Sunday, 30 August 2015

واقعہِ افق - حضرت عائشہ کی براَت میں قرآنی آیات کا نزول


اس موقع پر واقعہ ٔ افک سے متعلق جو آیات اللہ نے نازل فرمائیں وہ سورۂ نور کی دس آیات ہیں جو إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّ‌ا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِ‌ئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَ‌هُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ (۲۴: ۱۱)سے شروع ہوتی ہیں۔
حضرت عائشہؓ کو یہ امید نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں ان کی عفت کی تصدیق کرے گا اورقیامت تک اہل ایمان اس کی تلاوت کریں گے، سورہ نور کی آیات نازل ہوئیں ، آیت نمبر ۲۶ میں فرمایا گیا :
" ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں ، ناپاک مرد ناپاک عورتیں کے لئے اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیئے ہیں اورپاک مرد پاک عورتوں کے لئے ، یہ ( پاک لوگ ) ان ( بد گوئیوں) کی باتوں سے بری ہیں اور ان کے لئے بخشش اور نیک روزی ہے "
( سورہ ٔ نور:۲۶)
تہمت لگانے والوں کو یعنی مسطح بن اثاثہ ، حسانؓ بن ثابت ، حمنہ بنت جحش ؓ کو اسّی اسّی کوڑوں کی سزا دی گئی لیکن راس المنافقین عبداللہ بن اُبی کو سزا نہیں دی گئی حالانکہ تہمت لگانے والوں میں وہی سرفہرست تھا ، اسے سزا نہ دینے کی وجہ یا تو یہ تھی کہ جن لوگوں پر حدود قائم کردی جاتی ہیں وہ ان کے لئے اخروی عذاب کی تخفیف اور گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور عبداﷲ بن اُبی کو اﷲ تعالیٰ نے آخرت میں عذاب عظیم دینے کا اعلان فرمایاتھا یا پھر وہی مصلحت کارفرماتھی جس کی وجہ سے اسے قتل نہیں کیاگیا۔ (صحیح بخاری ۱/۳۶۴ ، ۲/۶۹۶ ، ۶۹۷، ۶۹۸ ، زاد المعاد۲/۱۱۳، ۱۱۴، ۱۱۵، ابن ہشام ۲/ ۲۹۷ تا ۳۰۷)
شاعر دربارِ رسول حضرت حسّان ؓ بن ثابت بھی اس فتنہ میں مبتلاء ہو گئے ؛چنانچہ وہ بھی سزا یاب ہو گئے مگر بعد میں انہوں نے حضرت عائشہؓ کی مدح میں ایک قصیدہ کہہ کر اپنا دل صاف کر لیا اور حضرت عائشہ ؓ نے بھی ان کو معاف کر دیا،ان کے قصیدہ کا ایک شعر ہے:
" وہ ایسی خاتون ہیں جو عقل و ثبات کی مالک ہیں، شک و شبہ سے ان کو متہم نہیں کیا جا سکتا، وہ عیب سے بالکل محفوظ ہیں"
حضرت عائشہ ؓ نے اس شعر کو سن کر فرمایا؛ لیکن ائے حسّان تم تو ایسے نہیں ، تم نے تو غیبت کی اور ایسی کی کہ اس جیسی نہیں ہو سکتی ، حضرت حسانؓ کو اپنی لغزش پر بے حد افسوس رہا ،
قرآنِ مجید نے اس موقع پر بہت زور بیان سے کام لیا اس لئے کہ یہ واقعہ حضرت عائشہؓ کی عصمت و عفت ہی کا نہ تھا بلکہ اس خیرالبشر کی عزت و حرمت کا تھا جو ساری دنیا کے لئے معلم اخلاق بن کر آیا تھا اور جس نے کل جہاں کو نیک عملی اور پاک بازی کے آداب سکھائے تھے۔ فرمایا گیا:
" جو لوگ یہ بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے تم اس کے لئے برا نہ سمجھوبلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے، ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصہ کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہے"
(سورۂ نور : ۱۱ )
اس کے بعد بڑے زور و شور کے ساتھ ان مسلمانوں کو جو منافقین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے تھے تنبیہ کی گئی کہ ان کو خانوادٔہ نبوت کے متعلق ایسی لغو یات زبان سے نکالنے کی جرأت کیسے ہوئی ؟ منافقین کی زبان سے ایسی بیہودہ بات سنتے ہی انہیں کہدینا چاہئیے تھا کہ ہم ان لغویات سے زبان کو گندہ نہیں کرسکتے ،یہ بہتان عظیم ہے ،
" اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے "
(سورۂ نور : ۱۲)
مسلمانوں کو اگر ان کے دل میں ایمان ہے تو آئندہ ایسی لغویات سے پوری احتیاط کرنی چاہئیے ، جو لوگ ایسی شرمناک باتوں کا چرچا کرتے ہیں وہ درد ناک عذاب سے دنیا اور آخرت میں بچ نہیں سکتے اور اگر اللہ تعالیٰ فضل و رحمت اور مہربانی و شفقت سے کام نہ لیتا تو خدا جانے کیسا عذاب نازل ہوجاتا،
فتنہ افک میں مبتلا ہونے والوں میں حضرت مسطح بن اثاثہ بھی تھے جو حضرت ابو بکرؓ کی خالہ زاد بہن کے یتیم لڑکے تھے اور حضرت ابو بکرؓ کی کفالت میں تھے ، ان کی امداد سے زندگی گذارتے تھے، اس واقعہ کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے ان کی اعانت سے ہاتھ کھینچ لیا اور قسم کھالی کہ مسطح کی مدد نہ کریں گے ، اس پر سورۂ نور کی ۲۲ ویں آیت نازل ہوئی:
" اور جو لوگ تم میں ( دینی)فضیلت والے او ر ( دنیوی) وسعت والے ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں پر کچھ خرچ نہیں کریں گے؛ بلکہ(چاہیے کہ)ان کا قصور بخش دیں اور در گزر کریں، کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ اللہ تم کو بخش دے اور اللہ بخشنے والا(اور )مہربان ہے"
( سورۂ نور: ۲۲)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعدحضرت ابو بکر ؓنے فوراً اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا اورحضرت مسطح کو پہلے سے دوگنی امدادجاری کر دی، یہ آیت حضرت ابو بکرؓ کی منقبت میں ہے ، اس میں ان کو " بڑے درجہ والا" قرار دیا گیا،قرآن مجید نے واقعہ افک کو بہتان عظیم قرار دیا ہے اس لئے اس کی تفصیل جاننے کی ضرورت نہیں ؛البتہ اس واقعہ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محض جھوٹ اور بیہودہ خبر بھی کس طرح پھیل جاتی ہے،یہ خبر در اصل منافقین نے مشہور کی تھی؛ لیکن بعض مسلمان بھی دھوکے میں آگئے جن کو تہمت لگانے کی سزا دی گئی، صحیح مسلم میں اس کا ذکر موجود ہے۔
اس طرح ایک مہینے کے بعد مدینہ کی فضا شک وشبہے اور قلق واضطرا ب کے بادلوں سے صاف ہوگئی۔ اور عبد اللہ بن ابی اس طرح رسوا ہو اکہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب وہ کوئی گڑبڑ کرتا تو خود اس کی قوم کے لوگ اسے عتاب کرتے ، اس کی گرفت کرتے اور اسے سخت سُست کہتے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر رسول اللہﷺ نے حضرت عمرؓ سے کہا : اے عمر ! کیا خیال ہے ؟ دیکھو! واللہ! اگر تم نے اس شخص کو اس دن قتل کردیا ہوتا جس دن تم نے مجھ سے اسے قتل کرنے کی بات کہی تھی تو اس پر بہت سی ناکیں پھڑک اٹھتیں ، لیکن اگر آج انہیں ناکوں کو اس کے قتل کا حکم دیا جائے تو وہ اسے قتل کردیں گے۔حضرت عمرنے کہا : واللہ! میری خوب سمجھ میں آگیا ہے کہ رسول اللہﷺ کا معاملہ میرے معاملے سے زیادہ بابرکت ہے۔( ابن ہشام ۲/۲۹۳)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔