Saturday 29 August 2015

حضرت سعد بن معاذ کا فیصلہ


حضرت سعد ؓ بن معاذ غزوہ خندق میں ایک تیر لگنے سے شدید زخمی ہو گئے تھے جن کے علاج کے لئے حضورﷺ نے حضرت رفیدہؓ کے خیمہ میں بھجوادیا تھاجو مسجد نبوی سے قریب ہی تھا، حضرت رفیدہؓ اسلمی بنو نجار کی ایک صالح خاتون تھیں جو بیماروں اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں، اس غرض کے لئے ایک خیمہ لگایاگیاتھا جسے شفا خانے کی حیثیت حاصل تھی ، حضور اکرم ﷺ روزانہ ان کی مزاج پرسی کے لئے تشریف لے جاتے تھے، چنانچہ انہیں ایک سواری میں وہاں لایا گیا
جب قریب پہنچے تو ان کے قبیلے کے لوگوں نے انہیں دونوں جانب سے گھیر لیا۔ اور کہنے لگے : سعد ! اپنے حلیفوں کے بارے میں اچھائی اور احسان سے کام لیجئے گا ... رسول اللہﷺ نے آپ کو اسی لیے حَکم بنایا ہے کہ آپ ان سے حسن سلوک کریں۔ مگر وہ چپ چاپ تھے کوئی جواب نہ دے رہے تھے۔ جب لوگوں نے گزارش کی بھر مار کردی تو بولے : اب وقت آگیا ہے کہ سعد کو اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی پروا نہ ہو
اس کے بعد جب حضرت سعد نبیﷺ کے پاس پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا: اپنے سردار کی جانب اٹھ کر بڑھو۔ (لوگوں نے بڑھ کر ) جب انہیں اتارلیا تو کہا: اے سعد ! یہ لوگ آپ کے فیصلے پر اپنے قلعوں سے اترے ہیں۔
حضرت سعد نے کہا : کیا میرا فیصلہ ان پر نافذ ہوگا ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں ! انہوں نے کہا مسلمانوں پربھی ؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں ! انہوں نے پھر کہا : اور جو یہاں ہیں ان پر بھی؟ ان کا اشارہ رسول اللہﷺ کی فرودگاہ کی طرف تھا۔ مگر اجلال وتعظیم کے سبب چہرہ دوسری طرف کررکھا تھا۔ آپ نے فرمایا : جی ہاں! مجھ پر بھی۔ حضرت سعد نے کہا : تو ان کے متعلق میرا فیصلہ یہ ہے کہ مردوں کو قتل کردیا جائے ، عورتوں اور بچوں کو قید ی بنا لیا جائے۔ اور اموال تقسیم کردیے جائیں۔
قرآن مجید میں جب تک کوئی خاص حکم نہیں آتا تھا آنحضرتﷺ تورات کے احکام کی پابندی فرماتے تھے ، چنانچہ اکثر مسائل مثلاً قبلہ ، رجم، قصاص بالمثل وغیرہ میں جب تک خاص وحی نہیں آئی آپ ﷺنے تورات ہی کی پابندی فرمائی ۔ حضور ﷺ نے حضرت سعد کا فیصلہ سن کے فرمایا : ائے سعدؓ تمہارا فیصلہ سات آسمانوں سے اترے ہوئے احکام کے موافق ہے ۔
حضرت سعدؓ نے جو فیصلہ کیا وہ تورات کے مطابق تھا، تورات کتاب تثنیہ اصحاح ، ۲ آیت ۱۰ میں ہے !
" جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ لڑنا چاہے تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کرڈالنا اور عورتوں کو اور بال بچوں اور چوپایوں ، شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لئے رکھ لینا"
( سیرۃ احمد مجتبیٰ)

بنو قریظہ کے متعلق مخالفین اسلام نے بہت شدت کے ساتھ ظلم و بے رحمی کا اعتراض کیا ہے، اس سخت فیصلے کی وجہ کیا تھی اسکو جاننے کے لیے حسب ذیل امور پیش نظر رکھنے چاہیے:
1. جب حضور اکرم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو پہلے ہی سال آپﷺنے یہود سے دوستانہ معاہدہ کیا جس میں بنو قریظہ بھی شریک تھے اور اس معاہدہ کے بعد مسلمان اور بنو قریظہ حلیف کی حیثیت سے مل جل کر رہتے تھے،
2. اس معاہدہ کے ذریعہ حضور اکرم ﷺ نے بنو قریظہ اور یہود کے دوسرے قبائل کو پوری پوری مذہبی آزادی دی تھی اور جان و مال کی حفاظت کا اقرار کیاگیاتھا،
3. حضور اکرم ﷺ نے بنو قریظہ پر یہ خصوصی اکرام فرمایا تھا کہ اس معاہدہ میں سماجی زندگی میں ان کو دوسرے یہود کے مساوی اور برابر کردیاتھا حالانکہ اس سے پہلے وہ مرتبہ میں وہ بنو نضیر سے کم تھے یعنی بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کردیتا تو بنو نضیر کو آدھا خوں بہا دینا پڑتاتھا بر خلاف اس کے بنو قریظہ پورا خوں بہا ادا کرتے تھے چنانچہ معاہدہ کے بعد جب دیت کا ایک معاملہ پیش آیا تو انھوں نے زیادہ خوں بہا دینے سے انکار کردیا اور بنو نضیر کو یہ کہلا بھیجا کہ " ہم اب تک زیادہ دیت صرف تمھارے ظلم اور خوف کی وجہ سے دیتے رہے ہیں ، اب محمد(ﷺ) کے آنے کے بعد تو زیادہ دیت نہیں دے سکتے(کیونکہ اب ظلم و زیادتی کا خوف نہیں رہا)
4. جب قریش نے ان کو معاہدہ شکنی پر آمادہ کیا تو وہ تیار ہوگئے ، آنحضرت ﷺنے ان سے تجدید معاہدہ کرناچاہا ، بنو نضیر نے انکار کیا اور جلاوطن کردئیے گئے لیکن بنو قریظہ نے نئے سرے سے معاہدہ کرلیا چنانچہ ان کو امن دے دیا گیا، بنو قینقاع جیسے دولت مند اور بہادر قبیلہ نے فتنہ انگیزی کی چنانچہ ۲ ھ میں ان کا محاصرہ کیا گیا اور ان کا اخراج عمل میں آیا،
5. باوجود معاہدہ ہونے کے عین غزوہ خندق کے موقع پر انھوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور علانیہ کفار کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے ،
6. بنو نضیر جب جلا وطن ہوئے تو ان کے رئیس آعظم حیٔ بن اخطب ، ابو رافع ، سلام بن ابی الحقیق خیبر جاکر آباد ہوگئے، جنگ احزاب انھی کی کوششوں کا نتیجہ تھا، قبائل عرب میں دورہ کرکے تما م ملک میں آگ لگادی اور قریش کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے ،اس وقت تک بنو قریظہ معاہدہ پر قائم تھے؛ لیکن حیٔ بن اخطب نے ان کو بہکا کر معاہدہ کی خلاف ورزی کروائی . غزوۂ احزاب میں ان کا کردار بڑا گھناؤنا تھا ، اگر ان کی مدد سے دشمن کامیاب ہو جاتا تو مسلمان کا صفایا ہوجاتا۔۔
کہ پورے عرب نے مسلمانوں پر حملہ کر رکھا ہے۔ حلیف ہونے کے ناتے بنو قریظہ کا یہ فرض تھا کہ وہ مسلمانوں کی مدد کرتے یا کم از کم غیر جانبدار رہتے۔ انہوں نے اس نازک موقع پر اپنا عہد توڑ کر مسلمانوں پر حملے کی تیاری شروع کر دی۔ اگر قدرتی آفت کے نتیجے میں کفار کا لشکر واپس نہ ہوتا تو مسلمان دو طرف سے حملے کی لپیٹ میں آ کر تہہ تیغ ہو جاتے۔ اس سلسلے میں حضورﷺ پر کوئی اعتراض کیا جانا بنتا بھی نہیں کہ اس اس عہد شکنی کی سزا انہیں ان کے اپنے مقرر کردہ جج نے انہی کے اپنے قانون کے مطابق دی .

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔