میں ایک چشمہ پر نزول فرمایا۔ جس میں تھو ڑا سا پانی تھا اور اسے لوگ ذراذرا سالے رہے تھے، چنانچہ چند ہی لمحوں میں ساراپانی ختم ہوگیا۔ اب لوگوں نے رسول اللہﷺ سے پیاس کی شکایت کی۔ آپ نے ترکش سے ایک تیر نکالا۔ اور حکم دیا کہ چشمے میں ڈال دیں۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد واللہ! اس چشمے سے مسلسل پانی ابلتا رہا یہاں تک کہ تمام لوگ آسودہ ہوکر واپس ہوگئے۔
بدیل بن ورقاء کا توسط :
رسول اللہﷺ مطمئن ہوچکے تو بُدَیل بن ورقاء خزاعی اپنے قبیلہ خزاعہ کے چند افراد کی معیّت میں حاضر ہوا۔ تہامہ کے باشندوں میں یہی قبیلہ (خزاعہ ) رسول اللہﷺ کا خیر خواہ تھا۔ بدیل نے کہا : میں کعب بن لؤی کو دیکھ کر آرہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے فراواں پانی پر پڑ اؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے ہمراہ عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ وہ آپ سے لڑنے اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں۔ قریش کو لڑائیوں نے توڑ ڈالا ہے۔ اور سخت ضرر پہنچا یا ہے اس لیے اگر وہ چاہیں تو ان سے ایک مدت طے کرلوں۔ اور وہ میرے اور لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ اور اگر وہ چاہیں تو جس چیز میں لوگ داخل ہوئے ہیں اس میں وہ بھی داخل ہوجائیں۔ورنہ ان کو راحت تو حاصل ہی رہے گی۔
اور اگر انہیں لڑائی کے سو ا کچھ منظور نہیں تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اپنے دین کے معاملے میں ان سے اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک کہ میری گردن جدا نہ ہوجائے یا جب تک اللہ اپنا امر نافذنہ کردے۔
بُدَیل نے کہا : آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں میں اسے قریش تک پہنچادوںگا۔ اس کے بعد وہ قریش کے پاس پہنچا۔ اور بولا: میں ان صاحب کے پا س سے آرہا ہوں میں نے ان سے ایک بات سنی ہے ، اگر چاہو تو پیش کردوں۔ اس پر بیوقوفوں نے کہا:ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہم سے ان کی کوئی بات بیان کرو۔لیکن جو لوگ سوجھ بوجھ رکھتے تھے انہوں نے کہا : لاؤ سناؤ تم نے کیا سنا ہے ؟ بدیل نے کہا : میں نے انہیں یہ اور یہ بات کہتے سنا ہے۔ اس پر قریش نے مکرز بن حفص کو بھیجا۔ اسے دیکھ کر رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ بد عہد آدمی ہے، چنانچہ جب اس نے آپ کے پاس آکر گفتگوکی تو آپ نے اس سے وہی بات کہی جو بدیل اور ا س کے رفقاء سے کہی تھی۔ اس نے واپس پلٹ کر قریش کو پوری بات سے باخبر کیا۔

1 comments:

ابو محمد نے لکھا ہے کہ

جزاک اللّه خیرا واحسن الجزاء

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔