Saturday 29 August 2015

جانباز مسلمان مرد اور عورتیں


حضرت کعب بن مالکؓ کا بیا ن ہے کہ میں ان مسلمانوں میں تھا جو گھاٹی سے باہر آئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ مشرکین کے ہاتھوں مسلمان شہداء کا مُثلہ کیا جارہا ہے تو رک گیا۔ پھر آگے بڑھا ، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مشرک جو بھاری بھرکم زِرہ میں ملبوس تھا شہیدوں کے درمیا ن سے گزررہا ہے۔ اور کہتا جارہا ہے کہ کٹی ہوئی بکریوں کی طرح ڈھیر ہوگئے۔ اور ایک مسلمان اس کی راہ تک رہا ہے۔ وہ بھی زِرہ پہنے ہوئے ہے۔ میں چند قدم اور بڑھ کر اس کے پیچھے ہولیا۔ پھر کھڑے ہوکر آنکھوں ہی آنکھوں میں مسلم اور کافر کو تولنے لگا۔ محسوس ہوا کہ کافر اپنے ڈیل ڈول اور سازوسامان دونوں لحاظ سے بہتر ہے۔ اب میں دونوں کا انتظار کرنے لگا۔ بالآخر دونوں میں ٹکر ہوگئی اور مسلمان نے کافر کو ایسی تلوار ماری کہ وہ پاؤں تک کاٹتی چلی گئی۔ مشرک دوٹکڑے ہوکر گرا، پھر مسلمان نے اپنا چہرا کھولا اور کہا : او کعب ! کیسی رہی ؟ میں ابو دجانہ ہوں۔( البدایۃ والنہایۃ ۴/۱۷)
خاتمۂ جنگ پر کچھ مومن عورتیں میدانِ جہاد میں پہنچیں۔ چنانچہ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکرؓ اور امِ سُلیم کو دیکھا کہ پنڈلی کے پازیب تک کپڑے چڑھائے پیٹھ پر مشک لاد لاد کر لارہی تھیں۔ اور قوم کے منہ میں انڈیل رہی تھیں۔ (صحیح بخاری ۱/۴۰۳ ، ۵۸۱)حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ احد کے روز حضرت اُم ِ سلیطؓ ہمارے لیے مشک بھر بھر کر لارہی تھیں۔( ایضاً ۱/۴۰۳)
ان ہی عورتوں میں حضرت امِ ایمن بھی تھیں۔ انہوں نے جب چند شکست خوردہ مسلمانوں کودیکھا کہ مدینے میں گھسنا چاہتے ہیں تو ان کے چہروں پر مٹی پھینکنے لگیں اور کہنے لگیں : یہ سوت کاتنے کا تکلالو اور ہمیں تلوار دو۔ ( اس موقعے پر مذکورہ محاورہ کا ٹھیک وہی مطلب ہے۔ جو ہماری زبان کے اس کا محاروے کا ہے کہ ''چوڑی لو۔ اورتلوار دو ۔)اس کے بعد تیزی سے میدان جنگ پہنچیں اور زخمیوں کو پانی پلانے لگیں۔ ان پر حِبان بن عرقہ نے تیر چلایا ، وہ گر پڑیں۔ اور پردہ کھل گیا۔ اس پر اللہ کے اس دشمن نے بھر پور قہقہہ لگایا۔ رسول اللہﷺ پر یہ بات گراں گزری اور آپﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو ایک بے ریش تیردے کر فرمایا: اسے چلاؤ۔ حضرت سعدؓ نے چلایا تو وہ تیر حِبان کے حلق پر لگا۔ اور وہ چت گرا۔ اور اس کا پردہ کھل گیا۔ اس پر رسول اللہﷺ اس طرح ہنسے کہ جڑ کے دانت دکھائی دینے لگے۔ اورفرمایا: سعد نے اُمِ ایمن کا بدلہ چکا لیا۔ اللہ ان کی دعا قبول کرے۔( السیرۃ الحلبیہ ۲/۲۲)
حضرت سَہلؓ فرماتے ہیں : مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ کا زخم کس نے دھویا ؟ پانی کس نے بہایا ؟ اور علاج کس چیز سے کیا گیا ؟ آپﷺ کی لختِ جگر حضرت فاطمہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم دھورہی تھیں۔ اور حضرت علیؓ ڈھال سے پانی بہا رہے تھے۔ جب حضرت فاطمہؓ نے دیکھا کہ پانی کے سبب خون بڑھتا ہی جارہا ہے تو چٹائی کا ایک ٹکڑ ا لیا۔اور اسے جلا کر چپکا دیا ، جس سے خون رک گیا۔( صحیح بخاری ۲/۵۸۴)
ادھر محمد بن مسلمہؓ شیریں اور خوش ذائقہ پانی لائے۔ نبیﷺ نے نوش فرمایا : اور دعائے خیر دی۔ (السیرۃ الحلبیہ ۲/۳۰) زخم کے اثر سے نبیﷺ نے ظہر کی نماز بیٹھے بیٹھے پڑھی۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپﷺ کے پیچھے بیٹھ ہی کر نماز ادا کی۔( ابن ہشام ۲/۸۷)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔