Saturday, 29 August 2015

ابو سفیان کی شماتت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب


مشرکین نے واپسی کی تیاری مکمل کرلی تو ابو سفیان جبل اُحد پر نمودار ہوا۔ اور بآواز بلند بو لا: کیا تم میں محمد ہیں ؟ لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔اس نے پھر کہا : کیا تم میں ابو قحافہ کے بیٹے (ابوبکر ) ہیں؟ لوگوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے پھر سوال کیا : کیا تم میں عمر بن خطاب ہیں ؟ لوگوں نے اب کی مرتبہ بھی جواب نہ دیا - کیونکہ نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا جواب دینے سے منع فرمادیا تھا۔ ابو سفیان نے ان تین کے سوا کسی اور کے بارے میں نہ پوچھا۔ کیونکہ اسے اور اس کی قوم کو معلوم تھا کہ اسلام کا قیام ان ہی تینوں کے ذریعے ہے۔
بہرحال جب کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا : چلو ان تینوں سے فرصت ہوئی۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ بے قابو ہوگئے۔ اور بولے: او اللہ کے دشمن ! جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں۔ اور ابھی اللہ نے تیری رسوائی کا سامان باقی رکھا ہے۔اس کے بعد ابو سفیان نے کہا: تمہارے مقتولین کا مُثلہ ہوا ہے۔ لیکن میں نے نہ اس کا حکم دیا تھا اور نہ اس کا براہی منایا ہے۔ پھر نعرہ لگا یا : اُعلُ ھُبَل۔ ھبل بلند ہو۔
نبیﷺ نے فرمایا : تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہ نے عرض کیا: کیا جواب دیں ؟ آپ نے فرمایا: کہو: ((اللہ أعلی وأجل۔)) ''اللہ اعلیٰ اور برتر ہے۔ ''
پھر ابو سفیان نے نعرہ لگایا : لنا عزی ولا عزی لکم۔ ''ہمارے لیے عُزیٰ ہے۔ اور تمہارے لیے عُزیٰ نہیں ۔''
نبیﷺ نے فرمایا: جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے دریافت کیا : کیا جواب دیں ؟ آپﷺ نے فرمایا :کہو: ((اللہ مولانا ولا مولی لکم۔)) ''اللہ ہمار امولیٰ ہے اور تمہاراکوئی مولیٰ نہیں ۔''
اس کے بعد ابو سفیان نے کہا : کتنا اچھا کارنامہ رہا۔ آج کا دن جنگ بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی ڈول ہے۔( یعنی کبھی ایک فریق غالب آتا ہے اور کبھی دوسرا ، جیسے ڈول کبھی کوئی کھینچتا ہے کبھی کوئی)
حضرت عمرؓ نے جواب میں کہا : برابر نہیں۔ ہمارے مقتولین جنت میں ہیں۔ اور تمہارے مقتولین جہنم میں۔
اس کے بعد ابو سفیان نے کہا : عمر! میرے قریب آؤ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جاؤ۔ دیکھو کیا کہتا ہے ؟ وہ قریب آئے تو ابو سفیان نے کہا : عمر ! میں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا ہم نے محمد کو قتل کردیا ہے ؟حضرت عمرؓ نے کہا: واللہ ! نہیں۔ بلکہ اس وقت وہ تمہاری باتیں سن رہے ہیں۔ ابو سفیان نے کہا : تم میرے نزدیک ابن قمئہ (جس نے قتل کی ہوائی اڑائی تھی)سے زیادہ سچے اور راست باز ہو۔( ابن ہشام ۲/۹۳، ۹۴ زاد المعاد ۲/۹۴ صحیح بخاری ۲/۵۷۹)
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ابوسفیان اور اس کے رُفقاء واپس ہونے لگے تو ابو سفیان نے کہا : آئندہ سال بدر میں پھر لڑنے کا وعدہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا : کہہ دو ٹھیک ہے۔ اب یہ بات ہمارے اور تمہارے درمیا ن طے رہی۔( ابن ہشام ۲/۹۴)
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو روانہ کیا۔ اور فرمایا: قوم (مشرکین ) کے پیچھے پیچھے جاؤ۔ اور دیکھو وہ کیا کررہے ہیں ؟ اور ان کاارادہ کیا ہے ؟ اگر انہوں نے گھوڑے پہلو میں رکھے ہوں اور اونٹوں پر سوارہوں تو ان کا ارادہ مکہ کا ہے۔ اور اگر گھوڑوں پر سوار ہوں ، اور اونٹ ہانک کر لے جائیں تو مدینے کا ارادہ ہے۔ پھر فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر انہوں نے مدینے کا ارادہ کیا تو میں مدینے جاکر ان سے دودوہاتھ کروں گا۔ حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں ان کے پیچھے نکلا تو دیکھا کہ انہوں نے گھوڑے پہلو میں کررکھے ہیں۔ اونٹوں پر سوار ہیں۔ اور مکے کا رُخ ہے۔ ابن ہشام ۲/۹۴ حافظ ابن حجر نے فتح الباری (۷/۳۴۷) میں لکھا ہے کہ مشرکین کے عزائم کا پتہ لگانے کے لیے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تشریف لے گئے تھے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔