Saturday, 29 August 2015

کفار کے حوصلے پست


ابھی پڑاؤ چھوڑ کر ابو سفیان اور اس کے فوجی ہلے بھی نہ تھے کہ معبد بن ابی معبد خزاعی پہنچ گیا۔ ابو سفیان کو معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہوگیا ہے اس نے پوچھا کہ معبد ! پیچھے کی کیا خبر ہے ؟ معبد نے ...پروپیگنڈے کا سخت اعصابی حملہ کرتے ہوئے ... کہا : محمد اپنے ساتھیوں کو لے کر تمہارے تعاقب میں نکل چکے ہیں۔ ان کی جمعیت اتنی بڑی ہے کہ میں نے ویسی جمعیت کبھی دیکھی ہی نہیں۔ سارے لوگ تمہارے خلاف غصے سے کباب ہوئے جارہے ہیں۔ اُحد میں پیچھے رہ جانے والے بھی آگئے ہیں ، وہ جو کچھ ضائع کر چکے ہیں اس پر سخت نادم ہیں۔ اور تمہارے خلاف اس قدر بھڑکے ہوئے ہیں کہ میں نے اس کی مثال دیکھی ہی نہیں۔
ابو سفیان نے کہا : ارے بھائی یہ کیا کہہ رہے ہو ؟
معبد نے کہا : واللہ! میرا خیال ہے کہ تم کوچ کرنے سے پہلے پہلے گھوڑوں کی پیشانیاں دیکھ لو گے یا لشکر کا ہر اول دستہ اس ٹیلے کے پیچھے نمودار ہوجائے گا۔
ابوسفیان نے کہا : واللہ! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر پلٹ کر پھر حملہ کریں اور ان کی جڑ کا ٹ کر رکھ دیں۔
معبد نے کہا : ایسا نہ کرنا۔ میں تمہاری خیر خواہی کی بات کررہاہوں۔
یہ باتیں سن کر مکی لشکر کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ ان پر گھبراہٹ اور رعب طاری ہوگیا۔ اور انہیں اسی میں عافیت نظر آئی کہ مکے کی جانب اپنی واپسی جاری رکھیں۔ البتہ ابو سفیان نے اسلامی لشکر کو تعاقب سے باز رکھنے اور اس طرح دوبارہ مسلح ٹکراؤ سے بچنے کے لیے پروپیگنڈے کا ایک جوابی اعصابی حملہ کیا۔ جس کی صورت یہ ہوئی کہ ابو سفیان کے پاس سے قبیلہ عبد القیس کا ایک قافلہ گزرا ، ابو سفیان نے کہا: کیا آپ لوگ میرا ایک پیغام محمد کو پہنچادیں گے ؟ میراوعدہ ہے کہ اس کے بدلے جب آپ لوگ مکہ آئیں گے تو عُکاظ کے بازار میں آپ لوگوں کو اتنی کشمش دوں گا جتنی آپ کی یہ اونٹنی اٹھا سکے گی۔
ان لوگوں نے کہا : جی ہاں !
ابو سفیان نے کہا : محمد کو یہ خبر پہنچادیں کہ ہم نے ان کی اور ان کے رفقاء کی جڑ ختم کردینے کے لیے دوبارہ پلٹ کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے بعد جب یہ قافلہ حَمراء الاسد میں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس سے گزرا تو ان سے ابو سفیان کا پیغام کہہ سنایا۔ اور کہا کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہیں۔ ان سے ڈرو ، مگر ان کی باتیں سن کر مسلمانوں کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا۔ اور انہوں نے کہا: حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے۔ (اس ایمانی قوت کی بدولت ) وہ لوگ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹے۔ انہیں کسی بُرائی نے نہ چھوا۔ اور انہوں نے اللہ کی رضامندی کی پیروی کی اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
رسول اللہﷺ اتوار کے دن حمراء الاسد تشریف لے گئے تھے۔ دوشنبہ ، منگل اور بدھ یعنی ۹/۱۰/۱۱/شوال ۳ھ کو وہیں مقیم رہے اس کے بعد مدینہ واپس آئے۔
مکے کا ایک جاسوس معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص تھا اور یہ عبد الملک بن مروان کا نانا پکڑا گیا ۔ یہ شخص اس طرح زد میں آیا کہ جب احد کے روز مشرکین واپس چلے گئے تو یہ اپنے چچیرے بھائی عثمان بن عفانؓ سے ملنے آیا۔ حضرت عثمان نے اس کے لیے رسول اللہﷺ سے امان طلب کی۔ آپ نے اس شرط پر امان د ے دی کہ اگر وہ تین روز کے بعد پایا گیا تو قتل کردیا جائے گا لیکن جب مدینہ اسلامی لشکر سے خالی ہو گیا تو یہ شخص قریش کی جاسوسی کے لیے تین دن سے زیادہ ٹھہر گیا۔ اور جب لشکر واپس آیا تو بھاگنے کی کوشش کی۔ رسول اللہﷺ نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کوحکم دیا اور انہوں نے اس شخص کا تعاقب کرکے اسے تہ تیغ کردیا۔
غزوہ احد اور غزوہ حمراء الاسد کی تفصیلات ابن ہشام ۲/۶۰ تا ۱۲۹ ، زاد المعاد ۲/۹۱ تا ۱۰۸ فتح الباری مع صحیح البخاری ۷/۳۴۵ تا ۳۷۷ مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۲۴۲ تا ۲۵۷ سے جمع کی گئی ہیں اور دوسرے مصادر کے حوالے متعلقہ مقامات ہی پر دے دیے گئے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔