پس منظر :
ہجرت کا پانچواںسال غزؤہ خندق پر ختم ہوا، آغاز ۶ ہجری سے صلح حُدیبیہ تک جتنے غزوات و سرایہ ہوئے ان کی تعداد سترہ ہے جو تمام تادیبی ہیں،ہجرت کے بعد حضور ﷺ نے مدینہ منورہ کی خارجی حفاظت کے لئے یہ تدبیر اختیار کی کہ مدینہ سے باہر کے قبائل کو مصالحت کا پیغام دیا جائے اور ایسی صورت اختیار کی جائے کہ قریش جن کی نخوت اور غرور کا پارہ سارے قبائل عرب سے اونچا ہے وہ بھی مصالحت پر آمادہ ہوجائیں، چنانچہ اس کے لئے آپﷺ نے بذات خود مدینہ سے قبائل عرب کا سفر کیا اور مختلف قبائل سے مصالحت فرمائی، قریش سے مصالحت کا معاملہ نہایت اہم تھا، مٹھی بھر بے سر و سامان مسلمانوں کے مقابلہ میں مصالحت کے لفظ کا سننا بھی ان کے لئے توہین کا باعث تھا ، ان کے لئے براہ راست پیغام مصالحت کے بجائے ایسے اسباب کا پیدا کرنا مناسب سمجھا گیا جو ان کو صلح پر مجبور کردیں ،اس سارے جتن کا مقصد یہ تھا کہ اس مصالحت سے عالمی مشن کی عالمی دعوت کے لئے راہ کھل جائے جس کے لئے آپﷺ ہجرت اور انصار کی بیعت سے پہلے ہر قبیلے کے پاس جاتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ تم ہماری حفاظت کی ذمہ داری لے لو تاکہ تمھاری پناہ میں دنیا کو میں خدا کا پیغام پہنچادوں جس کو لے کر میں مبعوث ہوا ہوں ، غزؤہ خندق کے بعد آپﷺ نے یہ اعلان فرمایا کہ :" اب ہم ان لوگوں پر حملہ کریں گے، وہ لوگ ہم پر حملہ نہیں کریں گے، ہم ہی ان کی طرف بڑھیں گے،
(بخاری)
یعنی آپﷺ نے اس کا پورا پورا اندازہ فرمالیا کہ قریش میں بداہتاً اب اس کی طاقت نہیں رہی کہ وہ اپنی جنگی طاقت سے اسلام اور مسلمانوں کا استیصال کر سکیں گے ؛بلکہ ہم ہی ان پر چڑھائی کریں گے، اسی کے ساتھ آپﷺ نے یہ بھی اندازہ فرمایا کہ اب اس حالت میں کہ وہ غزؤہ خندق سے خائب و خاسر لوٹے ہیں اور اپنی کامیابی سے مایوس ہو چکے ہیں اور ان کی امیدیں منقطع ہوچکی ہیں قدرتی طور پر ان کی نخوت و غرور کا پارہ نیچے اتر چکا ہوگا اور اب ان کا قومی مزاج اس قابل ہوگیاہوگا کہ صلح کی دعوت کارگر ہو، اب آپﷺ کے سامنے دو صورتیں تھیں :
۱) فدائیوں اور جانثاروں کی جماعت کو لے کر ان پر حملہ آور ہوں اور ان کے ساتھ بھی تادیبی معاملہ کریں اور ان کی ظلم کشی اور مسلمانوں کے ان جانی و مالی نقصان کا بھر پور انتقام لیں جو انھوں نے مسلسل ابتدا ئے بعثت سے لے کر غزؤہ خندق تک پورے اٹھارہ سال پہنچائے اور اس سلسلہ میں کوئی دقیقہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اٹھا نہیں رکھا،
۲) دوسرے یہ کہ صلح کا پیغام دیا جائے اور اس طریقہ سے دیا جائے اور موثر اور کارگر ہو اور ان کو یہ احساس نہ ہو کہ تلوار کے نیچے اپنی طاقت کے بل پر ہم سے جبراً صلح کا معاہدہ لکھوایاجارہاہے،
آپﷺ نے تادیب کی پہلی صورت کے مقابلہ میں دوسری صورت کو پسند فرمایا، اس کی دو وجوہ تھیں :
اول یہ کہ آپﷺ کا مقصد صرف یہ تھا کہ " عالمی مشن کی عالمی دعوت کی راہ سے مزاحمت ختم ہوجائے اور قریش دعوت حق کو کھلے دل سے بلا جبر و اکراہ اختیار کریں ، آپﷺ کا مقصد اور آپﷺ کی پالیسی ہرگز یہ نہیں تھی کہ قریش کا یا ان جیسے دشمن اسلام کا استیصال کردیاجائے یا ان کو اسلام لانے پر مجبور کیاجائے یا اسلام قبول نہ کرنے پر اور اس کی دعوت کو رد کردینے کی بنا پر ان کو جانی و مالی نقصان پہنچایاجائے کیونکہ اسلام میں نہ ایسے اسلام کی کوئی قیمت ہے اور نہ ایسا اسلام قابل اعتبار ہے جو کھلے دل سے بلا جبر و اکراہ نہ قبول کیا گیا ہو ،دوم یہ کہ اسلامی نقطہ نظر سے آپﷺ صلح ہی کو اسلام کی فتح بھی سمجھتے تھے اور عالمی مشن کی عالمی دعوت کی کامیابی اور اثر اندازی کے لئے اختلاط ، میل جول ، صلح و آتشی اور کھلے دل سے باہمی تبادلہ خیال اور گفتگو کے مواقع کو ضروری سمجھتے تھے جو مصالحت ہی کی راہ سے حاصل ہوسکتے تھے،چنانچہ صلح حُدیبیہ سے فارغ ہو کر جب آپﷺ چلے تو پہلی منزل یا دوسری منزل پر آپﷺ کو حق تعالیٰ کی جانب سے اس مصالحت پر ان الفاظ میں مبارکباد دی گئی:
" (اے پیغمبر) بے شک ہم نے تم کو ایک کھلی فتح دی"
(سورہ ٔ فتح : ۱)
واقعتاً صلح حُدیبیہ کے بعد باہمی اختلاط کا کیا اثر ہوا؟ تما م مورخین کا متفقہ بیان ہے کہ صلح حُدیبیہ سے لے کر فتح مکہ تک یعنی دو برس کے اندر کثرت سے اتنے لوگوں نے کھلے دل سے اسلام قبول کیا کہ اس اٹھارہ انیس سال میں اتنے لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیاتھا،بہر حال آپﷺ نے مصالحت کی راہ کو اختیار کیا اور اس کے لئے یہ موثر صورت اختیار کی کہ آپﷺ نے عمرہ کا عزم کیا اور اس کے ذیل میں پیغام صلح کو رکھا تاکہ دل میں اس کا معمولی خطرہ بھی پیدا نہ ہو کہ محمدﷺ کے ساتھ چودہ ، پندرہ سو فدائیوں کا جو جتھا ہے اور سب کے سب احرام باندھے ہوئے ہیں اور جنگی ہتھیاروں سے خالی ہیں یہ مکہ پر چڑھائی کے لئے آرہے ہیں، اگلے واقعات بتائیں گے کہ آپﷺ کا اندازہ صحیح ثابت ہوا کہ قریش کے قومی مزاج میں مصالحت کی قبولیت کی استعداد پیداہوگئی تھی چنانچہ جب حُدیبیہ میں آپﷺ نے قریش کو پیغام صلح دیا تو رد و کد کے بعد یہ پیغام کامیا ب ہوا اور حُدیبیہ میں صلح ہوگئی اور حضور ﷺ کا عمرہ کے ذیل میں پیغام صلح کو رکھنا نہایت موثر ثابت ہوا اور معاہدہ صلح پر سکون فضا میں طئے ہوا،
( پیغمبر عالم )
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔