مکرز بن حفص کے واپس آجانے کے بعد حلیس بن علقمہ نامی بنوکنانہ کے ایک آدمی نے کہا: مجھے ان کے پاس جانے دو۔ لو گوں نے کہا: جاؤ۔ جب وہ نمودار ہوا تو نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : یہ فلاں شخص ہے۔ یہ ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جو ہَدْی کے جانوروں کا بہت احترام کرتی ہے۔لہٰذا جانوروں کو کھڑا کردو۔ صحابہ نے جانوروں کو کھڑا کردیا۔ اور خود بھی لبیک پکارتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ اس شخص نے یہ کیفیت دیکھی تو کہا : سبحان اللہ ! ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا ہرگز مناسب نہیں۔ اور وہیں سے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پلٹ گیا۔ اور بو لا : میں نے ہدی کے جانور دیکھے ہیں جن کے گلوں میں قلادے ہیں۔ اورجن کی کوہان چیری ہوئی ہیں۔ اس لیے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ انہیں بیت اللہ سے روکا جائے۔ اس پر قریش اور اس شخص میں کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ وہ تاؤ میں آگیا۔
اس موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے مداخلت کی اور بو لا : اس شخص (محمدﷺ ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز پیش کی ہے۔ لہٰذا اسے قبول کرلو۔ اور مجھے ان کے پاس جانے دو۔ لوگوں نے کہا : جاؤ ! چنانچہ وہ آپ کے پاس حاضر ہوا۔ اور گفتگو شروع کی۔ نبیﷺ نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی۔ اس پر عروہ نے کہا : اے محمد ! یہ بتایئے کہ اگر آپ نے اپنی قوم کا صفایا بھی کردیا تو کیا اپنے آپ سے پہلے کسی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا صفایا کردیا ہو۔ اور اگر دوسری صورتِ حال پیش آئی تو اللہ کی قسم! میں ایسے چہرے اور ایسے اوباش لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو اسی لائق ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ اس پر حضرت ابو بکرؓ نے کہا: لات (بت) کی شرمگاہ کا لٹکتا ہوا چمڑا چوس۔ ہم حضور کو چھوڑ کر بھاگیں گے ؟ عروہ نے کہا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا : ابو بکرؓ ہیں۔ اس نے حضرت ابو بکر کو مخاطب کرکے کہا : دیکھو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی کہ تم نے مجھ پر ایک احسان کیا تھا اور میں نے اس کا بدلہ نہیں دیا ہے ، تو میں یقینا تمہاری اس بات کا جواب دیتا۔
اس کے بعد عروہ پھر نبیﷺ سے گفتگو کرنے لگا۔ وہ جب گفتگو کرتا تو آپ کی ڈاڑھی پکڑ لیتا۔ مغیرہ بن شعبہؓ نبیﷺ کے سر کے پاس ہی کھڑے تھے۔ ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خُود ، عروہ جب نبیﷺ کی داڑھی پر ہاتھ بڑھاتا تو وہ تلوار کے دستے سے اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ نبیﷺ کی داڑھی سے پرے رکھ۔ آخر عروہ نے اپناسر اٹھایا ، اور بولا: یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ اس پر اس نے کہا: ... او ...بدعہد ... ! کیا میں تیری بدعہدی کے سلسلے میں دوڑ دھوپ نہیں کررہا ہوں ؟ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ جاہلیت میں حضرت مغیرہ کچھ لوگوں کے ساتھ تھے۔ پھر انہیں قتل کرکے ان کا مال لے بھاگے تھے۔ اور آکر مسلمان ہوگئے تھے۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ میں اسلام تو قبول کرلیتا ہوں ، لیکن مال سے میرا کوئی واسطہ نہیں (اس معاملے میں عروہ کے دوڑدھوپ کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مغیرہ اس کے بھتیجے تھے )
اس کے بعد عروہ نبیﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کے تعلق ِ خاطر کا منظر دیکھنے لگا۔ پھر اپنے رفقاء کے پاس واپس آیا اور بولا : اے قوم ! واللہ میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس جاچکا ہوں۔ واللہ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اُس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد کے ساتھی محمدﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! وہ کھنکار بھی تھوکتے تھے تو کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا تھا۔ اور وہ شخص اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا۔ اور جب وہ کوئی حکم دیتے تھے تواس کی بجاآوری کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے۔ اور جب وضو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ اس کے وضو کے پانی کے لیے لوگ لڑپڑیں گے۔ اور جب کوئی بات بولتے تھے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے تھے۔ اور فرطِ تعظیم کے سبب انہیں بھرپورنظر نہ دیکھتے تھے۔ اور انہوں نے تم پر ایک اچھی تجویز پیش کی ہے۔ لہٰذااسے قبول کرلو۔ وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے روکے :
جب قریش کے پُر جوش اور جنگ بازنوجوان نے دیکھا کہ ان کے سر برآوردہ حضرات صلح کے جو یا ہیں تو انہوں نے صلح میں ایک رخنہ اندازی کا پروگرام بنایا۔ اور یہ طے کیا کہ رات میں یہاں سے نکل کر چپکے سے مسلمانوں کے کیمپ میں گھس جائیں اور ایسا ہنگامہ برپا کردیں کہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھے۔ پھر انہوں نے اس پروگرام کی تنفیذ کے لیے عملی قدم بھی اٹھا یا۔ چنانچہ رات کی تاریکی میں ستر یااسیّ نوجوانوں نے جبل تنعیم سے اتر کر مسلمانوں کے کیمپ میں چپکے سے گھسنے کی کوشش کی لیکن اسلامی پہرے داروں کے کمانڈر محمد بن مسلمہ نے ان سب کو گرفتار کر لیا پھر نبیﷺ نے صلح کی خاطر ان سب کو معاف کرتے ہوئے آزاد کر دیا۔ اسی کے بارے میں اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا :
وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا (۴۸: ۲۴)
''وہی ہے جس نے بطن ِ مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے روکے۔ اور تمہارے ہاتھ ان سے روکے۔ اس کے بعد کہ تم کو ان پر قابو دے چکا تھا۔''
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔